• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فقہ اسلامی میں غیر محرم لونڈی کے ستر کے احکام

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
اسلام میں کنیز یا لونڈی کا حکم
شروع از بتاریخ : 14 November 2012 01:50 PM
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کنیز کیا ہے؟ کیا آج کے دور میں ایک مسلمان اپنی بیوی کے ہوتے ہوئے کنیز رکھ سکتا ہے؟ اور کیا اس کے ساتھ ہم بستری کرنے کے لئے نکاح کرنا ضروری ہے؟ مہربانی فرما کر قرآن و حدیث کے دلائل کے ساتھ مسئلے کی وضاحت فرمائیں. جزاک الله خیرا-
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

کنیز یا لونڈی اس عورت کو کہا جاتا ہے جسے مجاہدین میدان جہاد سے قید کر کے لائیں ۔ پھر اسے دیگر مال غنیمت کی طرح امیر جہاد مجاہدین میں تقسم کر دیتا ہے ۔ یا پھر اسے احساناً آزاد کر دیتا ہے ۔ یا پھر فدیہ لے کر اسے چھوڑ دیتا ہے ۔
اگر ان عورتوں کو مال غنیمت کی طرح مجاہدین میں تقسم کر دیا جائے تو جس مجاہد کے حصہ میں جو عورت آئے گی وہ اسی کی لونڈی ہوگی ۔ اور بغیر نکاح کیے وہ اس سے ازدواجی تعلقات قائم کر سکتا ہے ۔ لیکن ایسے تعلقات استوار کرنے سے قبل استبراء رحم ضروری ہے ۔ لہذا اگر وہ لونڈی حاملہ ہے تو اسے وضع حمل تک نہیں چھوا جاسکتا اور پھر نفاس سے فارغ ہوکر جب وہ غسل کر لے تو یہ اس کے ساتھ تعلقات قائم کر سکتا ہے ۔ اور اگر وہ حاملہ نہیں ہے تو پھر بھی حیض کے آنے کا انتظار کیا جائے اور حیض کے اختتام پر جب وہ غسل کر لے تو اس سے ازدواجی تعلقات قائم کیے جاسکتے ہیں ۔
اللہ تعالى نے قرآن مجید فرقان حمید میں صرف دو قسم کی عورتوں کے ساتھ یہ معاملہ کرنے کی اجازت دی ہے ایک تو وہ عورت جو اس کی منکوحہ ہے اور دوسری لونڈی ۔
اللہ تعالى فرماتے ہیں :
وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ - إِلَّا عَلَى أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ - فَمَنِ ابْتَغَى وَرَاءَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْعَادُونَ- (المؤمنون)
اور وہ لوگ جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں ‘ سوائے اپنی بیویوں اور مملوکہ لونڈیوں کے‘ تو وہ یقیناً ملامت زدہ نہیں ہیں ۔ لیکن جو اس کے علاوہ کوئی اور راستہ تلاش کریں تو وہ زیادتی کرنے والے ہیں ۔​
آج کے دور میں کنیز یا لونڈی کا کلچر موجود ہی نہیں ہے۔ یہ صورت اس وقت ہو سکتی ہے، جب اسلام اور کفار کے درمیان اس قسم کی جنگیں لڑی جائیں، جیسے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ حیات میں لڑی گئی تھی۔ پھر ان جنگوں میں کفار کی عورتیں اور مرد قیدی بن کر آئیں اور یہ مجایدین اسلام میں بطور غنیمت تقسیم ہوں۔ پھر اگر وہ چاہیں تو ان لونڈیوں اور کنیزوں کے ساتھ تعلقات قائم کر سکتے ہیں۔
دوسرا یہ کہ آج کے دور میں جو اغوا کر کے یا آزاد انسانوں کی خرید وفروخت ہوتی ہے، یہ حرام ہے۔ اسلام نے اس سے منع فرمایا ہے۔ یہ لونڈی اور کنیز کے زمرے میں نہیں آتے ہیں۔ لونڈی اور کنیز صرف دشمنان اسلام سے جنگ کی صورت میں قیدی بن کر آنے والی عورتیں ہو سکتی ہیں، دوسرا کوئی طریقہ اور راستہ نہیں ہے۔
هذا ما عندي والله اعلم بالصواب
فتویٰ کمیٹی

محدث فتویٰ
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
لونڈی کی ازدواجی حیثیت اسلام کے آغاز میں
شروع از عبد الوحید ساجد بتاریخ : 14 September 2014 11:17 AM
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اسلام کے آغاز میں امۃ(لونڈی )کے مسائل تھے اسوقت ان کی ازوداجی حیثیت کس نوعیت کی تھی ؟موجودہ دورمیں عرب وغیرہ عرب متمول جنسی تسکین کی خاطر لونڈی کے متعلق دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کا سہارا کیسے لیتے ہیں؟
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

لونڈیوں کے مسائل کا تعلق مسئلہ جہاد سے ہے جب تک عملی نمونہ جہاد مسلما نوں میں موجو د رہا لونڈیوں کے مسائل بھی موجود تھے روح جہاد ختم ہونے پرآج یہ مسائل بھی ناپید ہیں جب کہ کتا ب وسنت میں ان امور کی پوری پوری پابندی وضاحتیں موجود ہیں آج کے دور میں چونکہ باقاعدہ اسلامی جہاد موجود نہیں ہے اس لیے یہ مسائل بھی کتابوں میں مدفون ہیں ۔
﴿لَعَلَّ اللَّهَ يُحدِثُ بَعدَ ذ‌ٰلِكَ أَمرً‌ا ﴿١﴾... سورة الطلاق

دراصل غلاموں اور لونڈیوں کا وجود کفر کے آثار میں سے ہے اس لیے اسلام نےان کی آزادی کی ترغیب دی بلکہ اس پر اخروی جزاء مرتب فرمائی ہے مزید آنکہ جواس کوآزاد کر کے نکاح کر لے اس کے لیے عظیم اجر کی نوید سنائی ہے۔
موجودہ دور میں اگر کوئی متمول آدمی لونڈیوں پرقیاس کرتے ہوئے چارسے زیادہ بیک وقت آزاد بیویاں رکھنے کی راہ نکالتا ہے تو سراسر یہ غلط اور ناجائز استدلال ہےجس کااسلام سے دور کابھی تعلق نہیں پھر محض خادماؤں کانام لونڈیوں رکھ کرشہوت رانی کرنی حرام ارتکاب کرنا ہے کیوں کہ اسلام میں مذکورتعداد سے زیادہ بیک وقت بیویاں رکھنے کی قطعاًاجازت نہیں ہے اور لونڈی سے دوشرطوں (عدم طول اور خوف العنت)سےنکاح کیاجازت دی ہے (ملاحظہ ہو :سورۃ النساء )
نیز پرویزیوں کی باتوں پرکان دھرنے کی چنداں ضرورت نہیں ہے کیونکہ ہر دور کے ملحدین کا ہمیشہ وطیرہ رہا ہے کہ حیلے بہانے سےاسلامی تعلیمات میں کیڑے نکالنے کی کوشش میں مصروف رہتے ہیں جوان کے لیے خسارے کی تجارت ہے ۔
﴿فَما رَ‌بِحَت تِجـٰرَ‌تُهُم وَما كانوا مُهتَدينَ ﴿١٦﴾... سورة البقرة

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

ج1ص691

محدث فتویٰ
 

سید طہ عارف

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
737
ری ایکشن اسکور
141
پوائنٹ
118
بسم اللہ الرحمن الرحیم
ایک محترم بھائی نے " ذاتی پیغام " میں درج ذیل سوال پیش کیا ہے ؛
السلام عليكم :
میری گزارش ہے اہل علم سے کے مجھے اس روایت کا ضرور جواب دے ، جب سے میں نے پڑھی ہے دماغ گھوم گیا ہے اگر اس کی سند میں کوئی ضعف ہے تو وہ بتائے یا اس کے ترجمعے میں کوئی غلطی ہے تو اس کی وضاحت کرے یا اس کی صحیح تشریح بیان کردے
ملاحظہ ہوں
عَنْ نَافِعٍ , عَنِ ابْنِ عُمَرَ , " أَنَّهُ كَانَ إِذَا اشْتَرَى جَارِيَةً كَشَفَ عَنْ سَاقِهَا وَوَضَعَ يَدَهُ بَيْنَ ثَدْيَيْهَا , وَعَلَى عَجُزِهَا " وَكَأَنَّهُ كَانَ يَضَعُهَا عَلَيْهَا مِنْ وَرَاءِ الثَّوْبِ "
ترجمہ:۔ نافع کہتے ہیں کہ ابن عمر جب بھی کنیز عورت خریدا کرتے تو وہ کنیز عورت کی ٹانگوں کا معائینہ کرتے، اپنے ہاتھ کنیز عورت کی چھاتی کے درمیان ہاتھ رکھتے اور کولہوں پر ہاتھ رکھتے۔
حوالہ:۔ سنن الکبری البیہقی
اس کی سند کو ناصر الدین البانی رحمہ اللہ نے اس روایت کو "صحیح" قرار دیا ہے
(ارواء الغلیل فی التخریج الاحادیث، حدیث نمبر 1792)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

ہم پہلے جناب عمار خان ناصر مدیر ماہنامہ الشریعہ گوجرانوالہ کی ایک تحریر اس ضمن میں پیش کرتے ہیں :
لنک مضمون

فقہ اسلامی میں غیر محرم لونڈی کے ستر کے احکام


حنفی فقیہ امام جصاص فرماتے ہیں کہ ::
"يَجُوزُ لِلْأَجْنَبِيِّ النَّظَرُ إلَى شَعْرِ الْأَمَةِ وَذِرَاعِهَا وَسَاقِهَا وَصَدْرِهَا وَثَدْيِهَا "
’’اجنبی آدمی کسی کی لونڈی کے بال، بازو، پنڈلی، سینہ اور پستان دیکھ سکتا ہے۔’’

مالکی فقہ کی کتاب الشرح الصغیر میں ہے
فيرى الرجل من المرأة - إذا كانت أمة - أكثر مما ترى منه لأنها ترى منه الوجه والأطراف فقط، وهو يرى منها ما عدا ما بين السرة والركبة، لأن عورة الأمة مع كل واحد ما بين السرة والركبة - (الجزء الأول، ص 290.)
’’لونڈی، اجنبی مرد کا جتنا جسم دیکھ سکتی ہے، مرد اس سے بڑھ کر اس کا جسم دیکھ سکتا ہے۔ وہ صرف اس کا چہرہ اور ہاتھ پاوں دیکھ سکتی ہے، جبکہ غیر محرم مرد اس کی ناف ے گھٹنوں تک کے حصے کے علاوہ باقی سارا جسم دیکھ سکتا ہے۔
شوافع کا مختار مذہب بھی یہی ہے۔المذهب أن عورتها ما بين السرة والركبة (المهذب في فقه الإمام الشافعي ,أبي اسحق الشيرازي، ص 96)

فتاویٰ عالمگیری کے مطابق
غیر محرم باندی کے جسم کا جس قدر حصہ دیکھنا حلال ہے، اُس کا چھونا بھی حلال ہے بشرطیکہ اپنی ذات اور اُس کنیز کی ذات پر شہوت طاری ہونے کا ڈر نہ ہو۔

غیر محرم باندی کے ساتھ خلوت یا اس کو سفر پر ساتھ لے جانے میں مشائخ حنفیہ کے دو قول ہیں۔ مختار یہ ہے کہ ایسا کرنا درست نہیں، جبکہ شمس الائمہ سرخسی فتوی دیتے تھے کہ غیر کی باندی کے ساتھ سفر کرنا یا خلوت کرنا حلال ہے۔
مشائخ نے کہا ہے کہ لونڈی کو خریدنے کا ارادہ نہ ہو تو بھی لونڈی کے بازووں، پنڈلی اور سینے کو چھونا اور ان حصوں کو ننگا دیکھنا جائز ہے، بشرطیکہ شہوت کی حالت میں نہ ہو۔


اگر لونڈی کو خریدنا مقصود ہو تو پھر حنفی فقہ کے بعض متون کے مطابق پیٹ اور پیٹھ کے علاوہ اس کے جسم کے حصوں پنڈلی، سینہ، بازو وغیرہ کو دیکھنا بھی جائز ہے اور چھونا بھی، چاہے اس سے شہوت پیدا ہونے کا خوف ہو۔ بعض مشائخ کا کہنا ہے کہ دیکھنا تو درست ہے، لیکن اگر شہوت کا خوف ہو تو پھر چھونا نہیں چاہیے۔
مصنف عبد الرزاق کی کتاب الطلاق میں ’’باب الرجل یکشف الامۃ حین یشتریھا’’ کے تحت اس حوالے سے صحابہ وتابعین کے متعدد آثار نقل کیے گئے ہیں۔ چند حسب ذیل ہیں۔
سعید ابن المسیب نے کہا کہ لونڈی کو خریدنے کا ارادہ ہو تو شرم گاہ کے علاوہ اس کا سارا جسم دیکھا جا سکتا ہے۔
شعبی نے بھی کہا کہ شرم گاہ کے علاوہ اس کا سارا جسم دیکھا جا سکتا ہے۔
ابن مسعود کے شاگردوں میں سے بعض نے کہا کہ ایسی لونڈی کو چھونا اور کسی دیوار کا ہاتھ لگانا ایک برابر ہے۔


