• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فکرڈاکٹر غلام جیلانی برق پر جاوید چوہدری اور اوریا مقبول جان کی قلمی جنگ

makki pakistani

سینئر رکن
شمولیت
مئی 25، 2011
پیغامات
1,323
ری ایکشن اسکور
3,040
پوائنٹ
282
ایک صاحب منتشر خیالات کے حامل اور دوسرے اپنی فکری تسلسل کے۔
 

عبید رضا

مبتدی
شمولیت
مئی 08، 2015
پیغامات
1
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
25
دو قرآن کتاب کو پڑھا مگر ایک قرآن کو نہیں پڑھا، تو احد کے بارے ایسی ہی تحقیق ہو سکتی تھی، ویسے بھی احد کے بارے ان کی ساری باتیں حدیث کی بنیاد پر تھیں، اور دو اسلام اور دو قرآن کے مطابق تو وہ سب لوگوں کی بنائی ہوئی باتیں، تو ان کے نزدیک تو ماخذ ایک ہی ٹھہرا، وہ ہے قرآن، اور قرآن تو اسی توکل کی بات کر رہا ہے جس کا وہ موصوف مذاق اڑا رہے ہیں۔
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
کیا ہے تو نے متاعِ غرور کا سودا
اوریا مقبول جان پير 11 مئ 2015

کس قدر حیرت اور تعجب کی بات ہے کہ ہم جسے حقائق کی دنیا کہتے ہیں اور جس میں کامیابی و ناکامی پر قوموں کے عروج و زوال کی داستانیں رقم کرتے ہیں میرا اللہ اسے ’’متاعِ غرور‘‘ یعنی دھوکے کا سامان کہتا ہے۔ یہ دنیا اگر کسی سیاستدان، بادشاہ، سائنسدان، دانشور یا کالم نگار نے تخلیق کی ہوتی تو میں یقیناً اسے حقائق کی دنیا تسلیم کر لیتا اور اپنا تمام ماتم دنیا میں کامیابی اور ناکامی سے منسلک کر دیتا۔ لیکن میں کیا کروں، میرا کامل ایمان ہے کہ یہ دنیا اللہ تبارک و تعالیٰ نے تخلیق کی ہے اور وہ اس دنیا کی اس سے زیادہ تعریف نہیں فرماتا کہ یہ دھوکے کا سامان ہے۔ سید الانبیاء ﷺ نے اس دنیا میں رہنے، زندگی بسر کرنے یا ایک معلوم وقت گزارنے کے لیے اس دنیا کی جو تعریف کی ہے اور جس طرح اس کی بے وقعتی کی طرف اشارہ کیا ہے اس سے خوبصورت اس دنیا کو بیان ہی نہیں کیا جا سکتا۔

آپؐ نے اسے ’’عابر السبیل‘‘ یعنی عارضی پڑاؤ، ٹرانزٹ لاؤنج “Transit Lounge” کہا ہے۔ اس دنیا میں آنے سے پہلے بھی صدیوں پر محیط ہماری زندگی تھی اور اس دنیا سے جانے کے بعد بھی ایک لامتناہی زندگی ہمارا مقدر ہے اور ہم ایک تھوڑے سے وقفے کے لیے اس عارضی پڑاؤ یا ٹرانزٹ لاؤنج میں آئے ہیں۔ اللہ نے ہمارا یہ سفر اور یہ عارضی پڑاؤ ایک خاص مقصد کے لیے تخلیق کیا ہے۔ وہ فرماتا ہے کہ ’’ہم نے موت اور حیات کو تخلیق کیا ہے تا کہ دیکھیں کہ تم میں سے اچھے اعمال کون کرتا ہے‘‘ (الملک)۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اچھے اعمال کی تعریف میں نہ عبادات آتی ہیں اور نہ ہی دنیا کی مادی کامیابی۔ عبادات تو ایک فرض ہے کہ جسے آپ نے اللہ کے حکم کے مطابق ادا کرنا ہے جب کہ ’’اچھے اعمال‘‘ تو آپ کا وہ تمام طرز عمل ہے جو آپ اس ’’عارضی پڑاؤ‘‘ میں اختیار کرتے ہیں۔

