• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قاری محمد حنیف ڈار امام و خطیب مسجد مرکز پاکستان ابوظہبی متحدہ عرب امارات اور سنت کی اقسام

وجاہت

رکن
شمولیت
مئی 03، 2016
پیغامات
421
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
45
قاری محمد حنیف ڈار امام و خطیب مسجد مرکز پاکستان ابوظہبی متحدہ عرب امارات نے فیس بک پر اپنی ایک پوسٹ میں لکھا ہے کہ


اللہ کے رسول ﷺ میں بہت ساری حیثیتیں یکجا تھیں- آپ رسول بھی تھے ، ھیڈ آف اسٹیٹ بھی تھے- مقننہ بھی تھے ، عدلیہ یعنی سپریم کورٹ اور چیف جسٹس بھی تھے اور ایڈمنسٹریٹر اور چیف ایگزیکٹیو بھی تھے ، ایک باپ ، شوھر اور پڑوسی بھی تھے ،، ایک دوست اور تاجر بھی تھے -

اگر آپ ﷺ نے کسی کو بطور دوست کوئی مشورہ دیا ھے تو وہ اسی دوست کو دیا ھے ، اس کی نفسیات اور خاندانی ،معاشی بیک گراؤنڈ کو دیکھ کر دیا ھے- بطور دین نہیں دیا کہ وہ اب اس کی تبلیغ بھی کرے کہ سب لوگ بس اسی مشورے پر عمل کریں اگرچہ ان کے معاملات میں زمین و آسمان اور مشرق و مغرب کا فرق ھو - یہ بس ایک دوست کا دوست کو مشورہ تھا ،مگر جب دوست نے آپ ﷺ کے وصال کے بعد یہ مشورہ بطور حدیث کسی کو بیان کیا تو یار لوگوں نے اس کو دین بنا کر سب پر لاگو کر دیا -

ایک جگہ آپ ﷺ نے لوگوں کو کھجوروں کو نر کھجور سے کراس بریڈنگ کراتے دیکھا ، یعنی نر کھجور کے گچھے کومادہ کھجور کے گچھے پر چھڑکتے دیکھا ،، آپ ﷺ نے اس دوست کو جو بعد میں راوی بنے ، ایک چلتی سی بات کی کہ اگر یہ ایسا نہ کریں تو بھلا کیا ھو؟ آپ ﷺ نے اس بندے کو یہ نہیں کہا کہ جا کر ان کو منع کرو کہ ایسا مت کرو اس سے کچھ حاصل نہیں ھوتا ، ظاھر ھے وہ لوگ اسباب اختیار کر رھے تھے اور اسباب اختیار کرنے کا حکم اللہ پاک نے دیا ھے ، اور رسول اللہ ﷺ نے بھی دیا ھے ، آخر جانور کی جانور سے بھی تو جفتی کراتے ھی ھیں ،پیڑ کی پیڑ سے جفتی میں بھلا کیا حرج ھو سکتی تھی -

مگر اس دوست نے جب اس کو بطور حدیث جا کر بیان کر دیا تو صحابہؓ نے اس کو حکم سمجھ کر کھجوروں کو اللہ توکل چھوڑ دیا ، اور اس سال کھجور کو فصل کم لگا - جس پر لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لائے اور معاملہ بیان کیا - اس پر اللہ کے رسول ﷺ نے مزارعین صحابہؓ کو فرمایا کہ یہ تمہارے تجربات کی دنیا ھے تم اس سے بخوبی واقف ھو ، میں اگر کوئی حکم بطور دین تم کو دوں تو تم پر میری اطاعت واجب ھے ، رہ گئے دنیاوی معاملات تو انتم اعلم بامورِ دنیاکم ،، اس میں اگر میں کوئی بات کہتا بھی ھوں تو اس کی حیثیت ایک مشورے کی سی ھے جسے قبول بھی کیا جا سکتا ھے اور رد بھی ، ( جیسا کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی آزاد کردہ کنیز حضرت بریرہؓ نے پوچھا لیا تھا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ یہ آپ کا حکم ھے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا حکم نہیں سفارش ھے ،، بریرہؓ نے کہا کہ مجھے اس سفارش کی حاجت نہیں ،،

اللہ کے رسول ﷺ کی سیرت کا بغور مطالعہ کیا جائے تو آپ نے ھر حیثیت میں کچھ کام کیئے ھیں جن کو فقہاء صحابہ بہت اچھی طرح سمجھتے تھے کہ یہ کس حیثیت میں دیئے جا رھے ھیں ، جو حکم آسمانی وحی یا غیبیات یا عبادات وغیرہ سے متعلق تھے وہ بطور نبی تھے ،مگر بعض اقدامات Administrative تھے جن کو آنے والا ایدمنسٹریٹر حالات کے مطابق تبدیل بھی کر سکتا تھا - اگر آپ نے بطور جج ایک فیصلہ دیا ھے اور بعد میں اس مقدمے کے نئے پہلو سامنے آ گئے ھیں تو بعد والا چیف جسٹس اس فیصلے کو تبدیل بھی کر سکتا ھے، غزوہ خندق میں آپ ﷺ نے یہود کو بطورِخراج مدینے کی زراعت کی آدھی آمدنی دینےکی پیشکش بطور نبی نہیں کی تھی ، اسی لئے انصار کی مخالفت کے بعد اس پیشکش کو ختم کر دیا تھا - حضرت عمرؓ نے اپنے دورِ خلافت میں نبئ کریم ﷺ کی طرف سے یہود کو دیئے جانے والے وظائف کی دستاویز ھی پھاڑ دی تھی کہ اللہ کے رسولﷺ نے اس وقت کے حالات کے مطابق فیصلہ کیا تھا ، اب اللہ نے ھمیں تم سے غنی کر دیا ھے ، آئندہ کوئی وظیفہ تمہیں نہیں ملے گا -