مصنف عبد الرزاق کے مذکورہ باب کی روایات کے مطابق
حضرت علی سے لونڈی کی پنڈلی، پیٹ اور پیٹھ وغیرہ دیکھنے کے متعلق پوچھا گیا تو انھوں نے کہا کہ کوئی مضائقہ نہیں۔ لونڈی کی کوئی حرمت نہیں۔ وہ (بازار میں) اسی لیے تو کھڑی ہے کہ ہم (دیکھ بھال کر) اس کا بھاو لگا سکیں۔
عبد اللہ بن عمر کے تلامذہ بیان کرتے ہیں کہ انھیں جب کوئی لونڈی خریدنا ہوتی تو اس کی پیٹھ، پیٹ اور پنڈلیاں ننگی کر کے دیکھتے تھے۔ اس کی پیٹھ پر ہاتھ پھیر کر دیکھتے تھے اور سینے پر پستانوں کے درمیان ہاتھ رکھ کر دیکھتے تھے۔

مجاہد کا بیان ہے کہ ایک موقع پر ابن عمر بازار میں آئے تو دیکھا کچھ تاجر لوگ ایک لونڈی کو خریدنے کے لیے الٹ پلٹ کر دیکھ رہے ہیں۔ انھوں نے آ کر اس کی پنڈلیاں ننگی کر کے دیکھیں، پستانوں کے درمیان ہاتھ رکھ کر اس کو جھنجھوڑا اور پھر خریدنے والوں سے کہا کہ خرید لو۔ یعنی اس میں کوئی نقص نہیں۔
ذرا تفصیل سے ترتیب وار ان مسائل کو بیان کرلیں. وضاحت کرلیں ہر مسئلہ میں کس کا موقف درست ہے

Sent from my SM-G360H using Tapatalk
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
24۔ سورة النور

وَأَنكِحُوا الْأَيَامَىٰ مِنكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ ۚإِن يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّـهُ مِن فَضْلِهِ ۗ وَاللَّـهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ
تم میں سے جو مرد عورت بےنکاح کے ہوں ان کا نکاح کر دو اور اپنے نیک بخت غلام اور لونڈیوں کا بھی۔ اگر وه مفلس بھی ہوں گے تو اللہ تعالیٰ انہیں اپنے فضل سے غنی بنا دے گا۔ اللہ تعالیٰ کشادگی واﻻ اور علم واﻻ ہے

(32)

وَلْيَسْتَعْفِفِ الَّذِينَ لَا يَجِدُونَ نِكَاحًا حَتَّىٰ يُغْنِيَهُمُ اللَّـهُ مِن فَضْلِهِ ۗ وَالَّذِينَ يَبْتَغُونَ الْكِتَابَ مِمَّا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ فَكَاتِبُوهُمْ إِنْ عَلِمْتُمْ فِيهِمْ خَيْرًا ۖ وَآتُوهُم مِّن مَّالِ اللَّـهِ الَّذِي آتَاكُمْ ۚ وَلَا تُكْرِهُوا فَتَيَاتِكُمْ عَلَى الْبِغَاءِ إِنْ أَرَدْنَ تَحَصُّنًا لِّتَبْتَغُوا عَرَضَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۚ وَمَن يُكْرِههُّنَّ فَإِنَّ اللَّـهَ مِن بَعْدِ إِكْرَاهِهِنَّ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
اور ان لوگوں کو پاک دامن رہنا چاہیئے جو اپنا نکاح کرنے کا مقدور نہیں رکھتے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ انہیں اپنے فضل سے مالدار بنا دے، تمہارے غلاموں میں جو کوئی کچھ تمہیں دے کر آزادی کی تحریر کرانی چاہے تو تم ایسی تحریر انہیں کردیا کرو اگر تم کو ان میں کوئی بھلائی نظر آتی ہو۔ اور اللہ نے جو مال تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے انہیں بھی دو، تمہاری جو لونڈیاں پاک دامن رہنا چاہتی ہیں انہیں دنیا کی زندگی کے فائدے کی غرض سے بدکاری پر مجبور نہ کرو اور جو انہیں مجبور کر دے تو اللہ تعالیٰ ان پر جبر کے بعد بخشش دینے واﻻ اور مہربانی کرنے واﻻ ہے

(33)

وَلَقَدْ أَنزَلْنَا إِلَيْكُمْ آيَاتٍ مُّبَيِّنَاتٍ وَمَثَلًا مِّنَ الَّذِينَ خَلَوْا مِن قَبْلِكُمْ وَمَوْعِظَةً لِّلْمُتَّقِينَ

ہم
نے تمہاری طرف کھلی اور روشن آیتیں اتار دی ہیں اور ان لوگوں کی کہاوتیں جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں اور پرہیزگاروں کے لئے نصیحت (34)


 
Last edited:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
کیا لونڈی کا ستر ناف سے گھٹنوں تک ہے ؟