آپ جھوٹ نہیں بولتے، دھوکا نہیں دیتے، وعدہ خلافی نہیں کرتے، غیبت نہیں کرتے، قتل نہیں کرتے، ملاوٹ نہیں کرتے، لوگوں کا مال ہڑپ نہیں کرتے، اپنے کمائے ہوئے مال سے قرابت داروں، یتیموں، بیواؤں، مسکینوں اور ضرورت مندوں کی مدد کرتے ہیں، آپ والدین کی خدمت کرتے ہیں اور ان کے سامنے اف تک نہیں کرتے، آپ اولاد کی نیک اور صالح اصولوں پر پرورش کرتے ہیں، آپ زنا نہیں کرتے، آپ غیر فطری فعل سے نفرت کرتے ہیں، غرض اعمال صالح کی ایک طویل فہرست ہے جو اللہ اور اس کے رسولﷺ نے بتائی ہے اور اسے ہی دنیا میں کامیابی اور ناکامی کا معیار بتایا ہے۔ آج اس ہنستی بستی دنیا کے ہر معاشرے میں انھی اچھے اعمال کو ہی معاشرے کی کامیابی کا معیار سمجھا جاتا ہے۔

دنیا کا کوئی صاحب عقل شخص کسی معاشرے یا سوسائٹی کی خوبصورتی کی تعریف کرتا ہے تو وہ کبھی یہ نہیں کہتا کہ وہاں بلب کتنے بنتے تھے، کاریں کتنی تھیں، پل کس قدر تھے، بلند و بالا عمارتیں کتنی تھیں، بلکہ وہ معاشرے کی خوبصورتی کا معیار اس ماحول کی انسانی اقدار سے لیتا ہے۔ وہاں چوری، ڈاکہ، زنا بالجبر، دھوکا، فریب، جھوٹ، قتل، اغوا اور دیگر جرائم کسقدر کم ہیں، وہاں انسان نے انسانوں کی فلاح کے ادارے کس قدر قائم کر رکھے ہیں۔ وہ اپنے بوڑھوں، معذوروں، یتیموں اور بیواؤں کا کس طرح خیال رکھتے ہیں۔ تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ انسان آج کے اس ترقی یافتہ دور سے کہیں زیادہ بہتر طریقے سے یہ اچھے اعمال ان معاشروں میں کرتا تھا جنہوں نے موجودہ شہری زندگی یعنی ’’اربن لائف‘‘ کی شکل تک نہیں دیکھی تھی اور آج بھی دنیا بھر کے دیہی معاشرے انسانی ہمدردی اور اچھے اعمال میں ترقی یافتہ دنیا سے کہیں آگے ہیں۔

دنیا کی کسی سائنسی اور مادی ترقی کا کوئی تعلق انسان کی اخلاقی اور معاشرتی ترقی سے نہیں ہے بلکہ دنیا میں کارپوریٹ کلچر نے بدترین اخلاقیات کی بنیاد رکھی ہے۔ اپنی کاروباری سلطنت کی وسعت کے لیے انھوں نے جنگیں کیں، ملکوں پر قبضے کیے، دھوکے اور فراڈ سے مال بیچ کر کمپنیوں کے سرمائے میں اضافہ کیا، اسی زمین پر کروڑوں لوگوں کا خون بہایا اور آج بھی بہایا جا رہا ہے۔ پوری انسانی تاریخ میں اس قدر انسان قتل نہیں ہوئے جتنے موجودہ مادی ترقی کی دوڑ میں ہوئے۔ جنگ عظیم اول سے لے کر عراق کی جنگ تک کیا ٹیکنالوجی انسانوں کی فلاح، امن اور سکون کے لیے استعمال ہوئی۔ ہر گز نہیں۔ بلکہ یہ صرف اور صرف انسانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لیے استعمال ہوئی۔

