• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قادیانی طریقہ بیعت اور قادیانی دجل

شمولیت
اگست 18، 2017
پیغامات
42
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
57
عنوان : قادیانی طریقہ بیعت اور قادیانی دجل

تحریر : عبیداللہ لطیف فیصل آباد
نوٹ : اس تحریر میں دیے گٸے تمام حوالہ جات سو فیصد درست ہیں اگر کوٸی دوست حوالہ دیکھنے کا خواہشمند ہو تو راقم سے رابطہ کر سکتا ہے
راقم عبیداللہ لطیف کا نمبر 0304/03136265209

محترم قارٸین! قادیانی اپنے خودساختہ خلیفہ کے ہاتھ پر بیعت کرتے ہوۓ جن بنیادی باتوں کا اقرار کرتے ہیں وہ درج ذیل ہیں
1_ کلمہ شھادت کا اقرار
2_ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کو خاتم النبیین ماننا
3_ مرزا غلام احمد قادیانی کو وہی امام مہدی اور مسیح موعود ماننا جس کی پیشگوٸی جناب محمد رسول اللہ ﷺ نے کی ہے
4_ قادیانی جماعت کے موجودہ سربراہ کے تمام احکامات کی پاسداری کرنا اور اسے بطور خلیفة المسلمین تسلیم کرنا ۔

محترم قارٸین ! اب میں آپ کے سامنے قادیانیوں کی بیعت کے ان چاروں اصولوں اور قادیانی دجل و فریب کو سٹیپ باٸی سٹیپ بیان کرتا ہوں تاکہ کوٸی عام آادمی کسی بھی قسم کے دھوکے کا شکار نہ ہو جاۓ۔
1_ قادیانی کلمہ شھادت کی حقیقت :_
محترم قارٸین ! قادیانی کلمہ کی حقیقت کو جاننے اور سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ یہ جان لیا جاۓ کہ مرزا غلام احمد قادیانی کا دعوی کیا تھا ؟ تو قارٸین کرام یاد رکھیے کہ مرزا غلام احمد قادیانی نے نہ صرف خود محمد رسول اللہ ﷺ ہونے کا دعوی کیا ہے بلکہ اپنے اصحاب کو محمد رسول اللہ ﷺ کے اصحاب بھی قرار دیا ہے ۔چنانچہ مرزا غلام احمد قادیانی خود لکھتا ہے کہ

’’ اور جو شخص مجھ میں اور مصطفی میں تفریق کرتا ہے اس نے مجھے نہیں دیکھا اور نہ پہچاناہے۔‘‘
(خطبہ الہامیہ صفحہ 171 مندرجہ روحانی خزائن جلد 16 صفحہ 259)
مزید ایک مقام پر مرزا غلام احمد قادیانی لکھتا ہے کہ
’’پس وہ جومیری جماعت میں داخل ہوا درحقیقت میرے سردار خیر المرسلین کے صحابہ میں داخل ہوا‘‘
(خطبہ الہامیہ صفحہ 171مندرجہ روحانی خزائن جلد 16صفحہ 258)
محترم قارئین ! یہاں پر یہ بھی یاد رہے کہ قادیانیوں کے نزدیک آنجہانی مرزا غلام احمد قادیانی خود محمد رسول اللہ ﷺ ہے کیونکہ مرزا قادیانی خود محمد رسول اللہ ﷺ ہونے کادعویٰ کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ
’’مگر میں کہتا ہوں کہ آنحضرت ﷺ کے بعد جو درحقیقت خاتم النبین تھے ، مجھے رسول اور نبی کے لفظ سے پکارے جانا کوئی اعتراض کی بات نہیں، اور نہ ہی اس سے مہر ختمیت ٹوٹتی ہے۔ کیونکہ میں بار بار بتلا چکا ہوں ، میں بموجب آیت وَآخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ وہی خاتم الانبیاء ہوں۔ اور خدا نے آج سے بیس برس پہلے براہین احمدیہ میں میرا نام محمد اور احمد رکھا ہے۔ اور مجھے آنحضرت ﷺ کا وجود قرار دیا ہے۔ پس اس طور سے آنحضرت ﷺکے خاتم الانبیاء ہونے میں میری نبوت سے کوئی تزلزل نہیں آیا۔ کیونکہ ظل اپنے اصل سے علیحدہ نہیں ہوتا اور چونکہ میں ظلی طور پر محمد ﷺ ہوں ، پس اس طور سے خاتم النبین کی مہر نہیں ٹوٹی۔ کیونکہ محمد ﷺ کی نبوت محمد ہی تک محدود رہی۔یعنی بہرحال محمد ﷺ ہی نبی رہے اور نہ اور کوئی ۔ یعنی جب کہ میں بروزی طور پر آنحضرت ﷺ ہوں اور بروزی رنگ میں تمام کمالات محمدی مع نبوت محمدیہ کے، میرے آئینہ ظلیت میں منعکس ہیں۔ تو پھر کونسا الگ انسان ہوا جس نے علیحدہ طور پر نبوت کا دعویٰ کیا۔‘‘
(ایک غلطی کا ازالہ صفحہ 8 مندرجہ روحانی خزائن جلد 18صفحہ 212)
اسی طرح ایک اور جگہ قادیانی کذاب لکھتا ہے کہ
’’ نبوت کی تمام کھڑکیاں بند کی گئیں مگر ایک کھڑکی سیرۃ صدیقی کی کھلی ہے۔ یعنی فنا فی الرسول کی ۔ پس جو شخص اس کھڑکی کی راہ سے خدا کے پاس آتا ہے اس پر ظلی طور پر وہی نبوت کی چادر پہنائی جاتی ہے جو نبوت محمدی کی چادر ہے۔ اس لیے اس کا نبی ہونا غیرت کی جگہ نہیں کیونکہ وہ اپنی ذات سے نہیں بلکہ اپنے نبی کے چشمہ سے لیتا ہے۔ اور نہ اپنے لیے بلکہ اسی کے جلال کے لیے۔ اس لیے اس کا نام آسمان پر محمد اور احمد ہے ۔ اس کے یہ معنیٰ ہیں کہ محمد کی نبوت آخر محمد کو ہی ملی۔ گوبروزی طور پر مگر نہ کسی اور کو۔۔۔۔۔۔لیکن اگر کوئی شخص اسی خاتم النبین میں ایسا گم ہو کہ بباعث نہایت اتحاد اور نفی غیریت کے اسی کا نام پالیا ہو اور صاف آئینہ کی طرح محمدی چہرہ کا اس میں انعکاس ہو گیا ہو تو وہ بغیر مہر توڑنے کے نبی کہلائے گا۔ کیونکہ وہ محمد ہے۔ گو ظلی طور پر ۔ پس باوجود اس شخص کے دعویٰ نبوت کے جس کا نام ظلی طور پر محمد اور احمد رکھا گیا ۔ پھر بھی سیدنا محمد خاتم النبین ہی رہا۔ کیونکہ یہ محمد (ثانی) (مرزا قادیانی) اسی محمد کی تصویر اور اسی کا نام ہے۔‘‘
(ایک غلطی کا ازالہ صفحہ 3 تا 5 مندرجہ روحانی خزائن جلد 18 صفحہ207 تا209)
مرزا قادیانی کا بیٹا مرزا بشیر احمد جسے قادیانی قمر الانبیا کے لقب سے پکارتے ہیں اپنی کتاب میں ایک مقام پر لکھتا ہے کہ
’’اور چونکہ مشابہت تامہ کی وجہ سے مسیح موعود اور نبی کریم میں کوئی دوئی باقی نہیں کہ ان دونوں کے وجود بھی ایک وجود کا ہی حکم رکھتے ہیں جیسا کہ خود مسیح موعود (مرزا قادیانی ) نے فرمایا کہ صار وجودی وجودہ (دیکھوخطبہ الہامیہ صفحہ 171) اورحدیث میں بھی آیاہے کہ حضرت نبی کریم نے فرمایا کہ مسیح موعود میری قبر میں دفن کیا جائے گا۔ جس سے یہی مراد ہے کہ وہ میں ہی ہوں یعنی مسیح موعود نبی کریم سے الگ کوئی چیز نہیں ہے بلکہ وہی ہے جو بروزی رنگ میں دوبارہ دنیا میں آئے گا تاکہ اشاعت اسلام کا کام پورا کرے اور ھوالّذی ارسل رسولہ بالھدیٰ ودین الحق لیظھرہ علی الدین کلہ کے فرمان کے مطابق تمام ادیانِ باطلہ پر اتمام حجت کرکے اسلام کودنیا کے کونوں تک پہنچاوے تو اس صورت میں کیا اس بات میں کوئی شک رہ جاتا ہے کہ قادیاں میں اللہ تعالیٰ نے پھر محمدؐ کو اتارا تاکہ اپنے وعدہ کو پورا کرے جو اس نے آخرین منھم لم یلحقوابھم میں فرمایاتھا۔‘‘
(کلمۃالفصل صفحہ104‘105)
محترم قارئین ! بعض لوگ قادیانیوں کے کلمہ پڑھنے سے بھی دھوکا میں آجاتے ہیں کہ دیکھیں جی یہ بھی تو کلمہ پڑھتے ہیں۔ لہٰذا یہ بھی مسلمان ہی ہیں۔ حالانکہ قادیانی گروہ کلمہ میں جب ’’محمدرسول ﷲ ‘‘کے الفاظ ادا کرتا ہے توا ن کا مقصد صرف محمد عربی ﷺ ہی نہیں ہوتا بلکہ نبی کریم ﷺ کے ساتھ ساتھ مرزا غلام احمد قادیانی بھی ہوتا ہے جیسا کہ ہم مندرجہ بالا تحریروں میں مرزا قادیانی کے دعویٰ سے ثابت کر آئے ہیں۔
آئیے! مذید قادیانی کلمہ کی حقیقت جاننے کے لیے مرزا قادیانی کے بیٹے مرزا بشیر احمد کی درج ذیل تحریر کو بھی ملاحظہ کر لیں جب اس سے سوال کیا گیا کہ تم نے مرزا قادیانی کو نبی مانا ہے تو اپنا الگ کلمہ کیوں نہیں بنایا تو جواب دیتے ہوۓ مرزا بشیر احمد ابن مرزا قادیانی لکھتا ہے کہ
’’ہم کو نئے کلمے کی ضرورت پیش نہیں آتی کیونکہ مسیح موعود نبی کریم سے کوئی الگ چیز نہیں ہے جیسا کہ وہ خود فرماتا ہے۔ صار وجودی وجودہ نیز من فرق بینی و بین المصطفی فما عرفنی وماریٰ اور یہ اس لیے ہے کہ حق تعالیٰ کا وعدہ تھا کہ وہ ایک دفعہ اور خاتم النبین کو دنیا میں مبعوث کرے گا جیسا کہ آیت آخرین منھم سے ظاہر ہے۔ پس مسیح موعود خود محمدرسول ﷲ ہے جو اشاعت اسلام کے لیے دوبارہ دنیا میں تشریف لائے۔ اس لیے ہم کوکسی نئے کلمہ کی ضرورت نہیں۔ ہاں اگر محمدرسول ﷲ کی جگہ کوئی اور آتا تو ضرورت پیش آتی۔ ‘‘
(کلمۃ الفصل صفحہ 158 از مرزا بشیر احمد ابن مرزا قادیانی )
محترم قارٸین ! قاضی ظھورالدین اکمل نامی شخص مرزا قادیانی کا مرید خاص اور صحابی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک شاعر بھی تھا اس نے مرزا قادیانی کی زندگی میں ایک نظم لکھی جو قادیانی اخبار بدر کے 25 اکتوبر 1906 کے شمارے میں شاٸع ہوٸی اس میں وہ مرزا قادیانی کو محمد رسول اللہ ﷺ قرار دے رہا ہے بلکہ محمد عربی ﷺ سے بڑھ کر قرار دے رہا ہے چنانچہ قاضی ظھور الدین اکمل لکھتا ہے کہ

