• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فہم صحابہ حجت ہے ؟

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
میرے بھائی یہ حدیث صحیح مسلم میں ہے - اگر آپ کو اس کی صحت پر اعتراض ہے تو اسماء رجال کی روشنی میں اس کو غلط ثابت کرکے دکھائیں -
حدیث کی صحت کے بارے میں یہ اصول ہے کہ اس کی سند کے ساتھ ساتھ اس کے متن کو بھی دیکھا جاتا ہے اور اس روایت کے متن میں جو بے پر کی اڑائی گئی ہے اس کو میں نے قرآن کی آیت سے ثابت کردیا ہے کہ یہ بے پر کی ہی ہے
دوسری بات یہ کہ اگر نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام سے مشوره لینا آپ صل اللہ علیہ وسلم کی تنقیص ہے تو پھر اس آیت کا کیا مطلب ہے -
مشورہ لینا میں کوئی تنقیص نہیں تنقیص تو یہ ہے کہ فہم رسالتﷺ پر عمر کی فہم کو فوقیت دی جارہی ہے نعوذباللہ اور فہم عمر جس کے بارے میں خود آپ کے مولوی کہتے ہیں کہ معتبر نہیں اس کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ عمر کی فہم کے مطابق وحی نازل ہوتی ہے اور اس روایت میں مزے کی بات یہ بھی ہے کہ ایسے خود حضرت عمر نے بیان کیا ہے


وَالَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِرَبِّهِمْ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَأَمْرُهُمْ شُورَىٰ بَيْنَهُمْ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ سوره الشوریٰ ٣٨
اور وہ جو اپنے رب کا حکم مانتے ہیں اور نماز ادا کرتے ہیں اور ان کا کام باہمی مشورے سے ہوتا ہے اور ہمارے دیے ہوئے میں سے کچھ دیا بھی کرتے ہیں-
جب اس آیت کے حکم کے مطابق رسول اللہﷺ نے مشورے سے جنگ بدر کے قیدیوں کے لئے فیصلہ کیا تو پھر اللہ کے حکم کو مانے میں عذاب کیسا ؟؟؟
جب کہ کافروں کی طرف سے طعناً عذاب کی فرمائش پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ
وَمَا كَانَ اللّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنتَ فِيهِمْ
سورہ انفال : 33

اور الله ایسا نہ کرے گا کہ انہیں تیرتے ہوئے عذاب دے

یعنی اللہ کافروں کے لئے فرمارہا ہے کہ جب تک رسول اللہﷺ ان درمیان ہیں اللہ ان پر عذاب نہیں کرے گا اور اس روایت میں یہ بے پر کی اڑائی جارہی ہے مسلمانوں کے درمیان رسول اللہﷺ کے ہوتے ہوئے اللہ مسلمانوں پر عذاب کرنے والا تھا بلکہ عذاب درخت کے قریب پہنچ گیا تھا نعوذباللہ من ذلک
اللہ ہم سب کو ھدایت عطاء فرمائے آمین
لیکن ہم اہل سنّت تمام صحابہ کرام رضوان الله اجمعین بشمول اہل بیت کا احترام اور عزت کرتے ہیں -اور ان کے فہم کو نام نہاد اماموں و اکابرین کے فہم پر ہمیشہ فوقیت دیتے ہیں - یہ الگ بات ہے کہ یہ صحابہ پرستی منافقین کو ایک آنکھ نہیں بھاتی -
یہ اہل سنت تو رہنے ہی دیں آپ اہل حدیث ہیں وہی کہلوائے یا زیادہ سے ذیادہ اپنے آپ کو وہابی کہہ لیں
صحابہ کے احترم کا یہ مطلب نہیں ان کا درجہ تمام انبیاء کے سردار ﷺ سے بڑھا دیں کہ رسول اللہﷺ نے حضرت عمر کی بات نہیں مانی اس لئے اللہ ان پر عذاب نازل کرنے والا تھا نعوذباللہ اور اس کو صحابہ پرستی نہ کہا جائے تو پھر کیا کہا جائے
یہ آپ کے نام نہاد علماء دین ہیں جو کہتے ہیں کہ حضرت عمر کی سمجھ معتبر نہیں تھی اور آپ ہیں کہ ان کی فہم کے مطابق وحی نازل ہونے کی باتیں کرتے ہیں نعوذباللہ
ایک بات یاد رکھیں اللہ نے قرآن مجید میں کئی مقامات پر رسول اللہﷺ کی تعظیم کا حکم دیا ہے
لِتُؤْمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَتُعَزِّرُوهُ وَتُوَقِّرُوهُ وَتُسَبِّحُوهُ بُكْرَةً وَأَصِيلًا
سورہ الفتح : 9
تاکہ (اے لوگو!) تم اﷲ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور ان (کے دین) کی مدد کرو اور ان کی بے حد تعظیم و تکریم کرو، اور (ساتھ) اﷲ کی صبح و شام تسبیح کرو
یہاں بجائے رسول اللہﷺ کی تعظیم و توقیر کرنے کے صحابہ پرستی کی بیماری میں رسول اللہﷺ کے بجائے اوروں کی تعظیم میں زور قلم صرف ہورہا ہے


باقی غزوہ بدر سے آپ کے اشکال سے متعلق قرانی آیات کے شان نزول کے بارے میں دوبارہ حاضر ہونگا- ابھی مصروفیت اور وقت کی کمی کی وجہ سے زیادہ نہیں لکھ پا رہا -
قرآن کریم کی کچھ آیات اور بھی پیش کرنے کی سعادت حاصل کی ہے اگر فرصت ہو تو ان پر بھی اپنی رائے کا اظہار فرمائیں
ایسی کے ساتھ ایک اور قرآنی آیت پیش کرنے کی سعادت حاصل کرتا ہوں اور ایسی سے متعلق اپنا سوال دوبارہ دھراؤں گا جو میں نے اپنی پچھلی پوسٹ میں عرض کیا تھا
مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ
محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اﷲ کے رسول ہیں، اور جو لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی معیت اور سنگت میں ہیں (وہ) کافروں پر بہت سخت اور زور آور ہیں آپس میں بہت نرم دل اور شفیق ہیں۔
أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ کے متعلق سوال ہے کہ
حضرت عمر نے جنگ بدر میں کتنے کفار کو قتل کیا ؟؟؟
صحیح احادیث کی روشنی میں جواب عنایت کریں
رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ کے متعلق سوال اگلی پوسٹ مین ان شاء اللہ
والسلام
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
کیونکہ مولانا جونا گڑھی وہی کہنا چاہتے ہیں جس کی وضاحت ابن حزم کے حوالے سے اوپر گزر چکی ۔ جبکہ آپ اپنی مرضی کا اقتباس ظاہر کرکے مطلقا نفی ظاہر کرنا چاہ رہے ہیں ۔
اسی لیے آپ سے گزارش کی تھی کہ اصل حوالہ دے دیں ۔ تاکہ سب کے سامنےحقیقت واضح ہوجائے ۔
حضرت عمر کی فہم کے بارے میں محمد جوناگڑھی کہتے ہیں کہ
سیدنا فاروق ( رضی اللہ عنہ) کی سمجھ کا معتبر نہ ہونا