کیا ہم کسی عارضی پڑاؤ یا ٹرانزٹ لاؤنج میں مستقل پڑاؤ کا رویہ رکھتے ہیں۔ کیا ہم کسی ایئر پورٹ، ریلوے اسٹیشن، یا بس اڈے پر کچھ دیر کے لیے رکیں اور ہم سب کو علم ہو کہ ہماری بس، ٹرین یا جہاز نے کسی بھی وقت آ جانا ہے اور ہم نے چند لمحے اس ٹرانزٹ لاؤنج میں گزارنے ہیں تو ہمارا رویہ کیا ہو گا۔ ہم زیادہ سے زیادہ ایک دوسرے کو آرام پہنچانے کی کوشش کریں گے، کسی چیز کو اپنی مستقل ملکیت تصور نہیں کریں گے، ہم بس، ٹرین یا جہاز پر سوار ہوتے ہوئے پریشان نہیں ہوں گے، اس لیے کہ ہمیں یقین ہو گا کہ اگلی سواری پر میرے باپ بھائی، بیوی بچوں اور دوستوں نے بھی میرے ساتھ آ کر مل جانا ہے اور جو پہلے چلے گئے ہیں، میں ان سے جا کر ابھی ملاقات کر لوں گا۔

ہمیں ٹرانزٹ لاؤنج میں کونسے لوگ زیادہ اچھے لگتے ہیں، وہی جو ہم پر سب سے زیادہ مہربان ہوں، جو اپنی جگہ ہمارے لیے چھوڑ دیں، اپنا آرام ہمارے لیے قربان کر دیں۔ دنیا میں بڑے سے بڑے مادہ پرست کو بھی جب اور جہاں اس بات کا یقین ہو جائے کہ وہ یہاں صرف چند لمحوں کے لیے آیا ہے اور پہلی فلائٹ پر چلا جائے گا تو اس کا رویہ بدل جاتا ہے۔ وہ مستقل رہائش کے بندوبست اور سامان نہیں کرتا۔ ’’متاع غرور‘‘ اور عابر السبیل‘‘ یہ دو تصورات ہیں جو انسانی دنیا کو خوبصورت بناتے اور انسانی کامیابی کے اصول متعین کرتے ہیں۔ دنیا کے ہر مہذب معاشرے میں ہر جائز و ناجائز طریقے سے دولت کما کر اپنی معاشی سلطنت بڑھانے والا محترم نہیں گردانا گیا بلکہ اپنی معاشی سلطنت مستحق افراد میں بانٹنے کے بعد اس عارضی پڑاؤ سے چلے جانے والا قابل احترام تصور ہوا ہے۔

دنیا کی اس حیثیت کو اگر ہم سمجھ لیں تو پھر ہمارے لیے اللہ کی ذات کا تصور اور کامیابی کا معیار سمجھنا آسان ہو جائے گا۔ اللہ انسانوں کو اپنی ہر نعمت ایک امتحان کے طور پر عطا کرتا ہے۔ امتحان یہ کہ وہ اس نعمت پر اس کا شکر ادا کرتے ہوئے اس سے کس طرح خلق خدا کی خدمت کرتے ہیں اور پھر ایسا کرنے پر اس کا وعدہ ہے کہ وہ نعمتوں میں اضافہ کرتا چلا جاتا ہے۔ مسلمانوں معاشروں اور حکومتوں میں جب یہ چلن عام رہا ان پر نعمتوں کی بارش ہوتی رہی۔ لیکن یہی چلن جب دوسروں نے اختیار کر لیا تو نعمتوں کا رخ ان کی جانب موڑ دیا گیا۔ اللہ کے ہاں کسی بھی معاشرے پر رحمتوں کی بارش ان کی ٹیکنالوجی میں ترقی کی بنیاد پر نہیں بلکہ اچھے اعمال کی صورت میں ہوتی ہے جو اس دنیا میں انسان کو بھیجنے کا مقصد ہیں۔ خالصتاً مادہ پرستی کی کوکھ سے ظلم، زیادتی، ناانصافی اور جبر برآمد ہوتا ہے جس کا تجربہ آج پوری دنیا کو ہے۔

