• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فقہ حنفی کی بنیاد کیسی احادیث پر؟ امام ابن ابی العز الحنفی کی زبانی

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
افتاب صاحب کی پیش کردہ کتاب اوپننہیں ہوئی ورنہ راقم اس کتاب کا مکمل جواب دینےکےلئے تیار ہے
ابن بشیربھائی آپ اس کتاب کو ان دولنکس سے ڈاؤنلوڈ کرسکتے ہیں
١۔ہدایہ اور صاحب ہدایہ
٢۔ ہدایہ اور صاحب ہدایہ
نوٹ
شیخ اگر کتاب آپ ڈاؤنلوڈ کرلیں تو اس پر اپنا مکمل جواب جلدفورم پہ پوسٹ کیجیئے گأ۔اللہ تعالی آپ کے علم و عمل میں برکت دے۔آمین
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
کہتے ہیں جب انسان کا پیٹ بھراہو تواسے ہری ہری سوجھاکرتی ہے ۔آج کل کچھ لوگوں کی توجہ ہدایہ کی طرف مبذول ہوئی ہے بہت اچھی بات ہے کیونکہ مولانا نذیرحسین صاحب نے آخری ایام میں بخاری اورہدایہ کے درس کو خاص کرلیاتھا۔ لیکن موجودہ دور میں اس کا مقصد عمومی طورپر یہ ہوتاہے کہ ہدایہ اورصاحب ہدایہ کی جانب سے عوام الناس کو بدظن کیاجائے۔ اگرمقصد اس قدر ہے کہ ہدایہ میں جوتھوڑی بہت فنی اورعلمی غلطیاں ہیں اس کو ظاہر کیاجائے تو یہ کام بہت اچھے طریقے سے علماء احناف انجام دے چکے ہیں۔اس موضوع پرحافظ ابن الترکمانی (مولف الجوہرالنقی )اوران کے شاگرد حافظ زیلعی بے مثال کام انجام دے چکے ہیں انہوں نےچارضخیم جلدوں میں احادیث ہدایہ کی تحقیق وتخریج نصب الرایہ کے نام سے کی ہے۔مولانا ارشاد الحق اثری ہوں یاپھر کوئی دوسرے صاحب نہ علم حدیث میں حافظ زیلعی سے بلند مرتبہ ہیں اورنہ ہی ان سے بہتر احادیث ہدایہ پر تحقیقی اورفنی بحث کرسکتے ہیں۔
احادیث ہدایہ کی تخریج حافظ الدنیا حافظ ابن حجر بھی تحقیق وتخریج کرچکے ہیں ظاہر سی بات ہے کہ حافظ ابن حجر کامرتبہ بھی علم حدیث میں آج کل کے ’’محققین‘‘ سے کچھ زیادہ ہی ہے۔
حافظ زیلعی اور حافظ ابن حجر نے جن احادیث کے بارے میں کہاتھالم اجدہ اس کی بھی تخریج حافظ علاء الدین مغلطائی نے منیۃ الالمعی کے نام سے کی ہے۔
علمی زوال اور جرات بے جا اورقلت ادب کی افسوسناک مثال یہ ہے کہ جہاں پر حافظ زیلعی اورحافظ ابن حجر کو حدیث نہیں ملی توحافظ زیلعی حدیث غریب کا استعمال کرتے ہیں اور حافظ ابن حجر لم اجدہ لیکن آج کل لوگ اس کو صاحب سیدھے باطل ،لااصل لہ جیسی اصطلاح اختیار کرلیتے ہیں اوریہ سوچنے کی زحمت گوارہ نہیں کرتے کہ شاید ہمارے ہی تلاش میں کچھ کمی رہی ہوگی۔ بلکہ نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ عنوان قائم کیاجاتاہے’’صاحب ہدایہ کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پرافتراء‘‘اس گفتار بے ڈھنگی پر کوئی کہے توکیاکہے۔سوائے اس کہ کہنے والے کی آنکھوں کاپانی مرچکاہے ۔

صاحب ہدایہ نے جہاں جہاں پرتسامحات کی ہیں ان کی گرفت بہترطورپر حافظ بدرالدین عینی اورعلامہ ابن ہمام اور دیگر پچاسوں شراح ہدایہانجام دے چکے ہیں۔(ہدایہ کی شروحات کیلئے کشف الظنون دیکھیں )
