عبیداللہ لطیف
رکن
- شمولیت
- اگست 18، 2017
- پیغامات
- 42
- ری ایکشن اسکور
- 2
- پوائنٹ
- 57
عنوان : قادیانی طریقہ بیعت اور قادیانی دجل
تحریر : عبیداللہ لطیف فیصل آباد
نوٹ : اس تحریر میں دیے گٸے تمام حوالہ جات سو فیصد درست ہیں اگر کوٸی دوست حوالہ دیکھنے کا خواہشمند ہو تو راقم سے رابطہ کر سکتا ہے
راقم عبیداللہ لطیف کا نمبر 0304/03136265209
محترم قارٸین! قادیانی اپنے خودساختہ خلیفہ کے ہاتھ پر بیعت کرتے ہوۓ جن بنیادی باتوں کا اقرار کرتے ہیں وہ درج ذیل ہیں
1_ کلمہ شھادت کا اقرار
2_ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کو خاتم النبیین ماننا
3_ مرزا غلام احمد قادیانی کو وہی امام مہدی اور مسیح موعود ماننا جس کی پیشگوٸی جناب محمد رسول اللہ ﷺ نے کی ہے
4_ قادیانی جماعت کے موجودہ سربراہ کے تمام احکامات کی پاسداری کرنا اور اسے بطور خلیفة المسلمین تسلیم کرنا ۔
محترم قارٸین ! اب میں آپ کے سامنے قادیانیوں کی بیعت کے ان چاروں اصولوں اور قادیانی دجل و فریب کو سٹیپ باٸی سٹیپ بیان کرتا ہوں تاکہ کوٸی عام آادمی کسی بھی قسم کے دھوکے کا شکار نہ ہو جاۓ۔
1_ قادیانی کلمہ شھادت کی حقیقت :_
محترم قارٸین ! قادیانی کلمہ کی حقیقت کو جاننے اور سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ یہ جان لیا جاۓ کہ مرزا غلام احمد قادیانی کا دعوی کیا تھا ؟ تو قارٸین کرام یاد رکھیے کہ مرزا غلام احمد قادیانی نے نہ صرف خود محمد رسول اللہ ﷺ ہونے کا دعوی کیا ہے بلکہ اپنے اصحاب کو محمد رسول اللہ ﷺ کے اصحاب بھی قرار دیا ہے ۔چنانچہ مرزا غلام احمد قادیانی خود لکھتا ہے کہ
’’ اور جو شخص مجھ میں اور مصطفی میں تفریق کرتا ہے اس نے مجھے نہیں دیکھا اور نہ پہچاناہے۔‘‘
(خطبہ الہامیہ صفحہ 171 مندرجہ روحانی خزائن جلد 16 صفحہ 259)
مزید ایک مقام پر مرزا غلام احمد قادیانی لکھتا ہے کہ
’’پس وہ جومیری جماعت میں داخل ہوا درحقیقت میرے سردار خیر المرسلین کے صحابہ میں داخل ہوا‘‘
(خطبہ الہامیہ صفحہ 171مندرجہ روحانی خزائن جلد 16صفحہ 258)
محترم قارئین ! یہاں پر یہ بھی یاد رہے کہ قادیانیوں کے نزدیک آنجہانی مرزا غلام احمد قادیانی خود محمد رسول اللہ ﷺ ہے کیونکہ مرزا قادیانی خود محمد رسول اللہ ﷺ ہونے کادعویٰ کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ
’’مگر میں کہتا ہوں کہ آنحضرت ﷺ کے بعد جو درحقیقت خاتم النبین تھے ، مجھے رسول اور نبی کے لفظ سے پکارے جانا کوئی اعتراض کی بات نہیں، اور نہ ہی اس سے مہر ختمیت ٹوٹتی ہے۔ کیونکہ میں بار بار بتلا چکا ہوں ، میں بموجب آیت وَآخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ وہی خاتم الانبیاء ہوں۔ اور خدا نے آج سے بیس برس پہلے براہین احمدیہ میں میرا نام محمد اور احمد رکھا ہے۔ اور مجھے آنحضرت ﷺ کا وجود قرار دیا ہے۔ پس اس طور سے آنحضرت ﷺکے خاتم الانبیاء ہونے میں میری نبوت سے کوئی تزلزل نہیں آیا۔ کیونکہ ظل اپنے اصل سے علیحدہ نہیں ہوتا اور چونکہ میں ظلی طور پر محمد ﷺ ہوں ، پس اس طور سے خاتم النبین کی مہر نہیں ٹوٹی۔ کیونکہ محمد ﷺ کی نبوت محمد ہی تک محدود رہی۔یعنی بہرحال محمد ﷺ ہی نبی رہے اور نہ اور کوئی ۔ یعنی جب کہ میں بروزی طور پر آنحضرت ﷺ ہوں اور بروزی رنگ میں تمام کمالات محمدی مع نبوت محمدیہ کے، میرے آئینہ ظلیت میں منعکس ہیں۔ تو پھر کونسا الگ انسان ہوا جس نے علیحدہ طور پر نبوت کا دعویٰ کیا۔‘‘
(ایک غلطی کا ازالہ صفحہ 8 مندرجہ روحانی خزائن جلد 18صفحہ 212)
اسی طرح ایک اور جگہ قادیانی کذاب لکھتا ہے کہ
’’ نبوت کی تمام کھڑکیاں بند کی گئیں مگر ایک کھڑکی سیرۃ صدیقی کی کھلی ہے۔ یعنی فنا فی الرسول کی ۔ پس جو شخص اس کھڑکی کی راہ سے خدا کے پاس آتا ہے اس پر ظلی طور پر وہی نبوت کی چادر پہنائی جاتی ہے جو نبوت محمدی کی چادر ہے۔ اس لیے اس کا نبی ہونا غیرت کی جگہ نہیں کیونکہ وہ اپنی ذات سے نہیں بلکہ اپنے نبی کے چشمہ سے لیتا ہے۔ اور نہ اپنے لیے بلکہ اسی کے جلال کے لیے۔ اس لیے اس کا نام آسمان پر محمد اور احمد ہے ۔ اس کے یہ معنیٰ ہیں کہ محمد کی نبوت آخر محمد کو ہی ملی۔ گوبروزی طور پر مگر نہ کسی اور کو۔۔۔۔۔۔لیکن اگر کوئی شخص اسی خاتم النبین میں ایسا گم ہو کہ بباعث نہایت اتحاد اور نفی غیریت کے اسی کا نام پالیا ہو اور صاف آئینہ کی طرح محمدی چہرہ کا اس میں انعکاس ہو گیا ہو تو وہ بغیر مہر توڑنے کے نبی کہلائے گا۔ کیونکہ وہ محمد ہے۔ گو ظلی طور پر ۔ پس باوجود اس شخص کے دعویٰ نبوت کے جس کا نام ظلی طور پر محمد اور احمد رکھا گیا ۔ پھر بھی سیدنا محمد خاتم النبین ہی رہا۔ کیونکہ یہ محمد (ثانی) (مرزا قادیانی) اسی محمد کی تصویر اور اسی کا نام ہے۔‘‘
(ایک غلطی کا ازالہ صفحہ 3 تا 5 مندرجہ روحانی خزائن جلد 18 صفحہ207 تا209)
مرزا قادیانی کا بیٹا مرزا بشیر احمد جسے قادیانی قمر الانبیا کے لقب سے پکارتے ہیں اپنی کتاب میں ایک مقام پر لکھتا ہے کہ
’’اور چونکہ مشابہت تامہ کی وجہ سے مسیح موعود اور نبی کریم میں کوئی دوئی باقی نہیں کہ ان دونوں کے وجود بھی ایک وجود کا ہی حکم رکھتے ہیں جیسا کہ خود مسیح موعود (مرزا قادیانی ) نے فرمایا کہ صار وجودی وجودہ (دیکھوخطبہ الہامیہ صفحہ 171) اورحدیث میں بھی آیاہے کہ حضرت نبی کریم نے فرمایا کہ مسیح موعود میری قبر میں دفن کیا جائے گا۔ جس سے یہی مراد ہے کہ وہ میں ہی ہوں یعنی مسیح موعود نبی کریم سے الگ کوئی چیز نہیں ہے بلکہ وہی ہے جو بروزی رنگ میں دوبارہ دنیا میں آئے گا تاکہ اشاعت اسلام کا کام پورا کرے اور ھوالّذی ارسل رسولہ بالھدیٰ ودین الحق لیظھرہ علی الدین کلہ کے فرمان کے مطابق تمام ادیانِ باطلہ پر اتمام حجت کرکے اسلام کودنیا کے کونوں تک پہنچاوے تو اس صورت میں کیا اس بات میں کوئی شک رہ جاتا ہے کہ قادیاں میں اللہ تعالیٰ نے پھر محمدؐ کو اتارا تاکہ اپنے وعدہ کو پورا کرے جو اس نے آخرین منھم لم یلحقوابھم میں فرمایاتھا۔‘‘