انسان کی ساری ترقی کا صرف اور صرف ایک ہی اعلیٰ اور ارفع مقصد ہوتا ہے اور وہ ہے پرسکون زندگی۔ اگر وہی حاصل نہ ہو سکے تو ساری جدوجہد ناکام۔ کیا پوری انسانیت کی جدوجہد ناکام نہیں۔ کیا پوری انسانیت بے چینی، بے اطمینانی، خوف، غربت، افلاس، جنگ، جہالت، ظلم اور قتل و غارت سے عبارت نہیں۔ ہر معاشرے کی اپنی بے چینی اور اضطراب ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں کا اپنا اور ترقی پذیر اور پسماندہ ملکوں کا اپنا۔ اس لیے کہ موجودہ دنیا کے ہر تجزیہ نگار، معیشت دان، سیاسی ماہر نے ترقی کا ایک ہی پیمانہ بنا رکھا ہے۔ یعنی مادی ترقی، معیشت، ٹیکنالوجی اور مادی سہولیات میں ترقی۔ یہ ہے متاع غرور کا سودا۔

دھوکے کے سامان سے محبت، دھوکے کے سامان کو ترقی کی معراج سمجھنا۔ یہ دھوکے کا سامان ہر کسی کو اس کے مزاج، حیثیت اور مقام کے مطابق دھوکا دیتا ہے۔ ٹرانزنٹ لاؤنج میں بیٹھے لوگ اپنی فلائٹ کے لیے زیادہ بے چین ہوتے ہیں، انھیں جلد اپنی منزل پر پہنچنے کی دھن مضطرب کر رہی ہوتی ہے۔ ہمیں یقین ہی نہیں کہ ہماری کوئی منزل ہے، ہم تصور کیے بیٹھے ہیں کہ ہماری فلائٹ کینسل ہو چکی ہے۔ ہم ٹرانزٹ لاؤنج سے اسقدر محبت کرتے ہیں کہ ہمیں اسی کے اجڑنے پر اپنی زندگی اجڑنے کا گمان ہونے لگتا ہے۔ اس سے زیادہ دھوکے کا سامان اور کیا ہو سکتا ہے۔ اقبال نے اس قرانی اصلاح کا کیا خوب شعری اظہار کیا ہے؎

کیا ہے تونے متاعِ غرور کا سودا
فریب سود و زیاں لا الہ الا اللہ
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
توکل
جاوید چوہدری اتوار 17 مئ 2015

ہم اب آتے ہیں مادہ، علم، ٹیکنالوجی اور روح کی طرف، ہم دنیا کی جس چیز کو چھو، چکھ، سونگھ اور محسوس کر سکتے ہیں،وہ مادہ کہلاتی ہے، مٹی کے ذرے سے لے کر اربوں کھربوں نوری سالوں تک پھیلی یہ ساری کائنات مادہ ہے، ہم خود بھی مادہ ہیں، ہم پوری زندگی مادے میں زندہ رہتے ہیں اور ہم مرنے کے بعد بھی مادے ہی میں دفن ہوتے ہیں، مادہ ہے کیا؟ اس کی کتنی قسمیں ہیں؟ اور یہ انسان کے لیے مفیدکیسے ہو سکتا ہے؟ یہ سوال اور ان کے جواب ’’علم،، کہلاتے ہیں۔