امام اپنا عزیزو اس زماں میں
غلام احمد ہوا دارالاماں میں

غلام احمد ہے عرش رب اکرم
مکاں اس کا ہے گویا لامکاں میں

غلام احمد رسول اللہ ہے برحق
شرف پایا ہے نوع انس و جاں میں

محمد پھر اتر آۓ ہیں ہم میں
اور آگے سے ہیں بڑھکر اپنی شان میں

محمد دیکھنے ہوں جس نے اکمل
غلام احمد کو دیکھے قادیاں میں

محترم قارٸین ! اس نظم کے بارے میں قاضی ظھور الدین اکمل کا بیان ہے کہ
”وہ اس نظم کا ایک حصہ جو حضرت مسیح موعود کے حضور میں پڑھی گٸی اور خوشخط لکھے ہوۓ قطعے کی صورت میں پیش کی گٸی اور حضور اسے اپنے ساتھ اندر لے گٸے ۔ اس وقت کسی نے اس شعر پر اعتراض نہ کیا ۔ حالانکہ مولوی محمد علی صاحب اور اعوانھم موجود تھے اور جہاں تک حافظہ مدد کرتا ہے بوثوق کہا جا سکتا ہے کہ سن رہے تھے اور اگر وہ اس سے بوجہ مرور زمانہ انکار کریں تو یہ نظم بدر میں چھپی اور شاٸع ہوٸی ۔ اس وقت ”بدر“ کی پوزیشن وہی تھی بلکہ اس سےکچھ بڑھ کر جو اس عہد میں ”الفضل“ کی ہے حضرت مفتی محمد صادق صاحب ایڈیٹر سے ان لوگوں کے محبانہ اور بے تکلفانہ تعلقات تھے ۔ وہ خدا کے فضل سے زندہ موجود ہیں ان سے پوچھ لیں اور خود کہہ دیں کہ آیا آپ میں سے کسی نے بھی اس پر بھی ناراضگی یا ناپسندیدگی کا اظہار کیا اور حضرت مسیح موعود کا شرف سماعت حاصل کرنے اور اس پر جزاک اللہ تعالی کا صلہ پانے اور اس قطعے کو اندر خود لے جانے کے بعد کسی حق ہی کیا پہنچتا تھا کہ اس پر اعتراض کر کے اپنی کمزوری ایمان اور قلت عرفان کا ثبوت دیتا۔“
( اخبار الفضل قادیاں 22 اگست 1944 )
محترم قارٸین ! امید ہے کہ آپ قادیانیوں کی طرف سے کلمہ شہادت کے اقرار کے پس منظر میں جو حقاٸق ہیں ان سے بخوبی آگاہ ہو گٸے ہوں گے ۔ اور ان کے دجل و فریب کو بھی پہچان چکے ہوں گے اب آپ کے سامنے قادیانیوں کی طرف سے نبی کریم ﷺ خاتم النبیین ماننے کی اصل حقیقت سے بھی آگاہ کرتا ہوں
 
شمولیت
اگست 18، 2017
پیغامات
42
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
57
عنوان : قادیانی طریقہ بیعت اور قادیانی دجل

تحریر : عبیداللہ لطیف فیصل آباد
نوٹ : اس تحریر میں دیے گٸے تمام حوالہ جات سو فیصد درست ہیں اگر کوٸی دوست حوالہ دیکھنے کا خواہشمند ہو تو راقم سے رابطہ کر سکتا ہے
راقم عبیداللہ لطیف کا نمبر 0304/03136265209

محترم قارٸین! قادیانی اپنے خودساختہ خلیفہ کے ہاتھ پر بیعت کرتے ہوۓ جن بنیادی باتوں کا اقرار کرتے ہیں وہ درج ذیل ہیں
1_ کلمہ شھادت کا اقرار
2_ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کو خاتم النبیین ماننا
3_ مرزا غلام احمد قادیانی کو وہی امام مہدی اور مسیح موعود ماننا جس کی پیشگوٸی جناب محمد رسول اللہ ﷺ نے کی ہے
4_ قادیانی جماعت کے موجودہ سربراہ کے تمام احکامات کی پاسداری کرنا اور اسے بطور خلیفة المسلمین تسلیم کرنا ۔

محترم قارٸین ! اب میں آپ کے سامنے قادیانیوں کی بیعت کے ان چاروں اصولوں اور قادیانی دجل و فریب کو سٹیپ باٸی سٹیپ بیان کرتا ہوں تاکہ کوٸی عام آادمی کسی بھی قسم کے دھوکے کا شکار نہ ہو جاۓ۔
1_ قادیانی کلمہ شھادت کی حقیقت :_
محترم قارٸین ! قادیانی کلمہ کی حقیقت کو جاننے اور سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ یہ جان لیا جاۓ کہ مرزا غلام احمد قادیانی کا دعوی کیا تھا ؟ تو قارٸین کرام یاد رکھیے کہ مرزا غلام احمد قادیانی نے نہ صرف خود محمد رسول اللہ ﷺ ہونے کا دعوی کیا ہے بلکہ اپنے اصحاب کو محمد رسول اللہ ﷺ کے اصحاب بھی قرار دیا ہے ۔چنانچہ مرزا غلام احمد قادیانی خود لکھتا ہے کہ

’’ اور جو شخص مجھ میں اور مصطفی میں تفریق کرتا ہے اس نے مجھے نہیں دیکھا اور نہ پہچاناہے۔‘‘
(خطبہ الہامیہ صفحہ 171 مندرجہ روحانی خزائن جلد 16 صفحہ 259)
مزید ایک مقام پر مرزا غلام احمد قادیانی لکھتا ہے کہ
’’پس وہ جومیری جماعت میں داخل ہوا درحقیقت میرے سردار خیر المرسلین کے صحابہ میں داخل ہوا‘‘
(خطبہ الہامیہ صفحہ 171مندرجہ روحانی خزائن جلد 16صفحہ 258)
محترم قارئین ! یہاں پر یہ بھی یاد رہے کہ قادیانیوں کے نزدیک آنجہانی مرزا غلام احمد قادیانی خود محمد رسول اللہ ﷺ ہے کیونکہ مرزا قادیانی خود محمد رسول اللہ ﷺ ہونے کادعویٰ کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ
’’مگر میں کہتا ہوں کہ آنحضرت ﷺ کے بعد جو درحقیقت خاتم النبین تھے ، مجھے رسول اور نبی کے لفظ سے پکارے جانا کوئی اعتراض کی بات نہیں، اور نہ ہی اس سے مہر ختمیت ٹوٹتی ہے۔ کیونکہ میں بار بار بتلا چکا ہوں ، میں بموجب آیت وَآخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ وہی خاتم الانبیاء ہوں۔ اور خدا نے آج سے بیس برس پہلے براہین احمدیہ میں میرا نام محمد اور احمد رکھا ہے۔ اور مجھے آنحضرت ﷺ کا وجود قرار دیا ہے۔ پس اس طور سے آنحضرت ﷺکے خاتم الانبیاء ہونے میں میری نبوت سے کوئی تزلزل نہیں آیا۔ کیونکہ ظل اپنے اصل سے علیحدہ نہیں ہوتا اور چونکہ میں ظلی طور پر محمد ﷺ ہوں ، پس اس طور سے خاتم النبین کی مہر نہیں ٹوٹی۔ کیونکہ محمد ﷺ کی نبوت محمد ہی تک محدود رہی۔یعنی بہرحال محمد ﷺ ہی نبی رہے اور نہ اور کوئی ۔ یعنی جب کہ میں بروزی طور پر آنحضرت ﷺ ہوں اور بروزی رنگ میں تمام کمالات محمدی مع نبوت محمدیہ کے، میرے آئینہ ظلیت میں منعکس ہیں۔ تو پھر کونسا الگ انسان ہوا جس نے علیحدہ طور پر نبوت کا دعویٰ کیا۔‘‘
(ایک غلطی کا ازالہ صفحہ 8 مندرجہ روحانی خزائن جلد 18صفحہ 212)
اسی طرح ایک اور جگہ قادیانی کذاب لکھتا ہے کہ
’’ نبوت کی تمام کھڑکیاں بند کی گئیں مگر ایک کھڑکی سیرۃ صدیقی کی کھلی ہے۔ یعنی فنا فی الرسول کی ۔ پس جو شخص اس کھڑکی کی راہ سے خدا کے پاس آتا ہے اس پر ظلی طور پر وہی نبوت کی چادر پہنائی جاتی ہے جو نبوت محمدی کی چادر ہے۔ اس لیے اس کا نبی ہونا غیرت کی جگہ نہیں کیونکہ وہ اپنی ذات سے نہیں بلکہ اپنے نبی کے چشمہ سے لیتا ہے۔ اور نہ اپنے لیے بلکہ اسی کے جلال کے لیے۔ اس لیے اس کا نام آسمان پر محمد اور احمد ہے ۔ اس کے یہ معنیٰ ہیں کہ محمد کی نبوت آخر محمد کو ہی ملی۔ گوبروزی طور پر مگر نہ کسی اور کو۔۔۔۔۔۔لیکن اگر کوئی شخص اسی خاتم النبین میں ایسا گم ہو کہ بباعث نہایت اتحاد اور نفی غیریت کے اسی کا نام پالیا ہو اور صاف آئینہ کی طرح محمدی چہرہ کا اس میں انعکاس ہو گیا ہو تو وہ بغیر مہر توڑنے کے نبی کہلائے گا۔ کیونکہ وہ محمد ہے۔ گو ظلی طور پر ۔ پس باوجود اس شخص کے دعویٰ نبوت کے جس کا نام ظلی طور پر محمد اور احمد رکھا گیا ۔ پھر بھی سیدنا محمد خاتم النبین ہی رہا۔ کیونکہ یہ محمد (ثانی) (مرزا قادیانی) اسی محمد کی تصویر اور اسی کا نام ہے۔‘‘
(ایک غلطی کا ازالہ صفحہ 3 تا 5 مندرجہ روحانی خزائن جلد 18 صفحہ207 تا209)
مرزا قادیانی کا بیٹا مرزا بشیر احمد جسے قادیانی قمر الانبیا کے لقب سے پکارتے ہیں اپنی کتاب میں ایک مقام پر لکھتا ہے کہ
’’اور چونکہ مشابہت تامہ کی وجہ سے مسیح موعود اور نبی کریم میں کوئی دوئی باقی نہیں کہ ان دونوں کے وجود بھی ایک وجود کا ہی حکم رکھتے ہیں جیسا کہ خود مسیح موعود (مرزا قادیانی ) نے فرمایا کہ صار وجودی وجودہ (دیکھوخطبہ الہامیہ صفحہ 171) اورحدیث میں بھی آیاہے کہ حضرت نبی کریم نے فرمایا کہ مسیح موعود میری قبر میں دفن کیا جائے گا۔ جس سے یہی مراد ہے کہ وہ میں ہی ہوں یعنی مسیح موعود نبی کریم سے الگ کوئی چیز نہیں ہے بلکہ وہی ہے جو بروزی رنگ میں دوبارہ دنیا میں آئے گا تاکہ اشاعت اسلام کا کام پورا کرے اور ھوالّذی ارسل رسولہ بالھدیٰ ودین الحق لیظھرہ علی الدین کلہ کے فرمان کے مطابق تمام ادیانِ باطلہ پر اتمام حجت کرکے اسلام کودنیا کے کونوں تک پہنچاوے تو اس صورت میں کیا اس بات میں کوئی شک رہ جاتا ہے کہ قادیاں میں اللہ تعالیٰ نے پھر محمدؐ کو اتارا تاکہ اپنے وعدہ کو پورا کرے جو اس نے آخرین منھم لم یلحقوابھم میں فرمایاتھا۔‘‘
(کلمۃالفصل صفحہ104‘105)
محترم قارئین ! بعض لوگ قادیانیوں کے کلمہ پڑھنے سے بھی دھوکا میں آجاتے ہیں کہ دیکھیں جی یہ بھی تو کلمہ پڑھتے ہیں۔ لہٰذا یہ بھی مسلمان ہی ہیں۔ حالانکہ قادیانی گروہ کلمہ میں جب ’’محمدرسول ﷲ ‘‘کے الفاظ ادا کرتا ہے توا ن کا مقصد صرف محمد عربی ﷺ ہی نہیں ہوتا بلکہ نبی کریم ﷺ کے ساتھ ساتھ مرزا غلام احمد قادیانی بھی ہوتا ہے جیسا کہ ہم مندرجہ بالا تحریروں میں مرزا قادیانی کے دعویٰ سے ثابت کر آئے ہیں۔
آئیے! مذید قادیانی کلمہ کی حقیقت جاننے کے لیے مرزا قادیانی کے بیٹے مرزا بشیر احمد کی درج ذیل تحریر کو بھی ملاحظہ کر لیں جب اس سے سوال کیا گیا کہ تم نے مرزا قادیانی کو نبی مانا ہے تو اپنا الگ کلمہ کیوں نہیں بنایا تو جواب دیتے ہوۓ مرزا بشیر احمد ابن مرزا قادیانی لکھتا ہے کہ
’’ہم کو نئے کلمے کی ضرورت پیش نہیں آتی کیونکہ مسیح موعود نبی کریم سے کوئی الگ چیز نہیں ہے جیسا کہ وہ خود فرماتا ہے۔ صار وجودی وجودہ نیز من فرق بینی و بین المصطفی فما عرفنی وماریٰ اور یہ اس لیے ہے کہ حق تعالیٰ کا وعدہ تھا کہ وہ ایک دفعہ اور خاتم النبین کو دنیا میں مبعوث کرے گا جیسا کہ آیت آخرین منھم سے ظاہر ہے۔ پس مسیح موعود خود محمدرسول ﷲ ہے جو اشاعت اسلام کے لیے دوبارہ دنیا میں تشریف لائے۔ اس لیے ہم کوکسی نئے کلمہ کی ضرورت نہیں۔ ہاں اگر محمدرسول ﷲ کی جگہ کوئی اور آتا تو ضرورت پیش آتی۔ ‘‘
(کلمۃ الفصل صفحہ 158 از مرزا بشیر احمد ابن مرزا قادیانی )
محترم قارٸین ! قاضی ظھورالدین اکمل نامی شخص مرزا قادیانی کا مرید خاص اور صحابی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک شاعر بھی تھا اس نے مرزا قادیانی کی زندگی میں ایک نظم لکھی جو قادیانی اخبار بدر کے 25 اکتوبر 1906 کے شمارے میں شاٸع ہوٸی اس میں وہ مرزا قادیانی کو محمد رسول اللہ ﷺ قرار دے رہا ہے بلکہ محمد عربی ﷺ سے بڑھ کر قرار دے رہا ہے چنانچہ قاضی ظھور الدین اکمل لکھتا ہے کہ