اس ھیڈنگ کے لکھنے کے بعد انھوں نے صلح حدیبیہ کا حوالہ دیتے ہوئے ثابت کیا کہ حضرت عمر کی سمجھ معتبر نہیں تھی
اس سے مطلقا نفی نکلتی ہو یا اکثر نفی نکل رہی ظاہر میں تو یہی معلوم ہورہا ہے کہ محمد جوناگڑھی یہ کہنا چاہتے ہیں کہ جب حضرت عمر جیسے صحابی کی سمجھ معتبر نہیں تو پھر حنفی کس بنیاد پر امام ابوحنیفہ کی فہم کو معتبر مانتے ہیں اس پوری کتاب کا یہی موضوع ہے لگے ہاتھوں ایک بار اس کتاب کو پورا پڑھ لیں تو آپ کی سمجھ میں بھی آجائے گا ۔لنک دیا ہوا ہے اوپر پوسٹ میں
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
حضرت عمر کی فہم کے بارے میں محمد جوناگڑھی کہتے ہیں کہ
سیدنا فاروق ( رضی اللہ عنہ) کی سمجھ کا معتبر نہ ہونا


اس ھیڈنگ کے لکھنے کے بعد انھوں نے صلح حدیبیہ کا حوالہ دیتے ہوئے ثابت کیا کہ حضرت عمر کی سمجھ معتبر نہیں تھی
اس سے مطلقا نفی نکلتی ہو یا اکثر نفی نکل رہی ظاہر میں تو یہی معلوم ہورہا ہے کہ محمد جوناگڑھی یہ کہنا چاہتے ہیں کہ جب حضرت عمر جیسے صحابی کی سمجھ معتبر نہیں تو پھر حنفی کس بنیاد پر امام ابوحنیفہ کی فہم کو معتبر مانتے ہیں اس پوری کتاب کا یہی موضوع ہے لگے ہاتھوں ایک بار اس کتاب کو پورا پڑھ لیں تو آپ کی سمجھ میں بھی آجائے گا ۔لنک دیا ہوا ہے اوپر پوسٹ میں
جس طرح لوگ مقلَد امام کی ہر ہر بات کو درست سمجھتے ہیں اسی طرح کسی بھی صحابی کی ہر ہر بات کو درست سمجھنا ۔۔۔ اس بات کا رد کیا ہے اور بالکل ٹھیک کیا ہے ۔
باقی مطلقا صحابہ کے فہم کو ناقابل حجت سمجھنا یہ آپ جیسے حضرات کا ہی نصیب ہے ۔
چلیں بات ہی ختم کرتے ہیں اگر محمد جونا گڑھی کی مراد وہی ہے جو آپ ان کے ذمہ لگانا چاہتے ہیں تو ہم ایسی کسی بھی بات کے ذمہ دار نہیں ہیں ۔ جو عقل و نقل دونوں کےخلاف ہو ۔ چاہے کہنے والا کوئی سنی ہو یا شیعہ ہو ۔
اگر آپ واقعتا کوئی علمی بحث کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں تو اس اقتباس تائید و تردید میں کچھ کہیے :
صحابہ کے ما بین اختلاف ہو تو اب یہاں تین میں سے کوئی ایک صورت ہوسکتی ہے
اول : سب کی پیروی کی جائے ۔ اور یہ عقلا محال ہے ۔
ثانی : جس کی دل چاہے مان لی جائے باقی کو چھوڑ دیا جائے ۔ یہ شرعا محال ہے کیونکہ دین کسی کے مرضی پر مبنی نہیں ہے ۔ ویسے بھی کسی ایک کی بات کو مان لینا اور باقی سب کو چھوڑ دینا یہ ان کی سنت کی پیروی نہیں کہلائے گا ۔
ثالث : اب صرف تیسری صورت بچتی ہے کہ جن مسائل پر ان کا اتفاق ہے اس کی اتباع کی جائے ۔
اور اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ان کی سنت کی پیروی کا حکم دیا ہے تو اس کی دو ہی صورتیں ہو سکتی ہیں :
اول : یا تو وہ سنت رسول کے خلاف کریں گے ۔ اس بات کا ان کے بارے میں مسلمان تصور بھی نہیں کر سکتا ۔
ثانی : یا سنت رسول کے مطابق افعا ل سر انجامدیں گے ۔ اور یہی صورت مطلوب و مقصود ہے اور اصلا یہ اتباع سنت رسول ہی ہے ۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
حدیث کی صحت کے بارے میں یہ اصول ہے کہ اس کی سند کے ساتھ ساتھ اس کے متن کو بھی دیکھا جاتا ہے اور اس روایت کے متن میں جو بے پر کی اڑائی گئی ہے اس کو میں نے قرآن کی آیت سے ثابت کردیا ہے کہ یہ بے پر کی ہی ہے

مشورہ لینا میں کوئی تنقیص نہیں تنقیص تو یہ ہے کہ فہم رسالتﷺ پر عمر کی فہم کو فوقیت دی جارہی ہے نعوذباللہ اور فہم عمر جس کے بارے میں خود آپ کے مولوی کہتے ہیں کہ معتبر نہیں اس کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ عمر کی فہم کے مطابق وحی نازل ہوتی ہے اور اس روایت میں مزے کی بات یہ بھی ہے کہ ایسے خود حضرت عمر نے بیان کیا ہے



جب اس آیت کے حکم کے مطابق رسول اللہﷺ نے مشورے سے جنگ بدر کے قیدیوں کے لئے فیصلہ کیا تو پھر اللہ کے حکم کو مانے میں عذاب کیسا ؟؟؟
جب کہ کافروں کی طرف سے طعناً عذاب کی فرمائش پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ
وَمَا كَانَ اللّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنتَ فِيهِمْ
سورہ انفال : 33