فقہ حنفی اتنی بھی بے مایہ نہیں ہے کہ صاحب ہدایہ کے تسامحات کیلئے ہمیں آج کل کے محققین کی ضرورت پڑے یہ کام علماء احناف پورے علم وآگہی کے ساتھ انجام دے چکے ہیں اور وابستگان فقہ حنفی اس سے خوب واقف ہیں ۔بس فرق اتنا ہے کہ علماء احناف نے یہ کام صاحب ہدایہ کی علمی عظمت ومرتبت کاخیال رکھتے ہوئے انجام دیاتھا اورآج کل یہ کام استہزاء اوربازاری زبان استعمال کرتے ہوئے کیاجارہاہے وللہ فی خلقہ شئون ۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
اگرمقصد اس قدر ہے کہ ہدایہ میں جوتھوڑی بہت فنی اورعلمی غلطیاں ہیں اس کو ظاہر کیاجائے تو یہ کام بہت اچھے طریقے سے علماء احناف انجام دے چکے ہیں۔اس موضوع پرحافظ ابن الترکمانی (مولف الجوہرالنقی )اوران کے شاگرد حافظ زیلعی بے مثال کام انجام دے چکے ہیں انہوں نےچارضخیم جلدوں میں احادیث ہدایہ کی تحقیق وتخریج نصب الرایہ کے نام سے کی ہے۔مولانا ارشاد الحق اثری ہوں یاپھر کوئی دوسرے صاحب نہ علم حدیث میں حافظ زیلعی سے بلند مرتبہ ہیں اورنہ ہی ان سے بہتر احادیث ہدایہ پر تحقیقی اورفنی بحث کرسکتے ہیں۔
فقہ حنفی اتنی بھی بے مایہ نہیں ہے کہ صاحب ہدایہ کے تسامحات کیلئے ہمیں آج کل کے محققین کی ضرورت پڑے یہ کام علماء احناف پورے علم وآگہی کے ساتھ انجام دے چکے ہیں اور وابستگان فقہ حنفی اس سے خوب واقف ہیں ۔
محترم بھائی! کسی علم یا کتاب پر سلف صالحین (جو علم وعمل ہر لحاظ سے ہم پر فائق تھے) کے کام کے بعد یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اب اس پر کام کا دروازہ بند ہوگیا ہے اب اس کے متعلّق مثبت یا منفی کچھ نہیں لکھا جا سکتا۔ اگر ایسی ہی بات ہوتی تو ہمارے سلف صالحین ہر ہر موضوع پر اتنا کچھ لکھ چکے ہیں کہ پھر ہمیں تفسیر، حدیث، فقہ واصول وغیرہ کسی پر آج کچھ بھی لکھنے کی اجازت نہیں ہونی چاہئے۔ حالانکہ اس کا قائل کوئی بھی نہیں۔
بس فرق اتنا ہے کہ علماء احناف نے یہ کام صاحب ہدایہ کی علمی عظمت ومرتبت کاخیال رکھتے ہوئے انجام دیاتھا اورآج کل یہ کام استہزاء اوربازاری زبان استعمال کرتے ہوئے کیاجارہاہے۔
جی بھائی! بجا فرمایا، مجھے آپ سے اتفاق ہے کہ ایسا کام استہزاء اور بازاری زبان استعمال کرتے ہوئے نہیں کرنا چاہئے، جزاکم اللہ خیرا!
لیکن بھائی! ہدایہ کے متعلّق آپ کا موقف تو الحمد للہ معتدلانہ ہے کہ
صاحب ہدایہ نے جہاں جہاں پرتسامحات کی ہیں ان کی گرفت بہترطورپر حافظ بدرالدین عینی اورعلامہ ابن ہمام اور دیگر پچاسوں شراح ہدایہ انجام دے چکے ہیں۔(ہدایہ کی شروحات کیلئے کشف الظنون دیکھیں )
لیکن اگر اس کے متعلق اتنا غلوّ کیا جائے گا کہ ’ہدایہ‘ صحت میں قرآن کی طرح ہے، جس نے (قرآن کی طرح) اپنے سے پہلے تمام شرعی کتابیں (تمام مسالک کی تمام دینی کتب) منسوخ کر دی ہیں جو اس کے مطابق چلا تو اس کی بات غلطی اور جھوٹ سے محفوظ ومامون ہوجائے يا اس میں کوئی روایت ضعیف نہیں وغیرہ وغیرہ!