امام اپنا عزیزو اس زماں میں
غلام احمد ہوا دارالاماں میں

غلام احمد ہے عرش رب اکرم
مکاں اس کا ہے گویا لامکاں میں

غلام احمد رسول اللہ ہے برحق
شرف پایا ہے نوع انس و جاں میں

محمد پھر اتر آۓ ہیں ہم میں
اور آگے سے ہیں بڑھکر اپنی شان میں

محمد دیکھنے ہوں جس نے اکمل
غلام احمد کو دیکھے قادیاں میں

محترم قارٸین ! اس نظم کے بارے میں قاضی ظھور الدین اکمل کا بیان ہے کہ
”وہ اس نظم کا ایک حصہ جو حضرت مسیح موعود کے حضور میں پڑھی گٸی اور خوشخط لکھے ہوۓ قطعے کی صورت میں پیش کی گٸی اور حضور اسے اپنے ساتھ اندر لے گٸے ۔ اس وقت کسی نے اس شعر پر اعتراض نہ کیا ۔ حالانکہ مولوی محمد علی صاحب اور اعوانھم موجود تھے اور جہاں تک حافظہ مدد کرتا ہے بوثوق کہا جا سکتا ہے کہ سن رہے تھے اور اگر وہ اس سے بوجہ مرور زمانہ انکار کریں تو یہ نظم بدر میں چھپی اور شاٸع ہوٸی ۔ اس وقت ”بدر“ کی پوزیشن وہی تھی بلکہ اس سےکچھ بڑھ کر جو اس عہد میں ”الفضل“ کی ہے حضرت مفتی محمد صادق صاحب ایڈیٹر سے ان لوگوں کے محبانہ اور بے تکلفانہ تعلقات تھے ۔ وہ خدا کے فضل سے زندہ موجود ہیں ان سے پوچھ لیں اور خود کہہ دیں کہ آیا آپ میں سے کسی نے بھی اس پر بھی ناراضگی یا ناپسندیدگی کا اظہار کیا اور حضرت مسیح موعود کا شرف سماعت حاصل کرنے اور اس پر جزاک اللہ تعالی کا صلہ پانے اور اس قطعے کو اندر خود لے جانے کے بعد کسی حق ہی کیا پہنچتا تھا کہ اس پر اعتراض کر کے اپنی کمزوری ایمان اور قلت عرفان کا ثبوت دیتا۔“
( اخبار الفضل قادیاں 22 اگست 1944 )
محترم قارٸین ! امید ہے کہ آپ قادیانیوں کی طرف سے کلمہ شہادت کے اقرار کے پس منظر میں جو حقاٸق ہیں ان سے بخوبی آگاہ ہو گٸے ہوں گے ۔ اور ان کے دجل و فریب کو بھی پہچان چکے ہوں گے اب آپ کے سامنے قادیانیوں کی طرف سے نبی کریم ﷺ خاتم النبیین ماننے کی اصل حقیقت سے بھی آگاہ کرتا ہوں
2 _ محمد رسول اللہ ﷺ بحثیت خاتم النبیین اور قادیانی دجل:_

قارٸین کرام قادیانیوں سے بیعت لیتے ہوۓ قادیانی سربراہ اس بات کا بھی اقرار لیتا ہے کہ وہ جناب محمد رسول اللہ ﷺ کو خاتم النبیین مانے گے جس سے عام آدمی دھوکے کا شکار ہو جاتا ہے اور سمجھتا ہے کہ قادیانی بھی تو عقیدہ ختم نبوت پر ایمان رکھتے ہیں ان کو بلاوجہ کافر قرار دیا گیا ہے ۔
محترم قارٸین ! سب سے پہلے تو یہ ضروری ہے کہ اس بات کا جاٸزہ لیا جاۓ کہ امت مسلمہ کے نزدیک عقیدہ ختم نبوت ہے کیا ؟
اللہ تعالی قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ

مَاکَانَ مُحَمَّدٌ اَبَا اَحَدٍ مِّن رِّجَالِکُمْ وَلٰــکِن رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النِّبِیّٖنَ وَ کَانَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا
(الاحزاب:40)
تمہارے مَردوں میں سے محمد (ﷺ ) کسی کے باپ نہیں، لیکن آپ ﷲ تعالیٰ کے رسول ہیں اور تمام نبیوں کو ختم کرنے والے ہیں۔ اور ﷲ تعالیٰ ہر چیز کو بخوبی جانتا ہے۔
قرآن کریم کی اسی آیت کے ان معنوں اور مفہوم کی تاٸید فرمان رسول ﷺ سے بھی ہوتی ہے حضرت ثوبان ؓ سے روایت ہے کہ :
((وَاِذَا وُضِعَ السَّیْفُ فِیْ اُمَّتِیْ لَمْ یُرْفَعْ عَنْھَا إلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ وَلَا تَقُوْمُ السَّاعَۃُ حَتّٰی تَلْحَقَ قَبَائِلُ مِنْ اُمَّتِیْ بِالْمُشْرِکِیْنَ وَحَتّٰی تَعْبُدَ قَـبَائِلَ مِنْ اُمَّتِیْ الَاوْثَانَ وَإِنَّہ‘ سَیَکُوْنَ فِیْ اُمَّتِیْ کَذَّابُوْنَ ثَلَاثُوْنَ کُلُّھُمْ یَزْعُمُ اَنَّہ‘ نَبِیُّ اللّٰہِ وَاَنَا خَاتَمُ النَّبِیّٖنَ لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ وَلَا تَزَالُ طَائِفَۃٌ مِّنْ اُمَّتِیْ عَلَی الْحَقِّ ظَاھِرِیْنَ لَا یَضُرُّھُمْ مَنْ خَالَفَھُمْ حَتّٰی یَاْتِیَ اللّٰہُ بِاَمْرُاللّٰہ))
(سنن ابوداود ، کتاب الفتن والملاحم :4252 ، جامع ترمذی ، کتاب الفتن 2145)
جب میری امت میں تلوار رکھ دی جائے گی تو وہ اس سے روز قیامت تک نہ اٹھائی جائے گی اور قیامت قائم نہ ہوگی حتی کہ میری امت کے بعض قبائل مشرکوں کے ساتھ نہ مل جائیں اور بتوں کی عبادت نہ کرنے لگیں۔ اور بے شک عنقریب میری امت میں تیس کذاب پیدا ہوں گے ان میں سے ہر ایک یہ گمان کرے گا کہ وہ ﷲ کا نبی ہے۔ جبکہ میں خاتم النبین ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا اور میری امت کا ایک گروہ حق پر رہے گا اور وہ غالب ہوں گے ۔جو ان کی مخالفت کریں گے وہ ان کو ضرر نہ پہنچا سکیں گے حتی کہ ﷲ کا حکم آجائے۔