اب ٹیکنالوجی کیا ہے؟ ٹیکنالوجی مادے کو انسان کے لیے کارآمد بنانے کا فن ہے، مثلاً آپ پانی کی مثال لیجیے، پانی مادہ ہے، پانی کے عناصر یا اجزاء کون کون سے ہیں؟ یہ علم ہے اور پانی سے انجن چلانا اور بجلی پیدا کرنا یہ ٹیکنالوجی ہے، مثلاً سورج اور سورج کی روشنی مادہ ہے، یہ روشنی کیسے کام کرتی ہے، یہ علم ہے اور اس روشنی سے سولر لائیٹس بنانا یہ ٹیکنالوجی ہے اور مثلاً ہوا مادہ ہے، یہ ہوا ہماری زندگی کے لیے کتنی ضروری ہے، یہ علم ہے اور اس ہوا کو سفر کا ذریعہ بنانا، اس کی مدد سے ہیلی کاپٹر اور جہاز اڑانایہ ٹیکنالوجی ہے،آپ اگر انسانی تاریخ کا مطالعہ کریں تو آپ کو معلوم ہو گا انسان نے ہزاروں سال مادے پر تحقیق کی، یہ تحقیق علوم کی بنیاد بنی اور علوم سے بعد ازاں ٹیکنالوجی برآمد ہوئی چنانچہ ہم کہہ سکتے ہیں مادہ باپ ہے، علم ماں ہے اور ٹیکنالوجی اولاد ہے۔

اب سوال پیدا ہوتا ہے، انسان کو علم اور ٹیکنالوجی کی ضرورت کیوں ہے؟ یہ ایک لمبی کہانی ہے، قدرت نے انسان کو لاکھوں سال قبل بے مہر، ننگی، سرد اور گرم زمین پر پھینک دیا، ہمارے پاس ہوا، پانی اور روشنی کے سوا کچھ نہ تھا، ہم تھے اور ہماری ایک لاکھ ضرورتیں تھیں، ہم ان ضرورتوں کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے تھے، ہم ضرورتیں پوری کرنے کے لیے نکل کھڑے ہوئے، یہ ضرورتیں ہمیں علم کے راستے پر لے آئیں اور علم ہمیں ٹیکنالوجی تک لے گیا، آج بھی ہمارے جسم میں جب کوئی نئی بیماری پھوٹتی ہے تو یہ ایک نئی ضرورت کو جنم دیتی ہے۔

یہ ضرورت طبی علوم کو جگاتی ہے اور انسان کوئی ایسی ٹیکنالوجی پیدا کر تا ہے جو انسان کی یہ ضرورت پوری کر دیتی ہے،علم اور ٹیکنالوجی انسان کی ضرورت ہیں اور یہ اس وقت تک ضرورت رہیں گی جب تک ہم اور ہماری ضرورتیں موجود ہیں، جس دن ہم نہیں رہیں گے، اس دن ہماری ضرورتیں بھی نہیں رہیں گی اور جس دن ہماری ضرورتیں نہیں رہیں گی اس دن ٹیکنالوجی اور علم بھی نہیں رہے گا۔

ہم اب آتے ہیں روح کی طرف۔ روح کائنات کے مالک یعنی اللہ تعالیٰ کا اذن، اللہ تعالیٰ کا حکم ہے، یہ ایک ایسا مائیکرو چپ ہے جو جب جانداروں کے وجود میں لگتا ہے تو یہ سانس لینا، دیکھنا اور سننا شروع کر دیتے ہیں، اللہ تعالیٰ جس دن یہ چپ نکال لیتا ہے اس دن زندگی کا دیا بجھ جاتا ہے، اب سوال یہ ہے، کیا اللہ صرف روح کا رب ہے؟ جی نہیں، مادہ ہو، مادے کا علم ہو یا ضرورتوں کے مطابق مادے کی ہیئت تبدیل کرنے کی ٹیکنالوجی ہو یا پھر روح ہو اللہ تعالیٰ سب کا مالک، سب کا مختار ہے۔