پھر نیچے اپنے کومنٹ میں لکھتے ہیں کہ

دیکھیں میں آپ کو مثال سے بات سمجھاتا ھوں ، فرض کریں کہ اللہ کے رسول ﷺ ایک کھیت کے پاس سے گزرے جہاں کچھ لوگ فصل کو کھیتوں سے منتقل کر رھے تھے ، کھیت میں پانچ بندے تھے 4 مرد اور ایک عورت ، ایک بہت بڑا بوریا یا ترنگڑ یا سلیتا بھر کر گدھے پر رکھا جا رھا تھا ، آپ ﷺ نے دعا سلام کے بعد فرمایا کہ دو دو مرد دونوں طرف ھو جاؤ اور اس عورت کو پیچھے کی طرف کر دو - یہ ایک بدیہی سی بات ھے کہ زیادہ وزن مردوں پر منتقل ھو جائے گا اور عورت کا بس ذرا سا سہارا بھی کافی ھو گا - یہ ایک کسان کا دوسرے کسانوں کو مشورہ ھے ، ایک رسول ﷺ کا اپنے امتیوں سے خطاب نہیں کہ آئندہ اسی کو سنت قرار دے دیا جائے کہ گدھے پر بوجھ لادتے وقت دو دو مرد دونوں طرف اور ایک عورت پیچھے کی طرف ھو - اور عورت کو گھر کے سارے کام چھڑا کر صرف اس سنت کو پورا کرنے کے لئے کھیت میں بلا لیا جائے ،، اس پر قیاس کر لیں کہ آپ نے ایک پڑوسی کو اگر پرنالہ کسی خاص طرف رکھنے کا مشورہ دیا ھے تو یہ ایک پڑوسی کا پڑوسی کو مشورہ ھے ، اس کو حدیث یا سنت بنا کر پوری امت پر لاگو کر دینا کہ وہ پرنالے کو ایک خاص طرف رکھیں زیادتی ھو گی ، یہی وجہ ھے کہ رسول اللہ ﷺ کے ایک پڑوسی سے پوچھا گیا کہ آپ رسول اللہ ﷺ کی کوئی بات بیان کریں یا سنائیں ،، انہوں نے جواب دیا کہ رسول اللہ ﷺ میرے پڑوسی تھے اور میرے ساتھ آپ ﷺ نے ڈھیر ساری باتیں کی ھیں مگر وہ باتیں تو میرے ساتھ میرے لئے تھیں ،، یعنی میں ان کو بیان کر کے ساری امت کے لئے احکامات کی شکل کیسے دے سکتا ھوں ؟ نبئ کریم ﷺ نے ہفتوں کے سفرِھجرت میں حضرت ابوبکرؓ سے ڈھیروں باتیں کی ھونگی مگر وہ ایک دوست کی دوست سے باتیں تھیں ، حضرت صدیقؓ نے ان کی خبر بھی کسی کو نہیں لگنے دی، حضرت زیدؓ سے سفرِ طائف میں سیکڑوں باتیں کی ھونگی ،بھلا کتنی معلوم ھوئیں لوگوں کو ؟ یہ حدیثوں کا رواج مدینے میں ھی ھوا ھے کیا اللہ کے رسول ﷺ نے بولنا مدینے میں آ کر ھی شروع کیا تھا ، مکے کے 13 سالوں کی کتنی حدیثیں ھیں ؟ 114 میں سے 86 سورتیں مکی ھیں ، کیا ان 86 سورتوں کو تشریح کی ضرورت نہیں تھی ؟ اس کے بعد علماء خوردبینیں لے کر بیٹھ گئے کہ کس طرح ان روایات کو امت کی بیڑیوں اور طوقوں میں تبدیل کیا جا سکتا ھے

اب بات کو ان کو کیا جواب دیا جانا چاہیے-

@خضر حیات
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اب جب کسی کو حدیث کے معنی و مفہوم کا ہی معلوم نہ ہو اور وہ اپنی اٹکل پچّو مارے جائے تو یہی کچھ صادر ہو گا، جو صاحب سے ہوا ہے!
صاحب کو حدیث کی اصطلاحی تعریف کا ہی علم نہیں!
حدیث ہر وہ قول فعل یا تقریر ہے، جو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب کی جائے!
یہ انتساب صحیح بھی ہو سکتا ہے غلط بھی!
جو ثابت ہو جائے وہ مقبول حدیث ہے،
اب ان احادیث میں ہر ایک اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم نہیں! بلکہ اس میں حکم مناہی بھی ہے ترغیب تحذیر بھی اور مباح کا بیان بھی!
اب جسے اتنی سمجھ نہ آئے اور وہ اپنی اٹکل سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کو بغیر کسی دلیل کے کسی شخص یا کسی وقت کے لئے خاص کرنے اٹکل پچو مارے تو کیا کیا جاسکتا ہے!
اب یہ منچلے صاحب کہنا چاہتے ہیں، کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جو اسوۂ اپنے پڑوسی، اپنے دوست اور اپنی اولاد، اپنی ازواج کے ساتھ تھا، وہ تونبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ذاتی مسئلہ ہے، اس سے امت کا کیا لینا دینا!
معلوم ہوتا ہے کہ یہ احادیث ہی نہیں بلکہ صاحب قرآن کی آیات کو جھٹلانے کا بھی عزم کیئے ہوئے ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا (سورة الأحزاب 21)

ان صاحب نے ایک بات اور نرالی فرمائی ہے:
ایک جگہ آپ ﷺ نے لوگوں کو کھجوروں کو نر کھجور سے کراس بریڈنگ کراتے دیکھا ، یعنی نر کھجور کے گچھے کومادہ کھجور کے گچھے پر چھڑکتے دیکھا ،، آپ ﷺ نے اس دوست کو جو بعد میں راوی بنے ، ایک چلتی سی بات کی کہ اگر یہ ایسا نہ کریں تو بھلا کیا ھو؟ آپ ﷺ نے اس بندے کو یہ نہیں کہا کہ جا کر ان کو منع کرو کہ ایسا مت کرو اس سے کچھ حاصل نہیں ھوتا ، ظاھر ھے وہ لوگ اسباب اختیار کر رھے تھے اور اسباب اختیار کرنے کا حکم اللہ پاک نے دیا ھے ، اور رسول اللہ ﷺ نے بھی دیا ھے ، آخر جانور کی جانور سے بھی تو جفتی کراتے ھی ھیں ،پیڑ کی پیڑ سے جفتی میں بھلا کیا حرج ھو سکتی تھی -
مگر اس دوست نے جب اس کو بطور حدیث جا کر بیان کر دیا تو صحابہؓ نے اس کو حکم سمجھ کر کھجوروں کو اللہ توکل چھوڑ دیا ،
اب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو حدیث نہیں کہا جائے گا تو کیا کہیں؟
خیر ! کسی نےخوب کہا ہے کہ:
عقلمدی کی تو حدود ہوتی ہیں مگر بیوقوفی و جہالت کی حد نہیں ہوا کرتی!
 
