کیا لونڈی کا ستر ناف سے گھٹنوں تک ہے ؟
( پانچویں اور چھٹی دلیل کا جواب)
تحریر از خاور نعیم
پانچویں دلیل؛عن بن عمر : أنه كان إذا اشترى جارية كشف عن ساقها ووضع يده بين ثدييها وعلى عجزها وكأنه كان يضعها عليها من وراء الثوب
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ جب کوئی باندی خریدتے تو اس کی پنڈلی سے کپڑا ہٹا لیتے۔اور اپنا ہاتھ اس کی چھاتیوں کے درمیان اور کولہوں پر رکھتے۔(راوی کے مطابق) کپڑے کے اوپر سے ہاتھ لگاتے تھے۔ (سنن الکبری للبیہقی 10570)۔
اس روایت کو احکامِ ستر کیلئے پیش کرنا درست نہیں کیونکہ کولہے ستر میں شمار ہوتے ہیں اور ہر عام آدمی کیلئے یہاں ہاتھ لگانا جمہور کے نزدیک بھی جائز نہیں۔ اس کا تعلق لونڈیوں کے متعلقہ احکامِ تجارت سے ہے۔ امام بیہقیؒ نے اس پر
"باب الرجل يريد شراء جارية فينظر إلى ما ليس منها بعورة" کا باب باندھا ہے۔ اسی طرح امام عبد الرزاق بن ہمامؒ نے ان روایات کو
"باب الرجل يكشف الأمة حين يشتريها" کے تحت نقل کیا ہے۔مگر اس پر وارد شدہ اعتراضات کا جائزہ ہم لے لیتے ہیں؛
اس روایت پر مندرجہ ذیل اعتراضات ہو سکتے ہیں؛
1۔ عورت کا بازاروں میں بکنا، انسانیت کی تذلیل ہے۔
2۔ عورت کے جسم کو دیکھنا اور اس کے نسوانی اعضاء کو چھو کر چیک کرنا غیر اخلاقی حرکت ہے۔
3۔ ہماری ماؤں بہنوں کے ساتھ کوئی ایسا کرے تو کیسا لگے گا؟
اول یہ کہ صرف عورتیں ہی نہیں، مرد غلام بھی بکتے تھے اور یہ مملوکہ اشیاء میں شمار ہوتے تھے۔ اگر کوئی غلاموں کی خریدو فروخت پر معترض ہے تو یہ ایک الگ موضوع ہے،جس کا تعلق غلامی اور انسانیت سے ہے،یعنی اخلاقی طور پر کیا یہ جائز ہے یا ناجائز۔ اس کیلئے علیحدہ مضمون کی ضرورت ہے۔ فی الحال صرف اتنا کافی ہے کہ اگر غلامی انسانیت سوز ظلم ہے تو زمانہ ماضی کے تمام انسان اس ظلم سے متصف اور انسانیت سے عاری رہے ہیں اور ان میں فیثا غورث، گلیلیو وغیرہ سمیت وہ سب قدیم سائنسدان شامل ہیں،جن کی پوجا آج کے ملحدین اپنی زبانِ حال سے کرتے نظر آ رہے ہیں۔ کیونکہ اس ظلم کے خلاف ایک لفظ بھی ان سے ثابت نہیں۔ بلکہ وہ بے چارے تو یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ کسی زمانہ میں اسے "انسانیت سوز ظلم" کہا جائے گا۔ نیز یہ بات بھی غور طلب ہے کہ آج کی کسی متفقہ، مسلمہ و مروجہ رسم کو زمانہ مستقبل کے لوگ ظلم و غیر انسانی قرار دیں،تو کیا واقعی ظلم اور غیر انسانی شمار ہو گا؟
دوم یہ کہ جن کے اپنے اخلاقی ضابطے متعین نہیں،انہیں اسے غیر اخلاقی حرکت کہنے کا کوئی حق نہیں۔غلام عورت کے ساتھ جس سلوک پر دشمنانِ اسلام معترض نظر آتے ہیں،اس کے کہیں زیادہ قبیح اور وحشیانہ سلوک وہ آزاد عورتوں کے ساتھ خود کرتے ہیں یا کرتے ہوئے دیکھتے ہیں مگر کوئی حرفِ اعتراض زبان پر نہین لاتے۔ نیز یہ دیکھنا، نکاح سے پہلے، ارادہ نکاح کے ساتھ عورت کو دیکھنے جیسا ہے۔ بغیر ارادہ تزویج، آدمی کا آزاد عورت کو دیکھنا حرام ہے۔ اسی طرح بغیر ارادہ خرید، آدمی کا باندی کو چھونا حرام ہے۔
جیسا کہ فقہائ نے وضاحت کی ہے؛
يجوز له النظر إلى ذلك من الأمة المستامة كما يجوز إلى من يريد خطبتها قياساً عليها بل الأمة المستامة أولى لأنها تراد للاستمتاع وغيره
جس لونڈی کو خریدنے کا ارادہ ہو، اس کے ان اعضاء (سر اور پنڈلیاں) دیکھنا جائز ہے، جیسا کہ ارادہ نکاح کے ساتھ منگیتر کو دیکھنا جائز ہے، قیاس بھی اسی پر ہے۔ بلکہ خریدی جانے والی لونڈی زیادہ اس کی مستحق ہے کیونکہ اسے خریدنے کا مقصد ہی استمتاع وغیرہ ہوتا ہے۔ (الشرح الکبیر 343/7، حاشیہ الروض الربع 233/6)۔
قال ابن حبيب: قد أجيز للعازم على الشراء ولم يفعله متلذذًا ولا عاتيًا ذلك،۔۔۔۔ وذلك إذا أعجبته وإلا لم يفعل.