حضرت سعد بن ابی وقاص ؓسے روایت ہے :
خَلَّفَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلِيَّ بْنِ اَبِیْ طَالِبٍ فِیْ غَزْوَۃِ تَبُوْکَ فَقَالَ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تُخَلِّفُنِیْ فِی النِّسَآءَ وَالصِّبْیَانِ؟ قَالَ أمَا تَرْضٰی اَنْ تَکُوْنَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃَ ھَارُوْنَ مِنْ مُوْسٰی عَلَیْہِ السَّلاَم ؟ غَیْرَ اَنَّہ‘ لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ
(صحیح مسلم ، کتاب الفضائل 6218، صحیح بخاری 4416)
رسول ﷲ ﷺ نے حضرت علیؓ کو مدینہ میں اپنا نائب مقرر کیا۔ جب آپ ﷺ غزوہ تبوک کو تشریف لے گئے تو حضرت علیؓ نے عرض کیا: یارسولﷲ ﷺ آپؐ مجھ کو عورتوں اور بچوں میں چھوڑ کر جاتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: تم اس بات پر خوش نہیں کہ تمہارا درجہ میرے ہاں ایسا ہی ہو جیسے حضرت ہارون علیہ السلام کا موسیٰ علیہ السلام کے ہاں تھا۔ مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں۔

سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
((کَانَتْ بَنُوْ اِسْرَائِیْلَ تَسُوْسُھُمُ الْاَنْبِیَاءُ کُلَّمَا ھََلَکَ نَبِيٌّ خَلَفَہ‘ نَبِيٌّ اَخَرُ وَإِنَّہ‘ لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ وَسَیَکُوْنَ الْخُلَفَآءُ فَیَکْثُرُونَ))
(صحیح بخاری ، کتاب الاحادیث الانبیاء حدیث :3455،سنن ابن ماجہ ،حدیث: 2871)
ترجمہ: بنی اسرائیل کے انبیاء ان کی سیاسی رہنمائی بھی کیا کرتے تھے۔ جب بھی ان کا کوئی نبی فوت ہو جاتا تواس کی جگہ دوسرا نبی آجاتا لیکن یاد رکھو میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا مگر نائبین بکثرت ہوں گے۔

حضرت عقبہ بن عامر رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول ﷲ ﷺ نے فرمایا
((لَوْکَانَ نَبِیٌّ بَعْدِی لَکَانَ عُمَرَبْنَ الْخَطَّابِ))
(سنن ترمذی ابواب المناقب ،حدیث : 3686حسن)
ترجمہ:۔اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر بن خطاب ہوتا

ایک اور حدیث مبارکہ میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
((اِنَّ الرَّسَالَۃَ وَالنَبُوَّۃَ قَدِ انْقَطَعَتْ فَلَا رَسُوْلَ بَعْدِیْ وَلَا نَبِیَّ))
(جامع ترمذی کتاب الرویا رواہ انس بن مالک حدیث: 2272)
رسالت اور نبوت کا سلسلہ منقطع ہو چکا ہے۔ میرے بعد اب نہ کوئی رسول ہے اور نہ کوئی نبی۔
اس حدیث مبارکہ میں نبی اور رسول دونوں کی نبی آخر الزمان ﷺکے بعد آنے کی نفی کی گئی ہے۔ آئیے ذرا اس بات پر غور کریں کہ نبی اور رسول میں کیا فرق ہوتا ہے۔ اس ضمن میں اس دور کے سب سے بڑے کذاب داعی نبوت مرزا قادیانی کا اپنا بیان قابل توجہ ہے۔ چنانچہ مرزا قادیانی رقم طراز ہے:
’’ خدا تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ کوئی رسول دنیا میں مطیع اور محکوم ہو کر نہیں آتا بلکہ وہ مطاع اور صرف اپنی اس وحی کا متبع ہوتا ہے جواس پر بذریعہ جبرائیل نازل ہوتی ہے۔‘‘
(ازالہ اوہام صفحہ 576، مندرجہ روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 411)
مرزاغلام احمد قادیانی نبی کی تعریف میں یوں رقم طراز ہے کہ
’’ نبی کے معنٰی صرف یہ ہیں کہ خدا سے بذریعہ وحی خبر پانے والا ہو اور شرف مکالمہ اور مخاطبہ الٰہیہ سے مشرف ہو، شریعت کا لانا اس کے لیے ضروری نہیں اور نہ یہ ضروری ہے کہ صاحب شریعت رسول کا متبع ہو۔‘‘
(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ 138 مندرجہ روحانی خزائن جلد 21صفحہ 306)
محترم قارئین ! قادیانی دجال کے مندرجہ بالا بیانات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ رسول صاحب شریعت کا متبع ہوتا ہے اور نہ ہی وہ نئی شریعت اپنے ساتھ لاتا ہے۔ ان دونوں معنوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے حدیث کے الفاظ پر توجہ دیں تو نتیجہ یہ نکلے گا کہ نبی کریم ﷺ کے بعد نہ صاحب شریعت نبی آ سکتا ہے اور نہ ہی صاحب شریعت رسول ‘رسول اور نبی دونوں کے آنے کی نفی کی ہے۔ جب کہ مرزا قادیانی نے نہ صرف نبوت کا دعویٰ کیا ہے بلکہ صاحب شریعت ہونے کا بھی مدعی ہے۔ جس کی تفصیل مرزا قادیانی کے دعویٰ نبوت میں موجود ہے۔
محترم قارئین ! قرآن کریم اور احادیث مبارکہ سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ نبی کریم ﷺآخری نبی ہیں ۔ ان کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا اور جو بھی دعویٰ نبوت کرے گا وہ بمطابق فرمان نبوی کذاب و دجال ہوگا ۔

اب آتے ہیں اس بات کی طرف کہ امت مرزاٸیہ کے نزدیک خاتم النبیین کا کیا مفہوم ہے جس کا بیعت لیتے ہوۓ اقرار کروایا جاتا ہے لیکن اس سے پہلے مرزا غلام احمد قادیانی کا ایک ملفوظ ملاحظہ کر لیں چنانچہ مرزا قادیانی کہتا ہے کہ
” یقینًا یاد رکھو کہ کوٸی شخص سچا مسلمان نہیں ہو سکتا اور آنحضرت ﷺ کا متبع نہیں بن سکتا جب تک آنحضرت ﷺ کو خاتم النبیین یقین نہ کر لے جبتک ان محدثات سے الگ نہیں ہوتا اور اپنے قول اور فعل سے آپ ﷺ کو خاتم النبیین نہیں مانتا۔“
(ملفوظات جلد دوم صفحہ 64 طبع چہارم)
محترم قارٸین ! مرزا غلام احمد قادیانی آیت خاتم النبیین کے مفہوم کے تحت کہتا ہے کہ
”چنانچہ ان خوبیوں اور کمالات کے جمع ہونے کا ہی نتیجہ تھا کہ آپ پر نبوت ختم ہو گٸی اور یہ فرمایا کہ مَاکَانَ مُحَمَّدٌ اَبَا اَحَدٍ مِّن رِّجَالِکُمْ وَلٰــکِن رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النِّبِیّٖنَ (الاحزاب:40) ختم نبوت کے یہی معنی ہیں کہ نبوت کی ساری خوبیاں اور کمالات تجھ پر ختم ہو گٸے اور آٸیندہ کے لیے کمالات نبوت کا باب بند ہو گیا اور کوٸی نبی مستقل طور پر نہ آٸے گا
نبی عربی اور عبرانی دونوں زبانوں میں مشترک لفظ ہے جس کے معنی ہیں خدا سے خبر پانے والا اور پیشگوٸی کرنے والا جو لوگ براہ راست خدا سے خبریں پاتے تھے وہ نبی کہلاتے تھے اور یہ گویا اصطلاح ہو گٸی تھی مگر اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ آٸیندہ کے لیے اللہ تعالی نے اس کو بند کر دیا ہے اور مہر لگا دی ہے کہ کوٸی نبی آنحضرت ﷺ کی مہر کے بغیر نہیں ہو سکتا جب تک آپ کی امت میں داخل نہ ہو اور آپ کے فیض سے مستفیض نہ ہو وہ خداتعالی سے مکالمہ شرف نہیں پا سکتا جب تک آنحضرت ﷺ کی امت میں داخل نہ ہو ۔“
(ملفوظات جلد سوم صفحہ 95 طبع چہارم)
ایک اور مقام پر مرزا قادیانی کہتا ہے کہ
”مَاکَانَ مُحَمَّدٌ اَبَا اَحَدٍ مِّن رِّجَالِکُمْ وَلٰــکِن رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النِّبِیّٖنَ وَ کَانَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا (الاحزاب:40) اس آیت میں اللہ تعالی نےجسمانی طور سے آپ کی اولاد کی نفی بھی کی ہے اور ساتھ ہی روحانی طور سے اثبات بھی کیا ہے روحانی طور پہ آپ باپ بھی ہیں اور روحانی نبوت اور فیض کا سلسلہ آپ کے بعد جاری رہے گا اور وہ آپ میں سے ہو کر جاری ہو گا نہ الگ طور سے۔ وہ نبوت چل سکے گی جس پر آپ کی مہر ہوگی ۔ ورنہ اگر نبوت کا دروازہ بالکل بند سمجھا جاۓ تو نعوذباللہ اس سے تو انقطاع فیض لازم آتا ہے اور اس میں تو نحوست ہے اور نبی کی ہتک شان ہوتی ہے گویا اللہ تعالی نے اس امت کو جو کہا کہ کنتم خیر امة یہ جھوٹ تھا نعوذباللہ ۔ اگر یہ معنی کیے جاٸیں کہ آٸیندہ کے واسطے نبوت کا واسطہ ہر طرح سے بند ہے تو پھر خیرالامة کی جگہ شرالامم ہوٸی یہ امت۔“
(ملفوظات جلد سوم صفحہ 248,249 طبع چہارم)
ایک اور مقام پر مرزا قادیانی نے کہا کہ
”خود قرآن میں النبیین جس پر ال پڑا ہے موجود ہے اس سے مراد یہی ہے کہ جو نبوت نٸی شریعت لانے والی تھی وہ اب ختم ہو گٸی ہے اگر کوٸی نٸی شریعت کا دعوی کرے تو کافر ہے اور اگر سرے سے مکالمہ الہی سے انکار کیا جاوے تو پھر اسلام ایک مردہ مذہب ہو گا اور اس میں اور دوسرے مذاہب میں کوٸی فرق نہ رہے گا کیونکہ مکالمہ کے بعد اور کوٸی ایسی بات نہیں رہتی کہ وہ ہو تو اسے نبی کہا جاۓ۔ نبوت کی علامت مکالمہ لیکن اب اہل اسلام نے جو یہ اپنا مذہب قرار دیا ہے کہ اب مکالمہ کا دروازہ بند ہے اس سے تو ظاہر ہے کہ خدا کا بڑا قہر اس امت پر ہے ۔“
(ملفوظات جلد سوم صفحہ 52،53 طبع چہارم)
محترم قارٸین ! ایک اور موقع پر مرزا قادیانی سے سوال کیا گیا کہ خاتم النبیین کے کیا معنی ہیں تو مرزا قادیانی نے جواب دیا کہ
”اس کے یہ معنی ہیں کہ آنحضرت ﷺ کے بعد کوٸی نبی صاحب شریعت نہیں آوے گا اور یہ کہ کوٸی ایسا نبی آپ کے بعد نہیں آ سکتا جو رسول اکرم ﷺ کی مہر اپنے ساتھ نہ رکھتا ہو۔“
(ملفوظات جلد پنجم صفحہ 565 طبع چہارم )
محترم قارٸین ! مندرجہ بالا بحث سے یقینا آپ سمجھ گٸے ہوں گے کہ امت مرزاٸیہ کے نزدیک خاتم النبیین سے مراد ایسا نبی ہے جس کے بعد شرعی نبوت بند ہو لیکن غیر شرعی اور امتی نبوت جاری ہو اور غیر شرعی امتی نبوت اس خاتم النبیین کے فیض سے ملتی ہو جبکہ اس کے برعکس امت مسلمہ ہر طرح کی نبوت کے بند ہونے کا عقیدہ رکھتی ہے ۔
 
