• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فون پر طلاق اور فون پر رجوع؟؟؟

ام حسان

رکن
شمولیت
مئی 12، 2015
پیغامات
56
ری ایکشن اسکور
32
پوائنٹ
32
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

ایک شخص دبئی میں ہے اور اس نے غصے میں آکر انڈیا میں موجود اپنی بیوی کو فون پر طلاق دے دی۔
شاید 2 یا 3 دن پہلے کا واقعہ ہے۔ اب وہ رجوع کرنا چاہتا ہے۔ لیکن وہ انڈیا نہیں جاسکتا۔ کسی مسئلہ میں الجھا ہوا ہے اور اسکا پاسپورٹ پولیس کی تحویل میں ہے۔
تو کیا فون پر دی گئی یہ طلاق واقع ہوگئی؟
اور کیا رجوع بھی فون پر ہوجائیگا یا اسکے کچھ شروط ہیں؟؟

جزاکم اللہ خیرا
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

ایک شخص دبئی میں ہے اور اس نے غصے میں آکر انڈیا میں موجود اپنی بیوی کو فون پر طلاق دے دی۔
شاید 2 یا 3 دن پہلے کا واقعہ ہے۔ اب وہ رجوع کرنا چاہتا ہے۔ لیکن وہ انڈیا نہیں جاسکتا۔ کسی مسئلہ میں الجھا ہوا ہے اور اسکا پاسپورٹ پولیس کی تحویل میں ہے۔
تو کیا فون پر دی گئی یہ طلاق واقع ہوگئی؟
اور کیا رجوع بھی فون پر ہوجائیگا یا اسکے کچھ شروط ہیں؟؟
جزاکم اللہ خیرا
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ ؛
فون پر دی گئی طلاق یقیناً واقع ہو جاتی ہے ، اگر ہوش و حواس میں کسی جبر کے بغیر دی گئی ہو ،کیونکہ فون پر کسی سے گفتگو بالمشافہ گفتگو کی طرح ہی ہے،
بلکہ فون پر کی گئی گفتگو کا ریکارڈ بھی بعد میں دستیاب ہو سکتا ہے ،تو اسطرح یہ بالمشافہہ گفتگو سے بھی زیادہ قابل اعتبار ہے ،
ایک فتوی اس مسئلہ پر آپکی خدمت میں پیش ہے ۔
الطلاق عبر الهاتف
السؤال : ما قول فضيلتکم إذا طلق الرجل زوجته عبر الهاتف النقال أو رسالة الجوال ، ھل هی طالق أم لا؟
سوال :
اگر کوئی اپنی بیوی کو فون کے ذریعے طلاق دے ،یا ایس ایم ایس ،کے طلاق بھیجے تو کیا اس طرح یہ طلاق واقع ہو جائے گی یا نہیں ؟

الجواب :
الحمد لله
إذا قال الرجل لزوجته عبر الهاتف : أنت طالق ، أو طلقتك ، وقعت طلقة واحدة ، كما لو قال ذلك بحضورها ، أو قاله في غيابها بدون استعمال الهاتف .
وكذلك إذا كتب رسالة على الهاتف الجوال يخاطب فيها زوجته أنه طلقها ، أو يخاطب غيرها بأنه طلق زوجته ، وكان قاصداً للطلاق ، فإنه يقع بذلك الطلاق أيضاً .
ولمزيد الفائدة ينظر جواب السؤال رقم : (72291) .
والله أعلم .
جواب : اگر کوئی خاوند اپنی بیوی کو بذریعہ فون کہے کہ تجھے طلاق ہے ۔۔یا۔۔میں تجھے طلاق دیتا ہوں ،تو ایک طلاق واقع ہو جائے گی ،بالکل اسی جس طرح یہی بات
اس کے سامنے کہتا تو موثر ہوتی ،یا اس کی غیر موجودگی ،اور غیبت میں کہتا ؛
اسی طرح فون کے ذریعے لکھے گئے پیغام (ایس ایم ایس )اگر بیوی کو طلاق دے ۔یا ۔کسی اور کو یہ پیغام بھیج کر بتائے کہ میں نے اپنی بیوی کو طلاق دی ہے اور اس سے اس کا ارادہ بھی طلاق دینے کا ہو تو یہ طلاق واقع ہو جائے گی ؛
الإسلام سؤال وجواب
http://islamqa.info/ar/148520
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
اسی ضمن میں ایک اور فتوی دیکھئے :

’’ طلقها ثلاثا عن طريق الهاتف
السؤال : زوجي طلقني قبل شهر عن طريق الهاتف وقالها 3 مرات ، هل يجوز الرجوع له؟

الجواب :
الحمد لله

الطلاق عبر الهاتف طلاق صحيح معتبر ، فما دام الزوج قد تلفظ بالطلاق فقد وقع .

وطلاق الثلاث مختلف فيه بين أهل العلم ، والجمهور على أنه يقع ثلاثا .