تحریر از خاور نعیم
جمہور علمائے امت کے نزدیک لونڈی کا ستر وہی ہے جو مرد کا ستر ہے، یعنی ناف سے گھٹنوں تک۔ جبکہ قرآن و سنت کےعمومی دلائل اس موقف کا ساتھ دینے سے قاصر ہیں۔کسی بھی موقف کے دلائل کو مزید تقویت پہنچانے کیلئے جمہور علمائے امت اور اقوالِ اسلاف، مؤثر قرینہ ثابت ہوتے ہیں،مگر جب دلائل ہی مفقود ہوں یا پایہ ثبوت تک نہ پہنچتے ہوں،یا پھر اس کے بر عکس دلائل ہی جمہور کے موقف کے خلاف ہوں، تو بطورِ قرینہ اس کی کیا حیثیت باقی رہ جاتی ہے،بتانے کی ضرورت نہیں۔ یہاں یہ بات یاد رہے کہ جمہور علماء امت کو ہمیشہ بطورِ قرینہ ہی پیش کیا گیا ہے، بطورِ دلیل نہیں۔ اسی وجہ سے جمہور کے خلاف موقف اپنانے والے کو کبھی امت سے خارج نہیں سمجھا گیا۔ یہ بات اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ جمہور کا موقف اکثر و بیشتر راجح ہی ہوتا ہے، مگر لونڈی کے ستر کے شرعی حکم کے مسئلہ میں ہم ان کا موقف مرجوح سمجھتے ہیں۔ اس کے حق میں جو دلائل دیئے جاتے ہیں, آیئے ان کا جائزہ لیتے ہیں؛
پہلی دلیل :
يا أيها النبي قل لأزواجك وبناتك ونساء المؤمنين يدنين عليهن من جلابيبهن ذلك أدنى أن يعرفن فلا يؤذين وكان الله غفورا رحيما (الاحزاب 59)
اے نبی! اپنی بیویوں، بیٹیوں اور مؤمنوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر جلباب اوڑھ کر رکھیں، یہ اقرب ہے کہ وہ پہچانی جائیں اور پھر اذیت نہ دی جائیں۔ اور اللہ بخشنے والا، رحم فرمانے والا ہے۔
اس کی تفسیر مختصراً یوں بیان کی گئی ہے کہ رات کو جب عورتیں قضائے حاجت کیلئے نکلتی تھیں تو راستے میں غنڈے انہیں چھیڑ دیتے تھے،جب ان سے پوچھ گچھ کی جاتی تو کہتے کہ ہم نے سمجھا کہ شاید لونڈی ہے۔ تو اللہ نے پھر یہ حکم نازل فرمایا۔ اس پر جو اعتراض وارد ہوتا ہے، آیئے امام ابنِ حزم کی زبانی ملاحظہ فرمایئے :
وَقَدْ ذَهَبَ بَعْضُ مَنْ وَهَلَ فِي قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلابِيبِهِنَّ ذَلِكَ أَدْنَى أَنْ يُعْرَفْنَ فَلا يُؤْذَيْنَ} [الأحزاب: 59] إلَى أَنَّهُ إنَّمَا أَمَرَ اللَّهُ تَعَالَى بِذَلِكَ لِأَنَّ الْفُسَّاقَ كَانُوا يَتَعَرَّضُونَ لِلنِّسَاءِ لِلْفِسْقِ؛ فَأَمَرَ الْحَرَائِرَ بِأَنْ يَلْبَسْنَ الْجَلَابِيبَ لِيَعْرِفَ الْفُسَّاقُ أَنَّهُنَّ حَرَائِرُ فَلَا يَعْتَرِضُوهُنَّ. قَالَ عَلِيٌّ: وَنَحْنُ نَبْرَأُ مِنْ هَذَا التَّفْسِيرِ الْفَاسِدِ، الَّذِي هُوَ: إمَّا زَلَّةُ عَالِمٍ وَوَهْلَةُ فَاضِلٍ عَاقِلٍ؛ أَوْ افْتِرَاءُ كَاذِبٍ فَاسِقٍ؛ لِأَنَّ فِيهِ أَنَّ اللَّهَ تَعَالَى أَطْلَقَ الْفُسَّاقَ عَلَى أَعْرَاضِ إمَاءِ الْمُسْلِمِينَ، وَهَذِهِ مُصِيبَةُ الْأَبَدِ، وَمَا اخْتَلَفَ اثْنَانِ مِنْ أَهْلِ الْإِسْلَامِ فِي أَنَّ تَحْرِيمَ الزِّنَى بِالْحُرَّةِ كَتَحْرِيمِهِ بِالْأَمَةِ؛ وَأَنَّ الْحَدَّ عَلَى الزَّانِي بِالْحُرَّةِ كَالْحَدِّ عَلَى الزَّانِي بِالْأَمَةِ وَلَا فَرْقَ، وَإِنَّ تَعَرُّضَ الْحُرَّةِ فِي التَّحْرِيمِ كَتَعَرُّضِ الْأَمَةِ وَلَا فَرْقَ۔۔۔الخ (المحلی بالآثار 249/2)۔
بعض لوگوں نے اللہ کے کلام میں یہ سہو پیدا کرنے کی کوشش کی کہ احزاب 59 کی مذکورہ بالا آیت میں اللہ نے اس لئے حکم دیا کہ فاسقین،عورتوں کو فسق کیلئے چھیڑتے تھے،تو اللہ نے آزاد عورتوں کو حکم دیا کہ جلباب اوڑھ لیں، تا کہ فساق انہیں پہچان لیں کہ یہ آزاد عورتیں ہیں،تو ان سے تعرض نہ کریں۔امام ابنِ حزم کہتے ہیں کہ ہم اس فاسد تفسیر سے بری ہیں جوکہ یا تو عالم کا پھسلنا ہے،یا عاقل و فاضل کا سہو ہے یا پھر جھوٹے فاسق کی افتراء پردازی ہے، کیونکہ اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اللہ نے فساق کو مسلمان لونڈیوں کی عزت سے کھلواڑ کرنے کی اجازت دے دی۔یہ مصیبت ہمیشہ ہمارے گلے پڑی رہے گی۔مسلمانوں میں سے کسی دو آدمیوں میں بھی یہ اختلاف نہیں پایا جاتا کہ آزاد عورت اور لونڈی،دونوں سے زنا حرمت میں برابر ہیں۔ آزاد عورت سے زنا کرنے والے کو بھی وہی حد لگائی جائے گی جو لونڈی سے زنا کرنے والے کو لگائی جائے گی، دونوں میں کوئی فرق نہیں۔ آزاد عورت کو چھیڑنا،حرمت میں لونڈی کو چھیڑنے کے برابر ہے، اس میں بھی کوئی فرق نہیں۔۔۔۔الخ
اول تو اس تفسیر میں جتنے بھی اقوال ہیں،کوئی بھی بلحاظِ سند علت سے خالی نہیں۔ مختصراً ان پر تبصرہ حسبِ ذیل ہے؛
1۔ ابنِ عباس رضی اللہ عنہ (تفسیر الطبری 331/10، اس میں امام محمد بن سعدؒ کے والد، پھر ان کے چچا،پھر ان کے والد، پھر ان کے والد سب مجاہیل میں سے ہیں۔ کتبِ اسماء الرجال میں ان کا کوئی اتہ پتہ نہیں)۔
2۔ یا ابو قلابہؒ،(ان کا ذکر آگے آئے گا، ان شاء اللہ)۔
3۔ ابو مالکؒ (طبقات ابن سعد 176/8، اس میں واقدی مشہور کذاب و متروک ہے۔ دیکھئے تقریب التہذیب 498/1)۔
4۔ زہریؒ،(تفسیر ابن ابی حاتم 3154/10، رقم الحدیث 17786، اس میں ابو صالح عبد اللہ بن صالح مختلف فیہ راوی ہے۔ حافظ ابنِ حجرؒ کے نزدیک یہ صدوق،مگر کثیر الغلط اور غفلت برتنے والا تھا، لیکن کتاب سے دیکھ کر صحیح روایت کرتا تھا۔ دیکھئے تقریب التہذیب 308/1۔ علامہ ذہبیؒ کے نزدیک یہ کمزور تھا۔ جزرہ نے اسے کذاب کہہ دیا ہے۔ دیکھئے الکاشف 562/1۔ نیز یونس بن یزیدؒ کی زہریؒ سے روایت میں وہم ہوتا تھا۔ دیکھئے تہذیب الکمال 555/32)۔
5۔ محمد بن کعب القرظیؒ (طبقات ابن سعد 176/8،اس میں واقدی مشہور کذاب و متروک ہے۔ دیکھئے تقریب التہذیب 498/1، نیز أبو بكر بن عبد الله بن محمد بن أبى سبرة متروک ہے، دیکھئے تقریب التہذیب 623/1)۔،
6۔ کلبی (درِ منثور 660/6، اس کی سند پر ہم مطلع نہیں ہو سکے۔ اگر اس سے مراد وہی مشہور محمد بن سائب الکلبی ہے تو وہ بذاتِ خود کذاب و متروک ہے۔ دیکھئے تقریب التہذیب 479/1)۔
7۔ حسن بصریؒ (طبقات ابن سعد 176/8، اس میں واقدی مشہور کذاب و متروک ہے۔ دیکھئے تقریب التہذیب498/1، نیز قتادہؒ مدلس ہیں، دیکھئے طبقات المدلسین لابن حجر 43/1، اور روایت معنعن ہے)۔
8۔ مجاہدؒ (تفسیر الطبری 331/10 و طبقات ابن سعد 176/8، اس میں عند اللہ بن ابی نجیحؒ مدلس ہیں،دیکھئے طبقات المدلسین لابن حجر 39/1، اور روایت معنعن ہے)۔
9۔ ابو صالحؒ،(تفسیر الطبری 331/10، اس میں ایک راوی مجہول ہے،اور امام طبریؒ کا استاد محمد بن حمید الرازی ضعیف عند الجمہور ہے، دیکھئے الکاشف 166/2)۔
10۔ قتادہؒ (تفسیر الطبری 331/10، اس میں سعید بن ابی عروبہؒ مدلس ہیں اور قتادہؒ سے ان کی اکثر مرویات اختلاط کا شکار ہیں، دیکھئے طبقات المدلسین لابن حجر 31/1، اور روایت معنعن ہے)۔
سدیؒ، معاویہ بن قرۃؒ ( درِ منثور 660/6، ان دو اقوال کی اسناد پر مطلع نہیں ہو سکا، اگر ان تک اسناد صحیح بھی ہوں تو دین میں ان کی حجیت کا کوئی تصور نہیں۔ راقم)۔
دوم: ان اقوال کے مقابلے میں بخاری کی صحیح مرفوع روایت میں جو اس کا شانِ نزول بیان ہوا ہے، وہ اس تفسیر سے مستغنی کر دیتا ہے:
عن عائشة رضي الله عنها قالت خرجت سودة بعد ما ضرب الحجاب لحاجتها وكانت امرأة جسيمة لا تخفى على من يعرفها فرآها عمر بن الخطاب فقال ياسودة أما والله ما تخفين علينا فانظري كيف تخرجين . قالت فانكفأت راجعة ورسول الله صلى الله عليه وسلم في بيتي وإنه ليتعشى وفي يده عرق فدخلت فقالت يا رسول الله إني خرجت لبعض حاجتي فقال لي عمر كذا وكذا قالت فأوحى الله إليه ثم رفع عنه وإن العرق في يده ما وضعه فقال ( إنه قد أذن لكن أن تخرجن لحاجتكن )۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حکمِ حجاب کے نزول کے بعد سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا قضائے حاجت کیلئے گھر سے باہر نکلیں۔بھاری بھر کم جسامت کی وجہ سے انہیں پہلے سے جاننے والا انہیں آسانی سے پہچان سکتا تھا۔ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے انہیں دیکھ لیا۔ بولے کہ اے سودہ، آپ خود کو ہم سے نہ چھپا سکیں، دیکھ لیں کہ آپ کیسے باہر نکلی ہیں۔ وہ الٹے پاؤں واپس لوٹیں۔جبکہ آپ علیہ السلام میرے گھر میں رات کا کھانہ کھا رہے تھے اور آپ علیہ السلام کے ہاتھ میں ہڈی تھی۔ کہنے لگیں کہ اے اللہ کے رسول، میں قضائے حاجت کیلئے باہر نکلی تو عمر رضی اللہ عنہ نے مجھ سے اس اس طرح باتیں کیں۔ آپ علیہ السلام پر کیفیتِ وحی طاری ہو گئی۔ جب یہ کیفیت ختم ہوئی تو ہڈی کو ہاتھ میں تھامے ہوئے فرمایا۔ تمہیں اپنی حاجات کیلئے باہر نکلنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ (بخاری 4517)۔
اس روایت کو امام ابنِ ابی حاتمؒ (تفسیر ابن ابی حاتم 3153/10،رقم الحدیث 17781)، علامہ سیوطیؒ (درِ منثور659/6)، علامہ شوکانیؒ (فتح القدیر 435/4)، علامہ صدیق حسن خان قنوجیؒ (فتح البیان 144/11) نے احزاب 59 کی تفسیر میں ذکر کیا ہے۔