شمولیت
اگست 18، 2017
پیغامات
42
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
57
2 _ محمد رسول اللہ ﷺ بحثیت خاتم النبیین اور قادیانی دجل:_

قارٸین کرام قادیانیوں سے بیعت لیتے ہوۓ قادیانی سربراہ اس بات کا بھی اقرار لیتا ہے کہ وہ جناب محمد رسول اللہ ﷺ کو خاتم النبیین مانے گے جس سے عام آدمی دھوکے کا شکار ہو جاتا ہے اور سمجھتا ہے کہ قادیانی بھی تو عقیدہ ختم نبوت پر ایمان رکھتے ہیں ان کو بلاوجہ کافر قرار دیا گیا ہے ۔
محترم قارٸین ! سب سے پہلے تو یہ ضروری ہے کہ اس بات کا جاٸزہ لیا جاۓ کہ امت مسلمہ کے نزدیک عقیدہ ختم نبوت ہے کیا ؟
اللہ تعالی قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ

مَاکَانَ مُحَمَّدٌ اَبَا اَحَدٍ مِّن رِّجَالِکُمْ وَلٰــکِن رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النِّبِیّٖنَ وَ کَانَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا
(الاحزاب:40)
تمہارے مَردوں میں سے محمد (ﷺ ) کسی کے باپ نہیں، لیکن آپ ﷲ تعالیٰ کے رسول ہیں اور تمام نبیوں کو ختم کرنے والے ہیں۔ اور ﷲ تعالیٰ ہر چیز کو بخوبی جانتا ہے۔
قرآن کریم کی اسی آیت کے ان معنوں اور مفہوم کی تاٸید فرمان رسول ﷺ سے بھی ہوتی ہے حضرت ثوبان ؓ سے روایت ہے کہ :
((وَاِذَا وُضِعَ السَّیْفُ فِیْ اُمَّتِیْ لَمْ یُرْفَعْ عَنْھَا إلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ وَلَا تَقُوْمُ السَّاعَۃُ حَتّٰی تَلْحَقَ قَبَائِلُ مِنْ اُمَّتِیْ بِالْمُشْرِکِیْنَ وَحَتّٰی تَعْبُدَ قَـبَائِلَ مِنْ اُمَّتِیْ الَاوْثَانَ وَإِنَّہ‘ سَیَکُوْنَ فِیْ اُمَّتِیْ کَذَّابُوْنَ ثَلَاثُوْنَ کُلُّھُمْ یَزْعُمُ اَنَّہ‘ نَبِیُّ اللّٰہِ وَاَنَا خَاتَمُ النَّبِیّٖنَ لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ وَلَا تَزَالُ طَائِفَۃٌ مِّنْ اُمَّتِیْ عَلَی الْحَقِّ ظَاھِرِیْنَ لَا یَضُرُّھُمْ مَنْ خَالَفَھُمْ حَتّٰی یَاْتِیَ اللّٰہُ بِاَمْرُاللّٰہ))
(سنن ابوداود ، کتاب الفتن والملاحم :4252 ، جامع ترمذی ، کتاب الفتن 2145)
جب میری امت میں تلوار رکھ دی جائے گی تو وہ اس سے روز قیامت تک نہ اٹھائی جائے گی اور قیامت قائم نہ ہوگی حتی کہ میری امت کے بعض قبائل مشرکوں کے ساتھ نہ مل جائیں اور بتوں کی عبادت نہ کرنے لگیں۔ اور بے شک عنقریب میری امت میں تیس کذاب پیدا ہوں گے ان میں سے ہر ایک یہ گمان کرے گا کہ وہ ﷲ کا نبی ہے۔ جبکہ میں خاتم النبین ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا اور میری امت کا ایک گروہ حق پر رہے گا اور وہ غالب ہوں گے ۔جو ان کی مخالفت کریں گے وہ ان کو ضرر نہ پہنچا سکیں گے حتی کہ ﷲ کا حکم آجائے۔

حضرت سعد بن ابی وقاص ؓسے روایت ہے :
خَلَّفَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلِيَّ بْنِ اَبِیْ طَالِبٍ فِیْ غَزْوَۃِ تَبُوْکَ فَقَالَ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تُخَلِّفُنِیْ فِی النِّسَآءَ وَالصِّبْیَانِ؟ قَالَ أمَا تَرْضٰی اَنْ تَکُوْنَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃَ ھَارُوْنَ مِنْ مُوْسٰی عَلَیْہِ السَّلاَم ؟ غَیْرَ اَنَّہ‘ لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ
(صحیح مسلم ، کتاب الفضائل 6218، صحیح بخاری 4416)
رسول ﷲ ﷺ نے حضرت علیؓ کو مدینہ میں اپنا نائب مقرر کیا۔ جب آپ ﷺ غزوہ تبوک کو تشریف لے گئے تو حضرت علیؓ نے عرض کیا: یارسولﷲ ﷺ آپؐ مجھ کو عورتوں اور بچوں میں چھوڑ کر جاتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: تم اس بات پر خوش نہیں کہ تمہارا درجہ میرے ہاں ایسا ہی ہو جیسے حضرت ہارون علیہ السلام کا موسیٰ علیہ السلام کے ہاں تھا۔ مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں۔

سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
((کَانَتْ بَنُوْ اِسْرَائِیْلَ تَسُوْسُھُمُ الْاَنْبِیَاءُ کُلَّمَا ھََلَکَ نَبِيٌّ خَلَفَہ‘ نَبِيٌّ اَخَرُ وَإِنَّہ‘ لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ وَسَیَکُوْنَ الْخُلَفَآءُ فَیَکْثُرُونَ))
(صحیح بخاری ، کتاب الاحادیث الانبیاء حدیث :3455،سنن ابن ماجہ ،حدیث: 2871)
ترجمہ: بنی اسرائیل کے انبیاء ان کی سیاسی رہنمائی بھی کیا کرتے تھے۔ جب بھی ان کا کوئی نبی فوت ہو جاتا تواس کی جگہ دوسرا نبی آجاتا لیکن یاد رکھو میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا مگر نائبین بکثرت ہوں گے۔

حضرت عقبہ بن عامر رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول ﷲ ﷺ نے فرمایا
((لَوْکَانَ نَبِیٌّ بَعْدِی لَکَانَ عُمَرَبْنَ الْخَطَّابِ))
(سنن ترمذی ابواب المناقب ،حدیث : 3686حسن)
ترجمہ:۔اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر بن خطاب ہوتا

ایک اور حدیث مبارکہ میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
((اِنَّ الرَّسَالَۃَ وَالنَبُوَّۃَ قَدِ انْقَطَعَتْ فَلَا رَسُوْلَ بَعْدِیْ وَلَا نَبِیَّ))
(جامع ترمذی کتاب الرویا رواہ انس بن مالک حدیث: 2272)
رسالت اور نبوت کا سلسلہ منقطع ہو چکا ہے۔ میرے بعد اب نہ کوئی رسول ہے اور نہ کوئی نبی۔
اس حدیث مبارکہ میں نبی اور رسول دونوں کی نبی آخر الزمان ﷺکے بعد آنے کی نفی کی گئی ہے۔ آئیے ذرا اس بات پر غور کریں کہ نبی اور رسول میں کیا فرق ہوتا ہے۔ اس ضمن میں اس دور کے سب سے بڑے کذاب داعی نبوت مرزا قادیانی کا اپنا بیان قابل توجہ ہے۔ چنانچہ مرزا قادیانی رقم طراز ہے:
’’ خدا تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ کوئی رسول دنیا میں مطیع اور محکوم ہو کر نہیں آتا بلکہ وہ مطاع اور صرف اپنی اس وحی کا متبع ہوتا ہے جواس پر بذریعہ جبرائیل نازل ہوتی ہے۔‘‘
(ازالہ اوہام صفحہ 576، مندرجہ روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 411)
مرزاغلام احمد قادیانی نبی کی تعریف میں یوں رقم طراز ہے کہ
’’ نبی کے معنٰی صرف یہ ہیں کہ خدا سے بذریعہ وحی خبر پانے والا ہو اور شرف مکالمہ اور مخاطبہ الٰہیہ سے مشرف ہو، شریعت کا لانا اس کے لیے ضروری نہیں اور نہ یہ ضروری ہے کہ صاحب شریعت رسول کا متبع ہو۔‘‘
(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ 138 مندرجہ روحانی خزائن جلد 21صفحہ 306)
محترم قارئین ! قادیانی دجال کے مندرجہ بالا بیانات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ رسول صاحب شریعت کا متبع ہوتا ہے اور نہ ہی وہ نئی شریعت اپنے ساتھ لاتا ہے۔ ان دونوں معنوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے حدیث کے الفاظ پر توجہ دیں تو نتیجہ یہ نکلے گا کہ نبی کریم ﷺ کے بعد نہ صاحب شریعت نبی آ سکتا ہے اور نہ ہی صاحب شریعت رسول ‘رسول اور نبی دونوں کے آنے کی نفی کی ہے۔ جب کہ مرزا قادیانی نے نہ صرف نبوت کا دعویٰ کیا ہے بلکہ صاحب شریعت ہونے کا بھی مدعی ہے۔ جس کی تفصیل مرزا قادیانی کے دعویٰ نبوت میں موجود ہے۔
محترم قارئین ! قرآن کریم اور احادیث مبارکہ سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ نبی کریم ﷺآخری نبی ہیں ۔ ان کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا اور جو بھی دعویٰ نبوت کرے گا وہ بمطابق فرمان نبوی کذاب و دجال ہوگا ۔

