ساجد
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 6,602
- ری ایکشن اسکور
- 9,379
- پوائنٹ
- 635
نقطہ نظر
۱۲؍ اکتوبر کو غیر معمولی حالات میں عنانِ اقتدار سنبھالنے کے بعد جنرل مشرف کو پہلی مرتبہ جس بات پر مخالفانہ بیانات کا سامنا کرنا پڑا، وہ میاں نوازشریف کی حکومت کی معزولی کا معاملہ نہیں تھا، میاں صاحب کی حکومت کے خاتمہ پر سکوت تو خود جنرل پرویز مشرف کے لئے بھی ایک تعجب انگیز امر تھا۔ جنرل صاحب کو اپنے جس بیان پر مخالفت کا سامنا کرنا پڑا، ان کا وہ بیان تھا جس میں انہوں نے جدید ترکی کے معمار کمال اتاترک کو اپنا ہیرو قرار دیا، جماعت ِاسلامی کے امیر قاضی حسین احمد نے اس بیان کے خلاف اپنا ردّ ِعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ’’پاکستان میں کمال ازم کے نفاذ کے خلاف سخت مزاحمت کی جائے گی‘‘ ۔دیگر مذہبی راہنمائوں اور سیاستدانوں نے بھی اسکے متعلق اپنے ذہنی تحفظات کا اظہار کیا۔
جنرل صاحب کے بعد کے وضاحتی بیانات سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا مقصود وہ نہ تھا جو بالعموم سمجھا گیا۔ ۱۴ ؍نومبر کو اخبارات میں شائع ہونے والے بیان میں انہوں نے اپنے پہلے بیان کی وضاحت کرتے ہوئے کہا
’’کمال اتاترک یقینا ترکوں کے ہیرو ہیں جو جدید ترکی کے معمار ہیں اور جنہوں نے بیمار یورپ میں سے ترکی کو ایک ترقی یافتہ ملک بنا کر نکالا، تاہم ہمارے راہنما اوربابائے قوم، قائداعظمؒ ہیں جن کے اصولوں پر کاربند رہنے کے ہم پابند ہیں۔ جنرل پرویز مشرف نے کہا کہ میں اتاترک کا بے حد احترام کرتا ہوں لیکن ہمارے ملک کا اصول ترکی سے مختلف بھی ہوسکتا ہے۔بہرحال ہم قائد اعظم ؒ کے بتائے ہوئے اصولوں کے پابند ہیں۔ انہوں نے یہ بات ترکی کے ایک ٹیلی ویژن نیٹ ورک کو انٹرویو دیتے ہوئے اس سوال کے جواب میں کہی کہ آپ نے اپنی پہلی تقریر میں کمال اتاترک کا خاص طور پر تذکرہ کیسے کیا؟‘‘ (نوائے وقت، ۱۴؍ نومبر)
ایک اور اخباری بیان میں جنرل پرویز مشرف نے بے حد صاف لفظوں میں کہا کہ
’’میں پکا مسلمان ہوں او رپاکستان ایک اسلامی مملکت ہے‘‘
قطر کے سرکاری دورے کے دوران صحافیوں کے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے اپنے بیان کا پس منظر بیان کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے کمال اتاترک کو ہیرو کہنے کی بات ترکی کے ایک وفد سے گفتگو کرتے ہوئے کہی، اس سے ظاہر ہے مہمانوں کی عزت افزائی اور ان سے مروّت کا اظہار مقصود تھا۔
بعض مذہبی جماعتوں نے جنرل صاحب کی مذکورہ بالا وضاحت پر اطمینان کااظہا رکیا ہے۔ جماعت اسلامی سے الگ ہو کر تحریک ِاسلامی کے نام سے کام کرنے والی جماعت کے ترجمان پندرہ روزہ ’منشور‘ نے اپنے اداریے میں یوں اظہار ِخیال کیا ہے:
’’کمال اتاترک مرحوم کے بارے میں ہم یہ جانتے ہیں کہ انہوں نے مغربی قوتوں کی یلغار کے مقابلے میں بے مثال جرأت و شجاعت کامظاہرہ کرکے ترکی کو، جسے مردِ بیمار کہا جاتا تھا اور جس کی حکومت جانکنی کے عالم میں تھی، آزادی سے ہم کنار رکھا۔ مصطفی کمال کی انہی خدمات کے عوض انہیں ’اتاترک‘ کا خطاب دیا گیا۔ ‘‘
سید ابوالحسن علی ندوی کے بقول
مصطفی کمال پاشا کے فکری سرچشموں، خیالات و افکار او رحکومتی اِقدامات کو پیش نظر رکھاجائے تو پاکستان میں ’کمال ازم‘ کے خلاف مزعومہ مزاحمت اور ردّعمل کا مظاہرہ کرنے والوں کی بات کو محض رجعت پسندی اور دقیانوسی کہہ کر مسترد کرنا مناسب نہ ہوگا۔ اسلامی نظریہ کی بنیاد پر معرضِ وجود میں آنے والی مملکت ِخداداد پاکستان میں اسلام کے علاوہ کسی دوسرے ’ازم‘ کی گنجائش نہیں ہے۔ اتاترک ازم فی نفسہٖ سیکولر ازم کی بدترین صورت ہے۔ لہٰذا نظریہ پاکستان اور فکر ِقائد پر یقین کرنے والا کوئی فرد اگر اس سوچ کے خلاف ذہنی تحفظات رکھتا ہے، تو اس کے خدشات بے بنیاد نہیں ہیں۔ یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مصطفی کمال پاشا کی سوچ، کردار اور مزاج کو سمجھنے کے لئے اس کے معروف ترک سوانح نگار عرفان اورگا کی کتاب ’اتاترک‘ سے چند اقتباسات پیش کئے جائیں:
’’جوانی میں اس نے اپنے انقلابی افکار کے ساتھ ضیاگوک الپ کی تعلیمات کو بھی اچھی طرح جذب کر لیاتھا۔ وہ مغربی روشن خیالی کا بہت بڑا نقیب تھا۔ اس نے ۱۹۰۰ء ہی میں اس خیال کا اظہار کردیا تھا کہ سلطنت ِعثمانیہ کے لئے زوال و انتشار مقدر ہوچکا ہے۔ وہ اکثر کہا کرتا تھا کہ دینی حکومت شخصی حکومت کی وفادار حلیف ہوتی ہے۔ وہ علماء کے اختیارات کو محدود کرنے کے حق میں تھا۔اس نے شریعت کے خاتمہ اور ان قاضیوں کی دینی عدالتوں کی منسوخی کی پرزور وکالت کی تھی جو اسلامی قانون کے شارح و ترجمان ہیں۔ جنس اس کے لئے مقناطیس کی کشش رکھتی تھی۔ وہ شراب نوشی سے تسکین حاصل کرتا تھا، اس لئے کہ روحانی تسکین کے لئے اس کے اندر نہ خدا کا اعتقاد تھا، نہ زندگی کے بعد موت کا یقین‘‘ (صفحہ ۲۴۶)
مصطفی کمال پاشا کو مغربی تہذیب سے شیفتگی لیکن مذہب اور مذہبی تعلیمات سے شدید نفرت تھی۔ مذہب اور بالخصوص اسلام کے متعلق مصطفی کمال کے نقطہ ٔ نظر اور خیالات کا ذکر کرتے ہوئے عرفان اورگا لکھتا ہے:
مندرجہ بالا سطو رمیں کمال اتاترک کے ملحدانہ خیالات اور شخصی کردار کے بعض پہلوئوں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ ۱۹۲۴ء میں خلافت اور عثمانی سلطنت کے خاتمہ کے بعد اس نے جو اصلاحات متعارف کرائیں اور جو انقلابی اقدامات اٹھائے، اس کا مختصر تذکرہ حسب ِذیل ہے۔
کمال اتاترک کا انگریز سوانح نگار آرم سٹرانگ (Arm Strong) اس کے انقلابی اقدامات کاتذکرہ ان الفاظ میں کرتا ہے:
’’اتاترک نے عظیم پیمانے پر شکست و ریخت کی۔اس نے زبردست اور عمومی کارروائی کی تکمیل کرنی شروع کی جس کا آغاز وہ کرچکا تھا۔ اس نے فیصلہ کیا تھا کہ ترکی کو اپنے بوسیدہ اور متعفن ماضی سے علیحدہ کرنا ہے۔ اس نے اس قدیم سیاسی ڈھانچے کو واقعی توڑ پھینکا، سلطنت کو جمہوریت سے آشنا کیا، اور اس ترکی کو جو ایک ایمپائر تھی ایک معمولی ملک میں تبدیل کردیا اور ایک عظیم مذہبی ریاست کو حقیر درجہ کی جمہوریہ بنا دیا۔ اس نے سلطان کو معزول کرکے قدیم عثمانی سلطنت سے سارے تعلقات ختم کر لئے تھے۔ اب اس نے قوم کی عقلیت، اس کے قدیم تصورات، اَخلاق و عادات، لباس، طرز ِگفتگو، آداب، معاشرت، اور گھریلو زندگی کی جزئیات تک تبدیل کرنے کی مہم شروع کی(Grey wolf: p287)
کمال اتاترک نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ ’’میں نے دشمن پر فتح پائی اور ملک کو فتح کیا، لیکن کیا میں قوم پر بھی فتح پاسکوں گا؟‘‘ اتاترک کے اس قول پر تبصرہ کرتے ہوئے سید ابوالحسن علی ندوی لکھتے ہیں:
’’کمال اتاترک نے واقعتا قوم پر فتح پائی، ملک کو سیکولر سٹیٹ میں تبدیل کردیا، جس میں اسلام کو سرکاری مذہب کی حیثیت حاصل نہیں رہی، دین و سیاست میں تفریق ہوگئی اور یہ فیصلہ کر لیا گیا کہ مذہب انسان کا ذاتی معاملہ ہے، ہر شخص اپنے لئے کسی مذہب کا انتخاب کرسکتا ہے، خلافت کے ادارہ کو ختم کردیا گیا، شرعی اداروں اور محکموں اور اسلامی قانونِ شریعت کو ملک سے بے دخل کرکے سوئٹرز لینڈ کا قانونِ دیوانی، اٹلی کا قانونِ فوجداری اور جرمنی کا قانونِ بین ُالاقوامی تجارت نافذ کردیا گیا۔ پرسنل لاء کو یورپ کے قانونِ دیوانی کے مطابق و ماتحت کردیا گیا، دینی تعلیم ممنوع قرار پائی، پردہ کو خلاف ِقانون قرار دے دیا، مخلوط تعلیم کا نفاذ کیا گیا، عربی حروف کی جگہ لاطینی حروف جاری ہوئے، عربی میں اذان ممنوع قرار پائی، قوم کا لباس تبدیل ہوگیا۔ ہیٹ کا استعمال لازمی قرار پایا، غرض کہ کمال اتاترک نے ترکی قوم اور حکومت کی دینی اساس کو توڑ پھوڑ کے ختم کردیا اور قوم کا نقطہ ٔ نظر ہی بدل دیا‘‘ (اسلامیت اور مغربیت کی کشمکش: صفحہ ۸۲)
’کمالی انقلاب‘ نے ترکی معاشرہ میں جو دور رس نتائج مرتب کئے، اتاترک کا انگریز سوانح نگار آرم سٹرانگ اس کی نشاندہی ان الفاظ میں کرتا ہے: (صفحہ ۲۴۲)
’’پارلیمنٹ نے جو فیصلے کئے، حقیقت میں وہ اسلام کے حق میں کاری ضرب اور پیامِ موت کی حیثیت رکھتے تھے۔ تعلیم کی وحدت کا قانون نظامِ تعلیم میں دور رَس تبدیلیوں کا باعث بنا۔ اس تبدیلی نے مدرسوں کی سرگرمیوں اور ان علماء و اساتذہ کی آزادی کو ختم کردیا جو ان میں تعلیم دیتے تھے‘‘
ترکی میں سیکولرازم کے نفاذ کاذکر کرتے ہوئے عالم عرب کے معروف اسلامی سکالر ڈاکٹر یوسف قرضاوی اپنی حالیہ تصنیف ’’اسلام اور سیکولرازم‘‘ میں فرماتے ہیں:
’’تنہا عربی رسم الخط کی بجائے لاطینی رسم الخط کے اجراء نے ترکی قوم کی زندگی میں انقلابِ عظیم برپا کردیا اور ایک نئی نسل کو جنم دیا جس کا رشتہ اپنی قدیم تہذیب و ثقافت سے کٹ چکا ہے‘‘
قائد اعظم اور کمال اتاترک میں قدرِ مشترک ؟