Last edited:

وجاہت

رکن
شمولیت
مئی 03، 2016
پیغامات
421
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
45
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اب جب کسی کو حدیث کے معنی و مفہوم کا ہی معلوم نہ ہو اور وہ اپنی اٹکل پچّو مارے جائے تو یہی کچھ صادر ہو گا، جو صاحب سے ہوا ہے!
صاحب کو حدیث کی اصطلاحی تعریف کا ہی علم نہیں!
حدیث ہر وہ قول فعل یا تقریر ہے، جو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب کی جائے!
یہ انتساب صحیح بھی ہو سکتا ہے غلط بھی!
جو ثابت ہو جائے وہ مقبول حدیث ہے،
اب ان احادیث میں ہر ایک اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم نہیں! بلکہ اس میں حکم مناہی بھی ہے ترغیب تحذیر بھی اور مباح کا بیان بھی!
اب جسے اتنی سمجھ نہ آئے اور وہ اپنی اٹکل سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کو بغیر کسی دلیل کے کسی شخص یا کسی وقت کے لئے خاص کرنے اٹکل پچو مارے تو کیا کیا جاسکتا ہے!
اب یہ منچلے صاحب کہنا چاہتے ہیں، کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جو اسوۂ اپنے پڑوسی، اپنے دوست اور اپنی اولاد، اپنی ازواج کے ساتھ تھا، وہ تونبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ذاتی مسئلہ ہے، اس سے امت کا کیا لینا دینا!
معلوم ہوتا ہے کہ یہ احادیث ہی نہیں بلکہ صاحب قرآن کی اس آیات کو جھٹلانے کا بھی عزم کیئے ہوئے ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا (سورة الأحزاب 21)

ان صاحب نے ایک بات اور نرالی فرمائی ہے:


اب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو حدیث نہیں کہا جائے گا تو کیا کہیں؟
خیر ! کسی نےخوب کہا ہے کہ:
عقلمدی کی تو حدود ہوتی ہیں مگر بیوقوفی و جہالت کی حد نہیں ہوا کرتی!

@ابن داود بھائی آج ہی ان صاحب کے بلاگ کا بھی انکشاف ہوا ہے -

لنک

 

وجاہت

رکن
شمولیت
مئی 03، 2016
پیغامات
421
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
45
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اب جب کسی کو حدیث کے معنی و مفہوم کا ہی معلوم نہ ہو اور وہ اپنی اٹکل پچّو مارے جائے تو یہی کچھ صادر ہو گا، جو صاحب سے ہوا ہے!
صاحب کو حدیث کی اصطلاحی تعریف کا ہی علم نہیں!
حدیث ہر وہ قول فعل یا تقریر ہے، جو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب کی جائے!
یہ انتساب صحیح بھی ہو سکتا ہے غلط بھی!
جو ثابت ہو جائے وہ مقبول حدیث ہے،
اب ان احادیث میں ہر ایک اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم نہیں! بلکہ اس میں حکم مناہی بھی ہے ترغیب تحذیر بھی اور مباح کا بیان بھی!
اب جسے اتنی سمجھ نہ آئے اور وہ اپنی اٹکل سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کو بغیر کسی دلیل کے کسی شخص یا کسی وقت کے لئے خاص کرنے اٹکل پچو مارے تو کیا کیا جاسکتا ہے!
اب یہ منچلے صاحب کہنا چاہتے ہیں، کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جو اسوۂ اپنے پڑوسی، اپنے دوست اور اپنی اولاد، اپنی ازواج کے ساتھ تھا، وہ تونبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ذاتی مسئلہ ہے، اس سے امت کا کیا لینا دینا!
معلوم ہوتا ہے کہ یہ احادیث ہی نہیں بلکہ صاحب قرآن کی آیات کو جھٹلانے کا بھی عزم کیئے ہوئے ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا (سورة الأحزاب 21)

ان صاحب نے ایک بات اور نرالی فرمائی ہے:


اب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو حدیث نہیں کہا جائے گا تو کیا کہیں؟
خیر ! کسی نےخوب کہا ہے کہ:
عقلمدی کی تو حدود ہوتی ہیں مگر بیوقوفی و جہالت کی حد نہیں ہوا کرتی!
میں آپ سے متفق ہوں لیکن ساتھ ساتھ یہ بھی کہتا چلوں -

اصحاب رسول صلی الله علیہ وسلم سے نبی صلی الله علیہ وسلم نے بہت سی باتیں کی ہوں گی مثلا جنگی تدبیریں منافقین کون کون ہو سکتے ہیں ان پر نظر وغیرہ ان کی تفصیل ہم تک نہیں آئی اور بعض اصحاب رسول مثلا حذیفہ بن یمان رضی الله عنہ کو نبی صلی الله علیہ وسلم کا راز دان کہا جاتا ہے-

لیکن وہ علم جو ایک انسان کی اخروی فلاح کے لئے ضروری ہو وہ ہم تک پہنچ گیا ہے اس پر رسول الله نے حجه الوداع پر الله کو گواہ کیا ہے

حدیث میں نسخ بھی ہے منسوخ بھی ہے اختلاف میں تطبیق بھی ہے اس کا علم بہت پرانا ہے کوئی آج کل یہ سوچ پیدا نہیں ہوئی شروع سے اس کا ذکر ہے اور علماء نے اس پر کتابیں لکھ دی ہیں جن میں اس قسم کے مسائل کی تفصیل ہے

انسانی ترقی کے ساتھ مسائل تبدیل ہوتے رہتے ہیں ان میں اجتہاد کیا جاتا ہے بعض علاقوں میں جو مسلمانوں کے پاس ہیں اس ترقی کا گزر نہیں ہوا لہذا وہاں کے علماء کے فتوی وہی ہیں جو آج سے ٥٠٠ سال پہلے کے ہیں ظاہر ہے جب اپ کو نئے مسائل کا علم نہیں ہو گا تو ان علاقوں کے فتوووں کا جب متمدن علاقوں کے لوگوں کو علم ہوتا ہے تو دین ایک قدیم چیز لگتا ہے مثلا افغانستان کے بہت سے علاقے ترقی سے دور ہیں وہاں کے لوگ جب ہمارے پاکستان کے مدرسوں میں چھا گئے تو جن مسائل پر جدید انداز میں تحقیق ہو رہی تھی وہ قدامت کی طرف چلی گئی ان مدرسوں کے فارغ التحصیل علماء پاکستان میں پھیل گئے اور اب ٥٠٠ سال پرانا انداز ہمارے مذھب میں آ گیا - جو پڑھے لکھے لوگ ہیں چونکہ وہ دین پڑھتے ہی نہیں ان کے لئے یہ مذھب کی عملی شکل میں تبدیلی ایک درد سر ہے کیونکہ ان کوصحیح جواب نہیں مل رہے اور اسی لئے اس وقت پاکستان میں الحاد پھیل رہا ہے -اس پڑھے لکھے طبقہ کے پاس ان مولویوں کے علاوہ کیا آپشن ہے کہ وہ دین کو سمجھ سکیں صرف یہ کہ ذاتی مطالعہ کریں ورنہ اسلامی فورم ہوں یا دوسری اسلامی ویب سائٹ کسی پر بھی مذھب کی وہ شکل نہیں ملتی جس کی دور جدید میں ضرورت ہے