اب آتے ہیں اس بات کی طرف کہ امت مرزاٸیہ کے نزدیک خاتم النبیین کا کیا مفہوم ہے جس کا بیعت لیتے ہوۓ اقرار کروایا جاتا ہے لیکن اس سے پہلے مرزا غلام احمد قادیانی کا ایک ملفوظ ملاحظہ کر لیں چنانچہ مرزا قادیانی کہتا ہے کہ
” یقینًا یاد رکھو کہ کوٸی شخص سچا مسلمان نہیں ہو سکتا اور آنحضرت ﷺ کا متبع نہیں بن سکتا جب تک آنحضرت ﷺ کو خاتم النبیین یقین نہ کر لے جبتک ان محدثات سے الگ نہیں ہوتا اور اپنے قول اور فعل سے آپ ﷺ کو خاتم النبیین نہیں مانتا۔“
(ملفوظات جلد دوم صفحہ 64 طبع چہارم)
محترم قارٸین ! مرزا غلام احمد قادیانی آیت خاتم النبیین کے مفہوم کے تحت کہتا ہے کہ
”چنانچہ ان خوبیوں اور کمالات کے جمع ہونے کا ہی نتیجہ تھا کہ آپ پر نبوت ختم ہو گٸی اور یہ فرمایا کہ مَاکَانَ مُحَمَّدٌ اَبَا اَحَدٍ مِّن رِّجَالِکُمْ وَلٰــکِن رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النِّبِیّٖنَ (الاحزاب:40) ختم نبوت کے یہی معنی ہیں کہ نبوت کی ساری خوبیاں اور کمالات تجھ پر ختم ہو گٸے اور آٸیندہ کے لیے کمالات نبوت کا باب بند ہو گیا اور کوٸی نبی مستقل طور پر نہ آٸے گا
نبی عربی اور عبرانی دونوں زبانوں میں مشترک لفظ ہے جس کے معنی ہیں خدا سے خبر پانے والا اور پیشگوٸی کرنے والا جو لوگ براہ راست خدا سے خبریں پاتے تھے وہ نبی کہلاتے تھے اور یہ گویا اصطلاح ہو گٸی تھی مگر اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ آٸیندہ کے لیے اللہ تعالی نے اس کو بند کر دیا ہے اور مہر لگا دی ہے کہ کوٸی نبی آنحضرت ﷺ کی مہر کے بغیر نہیں ہو سکتا جب تک آپ کی امت میں داخل نہ ہو اور آپ کے فیض سے مستفیض نہ ہو وہ خداتعالی سے مکالمہ شرف نہیں پا سکتا جب تک آنحضرت ﷺ کی امت میں داخل نہ ہو ۔“
(ملفوظات جلد سوم صفحہ 95 طبع چہارم)
ایک اور مقام پر مرزا قادیانی کہتا ہے کہ
”مَاکَانَ مُحَمَّدٌ اَبَا اَحَدٍ مِّن رِّجَالِکُمْ وَلٰــکِن رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النِّبِیّٖنَ وَ کَانَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا (الاحزاب:40) اس آیت میں اللہ تعالی نےجسمانی طور سے آپ کی اولاد کی نفی بھی کی ہے اور ساتھ ہی روحانی طور سے اثبات بھی کیا ہے روحانی طور پہ آپ باپ بھی ہیں اور روحانی نبوت اور فیض کا سلسلہ آپ کے بعد جاری رہے گا اور وہ آپ میں سے ہو کر جاری ہو گا نہ الگ طور سے۔ وہ نبوت چل سکے گی جس پر آپ کی مہر ہوگی ۔ ورنہ اگر نبوت کا دروازہ بالکل بند سمجھا جاۓ تو نعوذباللہ اس سے تو انقطاع فیض لازم آتا ہے اور اس میں تو نحوست ہے اور نبی کی ہتک شان ہوتی ہے گویا اللہ تعالی نے اس امت کو جو کہا کہ کنتم خیر امة یہ جھوٹ تھا نعوذباللہ ۔ اگر یہ معنی کیے جاٸیں کہ آٸیندہ کے واسطے نبوت کا واسطہ ہر طرح سے بند ہے تو پھر خیرالامة کی جگہ شرالامم ہوٸی یہ امت۔“
(ملفوظات جلد سوم صفحہ 248,249 طبع چہارم)
ایک اور مقام پر مرزا قادیانی نے کہا کہ
”خود قرآن میں النبیین جس پر ال پڑا ہے موجود ہے اس سے مراد یہی ہے کہ جو نبوت نٸی شریعت لانے والی تھی وہ اب ختم ہو گٸی ہے اگر کوٸی نٸی شریعت کا دعوی کرے تو کافر ہے اور اگر سرے سے مکالمہ الہی سے انکار کیا جاوے تو پھر اسلام ایک مردہ مذہب ہو گا اور اس میں اور دوسرے مذاہب میں کوٸی فرق نہ رہے گا کیونکہ مکالمہ کے بعد اور کوٸی ایسی بات نہیں رہتی کہ وہ ہو تو اسے نبی کہا جاۓ۔ نبوت کی علامت مکالمہ لیکن اب اہل اسلام نے جو یہ اپنا مذہب قرار دیا ہے کہ اب مکالمہ کا دروازہ بند ہے اس سے تو ظاہر ہے کہ خدا کا بڑا قہر اس امت پر ہے ۔“
(ملفوظات جلد سوم صفحہ 52،53 طبع چہارم)
محترم قارٸین ! ایک اور موقع پر مرزا قادیانی سے سوال کیا گیا کہ خاتم النبیین کے کیا معنی ہیں تو مرزا قادیانی نے جواب دیا کہ
”اس کے یہ معنی ہیں کہ آنحضرت ﷺ کے بعد کوٸی نبی صاحب شریعت نہیں آوے گا اور یہ کہ کوٸی ایسا نبی آپ کے بعد نہیں آ سکتا جو رسول اکرم ﷺ کی مہر اپنے ساتھ نہ رکھتا ہو۔“
(ملفوظات جلد پنجم صفحہ 565 طبع چہارم )
محترم قارٸین ! مندرجہ بالا بحث سے یقینا آپ سمجھ گٸے ہوں گے کہ امت مرزاٸیہ کے نزدیک خاتم النبیین سے مراد ایسا نبی ہے جس کے بعد شرعی نبوت بند ہو لیکن غیر شرعی اور امتی نبوت جاری ہو اور غیر شرعی امتی نبوت اس خاتم النبیین کے فیض سے ملتی ہو جبکہ اس کے برعکس امت مسلمہ ہر طرح کی نبوت کے بند ہونے کا عقیدہ رکھتی ہے ۔
3_ کیا مرزا قادیانی وہی امام مہدی اور مسیح موعود ہے جس کی پشگوٸی محمد رسول اللہ ﷺ نے فرماٸی تھی؟

محترم قارٸین ! ظہور امام مہدی کے بارے صحیح احادیث اس تواتر سے بیان ہوٸی ہیں کہ جس کے بارے میں کسی بھی قسم کے شک و شبہ کی گنجاٸش نہیں ۔ یہاں پر امام مہدی کے بارے میں چند احادیث بیان کرنے کے بعد مرزا قادیانی اور اس کی ذریت کے دجل و فریب کو آشکار کروں گا ان شاء اللہ پہلے چند ایک احادیث نبویہ ﷺ ملاحظہ فرماٸیں چنانچہ نبی کریم ﷺ کا فرمان سنن ابو داٶد اور سنن ترمذی میں ہے کہ
لَوْ لَمْ يَبْقَ مِنَ الدُّنْيَا إِلَّا يَوْمٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ زَائِدَةُ فِي حَدِيثِهِ لَطَوَّلَ اللَّهُ ذَلِكَ الْيَوْمَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ اتَّفَقُوا:‏‏‏‏ حَتَّى يَبْعَثَ فِيهِ رَجُلًا مِنِّي أَوْ مِنْ أَهْلِ بَيْتِي يُوَاطِئُ اسْمُهُ اسْمِي وَاسْمُ أَبِيهِ اسْمَ أَبِي زَادَ فِي حَدِيثِ فِطْرٍ يَمْلَأُ الْأَرْضَ قِسْطًا وَعَدْلًا كَمَا مُلِئَتْ ظُلْمًا وَجَوْرًا، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ فِي حَدِيثِ سُفْيَانَ:‏‏‏‏ لَا تَذْهَبُ أَوْ لَا تَنْقَضِي الدُّنْيَا حَتَّى يَمْلِكَ الْعَرَبَ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ بَيْتِي يُوَاطِئُ اسْمُهُ اسْمِي ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو دَاوُد:‏‏‏‏ لَفْظُ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبِي بَكْرٍ بِمَعْنَى سُفْيَانَ.
یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر دنیا کا ایک دن بھی رہ جائے گا تو اللہ تعالیٰ اس دن کو لمبا کر دے گا، یہاں تک کہ اس میں ایک شخص کو مجھ سے یا میرے اہل بیت میں سے اس طرح کا برپا کرے گا کہ اس کا نام میرے نام پر، اور اس کے والد کا نام میرے والد کے نام پر ہو گا، وہ عدل و انصاف سے زمین کو بھر دے گا، جیسا کہ وہ ظلم و جور سے بھر دی گئی ہے ۔ سفیان کی روایت میں ہے: دنیا نہیں جائے گی یا ختم نہیں ہو گی تاآنکہ عربوں کا مالک ایک ایسا شخص ہو جائے جو میرے اہل بیت میں سے ہو گا اس کا نام میرے نام کے موافق ہو گا ۔ ابوداؤد کہتے ہیں: عمر اور ابوبکر کے الفاظ سفیان کی روایت کے مفہوم کے مطابق ہیں۔
(سنن ابو داٶد حدیث نمبر 4282)