حافظ ابنِ حجرؒ اس کی شرح میں فرماتے ہیں؛
قال الكرماني فإن قلت وقع هنا أنه كان بعد ما ضرب الحجاب وتقدم في الوضوء أنه كان قبل الحجاب فالجواب لعله وقع مرتين قلت بل المراد بالحجاب الأول غير الحجاب الثاني والحاصل أن عمر رضي الله عنه وقع في قلبه نفرة من اطلاع الأجانب على الحريم النبوي حتى صرح يقوله له عليه الصلاة والسلام احجب نساءك وأكد ذلك إلى أن نزلت آية الحجاب ثم قصد بعد ذلك أن لا يبدين أشخاصهن أصلا ولو كن مستترات فبالغ في ذلك فمنع منه وأذن لهن في الخروج لحاجتهن دفعا للمشقة ورفعا للحرج
علامہ کرمانیؒ فرماتے ہیں کہ اگر آپ کہیں کہ یہاں حکمِ حجاب کے نزول کے بعد اس واقعے کا ذکر ہے جبکہ کتاب الوضوء میں جو روایت ہے، اس میں حجاب سے پہلے اس واقعہ کے رونما ہونے کا ذکر ہے،تو جواب یہ ہے کہ یہ واقعہ دو بار پیش آیا۔ میں (حافظ ابنِ حجرؒ) کہتا ہوں کہ وہ پہلے حجاب (احزاب 53) کے بارے میں ہے، حجابِ ثانی (احزاب 59) کے بارے میں نہیں ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو برا لگتا تھا کہ اجنبی لوگ، حریمِ نبوی کو دیکھیں۔ حتی کہ صراحتاً آپ علیہ السلام سے کہہ بھی دیا کہ اپنی ازواج کو پردہ کرائیں۔ پھر اس پر اصرار فرماتے رہے۔ حتی کہ حجاب کی (احزاب 53) آیت نازل ہوئی۔ پھر ان کا یہ ارادہ ہوا کہ اگر وہ پردے میں بھی ہوں،تب بھی ان کی پہچان ظاہر نہ ہو۔ پھر اس مین بھی مبالغہ فرمانے لگے، تو اللہ نے منع فرما دیا اور انہیں اپنی حاجات کیلئے گھر سے باہر نکلنے کی اجازت دی،(الاحزاب 59)، تا کہ وہ مشقت اور تنگی میں نہ پڑیں۔(فتح الباری 531/8)۔
اس روایت سے واضح ہوتا ہے کہ اس آیت کے نزول کا اصل مقصد، آپ علیہ السلام کی ازواج، بنات اور مؤمنین کی عورتوں کو جلباب کی شرط کے ساتھ قضائے حوائج کیلئے رات کے وقت گھر سے باہر نکلنے کی اجازت دینا ہے،نہ کہ آزاد عورت اور لونڈی کے لباس کا فرق بیان کرنا۔ رات کے وقت ایک شریف عورت،جو کہ صرف اپنی کسی ضروری حاجت کیلئے باہر نکلی ہو، کو کوئی آدمی پہچان لے،تو یہ بات ان کیلئے باعثِ شرم و عار ہوتی ہے،جیسا کہ سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا نے محسوس کیا،حالانکہ ان کی عمر کافی زیادہ ہو چکی تھی،مگر جلباب اوڑھنے کی وجہ سے یہ پہچان تو ہو جائے گی کہ کوئی شریف عورت ہی جا رہی ہے،مگر ان کی شخصیت کو کوئی پہچان نہ پائے گا، لہذا اذیت سے بھی محفوظ ہو جائیں گی۔
سوم یہ کہ اگر ان اقوال کو مستند بھی مانا جائے تو ان میں صرف آزاد عورت اور لونڈی کے لباس میں فرق کا بیان ہے اور وہ فرق کیا ہے؟ آپ علیہ السلام کی سنت اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے حکم سے پتہ چل جاتا ہے؛
سیدہ صفیہ بنت حیی جب خیبر میں مفتوح ہو کر آئیں تو مسلمان کہنے لگے کہ پتہ نہیں یہ مؤمنوں کی ماں بنیں گی یا پھر انہیں لونڈی بنایا جائے گا۔ پھر اس بات پر اتفاق ہوا کہ اگر آپ نے انہیں پردہ کرایا تو ام المؤمنین ہوں گی اور اگر نہ کرایا تو لونڈی۔ جب کوچ کرنے کا وقت ہوا تو آپ علیہ السلام نے انہیں سواری پر اپنے پیچھے بٹھانے کیلئے جگہ بنائی اور ان کیلئے پردہ کا اہتمام فرمایا۔(بخاری 3976)۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے لونڈیوں کو سر پر دوپٹہ لینے سے منع کر دیا تھا اور حکم دیا تھا کہ آزاد عورتوں سے مشابہت اختیار نہ کریں۔(سنن الکبری للبیہقی3037، امام بیہقیؒ نے ان آثار کو صحیح کہا ہے، البتہ علامہ البانیؒ اس روایت کو نقل کر کے فرماتے ہیں؛ رجاله ثقات غير أحمد بن عبد الحميد فلم أجد له ترجمة۔ دیکھئے ارواء الغلیل 204/6۔ اس کا ترجمہ حسبِ ذیل ہے؛
امام ابنِ حبانؒ نے أحمد بن عبد الحميد کو "ثقات" میں ذکر کیا ہے۔ (الثقات لابن حبان 51/8)۔
امام دارقطنیؒ فرماتے ہیں؛ أحمد بن عبد الحميد بن خالد أبو جعفر الحارثي كوفي ثقة (سوالات الحاکم للدارقطنی 84/1)۔
امام بیہقیؒ نے اس کی روایت کی سند کو صحیح قرار دیا ہے۔ (سنن الکبری للبیہقی 3037 و 13419)۔
نیز فرماتے ہیں؛ أبو جعفر أحمد بن عبد الحميد الحارثي الكوفي الرجل الصالح (سنن الکبری للبیہقی 7636، 192/4)۔
علامہ ذہبیؒ کہتے ہیں؛ المُحَدِّثُ، الصَّدُوْقُ (سیر اعلام النبلاء 24/7) )۔)۔
یعنی اگر فرق ہے تو صرف اتنا کہ لونڈی سر اور چہرے کو نہیں چھپائے گی، جبکہ باقی جسم کے متعلق کسی بھی نص میں کوئی تصریح نہیں ہے۔
چہارم یہ کہ شانِ نزول کے انہی اقوال سے ہی پتہ چلتا ہے کہ لونڈی کا ستر ناف سے گھٹنے تک قرار دینا درست نہیں۔ کیونکہ اگر لونڈی صرف ناف سے گھٹنے تک ستر کر کے اور باقی جسم برہنہ کر کے گھر سے باہر نکلتی تو اسے پہچاننا تو بہت آسان ہوتا۔ اصل مسئلہ ہی یہ تھا کہ لونڈی اور آزاد عورت کا لباس ایک جیسا تھا تو غنڈوں کو پہچاننے میں مشکل ہوتی۔ لہذا انہی اقوال سے لونڈی کا ستر ناف سے گھٹنے تک ہونا باطل ٹھہرتا ہے۔
پنجم یہ کہ اسی شانِ نزول کو اگر درست مانا جائے تو جلباب اوڑھنے کا حکم رات کے ساتھ مقید کرنا پڑے گا،عام آزاد عورتوں کیلئے دن میں جلباب اوڑھنے کی کوئی دلیل نہ ہو گی۔ ہاں امہات المؤمنین اس سے مستثنی قرار پائیں گی کیونکہ ان کیلئے خاص ہر وقت کیلئے پردے کا حکم اس سے پہلے ہی اتر چکا تھا۔ (احزاب 53)۔
ششم یہ کہ اس شانِ نزول کو اگر درست بھی مان لیا جائے تو اس کی توجیہ اس انداز میں ممکن ہے کہ جو شریعت كی دیگر عمومی نصوص یا قواعد ومقاصد كے مطابق ہے۔ وہ اس طرح کہ
اولاً :اس قرآنی حکم کو تمام مسلمات کیلئے عام سمجھا جائے،یعنی مسلم لونڈیاں بھی اسی میں شامل ہوں، جیساکہ بعض مفسرین بھی اسی کے قائل ہیں؛ علامہ ابنِ عاشورؒ فرماتے ہیں؛
فَلَيْسَ الْمُرَادُ بِالنِّسَاءِ هُنَا أَزْوَاجَ الْمُؤْمِنِينَ بَلِ الْمُرَادُ الْإِنَاثُ الْمُؤْمِنَاتُ، وَإِضَافَتُهُ إِلَى الْمُؤْمِنِينَ عَلَى مَعْنَى (مِنْ) أَيِ النِّسَاءِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ.
یہاں عورتوں سے مراد صرف مؤمنین کی بیویاں ہی نہیں، بلکہ تمام مؤمنات عورتیں ہیں۔ اور مؤمنین کی طرف اس کی اضافت اس معنی میں ہے کہ مؤمنوں کی کوئی بھی عورت ہو۔(التحریر والتنویر 106/22)۔
علامہ ابو حیان اندلسیؒ فرماتے ہیں؛
وَالظَّاهِرُ أَنَّ قَوْلَهُ: وَنِساءِ الْمُؤْمِنِينَ يَشْمَلُ الْحَرَائِرَ وَالْإِمَاءَ، وَالْفِتْنَةُ بِالْإِمَاءِ أَكْثَرُ، لِكَثْرَةِ تَصَرُّفِهِنَّ بِخِلَافِ الْحَرَائِرِ، فَيَحْتَاجُ إِخْرَاجُهُنَّ مِنْ عُمُومِ النِّسَاءِ إلى دليل واضح
اور ظاہر ہے کہ اللہ کا یہ فرمان، آزاد عورتوں اور لونڈیاں، دونوں پر شامل ہے۔ بلکہ لونڈیوں کے ساتھ یہ فتنہ اکثر و بیشتر کثرتِ تصرف کی وجہ سے پیش آتا رہتا ہے۔ لہذا "نساء" سے ان کو خارج سمجھنا، کسی واضح دلیل کا محتاج ہے۔ (البحر المحیط 240/7)۔
یہ ایسے ہی ہے کہ جیسے اللہ نے قرآن میں اکثر مقامات پر مؤمن مردوں کو مخاطب کر کے احکامات دیئے ہیں، مگر مؤمنات پر بھی وہ ایسے ہی فرض ہیں جیسے مؤمنین پر، کیونکہ وہ انہی میں شامل ہیں۔ اسی طرح نساء المؤمنین میں مؤمن لونڈیاں بھی شامل ہیں۔ بعض علماء کہتے ہیں کہ قرآن نے ایک اور مقام پر ان دونوں میں تفریق کی ہے؛
أو نسائهن أو ما ملكت أيمانهن (النور 31)۔
ولا نسائهن ولا ما ملكت أيمانهن (الاحزاب 55)۔
تو یہ تفریق نہیں،بلکہ تاکیداً انہیں الگ الگ بیان کیا گیا ہے، جیسے اللہ نے بہت سے مقامات پر مؤمن مردوں اور عورتوں کو الگ الگ خطاب فرمایا ہے؛
والمؤمنون والمؤمنات بعضهم أولياء بعض ۔۔۔۔۔
وعد الله المؤمنين والمؤمنات جنات۔۔۔۔۔ (التوبۃ 71 و 72) وغیرھما۔
ثانیاً:اسے رات کے ساتھ مقید کر دیا جائے (جیسا کہ اسی آیت میں اشارہ موجود ہے اور شانِ نزول کے اقوال بھی اسی کے مؤید ہیں)۔ یعنی رات کو جو بھی با حیا مسلم عورت نکلے، غنڈوں کے شر سے بچنے کیلئے جلباب اوڑھ کر نکلے۔ اور لونڈیوں اور آزاد عورت کے لباس میں فرق والی روایتوں کو دن کے اوقات پر محمول کر لیا جائے، یعنی آزاد عورتیں دن کے وقت بھی جلباب اوڑھ کر رکھیں جبکہ لونڈیاں سر اور منہ پر کپڑا نہ لیا کریں۔ اس توجیہ کیلئے مندرجہ ذیل قرائن میسر ہیں :
1۔ آیت اپنے حکم میں عام ہے۔ اس میں آزاد اور لونڈی کے فرق کا بالکل ذکر نہیں۔
2۔ جلباب کا مقصد پہچان ہے اور اسی پہچان کی وجہ سے اذیت سے بچاؤ ہے۔ یعنی جس صورتحال کا اس آیت میں ذکر ہے، اس میں جلباب کے بغیر پہچان مشکل تھی،لہذا عورتوں کو بغیر پہچان کے اذیت دی جاتی تھی۔ اور ایسا صرف رات میں ہی ممکن تھا، کیونکہ اول تو دن میں لوگوں کی موجودگی میں غنڈوں کیلئے چھیڑ خانی کرنا مشکل ہوتا تھا۔ ثانیاً دن کے وقت بغیر جلباب کے پہچان زیادہ آسان تھی۔ لوگ پہچان سکتے تھے کہ کون آزاد یا شریف عورت ہے اور کون فاحشہ لونڈی۔ اس زمانے میں ایک با وقار آزاد خاتون كے مقابل ایک لونڈی كا معاملہ شر پسندوں كے لئے اسہل تھا۔ ہاں رات کے وقت گھپ اندھیرے میں پہچاننا مشکل ہوتا تھا کہ شریف عورت جا رہی ہے یا فاحشہ۔ تو جلباب ہی اس کا بہترین حل تھا۔