(کلمۃالفصل صفحہ104‘105)
محترم قارئین ! بعض لوگ قادیانیوں کے کلمہ پڑھنے سے بھی دھوکا میں آجاتے ہیں کہ دیکھیں جی یہ بھی تو کلمہ پڑھتے ہیں۔ لہٰذا یہ بھی مسلمان ہی ہیں۔ حالانکہ قادیانی گروہ کلمہ میں جب ’’محمدرسول ﷲ ‘‘کے الفاظ ادا کرتا ہے توا ن کا مقصد صرف محمد عربی ﷺ ہی نہیں ہوتا بلکہ نبی کریم ﷺ کے ساتھ ساتھ مرزا غلام احمد قادیانی بھی ہوتا ہے جیسا کہ ہم مندرجہ بالا تحریروں میں مرزا قادیانی کے دعویٰ سے ثابت کر آئے ہیں۔
آئیے! مذید قادیانی کلمہ کی حقیقت جاننے کے لیے مرزا قادیانی کے بیٹے مرزا بشیر احمد کی درج ذیل تحریر کو بھی ملاحظہ کر لیں جب اس سے سوال کیا گیا کہ تم نے مرزا قادیانی کو نبی مانا ہے تو اپنا الگ کلمہ کیوں نہیں بنایا تو جواب دیتے ہوۓ مرزا بشیر احمد ابن مرزا قادیانی لکھتا ہے کہ
’’ہم کو نئے کلمے کی ضرورت پیش نہیں آتی کیونکہ مسیح موعود نبی کریم سے کوئی الگ چیز نہیں ہے جیسا کہ وہ خود فرماتا ہے۔ صار وجودی وجودہ نیز من فرق بینی و بین المصطفی فما عرفنی وماریٰ اور یہ اس لیے ہے کہ حق تعالیٰ کا وعدہ تھا کہ وہ ایک دفعہ اور خاتم النبین کو دنیا میں مبعوث کرے گا جیسا کہ آیت آخرین منھم سے ظاہر ہے۔ پس مسیح موعود خود محمدرسول ﷲ ہے جو اشاعت اسلام کے لیے دوبارہ دنیا میں تشریف لائے۔ اس لیے ہم کوکسی نئے کلمہ کی ضرورت نہیں۔ ہاں اگر محمدرسول ﷲ کی جگہ کوئی اور آتا تو ضرورت پیش آتی۔ ‘‘
(کلمۃ الفصل صفحہ 158 از مرزا بشیر احمد ابن مرزا قادیانی )
محترم قارٸین ! قاضی ظھورالدین اکمل نامی شخص مرزا قادیانی کا مرید خاص اور صحابی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک شاعر بھی تھا اس نے مرزا قادیانی کی زندگی میں ایک نظم لکھی جو قادیانی اخبار بدر کے 25 اکتوبر 1906 کے شمارے میں شاٸع ہوٸی اس میں وہ مرزا قادیانی کو محمد رسول اللہ ﷺ قرار دے رہا ہے بلکہ محمد عربی ﷺ سے بڑھ کر قرار دے رہا ہے چنانچہ قاضی ظھور الدین اکمل لکھتا ہے کہ
امام اپنا عزیزو اس زماں میں
غلام احمد ہوا دارالاماں میں
غلام احمد ہے عرش رب اکرم
مکاں اس کا ہے گویا لامکاں میں
غلام احمد رسول اللہ ہے برحق
شرف پایا ہے نوع انس و جاں میں
محمد پھر اتر آۓ ہیں ہم میں
اور آگے سے ہیں بڑھکر اپنی شان میں
محمد دیکھنے ہوں جس نے اکمل
غلام احمد کو دیکھے قادیاں میں
محترم قارٸین ! اس نظم کے بارے میں قاضی ظھور الدین اکمل کا بیان ہے کہ