قائد اعظم محمد علی جناح اور مصطفی کمال پاشا کی شخصیات اور ان کے اَفکار کا موازنہ کیا جائے، ان میں سوائے اس کے کہ دونوں اپنی اپنی جگہ پر ’’بابائے قوم‘‘ ہیں، کوئی اور قدرِ مشترک نہیں ہے۔ مصطفی کمال پاشا ایک فوجی جرنیل تھے جنہوں نے عسکری فتوحات کے ذریعہ سے جدید ترکی کی بنیاد رکھی۔ قائداعظمؒ بنیادی طور پر ایک مدبر قانون دان اور (Statesman) تھے جنہوں نے انگریز سامراج اور ہندو بنئے کے خلاف آئینی جنگ جیت کر دنیا کے نقشہ پر عظیم ترین اسلامی ریاست کو قائم کیا۔ دونوں راہنمائوں کا تصورِ ریاست یکسر جدا تھا۔کمال اتاترک نے تہذیب ِمغرب اور سیکولرازم کی اساس پر جس ترکی کی تعمیر نو کی تھی اس میں اسلام یا مذہبی تصورات کی قطعاً گنجائش نہیں تھی۔ لیکن قائداعظمؒ کے نزدیک قیامِ پاکستان کا مقصد ِوحید ہی یہ تھا کہ ایک ایسا جغرافیائی خطہ حاصل کیا جائے جہاں اسلام کے عدل و انصاف اور مساوات کے شاندار اصولوں کو نافذ کیا جاسکے۔ مصطفی کمال پاشا اپنی فکر کے اعتبار سے ’الحادی مادیت‘ کے پیروکار اور مبلغ تھے، قائد اعظمؒ ایک خدا پرست مسلمان تھے جنہیں قرآن و سنت کی صداقت اور اَبدیت پر کامل یقین تھا۔
مصطفی کمال پاشا کی الہامی تعلیمات سے شدید نفرت کا اندازہ اس واقعہ سے ہوسکتا ہے کہ اس نے غصہ میں آکر قرآنِ مجید کو شیخ الاسلام کے سر پر دے مارا تھا۔ ایک عظیم ترین مقدس الہامی کتاب کے ساتھ اس توہین آمیز برتائو کی توقع کسی غیر مسلم سے بھی کم ہی کی جاسکتی ہے۔ لیکن قائداعظمؒ کو اس مقدس اور عظیم کتاب سے جو عقیدت و محبت تھی اس کا اندازہ آپ کے اس خطاب سے لگایا جاسکتا ہے جو آپ نے کراچی میں ۱۹۴۳ء میں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں کیا۔ آپ نے فرمایا تھا:
اس نے اس معاملے میں اس قدر شدت اور سختی کا برتائو کیا کہ اس کے سوانح نگار عرفان اورگا نے اسے ’ہیٹ کی جنگ‘ سے تعبیر کیا۔ عرفان اورگا کے مطابق عوام نے سخت ردّ ِعمل کا اظہار کیا۔ فسادات اور بلوے ہوئے ۔مصطفی کمال نے منصوبے کی تکمیل کا فیصلہ کیا، کہیں رحم و رعایت سے کام نہیں لیا گیا۔ مذہبی حلقہ کے افراد جنہوں نے لوگوں میں جوش پیداکیا تھا، پھانسی پر چڑھا دیئے گئے۔ لوگ گرفتار کئے جاتے اور محض اس الزام پر کہ انہوں نے ہیٹ کا مذاق اڑایا ہے، پھانسی پر چڑھا دیئے جاتے ۔ ہیٹ کی جنگ بالآخر جیت لی گئی اور عوام نے شکست تسلیم کر لی۔اس زمانے میں وہ کہاکرتا تھا:
’’میں ہی ترکی ہوں، مجھے شکست دینا ترکوں کو شکست دینا ہے‘‘
ذرا مصطفی کمال پاشا کے اس جنونی طرزِ عمل کا موازنہ قائد اعظمؒ کے طرزِ عمل سے کیجئے۔ قیامِ پاکستان سے پہلے وہ عام طور پر انگریزی لباس پہنتے تھے، مگر قیامِ پاکستان کے بعد انہوں نے مستقل طور پر قومی لباس پہننے کی روِش اختیار کی۔ گورنر جنرل کی حیثیت سے انہیں کبھی انگریزی لباس میں نہ دیکھا گیا۔ قائد اعظمؒ کو مسلمانوں کے ایک الگ تشخص پر فخر تھا۔ ۱۹۴۰ء کے مشہور خطبہ میں انہوں نے مسلمانوں کی الگ اور منفرد تہذیب و ثقافت، شاندار تاریخ اور سماجی قدروں کو مسلمانوں کے لئے الگ وطن کے فلسفیانہ جواز کے طور پر پیش کیا۔
مصطفی کمال پاشا نے دینی مدارس اور اسلامی تعلیمات دینے والے مراکز پر پابندی لگادی۔ علمائے دین کو معمولی سی مخالفت پر پھانسی پر چڑھایا۔ مذہبی طبقے کی سخت توہین و تذلیل کی۔ قائداعظمؒ روشن خیال اور جدید تعلیم یافتہ انسان تھے مگر انہوں نے کبھی تحریر و تقریر میں دینی طبقہ سے اپنی بیزاری یا نفرت کا اظہار نہ کیا۔ ان کے بعض علماء سے دوستانہ تعلقات بھی تھے۔ مولانا اشرف علی تھانوی، علامہ شبیر احمد عثمانی، مولانا ظفر احمد انصاری اور تحریک ِپاکستان کے حامی علماء سے آپ کے قریبی مراسم تھے۔ وہ ان سے مذہبی معاملات میں ہمیشہ راہنمائی طلب کرتے تھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد انہوں نے دستور ساز اسمبلی میں علامہ شبیر احمد عثمانی کو اہم ذمہ داری سونپی۔ جس طرح آج کل نام نہاد ’لبرل‘ طبقہ علماءِ کرام کی تحقیر کا شغل اختیار کئے ہوئے ہے، اس طرح کی بات قائد ِاعظمؒ کے طرزِ عمل سے متصادم ہے۔
آخر میں ہم جنرل پرویز مشرف صاحب سے گزارش کریں گے کہ جب انہوں نے قائد اعظمؒ کے بتائے ہوئے اصولوں کا پابند رہنے کا برملا اظہار کیا ہے، تو بے حد مناسب ہوگا کہ وہ علماء اور دینی طبقہ کو بھی کابینہ اور حکومتی معاملات میں مناسب نمائندگی دیں، دینی طبقہ کی عدم نمائندگی کو ایک شر انگیز گروہ حکومت کے خلاف شکوک و شبہات کو ہوا دینے کے لئے استعمال کرسکتا ہے۔ لہٰذا مناسب یہی ہے کہ ایسی شرانگیزی کا جتنا جلد ہوسکے، دروازہ بند کردیا جائے۔
محمد عطاء اللہ صدیقی
قائد اعظم، اتاترک اور جنرل مشرف!
