• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فقہی تقسیم اور تناؤ

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
زمانہ خیر کے بعد فتویٰ:
دوسری صدی ہجری میں قرون اولیٰ کے اس منہج میں اہل علم کے درمیان کچھ اصولی اور عقلی بنیادوں پر اختلافات رونما ہوئے۔ اس طرح اصولی نقطہ نظر کی تبدیلی سے فقہاء کے درمیان دو گروہ ہو گئے۔

 وہ گروہ جو استنباط مسائل میں یا افتاء میں احادیث وفتاوی صحابہ ؓ کی بنیاد پر فتوی دیتا تھا اور مفروضہ مسائل میں شرعی حکم بیان کرنے سے مجتنب تھا۔ یہ محدثین کی جماعت تھی جس میں حجازی علماء وفقہاء کی غالب اکثریت تھی۔

-- دوسرے گروہ کے نمائندے فقہاء عراق تھے جن کی غالب اکثریت تھی جنہوں نے بعض قواعد بنائے اور انہی کی روشنی میں پیش آمدہ مسائل اور مستقبل میں پیش آنے والے مسائل کو مفروضی شکل میں تحریر کر دیا۔ اس کی وجہ غالبا ً یہی بیان کی جا سکتی ہے کہ اہل عراق کے ان فقہاء کے پاس صحیح احادیث کم تھیں۔ باقی موضوع احادیث کیلئے تو عراق ایک ٹکسال تھا۔ یہ فقہاء کسی بھی حدیث کو قبول کرنے میں محتاط تھے اس لئے ان کے ہاں رائے اور قیاس کا استعمال بکثرت تھا۔ جنہیں بعد میں کتب فقہ میں اور کتب فتاویٰ میں جگہ دے دی گئی۔

بعد کی نسلوں میں انہی کے متبعین اور مقلدین نے اپنے اپنے مسلک کی توجیہ وتائید میں کتب لکھیں۔ اور یوں دو انتہائیں سامنے آ گئیں۔ ایک نصوص میں اتنا منہمک ہوا کہ تفقہ نظر انداز ہو گیا اور دوسرا اصول و فروع میں اتنا گم ہوا کہ نصوص اسے نظر نہ آئیں۔ انہی میں کچھ ایسے مجتہدین بھی ظاہر ہوئے جنہوں نے نصوص اور تفقہ کو باہم ساتھ لیا اور جمود وسابقہ منہج آراء وقیاس سے آزاد ہو کر سلف صالحین کے اس منہج کو اپنایا جو اجتہادی تھا۔ انہوں نے وقت کی نبض پر ہاتھ رکھ کر اس کا علاج کیا اور بخوبی کیا۔ اس طائفہ کے سرخیل شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ ؒ تھے۔ ان کے اس طریقہء کار کا اثر مصر وشام اور دیگر بلاد عربیہ پر خاصا ہوا۔ ایسی روشن فکر نے جمود وقیاسات کی دیواریں توڑ دیں اور ہر جگہ نصوص وتفقہ سے استفادہ کا رحجان بڑھا اور بہتر نتیجہ دیکھنے میں آیا۔

خلافت عثمانیہ نے جب ۱۲۸۶ھ؁ میں مجلۃ الاحکام العدلیہ کی تدوین کی تو پہلی بار مذاہب اربعہ سے ہٹ کر بعض مسائل میں امام ابن شبرمہ کے مسلک پہ فتوی بھی دیا گیا۔ ۱۹۲۹ھ؁ اور ۱۹۳۶ھ؁ میں مصر نے بھی اسی ڈگر پہ چلنے کی کوشش کی۔ برصغیر میں بھی بڑے بڑے علماء نے اپنے اپنے مسلک سے ہٹ کر دیگر مسالک پر فتوے دیے۔ اور اس کی تائید میں کتب لکھیں۔ جن میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی شامل ہیں اوران کی اولاد وتلامذہ کی کثیر تعداد شامل ہے۔ پاکستان میں بھی بیشتر عائلی مسائل کا نفاذ انہی اجتہادی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ جن میں اکثر مستحسن ہیں اور بعض دین سے جہالت پر مبنی اور خواہشات کا پلندہ ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
افتاء کی نوعیتیں:
اسلاف میں افتاء کی نوعیتں-وقت ، زمانہ اور تحقیق کے اعتبار سے بدلتی رہیں۔ کہیں اجتہاد ہوا تو سابقہ مسائل نظر انداز کرنا پڑے۔ یا ان کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی گئی۔ کہیں دلیل ملی تو اپنی سابقہ رائے سے رجوع کرنا پڑا اور کہیں اپنے محترم استاد کی رائے سے بھی مختلف رائے اس معذرت کے ساتھ دینا پڑی کہ اگر آج میرے استاد بھی حیات ہوتے تو اس دلیل اور حجت کو پا کر اپنی رائے سے رجوع کر لیتے۔ یہ سب انداز، کتب فقہ میں اور ہم عصر فقہاء کی کتب فتاوی میں دیکھے جا سکتے ہیں۔