اور الله ایسا نہ کرے گا کہ انہیں تیرتے ہوئے عذاب دے

یعنی اللہ کافروں کے لئے فرمارہا ہے کہ جب تک رسول اللہﷺ ان درمیان ہیں اللہ ان پر عذاب نہیں کرے گا اور اس روایت میں یہ بے پر کی اڑائی جارہی ہے مسلمانوں کے درمیان رسول اللہﷺ کے ہوتے ہوئے اللہ مسلمانوں پر عذاب کرنے والا تھا بلکہ عذاب درخت کے قریب پہنچ گیا تھا نعوذباللہ من ذلک
اللہ ہم سب کو ھدایت عطاء فرمائے آمین

یہ اہل سنت تو رہنے ہی دیں آپ اہل حدیث ہیں وہی کہلوائے یا زیادہ سے ذیادہ اپنے آپ کو وہابی کہہ لیں
صحابہ کے احترم کا یہ مطلب نہیں ان کا درجہ تمام انبیاء کے سردار ﷺ سے بڑھا دیں کہ رسول اللہﷺ نے حضرت عمر کی بات نہیں مانی اس لئے اللہ ان پر عذاب نازل کرنے والا تھا نعوذباللہ اور اس کو صحابہ پرستی نہ کہا جائے تو پھر کیا کہا جائے
یہ آپ کے نام نہاد علماء دین ہیں جو کہتے ہیں کہ حضرت عمر کی سمجھ معتبر نہیں تھی اور آپ ہیں کہ ان کی فہم کے مطابق وحی نازل ہونے کی باتیں کرتے ہیں نعوذباللہ
ایک بات یاد رکھیں اللہ نے قرآن مجید میں کئی مقامات پر رسول اللہﷺ کی تعظیم کا حکم دیا ہے
لِتُؤْمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَتُعَزِّرُوهُ وَتُوَقِّرُوهُ وَتُسَبِّحُوهُ بُكْرَةً وَأَصِيلًا
سورہ الفتح : 9
تاکہ (اے لوگو!) تم اﷲ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور ان (کے دین) کی مدد کرو اور ان کی بے حد تعظیم و تکریم کرو، اور (ساتھ) اﷲ کی صبح و شام تسبیح کرو
یہاں بجائے رسول اللہﷺ کی تعظیم و توقیر کرنے کے صحابہ پرستی کی بیماری میں رسول اللہﷺ کے بجائے اوروں کی تعظیم میں زور قلم صرف ہورہا ہے




قرآن کریم کی کچھ آیات اور بھی پیش کرنے کی سعادت حاصل کی ہے اگر فرصت ہو تو ان پر بھی اپنی رائے کا اظہار فرمائیں
ایسی کے ساتھ ایک اور قرآنی آیت پیش کرنے کی سعادت حاصل کرتا ہوں اور ایسی سے متعلق اپنا سوال دوبارہ دھراؤں گا جو میں نے اپنی پچھلی پوسٹ میں عرض کیا تھا
مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ
محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اﷲ کے رسول ہیں، اور جو لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی معیت اور سنگت میں ہیں (وہ) کافروں پر بہت سخت اور زور آور ہیں آپس میں بہت نرم دل اور شفیق ہیں۔
أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ کے متعلق سوال ہے کہ
حضرت عمر نے جنگ بدر میں کتنے کفار کو قتل کیا ؟؟؟
صحیح احادیث کی روشنی میں جواب عنایت کریں
رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ کے متعلق سوال اگلی پوسٹ مین ان شاء اللہ
والسلام

محترم -

اگر اس روایت میں بے پرکی اڑائی گئی ہے -تو جو رافضیوں کی کتابوں میں صحابہ کرام رضوان الله اجمعین سے متعلق بے پرکیاں اڑائی گئی ہیں ان کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے؟؟؟ اس پر تو ایک صغیم کتاب لکھی جا سکتی ہے- اور تو اور امام مہدی رح سے متعلق جن روایات میں بے پرکی اڑائی گئی ہیں وہ اتنی بے سروپا ہیں کہ اسماعیل بخاری رح اور امام مسلم رح نے ان کو اپنی کتابوں میں جگہ دینا بھی مناسب نہیں سمجھا -حالاں کہ دونوں احادیث کی کتب میں قیامت کی علامات سے متعلق پورا ایک باب موجود ہے -

آپ فرماتے ہیں کہ : "تنقیص تو یہ ہے کہ فہم رسالت پر عمر کی فہم کو فوقیت دی جارہی ہے نعوذباللہ "
تو ذرا اپنے اس تھریڈ کو بھی ملاحظہ کر لیجیے جو "مناقب سیدنا علی رضی اللہ عنہ: حدیث منزلت" کے عنوان سے آپ نے پیش کیا تھا -

حدیث منزلت کے خلاصے میں آپ لکھتے ہیں :

http://forum.mohaddis.com/threads/مناقب-سیدنا-علی-رضی-اللہ-عنہ-حدیث-منزلت.11514/

"پھلے مرحلہ میں جملہ " الاّ انہ لا نبی بعدی" قابل غور ھے کہ اصطلاح میں اسے " جملہٴ استثنائی " کھا جاتا ھے ، معمولاً جب کسی کی شخصیت کو کسی دوسرے شخص کے ساتھ تشبیہ دیتے ھیں اورکھا جاتا ھے کہ یہ دونوں مقام و منزلت میں ھم پلہ ھیں ، تو اھل زبان اس جملہ سے اس کے سوا کچھ اور نھیں سمجھتے ھیں کہ یہ دو افراد اجتماعی شاٴن و منصب کے لحاظ سے آپس میں برابر ھیں ۔ اگر ایسی تشبیہ کے بعد کسی منصب و مقام کو استثناء ، قرار دیا جائے تو وہ اس امر کی دلیل ھوتا ھے کہ یہ

دو (یعنی نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم اور حضرت علی رضی الله عنہ) اس استثناء شدہ منصب کے علاوہ ھر لحاظ سے ایک دوسرے کے ھم رتبہ ھیں"