إن الهداية كالقرآن قد نسخت *** ما ألفوا قبلها في الشرع من كتب ‏
فاحفظ قواعدها واسلك مسالكها ** يسلم مقالك من زيغ ومن كذب ‏

تو اس کے ردّ عمل میں بعض حضرات ’راہ اعتدال‘ سے ہٹ جاتے ہیں۔ جس کی حوصلہ افزائی بھی بہرحال نہیں کی جا سکتی۔
واللہ تعالیٰ اعلم!
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
ہدایہ پر اعتراض
کسی کتاب کی اہمیت کااندازہ اس سے بھی لگایاجاتاہے کہ اس کی خدمت کتنی اورکس قدر ہوئی ہے اورکتنے اجلہ علماء نے اس کے شرح وحواشی کی جانب توجہ دی ہے اس لحاظ سے اگرہدایہ کی جانب نگاہ کی جائے توپتہ چلتاہے کہ مذاہب اربعہ میں اس کتاب کی مثال موجود نہیں ہے۔اس کتاب کی ایک اورجوبنیادی خصوصیت ہے وہ یہ کہ کسی حکم کی علت اورلم سے تعرض کرتی ہے جس کو اگرکوئی شخص غوروامعان سے پڑھے تو وہ احکام کی علت کو سمجھنے پر قادر ہوسکتاہے۔
ِنجناب نے یہ صحیح فرمایاکہ کوئی تحقیق حرف ِخر نہیں ۔لیکن بخاری کی بحث میں محترم ابوالحسن علوی نے ہی جوارشاد فرمایاہے
صحیحین پر ہونے والی اس تمام نقد اور اس کے جواب کے بعد ان دونوں کتب میں وہ مقامات متعین ہو گئے کہ جن میں کوئی علل پائی جاتی ہیں اور ان علل کے درجہ کا تعین بھی ہو گیا ہے کہ وہ علل قادحہ ہیں یا نہیں ہیں۔اب عصر حاضر میں کسی بھی عالم کے لیے یہ گنجائش باقی نہیں رہی کہ وہ صحیحین کی کسی ایسی روایت پر کلام کرے کہ جس پر سلف نے کلام نہ کیا ہوکیونکہ امام الدارقطنی رحمہ اللہ وغیرہ کے کام سے یہ متعین ہو گیا کہ صحیحین میں صرف یہ مقامات ایسے ہیں کہ جن میں کلام کی گنجائش موجود ہے۔ اب اگر کوئی شخص امام الدارقطنی یاأئمہ سلف میں سے کسی اور محدث کی بیان کردہ تحقیقات کی روشنی میں صحیح بخاری یا صحیح مسلم کی کسی حدیث پر نقد کرتا ہے تو اس کی یہ تنقیدصحیحین پر کوئی مستقل بالذات تنقید شمار نہ ہو گی اور ایسی تنقید کاأئمہ سلف ہی میں سے بہت سے أئمہ نے کافی و شافی جواب دے دیا ہے ۔اور اگر کوئی شخص صحیحین کی کسی ایسی روایت پر تنقید کرتا ہے کہ جس پر أئمہ سلف میں سے کسی نے بھی کلام نہ کیا ہو تو ایسا شخص اجماع محدثین کی مخالفت کر رہا ہے کیونکہ جن روایات پر محدثین نے تنقید نہ کی تو اس سے یہ طے ہو گیا کہ تمام محدثین کے نزدیک یہ روایات صحیح ہیں لہذا ان روایات پر کلام کرنا جمیع محدثین کے دعوی صحت کو چیلنچ کرنا ہے اور ایسا دعوی ہی ناقابل التفات ہے چہ جائیکہ اس کی تحقیق کی جائے۔
ہم یہ نہیں کہتے کہ ہدایہ کامرتبہ صحیحین کے برابر ہے اورنہ ایسی بات سوچی جاسکتی ہے لیکن وجہ تشبیہ یہ ہے کہ کیاکوئی کتاب ایسی ہوسکتی ہے کہ جس پر بعد والوں کیلئے تنقید کا کوئی گوشہ باقی نہ رہے۔ تومیراخیال ہے کہ نظری طورپر کتاب اللہ کے سواہرکتاب میں اس کی گنجائش ہے ہاں بات جب عملی طورپر آئے گی تب پتہ چل جائے گاکہ یہ ناممکن کام ہے ۔