3۔ دن کے وقت لونڈی اور آزاد عورت کے لباس میں فرق کی دلیل سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا حکم ہے جو کہ اوپر گزر چکا۔ آپ علیہ السلام نے کوچ کے وقت پردہ کرایا (بخاری 3976) اور کوچ دن کو ہی ہوتا ہے،رات کو پڑاؤ ہوتا ہے۔ اور ( سنن البیہقی 3037) سے پتہ چلتا ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے جس لونڈی کو جلباب اوڑھنے سے منع کیا تھا،زیادہ قرینِ قیاس یہی ہے کہ اسے دن کے وقت دیکھا تھا، کیونکہ؛
  • جلباب اوڑھنے کے باوجود آپ کو اس کے آزاد ہونے میں شک گزرا، حالانکہ رات کے گھپ اندھیرے میں صرف جلباب ہی نظر آ سکتا تھا، مزید شک والی چیز دیکھنا ممکن نہ تھا۔ہاں دن میں یہ ممکن تھا کہ جلباب والی عورت کو لونڈیوں والے کام کاج یا سودا سلف کی خریداری کرتے دیکھ کے شک گزرا ہو۔
  • بلکہ دیگر حضرات نے تو مکمل طور پر پہچان کر اس کا اتہ پتہ بھی بتا دیا کہ یہ آپ کے خاندان سے ہی تھی۔
  • سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا فوراً سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہ کو پیغام بھیج دینا بھی ظاہر کرتا ہے کہ یہ جاگنے کا وقت تھا۔
  • مجلس میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ و دیگر حضرات کا موجود ہونا بھی مؤید ہے کہ یہ خلوت کا وقت نہیں تھا۔
رہا ابو قلابہؒ تابعی کا یہ کہنا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت میں کوئی سر ڈھانپنے والی لونڈی نہیں چھوڑی تھی۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ 6242)۔ تو اول تو ابو قلابہؒ نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا زمانہ نہیں پایا۔ دوم یہ کہ اس کی سند میں ھشیم بن بشیرؒ مدلس ہیں اور روایت معنعن ہے، لہذا قابلِ حجت نہیں۔
نیز چھیڑ خوانی کا خطرہ نہ بھی ہو تو بھی معاشرے میں آزاد و مملوک، بلکہ موجودہ ترقی یافتہ دور میں بھی مالک و نوکر کے درمیان دنیاوی فرق روا ہے۔ لہذا صرف چھیڑ خانی کو ہی آزاد اور باندی کے لباس میں فرق کی وجہ بتانا زیادہ معقول بات نہیں۔سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا اثر بھی اس کا مؤید ہے۔ یہ بات الگ ہے کہ جلباب اوڑھنا، چھیڑخانی سے بچاؤ کا مؤثر ترین ذریعہ اس وقت بھی تھا اور اب بھی ہے۔
رہا یہ سوال کہ اگر ان اقوال کی صحت پر شک کیا جائے تو پھر جلباب اوڑھنے کی وجہ کیا ہو گی کہ چھیڑ خانی کا ذکر تو انہی میں ہے؟ تو اس کا جواب ہے کہ اذیت رسانی کا ذکر تو قرآن میں بھی موجود ہے۔ "لکیلا یؤذین" کے الفاظ اس پر دلالت کر رہے ہیں۔ سوچنا یہ ہے کہ وہ کونسی اذیت رسانی ہے،جس کا تعلق صرف عورتوں سے ہے،اور جلباب اوڑھ کر اس سے بچا جا سکتا ہے؟ تو یہ اذیت دو قسم کی ہو سکتی ہے؛
اول تو وہی شرم و عار،جو کہ رات کے وقت گھر سے باہر پہچانے جانے پر ہو سکتی ہے۔
دوم :غنڈوں کی چھیڑ خانی ۔ تفسیری اقوال اسی کے مؤید ہیں۔ مگر کچھ بھی ہو، باندیوں کی عزت کو غنڈوں کے حوالے کرنا، اسلامی غیرت و عفت کے مجموعی مزاج کے خلاف ہے،جیسا کہ امام ابنِ حزمؒ نے فرمایا۔ نیز یہ اقوال دین میں حجت بھی نہیں، لہذا قابلِ قبول نہیں۔ ممکن ہے کہ، بشرطِ صحت، یہ قائلین کا اپنا فہم ہو۔
دوسرا سوال یہ کہ پھر "ان یعرفن" کی توجیہ کیا ہوگی؟ تو جواب ہے کہ اس سے مراد ان کے شریف ہونے اور فواحش کی طرف راغب نہ ہونے کی پہچان ہے، جیسا کہ موجودہ دور میں بھی شریف، نظر نیچی رکھنے والی با پردہ خاتون کو چھیڑنے سے غنڈے باز رہتے ہیں، کہ اس کے آگے ان کی بد نیتی نہیں چل سکتی۔
خلاصہ یہ کہ اس آیت سے لونڈی کا ستر ناف سے گھٹنے تک ثابت نہیں ہوتا۔ بلکہ اس کے ساتھ جب تک دوسرے قرائن کو نہ ملایا جائے تو آزاد اور لونڈی کے لباس میں فرق بھی ثابت نہیں ہوتا۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
کیا لونڈی کا ستر ناف سے گھٹنوں تک ہے ؟
( دوسری و تیسری دلیل کا جواب)
تحریر از خاور نعیم
دوسری دلیل :
عن ابن عباس رضي الله عنهما قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : من أراد شراء جارية أو اشتراها فلينظر إلى جسدها كله إلا عورتها وعورتها ما بين معقد إزارها إلى ركبتها
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو کوئی لونڈی خریدنے یا بیچنے کا ارادہ رکھتا ہو،اسے چاہیئے کہ وہ لونڈی کا سارا جسم دیکھے،سوائے ستر کے۔ اور اس کا ستر اس کے ازار باندھنے کی جگہ سے لیکر گھٹنوں تک ہے۔ (سنن البیہقی 10571 و 3039)۔
یہ روایت محمد بن کعب القرظی عن ابن عباس عن النبی کی سند سے مروی ہے۔مختصراً عرض ہے کہ محمد بن کعب سے اسے روایت کرنے والا
ایک تو صالح بن حسان ہے (المعجم الکبیر 10773، سنن الکبری للبیہقی 3041، الکامل لابن عدی 390/2، المجروحین لابن حبان 368/1) یہ بالاتفاق ضعیف ہے (تقریب التہذیب 271/1، تقریباً تیس سے زائد محدثین سے اس کی تضعیف منقول ہے اور توثیق کا ادنی کلمہ بھی دستیاب نہیں۔ تفصیل کا یہ موقع نہیں)۔
دوسرا عیسی بن میمون المدنی ہے۔ (سنن الکبری للبیہقی 3040، الکامل لابن عدی 241/5)۔ اس کے ضعف پر بھی محدثین کا اتفاق ہے۔ (تقریب التہذیب 441/1)۔ لہذا یہ روایت قابلِ استدلال نہیں ہے۔ مزید تفصیل کیلئے دیکھئے (الضعیفۃ 424)۔ نیز اگر اسے صحیح بھی مان لیا جائے تو بھی یہ رخصت بوقتِ بیع ہی قرار پاتی ہے، نہ کہ عام حالات میں۔
تیسری دلیل :
عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده عن النبي صلى الله عليه وسلم قال : إذا زوج أحدكم خادمه عبده أو أجيره فلا ينظرن إلى ما دون السرة وفوق الركبة
عمرو بن شعیب اپنے باپ سے اور وہ ان کے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ تم میں جو کوئی اپنے غلام یا اجیر کی شادی کر دے، تو اس کی ناف سے نیچے اور گھٹنوں سے اوپر کچھ نہ دیکھے۔ (سنن ابی داؤد 496 و 4114، سنن الکبری للبیہقی 3036)۔
یہ روایت سنداً و متناً دونوں لحاظ سے مضطرب ہے۔ سند میں روی کے نام میں اضطراب ہے اور اطرافِ متن میں کبھی یہ ذکر ملتا ہے کہ آقا اپنی لونڈی کی شادی کرنے کے بعد اس کے ستر کو نہ دیکھے،کبھی یہ لکھا ملتا ہے کہ لونڈی اپنی شادی کے بعد اپنے آقا کا ستر نہ دیکھے۔(تفصیل کیلئے ملاحظہ ہو سنن الکبری للبیہقی، جلد 2، صفحہ 226 سے 229۔ الضعیفۃ تحت الحدیث 956)۔ اسی لئے امام بیہقیؒ نے بھی اس پر عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ اس معاملے میں ان کا موقف ہم آگے ذکر کریں گے۔ ان شاء اللہ۔ علامہ البانیؒ نے اسے ضعیف و مضطرب قرار دیا ہے اور آخر میں فرماتے ہیں؛
وإذا عرفت ذلك ، فمن الغرائب أن تتبنى بعض المذاهب هذا الحديث فتقول : بأن الأمة عورتها عورة الرجل ! ويرتب على ذلك جواز النظر إليها بل هذا ما صرح به بعضهم ، فقالوا : فيجوز للأجنبي النظر إلى شعر الأمة وذراعها وساقها وصدرها وثديها " ذكره الجصاص في " أحكام القرآن " ( 3 / 390 ) ، ولا يخفى ما في ذلك من فتح باب الفساد ، مع مخالفة عمومات النصوص التي توجب على النساء إطلاقا التستر ، وعلى الرجال غض البصر
جب آپ کو (اس روایت کی حقیقت کا) پتہ چل گیا تو بڑی عجیب بات ہے کہ اس روایت کی بنا پر مختلف موقف اختیار کئے گئے۔ کوئی کہتا ہے کہ لونڈی کا ستر، آدمی کے ستر جیسا ہے، پھر اسی پر اس کی طرف دیکھنے، بلکہ بعض حضرات نے بالصراحت اجنبی کیلئے لونڈی کے بالوں، بازوؤں، پنڈلیوں، سینہ اور پستان کو دیکھنے کے جواز قائم کر لیئے۔ جیسا کہ ابو بکر الجصاص حنفیؒ نے احکام القرآن میں ذکر کیا ہے۔ اور اس سے فساد کا جو دروازہ کھل سکتا ہے،وہ کسی سے مخفی نہیں۔ پھر یہ عورتوں پر پردے کے وجوب اور مردوں پر نگاہ نیچی رکھنے والی نصوص کی بھی مخالفت ہے۔ (الضعیفۃ 373/2،تحت الحدیث 956)
ایک اور جگہ فرماتے ہیں؛
و اعلم أنه لم يثبت في السنة التفريق بين عورة الحرة , و عورة الأمة, وقدذكرت ذلك مع شيء من التفصيل في كتابي " حجاب المرأة المسلمة " فليرجع إليه من شاء
اور جان لو کہ سنت میں آزاد عورت اور لونڈی کے ستر کے ما بین فرق ثابت نہین ہے۔ اس پر میں نے کچھ تفصیل اپنی کتاب "حجاب المرآۃ المسلمہ" میں ذکر کی ہے۔ جو کوئی چاہے،اس کی طرف رجوع کر سکتا ہے۔(الضعیفۃ 410/6، تحت الحدیث 424)۔
نیز اگر اسے صحیح بھی مان لیا جائے تو یہ حکم آقا کیلئے ہو گا یا لونڈی کیلئے ہو گا۔ چونکہ شادی سے پہلے ان کیلئے مباشرت حلال تھی اور ملکیت تو ابھی بھی اسی کی ہے۔ اجنبی شخص کیلئے اس میں کوئی جواز نہیں۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
کیا لونڈی کا ستر ناف سے گھٹنوں تک ہے ؟