مگر ہمارے یہاں فتویٰ کی ایک اور قسم رائج ہو گئی ہے جو یقینی طور پر غیر شرعی ہے۔ کہ فلاں ملک اسلام دشمن ہے یا فلاں شخص فلاں دشمن کا ایجنٹ ہے اس کی مصنوعات کو خریدنا جائز نہیں وغیرہ۔ یہ دوسری قسم کا فتویٰ حقیقتاً فتویٰ نہیں وہ یک طرفہ طور پر ہدایت جاری کرنا ہے اور اس قسم کی ہدایت جاری کرنے کا اختیار ایک قائم شدہ حکومت کو ہے نہ کہ کسی مفتی کو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
فتویٰ کا دائرہ اور اس کی اہمیت:
فتوی کی ہمارے دین میں غیر معمولی اہمیت ہے۔ اس لئے کہ جس فتویٰ کو علم وصداقت سے صادر کیا جائے وہ ایک حجت ہے۔ جس کے بعد آدمی کے پاس کوئی عذر نہیں رہتا۔ مگر اسے قانوناً نافذ نہیں کیا جاسکتا۔ اس کا دائرہ انتہائی محدود ہے۔اس لئے کہ فتوی شریعت کے جزئی یا غیرمنصوص معاملے میں صرف ایک عالم کی رائے کی حیثیت رکھتا ہے۔ وہ کسی بھی حال میں قضاء کا قائم مقام نہیں بن سکتا۔ یہ دراصل دونوں جانب یعنی مفتی اور مستفتی کی خدا خوفی کا معاملہ ہے۔ خداخوفی نہ ہو تو مفتی، قاضی سے بھی زیادہ گناہ گار ہوتاہے۔ اس لئے کہ مفتی کوفی الفور جواب دیناپڑتا ہے اور قاضی کو سوچنے اورغور کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔ دوسری طرف یہ بھی ہے کہ قاضی کی بہ نسبت مفتی زیادہ سلامت رہتا ہے۔ مفتی اپنے فتوے کو لازم ونافذ تو نہیں کرتا صرف وہ سائل کا جواب دیتا ہے ۔ جو اگر چاہے تو قبول کر لے یا رد کردے۔ مگر قاضی کا فیصلہ اٹل ہوتاہے اور نافذ بھی۔ مزید یہ کہ قاضی کے حق میں جو وعید آئی ہے وہ مفتی کے حق میں نہیں۔اس لئے مفتی کو فتوی دیتے وقت قاضی بننے کی جسارت نہیں کرنی چاہئے۔

مذہبی بنیاد پر دیا جانے والا فتوی جس میں آراء و قیاس یا بزرگوں کی باتیں ہوں۔ ہمیشہ تعصب پر مبنی فتوی ہوتا ہے۔ جسے ایک معتدل آدمی ماننے سے انکاری ہوتا ہے۔ مفتی کو چائیے کہ وہ فتویٰ دیتے وقت سائل کے مسئلے کو سمجھے اور اپنے مسلکی خول سے باہر آ کر دیگر فقہاء کرام ؒ کی آراء سے بھی سائل کو آگاہ کرے۔ اور پھر بعد میں جو حق کے قریب بات ہو اس کی روشنی میں جواب دے۔ہمارے ایک معاصر دانش ور نے کتنا صاف ستھرا تجزیہ کیا ہے ان کا کہنا ہے:

یاد رکھئے! فتوی شریعت کی عملی صورت نہیں وہ کسی جزئی معاملہ میں ایک عالم کی رائے تو ہو سکتی ہے جو صحیح بھی ہو سکتی ہے اور غلط بھی۔ شریعت مقدس ہے مگر فتوی مقدس نہیں خواہ وہ کتنے ہی بڑے عالم کا فتوی ہی کیوں نہ ہو۔نیز ایسے مفتی کو ہمیشہ امام شافعی ؒ کا یہ قول یاد رکھنا چاہئے کہ ہماری رائے درست ہے احتمال خطاء کے ساتھ اور دوسروں کی رائے خطا ہے احتمال صحت کے ساتھ۔مثال کے طور پر امام ابوحنیفہؒ نے فتوی دیا کہ ایک غیر عربی داں ایرانی نو مسلم نماز میں سورہ فاتحہ فارسی زبان میں پڑھ سکتا ہے صاحبین(قاضی ابویوسف اور امام محمد) نے اس سے اختلاف کیا بعد کو امام ابوحنیفہؒ نے اپنے قول سے رجوع کرلیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ فتوی اپنے آخری درجہ تک پہنچ کر بھی صرف ایک انسانی رائے ہے۔ وہ کسی بھی درجہ میں مقدس شریعت کا کوئی لازمی حصہ نہیں۔ شریعت کی حقانیت کو جانچنے کا معیار اللہ ورسول کا کلام ہے۔ کوئی انسانی کلام اس کا معیار نہیں بن سکتا، کیونکہ انسان کا کلام ایک اضافی کلام ہے وہ غلط بھی ہو سکتا ہے اور درست بھی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
فتاویٰ کی تاریخی اہمیت :
گو کتب فتاوی، فقہاء کے ہاں تیسرے درجے کی کتب شمار ہوتی ہیں۔مگر ان فتاوی کی بلاشبہ اہمیت غیر معمولی ہے۔ مثلاً:

-- ماضی کے مختلف ادوار میں مسلمانوں کے سماجی ، سیاسی ،تمدنی اور فکری حالات کا علم ہوتاہے۔

-- فتاویٰ بتاتے ہیں کہ مسلمانوں کو کب اور کیسی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور فقہاء وقت کا موقف کیا رہا۔

-- ہر زمانہ و علاقے کے رسم ورواج اور مروجہ بدعات و خرافات کی تصویر بھی ان کتابوں سے نظر آتی ہے۔

-- علماء کے فتاویٰ پر عوام کا رد عمل کیا ہوتا تھا۔

-- مفتیان کرام کی سلاطین وامراء اور طلبہ وعوام سے تعلقات کیسے تھے۔

-- ہر زمانے میں کن علماء کو فتویٰ نویسی یا افتاء کے مناصب ملے یا شہرت نصیب ہوئی۔

-- ان کے علم وفہم اور بصیرت کا کیا حال تھا۔

اسی طرح دیگر اہم باتیں جو تذکرہ نگاری اور سوانحی خاکوں کی مدد گار ہو سکتی ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
آج کے فتاویٰ:
ہمارے یہاں ہر مسلک کے فتاوی میں مسلکی چھاپ نمایاں ہوتی ہے۔ اور اسی نقطہ نظر کی تائید کیلئے اپنے مسلک کی فقہی کتب سے اقتباسات ماخوذ ہوتے ہیں۔ کہیں کہیں مسئلے کی مختلف صورتیں اور ان کے مختلف جوابات تحریر کئے جاتے ہیں۔ اور بعض فتاوی میں جواب کی علت بتانے کے لئے قیاس اور عقلی توجیہات کا سہارا بھی لیاجا تا ہے۔ مگر عموما ًکتاب وسنت سے نصوص پیش کرنے کا اہتمام کم ہی ہوتا ہے۔ اگر کہیں احادیث کا ذکر ہوتابھی ہے تو:

اولاً: ان میں صحیح، ضعیف اورمرفوع وموقوف کے درمیان کوئی تمیز نہیں ہوتی۔

ثانیاً: صحیح حدیث اگر ہو بھی سہی تو اس کا استدلال غیر محل میں ہوتا ہے۔

ثالثاً: سارا زور مذہب کے مطابق مسائل کی تخریج یا اپنے مسلک کے مختلف علماء کے متعارض اقوال کے درمیان تطبیق وترجیح میں صرف ہوتا ہے۔ حالانکہ ان اقوال میں باہم اتنا اختلاف ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔

رابعاً: دوسرے مذاہب کے علماء کے اقوال دلیل کے بغیر درج کر دیے جاتے ہیں۔ ان پر تسلی تب ہوتی ہے جب ان مآخذ کی طرف رجوع کر لیا جائے۔

