- شمولیت
- اپریل 14، 2011
- پیغامات
- 1,118
- ری ایکشن اسکور
- 4,480
- پوائنٹ
- 376
افتاب صاحب کی پیش کردہ کتاب اوپننہیں ہوئی ورنہ راقم اس کتاب کا مکمل جواب دینےکےلئے تیار ہے
ابن بشیربھائی آپ اس کتاب کو ان دولنکس سے ڈاؤنلوڈ کرسکتے ہیںافتاب صاحب کی پیش کردہ کتاب اوپننہیں ہوئی ورنہ راقم اس کتاب کا مکمل جواب دینےکےلئے تیار ہے
محترم بھائی! کسی علم یا کتاب پر سلف صالحین (جو علم وعمل ہر لحاظ سے ہم پر فائق تھے) کے کام کے بعد یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اب اس پر کام کا دروازہ بند ہوگیا ہے اب اس کے متعلّق مثبت یا منفی کچھ نہیں لکھا جا سکتا۔ اگر ایسی ہی بات ہوتی تو ہمارے سلف صالحین ہر ہر موضوع پر اتنا کچھ لکھ چکے ہیں کہ پھر ہمیں تفسیر، حدیث، فقہ واصول وغیرہ کسی پر آج کچھ بھی لکھنے کی اجازت نہیں ہونی چاہئے۔ حالانکہ اس کا قائل کوئی بھی نہیں۔اگرمقصد اس قدر ہے کہ ہدایہ میں جوتھوڑی بہت فنی اورعلمی غلطیاں ہیں اس کو ظاہر کیاجائے تو یہ کام بہت اچھے طریقے سے علماء احناف انجام دے چکے ہیں۔اس موضوع پرحافظ ابن الترکمانی (مولف الجوہرالنقی )اوران کے شاگرد حافظ زیلعی بے مثال کام انجام دے چکے ہیں انہوں نےچارضخیم جلدوں میں احادیث ہدایہ کی تحقیق وتخریج نصب الرایہ کے نام سے کی ہے۔مولانا ارشاد الحق اثری ہوں یاپھر کوئی دوسرے صاحب نہ علم حدیث میں حافظ زیلعی سے بلند مرتبہ ہیں اورنہ ہی ان سے بہتر احادیث ہدایہ پر تحقیقی اورفنی بحث کرسکتے ہیں۔
فقہ حنفی اتنی بھی بے مایہ نہیں ہے کہ صاحب ہدایہ کے تسامحات کیلئے ہمیں آج کل کے محققین کی ضرورت پڑے یہ کام علماء احناف پورے علم وآگہی کے ساتھ انجام دے چکے ہیں اور وابستگان فقہ حنفی اس سے خوب واقف ہیں ۔
جی بھائی! بجا فرمایا، مجھے آپ سے اتفاق ہے کہ ایسا کام استہزاء اور بازاری زبان استعمال کرتے ہوئے نہیں کرنا چاہئے، جزاکم اللہ خیرا!بس فرق اتنا ہے کہ علماء احناف نے یہ کام صاحب ہدایہ کی علمی عظمت ومرتبت کاخیال رکھتے ہوئے انجام دیاتھا اورآج کل یہ کام استہزاء اوربازاری زبان استعمال کرتے ہوئے کیاجارہاہے۔
لیکن اگر اس کے متعلق اتنا غلوّ کیا جائے گا کہ ’ہدایہ‘ صحت میں قرآن کی طرح ہے، جس نے (قرآن کی طرح) اپنے سے پہلے تمام شرعی کتابیں (تمام مسالک کی تمام دینی کتب) منسوخ کر دی ہیں جو اس کے مطابق چلا تو اس کی بات غلطی اور جھوٹ سے محفوظ ومامون ہوجائے يا اس میں کوئی روایت ضعیف نہیں وغیرہ وغیرہ!صاحب ہدایہ نے جہاں جہاں پرتسامحات کی ہیں ان کی گرفت بہترطورپر حافظ بدرالدین عینی اورعلامہ ابن ہمام اور دیگر پچاسوں شراح ہدایہ انجام دے چکے ہیں۔(ہدایہ کی شروحات کیلئے کشف الظنون دیکھیں )