وذهب جماعة من أهل العلم إلى أن طلاق الثلاث يقع واحدة ، وهو اختيار شيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله ، ورجحه الشيخ السعدي والشيخ ابن عثيمين رحمهما الله .
واستدلوا بما رواه مسلم (1472) عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما قَالَ : (كَانَ الطَّلَاقُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي بَكْرٍ وَسَنَتَيْنِ مِنْ خِلَافَةِ عُمَرَ طَلَاقُ الثَّلَاثِ وَاحِدَةً) فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ : إِنَّ النَّاسَ قَدْ اسْتَعْجَلُوا فِي أَمْرٍ قَدْ كَانَتْ لَهُمْ فِيهِ أَنَاةٌ فَلَوْ أَمْضَيْنَاهُ عَلَيْهِمْ فَأَمْضَاهُ عَلَيْهِمْ).

وينظر جواب السؤال رقم (36580) .

وعلى هذا القول يجوز لزوجك إرجاعك خلال العدة ، إن كانت هذه هي الطلقة الأولى أو الثانية.

والله أعلم .


الإسلام سؤال وجواب
---------------------------------------
ترجمہ :
147987: فون كے ذريعہ بيوى كو تين طلاقيں دے ديں
ميرے خاوند نے مجھے ايك ماہ قبل فون كے ذريعہ طلاق دے دى اور طلاق كے الفاظ تين بار كہے، كيا اسے رجوع كا حق حاصل ہے ؟
الحمد للہ:

فون كے ذريعہ طلاق صحيح اور معتبر شمار ہوتى ہے، اس ليے جب خاوند نے طلاق كے الفاظ كہے ہيں تو طلاق واقع ہو گئى ہے، اور ايك ہى مجلس ميں تين طلاق كا مسئلہ علماء كرام كے ہاں اختلافى مسئلہ ہے، جمہور علماء كرام كے ہاں تين طلاقيں ہى واقع ہو جاتى ہيں.
(لیکن دلائل کی رو ايك ہى مجلس ميں تين طلاق میں ایک رجعی واقع ہوگی )

اہل علم كى ايك جماعت كے ہاں تين طلاقوں كى بجائے ايك طلاق واقع ہوگى، اور شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ نے يہى اختيار كيا ہے، اور شيخ سعدى اور شيخ اين عثيمين رحمہما اللہ نے اسے ہى راجح قرار ديا ہے.
انہوں نے صحيح مسلم كى درج ذيل حديث سے استدلال كيا ہے:
ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ:
" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور مبارك ميں اور ابو بكر رضى اللہ تعالى عنہ كى خلافت ميں اور عمر فاروق رضى اللہ تعالى عنہ كى خلافت كے دو برس تك تو تين طلاق ايك ہى شمار ہوتى تھى "


چنانچہ عمر رضى اللہ تعالى عنہ كہنے لگے: لوگوں نے ايسے معاملہ ميں جلد بازى سے كام لينا شروع كر ديا جس ميں ان كے ليے ٹھراؤ تھا، اس ليے اگر ہم اسے ان پر جارى كر ديں توانہوں نے اسے ان پر (بطور تعزیر ) جارى كر ديا "صحيح مسلم حديث نمبر ( 1472 ).

مزيد آپ سوال نمبر ( 36580 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.

اس قول كى بنا پر آپ كے خاوند كے ليے دوران عدت رجوع كرنا جائز ہے، ليكن شرط يہ ہے كہ اگر يہ پہلى يا دوسرى طلاق تھى.

واللہ اعلم .

الاسلام سوال و جواب
http://islamqa.info/ur/147987
 

ام حسان

رکن
شمولیت
مئی 12، 2015
پیغامات
56
ری ایکشن اسکور
32
پوائنٹ
32
جزاکم اللہ خیرا شیخ
کیا رجوع کے لیے ہمبستری شرط ہے؟؟
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
جزاکم اللہ خیرا شیخ
کیا رجوع کے لیے ہمبستری شرط ہے؟؟
رجوع کے لیے ہم بستری شرط نہیں ،رجوع بالقول بھی کافی ہے ،
جیسا کہ مندرجہ ذیل فتوی سے واضح ہے :

(الحمد لله والصلاة والسلام على رسول الله وعلى آله وصحبه، أما بعد:
فما دمت رددت زوجتك في عدتها من الطلاق الرجعي، فقد رجعت إلى عصمتك، ولا تتوقف صحة الرجعة على الجماع، بل الأصل في الرجعة أن تكون بالقول، وأما الجماع بغير قول فمختلف في حصول الرجعة به، فإن كنت تلفظت بالرجعة، فقد صحّت، قال ابن قدامة ـ رحمه الله ـ: فأما القول فتحصل به الرجعة بغير خلاف. المغني لابن قدامة (7/ 524)
وللفائدة راجع الفتوى رقم: 106067.
والله أعلم.
یعنی اگررجعی طلاق میں عدت کے اندر رجوع کرلیا جائے ،تو صحیح ہے ،اور رجوع کیلئے جماع شرط نہیں ۔۔۔رجوع میں اصل تو قول سے رجوع ہے ،الخ
لنک فتوی
 
Top