اصل یہ ہے کہ ہرشے پر کلام کی دوحیثیت ہواکرتی ہیں یہ ایک نظری اورایک عملی۔نظری طورپر یہ بھی ممکن ہے کہ بعد کا کوئی شخص سابقہ ادورار کے محدثین سے حفظ حدیث اورمعلومات حدیث میں بڑھ جائے اوربخاری پر نئے زاویہ سے تنقید کرے نظری طورپر اس میں کوئی اشکال نہیں ہے لیکن عملی طورپر یہ ناممکن ہے ۔
اسی طرح ہدایہ کے بارے میں ہے۔نظری طورپر یہ عین ممکن ہے کہ ہدایہ پر نئے جہت سے تنقید کی جاسکے لیکن عملی طورپرہدایہ پر کوئی ایسی تنقید کرنا جو سابقہ شارحین،محشین اورہدایہ کی خدمت کرنے والوں نے نہ کیاہو ممکن نظرنہیں آتا۔
آگے بڑھتے ہیں ہدایہ کی تعریف میں کہے گئے اشعار پر
لوگ بنیادی امور سے توجہ ہٹالیتے ہیں اورپھر چھوٹی چھوٹی باتوں پر بڑے بڑے نتائج تعمیر کرلیتے ہیں بالکل مولانا وحیدالدین خان کی طرح۔
اولاتویہ دیکھناچاہئے کہ یہ شعر کس نے کہاہے۔اس کی علمی حیثیت کیاہے۔دوسرے یہ کہ کیا احناف نے اس قول کو عمل کی شکل دی ہے۔ اگر یہ دو بنیادی باتیں حل ہوجائیں توپھر معترضین کے اعتراضات صحیح ثابت ہوسکتے ہیں۔ ہمیں افسوس ہے کہ مولانا ارشاد صاحب اثری نے اپنی کتاب میں ان دونوں ہی امور سے صرف نظرکرلیاہے۔
ہمیں امید ہے کہ انس نضر صاحب اپنے اگلے مراسلہ میں اس شعر کے شاعر کا کوائف بیان کردیں گے جہاں تک احناف کے اس کو عملی شکل دینے کی بات ہے تو کسی بھی قابل ذکر اورمعتبر عالم نے اس شعر کے کہے گئے الفاظ کی تائید نہیں کی ہے۔زیادہ سے زیادہ جوبات ہے وہ کسی نے صاحب ہدایہ کی ادبیت کی تعریف کی ہے۔ کسی نے ان دلیل عقلی ونقلی کے جمع کرنے کی تعریف کی ہے اورکسی نے ائمہ کے دلائل اورپھر اس پر جواب الجواب کی تعریف کی ہے۔اگر احناف اس شعر کے عملی طورپر قائل ہوتے توپھر حافظ زیلعی کو کیاضرورت پڑی تھی کہ وہ ہدایہ کی احادیث کی تخریج کرتے اوردنیا کوبتاتے کہ اس میں ضعیف اورکمزور احادیث کے ساتھ ساتھ موضوع اورایسی احادیث بھی موجود ہیں جس کاموجودہ کتب حدیث میں کہیں کوئی پتہ نہیں ہے۔اگراحناف عملی طورپر اس کے قائل ہوتے تو صاحب فتح القدیر علامہ ابن ہمام اورمولف البنایہ علامہ عینی کو کیاضرورت پڑی تھی کہ صاحب ہدایہ کے تسامحات کو سامنے لاتے۔

1. إن الهداية كالقرآن قد نسخت *** ما ألفوا قبلها في الشرع من كتب ‏
فاحفظ قواعدها واسلك مسالكها ** يسلم مقالك من زيغ ومن كذب ‏

ہدایہ کا تھوڑابہت جوکچھ بھی مطالعہ میں نے کیاہے مجھے نہیں معلوم ہے کہ ہدایہ کی تصنیف اوران اشعار کے کہے جانے کے بعد اورلوگوں کے علم میں آنے کے بعد کسی شخص نے یہ اعتراض اٹھایاہو کہ اس طرح توہدایہ کو قرآن کے برابر کردیاگیاہے۔یہ بس دورحاضر کے ہی چند محققین کی بزعم خود "تحقیق" ہے ۔
رشید احمد صدیقی مشہور طنز نگار ہیں انہوں نے مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کے روائع اقبال پر مقدمہ تحریر کرتے وقت لکھاتھاعلماء عموماہرجدید چیز کو مشتبہ نگاہوں سے دیکھنے کے عادی ہیں۔لیکن کچھ مخصوص علماء حضرات کے بارے میں شاید کہناپڑے کہ فقہ حنفی اورفقہائے احناف کے سلسلے میں ہرچیز کو بڑی مشتبہ نگاہوں سے دیکھنے کے عادی ہیں۔خیر احتیاط اچھی بات ہے بشرطیکہ وہ شکوک کی حدوں تک نہ پہنچتاہو۔