”وہ اس نظم کا ایک حصہ جو حضرت مسیح موعود کے حضور میں پڑھی گٸی اور خوشخط لکھے ہوۓ قطعے کی صورت میں پیش کی گٸی اور حضور اسے اپنے ساتھ اندر لے گٸے ۔ اس وقت کسی نے اس شعر پر اعتراض نہ کیا ۔ حالانکہ مولوی محمد علی صاحب اور اعوانھم موجود تھے اور جہاں تک حافظہ مدد کرتا ہے بوثوق کہا جا سکتا ہے کہ سن رہے تھے اور اگر وہ اس سے بوجہ مرور زمانہ انکار کریں تو یہ نظم بدر میں چھپی اور شاٸع ہوٸی ۔ اس وقت ”بدر“ کی پوزیشن وہی تھی بلکہ اس سےکچھ بڑھ کر جو اس عہد میں ”الفضل“ کی ہے حضرت مفتی محمد صادق صاحب ایڈیٹر سے ان لوگوں کے محبانہ اور بے تکلفانہ تعلقات تھے ۔ وہ خدا کے فضل سے زندہ موجود ہیں ان سے پوچھ لیں اور خود کہہ دیں کہ آیا آپ میں سے کسی نے بھی اس پر بھی ناراضگی یا ناپسندیدگی کا اظہار کیا اور حضرت مسیح موعود کا شرف سماعت حاصل کرنے اور اس پر جزاک اللہ تعالی کا صلہ پانے اور اس قطعے کو اندر خود لے جانے کے بعد کسی حق ہی کیا پہنچتا تھا کہ اس پر اعتراض کر کے اپنی کمزوری ایمان اور قلت عرفان کا ثبوت دیتا۔“
( اخبار الفضل قادیاں 22 اگست 1944 )
محترم قارٸین ! امید ہے کہ آپ قادیانیوں کی طرف سے کلمہ شہادت کے اقرار کے پس منظر میں جو حقاٸق ہیں ان سے بخوبی آگاہ ہو گٸے ہوں گے ۔ اور ان کے دجل و فریب کو بھی پہچان چکے ہوں گے اب آپ کے سامنے قادیانیوں کی طرف سے نبی کریم ﷺ خاتم النبیین ماننے کی اصل حقیقت سے بھی آگاہ کرتا ہوں
تحریر : عبیداللہ لطیف فیصل آباد
نوٹ : اس تحریر میں دیے گٸے تمام حوالہ جات سو فیصد درست ہیں اگر کوٸی دوست حوالہ دیکھنے کا خواہشمند ہو تو راقم سے رابطہ کر سکتا ہے
راقم عبیداللہ لطیف کا نمبر 0304/03136265209
محترم قارٸین! قادیانی اپنے خودساختہ خلیفہ کے ہاتھ پر بیعت کرتے ہوۓ جن بنیادی باتوں کا اقرار کرتے ہیں وہ درج ذیل ہیں
1_ کلمہ شھادت کا اقرار
2_ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کو خاتم النبیین ماننا
3_ مرزا غلام احمد قادیانی کو وہی امام مہدی اور مسیح موعود ماننا جس کی پیشگوٸی جناب محمد رسول اللہ ﷺ نے کی ہے
4_ قادیانی جماعت کے موجودہ سربراہ کے تمام احکامات کی پاسداری کرنا اور اسے بطور خلیفة المسلمین تسلیم کرنا ۔
محترم قارٸین ! اب میں آپ کے سامنے قادیانیوں کی بیعت کے ان چاروں اصولوں اور قادیانی دجل و فریب کو سٹیپ باٸی سٹیپ بیان کرتا ہوں تاکہ کوٸی عام آادمی کسی بھی قسم کے دھوکے کا شکار نہ ہو جاۓ۔
1_ قادیانی کلمہ شھادت کی حقیقت :_
محترم قارٸین ! قادیانی کلمہ کی حقیقت کو جاننے اور سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ یہ جان لیا جاۓ کہ مرزا غلام احمد قادیانی کا دعوی کیا تھا ؟ تو قارٸین کرام یاد رکھیے کہ مرزا غلام احمد قادیانی نے نہ صرف خود محمد رسول اللہ ﷺ ہونے کا دعوی کیا ہے بلکہ اپنے اصحاب کو محمد رسول اللہ ﷺ کے اصحاب بھی قرار دیا ہے ۔چنانچہ مرزا غلام احمد قادیانی خود لکھتا ہے کہ