ابن حبیب کہتے ہیں کہ لونڈی کو خریدنے کا عزم رکھنے والے کو اس کی اجازت ہے۔ اور حصولِ لذت کیلئے اور زیادہ جھنجھوڑ کر نہ کرے۔۔۔۔ اور تب کرے جب وہ اسے پسند آ جائے۔ اگر نہ آئے تو پھر اجازت نہیں۔ (الجامع لمسائل المدونۃ 808/13، النوادر والزیادات 21/5)۔
وَرَأْسٍ وَسَاقٍ مِنْ أَمَةٍ مُسْتَامَةٍ) أَيْ مُعَرَّضَةٍ لِلْبَيْعِ يُرِيدُ شِرَاءَهَا كَمَا لَوْ أَرَادَ خِطْبَتَهَا بَلْ الْمُسْتَامَةُ أَوْلَى، لِأَنَّهَا تُرَادُ لِلِاسْتِمْتَاعِ وَغَيْرِهِ نَقَلَ حَنْبَلٌ، لَا بَأْسَ أَنْ يُقَلِّبَهَا إذَا أَرَادَ الشِّرَاءَ مِنْ فَوْقِ الثِّيَابِ، لِأَنَّهَا لَا حُرْمَةَ لَهَا وَرَوَى أَبُو حَفْصَةَ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ كَانَ يَضَعُ يَدَهُ بَيْنَ ثَدْيَيْهَا وَعَلَى عَجُزِهَا مِنْ فَوْقِ الثِّيَابِ وَيَكْشِفُ عَنْ سَاقَيْهَا
اور جس لونڈی کو خریدنے کا ارادہ ہو، اس کے سر اور پنڈلی کو بھی دیکھنا جائز ہے۔ یعنی جو تجارت کیلئے پیش کی جا چکی ہو،(نہ کہ عام لونڈیاں)۔ جیسا کہ ارادہ نکاح کے ساتھ منگیتر کو دیکھنا جائز ہے، بلکہ خریدی جانے والی لونڈی زیادہ اس کی مستحق ہے کیونکہ اسے خریدنے کا مقصد ہی استمتاع وغیرہ ہوتا ہے۔ حنبلؒ نے نقل کیا ہے کہ ارادہ خرید کے ساتھ اسے آگے پیچھے سے کپڑوں میں رہ کر دیکھنے میں کوئی حرج نہیں، کیونکہ یہ حرام نہیں ہے۔ اور ابو حفصہ کی روایت میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ وہ اس کی پنڈلی سے کپڑا ہٹا لیتے۔اور اپنا ہاتھ اس کی چھاتیوں کے درمیان
اور کولہوں پر، کپڑے کے اوپر سے لگاتے تھے۔ (شرح منتہی الارادت 624/2 لعلامہ البہوتی)
َيَنْظُرُ مِنْ أَمَةٍ مُسْتَامَةٍ رَأْسًا وَسَاقًا، وَعَنْهُ: سِوَى عَوْرَةِ الصَّلَاةِ وَقِيلَ: كَمَخْطُوبَةٍ، نَقَلَ حَنْبَلٌ: لَا بَأْسَ أَنْ يُقَلِّبَهَا إذَا أَرَادَ الشِّرَاءَ، مِنْ فَوْقِ الثَّوْبِ؛ لِأَنَّهَا لَا حُرْمَةَ لها. قال القاضي: أجاز1 تَقْلِيبُ الصَّدْرِ وَالظَّهْرِ بِمَعْنَى لَمْسِهِ مِنْ فَوْقِ الثِّيَابِ
اور جس لونڈی کو خریدنے کا ارادہ ہو، اس کا سر اور پنڈلی دیکھنا جائز ہے۔ اور انہی (علامہ ابو بکر) سے مروی ہے کہ نماز کے ستر کے سوا سب دیکھنا جائز ہے۔ کہا گیا ہے کہ منگیتر کی طرح۔ حنبلؒ نے نقل کیا ہے کہ ارادہ خرید کے ساتھ اسے آگے پیچھے سے کپڑوں میں رہ کر دیکھنے میں کوئی حرج نہیں،کیونکہ یہ حرام نہیں ہے۔ قاضی کہتے ہیں کہ کپڑوں کے اوپر سے سینے اور پشت کو چھونا جائز ہے۔ (الفروع لابن مفلح 182/8)۔
حدثنا بن مبارك عن الأوزاعي قال سمعت عطاء وسئل عن الجواري التي يبعن بمكة فكره النظر إليهن إلا لمن يريد أن يشتري
امام اوزاعیؒ فرماتے ہیں کہ عطاء سے سوال کیا گیا،جواب میں نے بھی سنا، مکہ میں بکنے والی لونڈیوں کے بارے میں۔ تو انہوں نے ان کی طرف دیکھنا نا پسند کیا، سوائے اس کے جو خریدنے کا ارادہ رکھتا ہو۔ (مصنف ابن ابی شیبہ 20244)۔