۱۲؍ اکتوبر کو غیر معمولی حالات میں عنانِ اقتدار سنبھالنے کے بعد جنرل مشرف کو پہلی مرتبہ جس بات پر مخالفانہ بیانات کا سامنا کرنا پڑا، وہ میاں نوازشریف کی حکومت کی معزولی کا معاملہ نہیں تھا، میاں صاحب کی حکومت کے خاتمہ پر سکوت تو خود جنرل پرویز مشرف کے لئے بھی ایک تعجب انگیز امر تھا۔ جنرل صاحب کو اپنے جس بیان پر مخالفت کا سامنا کرنا پڑا، ان کا وہ بیان تھا جس میں انہوں نے جدید ترکی کے معمار کمال اتاترک کو اپنا ہیرو قرار دیا، جماعت ِاسلامی کے امیر قاضی حسین احمد نے اس بیان کے خلاف اپنا ردّ ِعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ’’پاکستان میں کمال ازم کے نفاذ کے خلاف سخت مزاحمت کی جائے گی‘‘ ۔دیگر مذہبی راہنمائوں اور سیاستدانوں نے بھی اسکے متعلق اپنے ذہنی تحفظات کا اظہار کیا۔
جنرل صاحب کے بعد کے وضاحتی بیانات سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا مقصود وہ نہ تھا جو بالعموم سمجھا گیا۔ ۱۴ ؍نومبر کو اخبارات میں شائع ہونے والے بیان میں انہوں نے اپنے پہلے بیان کی وضاحت کرتے ہوئے کہا
’’کمال اتاترک یقینا ترکوں کے ہیرو ہیں جو جدید ترکی کے معمار ہیں اور جنہوں نے بیمار یورپ میں سے ترکی کو ایک ترقی یافتہ ملک بنا کر نکالا، تاہم ہمارے راہنما اوربابائے قوم، قائداعظمؒ ہیں جن کے اصولوں پر کاربند رہنے کے ہم پابند ہیں۔ جنرل پرویز مشرف نے کہا کہ میں اتاترک کا بے حد احترام کرتا ہوں لیکن ہمارے ملک کا اصول ترکی سے مختلف بھی ہوسکتا ہے۔بہرحال ہم قائد اعظم ؒ کے بتائے ہوئے اصولوں کے پابند ہیں۔ انہوں نے یہ بات ترکی کے ایک ٹیلی ویژن نیٹ ورک کو انٹرویو دیتے ہوئے اس سوال کے جواب میں کہی کہ آپ نے اپنی پہلی تقریر میں کمال اتاترک کا خاص طور پر تذکرہ کیسے کیا؟‘‘ (نوائے وقت، ۱۴؍ نومبر)
ایک اور اخباری بیان میں جنرل پرویز مشرف نے بے حد صاف لفظوں میں کہا کہ
’’میں پکا مسلمان ہوں او رپاکستان ایک اسلامی مملکت ہے‘‘
قطر کے سرکاری دورے کے دوران صحافیوں کے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے اپنے بیان کا پس منظر بیان کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے کمال اتاترک کو ہیرو کہنے کی بات ترکی کے ایک وفد سے گفتگو کرتے ہوئے کہی، اس سے ظاہر ہے مہمانوں کی عزت افزائی اور ان سے مروّت کا اظہار مقصود تھا۔
’’یہ توقع کہ جنرل پرویز مشرف اپنے آپ کوترکی کے کمال اتاترک کے نمونہ کے مطابق ڈھالیں گے، بالآخر زمین بوس ہوگئی ہے‘‘ …جنرل مشرف راہنمائی کے لئے ترکی کے عظیم ریفارمر، جنہوں نے خلافت کا خاتمہ کردیاتھا، کی طرف دیکھنے کی بجائے جنرل ضیاء الحق کی طرف دیکھ رہے ہیں‘‘۔ (روزنامہ نوائے وقت، لاہور:۷ ؍نومبر۹۹ء)پاکستان میں بعض دینی راہنمائوں کی تنقید کے برعکس مغربی ذرائع ابلاغ، بعض ہندوستانی اخبارات اور پاکستان کے ’لبرل‘ دانشوروں اور این جی اوز مافیا نے جنرل مشرف صاحب کے مذکورہ بالا بیان پر اپنی مسرت اور پسندیدگی کا اظہار کیا۔ چونکہ مصطفی کمال اتاترک کی حیثیت ایک عسکری ہیرو کے ساتھ ساتھ ایک سیکولر راہنما کی بھی ہے، جس نے ترکی میں اسلامی ثقافت کے مقابلے میں مغربی تہذیب کو رائج کیا، اسی لئے مذہب بیزار ’لبرل‘ طبقہ کی طرف سے جنرل مشرف کے بیان پر بغلیں بجانا ایک فطری امر تھا، یہ طبقہ ایک اسلامی مملکت میں سیکولر نظریات کے کسی بھی موہوم امکان پر بھی مریضانہ مسرت اندوزی کا اظہار کرتا ہے۔ جنرل مشرف کی طرف سے اپنے آپ کو ’پکا مسلمان‘ اور پاکستان کو ’اسلامی مملکت‘ اور قائداعظم کو اپنا راہنما قرار دینے پر پاکستان میں سیکولر ازم کے عملی نفاذ کا خواب دیکھنے والے طبقہ کو جس مایوسی کا اندازہ کرنا پڑا ہوگا، ا س کا اندازہ لگانا مشکل امر نہیں ہے۔
بھارت کا متعصّب ہندو پریس جو پاکستان کو اس کی نظریاتی اساس سے محروم دیکھنا چاہتا ہے، ا س کی توقعات پر بھی، معلوم ہوتا ہے، پانی پھر گیا ہے۔ ہندوستان کا ایک معروف انگریزی اخبار ’’دی ٹائمز آف انڈیا‘‘ اپنے اداریے میں لکھتا ہے۔
بعض مذہبی جماعتوں نے جنرل صاحب کی مذکورہ بالا وضاحت پر اطمینان کااظہا رکیا ہے۔ جماعت اسلامی سے الگ ہو کر تحریک ِاسلامی کے نام سے کام کرنے والی جماعت کے ترجمان پندرہ روزہ ’منشور‘ نے اپنے اداریے میں یوں اظہار ِخیال کیا ہے:
اسلامی دنیا اور بالخصوص پاکستان میں مصطفی کمال پاشا کا عمومی تعارف یہ ہے کہ انہوں نے جنگ عظیم اوّل کے بعد یورپی اور یونانی افواج کو شکست دے کر مقبوضہ علاقوں کو واگزار کرایا اور موجودہ ترکی ریاست کا قیام عمل میں لائے۔ جہاں تک ان کی عسکری خدمات اور دلیرانہ قیادت کا تعلق ہے، ا س کے وہ لوگ بھی معترف ہیں جو ان کے سیکولر اقدامات کو پسند نہیں کرتے۔ تحریک ِاسلامی کے مذکورہ بالا مجلہ کے اداریہ جس میں اتاترک پر خلافت اور اسلامی تہذیب و تمدن کو ختم کرنے پر سخت تنقید کی گئی ہے، کے یہ الفاظ غور طلب ہیں:’’ہمارے چیف ایگزیکٹو خاصا عرصہ ترکی میں قیام پذیر رہے ہیں، اس لئے انہوں نے اتاترک کا تذکرہ اپنی گفتگو میں کردیا، ورنہ وہ تحریک ِپاکستان اور قائداعظمؒ کے نظریات اور پھر پاکستان کی ملت ِاسلامیہ کے جذبات سے بے خبر نہیں ہیں، جنرل پرویز نے اپنی پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ وہ پاکستان میں قائداعظم کے نظریات ہی کے قیام پرمشتمل قانون اور نظام زندگی قائم رکھنا اور پاکستان کو قائداعظم کا پاکستان ہی دیکھنا چاہتے ہیں، مصطفی کمال کا ترکی نہیں بنانا چاہتے‘‘ (منشور:۱۶ تا ۳۰ ؍نومبر ۱۹۹۹ء)