’’ اور جو شخص مجھ میں اور مصطفی میں تفریق کرتا ہے اس نے مجھے نہیں دیکھا اور نہ پہچاناہے۔‘‘
(خطبہ الہامیہ صفحہ 171 مندرجہ روحانی خزائن جلد 16 صفحہ 259)
مزید ایک مقام پر مرزا غلام احمد قادیانی لکھتا ہے کہ
’’پس وہ جومیری جماعت میں داخل ہوا درحقیقت میرے سردار خیر المرسلین کے صحابہ میں داخل ہوا‘‘
(خطبہ الہامیہ صفحہ 171مندرجہ روحانی خزائن جلد 16صفحہ 258)
محترم قارئین ! یہاں پر یہ بھی یاد رہے کہ قادیانیوں کے نزدیک آنجہانی مرزا غلام احمد قادیانی خود محمد رسول اللہ ﷺ ہے کیونکہ مرزا قادیانی خود محمد رسول اللہ ﷺ ہونے کادعویٰ کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ
’’مگر میں کہتا ہوں کہ آنحضرت ﷺ کے بعد جو درحقیقت خاتم النبین تھے ، مجھے رسول اور نبی کے لفظ سے پکارے جانا کوئی اعتراض کی بات نہیں، اور نہ ہی اس سے مہر ختمیت ٹوٹتی ہے۔ کیونکہ میں بار بار بتلا چکا ہوں ، میں بموجب آیت وَآخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ وہی خاتم الانبیاء ہوں۔ اور خدا نے آج سے بیس برس پہلے براہین احمدیہ میں میرا نام محمد اور احمد رکھا ہے۔ اور مجھے آنحضرت ﷺ کا وجود قرار دیا ہے۔ پس اس طور سے آنحضرت ﷺکے خاتم الانبیاء ہونے میں میری نبوت سے کوئی تزلزل نہیں آیا۔ کیونکہ ظل اپنے اصل سے علیحدہ نہیں ہوتا اور چونکہ میں ظلی طور پر محمد ﷺ ہوں ، پس اس طور سے خاتم النبین کی مہر نہیں ٹوٹی۔ کیونکہ محمد ﷺ کی نبوت محمد ہی تک محدود رہی۔یعنی بہرحال محمد ﷺ ہی نبی رہے اور نہ اور کوئی ۔ یعنی جب کہ میں بروزی طور پر آنحضرت ﷺ ہوں اور بروزی رنگ میں تمام کمالات محمدی مع نبوت محمدیہ کے، میرے آئینہ ظلیت میں منعکس ہیں۔ تو پھر کونسا الگ انسان ہوا جس نے علیحدہ طور پر نبوت کا دعویٰ کیا۔‘‘
(ایک غلطی کا ازالہ صفحہ 8 مندرجہ روحانی خزائن جلد 18صفحہ 212)
اسی طرح ایک اور جگہ قادیانی کذاب لکھتا ہے کہ
’’ نبوت کی تمام کھڑکیاں بند کی گئیں مگر ایک کھڑکی سیرۃ صدیقی کی کھلی ہے۔ یعنی فنا فی الرسول کی ۔ پس جو شخص اس کھڑکی کی راہ سے خدا کے پاس آتا ہے اس پر ظلی طور پر وہی نبوت کی چادر پہنائی جاتی ہے جو نبوت محمدی کی چادر ہے۔ اس لیے اس کا نبی ہونا غیرت کی جگہ نہیں کیونکہ وہ اپنی ذات سے نہیں بلکہ اپنے نبی کے چشمہ سے لیتا ہے۔ اور نہ اپنے لیے بلکہ اسی کے جلال کے لیے۔ اس لیے اس کا نام آسمان پر محمد اور احمد ہے ۔ اس کے یہ معنیٰ ہیں کہ محمد کی نبوت آخر محمد کو ہی ملی۔ گوبروزی طور پر مگر نہ کسی اور کو۔۔۔۔۔۔