تو پتہ چلا کہ یہاں ستر کا بیان مقصود نہیں ہے، بلکہ خاص حالات و کیفیات یعنی تجارت کے وقت لونڈی کے جسمانی اعضاء کو دیکھنے کا بیان ہے۔ اور خاص حالات کے حکم کو عام پر منطبق کرنا درست نہیں، جیسا کہ بیماری کی حالت میں ڈاکٹر کو جنسِ مخالف کے جسمانی اعضاء کو دیکھنے کی اجازت ہے، عام حالات میں نہیں۔ لہذا اس روایت سے ستر کا حکم کشید کرنا، محض تحکم ہے۔ رہی بات دیکھنے اور چھونے کے فرق کی، تو یہ اصل میں آزاد اور غلام عورت کا فرق ہے،جو کہ اس زمانے میں ہر قوم و مذہب میں رائج تھا، اور کسی کو اس پر کوئی اعتراض نہ تھا۔ موجودہ زمانے میں اس پر اعتراض کرنا ایسے ہی ہے، جیسے زمانہ حال کا کوئی "دانشور"، زمانہ ماضی میں تلوار سے لڑنے پر اعتراض کرے۔
اسلام نے شہوانی تلذذ کے حصول کیلئے دو جائز طریقے بتائے ہیں؛
اول نکاح
دوم لونڈی
اسلام نے نکاح سے پہلے عورت کو ایک بار دیکھ لینے کی اجازت دی ہے تا کہ اگر اس کے من کو بھائے تو اس سے شادی کر لے۔ یہ نہ ہو کہ بعد از تزویج اسے عورت پسند نہ آئے اور وہ اس کی اور اپنی زندگی خراب کر لے۔ اب من کو بھانے والی کون سی خصوصیات ہیں،یہ ہر انسان جانتا ہے،بلکہ ہر انسان کی ان میں اپنی اپنی ترجیحات ہوتی ہیں۔ لہذا ان کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اسلام نے اس حرام کو اس خاص مقصد کیلئے حلال کر دیا ہے۔
اسی طرح اسلام نے لونڈی خریدنے کیلئے بھی اس حرام یعنی لمس کو اس خاص مقصد کیلئے حلال کر دیا ہے۔ تا کہ اپنی ترجیحات کے مطابق وہ اسے اچھی طرح دیکھ پرکھ سکے۔ رہی یہ بات کہ اگر اچھی طرح دیکھ پرکھ کے بعد بھی لونڈی پسند نہ آئے تو؟ یو ہم یہ کہتے ہیں کہ یہ ایسے ہی ہے کہ جیسے آزاد عورت کو دیکھنے کے بعد اگر وہ پسند نہ آئے تو انکار کر سکتا ہے، یہی معاملہ لونڈی کے ساتھ بھی ہے۔
سوم؛ ہم میں سے کون پسند کرتا ہے کہ اس کی ماں یا بہن یا کوئی بھی عزیز جیل میں جائے، مگر کیا مرد و خواتین کے جیل خانے ہیں کہ نہیں؟ ہم میں سے کون پسند کرتا ہے کہ وہ بیمار ہو، مگر کیا ہسپتال موجود ہیں کہ نہیں؟ ہم میں سے کون پسند کرتا ہے کہ جنگ ہو، مگر کیا پوری دنیا کے ممالک کی افواج ہیں یا نہیں؟ لہذا اس مسئلے کو پسند نا پسند کے ترازو میں تولنا ہی غلط ہے کہ یہ اس زمانے میں جنگ کے نا گزیر نتائج میں شمار ہوتا تھا۔ اسلام نے اس رواج کو دو طریقوں سے کم کیا۔ ایک غلاموں کی آزادی کی زبردست ترغیب اور دوسرے الگ سے باقاعدہ فوج کا قیام،جن کی تفصیل کا یہ موقع نہیں۔