ایسے فتوے عموماً مذہبی بنیادوں پر دیے جاتے ہیں۔ یہ تو ممکن ہے کہ اپنے مذہب کا آدمی اسے قبول کر لے مگر یہ اپنی افادیت کھو بیٹھتے ہیں۔ تفریق بین المسلمین کا سبب بھی بنتے ہیں۔ مفتی کارعب ودبدبہ بھی فروعی مسائل میں پڑ کے جاتا رہتا ہے۔ایسے فتویٰ کی حیثیت کیاباقی رہ جاتی ہے وہ عوام کی توجہ یا عدم توجہ پریا ردعمل پر مبنی نتیجہ ہوتاہے۔ جسے مفتی حضرات خود جان لیتے ہیں۔ اس لئے خواہ کسی کی رائے سے بھی ہو، اور اس میں مذہبی عصبیت کا عنصر بھی ہو ایسا فتوی بالکل نہ دیا جائے ورنہ وہ ایک مذموم کوشش ہوگی۔ ہاں مفتی اگر بے بس ہو جائے تو بوقت ضرورت اجتہاد کر کے رائے سے کام نکال لے۔ لیکن کسی کو یہ مت کہے کہ اس کا ماننا لازم ہے اور نہ ہی اس پر عمل ضروری بتائے۔ حضرت عمر ؓ نے قاضی شریح کو یہ لکھا:
جب کوئی مسئلہ آپ کتاب اللہ میں پالیں تو اسی کے مطابق فیصلہ دیجئے۔دوسری طرف توجہ ہی نہ کیجئے۔ پھر سنت کو ٹٹولیے ان دونوں میں نہ ملے تو جہاں صحابہ ؓ اجماع کریں اس سے فیصلہ کیجئے۔ اور اگر اتفاق سے ایسا مسئلہ سامنے آ جائے جس کا ذکر نہ قرآن میں ہو اورنہ ہی حدیث میں اور نہ ہی آپ سے پہلے کسی نے اس مسئلہ میں گفتگو کی ہو۔ اس صورت میں اگر آپ چاہیں تو اپنی رائے سے اجتہاد کر لیجئے اور اگر توقف کر سکیں تو ضرور کیجئے۔ میرے نزدیک آپ کا پیچھے ہٹ جانا بہ نسبت آگے بڑھنے اور اجتہاد و رائے دینے کے زیادہ بہتر ہے۔

امام احمدؒ نے امام شافعی ؒ سے سوال کیا کہ رائے وقیاس کی بنا پر کچھ کہنا کہاں تک جائز ہے؟۔ انہوں نے جواب میں کہا: بوقت ضرورت ، بقدر ضرورت ، نہ زائد اور نہ ہی اسے شاخ در شاخ لے جانا جائز، نہ اسے پھیلانا جائز اور نہ اسے بڑھانا جائز۔ یہی سلف کا طریقہ رہا۔ (اعلام الموقعین-ص ۶۲)
سائل کو بھی علماء نے یہ نصیحت کی ہے کہ وہ مفتی سے سوال کرتے وقت کچھ معیارات ضرور قائم کرے۔ مثلا: مسئلہ پوچھنے والا اپنے عالم سے گزارش کرے کہ براہ مہربانی مجھے اس مسئلے کا جواب قرآن وسنت کی رو سے دیا جائے اور دوسرے ائمہ حضرات کی رائے سے بھی مطلع فرمائیں تاکہ میں اپنی سہولت کے مطابق جس کی رائے پر چاہوں عمل کر سکوں۔ علماء کو بھی چاہیے کہ وہ دیانتداری سے سب کی آراء پوچھنے والے کو بتا دیں۔ اس طرح وہ خود بھی خطأ کے احتمال سے محفوظ رہیں گے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
مفتی بدلتا رہے:
شرعی مسائل کی صحیح معلومات کے لئے اور دوسرے علماء و فقہاء کے علم سے مستفید ہونے کے لئے سائل ضرور اپنے مسئلے کے بارے میں دو تین مفتی حضرات کی رائے لے لے۔ تا کہ کسی کے محدود علم میں خود محدود نہ ہو جائے۔ پہلے لوگ مفتی کیا مجتہد بھی بدل دیا کرتے تھے۔ صحابہ کرام ؓ ہوں یا بعد کے اسلاف ان کی اکثریت متفق تھی کہ اگر فقہاء وعلماء موجود ہوں تو کسی سے بھی فتوی لیا جا سکتا ہے۔ شرح مسلم الثبوت:۶۳میں ہے:
اَْجْمَعَ الصَّحَابَۃُ عَلَی أَنَّ مَنِ اسْتَفْتٰی أَبَا بَکْرٍ وَعُمَرَ أَمِیرَیِ الْمُؤمِنِینَ فَلَہُ أَنْ یَسْتَفْتِیَ أَبَا ہُرَیْرَۃَ وَمُعَاذَبْنَ جَبَلٍ وَغَیرَہُمَاوَیَعْمَلَ بِقَوْلِہِمْ مِنْ غَیرِ نَکٍیرٍ۔