لیکن اگر کوئی شخص اسی خاتم النبین میں ایسا گم ہو کہ بباعث نہایت اتحاد اور نفی غیریت کے اسی کا نام پالیا ہو اور صاف آئینہ کی طرح محمدی چہرہ کا اس میں انعکاس ہو گیا ہو تو وہ بغیر مہر توڑنے کے نبی کہلائے گا۔ کیونکہ وہ محمد ہے۔ گو ظلی طور پر ۔ پس باوجود اس شخص کے دعویٰ نبوت کے جس کا نام ظلی طور پر محمد اور احمد رکھا گیا ۔ پھر بھی سیدنا محمد خاتم النبین ہی رہا۔ کیونکہ یہ محمد (ثانی) (مرزا قادیانی) اسی محمد کی تصویر اور اسی کا نام ہے۔‘‘
(ایک غلطی کا ازالہ صفحہ 3 تا 5 مندرجہ روحانی خزائن جلد 18 صفحہ207 تا209)
مرزا قادیانی کا بیٹا مرزا بشیر احمد جسے قادیانی قمر الانبیا کے لقب سے پکارتے ہیں اپنی کتاب میں ایک مقام پر لکھتا ہے کہ
’’اور چونکہ مشابہت تامہ کی وجہ سے مسیح موعود اور نبی کریم میں کوئی دوئی باقی نہیں کہ ان دونوں کے وجود بھی ایک وجود کا ہی حکم رکھتے ہیں جیسا کہ خود مسیح موعود (مرزا قادیانی ) نے فرمایا کہ صار وجودی وجودہ (دیکھوخطبہ الہامیہ صفحہ 171) اورحدیث میں بھی آیاہے کہ حضرت نبی کریم نے فرمایا کہ مسیح موعود میری قبر میں دفن کیا جائے گا۔ جس سے یہی مراد ہے کہ وہ میں ہی ہوں یعنی مسیح موعود نبی کریم سے الگ کوئی چیز نہیں ہے بلکہ وہی ہے جو بروزی رنگ میں دوبارہ دنیا میں آئے گا تاکہ اشاعت اسلام کا کام پورا کرے اور ھوالّذی ارسل رسولہ بالھدیٰ ودین الحق لیظھرہ علی الدین کلہ کے فرمان کے مطابق تمام ادیانِ باطلہ پر اتمام حجت کرکے اسلام کودنیا کے کونوں تک پہنچاوے تو اس صورت میں کیا اس بات میں کوئی شک رہ جاتا ہے کہ قادیاں میں اللہ تعالیٰ نے پھر محمدؐ کو اتارا تاکہ اپنے وعدہ کو پورا کرے جو اس نے آخرین منھم لم یلحقوابھم میں فرمایاتھا۔‘‘
(کلمۃالفصل صفحہ104‘105)
محترم قارئین ! بعض لوگ قادیانیوں کے کلمہ پڑھنے سے بھی دھوکا میں آجاتے ہیں کہ دیکھیں جی یہ بھی تو کلمہ پڑھتے ہیں۔ لہٰذا یہ بھی مسلمان ہی ہیں۔ حالانکہ قادیانی گروہ کلمہ میں جب ’’محمدرسول ﷲ ‘‘کے الفاظ ادا کرتا ہے توا ن کا مقصد صرف محمد عربی ﷺ ہی نہیں ہوتا بلکہ نبی کریم ﷺ کے ساتھ ساتھ مرزا غلام احمد قادیانی بھی ہوتا ہے جیسا کہ ہم مندرجہ بالا تحریروں میں مرزا قادیانی کے دعویٰ سے ثابت کر آئے ہیں۔
آئیے! مذید قادیانی کلمہ کی حقیقت جاننے کے لیے مرزا قادیانی کے بیٹے مرزا بشیر احمد کی درج ذیل تحریر کو بھی ملاحظہ کر لیں جب اس سے سوال کیا گیا کہ تم نے مرزا قادیانی کو نبی مانا ہے تو اپنا الگ کلمہ کیوں نہیں بنایا تو جواب دیتے ہوۓ مرزا بشیر احمد ابن مرزا قادیانی لکھتا ہے کہ