اگر کوئی یہ کہے کہ اسلام میں تو آج بھی اس کی اجازت موجود ہے،تو عرض ہے کہ صرف اجازت ہی ہے،فرض نہیں۔ نیز آخر اس میں حرج ہی کیا ہے؟پھر آئندہ اگر ایسے حالات ہو جائیں کہ غلامی کا دور دوبارہ شروع ہو جائے،کہ یہ بعید از قیاس نہیں ہے،بلکہ آج کے "ترقی یافتہ" ہتھیاروں کی بدولت صرف چند لمحات میں اس انتہائی ترقی یافتہ زمانے کو پتھر کے زمانے میں تبدیل کیا جا سکتا ہے، تو اسلامی تعلیمات پھر غلاموں کیلئے مینارہ نور ثابت ہو سکتی ہیں۔ پھر ملحدین کو یا فحاشی و عریانیت کو ترقی کا نام دے کر پوری دنیا میں پھیلا دینے والوں کو اس سے کیوں تکلیف ہے؟ اگر کوئی کہے کہ یہ
انسانیت سوز ظلم ہے۔ تو بتایئے کہ ایک سے زیادہ سیکس پارٹنرز رکھنے والے اور ہم جنس پرستی کو جائز قرار دینے والے کونسا انسانیت کو جلا بخش رہے ہیں، یہی تو اصل حیوانیت ہے۔ اگر کوئی کہے کہ اس سے لونڈیاں بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہو جاتی ہیں،تو ہم کہتے ہیں کہ یہ جھوٹ ہے۔ جتنی آزادی مغربی تہذیب نے آج کی "ترقی یافتہ" عورت کو دی ہے، اسلام نے کم و بیش اتنی ہی آزادی اپنی زیرِ کفالت لونڈیوں کو دی ہے۔
لونڈیوں کو اسلام نے پردے کی پابندی سے مستثنی قرار دیا ہے۔ (الاحزاب 59، بخاری 3976)۔
انہیں بازار میں بغیر سر یا منہ ڈھانکے چلنے پھرنے کی اجازت ہے۔ (سنن الکبری للبیہقی 3037)۔
فتنہ کی عدم موجودگی میں مردوں کے ساتھ ان کا اختلاط جائز ہے۔ (سنن الکبری للبیہقی 3038)۔
گھر سے باہر نکل کر کام کاج کرنے اور پیسہ کمانے کی اجازت ہے۔ (بخاری 2421)۔
تو اسلام کی باندی اور آج کی ترقی یافتہ مغربی عورت آزادی میں ایک برابر ہیں،سوائے جنسی آزادی کے، کہ مسلمہ باندی صرف اپنے آقا یا شوہر سے ہی جنسی تعلق رکھ سکتی تھی،مگر آج کی ترقی یافتہ مغربی عورت کو گنتی زیادہ آتی ہے۔
آخر میں عرض ہے کہ غلامی ابھی بھی معدوم نہیں ہوئی،صرف اس کی صورت بدل گئی ہے۔ پہلے فرداً فرداً غلام ہوا کرتے تھے،اب پوری پوری قوم غلام ہوتی ہے۔ پہلے غلاموں کی قیمت عام خریدار لگاتے تھے، اب قوموں کی قیمت آئی ایم ایف لگاتا ہے۔ پہلے بازاروں میں سرِ عام غلاموں کی بولیاں لگتی تھیں،اب بین الاقوامی اداروں میں بیٹھ کر قوموں کی بولیاں لگتی ہیں۔ پہلے آقا جو حکم دیتے، غلام کو ماننا پڑتا تھا، اب سپر پاورز کرائے کے حکمرانوں کو جو حکم دیں، انہیں ماننا پڑتا ہے۔ پہلے نہ ماننے پر کوڑے برستے تھے، اب نہ ماننے پر ڈرون اور کلسٹر بم برستے ہیں۔ پہلے غلام اور آزاد میں فرق روا رکھا جاتا تھا،اب یہ فرق ترقی پذیر اقوام اور ترقی یافتہ اقوام میں تبدیل ہو گیا ہے۔ پہلے غلاموں کی محنت پسینے کی کمائی اس کا آقا لے جاتا تھا، اب عوام کے خون پسینے کی کمائی ٹیکسوں کے ذریعے نچوڑ کر یا تو حکمرانوں کے اللے تللے پورے کیئے جاتے ہیں، یا پھر آئی ایم ایف کا سدا بہار بھوکا پیٹ بھرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اب پہلے دور کی غلامی آج کے دور سے اس لحاظ سے کچھ بہتر ہی تھی کہ غلام کو پتہ ہوتا تھا کہ وہ غلام ہی ہے، جبکہ آج کے دور کے غلام اس خوش فہمی مبتلا ہیں کہ وہ آزاد ہیں۔ پہلے وہ اپنی آزادی کی قیمت خود ادا کر کے آزاد ہو سکتے تھے،مگر اب قوموں کو ایسے قرضوں میں جکڑا جاتا ہے کہ جن سے باہر نکلنے کا کوئی رستہ دکھائی نہیں دیتا۔ پہلے صرف جسم غلام ہوا کرتے تھے، اب تو سوچ وفکر بھی غلام ہے۔ پہلے غلام آزادی کے خواب دیکھا کرتے تھے جبکہ موجودہ ذہنی غلاموں کی فکری پسماندگی کا یہ عالم ہے کہ اپنے آقاؤں کی مسلط کردہ تہذیب کو ہی اپنی آزادی شمار کرتے ہیں۔ تو کوئی کیسے کہہ سکتا ہے کہ اب غلامی موجود نہیں،بلکہ پہلے سے زیادہ ترقی یافتہ شکل میں موجود ہے۔
یہاں پر ایک نظر ان روایات پر بھی ڈالنا فائدے سے خالی نہ ہو گا کہ جن میں ذکر ہے کہ سیدنا ابنِ عمر رضی اللہ عنہما
1۔ لونڈی کے پیٹ کو دیکھتے تھے۔ (مصنف عبد الرزاق 13198 و 13200 و 13201، پہلی روایت میں امام عبد الرزاق اور ابن جریج مدلس راوی ہیں۔ دیکھئے طبقات المدلسین لابن حجر 41/1 و 34/1، اور عن سے روایت کر رہے ہیں۔ دوسری اور تیسری میں بھی امام عبد الرزاق کا عنعنہ شامل ہے)۔
2۔ دوسرے لوگوں کی تجارت میں جا کر لونڈی کو دیکھتے تھے، یا اس کے سینے پر ہلکی ضرب لگاتے تھے، یا جھنجھوڑتے تھے۔ (مصنف عبد الرزاق 13199 و 13202 و 13203 و 13204، پہلی روایت میں ابن جریج کے استاد کا تعین نہیں ہے۔ یا عمرو ہے یا پھر ابو الزبیر ہے۔ اگر مؤخر الذکر ہے تو وہ بھی مدلس ہے۔ دیکھئے طبقات المدلسین لابن حجر 45/1 اور روایت معنعن ہے۔ بہرحال راوی کے تعین کے بغیر روایت کی صحت و ضعف کا فیصلہ مشکل ہے۔ دوسری میں امام عبد الرزاق مدلس عن سے روایت کر رہے ہیں۔ نیز یہ روایت ابن ابی نجیح سے بھی مروی ہے اور وہ بھی مدلس ہیں،دیکھئے
طبقات المدلسین لابن حجر 39/1، اور روایت معنعن ہے۔ تیسری اور چوتھی روایت میں امام عبد الرزاق اور سفیان بن عیینہ دونوں مدلس ہیں، دیکھئے طبقات المدلسین لابن حجر 32/1 اور روایت معنعن ہے۔ چوتھی روایت ابن ابی نجیح کے طریق سے بھی مروی ہے)۔
3۔ لونڈی کی پشت اور پیٹ سے کپڑا اٹھاتے تھے۔ (مصنف عبد الرزاق 13205، اس میں بھی عبد الرزاقؒ اور ابن جریجؒ مدلس ہیں اور روایت معنعن ہے)۔
تو ان میں سے کوئی بھی ضعف سے خالی نہیں۔ بلکہ
4۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے بھی منسوب ایک روایت میں ہے کہ آپ نے اس کی پنڈلیاں، پیٹ اور کولہے دیکھنے کی اجازت دی۔ (مصنف عبد الرزاق 13208) اس میں بھی عبد الرزاقؒ مدلس ہیں اور روایت معنعن ہے، نیز ابن جریجؒ سے اوپر دو راوی مجہول ہیں۔
5۔ امام سعید بن المسیبؒ اور امام اوزاعیؒ سے منسوب ہے کہ انہوں نے شرمگاہ کے علاوہ باقی سارا جسم دیکھنے کی اجازت دی ہے۔ (مصنف عبد الرزاق 13206 و 13207)۔ پہلی روایت میں پھر امام عبد الرزاق اور ابن جریج عنعنہ کے ساتھ موجود ہیں، نیز ایک راوی مجہول ہے۔ دوسری روایت میں امام عبد الرزاق اور سفیان ثوری عنعنہ سے روایت کر رہے ہیں۔ سفیان ثوریؒ بھی مشہور مدلس ہیں۔ (طبقات المدلسین لابن حجر 32/1)۔ نیز جابر بن یزید الجعفی بھی ہے جو کہ مدلس ہونے کے ساتھ ساتھ ضعیف عند الجمہور بھی ہے۔ (طبقات المدلسین لابن حجر 53/1)۔