یہ اجماع صحابہ ہے کہ کوئی اگر حضرات ابو بکر وعمر جو اہل ایمان کے امیر ہیں۔ ان سے فتوی پوچھے تووہ حضرت ابوہریرۃ اور حضرت معاذ بن جبل اور ان کے سوا دوسروں سے فتویٰ پوچھ کر بھی بغیر کسی ملامت کے عمل کر سکتا ہے۔

شاہ ولی اللہ دہلوی ؒ فرماتے ہیں:
قاَلَ ابْنُ الْہُمَامِ فِي آخِرِ التَّحْرِیرِ: کَانُوا یَسْتَفْتُونَ مَرَّۃً وَاحِدًا وَمَرَّۃً غَیرَہُ، غَیرَ مُلْتَزِ مِینَ مُفْتِیاًوَاحِداً۔ابن الہمام -التحریر-
کے آخر میں لکھتے ہیں: لوگ کبھی کسی سے فتویٰ پوچھتے تھے اور کبھی کسی سے ۔ کسی ایک مفتی کا التزام نہیں تھا بلکہ بدلتے رہتے تھے۔

احناف میں بھی قدرے اس پر عمل ہے۔ ردالمختار میں لکھا ہے: عبادات میں فتویٰ ہمیشہ امام ابو حنیفہ ؒ کے قول پر ہو گا۔ مسائل ذوی الارحام میں امام محمد ؒ کے قول پر اور مسائل وقف، قضاء اور شہادات میں امام ابو یوسف ؒ کے قول پر اور سترہ مسئلوں میں امام زفر ؒ کے قول پر فتوی ہو گا۔ مگر امام صباغی ؒ حنفی اس کے خلاف ہیں۔ وہ نماز میں امام ابو حنیفہ ؒ کے قول پر فتویٰ دیا کرتے ، باقی مسائل خواہ عبادات ہوں یا غیر عبادات سب میں امام ابویوسف ؒ اور امام محمد ؒ کے قول پرفتویٰ دیا کرتے تھے۔ (روالمختار-جلد ۱/۵۳، ۱۶۱جلد ۳/۴۰۵)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
غلط فتویٰ کی سنگینی:
مفتی -فتوی دینے سے قبل جانبین کے حالات کا بھی اچھی طرح جائزہ لے۔ محض سائل کے سوال پر اکتفاء کر کے فتوی دینے کا شوق پورا نہ کرے۔ کیونکہ شنیدہ کے بود مانند دیدہ والی بات ہی کچھ اور ہے۔ اس میں مفتی کا بھی شرح صدر ہوتا ہے اور فریق ثانی بھی مفتی کے مقام او رتقدس کا احترام کرتا ہے۔ ورنہ مفتی حضرات کی سادگی فریق ثانی پر جب نمایاں ہوتی ہے تو مقام واحترام تو کجا لوگ دین کو اور اہل دین کو برا بھلا کہنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس لئے یہ اسلام کا طریقہ نہیں کہ کوئی شخص محض کسی کی مخالفت میں ذہن میں کوئی بات لائے۔ اس کو سوال بنائے یا اس قسم کا ایک مضمون استفتاء کیلئے بنائے کہ:

فلاں دار العلوم یا مثلاً الہدیٰ میں پڑھنا ، یا ان سے مالی تعاون کرنا جائز ہے یا ناجائز ۔ اور پھر مفتی صاحبان اس پر الجواب صحیح کی مہر کے ساتھ تفصیلی جواب دینا شروع کر دیں۔اور جسے چاہیں چھری سے ذبح کرنا شروع کردیں۔عموما ًایسے فتووں میں مصیطربننے کی کوشش کی جاتی ہے جو انتہائی نامناسب ہے۔اولا تو اس قسم کا سوال پوچھنا بھی اسلامی روح کے خلاف ہے اور اس کا جواب دینا بھی اسلامی روح کے خلاف ۔ صحابہ وتابعین کی مثال بتاتی ہے کہ وہ حاکمانہ ہدایات کبھی جاری نہیں کرتے تھے۔ اس کی بجائے وہ دعوت وتبلیغ کا کام کرتے تھے مثلاً لوگ اگر سنت رسول کو چھوڑ رہے ہوں یا خواتین کوبے حجاب کیا جارہا ہو یا انہیں فحاشی میں مبتلا کرنے کی کوشش ہو رہی ہو تو صحابہ وتابعین کی سنت کے مطابق، ایسے لوگوں میں دعوت وتبلیغ کا کام کرنا چاہئے نہ کہ بائیکاٹ کا فتوی صادر کرناچاہئے۔ نتیجہ کے اعتبار سے اس قسم کا فتوی سراسر لاحاصل ہے۔ انسان کی اصلاح قلب وذہن کے بدلنے سے ہوتی ہے نہ کہ فتاویٰ جاری کرنے سے۔ اسی طرح دیگر غلط فتوے جو حقائق کو چھپا کر یا تلبیس کے ساتھ دیئے جاتے ہیں ان سے بھی مفتی باز رہے۔سنن أبی داؤد میں ہے۔
مَنْ قَالَ عَلَیَّ مَالَمْ أَقُلْہُ قَلْیَتَبَوّأ مَقْعَدَہُ مِنَ النَّارِ}
دو شخص میرے نام سے وہ بات کہے جو میں نے کہی نہیں وہ اپنا ٹھکانہ جہنم بنا لے۔

