منہج سلف کی اہمیت
اتباع رسول کا معیاراصحاب رسول رضوان اللہ علیہم اجمعین اور سلف امت ہیں۔
اللہ تعالیٰ صحابہ کرام کی یوں تعریف فرماتا ہے:
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ وَ الَّذِيْنَ مَعَهٗۤ اَشِدَّآءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَآءُ بَيْنَهُمْ تَرٰىهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَّبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰهِ وَ رِضْوَانًا١ٞ سِيْمَاهُمْ فِيْ وُجُوْهِهِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ ذٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرٰىةِ(سورۃ الفتح:۲۹)
’’ محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں ، اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں (یعنی صحابہ)وہ کفار پر سخت ہیں اور آپس میں رحیم ہیں۔ تم جب دیکھو گے انہیں رکوع و سُجود ، اور اللہ کے فضل اور اس کی خوشنودی کی طلب میں مشغول پاؤ گے۔ سُجود کے اثرات ان کے چہروں پر موجود ہیں جن سے وہ الگ پہچانے جاتے ہیں۔ یہ ہے اُن کی صفت (تمثیل ) توراۃ میں‘‘
صحابہ وہ مومن تھے کہ جنہیں اللہ رب العزت نے اپنے نبیﷺکی صحبت کے لیےچنا تھا اور انہیں لوگوں پر اپنا گواہ بنایا تھا۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
قُلِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ وَ سَلٰمٌ عَلٰى عِبَادِهِ الَّذِيْنَ اصْطَفٰى(سورۃ النمل:۵۹)
’’آپ کہہ دیجیے سب تعریف اللہ کے لیے ہے اور اس کے بندوں پر سلامتی ہو جنہیں اس نے منتخب کیا‘‘
ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’یہاں مراد اصحاب محمد ہیں‘‘(تفسیر ابن کثیر381/3)
اور فرمایا:
وَ
جَاهِدُوْا فِي اللّٰهِ حَقَّ جِهَادِهٖ هُوَ اجْتَبٰىكُمْ وَ مَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّيْنِ مِنْ حَرَجٍ مِلَّةَ اَبِيْكُمْ اِبْرٰهِيْمَهُوَ سَمّٰىكُمُ الْمُسْلِمِيْنَ مِنْ قَبْلُ وَ فِيْ هٰذَا لِيَكُوْنَ الرَّسُوْلُ شَهِيْدًا عَلَيْكُمْ وَ تَكُوْنُوْا شُهَدَآءَ عَلَى النَّاسِ(سورۃ الحج:۷۸)
ترجمہ :
’’ اللہ کی راہ میں جہاد کرو جیسا کہ جہاد کرنے کا حق ہے ۔ اُس نے تمہیں اپنے کام کے لیے چن لیا ہے اور دین میں تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی ۔ قائم ہو جاؤ اپنے باپ ابراہیم ؑ کی ملت پر ۔ اللہ نے پہلے بھی تمہارا نام ’’ مسلم ‘‘ رکھا تھا اوراِس (قرآن) میں بھی (تمہارا یہی نام ہے) تاکہ رسول تم پر گواہ ہو اور تم لوگوں پر گواہ‘‘
صحابہ امت کے وہ مبارک لوگ ہیں جن کے علم ودیانت کی گواہی اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں دی ہے۔
وَ يَرَى الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ الَّذِيْۤ اُنْزِلَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ هُوَ الْحَقَّ(سورۃسبا:۶)
’’ اے نبی ﷺ ، علم رکھنے والے خوب جانتے ہیں کہ جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے وہ سراسر حق ہے‘‘
جو لوگ محمدﷺکے ساتھ ایمان لائے وہ سب سے بڑھ کر اللہ کی بندگی اور اطاعت کرنے والے اور دین کی اتباع میں سبقت لے جانے والے لوگ تھے۔انہوں نے اللہ کی خوشنودی کی خاطر اپنی جانوں کے نذرانےپیش کئے۔
انہوں نے قرآن مجید کو رسول اللہﷺ سے سیکھا۔نزول قرآن،نزول کے اسباب اورقرآن کی تفسیر سے براہ راست مستفید ہوئے انہوں نے رسول اللہ سے جہاں قرآن مجید کے الفاظ سیکھے وہاں قرآن کے معانی بھی سیکھے۔
صحابہ کرام نےقرآن کے حفظ کے ساتھ اس کا فہم بھی حاصل کیا رسول اللہﷺسے قرآن کی تفسیر سنی آپ کے حالات کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا آپ کی دعوت کو اپنے دلوں میں محفوظ کیا۔
اس لحاظ سے صحابہ کرام کوجوفضیلت حاصل ہوئی وہ کسی اور کو حاصل نہیں ہو سکتی،کیونکہ صحابہ کرام نے رسول اللہﷺسے بلاواسطہ علم حاصل کیااورآپس میں ایک دوسرے سے سیکھا چنانچہ سب صحابہ’’عدالت‘‘کے اعلیٰ مقام پر فائز تھے،
یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اسناد،راویوں کے حالات،سند کی جرح وتعدیل کی ضرورت ہی نہ تھی۔
پس صحابہ کرام سے بڑھ کرکتاب اللہ کو سمجھنے والا،سنت کاعلم رکھنے والا اورکوئی نہیں ہو سکتا۔
امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں:
’’یہ بات جاننا ضروری ہے کہ رسول اللہﷺنے اپنے اصحاب کو جس طرح قرآن کے الفاظ بیان فرمائے ویسے ہی اس کے معانی بھی واضح فرمائے،چنانچہ اللہ کے اس فرمان:
وَ اَنْزَلْنَاۤ اِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَيْهِمْ وَ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُوْنَ(سورۃ النحل:۴۴)
’’تاکہ تم لوگوں کے سامنے وہ تعلیم جو تم پر اتاری گئی کھول کھول کر بیان کر دو‘‘
میں جہاں الفاظ کے پہنچانے کا حکم ہے وہیں اس کے معانی کھول کھول کر بیان کرنے کا بھی حکم ہے۔
ابو عبدالرحمن السُّلَمی(جو معروف تابعی ہیں)کہتے ہیں:وہ لوگ جو ہمیں قرآن پڑھایا کرتے تھے،مثلاً عثمان بن عفان اور عبداللہ بن مسعود وغیرہ وہ ہمیں بتایا کرتے تھے کہ جب وہ نبیﷺسے دس آیات سبق میں لے لیتے تو اس وقت تک آگے سبق پر نہ جاتےجب تک وہ ان دس آیات میں علم وعمل کی ہر بات سیکھ نہ لیتے۔کہا کرتے تھے:سویوں ہم نے قرآن سیکھاتواس کا علم اور عمل ایک ساتھ سیکھا‘‘یہی وجہ ہےکہ وہ لوگ ایک سورت کے حفظ میں مدت گزار دیا کرتے تھے
(مقدمہ فی اصول التفسیر:۳۵)