’’ہم کو نئے کلمے کی ضرورت پیش نہیں آتی کیونکہ مسیح موعود نبی کریم سے کوئی الگ چیز نہیں ہے جیسا کہ وہ خود فرماتا ہے۔ صار وجودی وجودہ نیز من فرق بینی و بین المصطفی فما عرفنی وماریٰ اور یہ اس لیے ہے کہ حق تعالیٰ کا وعدہ تھا کہ وہ ایک دفعہ اور خاتم النبین کو دنیا میں مبعوث کرے گا جیسا کہ آیت آخرین منھم سے ظاہر ہے۔ پس مسیح موعود خود محمدرسول ﷲ ہے جو اشاعت اسلام کے لیے دوبارہ دنیا میں تشریف لائے۔ اس لیے ہم کوکسی نئے کلمہ کی ضرورت نہیں۔ ہاں اگر محمدرسول ﷲ کی جگہ کوئی اور آتا تو ضرورت پیش آتی۔ ‘‘
(کلمۃ الفصل صفحہ 158 از مرزا بشیر احمد ابن مرزا قادیانی )
محترم قارٸین ! قاضی ظھورالدین اکمل نامی شخص مرزا قادیانی کا مرید خاص اور صحابی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک شاعر بھی تھا اس نے مرزا قادیانی کی زندگی میں ایک نظم لکھی جو قادیانی اخبار بدر کے 25 اکتوبر 1906 کے شمارے میں شاٸع ہوٸی اس میں وہ مرزا قادیانی کو محمد رسول اللہ ﷺ قرار دے رہا ہے بلکہ محمد عربی ﷺ سے بڑھ کر قرار دے رہا ہے چنانچہ قاضی ظھور الدین اکمل لکھتا ہے کہ
امام اپنا عزیزو اس زماں میں
غلام احمد ہوا دارالاماں میں
غلام احمد ہے عرش رب اکرم
مکاں اس کا ہے گویا لامکاں میں
غلام احمد رسول اللہ ہے برحق
شرف پایا ہے نوع انس و جاں میں
محمد پھر اتر آۓ ہیں ہم میں
اور آگے سے ہیں بڑھکر اپنی شان میں
محمد دیکھنے ہوں جس نے اکمل
غلام احمد کو دیکھے قادیاں میں
محترم قارٸین ! اس نظم کے بارے میں قاضی ظھور الدین اکمل کا بیان ہے کہ
”وہ اس نظم کا ایک حصہ جو حضرت مسیح موعود کے حضور میں پڑھی گٸی اور خوشخط لکھے ہوۓ قطعے کی صورت میں پیش کی گٸی اور حضور اسے اپنے ساتھ اندر لے گٸے ۔ اس وقت کسی نے اس شعر پر اعتراض نہ کیا ۔ حالانکہ مولوی محمد علی صاحب اور اعوانھم موجود تھے اور جہاں تک حافظہ مدد کرتا ہے بوثوق کہا جا سکتا ہے کہ سن رہے تھے اور اگر وہ اس سے بوجہ مرور زمانہ انکار کریں تو یہ نظم بدر میں چھپی اور شاٸع ہوٸی ۔ اس وقت ”بدر“ کی پوزیشن وہی تھی بلکہ اس سےکچھ بڑھ کر جو اس عہد میں ”الفضل“ کی ہے حضرت مفتی محمد صادق صاحب ایڈیٹر سے ان لوگوں کے محبانہ اور بے تکلفانہ تعلقات تھے ۔ وہ خدا کے فضل سے زندہ موجود ہیں ان سے پوچھ لیں اور خود کہہ دیں کہ آیا آپ میں سے کسی نے بھی اس پر بھی ناراضگی یا ناپسندیدگی کا اظہار کیا اور حضرت مسیح موعود کا شرف سماعت حاصل کرنے اور اس پر جزاک اللہ تعالی کا صلہ پانے اور اس قطعے کو اندر خود لے جانے کے بعد کسی حق ہی کیا پہنچتا تھا کہ اس پر اعتراض کر کے اپنی کمزوری ایمان اور قلت عرفان کا ثبوت دیتا۔“
( اخبار الفضل قادیاں 22 اگست 1944 )
محترم قارٸین ! امید ہے کہ آپ قادیانیوں کی طرف سے کلمہ شہادت کے اقرار کے پس منظر میں جو حقاٸق ہیں ان سے بخوبی آگاہ ہو گٸے ہوں گے ۔ اور ان کے دجل و فریب کو بھی پہچان چکے ہوں گے اب آپ کے سامنے قادیانیوں کی طرف سے نبی کریم ﷺ خاتم النبیین ماننے کی اصل حقیقت سے بھی آگاہ کرتا ہوں