تو یہ ہے قائلین کا کل اثاثہ، جس کی بنیاد پر لونڈی کا ستر ناف سے گھٹنوں تک قرار دیا گیا ہے۔
چھٹی دلیل؛
كما حدثنا علي بن شيبة قال : حدثنا يزيد بن هارون قال : حدثنا حماد بن سلمة عن حكيم الأثرم عن أبي تميمة الهجيمي قال : سمعت أبا موسى الأشعري يقول : « لا أعرفن أحدا نظر من جارية إلا إلى ما فوق سرتها وأسفل من ركبتيها لا أعرفن أحدا فعل ذلك إلا عاقبته (شرح مشکل الآثار للطحاوی 1483)۔
حدثنا وكيع عن حماد بن سلمة عن حكيم الأثرم عن أبي تميمة عن أبي موسى أنه خطبهم فقال لا أعلم رجلا اشترى جارية فنظر إلى ما دون الجارية وإلى ما فوق الركبة إلا عاقبته (مصنف ابن ابی شیبہ 20247)۔
یعنی سیدنا ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اگر مجھے خبر ملی کہ لونڈی خریدتے وقت خریدار نے اس کی ناف کے نیچے اور گھٹنوں سے اوپر والے حصے کو دیکھا ہے، تو میں اسے سزا دوں گا۔
اول تو یہ روایت بھی ستر کے باب سے نہیں، بلکہ تجارت کے باب سے ہے، لہذا بشرطِ صحت اس سے ستر کا حکم کشید کرنا درست نہیں۔
دوم، اس کی سند میں حکیم الاثرم راوی ہے، جسے ہم اسماء الرجال کے میزان میں تولنے اور پرکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔مندرجہ ذیل محدثین نے اس کی تعدیل کی ہے؛
1۔۔۔ وَسَأَلت عليا عَن حَكِيم الْأَثْرَم فَقَالَ كَانَ حَكِيم عندنَا ثقه (سوالات ابن ابی شیبۃ لابن المدینی 49/1)۔اسی طرح الجرح والتعدیل 208/3 میں امام ابن المدینیؒ کا قول ہے کہ اعیانا ھذا۔
2۔۔۔ امام نسائیؒ سے منسوب قول "لیس بہ باس" (تہذیب الکمال 208/7) نہ ان کی اپنی کسی کتاب سے دستیاب ہو سکا ہے اور نہ با سند کسی اور کتاب سے۔
3۔۔۔ ابو عبید الآجری مجہول نے امام ابو داؤد سے اس کی ثقاہت نقل کی ہے۔ (سوالات الآجری 129/2)۔
4۔۔۔ حافظ ابنِ حبانؒ نے اسے الثقات 215/6 میں وارد کیا ہے۔
5۔۔۔ حافظ قاسم بن قطلوبغا حنفیؒ نے اسے الثقات ممن لم يقع في الكتب الستة 499/3 میں ذکر کیا ہے۔
6۔۔۔ علامہ ذہبیؒ نے اسے الکاشف میں صدوق کہہ دیا ہے (الکاشف 348/1)۔ جبکہ اپنی دوسری دو تصنیفوں، المغنی فی الضعفاء 187/1 اور دیوان الضعفاء 99/1 میں اسے ضعفاء میں بھی شمار کیا ہے۔ پتہ چلتا ہے کہ اس کا ضعف علامہ ذہبی ؒ کے پیشِ نظر تھا۔ مگر صدوق کیوں کہا؟ اس کی وجہ آگے چل کر بیان ہو گی، ان شآء اللہ۔ نیز علامہ مناویؒ نے الکبائر کے حوالے سے علامہ ذہبیؒ کا اس کی مشہور متنازعہ روایت کے بارے میں یہ قول نقل کیا ہے؛ليس إسناده بالقائم (فیض القدیر 23/6، نیز دیکھئے تیسیر العزیز الحمید 357/1،انیس الساری 4864/7، مصنف نے الکبائر کا صفحہ نمبر 178 بھی لکھا ہے)۔ ہمیں مختصر الکبائر میں یہ قول نہیں مل سکا۔
مندرجہ ذیل محدثین نے اس پر جرح کی ہے؛