لہذا یہ سوالات اٹھ رہے ہیں اور اس قسم کے مزید اٹھائیں گے یہاں تک کہ معاشرہ دو حصوں میں بٹ جائے گا ایک الٹرا ماڈرن ہوں گے اور دوسرے قدامت پسند - اس چیز کو روکنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ مدرسوں کو کنٹرول کیا جائے ان کا نصاب بدلا جائے

یہ معاشرتی تبدیلی لانا ضرروری ہے یہ اس سے الگ بات ہے جو ہمارا مدعا ہے - اکثر مدرسوں کا عقیدہ بھی خراب ہے-

و الله اعلم

یہ ایک راۓ ہے - اس سے اختلاف کیا جا سکتا ہے -
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
اب بات کو ان کو کیا جواب دیا جانا چاہیے-
ان فلسفوں سے وہی پریشان ہوگا ، جو سیرت رسول یا حالات صحابہ سے واقف نہیں ، مبادیات دین سے اس کا لینا دینا نہیں ۔
ڈار کی پوری تقریر ایک جملے کی مار ہے :
جب صحابہ نے دین سمجھا ہے ، اس کو نقل کیا ہے ، تو پھر چودھویں پندرھویں صدی کا کوئی جاہل کس ذریعہ سے اس کو فقط مشورہ یا ذاتی معاملہ قرار دے کر دین سے باہر کرسکتا ہے ؟
حضور کا ہر قول و فعل حتی کہ خاموشی بھی دین ہے ۔الا کہ خصوصیت کی واضح دلیل موجود ہو ۔
جو مشورہ تھا اس کے متعلق مذکورہ ہے کہ وہ مشورہ تھا ، جو ذاتی معاملہ تھا ، اس کے متعلق مذکور ہے کہ وہ ذاتی معاملہ تھا ۔
میں آپ سے متفق ہوں لیکن ساتھ ساتھ یہ بھی کہتا چلوں -

اصحاب رسول صلی الله علیہ وسلم سے نبی صلی الله علیہ وسلم نے بہت سی باتیں کی ہوں گی مثلا جنگی تدبیریں منافقین کون کون ہو سکتے ہیں ان پر نظر وغیرہ ان کی تفصیل ہم تک نہیں آئی اور بعض اصحاب رسول مثلا حذیفہ بن یمان رضی الله عنہ کو نبی صلی الله علیہ وسلم کا راز دان کہا جاتا ہے-

لیکن وہ علم جو ایک انسان کی اخروی فلاح کے لئے ضروری ہو وہ ہم تک پہنچ گیا ہے اس پر رسول الله نے حجه الوداع پر الله کو گواہ کیا ہے

حدیث میں نسخ بھی ہے منسوخ بھی ہے اختلاف میں تطبیق بھی ہے اس کا علم بہت پرانا ہے کوئی آج کل یہ سوچ پیدا نہیں ہوئی شروع سے اس کا ذکر ہے اور علماء نے اس پر کتابیں لکھ دی ہیں جن میں اس قسم کے مسائل کی تفصیل ہے

انسانی ترقی کے ساتھ مسائل تبدیل ہوتے رہتے ہیں ان میں اجتہاد کیا جاتا ہے بعض علاقوں میں جو مسلمانوں کے پاس ہیں اس ترقی کا گزر نہیں ہوا لہذا وہاں کے علماء کے فتوی وہی ہیں جو آج سے ٥٠٠ سال پہلے کے ہیں ظاہر ہے جب اپ کو نئے مسائل کا علم نہیں ہو گا تو ان علاقوں کے فتوووں کا جب متمدن علاقوں کے لوگوں کو علم ہوتا ہے تو دین ایک قدیم چیز لگتا ہے مثلا افغانستان کے بہت سے علاقے ترقی سے دور ہیں وہاں کے لوگ جب ہمارے پاکستان کے مدرسوں میں چھا گئے تو جن مسائل پر جدید انداز میں تحقیق ہو رہی تھی وہ قدامت کی طرف چلی گئی ان مدرسوں کے فارغ التحصیل علماء پاکستان میں پھیل گئے اور اب ٥٠٠ سال پرانا انداز ہمارے مذھب میں آ گیا - جو پڑھے لکھے لوگ ہیں چونکہ وہ دین پڑھتے ہی نہیں ان کے لئے یہ مذھب کی عملی شکل میں تبدیلی ایک درد سر ہے کیونکہ ان کوصحیح جواب نہیں مل رہے اور اسی لئے اس وقت پاکستان میں الحاد پھیل رہا ہے -اس پڑھے لکھے طبقہ کے پاس ان مولویوں کے علاوہ کیا آپشن ہے کہ وہ دین کو سمجھ سکیں صرف یہ کہ ذاتی مطالعہ کریں ورنہ اسلامی فورم ہوں یا دوسری اسلامی ویب سائٹ کسی پر بھی مذھب کی وہ شکل نہیں ملتی جس کی دور جدید میں ضرورت ہے

لہذا یہ سوالات اٹھ رہے ہیں اور اس قسم کے مزید اٹھائیں گے یہاں تک کہ معاشرہ دو حصوں میں بٹ جائے گا ایک الٹرا ماڈرن ہوں گے اور دوسرے قدامت پسند - اس چیز کو روکنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ مدرسوں کو کنٹرول کیا جائے ان کا نصاب بدلا جائے

یہ معاشرتی تبدیلی لانا ضرروری ہے یہ اس سے الگ بات ہے جو ہمارا مدعا ہے - اکثر مدرسوں کا عقیدہ بھی خراب ہے-