ِنجناب نے یہ صحیح فرمایاکہ کوئی تحقیق حرف ِخر نہیں ۔لیکن بخاری کی بحث میں محترم ابوالحسن علوی نے ہی جوارشاد فرمایاہےکسی کتاب کی اہمیت کااندازہ اس سے بھی لگایاجاتاہے کہ اس کی خدمت کتنی اورکس قدر ہوئی ہے اورکتنے اجلہ علماء نے اس کے شرح وحواشی کی جانب توجہ دی ہے اس لحاظ سے اگرہدایہ کی جانب نگاہ کی جائے توپتہ چلتاہے کہ مذاہب اربعہ میں اس کتاب کی مثال موجود نہیں ہے۔اس کتاب کی ایک اورجوبنیادی خصوصیت ہے وہ یہ کہ کسی حکم کی علت اورلم سے تعرض کرتی ہے جس کو اگرکوئی شخص غوروامعان سے پڑھے تو وہ احکام کی علت کو سمجھنے پر قادر ہوسکتاہے۔
ہم یہ نہیں کہتے کہ ہدایہ کامرتبہ صحیحین کے برابر ہے اورنہ ایسی بات سوچی جاسکتی ہے لیکن وجہ تشبیہ یہ ہے کہ کیاکوئی کتاب ایسی ہوسکتی ہے کہ جس پر بعد والوں کیلئے تنقید کا کوئی گوشہ باقی نہ رہے۔ تومیراخیال ہے کہ نظری طورپر کتاب اللہ کے سواہرکتاب میں اس کی گنجائش ہے ہاں بات جب عملی طورپر آئے گی تب پتہ چل جائے گاکہ یہ ناممکن کام ہے ۔صحیحین پر ہونے والی اس تمام نقد اور اس کے جواب کے بعد ان دونوں کتب میں وہ مقامات متعین ہو گئے کہ جن میں کوئی علل پائی جاتی ہیں اور ان علل کے درجہ کا تعین بھی ہو گیا ہے کہ وہ علل قادحہ ہیں یا نہیں ہیں۔اب عصر حاضر میں کسی بھی عالم کے لیے یہ گنجائش باقی نہیں رہی کہ وہ صحیحین کی کسی ایسی روایت پر کلام کرے کہ جس پر سلف نے کلام نہ کیا ہوکیونکہ امام الدارقطنی رحمہ اللہ وغیرہ کے کام سے یہ متعین ہو گیا کہ صحیحین میں صرف یہ مقامات ایسے ہیں کہ جن میں کلام کی گنجائش موجود ہے۔ اب اگر کوئی شخص امام الدارقطنی یاأئمہ سلف میں سے کسی اور محدث کی بیان کردہ تحقیقات کی روشنی میں صحیح بخاری یا صحیح مسلم کی کسی حدیث پر نقد کرتا ہے تو اس کی یہ تنقیدصحیحین پر کوئی مستقل بالذات تنقید شمار نہ ہو گی اور ایسی تنقید کاأئمہ سلف ہی میں سے بہت سے أئمہ نے کافی و شافی جواب دے دیا ہے ۔اور اگر کوئی شخص صحیحین کی کسی ایسی روایت پر تنقید کرتا ہے کہ جس پر أئمہ سلف میں سے کسی نے بھی کلام نہ کیا ہو تو ایسا شخص اجماع محدثین کی مخالفت کر رہا ہے کیونکہ جن روایات پر محدثین نے تنقید نہ کی تو اس سے یہ طے ہو گیا کہ تمام محدثین کے نزدیک یہ روایات صحیح ہیں لہذا ان روایات پر کلام کرنا جمیع محدثین کے دعوی صحت کو چیلنچ کرنا ہے اور ایسا دعوی ہی ناقابل التفات ہے چہ جائیکہ اس کی تحقیق کی جائے۔
اسی طرح ہدایہ کے بارے میں ہے۔نظری طورپر یہ عین ممکن ہے کہ ہدایہ پر نئے جہت سے تنقید کی جاسکے لیکن عملی طورپرہدایہ پر کوئی ایسی تنقید کرنا جو سابقہ شارحین،محشین اورہدایہ کی خدمت کرنے والوں نے نہ کیاہو ممکن نظرنہیں آتا۔اصل یہ ہے کہ ہرشے پر کلام کی دوحیثیت ہواکرتی ہیں یہ ایک نظری اورایک عملی۔نظری طورپر یہ بھی ممکن ہے کہ بعد کا کوئی شخص سابقہ ادورار کے محدثین سے حفظ حدیث اورمعلومات حدیث میں بڑھ جائے اوربخاری پر نئے زاویہ سے تنقید کرے نظری طورپر اس میں کوئی اشکال نہیں ہے لیکن عملی طورپر یہ ناممکن ہے ۔