کیا کہیں گے آپ ؟؟ ایک طرف تو حضرت عمر رضی الله عنہ کے فہم کو نبی کریم صل الله علیہ وسلم کے فہم پر فوقیت دینے کو آپ نبی کریم صل الله علیہ وآ لہ وسلم کی تنقیص سمجھ رہے ہیں - اور نبی کی کی گستاخی کہہ رہے ہیں- (جب کہ حضرت عمر رضی الله عنہ نے اپنے مشورے کا اظھار وحی الہی نازل ہونے سے پہلے کیا تھا )- اگر وحی الہی نبی کریم صل الله علیہ وآ لہ وسلم پر نازل ہوچکی ہوتی تو کبھی بھی حضرت عمر رضی الله عنہ کے فہم کو نبی کریم صل الله علیہ وآ لہ وسلم کے فہم پر فوقیت نہ دی جاتی -

اور دوسری طرف یہ عالم کہ حضرت علی رضی الله عنہ کو نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم کے ہم پلہ قرار دیا جا رہا ہے - (نعوز باللہ میں ذالک)-کیا یہ نبی کریم کی گستاخی نہیں کہ ایک صحابی رسول کو نبی کریم صل الله علیہ وآ لہ وسلم کے ہم پلہ قرار دے دیا جائے - یہ تو بلکہ کفر ہے-

آپ فرماتے ہیں کہ ":یعنی اللہ کافروں کے لئے فرما رہا ہے کہ جب تک رسول اللہ صل الله علیہ و آ لہ وسلم کے ان درمیان ہیں اللہ ان پر عذاب نہیں کرے گا اور اس روایت میں یہ بے پر کی اڑائی جارہی ہے کہ مسلمانوں کے درمیان رسول اللہ کے ہوتے ہوئے اللہ مسلمانوں پر عذاب کرنے والا تھا بلکہ عذاب درخت کے قریب پہنچ گیا تھا نعوذباللہ من ذلک"


وَمَا كَانَ اللّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنتَ فِيهِمْ
سورہ انفال :



جب کے حقیقت یہ ہے کہ سوره انفال کی آیت سے مراد وہ عذاب ہے جس کی زد میں پوری امّت آجاتی ہے جیسا کہ پہلے انبیاء کی امّتوں کے سا تھ ہوا -کہ جب عذاب الہی نازل ہوا تو پوری امّت تباہ و برباد کردی گئی اور اس عذاب سے الله نے امّت محمّدی کو استثناء دیا ہے -ورنہ عام دنیاوی عذاب کی خوشخبری الله نے ان کافروں کو بھی سنائی تھی جو نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم کے دور میں زندہ تھے -ملاحظہ ہو قرآن کی آیت:

وَلَنُذِيقَنَّهُمْ مِنَ الْعَذَابِ الْأَدْنَىٰ دُونَ الْعَذَابِ الْأَكْبَرِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ سوره السجدہ ٢١
اور ہم انہیں قریب کا عذاب بھی اس بڑے عذاب سے پہلے چکھائیں گے تاکہ وہ باز آ جائیں
-

(یعنی دنیا میں بھی ان کو عذاب ہو گا ) جیسا کہ غزوہ بدر یا غزوہ خندق میں الله نے مسلمانوں کے ہاتھوں کافروں کو چکھایا -

آپ کہتے ہیں کہ :صحابہ کے احترم کا یہ مطلب نہیں ان کا درجہ تمام انبیاء کے سردار سے بڑھا دیں کہ رسول اللہ نے حضرت عمر کی بات نہیں مانی-

تو بھائی جان آپ جو حضرت علی رضی الله عنہ کا رتبہ نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم سے بڑھاتے ہیں (جس کا ثبوت اکثر رافضیوں کی کتب میں موجود ہے) اس بارے میں آپ کیا کہیں گے ؟؟؟ اور دوسری بات یہ کہ یہ کہاں کہا گیا ہے کہ حضرت عمر رضی الله عنہ نے نبی کریم کی بات نہیں مانی ؟؟ بات تو بڑی سادہ ہے کہ نبی کریم صل الله علیہ وسلم نے اپنے صحابہ سے مشوره ما نگا - جو مشورہ حضرت ابو بکر رضی الله عنہ نے دیا حضرت عمر رضی الله عنہ نے اس کے برعکس مشوره دیا -اب اگر نبی کریم صل الله علیہ وسلم نے حضرت ابو بکر رضی الله عنہ کے مشورے کو پسند کیا تو اس میں حضرت عمر رضی الله عنہ کی نبی کی شان میں گستاخی کا پہلو کیسے نکلتا ہے؟؟ گستاخی تو اس وقت ہوتی جب حضرت عمر رضی الله عنہ نبی کریم صل الله علیہ وسلم کے کسی واضح حکم کو مسترد کرتے - جب کہ یہاں تو خود نبی کریم صل الله علیہ وسلم اپنے صحابہ سے مشورہ مانگ رہے ہیں -

اگر ہمارے کسی عالم نے حضرت عمر رضی الله عنہ کے فہم کو معتبر نہیں سمجھا تو ہم نے کب کہا کہ وہ اپنی جگہ صحیح ہیں؟؟-اب چاہے وہ جونا گھڑھی ہوں یا مولانا مودودی ہوں- یہ رافضی اور دیوبندی ہیں جن کے نزدیک صرف ان کے عالم و اکابرین ہی حرف آخر ہیں- جن کی اندھی تقلید میں یہ اپنی دنیا و آخرت دونوں برباد کر رہے ہیں -

أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ کے متعلق آپ کا سوال ہے کہ:
حضرت عمر نے جنگ بدر میں کتنے کفار کو قتل کیا ؟؟؟

میرا سوال یہ ہے کہ کہ کیا کسی کافر کو قتل کرنے سے یہ پتا چلے گا کہ وہ کفّار کے معاملے میں کتنا شدت پسند ہے - اسطرح تو نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم نے ٢٩ غزوات میں صرف ایک کافر کو جہنم واصل کیا - کیا اس سے ہم یہ اخذ کر سکتے ہیں کہ نعوز باللہ آپ صل الله علیہ و آ لہ وسلم کفّار کے معاملے میں شدّت پسند نہیں تھے ؟؟؟