و الله اعلم

یہ ایک راۓ ہے - اس سے اختلاف کیا جا سکتا ہے -
علم کو چھوڑ کر جہالت کی طرف جائیں تو اسی طرح کی پریشانیاں لاحق ہوتی ہیں ۔
دین افسانہ نگاری کا نام نہیں ، قرآں وسنت کی واضح نصوص ہیں ، پھر یہ کل نازل نہیں ہوئے ، ان کے مطابق چودہ سو سال کا عملی نمونہ موجود ہے ۔
قرآن وسنت نے واضح اصول دے دیے ہیں ، قیامت تک لیے تمام مسائل کا حل ان میں موجود ہے ، حالات کے بدلنے سے فتوی بدل جاتا ہے ، لیکن قرآن کی آیت یا حدیث نہیں بدلتی اور نہ ہی اس کی حیثیت تبدیل ہوسکتی ہے ۔ کہ یہ ذاتی تھی اور وہ اجتماعی تھی ۔
قرآن وسنت کی نصوص کا رد اور اس کی تاویل ہمیشہ ان لوگوں نے کی ہے ، جنہوں نے اصل کسی اور چیز کو مان کر قرآن وسنت کو اس کے مطابق کرنے کی کوشش کی ہے ۔ ورنہ جو قرآن وسنت کو اصل مان لیتا ہے ، اس کے ہاتھوں پر سورج چاند رکھ دیے جائیں ، وہ قرآن وسنت کی تبدیلی یا ان کے احکامات کی تعطیل یا تاویل کی بات نہ کرے گا ۔
منکرین حدیث ، روشن خیال ، اور قسم کے سارے للڑ پنچڑ فضول لوگوں نے مغربی لٹریچر کا مطالعہ کیا ہے ، اس کی تہذیب و ثقافت ان کے رگ و پے میں بس گئی ہے ، اب یہ مڑ کر اسلامی ثقافت کی طرف دیکھتے ہیں توانہیں وہ اجنبی اجنبی لگتی ہے ، اس میں تشدد نظر آتا ہے ، اس میں ظلم نظر آتا ہے ، اس میں عدل نہیں ہے ، مساوات نہیں ہے ، لہذا اب کھلے کافر ہونے کی بجائے ، آہستہ آہستہ اسلام مختصر کرکے اس کا ’ روشن خیال ایڈیشن ‘ تیار کرنے کی دھن میں ہیں ۔
لیکن انہیں لوگوں کے دل میں اگر قرآن وسنت کی تعظیم ہوتی ، سیرت رسول اور صحابہ کرام کی زندگیوں کا تسلسل سے مطالعہ کرتے ، تو یقینا مغربی ثقافت کو دیکھتے ہی ، یہ ابکائیاں کرتے ، واپس لوٹ آتے ۔ اور انہیں اپنے مسلمان ہونے پر فخر ہوتا ، ایک قدیم زندہ تہذیب کے وارث ہونے پر ان کا سر اونچا ہوتا ، قرآن و سنت کو چھوڑنے کی بجائے غیروں کی ثقافت پر دو حرف بھیجتے ، اور اطمینان کے ساتھ ایمان و ایقان کی زندگی گزارتے ۔
خدارا ! کوئی بھی ذہن بنانے سے پہلے فیصلہ کرلیں ، آپ کے نزدیک حاکم کیا چیز ہے ؟ قرآن و سنت اور اس کے حاملین یا مغربی تہذیب اور اس کے چٹے بٹے ۔
میری بات ذہن میں رکھ لیں ، اگر آپ کے دل میں مغرب تہذیب کی برتری کا چور ہے ، تو احادیث اور راویوں پر الزام تراشی یہ سارے ڈھونگ ہیں ، یہ ذہنیت تمہیں قرآن کا منکر بنا کر چھوڑے گی ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
@ابن داود بھائی آج ہی ان صاحب کے بلاگ کا بھی انکشاف ہوا ہے -

لنک

آپ بہانے بہانے سے یہاں جو مرضی لنک دیں ، لیکن مجھے اسلام کی حقانیت ، اور منہج سلف صالحین کی صداقت پر اس قدر اطمینان اور یقین ہے کہ ساری دنیا کے منکر الٹے لٹک جائیں ، ایک ’ سچا مسلمان ‘ ان پر دو حرف بھیج کر آگے گزر جائے گا ۔
ان ’ فکری حرامزادوں ‘ کے دام میں وہی آتا ہے ، جو اسلام کے پانچ اور ایمان کے چھ ارکان کی حقیقت سے تو واقف نہیں ہوتا البتہ ’ معلومات ‘ کے نام پر سارے جہان کا کوڑا کرکٹ چھاننے کو وہ ’ علم و تحقیق ‘ کی معراج سمجھتا ہے ۔
 

وجاہت

رکن
شمولیت
مئی 03، 2016
پیغامات
421
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
45
آپ کے یہ دو جملے ہی جواب کے لئے کافی تھے - سو فیصد متفق ہوں آپ سے -

قرآن وسنت نے واضح اصول دے دیے ہیں ، قیامت تک لیے تمام مسائل کا حل ان میں موجود ہے ، حالات کے بدلنے سے فتوی بدل جاتا ہے ، لیکن قرآن کی آیت یا حدیث نہیں بدلتی اور نہ ہی اس کی حیثیت تبدیل ہوسکتی ہے ۔ کہ یہ ذاتی تھی اور وہ اجتماعی تھی ۔
 

وجاہت

رکن
شمولیت
مئی 03، 2016
پیغامات
421
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
45
آپ بہانے بہانے سے یہاں جو مرضی لنک دیں ، لیکن مجھے اسلام کی حقانیت ، اور منہج سلف صالحین کی صداقت پر اس قدر اطمینان اور یقین ہے کہ ساری دنیا کے منکر الٹے لٹک جائیں ، ایک ’ سچا مسلمان ‘ ان پر دو حرف بھیج کر آگے گزر جائے گا ۔
ان ’ فکری حرامزادوں ‘ کے دام میں وہی آتا ہے ، جو اسلام کے پانچ اور ایمان کے چھ ارکان کی حقیقت سے تو واقف نہیں ہوتا البتہ ’ معلومات ‘ کے نام پر سارے جہان کا کوڑا کرکٹ چھاننے کو وہ ’ علم و تحقیق ‘ کی معراج سمجھتا ہے ۔
یہ میرا الله بہتر جانتا ہے کہ میں بہانے سے یہاں لنک دیتا ہوں یا نہیں - @خضر حیات بھائی نہیں جان سکتے -

باقی آپ نے جو لفظ استعمال کیا ہے -
’ فکری حرامزادوں ‘
جس پر آپ نے یہ لفظ استعمال کیا ہے وہ
امام و خطیب مسجد مرکز پاکستان ابوظہبی متحدہ عرب امارات میں ہے
- اور وہاں بھی بہت بڑے علماء موجود ہیں - آپ سے بھی بڑے - وہاں کی حکومت نے کیسے ایک ایسے بندے کو امامت کی اجازت دی ہوئی ہے جس کا شمار آپ کے بقول
’ فکری حرامزادوں ‘ میں ہوتا ہے -

@خضر حیات بھائی میں آپ سے توقع بھی نہیں کر سکتا کہ آپ ایسا لفظ استعمال کریں گے - میں نے اس فورم پر اگر سب سے ٹھنڈا مزاج اور دوسروں کی بات کو سننے والا اور سمجھنے والا آپ کو پایا ہے کسی اور کو نہیں پایا - ابھی تک

ہم انشاءللہ ان امام صاحب کے اپنے بلاگ پر ان کا رد کریں گے - اور میں نے بھی یہ بلاگ کل ہی دیکھا ہے - کسی کو بھی جواب دینے کے لئے اس کی پوری تحریروں کو پڑھنا پڑتا ہے اور اس کا رد علمی طور پر کرنا ہوتا ہے - مختلف القابات یا گالیوں سے جواب نہیں دیا جاتا -

شیعہ فورم پر کیا ہوتا ہے - آپ کو مجھ سے زیادہ پتا ہے - اگر ہم بھی وہی کریں گے جو وہ کر رہے ہیں تو ان اور ہم میں کیا فرق رہ جایے گا-