’’کمال اتاترک مرحوم کے بارے میں ہم یہ جانتے ہیں کہ انہوں نے مغربی قوتوں کی یلغار کے مقابلے میں بے مثال جرأت و شجاعت کامظاہرہ کرکے ترکی کو، جسے مردِ بیمار کہا جاتا تھا اور جس کی حکومت جانکنی کے عالم میں تھی، آزادی سے ہم کنار رکھا۔ مصطفی کمال کی انہی خدمات کے عوض انہیں ’اتاترک‘ کا خطاب دیا گیا۔ ‘‘
سید ابوالحسن علی ندوی کے بقول
اس میں کوئی شک نہیں کہ جنگ ِعظیم اوّل میں سلطنت ِعثمانیہ کو عبرت ناک شکست کے بعد مصطفی کمال پاشا کی عسکری فتوحات اسے اس وقت کے عالم اسلام کا ہیرو بنا دینے کے لئے کافی تھیں۔ ہندوستان کے مسلمانوں کی زبان پربھی مصطفی کمال کی تحسین میں یہ جملہ ’’وے غازی کمال تینوں دین بلایاں‘‘ عام طور پر رہتا تھا۔ مگر مصطفی کمال پاشا کا یہ محض ایک پہلو تھا۔ خلافت کے خاتمے کے بعد اسلامی شریعت اور تہذیب و تمدن کے ساتھ جو وسیع پیمانے پر اس نے غارت گری کی اور لادینیت(سیکولر ازم) کے نفاذ کے لئے جارحانہ اقدامات اور سفاکانہ حکمت ِعملی اختیار کی، ایک عام مسلمان اس کے ادنیٰ سے تصور سے بھی کانپ اٹھتا ہے۔ مصطفی کمال پاشا کے یہی اقدامات ہیں جنہیں ’کمال ازم‘ یا ’اتاترک ازم‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے’’۱۹۱۸ء میں جرمنی اور ترکی کی شکست کے ساتھ یہ جنگ ختم ہوئی، برطانیہ اور اس کے اتحادیوں نے استنبول پر قبضہ کرلیا، اناطولیہ میں بڑی بدامنی پھیل گئی، اس وقت امن قائم کرنے کے لئے مصطفی کمال کا انتخاب ہوا، انہوں نے یونانیوں کے خلاف جنہوں نے از میر پر قبضہ کرلیا تھا، اعلانِ جنگ کردیا اور ۱۹۱۹ء میں شکاریہ کے معرکہ میں ان کو شکست ِفاش دی اور غازی کا لقب حاصل کیا۔ اس نے ترکی کو بہت نازک وقت میں ایک ایسے خطرہ سے بچایا جو اس کے لئے موت و زیست کا سوال بن گیاتھا اور ایک مضبوط حکومت قائم کی اور مغربی حکومتوں اور اس کے سیاسی لیڈروں کو اپنی عزیمت او رعظمت کے سامنے سرنگوں کردیا‘‘
مصطفی کمال پاشا کے فکری سرچشموں، خیالات و افکار او رحکومتی اِقدامات کو پیش نظر رکھاجائے تو پاکستان میں ’کمال ازم‘ کے خلاف مزعومہ مزاحمت اور ردّعمل کا مظاہرہ کرنے والوں کی بات کو محض رجعت پسندی اور دقیانوسی کہہ کر مسترد کرنا مناسب نہ ہوگا۔ اسلامی نظریہ کی بنیاد پر معرضِ وجود میں آنے والی مملکت ِخداداد پاکستان میں اسلام کے علاوہ کسی دوسرے ’ازم‘ کی گنجائش نہیں ہے۔ اتاترک ازم فی نفسہٖ سیکولر ازم کی بدترین صورت ہے۔ لہٰذا نظریہ پاکستان اور فکر ِقائد پر یقین کرنے والا کوئی فرد اگر اس سوچ کے خلاف ذہنی تحفظات رکھتا ہے، تو اس کے خدشات بے بنیاد نہیں ہیں۔ یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مصطفی کمال پاشا کی سوچ، کردار اور مزاج کو سمجھنے کے لئے اس کے معروف ترک سوانح نگار عرفان اورگا کی کتاب ’اتاترک‘ سے چند اقتباسات پیش کئے جائیں:
’’جوانی میں اس نے اپنے انقلابی افکار کے ساتھ ضیاگوک الپ کی تعلیمات کو بھی اچھی طرح جذب کر لیاتھا۔ وہ مغربی روشن خیالی کا بہت بڑا نقیب تھا۔ اس نے ۱۹۰۰ء ہی میں اس خیال کا اظہار کردیا تھا کہ سلطنت ِعثمانیہ کے لئے زوال و انتشار مقدر ہوچکا ہے۔ وہ اکثر کہا کرتا تھا کہ دینی حکومت شخصی حکومت کی وفادار حلیف ہوتی ہے۔ وہ علماء کے اختیارات کو محدود کرنے کے حق میں تھا۔اس نے شریعت کے خاتمہ اور ان قاضیوں کی دینی عدالتوں کی منسوخی کی پرزور وکالت کی تھی جو اسلامی قانون کے شارح و ترجمان ہیں۔ جنس اس کے لئے مقناطیس کی کشش رکھتی تھی۔ وہ شراب نوشی سے تسکین حاصل کرتا تھا، اس لئے کہ روحانی تسکین کے لئے اس کے اندر نہ خدا کا اعتقاد تھا، نہ زندگی کے بعد موت کا یقین‘‘ (صفحہ ۲۴۶)
مصطفی کمال پاشا کو مغربی تہذیب سے شیفتگی لیکن مذہب اور مذہبی تعلیمات سے شدید نفرت تھی۔ مذہب اور بالخصوص اسلام کے متعلق مصطفی کمال کے نقطہ ٔ نظر اور خیالات کا ذکر کرتے ہوئے عرفان اورگا لکھتا ہے:
اتاترک کا یہی سوانح نگار ایک اور جگہ لکھتا ہے:’’اس نے اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھ لیا تھا کہ اس کی اصل جنگ مذہب کے خلاف ہے، بچپن سے اس کے نزدیک خدا کی کوئی ضرورت نہیں تھی، وہ صرف اس چیز پر یقین رکھتا تھا جو دیکھنے میں آسکتی تھی، کبھی کبھی وہ آسمان کی طرف مکا اُٹھا کر اشارہ کرتا تھا، اس کا خیال تھا کہ زمانہ ٔ ماضی میں اسلام محض ایک تخریبی طاقت رہا ، اور اس نے ترکی کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ اس نے اس حقیقت کو نظر انداز کر دیا تھا کہ اسلام کی ہی کی عطا کی ہوئی وحدت نے وسیع عثمانی سلطنت کی تعمیر کی تھی۔ اس کو اس آدمی سے سخت نفرت تھی جو تقدیر کے سامنے ہاتھ پھیلاتا ہے۔اس کا عقیدہ تھا کہ خدا کا کہیں وجود نہیں اور انسان ہی اپنی تقدیر بناتا ہے۔ اس کا مصمم ارادہ تھا کہ مذہب کو ممنوع قرار دے خواہ اس کے لئے طاقت استعمال کرنی پڑے، خواہ دھوکہ اور فریب سے کام لینا پڑے‘‘ (صفحات ۲۳۷۔۲۳۸)