عَنْ عَلِيٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لَوْ لَمْ يَبْقَ مِنَ الدَّهْرِ إِلَّا يَوْمٌ لَبَعَثَ اللَّهُ رَجُلًا مِنْ أَهْلِ بَيْتِي يَمْلَؤُهَا عَدْلًا كَمَا مُلِئَتْ جَوْرًا .
علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر زمانہ سے ایک ہی دن باقی رہ جائے گا تو بھی اللہ تعالیٰ میرے اہل بیت میں سے ایک شخص کھڑا بھیجے گا وہ اسے عدل و انصاف سے اس طرح بھر دے گا جیسے یہ ظلم و جور سے بھر دی گئی ہے ۔
(سنن ابو داٶد حدیث نمبر 4283)
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَكُونُ فِي آخِرِ أُمَّتِي خَلِيفَةٌ يَحْثِي الْمَالَ حَثْيًا لَا يَعُدُّهُ عَدَدً
یعنی نبی کریم ﷺ نے فرمایا : میری امت کے آخر ( کے دور ) میں ایک خلیفہ ہو گا جو لپیں بھر بھرکے مال دے گا اور اس کی گنتی نہیں کرے گا ۔
(صحیح مسلم حدیث نمبر 7167)
سیدنا ابو سعید الخدری سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’یخرج فی آخر امتی المھدی، یسقیہ اللہ الغیث وتخرج الارض نباتھا ویعطی المال صحاحا وتکثر الماشیة وتعظم الامة یعیش سجا او ثمانیا یعنی ححجا‘‘
’’میری امت کے آخر میں مھدی آئے گا جس کے لیے اللہ تعالیٰ بارشیں نازل فرمائے گا اور زمین اپنے نباتات اگلے گی عدل و انصاف سے مال تقسیم کرے گا ، مویشی زیادہ ہو جائیں گے اور امت کا غلبہ ہوگا وہ (اپنے ظہور کے بعد) سات یا آٹھ سال زندہ رہے گا۔‘‘ (المستدرک للحاکم، جلد 4، ص558)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’المھدی منا اھل البیت یصلحہ اللہ فی لیلة‘‘
’’مھدی ہمارے اہل بیت میں سے ، اللہ اسے ایک ہی رات میں درست کر دے گا۔‘‘
(مسند احمد بن حنبل ، رقم: 645)
محترم قارٸین ! مندرجہ بالا احادیث ظھور مھدی پر واضح دلالت کرتی ہیں۔ ان احادیث کے علاوہ اور بھی کئی احادیث اور آثار ہیں جو صحت کے مقام پر فائز ہیں ۔جن کا انکار کرنا کسی صاحب ایمان کو ذیب نہیں دیتا۔
محترم قارٸین ! متواتر احادیث کی روشنی میں اہل سنت و الجماعت کا یہ عقیدہ ہے کہ امام مہدی کا نام محمد بن عبداللہ ہو گا، وہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی اولاد سے ہوں گے، قرب قیامت ان کا ظہور ہو گا اور وہ پوری دنیا میں عدل و انصاف کے پھریرے لہرائیں گے۔
ائمہ دین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ امام مہدی کے ظہور کے بارے میں مروی احادیث صحیح اور قابل حجت ہیں۔ اس حوالے سے چند ایک ائمہ دین کی آراء ملاحظہ فرمائیں :
(1) امام ابوجعفر محمد بن عمرو بن موسیٰ بن حماد عقیلی (م : ۳۲۲ھ ) فرماتے ہیں :
وفي المهدي احاديث جيد
’’ امام مہدی کے بارے میں عمدہ احادیث موجود ہیں۔ “ [الضعفاء الكبير للعقيلي 254/3]

(2) امام ابوبکر احمد بن الحسین بن علی بن موسیٰ بیہقی رحمہ اللہ (۳۸۴۔ ۴۵۸ھ ) فرماتے ہیں :
والاحاديث فى التنصيص على خروج المهدي اصح اسنادا، وفيها بيان كونه من عترة النبى صلى الله عليه وسلم
’’ امام مہدی کے خروج کے بارے میں احادیث صحیح سند والی ہیں۔ ان میں یہ وضاحت بھی ہے کہ امام مہدی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان میں سے ہوں گے۔ “ [تاريخ ابن عساكر :517/47، تهذيب التهذيب لابن حجر: 126/9]

(3) شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ( ۶۶۱۔ ۷۲۸ھ ) فرماتے ہیں :
والاحاديث التي يحتج بها خروج المهدي احاديث صحيحة
’’ جن احادیث سے امام مہدی کے خروج پر دلیل لی جاتی ہے، وہ احادیث صحیح ہیں۔ “ [منهاج السنة لابن تيمية:95/4]

(4) شیخ الاسلام ثانی، عالم ربانی، علامہ ابن القیم (۶۹۱۔ ۷۵۱ھ ) نے فرمایا :
وهذا الاحاديث اربعة اقسام، صحاح وحسان وغرائب و موضوعة
’’ یہ احادیث چار قسم کی ہیں جن میں سے صحیح بھی ہیں، حسن بھی ہیں، غریب بھی ہیں اور موضوع بھی۔ “ [المنار المنيف لابن القيم : ص : 148]

(5) علامہ ابوعبداللہ محمد بن جعفر بن ادریس کتانی رحمہ اللہ ( ۱۲۷۴۔ ۱۳۴۵ھ ) اس بارے میں تفصیلی گفتگو کرنے کے بعد خلاصہ یوں بیان فرماتے ہیں :
والحاصل ان الاحاديث الواردة في المهدي المنتظر متواترة
’’ خلاصہ کلام یہ ہے کہ مہدی منتظر کے بارے میں وارد احادیث متواتر ہیں۔ “ [نظم المتناثر في الحديث المتواتر للكتاني،ص:47]

(6) علامہ شمس الدین ابوالعون محمد بن احمد بن سالم سفارینی رحمہ اللہ (۱۱۱۴۔ ۱۱۸۸ھ ) لکھتے ہیں :
من اشراط الساعة التي وردت بها الاخبار وتواترت في مضمونها الاثار
’’ امام مہدی کا ظہور قیامت کی ان علامات میں سے ہے جن کے بارے میں احادیث وارد ہوئی ہیں اور جن کے بارے میں متواتر آثار مروی ہیں۔ “ [لوامع الأنوار البهية للسفاريني : 70/2]

(7) علامہ محمد امین بن محمد مختار شنقیطی رحمہ اللہ (۱۳۲۵۔ ۱۳۹۳ھ ) فرماتے ہیں :
وقد تواترت الاخبار واستفاضت بكثرة روايتها عن المختار صلى الله عليه وسلم بمجيء المهدي، وانه من اهل بيته
’’ امام مہدی کے آنے اور ان کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت میں سے ہونے کے بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے متواتر و مشہور احادیث مروی ہیں۔ “ [الجواب المقنع المحرر للشينقيطي، ص:30]
محترم قارٸین ! مندرجہ بالا احادیث مبارکہ اور محدثین کے اقوال کے بالکل برعکس مرزا غلام احمد قادیانی خود لکھتا ہے کہ
”میرا یہ دعوی نہیں ہے کہ میں وہ مہدی ہوں جو مصداق من ولد فاطمة ومن عترتی وغیرہ ہے بلکہ میرا یہ دعوی تو مسیح موعود ہونے کا ہے اور مسیح موعود کے لیے کسی محدث کا قول نہیں کہ وہ بنی فاطمہ وغیرہ میں سے ہو گا ۔ ہاں ساتھ اس کے جیسا کہ تمام محدثین کہتے ہیں اور میں بھی کہتا ہوں کہ مہدی موعود کے بارے میں جس قدر حدیثیں تمام مجروح اور مخدوش ہیں اور ان میں ایک بھی صحیح نہیں ۔۔۔۔۔۔ مگر دراصل یہ تمام حدیثیں کسی اعتبار کے لاٸق نہیں ۔“
(براہین احمدیہ حصہ پنجم مندرجہ روحانی خزاٸن جلد 21 صفحہ 356)
قارٸین کرام جیسا کہ میں نے صحیح احادیث اور محدثین کے اقوال سے امام مہدی کے بارے میں امت مسلمہ کا عقیدہ واضح کیا ہے لیکن مرزا غلام احمد قادیانی خود کو نہ تو ان احادیث کے مطابق امام مہدی قرار دیتا ہے بلکہ صریح کذب بیانی کرتے ہوۓ ان تمام احادیث کو مجروح ، مخدوش اور ناقابل اعتبار بھی قرار دیتا ہے پھر کیونکر مرزا قادیانی وہ امام مہدی ہو سکتا ہے جو نبی کریم ﷺ کی پیشگوٸیوں کے مصداق ہو درحقیقت بیعت لیتے وقت قادیانی ذریت صریح دھوکہ دہی سے کام لیتی ہے ۔
محترم قارٸین ! مرزا قادیانی مزید لکھتا ہے کہ
”اور ان حدیثوں کے مقابل پر وہ حدیث بہت صحیح ہے جو ابن ماجہ نے لکھی ہے اور وہ یہ ہے کہ لا مھدی الا عیسیٰ یعنی کوٸی مہدی نہیں صرف عیسی ہی مہدی ہے جو آنے والا ہے ۔“
(براہین احمدیہ حصہ پنجم مندرجہ روحانی خزاٸن جلد 21 صفحہ 356)
محترم قارٸین ! مرزا قادیانی نے سنن ابن ماجہ کی جو روایت پیش کی ہے وہ بمع سند ملاحظہ فرماٸیں :

" حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِدْرِيسَ الشَّافِعِيُّ قَالَ: حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ خَالِدٍ الْجَنَدِيُّ، عَنْ أَبَانَ بْنِ صَالِحٍ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «لَا يَزْدَادُ الْأَمْرُ إِلَّا شِدَّةً، وَلَا الدُّنْيَا إِلَّا إِدْبَارًا، وَلَا النَّاسُ إِلَّا شُحًّا، وَلَا تَقُومُ السَّاعَةُ إِلَّا عَلَى شِرَارِ النَّاسِ، وَلَا الْمَهْدِيُّ إِلَّا عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ "
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : معاملہ میں شدت بڑھتی جائے گی اور دنیا میں اوبار ( افلاس اور اخلاق رذیلہ) بڑھتا ہی جائے گا ، لوگ بخیل سے بخیل تر ہوئے جائیں گے اور قیامت انسانیت کے بدترین افراد پر قائم ہوگی ، مہدی نہیں ہونگے مگر مریم کے بیٹے عیسیٰ ( علیہ اسلام )۔
( سنن ابن ماجہ ، حدیث : 4039 )

یہ روایت سنن ابن ماجہ کے علاوہ دوسری کتابوں میں بھی ملتی ہے لیکن چونکہ تمام کتابوں میں اس کی سند " محمد بن ادریس الشافعی " سے آگے ایک ہی ہے اس لئے ہم صرف سنن ابن ماجہ کی روایت پر ہی بات کریں گے ۔

قارٸین کرام ! اس روایت کو تمام محدثین نے ضعیف یا موضوع قرار دیا ہے اس روایت کے متعلق پہلے چند محدثین کی آراء کو ملاحظہ فرماٸیں چنانچہ شارح مشکوۃ ملا علی القاری رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں :۔

" ثُمَّ اعْلَمْ أَنَّ حَدِيثَ: لَا مَهْدِيَّ إِلَّا عِيسَى بْنُ مَرْيَمَ ضَعِيفٌ بِاتِّفَاقِ الْمُحَدِّثِينَ "
جان لو کہ " لا مھدی الا عیسیٰ "والی حدیث کے ضعیف ہونے پر تمام محدثین کا اتفاق ہے ۔ ( مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح ، جلد 10 صفحہ 101 )

علامہ محمد بن علی الشوکانی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں :۔