الله ہمارے دلوں کے حال بہتر جانتا ہے -
 

وجاہت

رکن
شمولیت
مئی 03، 2016
پیغامات
421
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
45
میری بات ذہن میں رکھ لیں ، اگر آپ کے دل میں مغرب تہذیب کی برتری کا چور ہے ، تو احادیث اور راویوں پر الزام تراشی یہ سارے ڈھونگ ہیں ، یہ ذہنیت تمہیں قرآن کا منکر بنا کر چھوڑے گی ۔

کیا یہ احادیث اور راویوں پر الزام تراشی یہ سارے ڈھونگ ہیں- میرے بھائی جب تک ہم محدثین کی کتابوں کو پڑھیں گے نہیں ہمارے علم میں کیسے اضافہ ہو - نیچے کچھ مثالیں دے رہا ہوں - کیا یہ پڑھنا اور یہاں پیش کرنا الزام تراشی اور ڈھونگ ہے - میں آپ کی بات سے اتفاق نہیں کرتا -


عبدالرحمن معلمی کا شمار اہلحدیث کی دنیا میں جید ترین علماء میں ہوتا ہے۔ ملتقی اہل الحدیث میں ان کا تعارف کچھ یوں ہے-




هذه ترجمة مختصرة للحبر الرباني والناقد المحدث شيخ نقاد العصر الحديث الزاهد البحاثة الشيخ عبد الرحمن بن يحيى المعلمي اليماني


ایک حنفی عالم، محمد زاہد بن حسن کوثری، نے ابو حنیفہ رحمہ الله کے دفاع میں ایک کتاب لکھی۔ اور اس میں اہلسنت کے علم الرجال کے مشہور عالم، ابن حبان رحمہ الله کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔

اس کا جواب معلمی نے دیا-

اپنی کتاب، التنكيل بما في تأنيب الكوثري من الأباطيل، جلد ۲، صفحہ ٦٦٦-٦٦۷،میں فرماتے ہیں

لنک​



وأما التنديد بابن حبان فذكر الأستاذ أمورا
منها أن ابن الصلاح وصفه بأنه غلط الغلط الفاحش في تصرفه.
أقول: ابن الصلاح ليس منزلته أن يقبل كلامه في مثل ابن حبان بلا تفسير،والمعروف مما ينسب ابن حبان فيه إلى الغلط أنه يذكر بعض الرواة في (الثقات) ثم يذكرهم في (الضعفاء) ، أو يذكر الرجل مرتين أو يذكره في طبقتين ونحو ذلك. وليس بالكثير وهو معذور في عامة ذلك وكثير من ذلك أو ما يشبهه قد وقع لغيره كابن معين والبخاري



جہاں تک ابن حبان کی مذمت میں جو باتیں استاد کوثری نے کی ہیں، ان میں ایک یہ ہے کہ ابن صلاح نے ان کے بارے میں کہا ہے کہ وہ شدید ترین غلطیاں کرتے ہیں
میں یہ کہتا ہوں: کہ ابن صلاح ایسی منزلت کے حامل نہیں کہ ان کی بات بغیر وجہ بتائے مان لی جائے۔ اور جو مشہور بات ابن حبان سے منسوب ہے، وہ یہ ہے کہ وہ اس طرح کی غلطی کرتے ہیں کہ ایک راوی کو الثقات میں درج کرتے، اور پھر اس کا تذکرہ الضعفاء میں کرتے ۔ یا پھر ایک راوی کا ۲ بار ذکر کر دیتے یا پھر ۲ طبقوں میں ذکر کر دیتے۔ یہ کثیر مواقع پر نہیں ہے، اور عمومی طور پر انہیں معذور سمجھا جائے گا- اور اس معاملے میں کثیر مواقع پر یہ کام دیگر لوگوں سے ہوا ہے جیسا کہ
ابن معین یا بخاری

ااااااااااااااااااا

رہی یہ بات کہ امام بخاری نے تاریخ میں غلطیاں کی ہیں تو اس میں المعلمی منفرد نہیں ہیں یہ بات ابن ابی حاتم نے بھی کی ہے- بیان خطا البخاری نام کی کتاب موجود ہے



ابن أبي حاتم الرازي – أبو زرعة الرازي نے امام بخاری کی غلطیاں گنوائی ہیں کیونکہ ان کے نزدیک امام صاحب اس علم میں پکے نہیں تھے
اس کی تفصیل آپ ان کی کتاب میں پڑھ سکتے ہیں -

اااااااااااااااااااااا


امام ابی حاتم المتوفی ٢٧٧ ھ اور صحیح کی روایت

العلل أز ابن أبي حاتم میں ہے کہ ابن ابی حاتم نے اپنے باپ سے سوال کیا

وسألتُ أَبِي عَنْ حديثٍ رَوَاهُ مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ أَبِي كَثِيرٍ ، عَنْ حُمَيد ، عَنْ أَنَسٍ، عن النبيِّ (ص) قَالَ: غَدْوَةٌ فِي سَبيلِ اللهِ أَوْ رَوْحَةٌ خَيْرٌ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيها، وَلَوْ أنَّ امرَأةً مِنْ نِساءِ أهلِ الجَنَّةِ اطَّلَعَتْ إلَى الأَرضِ، لأَضَاءَتْ مَا بَيْنَهُمَا … الحديثَ؟ قَالَ أَبِي: حدَّثنا الأَنْصَارِيُّ ، عَنْ حُمَيد، عَنْ أَنَسٍ، مَوْقُوفٌ قَالَ أَبِي: حديثُ حُمَيد فِيهِ مِثْلُ ذا كثيرٌ؛ واحدٌ عَنْهُ يُسنِدُ، وآخَرُ يُوقِفُ


میں نے باپ سے سوال کیا حدیث جس کو روایت کیا ہے
مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ أَبِي كَثِيرٍ ، عَنْ حُمَيد ، عَنْ أَنَسٍ نے نبی صلی الله علیہ وسلم سے کہ الله کی راہ میں سفر دنیا اور جو اس میں سے سے بہتر ہے اور اگر جنت کی کوئی عورت زمین کی طرف جھانک بھی لے تو زمین و آسمان اپنی تمام وسعتوں کے ساتھ منور ہو جائیں …. حدیث؟ میرے باپ نے کہا … یہ انس پر موقوف ہے اور کہا حمید کی اس طرح کی (غلطیوں کی) اور مثالیں (بھی) ہیں اس (روایت) کا ایک (حصہ)مسند ہے اور دوسرا موقوف ہے