کائنات کی ہر چیز اللہ تعالیٰ نے پیدا کی ۔ اب یہ سوال ہے، کیا کوئی ذی روح، ٹیکنالوجی، علم اور مادے کے بغیر زندہ رہ سکتا ہے؟ اس کا جواب بھی نہیں ہے کیونکہ آپ ہوں، میں ہوں یا پھر انبیاء کرام ؑاور اولیاء کرامؒ ہوں لباس سے لے کر خوراک تک اور پناہ گاہ سے لے کر جنگ تک انسان کے 95 فیصد تقاضے مادی ہیں، سوال یہ ہے، کیا کوئی شخص اپنی زندگی سے مادے، علم اور ٹیکنالوجی کو خارج کر سکتا ہے؟ جواب، نہیں، ہرگز نہیں! ہم بس اس میں کمی یا زیادتی کر سکتے ہیں، ہم اسے زندگی سے خارج نہیں کرسکتے مثلاً آپ توکل کی چوٹی پر بیٹھے شخص کو دیکھ لیجیے، وہ شخص بھی کپڑے پہنے گا، وہ بھی خوراک کھائے گا، وہ بھی سردی اور گرمی سے بچے گا۔

وہ بھی ادویات استعمال کرے گا، وہ بھی مکھی مچھر سے پرہیز کرے گا، وہ بھی صاف پانی پیئے گا اور وہ بھی رات بسر کرنے کے لیے کوئی محفوظ ٹھکانہ تلاش کرے گا اور یہ تمام چیزیں کیا ہیں اور یہ کہاں سے آتی ہیں؟ یہ تمام چیزیں مادی ہیں اور یہ ٹیکنالوجی اور علم سے آتی ہیں، آپ انبیاء کرام ؑ کی جنگوں کا احوال بھی دیکھ لیجیے، تاریخ کے جس زمانے میں تلواریں ’’وار ٹیکنالوجی‘‘ تھیں، انبیاء ؑ نے اس دور میں تلواریں استعمال کیں، جب تیر ایجاد ہوا تو انھوں نے تیر استعمال کیے، جب گرز اور زرہیں آئیں تو انبیاء ؑ نے یہ ٹیکنالوجی بھی استعمال کی، جہاں ہاتھی تھے انبیاء کرام ؑ نے وہاں ہاتھی استعمال کیے، جہاں گھوڑے تھے وہاں گھوڑے اور جہاں اونٹ تھے وہاں اونٹ میدان میں لائے گئے لہٰذا جتنی ٹیکنالوجی آئی اس دور میں اتنی استعمال کی گئی، سوال، کیا تعداد میں کم لوگ زیادہ پر حاوی ہو سکتے ہیں؟ ہاں ہو سکتے ہیں۔

انسان کی پوری تاریخ اس کی گواہ ہے، آپ حضرت داؤد ؑ کی داستان پڑھ لیں، حضرت موسیٰ ؑ کا واقعہ دیکھ لیجیے اور نبی اکرم ؐ کے غزوات دیکھ لیجیے، یہ لوگ تعداد میں کم تھے لیکن اس کے باوجود جیت گئے، سوال، کیا یہ لوگ صرف ایمانی قوت سے جیتے؟ شاید ہاں۔ یہ شاید کیوں؟ شاید اس لیے کہ تاریخ میں ایسے کافر بھی موجود ہیں جو تعداد اور وسائل میں کمی کے باوجودجیت گئے تھے اور ایسے اہل ایمان بھی ہیں جو ایمان اور دنیاوی اسباب دونوں کے باوجود ہار گئے، مثلاً؟ مثلاً انبیاء ؑکے ادوار میں یوروشلم کافروں کے ہاتھوں برباد ہوتا رہا، کافر آئے اور مقدس ترین شہر کو تاراج کر کے چلے گئے،مثلاً مقدونیہ کے کافر شہزادے سکندر اعظم نے آدھی دنیا روند ڈالی، مثلاً چنگیز خان کے ساتھ چند سو لوگ تھے۔

