آخری گذارش
ہمارے علماء ودانش ور حضرات بخوبی جانتے ہیں کہ صراط مستقیم وہی ہے جس پر جناب رسالت مآب ﷺ چلے۔
{ وأن ہذا صراطی مستقیما فاتبعوہ ولا تتبعوا السبل فتفرق بکم عن سبیلہ، ذلکم وصیکم بہ لعلکم تتقون}۔ (الأنعام: ۱۵۳) نیز اس کی یہ بھی ہدایت ہے کہ یہی میرا سیدھا راستہ ہے لہٰذا تم اسی پر چلو اور دوسرے راستوں پر مت چلو کہیں وہ تمہیں اس کی راہ سے بھٹکا نہ دیں۔
آپ ﷺ ہی اللہ کے پیامبر، اس کے احکام کے شارح، اسی کی شریعت کے حامل اور اس کے محرم راز و مفسر تھے تو کیا یہی کافی نہیں کہ تمام راہوں کو چھوڑ کر آپﷺ ہی کا بتایا ہوا صراط مستقیم ہی اپنا لیا جائے جس میں کوئی پیچ وخم نہیں اور جس میں کوئی کمی نہیں جب کہ دوسرے راستے اختیار کرنے سے منع فرمایا جن میں پڑنے سے آدمی بھٹک جاتا ہے ، ہدایت گم ہو جاتی ہے۔اب سوال یہ ہے کہ ہم نے جناب سیدنا علیؓ ، امام ابو حنیفہؒ، بریلی اور دیوبند وغیرہ مقامات و شخصیات کے نام سے جو فرقے اور مسلک ایجاد کئے ہیں ان کا جواز کیا ہے؟۔ کون سی ایسی ضرورت پڑگئی کہ ایسے مسالک کا ایجاد کرنا امت کیلئے ناگزیر ہوگیا؟ آیات واحادیث اور ائمہ کرام کے بے شمار اقوال وغیرہ تو ان فرقوں کی تردید میں مل جاتے ہیں مگر ان کا جواز آخر کہاں سے لیا گیا؟ مزیدیہ چند باتیں بھی قابل غور ہیں:
٭… کیا ہماری اس محبت و عقیدت کا یہ غلو کہیںلوگوں کی نظر میں دیگر غیر معصوموں کو معصوم تو نہ بنا دے گا۔کہ وہ غیر نبی کو معصوم قرار دے کر اسے بھی نبی بنا لیںـ یا نبی کا درجہ دے بیٹھیں۔
٭… کیا ہم نے یہ سوچا کہ ان شخصیات کو معصومیت کا درجہ دے کر کہیں انہیں رسول اکرم ﷺکے مقابل تو کھڑا نہیں کردیا ؟ اگرانہیں معصومیت کا مقام ہی دینا ہے تو پھر مرزا غلام احمد قادیانی کذاب کے دعوے کو اور اس کے چیلوں کو اور اباحیت و تجدد کی آڑ میں قرآن مجید کی من مانی تاویل کرنے والوں کو اور رسولِ اکرم ﷺکی احادیثِ پاک کے منکروں کو اورآپؐ کی سیرت سے نفرت کرنے والوں کو ہم کیوں کافر قرار دے رہے ہیں اورانہیںکیا دلائل فراہم کر رہے ہیں؟
٭…ہم نے غور کیا: کہ ایک فرقہ سے نکلنے والے کئی فرقے، ان کے منتشر افکار اور ایک دوسرے کے خلاف تکفیری فتوے، کیا یہ سب کچھ رحمت ہے یا زحمت؟
٭… ہم نے سوچا کہ یہ قرآن مجید کا ہمارے لئے پہلا اور زندگی کا آخری درس ہے:کہ
{وَلَا تَمُوْتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُوْنَ¡} نہ تم مرو مگر مسلم ہوکر۔(آل عمران: ۱۰۲)
یہ کہاں کہا ہے کہ:
’’ولا تموتن إلا وأنتم حنفیون‘‘ نہ تم مرو مگر حنفی بن کر۔
’’ولا تموتن إلا وأنتم جعفریون‘‘ نہ تم مرو مگر جعفری بن کر۔
’’ولا تموتن إلا وأنتم دیوبندیون‘‘ نہ تم مرو مگر دیوبندی بن کر۔
’’ولا تموتن إلا وأنتم وہابیون‘‘ نہ تم مرو مگر وہابی بن کر۔
’’ولا تموتن إلا وأنتم بریلویون‘‘ نہ تم مرو مگر بریلوی بن کر۔
’’ولا تموتن إلا وأنتم شیعیون‘‘ نہ تم مرو مگر شیعہ بن کر۔
’’ولا تموتن إلا وأنتم نقشبندیون‘‘ نہ تم مرو مگر نقشبندی بن کر۔ وغیرہ
ہماری اہل درد سے ہمدردانہ درخواست ہے کہ ان فرقوں اور ناموں کو خیر باد کہنے کی قربانی دیں۔ جس کی اﷲ کے نزدیک بہت بڑی قیمت ہے۔ اور یہی وقت ہے قربانی دینے کا، تاکہ تھکی ماندی، اور شکست خوردہ امت کو مزید انتشار سے بچایا جا سکے اور دشمن کا تر نوالہ بننے سے مسلمان محفوظ ہوں۔ اسلئے کہ ربِ ذوالجلال کی عدالت میں معاملہ بڑا سخت ہے۔اگر وہاں یہ پوچھ لیا گیا کہ میرے رسولﷺ نے دین کیا دیا تھا اور اُمتیوں نے اس کے حصے بخرے کر کے اسے کیا بنا دیا۔ آخر کیا جواب ہو گا ہمارے پاس؟
٭۔ نیز قرآن کی اس آیت کو ہم
{واعتصموا بحبل اللہ جمیعا ولا تفرقوا }کے سیاق (Context) میں ضرور پڑھیں اور سوچیں کہ جو مسلم اتفاق و اتحاد کو پارہ پارہ کرکے مختلف گروہوں میں بٹ کر جینا چاہتے ہیں روز قیامت ان کا کیا حشر ہو گا۔ آئیے! غور کریں کہ ایسی صورت میں ہم اللہ کی نظر میں کیا ہیں؟ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{ یَوْمَ تَبْیَضُّ وُجُوہٌ وَتَسْوَدُّ وُجُوہٌ فَأمَّا الَّذِیْنَ اسْوَدَّتْ وُجُوْہُہُمْ أَکَفَرْتُمْ بَعْدَ اِیْمَانِکُمْ فَذُوْقُوا الْعَذَابَ بِمَا کُنْتُمْ تَکْفُرُوْنَ¢}( آل عمران:۱۰۶) جس دن کچھ چہرے سفید ہونگے اور کچھ کالے ۔ رہے وہ جن کے چہرے کالے ہونگے (انہیں کہا جائیگا) کیا تم نے ایمان لانے کے بعد کفر کیا تھا۔ لہٰذا اپنے کفر کی پاداش میں اس عذاب کوچکھو۔
سوچئے کیا عذر ہوگا ہمارے پاس اس کفر کا؟
٭۔ اسی طرح ایک مسلمان جب مرتا ہے تو بمصداق حدیث رسول ﷺ اس سے قبر میں منکر نکیر (دو فرشتے) تین سوالات کرتے ہیں جن میں ایک سوال یہ بھی ہے :
مَا دِیْنُکَ؟ تیرا دین کیا ہے؟
اگر مرنے والے کا جواب ’’دینی الإسلام‘‘ میرا دین اسلام ہے۔ تو اس کی نجات ممکن ہے۔اور اگر اس کا جواب یہ ہے کہ میرا دین شیعہ ہے، حنفی ہے، وہابی ہے یا دیو بندی، بریلوی و اہل حدیث ہے یانقشبندی ، تو تمام ائمہ اسلام کا اتفاق ہے کہ اس کی نجات نہیں ہو گی۔