[اقتباسات ماخوذ : ’’اسلامیت اور مغربیت کی کشمکش‘‘از سید ابوالحسن علی ندوی ]’’اس کے نزدیک نفسیاتی اصول و نظریات اور فلسفیانہ اصطلاحات کے کوئی معنی نہیں تھے، اسی لئے قدرتی طور پر ترکی قوم کے لئے مذہب کو غیر ضروری اور بے کار قرار دینے میں اس کو کوئی تامل نہیں تھا۔ لیکن مذہب کی جگہ پر اس نے اگر ترکی قوم کو کوئی چیز دی تو وہ ’’نیا دیوتا‘‘ تھا یعنی مغربی تہذیب۔ اسلام اور راسخ العقیدہ مذہبیت سے اس کو شدید نفرت تھی۔ یہ کوئی راز کی بات نہیں تھی کہ مصطفی کمال ایک غیر مذہبی آدمی تھا۔ ایک دفعہ اس بات سے سنسنی پھیل گئی کہ مصطفی کمال نے شیخ الاسلام کے سر پر، جو اسلام کے بڑے عالم اور ایک قابل احترام بزرگ تھے، قرآنِ مجید پھینک کر مارا‘‘ (صفحہ ۲۳۹)
مندرجہ بالا سطو رمیں کمال اتاترک کے ملحدانہ خیالات اور شخصی کردار کے بعض پہلوئوں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ ۱۹۲۴ء میں خلافت اور عثمانی سلطنت کے خاتمہ کے بعد اس نے جو اصلاحات متعارف کرائیں اور جو انقلابی اقدامات اٹھائے، اس کا مختصر تذکرہ حسب ِذیل ہے۔
کمال اتاترک کا انگریز سوانح نگار آرم سٹرانگ (Arm Strong) اس کے انقلابی اقدامات کاتذکرہ ان الفاظ میں کرتا ہے:
’’اتاترک نے عظیم پیمانے پر شکست و ریخت کی۔اس نے زبردست اور عمومی کارروائی کی تکمیل کرنی شروع کی جس کا آغاز وہ کرچکا تھا۔ اس نے فیصلہ کیا تھا کہ ترکی کو اپنے بوسیدہ اور متعفن ماضی سے علیحدہ کرنا ہے۔ اس نے اس قدیم سیاسی ڈھانچے کو واقعی توڑ پھینکا، سلطنت کو جمہوریت سے آشنا کیا، اور اس ترکی کو جو ایک ایمپائر تھی ایک معمولی ملک میں تبدیل کردیا اور ایک عظیم مذہبی ریاست کو حقیر درجہ کی جمہوریہ بنا دیا۔ اس نے سلطان کو معزول کرکے قدیم عثمانی سلطنت سے سارے تعلقات ختم کر لئے تھے۔ اب اس نے قوم کی عقلیت، اس کے قدیم تصورات، اَخلاق و عادات، لباس، طرز ِگفتگو، آداب، معاشرت، اور گھریلو زندگی کی جزئیات تک تبدیل کرنے کی مہم شروع کی(Grey wolf: p287)
کمال اتاترک نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ ’’میں نے دشمن پر فتح پائی اور ملک کو فتح کیا، لیکن کیا میں قوم پر بھی فتح پاسکوں گا؟‘‘ اتاترک کے اس قول پر تبصرہ کرتے ہوئے سید ابوالحسن علی ندوی لکھتے ہیں:
’’کمال اتاترک نے واقعتا قوم پر فتح پائی، ملک کو سیکولر سٹیٹ میں تبدیل کردیا، جس میں اسلام کو سرکاری مذہب کی حیثیت حاصل نہیں رہی، دین و سیاست میں تفریق ہوگئی اور یہ فیصلہ کر لیا گیا کہ مذہب انسان کا ذاتی معاملہ ہے، ہر شخص اپنے لئے کسی مذہب کا انتخاب کرسکتا ہے، خلافت کے ادارہ کو ختم کردیا گیا، شرعی اداروں اور محکموں اور اسلامی قانونِ شریعت کو ملک سے بے دخل کرکے سوئٹرز لینڈ کا قانونِ دیوانی، اٹلی کا قانونِ فوجداری اور جرمنی کا قانونِ بین ُالاقوامی تجارت نافذ کردیا گیا۔ پرسنل لاء کو یورپ کے قانونِ دیوانی کے مطابق و ماتحت کردیا گیا، دینی تعلیم ممنوع قرار پائی، پردہ کو خلاف ِقانون قرار دے دیا، مخلوط تعلیم کا نفاذ کیا گیا، عربی حروف کی جگہ لاطینی حروف جاری ہوئے، عربی میں اذان ممنوع قرار پائی، قوم کا لباس تبدیل ہوگیا۔ ہیٹ کا استعمال لازمی قرار پایا، غرض کہ کمال اتاترک نے ترکی قوم اور حکومت کی دینی اساس کو توڑ پھوڑ کے ختم کردیا اور قوم کا نقطہ ٔ نظر ہی بدل دیا‘‘ (اسلامیت اور مغربیت کی کشمکش: صفحہ ۸۲)
’کمالی انقلاب‘ نے ترکی معاشرہ میں جو دور رس نتائج مرتب کئے، اتاترک کا انگریز سوانح نگار آرم سٹرانگ اس کی نشاندہی ان الفاظ میں کرتا ہے: (صفحہ ۲۴۲)
’’پارلیمنٹ نے جو فیصلے کئے، حقیقت میں وہ اسلام کے حق میں کاری ضرب اور پیامِ موت کی حیثیت رکھتے تھے۔ تعلیم کی وحدت کا قانون نظامِ تعلیم میں دور رَس تبدیلیوں کا باعث بنا۔ اس تبدیلی نے مدرسوں کی سرگرمیوں اور ان علماء و اساتذہ کی آزادی کو ختم کردیا جو ان میں تعلیم دیتے تھے‘‘
ترکی میں سیکولرازم کے نفاذ کاذکر کرتے ہوئے عالم عرب کے معروف اسلامی سکالر ڈاکٹر یوسف قرضاوی اپنی حالیہ تصنیف ’’اسلام اور سیکولرازم‘‘ میں فرماتے ہیں:
اسلامی ریاست میں دین و سیاست کی وحدت کا قیام بے حد ضروری ہے۔ اسلام میں کلیسا اور ریاست کی علیحدگی کا تصور نہیں پایا جاتا۔ اگر دین کو حکومت سے جدا کردیا جائے تو دین کی اصل قوت اور فوقیت ختم ہو کر رہ جائے گی۔ جب کمال اتاترک نے لادینی نظام نافذ کردیا تو ترکی میں بھی یہی صورتحال سامنے آئی۔مراکشی مصنف پروفیسر ادریس کتانی اپنی تصنیف ’’مسلم مغرب بالمقابل لادینیت‘‘ میں اس تبدیلی پرروشنی ڈالتے ہوئے تحریر کرتے ہیں کہ:’’اسلامی ممالک میں سیکولرازم کی حکمرانی کی واضح اور نمایاں ترین مثال ترکی کی ہے، جہاں خلافت ِاسلامیہ کو ختم کرکے اور خون کا دریا عبور کرکے پورے زور اور قوت کے ساتھ لادینیت کومسلط کیا گیا۔ اتاترک نے جبر و تسلط کے ساتھ سیاست، اقتصاد، اجتماع، تعلیم اور ثقافت، غرض زندگی کے ہر پہلو میں مغربی طرزِ حیات جاری وساری کردیا اور ترک قوم سے اس کی ثقافت ، اس کی اَقدار اور اس کی روایات اس طرح سلب کرلیں جس طرح ذبح شدہ بکری کی کھال کھینچی جاتی ہے۔ اتاترک نے دین کو دنیا سے بالکل علیحدہ کرکے ایک لادینی دستور نافذ کردیا اور اس اساس پر خاندانی اور شخصی معاملات سمیت تمام پہلوئوں میں خلاف ِاسلام قوانین نافذ کردیئے۔ اسلام جو پہلے دین و سیاست دونوں پر مشتمل تھا، اب بیک جنبش قلم صرف ذاتی مسئلہ بن گیا۔ کسی اسلامی ملک میں مکمل طور پر سیاست کی اسلام سے علیحدگی اور مغربی طرز کی لادینی ریاست کے قیام کا یہ عمل بالکل منفرد تجربہ تھا۔ اسلام کوسیاست و اقتدار سے علیحدہ کر دینے کے نتیجہ میں اسلام عوامی حلقوں بالخصوص کسانوں میںمحدود ہو کر رہ گیا، اسلام کو جڑ سے ختم کرنے کے لئے اس کو خاص طور پر نشانہ بنایا گیا‘‘ (صفحہ ۶۴)
مصطفی کمال اتاترک’’تہذیب ِمغرب کا پرجوش پجاری اور اس کا ایک وفادار حواری‘‘ تھا۔ ترکی میں اس تہذیب کو مسلط کرنے کے لئے ا س نے جو اقدامات کئے ان میں ہمہ گیر اور مہلک ترین اس کا وہ فیصلہ تھا جس کی رو سے اس نے عربی رسم الخط کی بجائے لاطینی رسم الخط کو متعارف کرایا، جس کے نتیجے میں ترکی نسل اپنے اَسلاف کے عظیم ثقافتی اور علمی وِرثے سے کٹ کر رہ گئی۔ اسلامی علوم کے عظیم ذخائر اور کتب خانے محض الماریوں میں بند ہو کر رہ گئے۔ بقول سید ابوالحسن علی ندوی’’ترکی کے گذشتہ ساٹھ سال کے تجربہ نے یہ بات ثابت کردی ہے کہ اسلامی مملکت میں لادینی نظام کے قیام کامطلب اسلام کو زندہ عقیدہ اور انسانیت کے لئے دائمی پیغام کے طور پر ختم کردینا ہے کیونکہ حکومت کو دینی اقدار اور دینی رنگ سے جدا کردینے کا مطلب دین اسلام کو قطعا ً ختم کردینا ہے۔ ترکی میں بالکل یہی ہوا ہے کہ جب کمال اتاترک کے حامیوں نے حکومت کو دین سے جدا کرلیاتو انہیںدرحقیقت دینی اقدار سے کوئی دلچسپی نہ رہی۔ اس لئے انہوں نے مساجد کی دیکھ بھال اور دیگر دینی معاملات کے لئے ایک چھوٹا سا ادارہ بنا دیا تھا اور یہی ترکی میں اسلام کی باقی ماندہ نشانی ہے‘‘ (صفحہ ۵۷)
’’تنہا عربی رسم الخط کی بجائے لاطینی رسم الخط کے اجراء نے ترکی قوم کی زندگی میں انقلابِ عظیم برپا کردیا اور ایک نئی نسل کو جنم دیا جس کا رشتہ اپنی قدیم تہذیب و ثقافت سے کٹ چکا ہے‘‘
قائد اعظم اور کمال اتاترک میں قدرِ مشترک ؟
قائد اعظم محمد علی جناح اور مصطفی کمال پاشا کی شخصیات اور ان کے اَفکار کا موازنہ کیا جائے، ان میں سوائے اس کے کہ دونوں اپنی اپنی جگہ پر ’’بابائے قوم‘‘ ہیں، کوئی اور قدرِ مشترک نہیں ہے۔ مصطفی کمال پاشا ایک فوجی جرنیل تھے جنہوں نے عسکری فتوحات کے ذریعہ سے جدید ترکی کی بنیاد رکھی۔ قائداعظمؒ بنیادی طور پر ایک مدبر قانون دان اور (Statesman) تھے جنہوں نے انگریز سامراج اور ہندو بنئے کے خلاف آئینی جنگ جیت کر دنیا کے نقشہ پر عظیم ترین اسلامی ریاست کو قائم کیا۔ دونوں راہنمائوں کا تصورِ ریاست یکسر جدا تھا۔کمال اتاترک نے تہذیب ِمغرب اور سیکولرازم کی اساس پر جس ترکی کی تعمیر نو کی تھی اس میں اسلام یا مذہبی تصورات کی قطعاً گنجائش نہیں تھی۔ لیکن قائداعظمؒ کے نزدیک قیامِ پاکستان کا مقصد ِوحید ہی یہ تھا کہ ایک ایسا جغرافیائی خطہ حاصل کیا جائے جہاں اسلام کے عدل و انصاف اور مساوات کے شاندار اصولوں کو نافذ کیا جاسکے۔ مصطفی کمال پاشا اپنی فکر کے اعتبار سے ’الحادی مادیت‘ کے پیروکار اور مبلغ تھے، قائد اعظمؒ ایک خدا پرست مسلمان تھے جنہیں قرآن و سنت کی صداقت اور اَبدیت پر کامل یقین تھا۔
مصطفی کمال پاشا کی الہامی تعلیمات سے شدید نفرت کا اندازہ اس واقعہ سے ہوسکتا ہے کہ اس نے غصہ میں آکر قرآنِ مجید کو شیخ الاسلام کے سر پر دے مارا تھا۔ ایک عظیم ترین مقدس الہامی کتاب کے ساتھ اس توہین آمیز برتائو کی توقع کسی غیر مسلم سے بھی کم ہی کی جاسکتی ہے۔ لیکن قائداعظمؒ کو اس مقدس اور عظیم کتاب سے جو عقیدت و محبت تھی اس کا اندازہ آپ کے اس خطاب سے لگایا جاسکتا ہے جو آپ نے کراچی میں ۱۹۴۳ء میں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں کیا۔ آپ نے فرمایا تھا:
۱۹۴۵ء میں عید کے پیغام میں قائد اعظم نے فرمایا:’’وہ کون سی چٹان ہے، جس پر ملت کی عمارت قائم ہے اور وہ کون سا لنگر ہے جو سفینہ ٔ ملی کو تھامے ہوئے ہے؟ مسلم انڈیا کے سفینہ ٔ ملی کا مستحکم لنگر عظیم المرتبت قرآنِ مجید ہے۔ مجھے یقین ہے کہ جیسے جیسے ہم آگے بڑھتے جائیں گے، ویسے ویسے ہماری یہ وحدت بھی بڑھتی جائے گی۔ ایک خدا، ایک کتاب، ایک رسولؐ، ایک قبلہ اور ایک قوم‘‘