1۔۔۔ امام بخاری ؒ کہتے ہیں کہ اس کی روایت کی متابعت موجود نہیں۔ (تاریخ الکبیر 16/3)۔
2۔۔۔ امام ترمذیؒ کہتے ہیں کہ امام بخاریؒ نے اس کی سند کی وجہ سے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔ (جامع الترمذی تحت الحدیث 135)۔ نیز امام ترمذیؒ فرماتے ہیں کہ میں نے امام بخاریؒ سے اس کی حدیث کے متعلق پوچھا تو انہیں اس سند کے سوا وہ کسی اور سند سے نہیں پہچانتے تھے اور اس حدیث کو سخت ضعیف قرار دیتے تھے۔ (العلل الکبیر للترمذی
17/1)۔
مندرجہ ذیل علماء نے امام بخاریؒ کی یہ تضعیف نقل کر کے تائیداً سکوت کیا ہے؛
1۔ حافظ ابنِ کثیرؒ (تفسیر ابنِ کثیر 348/1، الْأَحَادِيث الضعيفة والموضوعة الَّتِي حكم عَلَيْهَا الْحَافِظ ابْن كثير فِي تَفْسِيره 68/1)۔
2۔ علامہ ابن الأثير الجزريؒ (جامع الاصول فی احادیث الرسول 65/5)۔
3۔ علامہ ابو الفضل النوریؒ (المسند الجامع 23/31)۔
4۔ علامہ ابو الحسن سندیؒ (حاشیۃ السندی علی ابن ماجہ 58/2)۔
5۔ علامہ عبید اللہ مبارکپوریؒ (مرعاۃ المفاتیح 107/4)۔
6۔ علامہ سلیمان بن عبد اللہ بن محمد بن عبد الوہابؒ (تیسیر العزیز الحمید 357/1)۔
7۔ علامہ شوکانیؒ (نیل الاوطار 255/6)۔
8۔ علامہ محمود الطحان (تیسیر مصطلح الحدیث 79/1)۔
9۔ الشیخ سلیمان بن عبد اللہ العلوان (الاسئلۃ الحدیثیۃ 13/1)۔
10۔ الشيخ عبدالله السعد (شرح الموقظة في علم المصطلح 26/1)۔
11۔ علامہ محمد بن طاہر المقدسیؒ (ذخیرۃ الفاظ 2166/4)۔
12۔ امام ابنِ عدیؒ (الکامل لابن عدی 219/2)۔
13۔ حافظ ابنِ حجرؒ (التلخیص الحبیر 332/4)۔
14۔ علامہ یوسف المزیؒ (تحفة الأشراف بمعرفة الأطراف 123/10)۔
15۔ الشیخ عمر اسیف (التكفير أخطاره و ضوابطه 34/1)۔
16۔ علامہ عبد الحق الاشبیلیؒ (الاحکام الکبری 518/1)۔
17۔ الحافظ ضياء الدين المقدسيؒ (السنن والأحكام عن المصطفى عليه أفضل الصلاة والسلام 210/1)۔
18۔ علامہ صدیق حسن خان قنوجیؒ (التعليقاتُ الرَّضية على "الرَّوضة النّديَّة" 228/2)۔
19۔ علامہ نوویؒ (المجموع شرح المہذب 417/16)۔
20۔ علی بن نایف الشحود (فی تحقیق عشرۃ النساء للنسائی 3/3)۔
21۔ الشیخ محمد بن صالح العثیمین (القول المفيد على كتاب التوحيد 111/2)۔
22۔ ملا علی القاری الحنفیؒ (مرقاۃ المفاتیح 495/2)۔
23۔ علامہ ایمن صالح شعبان (فی تحقیق جامع الاصول 65/5)۔
24۔ صدر الدين محمد بن إبراهيم السلمي المناويؒ (كشف المناهج والتناقيح في تخريج أحاديث المصابيح 125/4)۔
25۔ ابن حجر ہیتمیؒ (الزواجر 216/1)۔
26۔ علامہ ابن قدامہ المقدسی (الشرح الکبیر 350/1)۔
27۔ الشیخ محمد حسن عبد الغفار (شرح البیقونیۃ)۔
3۔۔۔ امام ابوبکر البزارؒ فرماتے ہیں کہ حکیم منکر الحدیث ہے۔ اس کی حدیث کو حجت نہیں بنایا جاتا جبکہ وہ منفرد ہو۔ اور اس روایت میں یہ منفرد ہے۔ (مسند البزار،البحر الزخار 294/16، تحت الحدیث 9502)۔
