اسلام ڈیفینڈر
رکن
- شمولیت
- اکتوبر 18، 2012
- پیغامات
- 368
- ری ایکشن اسکور
- 1,006
- پوائنٹ
- 97
(محمد حسین میمن)
امت مسلمہ میں روز اول سے ہی یہ قانون متفق علیہ رہا کہ قرآن مجید کی تشریح اور منشاء کی اصل حقیقت رسول اللہ ﷺ کی سیرت، آپ کے اقوال و افعال ہی سے جڑی ہوئی ہے۔ قرآنِ مجید میں ناسخ و منسوخ کی ایک لمبی چوڑی فہرست موجود ہے، بسا اوقات کئی مقامات پر بظاہر تعارض بھی نظر آتا ہے اور مختلف اوقات میں ایک ہی مسئلے پر دو مختلف آیات جو کہ عمل کا تقاضا کر رہی ہوتی ہیں۔ مگر ایک ہی وقت میں ان پر عمل مشکل ہوتا ہے۔ بالغرض ایسے کئی مقامات اور کٹھن مراحل کا سامنا قاری کو کرنا پڑتا ہے مگر ان تمام مسائل اور الجھن کو رسول اللہ ﷺ ہی کی احادیث کے ذریعے دور کرنا منشاء الہٰی اور حق کے مطابق ہے۔
جب قرآن مجید کا نزول ہو رہا تھا اس وقت بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو کئی الجھنوں کا سامنا کرنا پڑا مگر انہوں نے اپنی من مانی تاویل اور تشریحات کو ایک طرف کر کے صحیح اور معتبر احکامات کی طرف رجوع فرمایا جسے ہم احادیث رسول کہتے ہیں۔ یعنی قرآن مجید کی صحیح تعبیر اور اس کی اصل تشریح رسول اللہ ﷺ کے فرامین میں ہی ذم ہیں۔
قارئین! یہ ایک بہت لمبا موضوع ہے مگر استیعاب سے بچتے ہوئے مختصراً اس مضمون کی طرف نشاندہی درکار ہے کہ کیا واقعتاً صحابہ قرآن فہمی کے لیے رسول اللہ ﷺ کی ہی طرف رجوع فرماتے تھے؟ سمجھنے کے لیے چند واقعات آپ کی خدمت میں پیش ہیں۔
امام بخاری رحمہ اللہ صحیح بخاری میں فرماتے ہیں:
''عن عبداللہ قال: لما نزلت (اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ يَلْبِسُوْٓا اِيْمَانَهُمْ بِظُلْمٍ) قال اصحاب رسول اللہ ﷺ: ایّنا لم یظلم؟ فانزل اللہ عزوجل (ان الشرک لظلم عظیم)''
(صحیح البخاری، کتاب الایمان، باب ظلم دون ظلم رقم حدیث ۳۴)
''عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: جب یہ آیت نازل ہوئی :
(اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ يَلْبِسُوْٓا اِيْمَانَهُمْ بِظُلْمٍ)(الانعام:۸۲)
(وہ لوگ جنہوں نے اپنے ایمان میں ظلم نہ ملایا ان کے لیے امن ہے اور وہ ہدایت پر ہیں۔)
تو صحابہ کرام نے فرمایا کہ ہم میں سے ایسا کون ہے جس نے اپنے ایمان میں ظلم نہ ملایا؟ تو رسول اللہ ﷺ نے یہ آیت پڑھی: (ان الشرک لظلم عظیم) کہ یہاں سے مراد وہ ظلم نہیں ہے جو صحابہ سمجھ بیٹھے بلکہ یہاں ظلم سے مراد شرک ہے جس کا ذکر سورة لقمان آیت ۳۱ میں فرمایا گیا ہے۔''
حاصل کلام:
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم قرآن مجید کی آیت کا ایک لفظ ''ظلم '' کی صحیح منشاء تک نہ پہنچ سکے تو انہوں نے اپنی رائے کو ایک طرف کر کے صحیح حل کی طرف رجوع فرمایا ۔ اگر صحابہ اپنی طرف سے آیت کی تعبیر یا تشریح کرتے تو کئی تفاسیر وجود میں آتیں مگر انہوں نے قرآن مجید پر عمل کے لیے قرآن کے فیصلے کو مقدم جانا کہ تنازع کی صورت میں اللہ اور اس کے رسول کی طرف اپنے معاملات کو لوٹایا جائے ۔ لہٰذا اب ہمیں کسی اور تشریح کی حاجت اور ضرورت نہیں جو تبیان رسول اللہ ﷺ کی طرف سے ہو اسی کو قرآن کی صحیح تفسیر مانی جائے گی۔
امام بخاری صحیح بخاری میں فرماتے ہیں:
''عن عدی رضی اللہ عنہ قال: اخذ عدی ۔۔۔۔۔۔کان الخیط الابیض والاسود وسارک''
(صحیح بخاری، کتاب التفسیر، رقم الحدیث، ۴۵۰۹ ۔ ۴۵۱۰)
''عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ (جب یہ آیت نازل ہوئی کہ ''کھاؤ اور پیو جب تک کہ صاف نظر آئے تم کو دھاری سفید صبح کی جدادھاری سیاہ سے پھر پورا کرو روزے کو رات تک) میں نے دو دھاگے سیاہ اور سفید پاس رکھے اور رات کو دیکھتا رہا اور جب تک اس میں کوئی فرق معلوم نہیں ہوا کھاتا رہا۔ صبح کو رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ میں نے رات کو ایسا کیا کہ دو سیاہ اور سفید دھاگے اپنے تکیہ کے نیچے رکھ لیے تھے آپ نے عدی رضی اللہ عنہ کی بات سن کر ہنستے ہوئے فرمایا کہ تمہارا تکیہ بہت بڑا ہے کہ صبح کی سفید دھاری اور رات کی کالی دھاری اس کے نیچے آگئی۔ ''
حاصل کلام:
غور طلب بات ہے کہ قرآن مجید کی آیت کی صحیح منشاء سیدنا عدی رضی اللہ عنہ سے مخفی رہی اور انہوں نے آسمانی سفیدی اور سیاہی کو دھاگوں سے تعبیر دے کر اپنے تکیے کے نیچے بھی رکھ دیا۔ اگر عدی رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کی طرف رجوع نہ فرماتے تو ہمیشہ سیاہ دھاگے اور سفید دھاگے کی غلط تعبیر ہی کرتے۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ بظاہر قرآن مجید کی آیات پڑھنے میں انسان غلط فہمی کا شکار ہو سکتا ہے اسی غلط فہمی سے بچنے کے لیے احادیث کی طرف رجوع صحیح تعبیر اور منشاء الہٰی کا ذریعہ ہے۔
قارئین کرام! ان دلائل کے علاوہ کئی اور بھی دلائل موجود ہیں، جس کی ایک لمبی چوڑی فہرست ہے کہ قرآن مجید کا فہم بغیر حدیث کے ممکن نہیں ہے۔ حقیر نے یہاں چند دلائل دیئے ہیں جوکہ سمجھنے والے اور ہدایت کو حاصل کرنے والے کے لیے ان شاء اللہ کافی و شافی ہوں گے۔