یہ اٹھا اور دنیا کی عظیم اسلامی اور غیر اسلامی ریاستوں پر کھوپڑیوں کے مینار بنا دیے،مثلاً امیر تیمور کیش گاؤں کے معمولی زمیندار کا بیٹا تھا، اس کے پاس دو سو جوان تھے، یہ ان کے ساتھ دنیا سے ٹکرا گیا اور اس نے اپنے دیکھے اور نہ ہی پرائے، مثلاً آپ چین اور ویتنام کی مثال لیجیے، چین بھی لادین ہے اور ویتنام بھی لیکن ان دونوں لادینوں نے سپر پاورز کو پسپا کر دیا چنانچہ اگر تعداد کا تعلق صرف مذہب سے ہوتا تو دنیا میں بخت نصر کامیاب ہوتا اور نہ ہی سکندر اعظم، چنگیز خان اور نہ ہی چین اور ویتنام، یہ لوگ تعداد میں بھی کم تھے اور ایمانی قوت سے بھی خالی تھے لیکن یہ اس کے باوجود بھی کامیاب ہوئے،آپ کو اسی طرح تاریخ میں ہارنے والے اسلامی لشکر بھی مل جائیں گے، سوال یہ ہے، افغانستان کے بوریا نشینوں نے دنیا کی تین سپر پاورز کو ناک سے چنے چبوا دیے، کیا یہ ان کے توکل اور ایمانی قوت کا ثبوت نہیں؟ شایدنہیں! کیونکہ اگر صرف مار کھانا، پچاس ساٹھ ہزار لاشیں اٹھانا، گوانتانا موبے کی اذیت برداشت کرنا، اجتماعی قبروں کا کتبہ بننا، تورا بورا بن جانا اور 40 لاکھ افغانوں کا 30 سال تک مہاجرکیمپوں میں پڑا رہنا کا میابی ہے تو پھر افریقہ کے ستر فیصد ممالک افغانستان کے بوریا نشینوں سے زیادہ کامیاب ہیں ، یہ سو سال سے ایسی کامیابیاں سمیٹ رہے ہیں ۔

سوال یہ ہے، متوکل کون ہے ؟ اس کے جواب سے قبل دو نئے سوال پیدا ہوتے ہیں، کیا کوئی بھکاری مومن متوکل کہلا سکتا ہے؟ میرا جواب ہے، نہیں، اللہ کے رسولؐ نے مومن کے لیے اوپر والا ہاتھ پسند کیا ہے نیچے والا نہیں، دوسرا سوال، کیا اللہ تعالیٰ لینے والے مومن کو پسند کرتا ہے یا دینے والے کو؟جواب، اللہ تعالیٰ غنی مومن کو پسند کرتاہے ۔

ہم اب آتے ہیں متوکل مومن کی تعریف کی طرف ،متوکل مومن ایسا انسان ہوتا ہے جو اللہ پر ایمان اور یقین رکھتا ہواور اس کا ہاتھ ہمیشہ اوپر والا ہو ،وہ جیب سے لے کر ذہن تک غنی ہو۔ سوال یہ ہے مومن کب متوکل بنتا ہے ؟ جواب مومن اس وقت متوکل بنتا ہے جب وہ ضرورت مندوں کی ضرورت پوری کرتا ہے، جب وہ غنی بن جاتا ہے، سوال ،لوگوں کی ضرورتیں کتنی ہیں، جواب، انسان کی دو بڑی ضرورتیں ہیں، علم اورمال اور یہ دونوں مادہ ہیں اور ان دونوں کا حصول مادیت ہے چنانچہ ایک ایسا غنی مومن جو دولت مندبھی ہو ، جو عالم بھی ہو ، جو ایمان بھی رکھتا ہو اور جو اللہ کی توکل پر دولت اور علم دونوں کے دروازے کھول دیتا ہو، وہ برا کیسے ہو سکتا ہے؟۔

ہم ہزار سال سے علم ،ٹیکنالوجی اور دولت تینوں شعبوں میں بھکاریوں جیسی زندگی گزار رہے ہیں،ہم اسپرین سے لے کر جہادی رائفل تک ان قوموں کے محتاج ہیں جنھیں ہم اپنا اذلی دشمن سمجھتے ہیں، ہمارے بوریا نشینوں کو کافر روس سے لڑنے کے لیے کافر امریکا کے ہتھیاروں کی ضرورت پڑ جاتی ہے، ہم اس وقت تک حسنی مبارک،کرنل قذافی،زین العابدین اور صدام حسین کی آمریت سے جان نہیں چھڑا پاتے جب تک ہمیں کافروں کی حمایت حاصل نہیں ہوتی یا ہم کافروں کا ایجاد کردہ سوشل میڈیا استعمال نہیں کرتے، ہمیں آج یمن اور شام کی جنگ روکنے کے لیے بارک حسین اوبامہ کی ضرورت ہے۔