کیا کہتے ہیں آپ ؟؟

والسلام -
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
حدیث منزلت کے خلاصے میں آپ لکھتے ہیں :

http://forum.mohaddis.com/threads/مناقب-سیدنا-علی-رضی-اللہ-عنہ-حدیث-منزلت.11514/

"پھلے مرحلہ میں جملہ " الاّ انہ لا نبی بعدی" قابل غور ھے کہ اصطلاح میں اسے " جملہٴ استثنائی " کھا جاتا ھے ، معمولاً جب کسی کی شخصیت کو کسی دوسرے شخص کے ساتھ تشبیہ دیتے ھیں اورکھا جاتا ھے کہ یہ دونوں مقام و منزلت میں ھم پلہ ھیں ، تو اھل زبان اس جملہ سے اس کے سوا کچھ اور نھیں سمجھتے ھیں کہ یہ دو افراد اجتماعی شاٴن و منصب کے لحاظ سے آپس میں برابر ھیں ۔ اگر ایسی تشبیہ کے بعد کسی منصب و مقام کو استثناء ، قرار دیا جائے تو وہ اس امر کی دلیل ھوتا ھے کہ یہ

دو (یعنی نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم اور حضرت علی رضی الله عنہ) اس استثناء شدہ منصب کے علاوہ ھر لحاظ سے ایک دوسرے کے ھم رتبہ ھیں"


کیا کہیں گے آپ ؟؟ ایک طرف تو حضرت عمر رضی الله عنہ کے فہم کو نبی کریم صل الله علیہ وسلم کے فہم پر فوقیت دینے کو آپ نبی کریم صل الله علیہ وآ لہ وسلم کی تنقیص سمجھ رہے ہیں - اور نبی کی کی گستاخی کہہ رہے ہیں- (جب کہ حضرت عمر رضی الله عنہ نے اپنے مشورے کا اظھار وحی الہی نازل ہونے سے پہلے کیا تھا )- اگر وحی الہی نبی کریم صل الله علیہ وآ لہ وسلم پر نازل ہوچکی ہوتی تو کبھی بھی حضرت عمر رضی الله عنہ کے فہم کو نبی کریم صل الله علیہ وآ لہ وسلم کے فہم پر فوقیت نہ دی جاتی -

اور دوسری طرف یہ عالم کہ حضرت علی رضی الله عنہ کو نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم کے ہم پلہ قرار دیا جا رہا ہے - (نعوز باللہ میں ذالک)-کیا یہ نبی کریم کی گستاخی نہیں کہ ایک صحابی رسول کو نبی کریم صل الله علیہ وآ لہ وسلم کے ہم پلہ قرار دے دیا جائے - یہ تو بلکہ کفر ہے-
مارو گھٹنہ پھوٹے آنکھ
حدیث منزلت
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم اس پر خوش نہیں ہو کہ میرے لیے تم ایسے ہو جیسے موسیٰ کے لیے ہارون تھے۔

اس حدیث میں حضرت علی کو رسول اللہﷺ نے تشبیہ دی ہے حضرت ہارون علیہ السلام سے اور آپ ایسے امام انبیاء حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ سے تشبیہ دینا سمجھ رہے ہیں اور پھر حضرت علی کو حضرت ہارون علیہ السلام سے تشبیہ دینے کے بعد رسول اللہﷺ نے واضح فرمایا کہ حضرت ہارون علیہ السلام اور حضرت علی میں رسالت و نبوت کا فرق ہے یعنی حضرت ہارون علیہ السلام اللہ کے نبی ہیں اور حضرت علی نبی نہیں کیونکہ رسول اللہﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں
ہر مسلمان جانتا ہے کہ منصب نبوت و رسالت بہت ہی ارفع و اعلیٰ مقام ہے منصب رسالت اور نبوت کے علاوہ حضرت ہارون علیہ السلام اور حضرت علی اجتماعی شاٴن و منصب کے لحاظ سے آپس میں برابر ھیں امید ہے آپ اعتراض کرنے سے پہلے اچھی طرح سے پڑھ لیا کریں گے
قول شاہ ولی اللہ محدث دہلوی
..."خلافتِ راشدہ کا دور، دورِ نبوت کا بقیہ تھا۔ گویا دورِ نبوت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صراحتاً ارشادات فرماتے تھے، اور دورِ خلافت میں خاموش بیٹھے ہاتھ اور سر کے اشارے سے سمجھاتے تھے۔"
(ازالة الخفاء ج:۱ ص:۲۵)
اس کو کیا کہیں گے کہ دور خلافت کو دور نبوت کے ہم پلہ کہا جارہا ہے بلکہ نبوت کی باقیات سے تشبیہ دی جارہی ہے !!!

لیکن اس کے برعکس مسلم کی حدیث میں تو یہ بیان ہورہا ہے کہ رسول اللہﷺ نے اللہ کے مشورے کے بارے میں حکم کے مطابق قیدیوں کے بارے میں مشورہ کرنے بعد اپنا فیصلہ سنایا کہ قیدیوں کو فدیا لے کر آزاد کیا جائے اس کے باوجود اللہ تعالیٰ ، رسول اللہﷺ اور جن صحابہ نے یہ مشورہ دیا ان پر عذاب نازل کرنے والا تھا نعوذباللہ کیونکہ یہ فیصلہ حضرت عمر کے مشورے کے خلاف تھا یعنی یہاں حضرت عمر کو رسول اللہﷺ کا صرف ہم پلہ ہی نہیں بلکہ اور بھی آگے بڑھادیا گیا نعوذباللہ اور یہ سب کسی کو نظر ہی نہیں آرہا
اور پھر یہاں اس فورم پر تو ایسے بھی لوگ ہیں جو قرآن کی آیت کا باطل مطلب لے کر رسول اللہ ﷺ کے ہم پلہ ہونے کے دعویٰ دار ہیں
کہہ دو کہ میں تمہاری طرح کا ایک بشر ہوں۔
سورہ کہف- آیت 110
آیت کریمہ کے اس حصے کو لے کر یہاں تو ہر کوئی رسول اللہﷺ کی ہمسری کا دعویٰ کرتا نظر آتا ہے لیکن معلوم نہیں کیوں وہ اس سے آگے رسول اللہﷺ پر وحی کے نازل ہونے کو تلاوت نہیں کرتا اور نہ ہی کوئی ان کے اس طرح آیت قرآنی کی تلاوت سے منع کرتا ہے کہ جس سے اس آیت کے معنی ہی بدل جاتے ہیں
اگر منصب رسالت کے علاوہ ہمسری کی بات حضرت علی جیسے صحابی کے لئے کفر ہے تو یہاں تو ہر ایرہ غیرنتھو خیرہ یہ دعویٰ کرتا نظر آرہا ہے



وَمَا كَانَ اللّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنتَ فِيهِمْ
سورہ انفال :