اسی طرح دوسرے مقام پر العلل میں ابن ابی حاتم کہتے ہیں

وسألتُ أَبِي عَنْ حديثٍ رَوَاهُ حُجَين اليَمَاميُّ ، عن عبد العزيز المَاجِشُونِ ، عَنْ حُمَيدٍ الطَّوِيل ، عَنْ أنس ابن مَالِكٍ؛ قَالَ: قَالَ رسولُ اللَّهِ (ص) : والَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ ، لَوِ اطَّلَعَتِ امْرَأَةٌ مِنْ نِسَاءِ الجَنَّةِ عَلَى أَهْلِ الأَرْضِ، لَأَضَاءَتْ مَا بَيْنَهُمَا، ولَمَلَأَتْ مَا بَيْنَهُمَا رِيحًا، ولَنَصِيفُهَا عَلَى رَأْسِهَا خَيْرٌ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا؟ قَالَ أَبِي: هَذَا خطأٌ؛ الصَّحيحُ: عَنْ أنسٍ، مَوْقُوفٌ



اور میں نے اپنے باپ سے سوال کیا حدیث حُجَين اليَمَاميُّ ، عن عبد العزيز المَاجِشُونِ ، عَنْ حُمَيدٍ الطَّوِيل ، عَنْ أنس ابن مَالِكٍ کی سند سے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا اگر جنت کی کوئی عورت زمین کی طرف جھانک بھی لے تو زمین و آسمان اپنی تمام وسعتوں کے ساتھ منور ہو ج اور خوشبو سے معطر ہو جائیں۔ اس کے سر کا دوپٹہ بھی دنیا اور اس کی ساری چیزوں سے بڑھ کر ہے۔ میرے باپ نے کہا یہ غلطی ہے یہ انس پر موقوف ہے

امام بخاری صحيح ميں روایت کرتے ہیں

صحيح البخاري: كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّيَرِ (بَابُ الحُورِ العِينِ، وَصِفَتِهِنَّ يُحَارُ فِيهَا الطَّرْفُ)



صحیح بخاری: کتاب: جہاد کا بیان

(باب : بڑی آنکھ والی حوروں کا بیان ‘ ان کی صفات جن کو دیکھ کر آنکھ حیران ہوگی)

2796 . قَالَ: وَسَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَرَوْحَةٌ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، أَوْ غَدْوَةٌ، خَيْرٌ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا، وَلَقَابُ قَوْسِ أَحَدِكُمْ مِنَ الجَنَّةِ، أَوْ مَوْضِعُ قِيدٍ - يَعْنِي سَوْطَهُ - خَيْرٌ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا، وَلَوْ أَنَّ امْرَأَةً مِنْ أَهْلِ الجَنَّةِ اطَّلَعَتْ إِلَى أَهْلِ الأَرْضِ لَأَضَاءَتْ مَا بَيْنَهُمَا، وَلَمَلَأَتْهُ رِيحًا، وَلَنَصِيفُهَا عَلَى رَأْسِهَا خَيْرٌ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا»

حکم : صحیح

اور میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے بیان کرتے تھے کہ اللہ کے راستے میںایک صبح یا ایک شام بھی گزار دینا دنیا اور جو کچھ اس میں ہے ، سب سے بہتر ہے اور کسی کے لئے جنت میں ایک ہاتھ کے برابر جگہ بھی یا ( راوی کو شبہ ہے ) ایک قید جگہ ، قید سے مراد کوڑا ہے ، دنیا وما فیھا سے بہتر ہے اور اگر جنت کی کوئی عورت زمین کی طرف جھانک بھی لے تو زمین و آسمان اپنی تمام وسعتوں کے ساتھ منور ہو جائیں اور خوشبوسے معطر ہو جائیں ۔ اس کے سر کا دو پٹہ بھی دنیا اور اس کی ساری چیزوں سے بڑھ کر ہے ۔


یعنی ابی حاتم کے نزدیک اس روایت میں ایک مسند اور ایک موقوف روایت مل گئی ہے ایک نبی صلی الله علیہ وسلم کا قول ہے دوسرا انس کا

امام الفسوی المتوفی ٢٧٧ ھ اور صحیح کی روایت

صحيح بخاري كي بعض روایات امام بخاری کے ہم عصر محدثین کی نگاہ میں صحیح نہیں تھیں کی ایک اور مثال ہے کہ کتاب المعرفة والتاريخ از يعقوب بن سفيان بن جوان الفارسي الفسوي، أبو يوسف (المتوفى: 277هـ) ایک راوی زَيْدُ بْنُ وَهْبٍ پر کہتے ہیں

قَالَ أَبُو يُوسُفَ: وَمِنْ خَلَلِ رِوَايَةِ زَيْدٍ ما حدثنا به عمر بن حفص ابن غِيَاثٍ حَدَّثَنَا أَبِي ثنا الْأَعْمَشُ حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ وَهْبٍ حَدَّثَنَا- وَاللَّهِ- أَبُو ذَرٍّ بِالرَّبْذَةِ قَالَ: كُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمْشِي فِي حَرَّةِ الْمَدِينَةِ عِشَاءً فَلَمَّا اسْتَقْبَلَنَا أُحُدٌ فَقَالَ: يَا أَبَا ذَرٍّ مَا أحب أن أحدا ذلك لي ذهبا يَأْتِي عَلَيْهِ لَيْلَةٌ وَعِنْدِي مِنْهُ دِينَارٌ إِلَّا دِينَارًا أَرْصُدُهُ لِدَيْنٍ إِلَّا أَنْ أَقُولَ بِهِ فِي عِبَادِ اللَّهِ هَكَذَا وَهَكَذَا وَهَكَذَا- وَأَوْمَأَ بِيَدِهِ-، ثُمَّ قَالَ: يَا أَبَا ذَرٍّ. قُلْتُ: لَبَّيْكَ وَسَعْدَيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ. قَالَ: إِنَّ الْأَكْثَرِينَ هُمُ الْأَقَلُّونَ إِلَّا مَنْ قَالَ بِالْمَالِ هَكَذَا وَهَكَذَا، ثُمَّ قَالَ: مَكَانَكَ لَا تَبْرَحْ حَتَّى أَرْجِعَ إِلَيْكَ. وَانْطَلَقَ حَتَّى غَابَ عَنِّي فَسَمِعْتُ صَوْتًا فَتَخَوَّفْتُ أَنْ يَكُونَ قَدْ عَرَضَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَرَدْتُ أَنْ أَذْهَبَ، ثُمَّ تَذَكَّرْتُ قَوْلَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «لَا تَبْرَحْ» فَمَكَثْتُ، فَأَقْبَلَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ سَمِعْتُ صَوْتًا فَخَشِيتُ أَنْ يَكُونَ عَرَضَ لَكَ، فَأَرَدْتُ أَنْ آتِيَكَ، ذَكَرْتُ قَوْلَكَ «لَا تَبْرَحْ» فَقُمْتُ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ذَلِكَ جِبْرِيلُ أَتَانِي فَأَخْبَرَنِي أَنَّهُ مَنْ مَاتَ مِنْ أُمَّتِي لَا يُشْرِكْ باللَّه شَيْئًا دَخَلَ الْجَنَّةَ فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ؟ قَالَ: وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ. قَالَ الْأَعْمَشُ: قُلْتُ لِزَيْدِ بْنِ وَهْبٍ: بَلَغَنِي أَنَّهُ أَبُو الدَّرْدَاءِ. قَالَ: أَشْهَدُ لَحَدَّثَنِيهِ أَبُو ذَرٍّ بِالرَّبْذَةِ.