تحریر از خاور نعیم
اب بات آ جاتی ہے آثارِ صحابہ کی۔ اول تو ان کے حجت ہونے میں امت کا اختلاف ہے۔ دوم، ان میں بھی کوئی حکم موجود نہیں، بلکہ تعامل کا ہی ذکر ہے۔ نہ ہی انہوں نے یہ بتایا ہے کہ ہمیں ایسا کوئی حکم دیا گیا ہے۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ وہ معصوم عن الخطاء نہ تھے۔ لہذا اگر ان سے ایسا کوئی موقف ثابت ہو بھی جائے،تو قرآن و حدیث کے عمومی دلائل کی بناء پر مرجوح ہی متصور ہو گا۔ یہاں پر ہم ان کے آثار کو دلیل فرض کرتے ہوئے جائزہ لیتے ہیں کہ کیا واقعی ان سے یہ موقف ثابت ہے؟ ملاحظہ فرمائیں؛
أنس بن مالك قال : كن إماء عمر رضي الله عنه يخدمننا كاشفات عن شعورهن تضرب ثديهن (سنن الکبری للبیہقی 3038, تفسیر یحیی بن سلام 739/2 و 441/1)۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی باندیاں ہماری خدمت کیا کرتی تھیں۔ ان کے سر کے بالوں پر کپڑا نہ ہوتا تھا،ان کی چھاتیاں حرکت کرتی تھیں۔
یہاں پر بعض لوگ یہ مغالطہ دے سکتے ہیں کہ امام بیہقیؒ نے اسے باب عورة الأمة یعنی لونڈی کے ستر کے باب میں بیان کیا ہے،تو ظاہر ہے کہ وہ بھی لونڈی کے سینے کو ستر نہیں سمجھتے، تو اس شبہ کا ازالہ اس طرح ہے کہ اس باب میں امام بیہقیؒ نے چھ روایات نقل کی ہیں۔ پہلی اور دوسری روایت تو وہی ہے جسے ہم نے تیسری دلیل کے تحت نقل کیا ہے۔ ان کے بارے میں امام بیہقیؒ خود فرماتے ہیں؛
فأما حديث عمرو بن شعيب فقد اختلف في متنه فلا ينبغي أن يعتمد عليه في عورة الأمة وإن كان يصلح الاستدلال به وبسائر ما يأتي عليه معه في عورة الرجل
عمرو بن شعیب کی روایت کے متن میں اختلاف ہے، لہذا لونڈی کے ستر کے بارے میں اس پر اعتماد درست نہیں۔ اگرچہ اس کے دوسرے طرق کو مدِ نظر رکھتے ہوئے مرد کے ستر پر استدلال کیا جا سکتا ہے۔ (سنن الکبری للبیہقی 227/2، تحت الحدیث 3038)۔
پانچویں اور چھٹی روایت وہی جو ہم دوسری دلیل کے تحت نقل کر چکے ہیں۔ ان کے متعلق بھی خود ہی صراحت فرما دی کہ؛
فهذا إسناد لا تقوم بمثله حجة وعيسى بن ميمون ضعيف وقد روي عن حفص بن عمر عن صالح بن حسان عن محمد بن كعب وهو أيضا ضعيف
ایسی اسناد سے حجت قائم نہیں ہوتی۔ اس میں عیسی بن میمون ضعیف ہے۔ اور حفص بن عمر نے بھی یہ روایت صالح بن حسان عن محمد بن کعب سے روایت کی ہے اور یہ (صالح بن حسان) بھی ضعیف ہے۔
تیسرا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا اثر، جس میں لونڈی کو جلباب اوڑھنے سے منع کیا گیا ہے،جسے ہم پہلے نقل کر چکے ہیں۔ چوتھا یہ اثر۔ ان دونوں کو امام بیہقیؒ نے صحیح قرار دیا ہے، مگر ان سے نتیجہ کیا اخذ کیا ہے؟ انہی کی زبانی ملاحظہ فرمائیں؛
قال الشيخ والآثار عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه في ذلك صحيحة وإنها تدل على أن رأسها ورقبتها وما يظهر منها في حال المحنة ليس بعورة
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے آثار اس بارے میں صحیح ہیں اور دلالت کرتے ہیں کہ باندی کا سر، گردن اور کام کرتے ہوئے جو چیز ظاہر ہو جائے، ستر نہیں ہے۔
یعنی صدر آپ کے نزدیک بھی ستر ہی ہے اور "وما يظهر منها" سے مراد جسم لینے پر کوئی قرینہ نہیں۔ بلکہ اس سے وہی مراد زیادہ قرینِ قیاس ہے، جو سورۃ النور 31 میں "إلا ما ظهر منها" سے ہے۔ "تضرب ثدیھن" کا اصل مطلب ہم آگے واضح کریں گے، ان شآء اللہ۔ لہذا امام بیہقیؒ بھی ہمارے موقف کے ہی قائل نظر آتے ہیں۔ فللہ الحمد
اس روایت پر مندرجہ ذیل اعتراضات ہو سکتے ہیں؛
1۔ صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم عورت کے برہنہ سینے کو دیکھ رہے ہیں۔ لہذا ان کے نزدیک ان کا ستر ناف سے گھٹنوں تک ہی تھا۔
2۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی باندیاں دوسروں کی خدمت کیوں کرتی تھیں؟
3۔ ان باندیوں کو سر اور سینے پر کپڑا لینے کی اجازت کیوں نہ تھی؟
اول یہ کہ اس زمانے میں غلام وہ انسان تھے کہ جو جنگی قیدی بن کر آتے تھے،پھر دشمن کی قوت توڑنے اور حوصلے پست کرنے کیلئے انہیں واپس نہ کیا جاتا تھا،بلکہ غلام بنا لیا جاتا اور خدمت پر مامور کر دیا جاتا تھا۔ اب خدمت پر مامور آدمی کو کام کرنے کیلئے ایسے لباس کی ضرورت ہوتی ہے،جو اس کیلئے سہل ہو،مشقت کا باعث نہ ہو۔ اوڑھنی اوڑھ کر کام کرنے میں عورت کو کام کرنے میں جس مشقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے،اسے آج کی گھریلو خواتین بھی بخوبی سمجھ سکتی ہیں اور کوئی حقیقت پسند ذہن اس سے انکار نہیں کر سکتا،لہذا لونڈیوں کیلئے اسلام نے آسانی کرتے ہوئے اس مشقت کو ختم کر دیا۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے خدمت کے وقت ان کی حالت کا تذکرہ کیا ہے،اس سے مراد یہ نہیں کہ وہ برہنہ صدر تھیں،نہ ہی اس کا کہیں ثبوت ملتا ہے۔بلکہ کام کرتے وقت کپڑوں میں سے ہی جسمانی اعضاء ہلتے نظر آتے تھے۔اگر وہ برہنہ صدر ہوتیں تو روایت کے الفاظ اس طرح ہوتے "کاشفات عن شعورھن وصدورھن"۔ کہ ان کے سروں اور سینوں پر کپڑا نہ ہوتا۔ لیکن صرف سر کے برہنہ پن کا ذکر ہوا،سینے کا نہیں۔ اگر کوئی کہے کہ "تضرب ثدیھن" کے الفاظ کا مطلب ہے کہ ان کی چھاتیاں آپس میں ٹکراتی تھیں، اور کپڑوں کی قید میں وہ ٹکرا نہیں سکتیں،تو عرض ہے کہ
اولاً، "ضرب" بمعنی حرکت کا استعمال عربوں میں معمول ہے اور قرآن میں بھی اس کی نظیر موجود ہے؛
وإذا ضربتم في الأرض فليس عليكم جناح أن تقصروا من الصلاة (النساء 101)۔
کہ جب تم زمین میں چلو تو نماز قصر کرنے میں تم پر کوئی حرج نہیں۔
ثانیاً یہ کہ یہی روایت بیہقی کے حوالے سے علامہ سیوطی نے جامع الاحدیث 31013 میں نقل کی ہے،اس میں "یضطرب" کا لفظ ہے،جو حرکت کے معنی میں زیادہ واضح ہے، بلکہ امام بیہقیؒ نے اسی روایت کا متن اپنی دوسری تالیف معرفۃ السنن والآثار 146/3 میں ذکر کیا ہے، اس میں "تَضْطَرِبُ ثُدِيُّهُنَّ" کے الفاظ ہیں۔ بلکہ امام بیہقیؒ سے بہت پہلے امام یحیی بن سلام نے اپنی تفسیر 739/2 و 146/3 میں بھی "تَضْطَرِبُ ثُدِيُّهُنَّ" کے الفاظ نقل کیئے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ "تضرب" کا لفظ تصحیف ہے،اصل الفاظ "تَضْطَرِبُ ثُدِيُّهُنَّ" ہی ہیں۔ بعض علماء کرام کو "تَضْطَرِبُ ثُدِيُّهُنَّ" کے الفاظ کو غیر صحیح قرار دینے میں غلطی لگی ہے۔ امام یحیی بن سلامؒ نے اسے اپنے دو استادوں سے روایت کیا ہے؛ ایک نصر بن طریف ہے،جو کہ ضعیف ہے۔ دوسرے حماد بن سلمہ ہیں،جو کہ موثق ہیں۔ لہذا نصر بن طریف کی وجہ سے ان الفاظ کو غیر صحیح قرار دینا درست نہیں۔ تو مطلب صاف ہوا کہ اس سے مراد چھاتیوں کی حرکت کا ذکر ہے،جو کہ کپڑوں کی قید میں رہ کر بھی ممکن ہے۔ نیز امام بیہقیؒ کی اپنی وضاحت بھی اس پر دال ہے۔
اس کے تذکرہ کے اصل مقاصد یہی ہیں کہ؛
1۔ کام کے وقت لونڈی کیلئے اوڑھنی اوڑھنا ضروری نہیں۔
2۔ اگر کام کرتے وقت اعضائے جسمانی سے خود بخود بغیر نیت کے کچھ ظاہر ہو جائے، تو لونڈیاں اسے گناہ نہ سمجھیں، بلکہ اپنے رب کی رخصت شمار کریں۔ امام بیہقیؒ نے بھی یہی توجیہ بیان کی ہے۔
3۔ مسلمان اسے عیب نہ سمجھیں اور اس وجہ سے باندی کو کوئی سزا نہ دیں۔
4۔ اور نہ ہی کوئی بد باطن ان سے برائی کی طمع رکھے۔
5۔ باندیاں اپنے آقا کے حکم و اجازت سے دوسرے لوگوں کی خدمت بھی کر سکتی ہیں اور وہاں بھی پردے کی ایسی کیفیت بن سکتی ہے۔اس میں بھی کوئی گناہ نہیں۔
لہذا سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے بنظرِ تفحش اسے بیان نہیں کیا،بلکہ بغرضِ ترخص بیان کیا ہے اور مراد اس سے مسئلہ کی وضاحت ہے، نہ کہ شہوانی تلذذ۔
دوم یہ کہ اگر آج کے ترقی یافتہ زمانہ کی آزاد عورتیں دوسروں کے گھروں میں کام کر سکتی ہیں تو پرانے زمانے کی لونڈیاں کیوں نہیں کر سکتی تھیں؟
سوم یہ کہ آزاد و غلام عورت کا دنیاوی فرق بھی مقصود تھا،جیسا کہ اوپر گزر چکا۔یہ اس وجہ سے نہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ انہیں انسانیت سے کم درجہ دیتے تھے،بلکہ دنیاوی لحاظ سے یہ فرقِ مراتب ضروری تھا۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
کیا لونڈی کا ستر ناف سے گھٹنوں تک ہے ؟
( پانچویں اور چھٹی دلیل کا جواب)