ہمیں امید ہے کہ انس نضر صاحب اپنے اگلے مراسلہ میں اس شعر کے شاعر کا کوائف بیان کردیں گے جہاں تک احناف کے اس کو عملی شکل دینے کی بات ہے تو کسی بھی قابل ذکر اورمعتبر عالم نے اس شعر کے کہے گئے الفاظ کی تائید نہیں کی ہے۔زیادہ سے زیادہ جوبات ہے وہ کسی نے صاحب ہدایہ کی ادبیت کی تعریف کی ہے۔ کسی نے ان دلیل عقلی ونقلی کے جمع کرنے کی تعریف کی ہے اورکسی نے ائمہ کے دلائل اورپھر اس پر جواب الجواب کی تعریف کی ہے۔اگر احناف اس شعر کے عملی طورپر قائل ہوتے توپھر حافظ زیلعی کو کیاضرورت پڑی تھی کہ وہ ہدایہ کی احادیث کی تخریج کرتے اوردنیا کوبتاتے کہ اس میں ضعیف اورکمزور احادیث کے ساتھ ساتھ موضوع اورایسی احادیث بھی موجود ہیں جس کاموجودہ کتب حدیث میں کہیں کوئی پتہ نہیں ہے۔اگراحناف عملی طورپر اس کے قائل ہوتے تو صاحب فتح القدیر علامہ ابن ہمام اورمولف البنایہ علامہ عینی کو کیاضرورت پڑی تھی کہ صاحب ہدایہ کے تسامحات کو سامنے لاتے۔اولاتویہ دیکھناچاہئے کہ یہ شعر کس نے کہاہے۔اس کی علمی حیثیت کیاہے۔دوسرے یہ کہ کیا احناف نے اس قول کو عمل کی شکل دی ہے۔ اگر یہ دو بنیادی باتیں حل ہوجائیں توپھر معترضین کے اعتراضات صحیح ثابت ہوسکتے ہیں۔ ہمیں افسوس ہے کہ مولانا ارشاد صاحب اثری نے اپنی کتاب میں ان دونوں ہی امور سے صرف نظرکرلیاہے۔
برابر تو بہت دور کی بات ہے میرے بھائی ہدایہ جیسی کتاب کا صرف صحیحین کے ساتھ ذکر کردینا ہی صحیحین کا شان گھٹانا ہے۔ لیکن کیا کیجئے کہ ایسی کتابوں کا تذکرہ اعلیٰ اور بڑی کتابوں کے ساتھ اس لئے کیا جاتا ہے کہ کچھ تو ان کتابوں کی اہمیت لوگوں کی نظر میں پیدا ہو!ہم یہ نہیں کہتے کہ ہدایہ کامرتبہ صحیحین کے برابر ہے اورنہ ایسی بات سوچی جاسکتی ہے
پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہےبرابر تو بہت دور کی بات ہے میرے بھائی ہدایہ جیسی کتاب کا صرف صحیحین کے ساتھ ذکر کردینا ہی صحیحین کا شان گھٹانا ہے۔ لیکن کیا کیجئے کہ ایسی کتابوں کا تذکرہ اعلیٰ اور بڑی کتابوں کے ساتھ اس لئے کیا جاتا ہے کہ کچھ تو انکی اہمیت لوگوں کی نظر میں پیدا ہو!
ورنہ
کہاں وہ کتاب جس میں امام ابوحنیفہ کی رائے کے علاوہ کچھ نہیں اور رائے بھی وہ جس کے بارے میں خود امام صاحب کہتے ہوں کہ یہ میری رائے ہے جو آج کچھ ہے اور کل کچھ اور یعنی روز بدلتی رہتی ہے۔ اور کہاں صحیحین جو کسی امتی کی ناقص رائے کے بجائے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک ارشادات سے لبریز ہے۔ جن پر لب کشائی کرنا بھی ایمان سے محرومی سے خالی نہیں۔
ہدایہ اور صحیحین کا تذکرہ ساتھ ساتھ کرنا اس لئے بھی انتہائی نامناسب ہے کہ صحیحین کی صحت پر تو امت کا اجماع ہے اور یہ معتبر اور مقدس کتب ہیں۔ لیکن ہدایہ کو تو حنفیوں کے علاوہ کوئی پوچھتا تک نہیں!!! ورنہ جو حنفی فقہ حنفی کی کتابوں کا مطالعہ غیر جانب دار ہو کر کر لے تو اکثر وہ اس فقہ اور امام صاحب کے مذہب ہی سے توبہ کر لیتا ہے۔
آفتاب بھائی! آپ اپنا دعویٰ بیان کریں۔
- کیا آپ کے نزدیک ’ہدایہ‘ قرآن کی طرح ہے، جس نے اپنے سے پہلے تمام شرعی کتابیں منسوخ کر دی ہیں؟؟؟
- کیا آپ کے نزدیک اس میں کوئی روایت ضعیف نہیں؟؟؟