لاعلمی پر فتویٰ دینا ایک سنگین گناہ ہے ۔علم کے ہوتے ہوئے غلط فتویٰ دینا اس سے بھی زیادہ بڑا گناہ ہے۔ اگر کوئی اپنے مسلمان بھائی کا بھلا کسی اور چیز میں دیکھتا ہے مگر اسے غلط اور الٹا مشورہ دیتا ہے تو یہ بہت بڑی بددیانتی ہے۔ اس لئے جتنا خطرہ مفتی کو اس سلسلے میں ہوتا ہے قاضی کو بھی ہو سکتاہے۔ مگر مفتی کے فتوی کی سنگینی اس اعتبار سے بڑھ جاتی ہے۔ کہ اس فتوی کا مستفتی-اور عوام دونوں پر اثر ہوتاہے۔ جس پر وہ کسی بھی وقت عمل کر سکتے ہیں۔ لہٰذا جس طرح صحیح فتوے کا اجراء ثواب میں بہت بڑا اجر رکھتا ہے اسی طرح غلط فتوے کا اجراء گناہ اور برے نتائج میں بھی بڑا گہرا اثر رکھتا ہے۔فتوؤں میں بغیر علم کے زبان کھولنا قرآنی آیات کی رو سے تمام حرام کاموں میں سب سے بڑھ کر حرام کام ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
{قل انماحرم ربي الفواحش ماظہرمنہا۔۔۔۔۔وأن تقولوا علی اللہ مالا تعلمون}
کہہ دیجئے بلاشبہ میرے رب نے تمام ظاہری اور باطنی فحش کو حرام قرار دیا ہے...اور یہ بھی کہ اللہ پر وہ باتیں چھانٹی جائیں جو تم نہیں جانتے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
اس باب میں حرمتوں کی ترتیب درج ذیل ہے۔

فحش کام حرام ہیں ۔ (سب سے ہلکا گناہ)

گناہ اور ظلم کرنا۔ (ذرا بڑا گناہ)

اللہ کے ساتھ شرک کرنا۔( اس سے بڑا گناہ)

اللہ کا نام لے کر وہ بات کہنا جس کا علم نہ ہو۔ (سب سے بڑا گناہ)

خواہ وہ بات اللہ کے نام یا صفات سے متعلق ہو یا اس کے کام سے۔ یا اس کے دین اور اس کی شریعت کے کسی بھی معاملے میں وہ بات ہو، سب سے بڑا جرم ہے اور سب کو شامل ہے۔ایک اور آیت میں ارشاد فرمایا:
{ولاتقولوا لما تصف السنتکم الکذب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔}
اپنی زبان سے جھوٹ موٹ اللہ پر بہتان باندھ کر نہ کہہ دیا کرو کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے۔
یاد رکھو! اللہ پر جھوٹ باندھنے والے نجات سے محروم رہتے ہیں۔