" لَا مَهْدِيَّ إِلَّا عِيسَى بْنُ مَرْيَمَ : قال الصغانی موضوع " اس حدیث کے بارے میں امام صغانی رحمتہ اللہ علیہ ( حسن بن محمد الصغانی ، وفات 650ھ )نے کہا ہے یہ موضوع( من گھڑت ) حدیث ہے ۔ ( الفوائد المجموعة في الأخبار الموضوعة ، صفحہ 439 ، المکتب الاسلامی )

نوٹ : امام صغانی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی یہ بات اپنی کتاب " الدر الملتقط في تبيين الغلط " میں ذکر کی ہے ۔ ( الدر الملتقط صفحہ 34 روایت نمبر 44 )

امام شمش الدین ذھبی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں :۔

" لا مهدي إلا عيسى ابن مريم، وهو خبر منكر أخرجه ابن ماجة " یہ روایت منکر ہے جسے ابن ماجہ نے روایت کیا ہے ۔ ( ميزان الاعتدال جلد 3 صفحہ 535 )

شیخ الاسلام ابن تيمية رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں :۔


" وَالْحَدِيثُ الَّذِي فِيهِ: " «لَا مَهْدِيَّ إِلَّا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ» " رَوَاهُ ابْنُ مَاجَهْ وَهُوَ حَدِيثٌ ضَعِيفٌ " وہ حدیث جس میں ہے کہ نہیں مہدی مگر عیسیٰ بن مریم اور جو ابن ماجہ نے روایت کی ہے ضعیف ہے ۔ ( منهاج السنة النبوية جلد 4 صفحہ 101 تا 102 )

علامہ محمد عبدالعزیز فرھاری رحمتہ اللہ علیہ

یہ بیان کرتے ہوئے کہ احادیث متواترہ میں یہ بات آئی ہے کہ مہدی اہل بیت میں سے ہوں گے اور وہ زمین میں حکمرانی بھی کریں گے اور ان کی ملاقات عیسیٰ علیہ اسلام سے ہوگی ۔ آگے بیان کرتے ہیں کہ ان متواترہ روایات کے خلاف اگر کوئی روایت ہے تو وہ صحیح نہیں ، اور انہی روایات میں سے " لا مھدی الا عیسیٰ " والی روایت کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :۔

" و کذا ما قِیل آنہ عیسیٰ علیہ اسلام بن مریم مستدلاََ بحدیث لا مھدی الا عیسیٰ بن مریم لان الحدیث لایصح " اسی طرح جو یہ کہا جاتا ہے کہ مہدی تو حضرت عیسیٰ بن مریم ہی ہیں اور دلیل میں یہ حدیث پیش کی جاتی ہے کہ نہیں مہدی مگر عیسیٰ بن مریم ( تو یہ استدلال صحیح نہیں ) کیونکہ یہ حدیث صحیح نہیں ۔ (النبراس شرح شرح العقائد ، صفحہ 667 ) ۔
محترم قارٸین ! یہ تو تھے اس روایت کے متعلق محدثین کی آراء اب آپ کے سامنے اس حدیث کے ضعیف ہونے کے بارے میں مرزا قادیانی کا بھی اعتراف پیش کرتا ہوں چنانچہ مرزا قادیانی خود رقمطراز ہے کہ
”اہل ولایت بذریعہ کشف آنحضرت ﷺ سے احکام پوچھتے ہیں اور ان میں سے جب کسی کو کسی واقعہ میں حدیث کی حاجت پڑتی ہے تو وہ آنحضرت ﷺ کی زیارت سے مشرف ہو جاتا ہے پھر جبرائیل علیہ السلام نازل ہوتے ہیں اور آنحضرت جبرائیل سے وہ مسئلہ جس کی ولی کوحاجت ہوتی ہے پوچھ کر اس ولی کو بتا دیتے ہیں یعنی ظلی طورپر وہ مسئلہ بہ نزول جبرائیل منکشف ہو جاتا ہے ‘پھر شیخ ابنِ عربی نے فرمایا ہے کہ ہم اس طریق سے آنحضرت ﷺ سے احادیث کی تصیح کرا لیتے ہیں بہتیری حدیثیں ایسی ہیں جو محدثین کے نزدیک صحیح ہیں اور وہ ہمارے نزدیک صحیح نہیں اور بہتیری حدیثیں موضوع ہیں اور آنحضرت ﷺ کے قول سے بذریعہ کشف صحیح ہو جاتی ہیں۔‘‘
(ازالہ اوہام صفحہ77‘78 مندرجہ روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 177 ‘178)
ایک اورمقام پر مرزا قادیانی لکھتا ہے کہ

’’میرایہ بھی مذہب ہے کہ اگرکوئی امر خداتعالیٰ کی طرف سے مجھ پرظاہر کیاجاتا ہے مثلاً کسی حدیث کی صحت یا عدم صحت کے متعلق تو گو علمائے ظواہر اور محدثین اس کو موضوع یا مجروح ٹھہراویں مگر میں اس کے مقابل اور معارض کی حدیث کو موضوع کہوں گا اگرخداتعالیٰ نے اس کی صحت مجھ پر ظاہر کر دی ہے جیسے لَامَہْدِیْ اِلَّا عِیْسٰی والی حدیث ہے محدثین اس پر کلام کرتے ہیں مگر مجھ پر خداتعالیٰ نے یہی ظاہر کیا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے اور یہ میرا مذہب میرا ہی ایجاد کردہ مذہب نہیں بلکہ خود یہ مسلّم مسئلہ ہے کہ اہلِ کشف یا اہلِ الہام لوگ محدثین کی تنقید حدیث کے محتاج اور پابند نہیں ہوتے۔‘‘
(ملفوظات مرزاغلام احمد قادیانی جلد 2 صفحہ 45 طبع چہارم)
لیجیے قارٸین کرام ! مندرجہ بالا تحریر میں مرزا قادیانی ایک طرف تو اس بات کا اقراری ہے کہ اس حدیث پر محدثین نے جرح کی ہے تو دوسری طرف یہ کہہ کر کہ اہل کشف محدثین کی جرح کے پابند نہیں ہوتے اپنے آپ احادیث کیا صحت کو جانچنے کے تمام قوانین سے آزاد قرار دے رہا ہے
قارٸین کرام ! لفظ مسیح موعود کسی بھی حدیث میں نہیں آیا بلکہ یہ مرزا غلام احمد قادیانی اور اس کی ذریت کی طرف سے عوام کو دھوکہ دینے کی کوشش ہے کیونکہ تمام احادیث میں نام کی صراحت کے ساتھ نزول عیسی ابن مریم علیھم السلام کا ذکر ہے جبکہ مرزا قادیانی کا نام مرزا غلام احمد قادیانی ابن چراغ بی بی ہے ۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے نزول عیسی ابن مریم کی پیشگوٸی کی ہے نہ کہ غلام احمد قادیانی ابن چراغ بی بی کی ۔ اب لوگوں دھوکہ دینے کے لیے احادیث میں موجود نام کی بجاۓ مسیح موعود کا لفظ ایجاد کیا گیا ۔
اب میں آپ کو مرزا غلام احمد قادیانی کی ہی ایک تحریر پیش کر کے ثابت کروں گا کہ وہ مسیح موعود بھی نہیں ہے ۔ چنانچہ مرزا غلام احمد قادیانی رقمطراز ہے کہ
”پہلے نبیوں کی کتابوں اور احادیث نبویہ میں لکھا ہے کہ مسیح موعود کے ظہور کے وقت یہ انتشار نورانیت اس حد تک ہو گا کہ عورتوں کو بھی الہام شروع ہو جائے گا۔ اور نابالغ بچے نبوت کریں گے۔ اور عوام الناس روح القدس سے بولیں گے۔”

(ضرورۃ الامام مندرجہ روحانی خزائن جلد13صفحہ475)

اب ہمارا مطالبہ صرف اتنا ہے کہ صرف ایک حدیث ایسی پیش کر دی جاۓ جس میں یہ لکھا ہو کہ ” مسیح موعود کے ظہور کے وقت یہ انتشار نورانیت اس حد تک ہو گا کہ عورتوں کو بھی الہام شروع ہو جائے گا۔ اور نابالغ بچے نبوت کریں گے۔ اور عوام الناس روح القدس سے بولیں گے۔” اگر ایسی کوٸی حدیث نہ ملے تو یاد رکھیے نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ
مَنْ يَقُلْ عَلَيَّ مَا لَمْ أَقُلْ فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ
یعنی جو شخص میرے نام سے وہ بات بیان کرے جو میں نے نہیں کہی تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔
(صحیح بخاری حدیث نمبر 109)
نبی کریم ﷺ کی طرف ایک ایسی بات جو نبی ﷺ نے نہیں کہی منسوب کر کے بموجب فرمان رسول ﷺ مرزا قادیانی جہنمی قرار پاتا ہے اور امام مہدی یا مسیح موعود کوٸی جہنمی نہیں ہو سکتا ۔ اگر قادیانی حضرات کوٸی ایسی روایت پیش بھی کر دیں تو تب بھی یہ ثابت نہیں کر سکتے کہ مرزا قادیانی کے دور میں کسی نابالغ بچے نے نبوت کی ہو اور ان لوگوں نے اسے نبی مانا ہو ۔ پس ثابت ہوا کہ مرزا غلام احمد قادیانی نہ تو وہ امام مھدی ہے اور نہ ہی مسیح ابن مریم جن کے بارے میں نبی کریم ﷺ نے پیش گوٸی فرماٸی تھی ۔
4_ کیا قادیانی سربراہ خلیفة المسلمین ہے ؟
محترم قارٸین ! جس گروہ کو اس کے کفریہ عقاٸد کی بنا پر امت مسلمہ اجتماعی طور پر زندیق اور مرتد قرار دے چکی ہو مسلمان کہلوانے کا بھی حق ختم کر چکی ہو اس بدترین گروہ کے سربراہ کو خلیفة المسلمین سمجھنا اور قرار دینا کیا معنی رکھتا ہے ہاں خلیفة الزندیقین اور مرتدین کہا جاۓ تو کوٸی مضاٸقہ نہیں ویسے بھی دنیا کا یہ واحد گروہ ہے کہ جن کے پاس دنیا کے کسی بھی خطے کی حکومت نہیں ہے اور بذات خود عیساٸیوں کے ملک میں پناہ گزیں ہیں اور یہودونصاری کی چھتری تلے اسلام اور امت مسلمہ کے خلاف ریشہ دیوانیوں میں مصروف ہیں تو ایسے گروہ کو خلیفة المسلمین تو دور کی بات مسلمان کہنے اور سمجھنے والا شخص بذات خود داٸرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے ۔
قارٸین کرام ! آپ کے سامنے بتوفیق الہی قادیانیوں کے بیعت کے ڈرامے کی اصل حقیقت آپ کے سامنے واضح کر دی ہے امید ہے کہ اب ان کے کافر زندیق اور مرتد ہونے میں آپ کو کسی بھی قسم کا شک و شبہ باقی نہیں رہے گا۔
عبیداللہ لطیف فیصل آباد
 
Top