جب کے حقیقت یہ ہے کہ سوره انفال کی آیت سے مراد وہ عذاب ہے جس کی زد میں پوری امّت آجاتی ہے جیسا کہ پہلے انبیاء کی امّتوں کے سا تھ ہوا -کہ جب عذاب الہی نازل ہوا تو پوری امّت تباہ و برباد کردی گئی اور اس عذاب سے الله نے امّت محمّدی کو استثناء دیا ہے -ورنہ عام دنیاوی عذاب کی خوشخبری الله نے ان کافروں کو بھی سنائی تھی جو نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم کے دور میں زندہ تھے -ملاحظہ ہو قرآن کی آیت:

وَلَنُذِيقَنَّهُمْ مِنَ الْعَذَابِ الْأَدْنَىٰ دُونَ الْعَذَابِ الْأَكْبَرِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ سوره السجدہ ٢١
اور ہم انہیں قریب کا عذاب بھی اس بڑے عذاب سے پہلے چکھائیں گے تاکہ وہ باز آ جائیں
-

(یعنی دنیا میں بھی ان کو عذاب ہو گا ) جیسا کہ غزوہ بدر یا غزوہ خندق میں الله نے مسلمانوں کے ہاتھوں کافروں کو چکھایا -


حضرت عمر رضی الله عنہ کی نبی کی شان میں گستاخی کا پہلو کیسے نکلتا ہے؟؟ گستاخی تو اس وقت ہوتی جب حضرت عمر رضی الله عنہ نبی کریم صل الله علیہ وسلم کے کسی واضح حکم کو مسترد کرتے - جب کہ یہاں تو خود نبی کریم صل الله علیہ وسلم اپنے صحابہ سے مشورہ مانگ رہے ہیں -

اگر ہمارے کسی عالم نے حضرت عمر رضی الله عنہ کے فہم کو معتبر نہیں سمجھا تو ہم نے کب کہا کہ وہ اپنی جگہ صحیح ہیں؟؟-اب چاہے وہ جونا گھڑھی ہوں یا مولانا مودودی ہوں- یہ رافضی اور دیوبندی ہیں جن کے نزدیک صرف ان کے عالم و اکابرین ہی حرف آخر ہیں- جن کی اندھی تقلید میں یہ اپنی دنیا و آخرت دونوں برباد کر رہے ہیں -
لیکن معاف کیجئے گا مسلم کی روایت میں کافروں پر نہیں بلکہ مسلمانوں پر رسول اللہﷺ کے ہوتے ہوئے عذاب کی بات کی گئی ہے
میری یہ سمجھ میں نہیں آرہا کہ اللہ کا عذاب مسلم کی روایت کے مطابق اللہ کے کس حکم کی خلاف ورزی کی بناء پر نازل ہوچکا تھا کہ درخت کے پاس آگیا تھا جبکہ میں نے سورہ محمد کی آیت پیش کی اس کے مطابق تو جنگ بدر جیسی جنگ کے جنگی قیدیوں کو فدیا لے کر رہا کرنے یا ان پر احسان رکھ کر رہا کرنے کا حکم تو خود قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے
جب تم کافروں سے بھڑ جاؤ تو ان کی گردنیں اُڑا دو۔ یہاں تک کہ جب ان کو خوب قتل کرچکو تو (جو زندہ پکڑے جائیں ان کو) مضبوطی سے قید کرلو۔ پھر اس کے بعد یا تو احسان رکھ کر چھوڑ دینا چاہیئے یا کچھ مال لے کر یہاں تک کہ (فریق مقابل) لڑائی (کے) ہتھیار (ہاتھ سے) رکھ دے۔ (یہ حکم یاد رکھو) اور اگر خدا چاہتا تو (اور طرح) ان سے انتقام لے لیتا۔ لیکن اس نے چاہا کہ تمہاری آزمائش ایک (کو) دوسرے سے (لڑوا کر) کرے۔ اور جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے ان کے عملوں کو ہرگز ضائع نہ کرے گا
سورہ محمد : 4
أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ کے متعلق آپ کا سوال ہے کہ:
حضرت عمر نے جنگ بدر میں کتنے کفار کو قتل کیا ؟؟؟

میرا سوال یہ ہے کہ کہ کیا کسی کافر کو قتل کرنے سے یہ پتا چلے گا کہ وہ کفّار کے معاملے میں کتنا شدت پسند ہے - اسطرح تو نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم نے ٢٩ غزوات میں صرف ایک کافر کو جہنم واصل کیا - کیا اس سے ہم یہ اخذ کر سکتے ہیں کہ نعوز باللہ آپ صل الله علیہ و آ لہ وسلم کفّار کے معاملے میں شدّت پسند نہیں تھے ؟؟؟

کیا کہتے ہیں آپ ؟؟

والسلام -
مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ
محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اﷲ کے رسول ہیں، اور جو لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی معیت اور سنگت میں ہیں (وہ) کافروں پر بہت سخت اور زور آور ہیں آپس میں بہت نرم دل اور شفیق ہیں۔

یعنی اس آیت میں اللہ تعالیٰ ان لوگوں کی خصوصیات بیان فرما رہا ہے جو محمد رسول اللہﷺ کے ساتھی ہیں جنہیں صحابی کہا جاتا یعنی صرف صحابہ کفار پر بہت سخت ہیں اور آپس میں نرم دل جبکہ رسول اللہ ﷺ کے لئے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ
وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ
سورہ انبیاء : 107
اور (اے محمدﷺ) ہم نے تم کو تمام جہان کے لئے رحمت (بنا کر) بھیجا ہے