شعروادب سے واقفیت رکھنے جانتے ہیں اورجن کا مطالعہ ہی اردو کاہے وہ کم ازکم حالی کا مقدمہ شعروشاعری پڑھ لیں توپتہ چلے گا کہ شعر کی بنیادی خصوصیت ہی مبالغہ ہے۔اگرجیساہے ویساہی بیان کیاجارہاہے تو وہ فوٹوگرافر ہے۔مصور اورشاعر نہیں ہے۔ شاعر کہتے اسی کو ہیں جواس میں اپنے تخیل سے ایک نئی بات پیداکردے۔کسی کی خوبصورتی کوچاند وسورج سے تشبیہ دے ۔کسی کے حسن کو پھولوں اورکلیوں سے بڑھائے۔
پھریہ بھی یاد رہے کہ تشبیہ من کل الوجوہ نہیں ہوتی ہے کسی ایک خصوصیت میں تشبیہ دی جاتی ہے۔ہدایہ کالقرآن جوکہاگیاہے تواس کا یہ مطلب کس نے لیاہے یہ واقعتاقرآن کی طرح ہے۔بس اتنی سی بات کہی گئی ہے کہ جس طرح قرآن نے سابقہ کتابوں کو منسوخ کردیااسی طرح ہدایہ جو اپنی نظیرآپ ہے اس میں مسائل فقہ اوراس کے دلائل اس اختصار اورجامعیت سے قلم بند کیاگیاہے کہ اگر دوسری کتب فقہ نہ بھی ہو توحرج نہیں ہوگا ۔ اس کو شاعر نے نسخ سے تعبیر کیاہے۔اورپھر بعد میں کہاگیاکہ اس کتاب کو اچھی طرح یاد کرلو کیونکہ اسکے بعد تم غلطیوں سے محفوظ ہوجاؤگے۔کسی بھی فقہ کی اچھی کتاب کو لیں اوراس کے علماء سے سوال کریں کہ اس کتاب کا فائدہ کیاہے وہ کیاکہیں گے کہ اس کوپڑھنے اوریاد کرنے سے انسان غلطیوں سے محفوظ ہوجائے گایایہ کہیں گےکہ انسان غلطیاں کرنے لگے گا؟ یاللعجب
عموماًجہاں لوگ تعریف کرتے ہین وہاں کسی قدرمبالغہ سے کام لیتے ہیں۔ امام احمد بن حنبل کے ذکر میں مشہور محدث اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں ۔
وقال إسحاق بن راهويه: لولا أحمدُ بن حنبل، وبَذْلُ نفسه - لمَّا بذلَهَا - لَذَهَبَ الإسلام اگرامام احمد بن حنبل اوران کی جدوجہد نہ ہوتی تواسلام ختم ہوگیاہوتا۔
میرے خیال سے آپ نے یاکسی دوسرے بزرگ نے اس قول پر ویسی تنقیدی نگاہ نہیں ڈالی ہوگی جیسی ہدایہ کالقرآن پر ڈالی ہے۔یہ بات ملحوظ خاطر رہے کہ کہیں بھی نہ ایسی کوشش ہے اورنہ خیال ہے کہ صاحب ہدایہ کا مرتبہ امام احمد بن حنبل کے برابر کیاجائے لیکن تعریف میں جو مبالغہ کیاگیاہے اس کا ایک ذکر مقصود ہے
حاصل کلام یہ کہ شاعروں سے یہ مطالبہ کرنا کہ وہ فقہاء کی طرح عبارت تول تول کر لکھیں اوراس کو اپنے تنقید کی بنیاد بنانا اصولی طورپر غلط ہے۔
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
1,969
ری ایکشن اسکور
6,263
پوائنٹ
412
ہم یہ نہیں کہتے کہ ہدایہ کامرتبہ صحیحین کے برابر ہے اورنہ ایسی بات سوچی جاسکتی ہے
برابر تو بہت دور کی بات ہے میرے بھائی ہدایہ جیسی کتاب کا صرف صحیحین کے ساتھ ذکر کردینا ہی صحیحین کا شان گھٹانا ہے۔ لیکن کیا کیجئے کہ ایسی کتابوں کا تذکرہ اعلیٰ اور بڑی کتابوں کے ساتھ اس لئے کیا جاتا ہے کہ کچھ تو ان کتابوں کی اہمیت لوگوں کی نظر میں پیدا ہو!