یہ وعید ہے ان حضرات کے لئے جو اللہ کے احکام میں جھوٹ اور غلط بات شامل کر دیتے ہیں۔ یا خود سے غلط تاویلات کر کے اللہ کی طرف منسوب کر دیتے ہیں۔ مراد یہ ہے کہ آدمی کو اللہ کے حرام و حلال کا علم نہ ہو تو اسے کسی بھی صورت میں کسی چیز کو حلال یا حرام نہیں کہنا چاہئے۔ یہ کلمات کہ: اسے اللہ نے حرام کیا ہے یا یہ شریعت میں حلال ہے۔وغیرہ۔ کہنے سے حتی الامکان اجتناب کرنا چاہئے ورنہ ایسا آدمی اللہ کی نظر میں جھوٹا اور ظالم ہے۔ چونکہ تقویٰ، احساس ذمہ داری، محتاط گفتگو، عدم تعصب، علم وبصیرت جیسی صفات ہمارے مفتیان اسلاف میں بدرجہ اتم موجود تھیں۔ اس لئے پہلے مفتیان کرام میں او رآج کے مفتیوں میں بڑا فرق ہے۔ جو فضیلت اسلاف کو حاصل تھی اس سے آج کے مفتی محروم ہیں۔إلَّا مَاشَاء اللّٰہُ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
اختلاف اقوال اور فتویٰ :
اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کہ مسلم علماء و فقہاء کے ہاں ہر دور میں اجتہاد ہوا ہے۔ ان اجتہادی کوششوں میں آپس میں اختلاف بھی پایا جاتا ہے۔ بعد کے ادوار میں بھی ایسا ہو رہا ہے۔اس لئے فتویٰ دینے میں فقہاء کے مختلف اقوال و اجتہادات مفتی کے سامنے آجائیں تو ایسی صورت میں مفتی کو کیا کرنا چائیے؟ مولانا عبد الحی لکھنوی ؐ امام الکلام میں فرماتے ہیں:
{مَنْ نَظَرَ بِنَظَرِ الاِنْصَافِ وَغَاصَ فِي بِحَارِ الْفِقْہِ وَالأصولِ مُتَجَنِّبًاً عَن الاعْتِسافِ، یَعلمُ عِلماً یقینیا أن أکثرَ المسائلِ الفرعیۃِ والأصلیۃِ التی اختلَف العلماء ُفیہا۔ فَمذہبُ المحدثینَ فِیہا أقوٰی مِن مذاہبِ غیرِہِم وإنِّي کُلَّمَا أَسِیرُ فِي شُعَبِ الاختلافِ أجِدُ قَولَ المحدثین فیہِ قَریباً مِن الانصافِ ، فللّٰہِ دَرُّہُم عَلیہ شُکرُہُم۔ کیف لا! وَہُم وَرَثَۃُ النبيِّ ﷺ ونُوَّابُ شریعتِہِ صِدْقاً، حَشَرَنَا اللّٰہُ فِي زُمْرَتِہِم، وَأمَاتَنَا عَلَی حُبِّہِمْ وَسِیْرَتِہِمْ}
جو نظر انصاف رکھتا ہے اور کتب فقہ و اصول کے سمندروں میں غوطہ زن ہوتا ہے وہ یقینا جان لے گا کہ بیشتر فروعی و اصولی مسائل میں علماء کا احتلاف ہے۔ لہٰذا محدثین کرام کا نکتہ نظر ہی اوروں کے نقطئہ نظر سے قوی تر ہوتاہے۔ میں جب بھی اختلافی مسائل سے گزرتا ہوں تو مجھے محدثین کا فیصلہ ہی انصاف کے قریب ترین نظر آتا ہے۔ بخدا ان کا کیا کہنا ، اللہ ہی ان کو جزا دے گا۔ وہ کیوں نہ دے یہی تو سچے وارث نبی ہیں اور شریعت کے کھرے نمائندے۔ اللہ ہمارا حشر ان کے ساتھ کرے اور ان کی محبت وسیرت پر ہی ہمیں دنیا سے اٹھائے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
آخری گذارش

ہمارے علماء ودانش ور حضرات بخوبی جانتے ہیں کہ صراط مستقیم وہی ہے جس پر جناب رسالت مآب ﷺ چلے۔
{ وأن ہذا صراطی مستقیما فاتبعوہ ولا تتبعوا السبل فتفرق بکم عن سبیلہ، ذلکم وصیکم بہ لعلکم تتقون}۔ (الأنعام: ۱۵۳)
نیز اس کی یہ بھی ہدایت ہے کہ یہی میرا سیدھا راستہ ہے لہٰذا تم اسی پر چلو اور دوسرے راستوں پر مت چلو کہیں وہ تمہیں اس کی راہ سے بھٹکا نہ دیں۔