یعنی رسول اللہﷺ تو سراپا رحمت ہیں سارے عالمین کے لئے
مگر حضرت عمر صحابی کے درجے پر ہیں اس لئے ان میں اللہ کی بیان کی ہوئی یہ خصوصیات ہونی چاہئے کہ وہ کفار پر سخت ہوں اور مسلمانوں کے لئے نرم دل لیکن تاریخ اور اہل سنت کی روایات اس کے برعکس بیان کرتی ہیں کہ کفار سے جنگوں میں حضرت عمر کا کسی کافر کو قتل نہ کرنا اور حضرت عمر کے کوڑےکی شدت سے مسلمانوں کا ڈرنا !!!
والسلام
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
صحابہ کے ما بین اختلاف ہو تو اب یہاں تین میں سے کوئی ایک صورت ہوسکتی ہے
اول : سب کی پیروی کی جائے ۔ اور یہ عقلا محال ہے ۔
ثانی : جس کی دل چاہے مان لی جائے باقی کو چھوڑ دیا جائے ۔ یہ شرعا محال ہے کیونکہ دین کسی کے مرضی پر مبنی نہیں ہے ۔ ویسے بھی کسی ایک کی بات کو مان لینا اور باقی سب کو چھوڑ دینا یہ ان کی سنت کی پیروی نہیں کہلائے گا ۔
ثالث : اب صرف تیسری صورت بچتی ہے کہ جن مسائل پر ان کا اتفاق ہے اس کی اتباع کی جائے ۔
اور اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ان کی سنت کی پیروی کا حکم دیا ہے تو اس کی دو ہی صورتیں ہو سکتی ہیں :
اول : یا تو وہ سنت رسول کے خلاف کریں گے ۔ اس بات کا ان کے بارے میں مسلمان تصور بھی نہیں کر سکتا ۔
ثانی : یا سنت رسول کے مطابق افعا ل سر انجامدیں گے ۔ اور یہی صورت مطلوب و مقصود ہے اور اصلا یہ اتباع سنت رسول ہی ہے ۔
اگر اس پر بھی کچھ عرض کیا گیا اور اس کا باطل ثابت بھی ہوگیا تو آخر میں آپ نے یہی کہنا ہے کہ
ہم ایسی کسی بھی بات کے ذمہ دار نہیں ہیں ۔ جو عقل و نقل دونوں کےخلاف ہو ۔ چاہے کہنے والا کوئی سنی ہو یا شیعہ ہو ۔
کیونکہ یہ تو آپ کے امام کے قول کا خلاصہ ہے اور آپ نے یہی کہنا ہے کہ
چلیں بات ہی ختم کرتے ہیں اگر ابن حزم کی مراد وہی ہے جو آپ ان کے ذمہ لگانا چاہتے ہیں تو ہم ایسی کسی بھی بات کے ذمہ دار نہیں ہیں ۔
اس لئے معذرت
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
اگر اس پر بھی کچھ عرض کیا گیا اور اس کا باطل ثابت بھی ہوگیا تو آخر میں آپ نے یہی کہنا ہے کہ

کیونکہ یہ تو آپ کے امام کے قول کا خلاصہ ہے اور آپ نے یہی کہنا ہے کہ

اس لئے معذرت
جی ہم معذرت قبول کرتے ہیں ۔ بہت شکریہ ۔
اللہ کرے اب یہ بات آپ کے ذہن میں تازہ رہے تاکہ ہمارا وقت ضائع کرنے کی بجائے خود آپ کے اپنے وقت کی بچت بھی ہوتی رہے ۔
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,101
ری ایکشن اسکور
1,462
پوائنٹ
344
مذکورہ آیت کا شان نزول شیعہ کتب تفسیر کی روشنی میں:

وقال: نزلت يوم بدر لما انهزم الناس كان أصحاب رسول الله
صلى الله عليه وآله وسلم على ثلاث فرق: فصنف كانوا عند خيمة النبي

صلى الله عليه وآله وسلم، وصنف أغاروا على النهب، وفرقة طلبت
العدو، وأسروا وغنموا، فلما جمعوا الغنائم والأسارى تكلمت الأنصار
في الأسارى فأنزل الله تبارك وتعالى (ما كان لنبي أن يكون له أسرى
حتى يثخن في الأرض)
(التفسیر الصافی:3،ص473
سید جعفر مرتضی نے لکھا ہے:
إنه (ص) مال إلى رأي أبي بكر، بل وانزعج من
مشورة عمر، فنزل القرآن بمخالفة وموافقة عمر، فلما كان من الغد،

غدا عمر على رسول الله، فإذا هو وأبو بكر يبكيان، فسأل عن سبب ذلك،
فقال الرسول (ص): إن كاد ليمسنا في خلاف ابن الخطاب عذاب عظيم
(الصحیح من سیرۃ النبوی:ج10،ص169
اسی طرح علامہ طباطبائی نے اس آیت کی تفسیر کرتے ہوے لکھا ہے :
فاختلفتالتفاسير بحسب اختلافها فمن ظاهر في ان العتاب والتهديد متوجه إلى
النبي صلى الله عليه وآله وسلم والمؤمنين جميعا، أو إلى النبي
والمؤمنين ما عدا عمر، أو ما عدا عمر وسعد بن معاذ، أو إلى
المؤمنين دون النبي أو إلى شخص أو اشخاص اشاروا إليه بالفداء بعد
ما استشارهم
(تفسیر المیزان:ج9،ص228.
ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ میں رقم طراز ہیں:
وقال عبد الله بن مسعود فضل عمر الناس بأربع : برأيه في
أسارى بدر فنزل القرآن بموافقته : (ما كان لنبى أن يكون له أسرى

حتى يثخن في الارض)
(نہج البلاغہ:ج6،ص85
اسی طرح نہج البلاغہ میں لکھا ہے:
فجاء عمر فجلس مجلس أبىبكر ، فقال يا رسول الله ، هم أعداء الله ، كذبوكوقاتلوك واخرجوك ، إضرب رقابهم ، فهم رؤوس الكفر وأئمة الضلالة ،
يوطئ الله بهم الاسلام ، ويذل بهم الشرك فسكت رسول الله صلى الله
عليه وآله ولم يجبه فقام عمر فجلس مجلسه
، فقال يا رسول الله ، ما تنتظر بهم إضرب اعناقهم ، يوطئ الله بهم
الاسلام ، ويذل أهل الشرك ، هم أعداء الله ، كذبوك وأخرجوك يا رسول
الله ، إشف صدور المؤمنين
، لو قدروا منا على مثل هذا ما أقالونا
أبدا فسكت رسول الله صلى الله عليه وآله فلم يجبه
(شرح نہج البلاغہ:ج8،ص260
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
جی ہم معذرت قبول کرتے ہیں ۔ بہت شکریہ ۔
اللہ کرے اب یہ بات آپ کے ذہن میں تازہ رہے تاکہ ہمارا وقت ضائع کرنے کی بجائے خود آپ کے اپنے وقت کی بچت بھی ہوتی رہے ۔
آپ کی زرہ نوازی ہے کہ آپ نے اس ناچیز کی معذرت کو قبول کیا ....( تدوین ۔ انتظامیہ )..... اس بناء پر میں نے معذرت چاہی تھی جو آپ نے قبول کی اس کے لئے ایک بار پھر شکریہ
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
مذکورہ آیت کا شان نزول شیعہ کتب تفسیر کی روشنی میں:

وقال: نزلت يوم بدر لما انهزم الناس كان أصحاب رسول الله
صلى الله عليه وآله وسلم على ثلاث فرق: فصنف كانوا عند خيمة النبي

صلى الله عليه وآله وسلم، وصنف أغاروا على النهب، وفرقة طلبت
العدو، وأسروا وغنموا، فلما جمعوا الغنائم والأسارى تكلمت الأنصار
في الأسارى فأنزل الله تبارك وتعالى (ما كان لنبي أن يكون له أسرى
حتى يثخن في الأرض)
(التفسیر الصافی:3،ص473
سید جعفر مرتضی نے لکھا ہے:
إنه (ص) مال إلى رأي أبي بكر، بل وانزعج من
مشورة عمر، فنزل القرآن بمخالفة وموافقة عمر، فلما كان من الغد،

غدا عمر على رسول الله، فإذا هو وأبو بكر يبكيان، فسأل عن سبب ذلك،
فقال الرسول (ص): إن كاد ليمسنا في خلاف ابن الخطاب عذاب عظيم
(الصحیح من سیرۃ النبوی:ج10،ص169
اسی طرح علامہ طباطبائی نے اس آیت کی تفسیر کرتے ہوے لکھا ہے :
فاختلفتالتفاسير بحسب اختلافها فمن ظاهر في ان العتاب والتهديد متوجه إلى
النبي صلى الله عليه وآله وسلم والمؤمنين جميعا، أو إلى النبي
والمؤمنين ما عدا عمر، أو ما عدا عمر وسعد بن معاذ، أو إلى
المؤمنين دون النبي أو إلى شخص أو اشخاص اشاروا إليه بالفداء بعد
ما استشارهم
(تفسیر المیزان:ج9،ص228.
ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ میں رقم طراز ہیں:
وقال عبد الله بن مسعود فضل عمر الناس بأربع : برأيه في
أسارى بدر فنزل القرآن بموافقته : (ما كان لنبى أن يكون له أسرى

حتى يثخن في الارض)
(نہج البلاغہ:ج6،ص85
اسی طرح نہج البلاغہ میں لکھا ہے:
فجاء عمر فجلس مجلس أبىبكر ، فقال يا رسول الله ، هم أعداء الله ، كذبوكوقاتلوك واخرجوك ، إضرب رقابهم ، فهم رؤوس الكفر وأئمة الضلالة ،
يوطئ الله بهم الاسلام ، ويذل بهم الشرك فسكت رسول الله صلى الله
عليه وآله ولم يجبه فقام عمر فجلس مجلسه
، فقال يا رسول الله ، ما تنتظر بهم إضرب اعناقهم ، يوطئ الله بهم
الاسلام ، ويذل أهل الشرك ، هم أعداء الله ، كذبوك وأخرجوك يا رسول
الله ، إشف صدور المؤمنين
، لو قدروا منا على مثل هذا ما أقالونا
أبدا فسكت رسول الله صلى الله عليه وآله فلم يجبه
(شرح نہج البلاغہ:ج8،ص260

وَالَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِرَبِّهِمْ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَأَمْرُهُمْ شُورَىٰ بَيْنَهُمْ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ
سوره الشوریٰ ٣٨

اور وہ جو اپنے رب کا حکم مانتے ہیں اور نماز ادا کرتے ہیں اور ان کا کام باہمی مشورے سے ہوتا ہے اور ہمارے دیے ہوئے میں سے کچھ دیا بھی کرتے ہیں-

یعنی رسول اللہﷺ نے اللہ کے حکم کے مطابق جنگ بدر کے قیدیوں کے بارے میں مشورہ کیا یہ ثابت ہے صحیح مسلم کی حدیث سے اور پھر بھی اللہ کے حکم کے مطابق فیصلے پر اللہ کا عذاب یہ بڑی تعجب خیز بات ہے
فَإِذا لَقِيتُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا فَضَرْبَ الرِّقَابِ حَتَّى إِذَا أَثْخَنتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِدَاءً حَتَّى تَضَعَ الْحَرْبُ أَوْزَارَهَا ذَلِكَ وَلَوْ يَشَاءُ اللَّهُ لَانتَصَرَ مِنْهُمْ وَلَكِن لِّيَبْلُوَاْ بَعْضَكُم بِبَعْضٍ وَالَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَلَن يُضِلَّ أَعْمَالَهُمْ
سورہ محمد47 : 4
ترجمہ فتح محمد جالندھری
جب تم کافروں سے بھڑ جاؤ تو ان کی گردنیں اُڑا دو۔ یہاں تک کہ جب ان کو خوب قتل کرچکو تو (جو زندہ پکڑے جائیں ان کو) مضبوطی سے قید کرلو۔ پھر اس کے بعد یا تو احسان رکھ کر چھوڑ دینا چاہیئے یا کچھ مال لے کر یہاں تک کہ (فریق مقابل) لڑائی (کے) ہتھیار (ہاتھ سے) رکھ دے۔ (یہ حکم یاد رکھو) اور اگر اللہ چاہتا تو (اور طرح) ان سے انتقام لے لیتا۔ لیکن اس نے چاہا کہ تمہاری آزمائش ایک (کو) دوسرے سے (لڑوا کر) کرے۔ اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے گئے ان کے عملوں کو ہرگز ضائع نہ کرے گا

جنگ بدر میں مسلمان لشکر نے 70 کافروں گردنیں اڑا دیں اور پھر ان کے 70 آدمیوں کو قید کرلیا اگر سورہ محمد کی مذکورہ آیت کے لئے یہ مانا جائے کہ یہ جنگ بدر سے پہلے نازل ہوئی تو رسول اللہﷺ کا فیصلہ اس قرآنی حکم کے تحت تھا لیکن اگر یہ مانا جائے کہ یہ آیت جنگ بدر کے بعد نازل ہوئی تو یہ بھی رسول اللہﷺ کے فیصلے کی توثیق ہے کہ جنگ بدر کے قیدیوں کے بارے میں جو فیصلہ رسول اللہﷺ نے لیا ایسی کے مطابق قرآن نازل ہوا نہ حضرت عمر کی فہم کے مطابق باقی اللہ بہتر جانتا ہے
والسلام
 
Top