نیز فرماتے ہیں کہ حکیم الاثرم بصری سے عوف اور حماد بن سلمہ روایت کرتے ہیں۔ لیکن اس کی حدییث میں کچھ گڑبڑ ضرور ہے کیونکہ حماد بن سلمہ نے اس سے ایک منکر حدیث روایت کی ہے۔ (مسند البزار 3492، 19/2)۔
4۔۔۔ امام ابنِ شاہینؒ نے اسے اپنی کتاب تاريخ أسماء الضعفاء والكذابين 79/1 میں ذکر کر کے ضعیف شمار کیا ہے۔
5۔۔۔ امام عقیلیؒ نے اسے الضعفاء 317/1 میں شمار کیا ہے۔
6۔۔۔ امام ابن عدی ؒ نے اسے الضعفاء میں شمار کر کے فرمایا کہ حکیم الاثرم اسی (متنازعہ) روایت سے پہچانا جاتا ہے۔ مزید برآں صرف چند ایک روایتوں کے علاوہ اس کے پاس کچھ بھی نہیں۔ (الکامل لابن عدی 219/2)۔
7۔۔۔ امام ابو علی الطوسیؒ کہتے ہیں اس حدیث کی تضعیف،اس کی سند کی وجہ سے کی گئی ہے۔(مستخرج الطوسی 363/3)۔
8۔۔۔ حافظ ابن حجرؒ کہتے ہین کہ حكيم الأثرم البصري فيه لين، یعنی اس میں کمزوری ہے (تقریب التہذیب 177/1)۔
9۔۔۔ الشیخ محمد بن عبد اللہ القناص نے بھی اس کی روایت کو ضعیف قرار دیا ہے۔ (فتاوی واستشارات الاسلام الیوم 162/16)۔
10۔۔۔ وقال البغوي سنده ضعيف وقال الذهبي ليس إسناده بالقائم (تیسیر العزیز الحمید 357/1، نقل المناوی قول البغوی فی فیض القدیر 23/6)۔
11۔۔۔ علامہ ابنِ سید الناسؒ نے بھی اس کی روایت کو ضعیف کہا ہے۔ (فیض القدیر 23/6)۔
12۔۔۔ علامہ مناویؒ نے بھی اس کی روایت کو ضعیف کہا ہے۔ (ایضاً)۔
13۔۔۔ وقال يحيى بن معين فيما ذكره البرقي: ضعيف.(اکمال تہذیب الکمال 127/4، شرح ابن ماجہ لمغلطائی 889/1)۔
تو پتہ چلا کہ جمہور محدثین اس کی تضعیف کے قائل ہیں۔ اس کی ایک معلوم وجہ وہی ہے جو امام ابن عدیؒ اور ابو بکر البزارؒ نے بتائی ہے کہ
اول تو اس کی مرویات ہی نہ ہونے کے برابر ہیں۔
دوم، جو موجود ہیں، ان میں بھی نکارت ہے، جس کا ذکر امام ابو بکر البزارؒ نے کیا ہے اور امام بخاریؒ نے "لا یتابع علیہ" کہہ کر اشارہ کیا ہے۔ مگر جس روایت کا امام بخاریؒ نے ذکر کیا ہے،(یعنی اتیان فی الدبر) اس کی متابعت موجود ہے،لیکن اس کے باوجود بھی کئی محدثین نے اس کی تضعیف کی ہے۔ جن بعض محدثین نے اس کی اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے، اس کی اغلب وجہ یہی ہے کہ اس کے متابع و شواہد موجود ہیں،جن کی امام بخاریؒ کو خبر نہ ہو سکی۔ مگر ہماری زیرِ بحث سیدنا ابو موسی رضی اللہ عنہ والی روایت میں نہ اس کا کوئی متابع ملتا ہے اور نہ ہی کوئی شاہد۔ لہذا اس کی تضعیف کا پہلو ہی راجح ہے۔
ساری بحث کا خلاصہ یہی ہے کہ کوئی ایک بھی صحیح دلیل دستیاب نہیں کہ جس کی بنیاد پر لونڈی کا ستر ناف سے گھٹنون تک مقرر کیا جائے۔
آخر میں لطف کی بات یہ ہے کہ ہمارے علم میں ایک بھی محدث ایسے نہیں ہیں،جنھوں نے ان احادیث و آثار کو روایت کیا ہو، پھر ان سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہو کہ لونڈی کا ستر ناف سے گھٹنوں تک ہے۔
واللہ اعلم بالصواب