مصطفی کمال پاشا، اسلام کو اپنے تصور پر مبنی ریاست کے لئے ایک خطرہ سمجھتے تھے ۔ وہ اسلام کی آفاقیت کے منکر تھے۔ وہ اسلام کو محض عربوں کا مذہب کہہ کر اس کی تحقیر کرتے تھے۔ ریاست کو سیکولر بنانے کا بل پیش کرتے ہوئے ۳ ؍مارچ ۱۹۲۴ء کو مصطفی کمال نے اپنی تقریر میں واضح طور پر کہا کہ’’بجز ان لوگوں کے جو بے خبر ہیں، ہر شخص آگاہ ہے کہ قرآنِ مجید مسلمانوں کا ہمہ گیر و بالاتر اور مکمل ضابطہ حیات ہے، مذہبی بھی، معاشی و معاشرتی بھی، دیوانی بھی، فوجداری بھی، تجارتی بھی، عدالتی بھی اور تعزیری بھی۔ یہ ضابطہ زندگی کی ایک ایک چیز کو باقاعدگی اور ترتیب عطاکرتا ہے‘‘
مگر قائد اعظمؒ اسلام کو مسلمانوں کے لئے سرمایہ ٔ افتخار اور ذریعہ ٔ نجات سمجھتے تھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد سبی دربار کے موقع پر ۱۲ ؍فروری ۱۹۴۸ء کو قائد نے اسلام سے اپنی وابستگی اور اپنے عہد کو ایک دفعہ پھر دہرایا۔ آپ نے فرمایا:’’عثمانی سلطنت اسلام کے اصول پر قائم ہوئی تھی، اسلام اپنی ساخت او راپنے تصورات کے لحاظ سے عرب ہے، وہ پیدائش سے لے کر موت تک اپنے پیروئوں کی زندگی کی تشکیل کرتا ہے اور ان کو اپنے مخصوص سانچے میں ڈھالتا ہے، وہ ان کی اُمنگوں کا گلا گھونٹ دیتا ہے او ران کی جرات و اِقدام پسندی میں روڑے اٹکاتا ہے، ریاست کو اسلام کے مسلسل باقی رہنے سے خطرہ لاحق رہے گا‘‘ ( کتاب عرفان اورگا؍ ترجمہ سید ابوالحسن علی ندوی)
مصطفی کمال پاشا ترک قوم کو مکمل طور پر یورپی تہذیب کے سانچے میں ڈھال دینا چاہتا تھا۔ وہ اسلامی تہذیب و ثقافت کے ایک ایک نقش کو مٹا دینے پر مصر تھا۔ اس نے ترکی ٹوپی اور سر کے ہر لباس کو خلاف ِقانون قرار دیا اور انگریزی ہیٹ کا استعمال لازمی کردیا۔’’میرا ایمان ہے کہ ہم سب کی نجات ان سنہری قواعد اور زرّیں احکام کی پیروی میں مضمر ہے جو ہمارے رہن سہن اور معاملاتِ زندگی کو درست رکھنے کے لئے پیغمبر اسلامﷺ نے عطا کئے ہیں۔ آئیے ہم اپنی جمہوریت کی بنیادی سچے اسلامی اصولوں اور تصورات پر استوار کریں۔ خدائے قادر و مطلق نے ہمیں سکھایا ہے کہ مملکت کے تمام امور میں ہمارے فیصلے بحث و تمحیص اور مشاورت کی راہنمائی میں ہوں‘‘
اس نے اس معاملے میں اس قدر شدت اور سختی کا برتائو کیا کہ اس کے سوانح نگار عرفان اورگا نے اسے ’ہیٹ کی جنگ‘ سے تعبیر کیا۔ عرفان اورگا کے مطابق عوام نے سخت ردّ ِعمل کا اظہار کیا۔ فسادات اور بلوے ہوئے ۔مصطفی کمال نے منصوبے کی تکمیل کا فیصلہ کیا، کہیں رحم و رعایت سے کام نہیں لیا گیا۔ مذہبی حلقہ کے افراد جنہوں نے لوگوں میں جوش پیداکیا تھا، پھانسی پر چڑھا دیئے گئے۔ لوگ گرفتار کئے جاتے اور محض اس الزام پر کہ انہوں نے ہیٹ کا مذاق اڑایا ہے، پھانسی پر چڑھا دیئے جاتے ۔ ہیٹ کی جنگ بالآخر جیت لی گئی اور عوام نے شکست تسلیم کر لی۔اس زمانے میں وہ کہاکرتا تھا:
’’میں ہی ترکی ہوں، مجھے شکست دینا ترکوں کو شکست دینا ہے‘‘
ذرا مصطفی کمال پاشا کے اس جنونی طرزِ عمل کا موازنہ قائد اعظمؒ کے طرزِ عمل سے کیجئے۔ قیامِ پاکستان سے پہلے وہ عام طور پر انگریزی لباس پہنتے تھے، مگر قیامِ پاکستان کے بعد انہوں نے مستقل طور پر قومی لباس پہننے کی روِش اختیار کی۔ گورنر جنرل کی حیثیت سے انہیں کبھی انگریزی لباس میں نہ دیکھا گیا۔ قائد اعظمؒ کو مسلمانوں کے ایک الگ تشخص پر فخر تھا۔ ۱۹۴۰ء کے مشہور خطبہ میں انہوں نے مسلمانوں کی الگ اور منفرد تہذیب و ثقافت، شاندار تاریخ اور سماجی قدروں کو مسلمانوں کے لئے الگ وطن کے فلسفیانہ جواز کے طور پر پیش کیا۔
مصطفی کمال پاشا نے دینی مدارس اور اسلامی تعلیمات دینے والے مراکز پر پابندی لگادی۔ علمائے دین کو معمولی سی مخالفت پر پھانسی پر چڑھایا۔ مذہبی طبقے کی سخت توہین و تذلیل کی۔ قائداعظمؒ روشن خیال اور جدید تعلیم یافتہ انسان تھے مگر انہوں نے کبھی تحریر و تقریر میں دینی طبقہ سے اپنی بیزاری یا نفرت کا اظہار نہ کیا۔ ان کے بعض علماء سے دوستانہ تعلقات بھی تھے۔ مولانا اشرف علی تھانوی، علامہ شبیر احمد عثمانی، مولانا ظفر احمد انصاری اور تحریک ِپاکستان کے حامی علماء سے آپ کے قریبی مراسم تھے۔ وہ ان سے مذہبی معاملات میں ہمیشہ راہنمائی طلب کرتے تھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد انہوں نے دستور ساز اسمبلی میں علامہ شبیر احمد عثمانی کو اہم ذمہ داری سونپی۔ جس طرح آج کل نام نہاد ’لبرل‘ طبقہ علماءِ کرام کی تحقیر کا شغل اختیار کئے ہوئے ہے، اس طرح کی بات قائد ِاعظمؒ کے طرزِ عمل سے متصادم ہے۔
آخر میں ہم جنرل پرویز مشرف صاحب سے گزارش کریں گے کہ جب انہوں نے قائد اعظمؒ کے بتائے ہوئے اصولوں کا پابند رہنے کا برملا اظہار کیا ہے، تو بے حد مناسب ہوگا کہ وہ علماء اور دینی طبقہ کو بھی کابینہ اور حکومتی معاملات میں مناسب نمائندگی دیں، دینی طبقہ کی عدم نمائندگی کو ایک شر انگیز گروہ حکومت کے خلاف شکوک و شبہات کو ہوا دینے کے لئے استعمال کرسکتا ہے۔ لہٰذا مناسب یہی ہے کہ ایسی شرانگیزی کا جتنا جلد ہوسکے، دروازہ بند کردیا جائے۔