ہم آج بھی اپنے کعبے کی حفاظت کے لیے دنیا کی منتیں کر رہے ہیں،آپ اپنی تو کل ملاحظہ کیجیے،58اسلامی ملک ہیں، ان میں سے54ملک کافر قوموں کے کافر اداروں کے مقروض ہیں،ہماری توکل کی حالت یہ ہے ہم کافروں کی مدد کے بغیراپنی زمینوں سے تیل نکال سکتے ہیں اور نہ ہی پینے کا پانی، اگر توکل کا مطلب غیروں کی فوجی غلامی ،غیروں کا قرض،غیروں کی ٹیکنالوجی ،غیروں کا علم اور غیروں کی امداد ہے تو پھر ہم کامیاب بھی ہو چکے ہیں اور ہم دنیا کی عظیم ترین متوکل قوم بھی بن چکے ہیں اور اگر توکل کا مطلب اللہ کی ذات پر یقین کے ساتھ دن رات محنت ہے تو پھرہم توکل کی تعریف پر پورے نہیں اترتے،آپ یقین کیجیے ہم جسے توکل سمجھ رہے ہیں یہ یورپ کا کنزیومرازم ہے اور یہ توکل یورپ کے ان بزنس مینوں نے ایجاد کیا تھا جو ڈیڑھ ارب مسلمانوں کو تاحیات اپنی مصنوعات کا غلام رکھنا چاہتے ہیں۔

جو یہ چاہتے ہیں مسلمان توکل کا کمبل اوڑھ کر لیٹے رہیں اور یورپ اسی طرح علم اور ٹیکنالوجی کا قبلہ بنا رہے،جو یہ چاہتے ہیں ہم ہمیشہ جاپان کاجبہ ،چین کی جائے نماز اور تسبیح،یورپ کااے سی اور امریکی اسلحہ استعمال کرتے رہیں، ہم ہمیشہ ان کے گاہک بنے رہیں ، یہ اپنی یونیورسٹیاں ،لیبارٹریاںاور فیکٹریاں چلاتے رہیں ، ہم تسبیحیں رولتے رہیں اور ان کی مصنوعات خریدتے رہیں، یہ ترقی کرتے رہیں اور ہم ایسے بوریا نشین بنے رہیں جنھیں افغانستان سے فرار ہونے کے لیے بھی ہونڈا 125کی ضرورت پڑ جائے، ہمارے شیخ آٹھ سال ایبٹ آباد میں توکل کرتے رہیں لیکن اس کے باوجود کافروں کے مصنوعی سیارے انھیں تلاش کر لیں، آپ یقین کیجیے یورپ کا ایجاد کردہ توکل ہمیں کبھی آئن سٹائن اور بل گیٹس نہیں بننے دے گا، یہ ہمیں ہمیشہ کنزیومر دیکھنا چاہے گا چنانچہ آپ نے فیصلہ کرنا ہے، آپ نے کنزیومر مومن رہنا ہے یا غنی مومن۔
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
اس پورے کالم اورجوابی کالم کے سلسلہ کو پڑھ کر اللہ کےارشاد پر یقین تازہ ہوجاتاہے کہ انسان ’’الد الخصام‘‘پیداہواہےاوریہ کہ ہرشخص اپنی موقف کی تائید میں دلیل پیش کرسکتاہے یاپیش کرنے کی کوشش توضرورکرتاہے،ایسے میں نبی پاک کی یہ دعا کتنی ضروری ہوجاتی ہے۔
اللھم ارناالحق حقا وارزقنااتباعہ

اور
اللھم ارناالاشیاء کماھی
 
Top