ورنہ
کہاں وہ کتاب جس میں امام ابوحنیفہ کی رائے کے علاوہ کچھ نہیں اور رائے بھی وہ جس کے بارے میں خود امام صاحب کہتے ہوں کہ یہ میری رائے ہے جو آج کچھ ہے اور کل کچھ اور یعنی روز بدلتی رہتی ہے۔ اور کہاں صحیحین جو کسی امتی کی ناقص رائے کے بجائے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک ارشادات سے لبریز ہے۔ جن پر لب کشائی کرنا بھی ایمان سے محرومی سے خالی نہیں۔

ہدایہ اور صحیحین کا تذکرہ ساتھ ساتھ کرنا اس لئے بھی انتہائی نامناسب ہے کہ صحیحین کی صحت پر تو امت کا اجماع ہے اور یہ معتبر اور مقدس کتب ہیں۔ لیکن ہدایہ کو تو حنفیوں کے علاوہ کوئی پوچھتا تک نہیں!!! اور جو حنفی فقہ حنفی کی کتابوں کا مطالعہ غیر جانب دار ہو کر کر لے تو اکثر وہ اس فقہ اور امام صاحب کے مذہب ہی سے توبہ کر لیتا ہے۔


تنبیہہ: ازراہ کرم غیر مناسب الفاظ سے پرہیز کریں۔ آپ کی پوسٹ میں فی الحال ترمیم کر دی گئی ہے۔ انتظامیہ
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
برابر تو بہت دور کی بات ہے میرے بھائی ہدایہ جیسی کتاب کا صرف صحیحین کے ساتھ ذکر کردینا ہی صحیحین کا شان گھٹانا ہے۔ لیکن کیا کیجئے کہ ایسی کتابوں کا تذکرہ اعلیٰ اور بڑی کتابوں کے ساتھ اس لئے کیا جاتا ہے کہ کچھ تو انکی اہمیت لوگوں کی نظر میں پیدا ہو!
ورنہ
کہاں وہ کتاب جس میں امام ابوحنیفہ کی رائے کے علاوہ کچھ نہیں اور رائے بھی وہ جس کے بارے میں خود امام صاحب کہتے ہوں کہ یہ میری رائے ہے جو آج کچھ ہے اور کل کچھ اور یعنی روز بدلتی رہتی ہے۔ اور کہاں صحیحین جو کسی امتی کی ناقص رائے کے بجائے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک ارشادات سے لبریز ہے۔ جن پر لب کشائی کرنا بھی ایمان سے محرومی سے خالی نہیں۔

ہدایہ اور صحیحین کا تذکرہ ساتھ ساتھ کرنا اس لئے بھی انتہائی نامناسب ہے کہ صحیحین کی صحت پر تو امت کا اجماع ہے اور یہ معتبر اور مقدس کتب ہیں۔ لیکن ہدایہ کو تو حنفیوں کے علاوہ کوئی پوچھتا تک نہیں!!! ورنہ جو حنفی فقہ حنفی کی کتابوں کا مطالعہ غیر جانب دار ہو کر کر لے تو اکثر وہ اس فقہ اور امام صاحب کے مذہب ہی سے توبہ کر لیتا ہے۔
پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہے
کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
آفتاب بھائی! آپ اپنا دعویٰ بیان کریں۔

  1. کیا آپ کے نزدیک ’ہدایہ‘ قرآن کی طرح ہے، جس نے اپنے سے پہلے تمام شرعی کتابیں منسوخ کر دی ہیں؟؟؟
  2. کیا آپ کے نزدیک اس میں کوئی روایت ضعیف نہیں؟؟؟
آفتاب بھائی! آپ نے درج بالا دونوں باتوں کا جواب نہیں دیا، شائد اس لئے کہ
آپ دیگر احناف کے برخلاف درج بالا دونوں دعوں کو بالکل غلط اور باطل سمجھتے ہیں؟!!
کیا میں درست سمجھا ہوں؟!!
 
Top