الفسوي کہتے ہیں کہ زید بن وھب کی خلل زدہ روایات میں سے ہے جو ہم سے عمر بن حفص ابن غِيَاثٍ اپنے باپ سے انہوں نے الْأَعْمَشُ سے انہوں نے زَيْدُ بْنُ وَهْبٍ سے روایت کیا ہے


صحيح بخاري کي روايت اسي سند سے ہے



حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ وَهْبٍ، حَدَّثَنَا وَاللَّهِ أَبُو ذَرٍّ، بِالرَّبَذَةِ قَالَ: كُنْتُ أَمْشِي مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَرَّةِ المَدِينَةِ عِشَاءً، اسْتَقْبَلَنَا أُحُدٌ، فَقَالَ: «يَا أَبَا ذَرٍّ، مَا أُحِبُّ أَنَّ أُحُدًا لِي ذَهَبًا، يَأْتِي عَلَيَّ لَيْلَةٌ أَوْ ثَلاَثٌ، عِنْدِي مِنْهُ دِينَارٌ إِلَّا أَرْصُدُهُ لِدَيْنٍ، إِلَّا أَنْ أَقُولَ بِهِ فِي عِبَادِ اللَّهِ هَكَذَا وَهَكَذَا وَهَكَذَا» وَأَرَانَا بِيَدِهِ، ثُمَّ قَالَ: «يَا أَبَا ذَرٍّ» قُلْتُ: لَبَّيْكَ وَسَعْدَيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: «الأَكْثَرُونَ هُمُ الأَقَلُّونَ، إِلَّا مَنْ قَالَ هَكَذَا وَهَكَذَا» ثُمَّ قَالَ لِي: «مَكَانَكَ لاَ تَبْرَحْ يَا أَبَا ذَرٍّ حَتَّى أَرْجِعَ» فَانْطَلَقَ حَتَّى غَابَ عَنِّي، فَسَمِعْتُ صَوْتًا، فَخَشِيتُ أَنْ يَكُونَ عُرِضَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَرَدْتُ أَنْ أَذْهَبَ، ثُمَّ ذَكَرْتُ قَوْلَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا تَبْرَحْ» فَمَكُثْتُ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، سَمِعْتُ صَوْتًا، خَشِيتُ أَنْ يَكُونَ عُرِضَ لَكَ، ثُمَّ ذَكَرْتُ قَوْلَكَ فَقُمْتُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «ذَاكَ جِبْرِيلُ، أَتَانِي فَأَخْبَرَنِي أَنَّهُ مَنْ مَاتَ مِنْ أُمَّتِي لاَ يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا دَخَلَ الجَنَّةَ» قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ، قَالَ [ص:61]: «وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ» قُلْتُ لِزَيْدٍ: إِنَّهُ بَلَغَنِي أَنَّهُ أَبُو الدَّرْدَاءِ، فَقَالَ: أَشْهَدُ لَحَدَّثَنِيهِ أَبُو ذَرٍّ بِالرَّبَذَةِ. قَالَ الأَعْمَشُ، وَحَدَّثَنِي أَبُو صَالِحٍ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، نَحْوَهُ، وَقَالَ أَبُو شِهَابٍ، عَنِ الأَعْمَشِ: «يَمْكُثُ عِنْدِي فَوْقَ ثَلاَثٍ»



امام الفسوي کے نزدیک یہ روایت خلل زدہ ہے اور اس میں غلطی زید بن وھب کی ہے –اسی سند اور متن سے امام بخاری نے اس کو لکھا ہے

یہ سب پیش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ جیسا کہ @خضر حیات بھائی نے کہا ہے کہ

احادیث اور راویوں پر الزام تراشی یہ سارے ڈھونگ ہیں ، یہ ذہنیت تمہیں قرآن کا منکر بنا کر چھوڑے گی ۔
تو بھائی بات یہ ہے اگر یہ الزام تراشی ہے تو یہ محدثین نے کی ہے لیکن انہوں نے ایک دوسسرے کو یہ نہیں کہا کہ

یہ ذہنیت تمہیں قرآن کا منکر بنا کر چھوڑے گی ۔
الله ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ اور اس پر چلنے کی توفیق عطا فرمایے- آمین ثم آمین
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
میں نے اکیلا ’ حرامزادہ ‘ نہیں کہا، ساتھ ’ فکری ‘ کا اضافہ کیا ہے ۔ اور میرے نزدیک یہ لوگ اسی لقب کے مستحق ہیں ۔
قاری حنیف ڈار کی امامت کو ساتھ ملا لیں تو یہ ساتھ لفظ ’ منافق ‘ کا بھی حقدار ہوجاتا ہے ، کئی بندوں نے اس بات کی شہادت دی ہے کہ یہ مسجد میں کچھ اور بیان کرتے ہیں ، اور فیس بک پر کچھ اور جھاڑتے ہیں ۔
راویوں پر الزام تراشی والی بات کو آپ بہت غلط لے کر گئے ہیں ، راویوں کی توثیق و تضعیف یا حدیث کی تصحیح و تضعیف کا ’ انکار حدیث ‘ سے کیا تعلق ہے ؟ محدثین کے منہج پر چلنے والوں کو ہم سر پر بٹھاتے ہیں ، یہ جو منہج محدثین کی مخالفت کرے گا ، اس کے لیے وہی خیالات جن میں سے کچھ میں اظہار کر پایا ، اور مزید آئندہ کرتا رہوں گا۔ ایسے لوگوں کے لیے کوئی نرمی نہیں ۔ إن شاء اللہ ۔
ڈار کی کئی تحریروں کا میں نے جواب لکھا ، آج تک اس نے اس پر ایک لفظ نہیں لکھا ، بلکہ مجھے ہی نہیں میری تحریروں کا لنک دینے والے کئی لوگوں کو اس نے بلاک کیا ، حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا کے متعلق جب اس کی دریدہ دہنی کی انتہا ہوئی تو میں نے اسے مباہلہ کا چیلنج دیا تھا ، آئیں بائیں شائیں کرکے نکل گیا ۔ میرے دونوں چیلنج آج بھی اس کے لیے یا اس کے کسی بھی حواری کے لیے قائم ہیں ۔
 
Top