تحریر از خاور نعیم

پانچویں دلیل؛عن بن عمر : أنه كان إذا اشترى جارية كشف عن ساقها ووضع يده بين ثدييها وعلى عجزها وكأنه كان يضعها عليها من وراء الثوب
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ جب کوئی باندی خریدتے تو اس کی پنڈلی سے کپڑا ہٹا لیتے۔اور اپنا ہاتھ اس کی چھاتیوں کے درمیان اور کولہوں پر رکھتے۔(راوی کے مطابق) کپڑے کے اوپر سے ہاتھ لگاتے تھے۔ (سنن الکبری للبیہقی 10570)۔
اس روایت کو احکامِ ستر کیلئے پیش کرنا درست نہیں کیونکہ کولہے ستر میں شمار ہوتے ہیں اور ہر عام آدمی کیلئے یہاں ہاتھ لگانا جمہور کے نزدیک بھی جائز نہیں۔ اس کا تعلق لونڈیوں کے متعلقہ احکامِ تجارت سے ہے۔ امام بیہقیؒ نے اس پر "باب الرجل يريد شراء جارية فينظر إلى ما ليس منها بعورة" کا باب باندھا ہے۔ اسی طرح امام عبد الرزاق بن ہمامؒ نے ان روایات کو "باب الرجل يكشف الأمة حين يشتريها" کے تحت نقل کیا ہے۔مگر اس پر وارد شدہ اعتراضات کا جائزہ ہم لے لیتے ہیں؛
اس روایت پر مندرجہ ذیل اعتراضات ہو سکتے ہیں؛
1۔ عورت کا بازاروں میں بکنا، انسانیت کی تذلیل ہے۔
2۔ عورت کے جسم کو دیکھنا اور اس کے نسوانی اعضاء کو چھو کر چیک کرنا غیر اخلاقی حرکت ہے۔
3۔ ہماری ماؤں بہنوں کے ساتھ کوئی ایسا کرے تو کیسا لگے گا؟
اول یہ کہ صرف عورتیں ہی نہیں، مرد غلام بھی بکتے تھے اور یہ مملوکہ اشیاء میں شمار ہوتے تھے۔ اگر کوئی غلاموں کی خریدو فروخت پر معترض ہے تو یہ ایک الگ موضوع ہے،جس کا تعلق غلامی اور انسانیت سے ہے،یعنی اخلاقی طور پر کیا یہ جائز ہے یا ناجائز۔ اس کیلئے علیحدہ مضمون کی ضرورت ہے۔ فی الحال صرف اتنا کافی ہے کہ اگر غلامی انسانیت سوز ظلم ہے تو زمانہ ماضی کے تمام انسان اس ظلم سے متصف اور انسانیت سے عاری رہے ہیں اور ان میں فیثا غورث، گلیلیو وغیرہ سمیت وہ سب قدیم سائنسدان شامل ہیں،جن کی پوجا آج کے ملحدین اپنی زبانِ حال سے کرتے نظر آ رہے ہیں۔ کیونکہ اس ظلم کے خلاف ایک لفظ بھی ان سے ثابت نہیں۔ بلکہ وہ بے چارے تو یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ کسی زمانہ میں اسے "انسانیت سوز ظلم" کہا جائے گا۔ نیز یہ بات بھی غور طلب ہے کہ آج کی کسی متفقہ، مسلمہ و مروجہ رسم کو زمانہ مستقبل کے لوگ ظلم و غیر انسانی قرار دیں،تو کیا واقعی ظلم اور غیر انسانی شمار ہو گا؟
دوم یہ کہ جن کے اپنے اخلاقی ضابطے متعین نہیں،انہیں اسے غیر اخلاقی حرکت کہنے کا کوئی حق نہیں۔غلام عورت کے ساتھ جس سلوک پر دشمنانِ اسلام معترض نظر آتے ہیں،اس کے کہیں زیادہ قبیح اور وحشیانہ سلوک وہ آزاد عورتوں کے ساتھ خود کرتے ہیں یا کرتے ہوئے دیکھتے ہیں مگر کوئی حرفِ اعتراض زبان پر نہین لاتے۔ نیز یہ دیکھنا، نکاح سے پہلے، ارادہ نکاح کے ساتھ عورت کو دیکھنے جیسا ہے۔ بغیر ارادہ تزویج، آدمی کا آزاد عورت کو دیکھنا حرام ہے۔ اسی طرح بغیر ارادہ خرید، آدمی کا باندی کو چھونا حرام ہے۔
جیسا کہ فقہائ نے وضاحت کی ہے؛
يجوز له النظر إلى ذلك من الأمة المستامة كما يجوز إلى من يريد خطبتها قياساً عليها بل الأمة المستامة أولى لأنها تراد للاستمتاع وغيره
جس لونڈی کو خریدنے کا ارادہ ہو، اس کے ان اعضاء (سر اور پنڈلیاں) دیکھنا جائز ہے، جیسا کہ ارادہ نکاح کے ساتھ منگیتر کو دیکھنا جائز ہے، قیاس بھی اسی پر ہے۔ بلکہ خریدی جانے والی لونڈی زیادہ اس کی مستحق ہے کیونکہ اسے خریدنے کا مقصد ہی استمتاع وغیرہ ہوتا ہے۔ (الشرح الکبیر 343/7، حاشیہ الروض الربع 233/6)۔
قال ابن حبيب: قد أجيز للعازم على الشراء ولم يفعله متلذذًا ولا عاتيًا ذلك،۔۔۔۔ وذلك إذا أعجبته وإلا لم يفعل.
ابن حبیب کہتے ہیں کہ لونڈی کو خریدنے کا عزم رکھنے والے کو اس کی اجازت ہے۔ اور حصولِ لذت کیلئے اور زیادہ جھنجھوڑ کر نہ کرے۔۔۔۔ اور تب کرے جب وہ اسے پسند آ جائے۔ اگر نہ آئے تو پھر اجازت نہیں۔ (الجامع لمسائل المدونۃ 808/13، النوادر والزیادات 21/5)۔
وَرَأْسٍ وَسَاقٍ مِنْ أَمَةٍ مُسْتَامَةٍ) أَيْ مُعَرَّضَةٍ لِلْبَيْعِ يُرِيدُ شِرَاءَهَا كَمَا لَوْ أَرَادَ خِطْبَتَهَا بَلْ الْمُسْتَامَةُ أَوْلَى، لِأَنَّهَا تُرَادُ لِلِاسْتِمْتَاعِ وَغَيْرِهِ نَقَلَ حَنْبَلٌ، لَا بَأْسَ أَنْ يُقَلِّبَهَا إذَا أَرَادَ الشِّرَاءَ مِنْ فَوْقِ الثِّيَابِ، لِأَنَّهَا لَا حُرْمَةَ لَهَا وَرَوَى أَبُو حَفْصَةَ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ كَانَ يَضَعُ يَدَهُ بَيْنَ ثَدْيَيْهَا وَعَلَى عَجُزِهَا مِنْ فَوْقِ الثِّيَابِ وَيَكْشِفُ عَنْ سَاقَيْهَا
اور جس لونڈی کو خریدنے کا ارادہ ہو، اس کے سر اور پنڈلی کو بھی دیکھنا جائز ہے۔ یعنی جو تجارت کیلئے پیش کی جا چکی ہو،(نہ کہ عام لونڈیاں)۔ جیسا کہ ارادہ نکاح کے ساتھ منگیتر کو دیکھنا جائز ہے، بلکہ خریدی جانے والی لونڈی زیادہ اس کی مستحق ہے کیونکہ اسے خریدنے کا مقصد ہی استمتاع وغیرہ ہوتا ہے۔ حنبلؒ نے نقل کیا ہے کہ ارادہ خرید کے ساتھ اسے آگے پیچھے سے کپڑوں میں رہ کر دیکھنے میں کوئی حرج نہیں، کیونکہ یہ حرام نہیں ہے۔ اور ابو حفصہ کی روایت میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ وہ اس کی پنڈلی سے کپڑا ہٹا لیتے۔اور اپنا ہاتھ اس کی چھاتیوں کے درمیان
اور کولہوں پر، کپڑے کے اوپر سے لگاتے تھے۔ (شرح منتہی الارادت 624/2 لعلامہ البہوتی)
َيَنْظُرُ مِنْ أَمَةٍ مُسْتَامَةٍ رَأْسًا وَسَاقًا، وَعَنْهُ: سِوَى عَوْرَةِ الصَّلَاةِ وَقِيلَ: كَمَخْطُوبَةٍ، نَقَلَ حَنْبَلٌ: لَا بَأْسَ أَنْ يُقَلِّبَهَا إذَا أَرَادَ الشِّرَاءَ، مِنْ فَوْقِ الثَّوْبِ؛ لِأَنَّهَا لَا حُرْمَةَ لها. قال القاضي: أجاز1 تَقْلِيبُ الصَّدْرِ وَالظَّهْرِ بِمَعْنَى لَمْسِهِ مِنْ فَوْقِ الثِّيَابِ
اور جس لونڈی کو خریدنے کا ارادہ ہو، اس کا سر اور پنڈلی دیکھنا جائز ہے۔ اور انہی (علامہ ابو بکر) سے مروی ہے کہ نماز کے ستر کے سوا سب دیکھنا جائز ہے۔ کہا گیا ہے کہ منگیتر کی طرح۔ حنبلؒ نے نقل کیا ہے کہ ارادہ خرید کے ساتھ اسے آگے پیچھے سے کپڑوں میں رہ کر دیکھنے میں کوئی حرج نہیں،کیونکہ یہ حرام نہیں ہے۔ قاضی کہتے ہیں کہ کپڑوں کے اوپر سے سینے اور پشت کو چھونا جائز ہے۔ (الفروع لابن مفلح 182/8)۔
حدثنا بن مبارك عن الأوزاعي قال سمعت عطاء وسئل عن الجواري التي يبعن بمكة فكره النظر إليهن إلا لمن يريد أن يشتري
امام اوزاعیؒ فرماتے ہیں کہ عطاء سے سوال کیا گیا،جواب میں نے بھی سنا، مکہ میں بکنے والی لونڈیوں کے بارے میں۔ تو انہوں نے ان کی طرف دیکھنا نا پسند کیا، سوائے اس کے جو خریدنے کا ارادہ رکھتا ہو۔ (مصنف ابن ابی شیبہ 20244)۔
تو پتہ چلا کہ یہاں ستر کا بیان مقصود نہیں ہے، بلکہ خاص حالات و کیفیات یعنی تجارت کے وقت لونڈی کے جسمانی اعضاء کو دیکھنے کا بیان ہے۔ اور خاص حالات کے حکم کو عام پر منطبق کرنا درست نہیں، جیسا کہ بیماری کی حالت میں ڈاکٹر کو جنسِ مخالف کے جسمانی اعضاء کو دیکھنے کی اجازت ہے، عام حالات میں نہیں۔ لہذا اس روایت سے ستر کا حکم کشید کرنا، محض تحکم ہے۔ رہی بات دیکھنے اور چھونے کے فرق کی، تو یہ اصل میں آزاد اور غلام عورت کا فرق ہے،جو کہ اس زمانے میں ہر قوم و مذہب میں رائج تھا، اور کسی کو اس پر کوئی اعتراض نہ تھا۔ موجودہ زمانے میں اس پر اعتراض کرنا ایسے ہی ہے، جیسے زمانہ حال کا کوئی "دانشور"، زمانہ ماضی میں تلوار سے لڑنے پر اعتراض کرے۔
اسلام نے شہوانی تلذذ کے حصول کیلئے دو جائز طریقے بتائے ہیں؛
اول نکاح
دوم لونڈی
اسلام نے نکاح سے پہلے عورت کو ایک بار دیکھ لینے کی اجازت دی ہے تا کہ اگر اس کے من کو بھائے تو اس سے شادی کر لے۔ یہ نہ ہو کہ بعد از تزویج اسے عورت پسند نہ آئے اور وہ اس کی اور اپنی زندگی خراب کر لے۔ اب من کو بھانے والی کون سی خصوصیات ہیں،یہ ہر انسان جانتا ہے،بلکہ ہر انسان کی ان میں اپنی اپنی ترجیحات ہوتی ہیں۔ لہذا ان کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اسلام نے اس حرام کو اس خاص مقصد کیلئے حلال کر دیا ہے۔
اسی طرح اسلام نے لونڈی خریدنے کیلئے بھی اس حرام یعنی لمس کو اس خاص مقصد کیلئے حلال کر دیا ہے۔ تا کہ اپنی ترجیحات کے مطابق وہ اسے اچھی طرح دیکھ پرکھ سکے۔ رہی یہ بات کہ اگر اچھی طرح دیکھ پرکھ کے بعد بھی لونڈی پسند نہ آئے تو؟ یو ہم یہ کہتے ہیں کہ یہ ایسے ہی ہے کہ جیسے آزاد عورت کو دیکھنے کے بعد اگر وہ پسند نہ آئے تو انکار کر سکتا ہے، یہی معاملہ لونڈی کے ساتھ بھی ہے۔
سوم؛ ہم میں سے کون پسند کرتا ہے کہ اس کی ماں یا بہن یا کوئی بھی عزیز جیل میں جائے، مگر کیا مرد و خواتین کے جیل خانے ہیں کہ نہیں؟ ہم میں سے کون پسند کرتا ہے کہ وہ بیمار ہو، مگر کیا ہسپتال موجود ہیں کہ نہیں؟ ہم میں سے کون پسند کرتا ہے کہ جنگ ہو، مگر کیا پوری دنیا کے ممالک کی افواج ہیں یا نہیں؟ لہذا اس مسئلے کو پسند نا پسند کے ترازو میں تولنا ہی غلط ہے کہ یہ اس زمانے میں جنگ کے نا گزیر نتائج میں شمار ہوتا تھا۔ اسلام نے اس رواج کو دو طریقوں سے کم کیا۔ ایک غلاموں کی آزادی کی زبردست ترغیب اور دوسرے الگ سے باقاعدہ فوج کا قیام،جن کی تفصیل کا یہ موقع نہیں۔
اگر کوئی یہ کہے کہ اسلام میں تو آج بھی اس کی اجازت موجود ہے،تو عرض ہے کہ صرف اجازت ہی ہے،فرض نہیں۔ نیز آخر اس میں حرج ہی کیا ہے؟پھر آئندہ اگر ایسے حالات ہو جائیں کہ غلامی کا دور دوبارہ شروع ہو جائے،کہ یہ بعید از قیاس نہیں ہے،بلکہ آج کے "ترقی یافتہ" ہتھیاروں کی بدولت صرف چند لمحات میں اس انتہائی ترقی یافتہ زمانے کو پتھر کے زمانے میں تبدیل کیا جا سکتا ہے، تو اسلامی تعلیمات پھر غلاموں کیلئے مینارہ نور ثابت ہو سکتی ہیں۔ پھر ملحدین کو یا فحاشی و عریانیت کو ترقی کا نام دے کر پوری دنیا میں پھیلا دینے والوں کو اس سے کیوں تکلیف ہے؟ اگر کوئی کہے کہ یہ
انسانیت سوز ظلم ہے۔ تو بتایئے کہ ایک سے زیادہ سیکس پارٹنرز رکھنے والے اور ہم جنس پرستی کو جائز قرار دینے والے کونسا انسانیت کو جلا بخش رہے ہیں، یہی تو اصل حیوانیت ہے۔ اگر کوئی کہے کہ اس سے لونڈیاں بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہو جاتی ہیں،تو ہم کہتے ہیں کہ یہ جھوٹ ہے۔ جتنی آزادی مغربی تہذیب نے آج کی "ترقی یافتہ" عورت کو دی ہے، اسلام نے کم و بیش اتنی ہی آزادی اپنی زیرِ کفالت لونڈیوں کو دی ہے۔
لونڈیوں کو اسلام نے پردے کی پابندی سے مستثنی قرار دیا ہے۔ (الاحزاب 59، بخاری 3976)۔
انہیں بازار میں بغیر سر یا منہ ڈھانکے چلنے پھرنے کی اجازت ہے۔ (سنن الکبری للبیہقی 3037)۔
فتنہ کی عدم موجودگی میں مردوں کے ساتھ ان کا اختلاط جائز ہے۔ (سنن الکبری للبیہقی 3038)۔
گھر سے باہر نکل کر کام کاج کرنے اور پیسہ کمانے کی اجازت ہے۔ (بخاری 2421)۔
تو اسلام کی باندی اور آج کی ترقی یافتہ مغربی عورت آزادی میں ایک برابر ہیں،سوائے جنسی آزادی کے، کہ مسلمہ باندی صرف اپنے آقا یا شوہر سے ہی جنسی تعلق رکھ سکتی تھی،مگر آج کی ترقی یافتہ مغربی عورت کو گنتی زیادہ آتی ہے۔
آخر میں عرض ہے کہ غلامی ابھی بھی معدوم نہیں ہوئی،صرف اس کی صورت بدل گئی ہے۔ پہلے فرداً فرداً غلام ہوا کرتے تھے،اب پوری پوری قوم غلام ہوتی ہے۔ پہلے غلاموں کی قیمت عام خریدار لگاتے تھے، اب قوموں کی قیمت آئی ایم ایف لگاتا ہے۔ پہلے بازاروں میں سرِ عام غلاموں کی بولیاں لگتی تھیں،اب بین الاقوامی اداروں میں بیٹھ کر قوموں کی بولیاں لگتی ہیں۔ پہلے آقا جو حکم دیتے، غلام کو ماننا پڑتا تھا، اب سپر پاورز کرائے کے حکمرانوں کو جو حکم دیں، انہیں ماننا پڑتا ہے۔ پہلے نہ ماننے پر کوڑے برستے تھے، اب نہ ماننے پر ڈرون اور کلسٹر بم برستے ہیں۔ پہلے غلام اور آزاد میں فرق روا رکھا جاتا تھا،اب یہ فرق ترقی پذیر اقوام اور ترقی یافتہ اقوام میں تبدیل ہو گیا ہے۔ پہلے غلاموں کی محنت پسینے کی کمائی اس کا آقا لے جاتا تھا، اب عوام کے خون پسینے کی کمائی ٹیکسوں کے ذریعے نچوڑ کر یا تو حکمرانوں کے اللے تللے پورے کیئے جاتے ہیں، یا پھر آئی ایم ایف کا سدا بہار بھوکا پیٹ بھرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اب پہلے دور کی غلامی آج کے دور سے اس لحاظ سے کچھ بہتر ہی تھی کہ غلام کو پتہ ہوتا تھا کہ وہ غلام ہی ہے، جبکہ آج کے دور کے غلام اس خوش فہمی مبتلا ہیں کہ وہ آزاد ہیں۔ پہلے وہ اپنی آزادی کی قیمت خود ادا کر کے آزاد ہو سکتے تھے،مگر اب قوموں کو ایسے قرضوں میں جکڑا جاتا ہے کہ جن سے باہر نکلنے کا کوئی رستہ دکھائی نہیں دیتا۔ پہلے صرف جسم غلام ہوا کرتے تھے، اب تو سوچ وفکر بھی غلام ہے۔ پہلے غلام آزادی کے خواب دیکھا کرتے تھے جبکہ موجودہ ذہنی غلاموں کی فکری پسماندگی کا یہ عالم ہے کہ اپنے آقاؤں کی مسلط کردہ تہذیب کو ہی اپنی آزادی شمار کرتے ہیں۔ تو کوئی کیسے کہہ سکتا ہے کہ اب غلامی موجود نہیں،بلکہ پہلے سے زیادہ ترقی یافتہ شکل میں موجود ہے۔
