اس پر اللہ کے رسول ﷺ نے مزارعین صحابہؓ کو فرمایا کہ یہ تمہارے تجربات کی دنیا ھے تم اس سے بخوبی واقف ھو ، میں اگر کوئی حکم بطور دین تم کو دوں تو تم پر میری اطاعت واجب ھے ، رہ گئے دنیاوی معاملات تو انتم اعلم بامورِ دنیاکم ،، اس میں اگر میں کوئی بات کہتا بھی ھوں تو اس کی حیثیت ایک مشورے کی سی ھے جسے قبول بھی کیا جا سکتا ھے اور رد بھی ، ( جیسا کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی آزاد کردہ کنیز حضرت بریرہؓ نے پوچھا لیا تھا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ یہ آپ کا حکم ھے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا حکم نہیں سفارش ھے ،، بریرہؓ نے کہا کہ مجھے اس سفارش کی حاجت نہیں ،،
جی اسکو کہتے ہیں حق کو باطل سے گڈ مڈ کرنا یعنی جس حدیث سے حدیث کی اتباع کرنا نکلتی ہے اسکو ہی الٹ استعمال کیا جا رہا ہے
دیکھیں بھائیو جب اللہ کے نبی ﷺ نے یہ کہ دیا کہ میری کچھ باتیں دین کے معاملے میں ہوتی ہیں اور کچھ دنیا کے معاملے میں تو تم دین والی باتوں کو لازم پکڑو مگر دنیاوی باتوں میں اختیار ہے یعنی اس میں بھی اتباع منع نہیں بلکہ مشوری کے طور پہ لی جائے گی تو اب اگلا مسئلہ یہ کھڑا ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی کون سی احادیث ہمارے لئے دینی معاملہ ہیں اور کون سی چیزیں دنیاوی یا مشوری کے طور پہ لی جائیں
تو اس مسئلہ کا حل میں پہلے تو خود اس فکری غیر حلال زادے (حفظ ماتقدم کے طور پہ فکری حرام زادہ نہیں لکھا
@خضر حیات بھائی) کی بات نقل کرتا ہوں وہ اسی پوسٹ میں آگے لکھتے ہیں
اللہ کے رسول ﷺ کی سیرت کا بغور مطالعہ کیا جائے تو آپ نے ھر حیثیت میں کچھ کام کیئے ھیں جن کو فقہاء صحابہ بہت اچھی طرح سمجھتے تھے کہ یہ کس حیثیت میں دیئے جا رھے ھیں
یعنی وہ خود یہ کہ رہے ہیں کہ ہمیں یہ جاننے کے لئے کہ کون سی بات ہمارے لئے دین ہے یا صرف مشورہ پھر صحابہ کو ہی دیکھنا پڑے گا تو بھائی اوپر خضر بھائی کون سی ہیر رانجھا سنا رہے ہیں ہم سب بھی تو یہی کہتے ہیں
دیکھیں آپ تو لوگوں کو گمراہ بنا رہے ہیں مگر یعرفونھم کما یعرفون ابناءھم کی طرح آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ فقہاء نے جو اصول بنائے ہیں ان میں یہ بھی اصول شامل ہیں کہ کسی حدیث میں حکم کے فرض ہونے کے لئے کون سے الفاظ ہوتے ہیں اور سنے ہونے کے لئے کون سے الفاظ اور مستحب ہونے کے لئے کون سے الفاظ وغیرہ اور تو اور یہی اصول خالی حدیث کے لئے نہیں بلکہ قرآن کے لئے بھی بنائے گئے ہیں پھر لوگوں میں اپنی دجالی پھیلانے کی کیا ضرورت ہے
میں نے ایک جگہ فورم پہ موجود فواد صاحب کے بارے بھی لکھا ہے اور ان فکری غیر حلال زادے کے بارے بھی غالب کی غزل لکھوں گا کہ
جہاں تیرا نقش قدم دیکھتے ہیں
نرالا نرالا دجل دیکھتے ہیں
مزید تفصیل جلد ہی ان شاءاللہ