آپ ﷺ ہی اللہ کے پیامبر، اس کے احکام کے شارح، اسی کی شریعت کے حامل اور اس کے محرم راز و مفسر تھے تو کیا یہی کافی نہیں کہ تمام راہوں کو چھوڑ کر آپﷺ ہی کا بتایا ہوا صراط مستقیم ہی اپنا لیا جائے جس میں کوئی پیچ وخم نہیں اور جس میں کوئی کمی نہیں جب کہ دوسرے راستے اختیار کرنے سے منع فرمایا جن میں پڑنے سے آدمی بھٹک جاتا ہے ، ہدایت گم ہو جاتی ہے۔اب سوال یہ ہے کہ ہم نے جناب سیدنا علیؓ ، امام ابو حنیفہؒ، بریلی اور دیوبند وغیرہ مقامات و شخصیات کے نام سے جو فرقے اور مسلک ایجاد کئے ہیں ان کا جواز کیا ہے؟۔ کون سی ایسی ضرورت پڑگئی کہ ایسے مسالک کا ایجاد کرنا امت کیلئے ناگزیر ہوگیا؟ آیات واحادیث اور ائمہ کرام کے بے شمار اقوال وغیرہ تو ان فرقوں کی تردید میں مل جاتے ہیں مگر ان کا جواز آخر کہاں سے لیا گیا؟ مزیدیہ چند باتیں بھی قابل غور ہیں:

٭… کیا ہماری اس محبت و عقیدت کا یہ غلو کہیں لوگوں کی نظر میں دیگر غیر معصوموں کو معصوم تو نہ بنا دے گا۔کہ وہ غیر نبی کو معصوم قرار دے کر اسے بھی نبی بنا لیںـ یا نبی کا درجہ دے بیٹھیں۔

٭… کیا ہم نے یہ سوچا کہ ان شخصیات کو معصومیت کا درجہ دے کر کہیں انہیں رسول اکرم ﷺکے مقابل تو کھڑا نہیں کردیا ؟ اگرانہیں معصومیت کا مقام ہی دینا ہے تو پھر مرزا غلام احمد قادیانی کذاب کے دعوے کو اور اس کے چیلوں کو اور اباحیت و تجدد کی آڑ میں قرآن مجید کی من مانی تاویل کرنے والوں کو اور رسولِ اکرم ﷺکی احادیثِ پاک کے منکروں کو اورآپؐ کی سیرت سے نفرت کرنے والوں کو ہم کیوں کافر قرار دے رہے ہیں اورانہیں کیا دلائل فراہم کر رہے ہیں؟

٭…ہم نے غور کیا: کہ ایک فرقہ سے نکلنے والے کئی فرقے، ان کے منتشر افکار اور ایک دوسرے کے خلاف تکفیری فتوے، کیا یہ سب کچھ رحمت ہے یا زحمت؟

٭… ہم نے سوچا کہ یہ قرآن مجید کا ہمارے لئے پہلا اور زندگی کا آخری درس ہے:کہ
{وَلَا تَمُوْتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُوْنَ}
نہ تم مرو مگر مسلم ہوکر۔(آل عمران: ۱۰۲)

یہ کہاں کہا ہے کہ:
’’ولا تموتن إلا وأنتم حنفیون‘‘
نہ تم مرو مگر حنفی بن کر۔
’’ولا تموتن إلا وأنتم جعفریون‘‘
نہ تم مرو مگر جعفری بن کر۔

’’ولا تموتن إلا وأنتم دیوبندیون‘‘
نہ تم مرو مگر دیوبندی بن کر۔

’’ولا تموتن إلا وأنتم وہابیون‘‘
نہ تم مرو مگر وہابی بن کر۔

’’ولا تموتن إلا وأنتم بریلویون‘‘
نہ تم مرو مگر بریلوی بن کر۔

’’ولا تموتن إلا وأنتم شیعیون‘‘
نہ تم مرو مگر شیعہ بن کر۔

’’ولا تموتن إلا وأنتم نقشبندیون‘‘
نہ تم مرو مگر نقشبندی بن کر۔ وغیرہ

ہماری اہل درد سے ہمدردانہ درخواست ہے کہ ان فرقوں اور ناموں کو خیر باد کہنے کی قربانی دیں۔ جس کی اﷲ کے نزدیک بہت بڑی قیمت ہے۔ اور یہی وقت ہے قربانی دینے کا، تاکہ تھکی ماندی، اور شکست خوردہ امت کو مزید انتشار سے بچایا جا سکے اور دشمن کا تر نوالہ بننے سے مسلمان محفوظ ہوں۔ اسلئے کہ ربِ ذوالجلال کی عدالت میں معاملہ بڑا سخت ہے۔اگر وہاں یہ پوچھ لیا گیا کہ میرے رسولﷺ نے دین کیا دیا تھا اور اُمتیوں نے اس کے حصے بخرے کر کے اسے کیا بنا دیا۔ آخر کیا جواب ہو گا ہمارے پاس؟
 
Top