یہاں پر ایک نظر ان روایات پر بھی ڈالنا فائدے سے خالی نہ ہو گا کہ جن میں ذکر ہے کہ سیدنا ابنِ عمر رضی اللہ عنہما
1۔ لونڈی کے پیٹ کو دیکھتے تھے۔ (مصنف عبد الرزاق 13198 و 13200 و 13201، پہلی روایت میں امام عبد الرزاق اور ابن جریج مدلس راوی ہیں۔ دیکھئے طبقات المدلسین لابن حجر 41/1 و 34/1، اور عن سے روایت کر رہے ہیں۔ دوسری اور تیسری میں بھی امام عبد الرزاق کا عنعنہ شامل ہے)۔
2۔ دوسرے لوگوں کی تجارت میں جا کر لونڈی کو دیکھتے تھے، یا اس کے سینے پر ہلکی ضرب لگاتے تھے، یا جھنجھوڑتے تھے۔ (مصنف عبد الرزاق 13199 و 13202 و 13203 و 13204، پہلی روایت میں ابن جریج کے استاد کا تعین نہیں ہے۔ یا عمرو ہے یا پھر ابو الزبیر ہے۔ اگر مؤخر الذکر ہے تو وہ بھی مدلس ہے۔ دیکھئے طبقات المدلسین لابن حجر 45/1 اور روایت معنعن ہے۔ بہرحال راوی کے تعین کے بغیر روایت کی صحت و ضعف کا فیصلہ مشکل ہے۔ دوسری میں امام عبد الرزاق مدلس عن سے روایت کر رہے ہیں۔ نیز یہ روایت ابن ابی نجیح سے بھی مروی ہے اور وہ بھی مدلس ہیں،دیکھئے
طبقات المدلسین لابن حجر 39/1، اور روایت معنعن ہے۔ تیسری اور چوتھی روایت میں امام عبد الرزاق اور سفیان بن عیینہ دونوں مدلس ہیں، دیکھئے طبقات المدلسین لابن حجر 32/1 اور روایت معنعن ہے۔ چوتھی روایت ابن ابی نجیح کے طریق سے بھی مروی ہے)۔
3۔ لونڈی کی پشت اور پیٹ سے کپڑا اٹھاتے تھے۔ (مصنف عبد الرزاق 13205، اس میں بھی عبد الرزاقؒ اور ابن جریجؒ مدلس ہیں اور روایت معنعن ہے)۔
تو ان میں سے کوئی بھی ضعف سے خالی نہیں۔ بلکہ
4۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے بھی منسوب ایک روایت میں ہے کہ آپ نے اس کی پنڈلیاں، پیٹ اور کولہے دیکھنے کی اجازت دی۔ (مصنف عبد الرزاق 13208) اس میں بھی عبد الرزاقؒ مدلس ہیں اور روایت معنعن ہے، نیز ابن جریجؒ سے اوپر دو راوی مجہول ہیں۔
5۔ امام سعید بن المسیبؒ اور امام اوزاعیؒ سے منسوب ہے کہ انہوں نے شرمگاہ کے علاوہ باقی سارا جسم دیکھنے کی اجازت دی ہے۔ (مصنف عبد الرزاق 13206 و 13207)۔ پہلی روایت میں پھر امام عبد الرزاق اور ابن جریج عنعنہ کے ساتھ موجود ہیں، نیز ایک راوی مجہول ہے۔ دوسری روایت میں امام عبد الرزاق اور سفیان ثوری عنعنہ سے روایت کر رہے ہیں۔ سفیان ثوریؒ بھی مشہور مدلس ہیں۔ (طبقات المدلسین لابن حجر 32/1)۔ نیز جابر بن یزید الجعفی بھی ہے جو کہ مدلس ہونے کے ساتھ ساتھ ضعیف عند الجمہور بھی ہے۔ (طبقات المدلسین لابن حجر 53/1)۔
تو یہ ہے قائلین کا کل اثاثہ، جس کی بنیاد پر لونڈی کا ستر ناف سے گھٹنوں تک قرار دیا گیا ہے۔
چھٹی دلیل؛
كما حدثنا علي بن شيبة قال : حدثنا يزيد بن هارون قال : حدثنا حماد بن سلمة عن حكيم الأثرم عن أبي تميمة الهجيمي قال : سمعت أبا موسى الأشعري يقول : « لا أعرفن أحدا نظر من جارية إلا إلى ما فوق سرتها وأسفل من ركبتيها لا أعرفن أحدا فعل ذلك إلا عاقبته (شرح مشکل الآثار للطحاوی 1483)۔
حدثنا وكيع عن حماد بن سلمة عن حكيم الأثرم عن أبي تميمة عن أبي موسى أنه خطبهم فقال لا أعلم رجلا اشترى جارية فنظر إلى ما دون الجارية وإلى ما فوق الركبة إلا عاقبته (مصنف ابن ابی شیبہ 20247)۔
یعنی سیدنا ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اگر مجھے خبر ملی کہ لونڈی خریدتے وقت خریدار نے اس کی ناف کے نیچے اور گھٹنوں سے اوپر والے حصے کو دیکھا ہے، تو میں اسے سزا دوں گا۔
اول تو یہ روایت بھی ستر کے باب سے نہیں، بلکہ تجارت کے باب سے ہے، لہذا بشرطِ صحت اس سے ستر کا حکم کشید کرنا درست نہیں۔
دوم، اس کی سند میں حکیم الاثرم راوی ہے، جسے ہم اسماء الرجال کے میزان میں تولنے اور پرکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔مندرجہ ذیل محدثین نے اس کی تعدیل کی ہے؛
1۔۔۔ وَسَأَلت عليا عَن حَكِيم الْأَثْرَم فَقَالَ كَانَ حَكِيم عندنَا ثقه (سوالات ابن ابی شیبۃ لابن المدینی 49/1)۔اسی طرح الجرح والتعدیل 208/3 میں امام ابن المدینیؒ کا قول ہے کہ اعیانا ھذا۔
2۔۔۔ امام نسائیؒ سے منسوب قول "لیس بہ باس" (تہذیب الکمال 208/7) نہ ان کی اپنی کسی کتاب سے دستیاب ہو سکا ہے اور نہ با سند کسی اور کتاب سے۔
3۔۔۔ ابو عبید الآجری مجہول نے امام ابو داؤد سے اس کی ثقاہت نقل کی ہے۔ (سوالات الآجری 129/2)۔
4۔۔۔ حافظ ابنِ حبانؒ نے اسے الثقات 215/6 میں وارد کیا ہے۔
5۔۔۔ حافظ قاسم بن قطلوبغا حنفیؒ نے اسے الثقات ممن لم يقع في الكتب الستة 499/3 میں ذکر کیا ہے۔
6۔۔۔ علامہ ذہبیؒ نے اسے الکاشف میں صدوق کہہ دیا ہے (الکاشف 348/1)۔ جبکہ اپنی دوسری دو تصنیفوں، المغنی فی الضعفاء 187/1 اور دیوان الضعفاء 99/1 میں اسے ضعفاء میں بھی شمار کیا ہے۔ پتہ چلتا ہے کہ اس کا ضعف علامہ ذہبی ؒ کے پیشِ نظر تھا۔ مگر صدوق کیوں کہا؟ اس کی وجہ آگے چل کر بیان ہو گی، ان شآء اللہ۔ نیز علامہ مناویؒ نے الکبائر کے حوالے سے علامہ ذہبیؒ کا اس کی مشہور متنازعہ روایت کے بارے میں یہ قول نقل کیا ہے؛ليس إسناده بالقائم (فیض القدیر 23/6، نیز دیکھئے تیسیر العزیز الحمید 357/1،انیس الساری 4864/7، مصنف نے الکبائر کا صفحہ نمبر 178 بھی لکھا ہے)۔ ہمیں مختصر الکبائر میں یہ قول نہیں مل سکا۔
مندرجہ ذیل محدثین نے اس پر جرح کی ہے؛
1۔۔۔ امام بخاری ؒ کہتے ہیں کہ اس کی روایت کی متابعت موجود نہیں۔ (تاریخ الکبیر 16/3)۔
2۔۔۔ امام ترمذیؒ کہتے ہیں کہ امام بخاریؒ نے اس کی سند کی وجہ سے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔ (جامع الترمذی تحت الحدیث 135)۔ نیز امام ترمذیؒ فرماتے ہیں کہ میں نے امام بخاریؒ سے اس کی حدیث کے متعلق پوچھا تو انہیں اس سند کے سوا وہ کسی اور سند سے نہیں پہچانتے تھے اور اس حدیث کو سخت ضعیف قرار دیتے تھے۔ (العلل الکبیر للترمذی
17/1)۔
مندرجہ ذیل علماء نے امام بخاریؒ کی یہ تضعیف نقل کر کے تائیداً سکوت کیا ہے؛
1۔ حافظ ابنِ کثیرؒ (تفسیر ابنِ کثیر 348/1، الْأَحَادِيث الضعيفة والموضوعة الَّتِي حكم عَلَيْهَا الْحَافِظ ابْن كثير فِي تَفْسِيره 68/1)۔
2۔ علامہ ابن الأثير الجزريؒ (جامع الاصول فی احادیث الرسول 65/5)۔
3۔ علامہ ابو الفضل النوریؒ (المسند الجامع 23/31)۔
4۔ علامہ ابو الحسن سندیؒ (حاشیۃ السندی علی ابن ماجہ 58/2)۔
5۔ علامہ عبید اللہ مبارکپوریؒ (مرعاۃ المفاتیح 107/4)۔
6۔ علامہ سلیمان بن عبد اللہ بن محمد بن عبد الوہابؒ (تیسیر العزیز الحمید 357/1)۔
7۔ علامہ شوکانیؒ (نیل الاوطار 255/6)۔
8۔ علامہ محمود الطحان (تیسیر مصطلح الحدیث 79/1)۔
9۔ الشیخ سلیمان بن عبد اللہ العلوان (الاسئلۃ الحدیثیۃ 13/1)۔
10۔ الشيخ عبدالله السعد (شرح الموقظة في علم المصطلح 26/1)۔
11۔ علامہ محمد بن طاہر المقدسیؒ (ذخیرۃ الفاظ 2166/4)۔
12۔ امام ابنِ عدیؒ (الکامل لابن عدی 219/2)۔
13۔ حافظ ابنِ حجرؒ (التلخیص الحبیر 332/4)۔
14۔ علامہ یوسف المزیؒ (تحفة الأشراف بمعرفة الأطراف 123/10)۔
15۔ الشیخ عمر اسیف (التكفير أخطاره و ضوابطه 34/1)۔
16۔ علامہ عبد الحق الاشبیلیؒ (الاحکام الکبری 518/1)۔
17۔ الحافظ ضياء الدين المقدسيؒ (السنن والأحكام عن المصطفى عليه أفضل الصلاة والسلام 210/1)۔
18۔ علامہ صدیق حسن خان قنوجیؒ (التعليقاتُ الرَّضية على "الرَّوضة النّديَّة" 228/2)۔
19۔ علامہ نوویؒ (المجموع شرح المہذب 417/16)۔
20۔ علی بن نایف الشحود (فی تحقیق عشرۃ النساء للنسائی 3/3)۔
21۔ الشیخ محمد بن صالح العثیمین (القول المفيد على كتاب التوحيد 111/2)۔
22۔ ملا علی القاری الحنفیؒ (مرقاۃ المفاتیح 495/2)۔
23۔ علامہ ایمن صالح شعبان (فی تحقیق جامع الاصول 65/5)۔
24۔ صدر الدين محمد بن إبراهيم السلمي المناويؒ (كشف المناهج والتناقيح في تخريج أحاديث المصابيح 125/4)۔
25۔ ابن حجر ہیتمیؒ (الزواجر 216/1)۔
26۔ علامہ ابن قدامہ المقدسی (الشرح الکبیر 350/1)۔
27۔ الشیخ محمد حسن عبد الغفار (شرح البیقونیۃ)۔
3۔۔۔ امام ابوبکر البزارؒ فرماتے ہیں کہ حکیم منکر الحدیث ہے۔ اس کی حدیث کو حجت نہیں بنایا جاتا جبکہ وہ منفرد ہو۔ اور اس روایت میں یہ منفرد ہے۔ (مسند البزار،البحر الزخار 294/16، تحت الحدیث 9502)۔
نیز فرماتے ہیں کہ حکیم الاثرم بصری سے عوف اور حماد بن سلمہ روایت کرتے ہیں۔ لیکن اس کی حدییث میں کچھ گڑبڑ ضرور ہے کیونکہ حماد بن سلمہ نے اس سے ایک منکر حدیث روایت کی ہے۔ (مسند البزار 3492، 19/2)۔
4۔۔۔ امام ابنِ شاہینؒ نے اسے اپنی کتاب تاريخ أسماء الضعفاء والكذابين 79/1 میں ذکر کر کے ضعیف شمار کیا ہے۔
5۔۔۔ امام عقیلیؒ نے اسے الضعفاء 317/1 میں شمار کیا ہے۔
6۔۔۔ امام ابن عدی ؒ نے اسے الضعفاء میں شمار کر کے فرمایا کہ حکیم الاثرم اسی (متنازعہ) روایت سے پہچانا جاتا ہے۔ مزید برآں صرف چند ایک روایتوں کے علاوہ اس کے پاس کچھ بھی نہیں۔ (الکامل لابن عدی 219/2)۔
7۔۔۔ امام ابو علی الطوسیؒ کہتے ہیں اس حدیث کی تضعیف،اس کی سند کی وجہ سے کی گئی ہے۔(مستخرج الطوسی 363/3)۔
8۔۔۔ حافظ ابن حجرؒ کہتے ہین کہ حكيم الأثرم البصري فيه لين، یعنی اس میں کمزوری ہے (تقریب التہذیب 177/1)۔
9۔۔۔ الشیخ محمد بن عبد اللہ القناص نے بھی اس کی روایت کو ضعیف قرار دیا ہے۔ (فتاوی واستشارات الاسلام الیوم 162/16)۔
10۔۔۔ وقال البغوي سنده ضعيف وقال الذهبي ليس إسناده بالقائم (تیسیر العزیز الحمید 357/1، نقل المناوی قول البغوی فی فیض القدیر 23/6)۔
11۔۔۔ علامہ ابنِ سید الناسؒ نے بھی اس کی روایت کو ضعیف کہا ہے۔ (فیض القدیر 23/6)۔
12۔۔۔ علامہ مناویؒ نے بھی اس کی روایت کو ضعیف کہا ہے۔ (ایضاً)۔
13۔۔۔ وقال يحيى بن معين فيما ذكره البرقي: ضعيف.(اکمال تہذیب الکمال 127/4، شرح ابن ماجہ لمغلطائی 889/1)۔
تو پتہ چلا کہ جمہور محدثین اس کی تضعیف کے قائل ہیں۔ اس کی ایک معلوم وجہ وہی ہے جو امام ابن عدیؒ اور ابو بکر البزارؒ نے بتائی ہے کہ
اول تو اس کی مرویات ہی نہ ہونے کے برابر ہیں۔
دوم، جو موجود ہیں، ان میں بھی نکارت ہے، جس کا ذکر امام ابو بکر البزارؒ نے کیا ہے اور امام بخاریؒ نے "لا یتابع علیہ" کہہ کر اشارہ کیا ہے۔ مگر جس روایت کا امام بخاریؒ نے ذکر کیا ہے،(یعنی اتیان فی الدبر) اس کی متابعت موجود ہے،لیکن اس کے باوجود بھی کئی محدثین نے اس کی تضعیف کی ہے۔ جن بعض محدثین نے اس کی اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے، اس کی اغلب وجہ یہی ہے کہ اس کے متابع و شواہد موجود ہیں،جن کی امام بخاریؒ کو خبر نہ ہو سکی۔ مگر ہماری زیرِ بحث سیدنا ابو موسی رضی اللہ عنہ والی روایت میں نہ اس کا کوئی متابع ملتا ہے اور نہ ہی کوئی شاہد۔ لہذا اس کی تضعیف کا پہلو ہی راجح ہے۔
ساری بحث کا خلاصہ یہی ہے کہ کوئی ایک بھی صحیح دلیل دستیاب نہیں کہ جس کی بنیاد پر لونڈی کا ستر ناف سے گھٹنون تک مقرر کیا جائے۔
آخر میں لطف کی بات یہ ہے کہ ہمارے علم میں ایک بھی محدث ایسے نہیں ہیں،جنھوں نے ان احادیث و آثار کو روایت کیا ہو، پھر ان سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہو کہ لونڈی کا ستر ناف سے گھٹنوں تک ہے۔

واللہ اعلم بالصواب
 
Last edited:

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
سوال یہ ہے کہ اس دور میں اس بحث کی کیا ضرورت ہے؟
 
شمولیت
نومبر 27، 2014
پیغامات
221
ری ایکشن اسکور
63
پوائنٹ
49
سوال یہ ہے کہ اس دور میں اس بحث کی کیا ضرورت ہے؟
یہی تو رونا ہے ۔۔۔یہ جوابی تھریڈ ہے ۔۔۔مسئلہ کسی اور نے چھیڑا ہے ۔۔۔اور وہ جس متجددین کے حلقے میں ہوتے ہیں ۔۔وہاں سے ایسے ہی مسائل آتے ہیں ۔۔
 
Top