وجاہت
رکن
- شمولیت
- مئی 03، 2016
- پیغامات
- 421
- ری ایکشن اسکور
- 44
- پوائنٹ
- 45
قاری محمد حنیف ڈار امام و خطیب مسجد مرکز پاکستان ابوظہبی متحدہ عرب امارات نے فیس بک پر اپنی ایک پوسٹ میں لکھا ہے کہ
اللہ کے رسول ﷺ میں بہت ساری حیثیتیں یکجا تھیں- آپ رسول بھی تھے ، ھیڈ آف اسٹیٹ بھی تھے- مقننہ بھی تھے ، عدلیہ یعنی سپریم کورٹ اور چیف جسٹس بھی تھے اور ایڈمنسٹریٹر اور چیف ایگزیکٹیو بھی تھے ، ایک باپ ، شوھر اور پڑوسی بھی تھے ،، ایک دوست اور تاجر بھی تھے -
اگر آپ ﷺ نے کسی کو بطور دوست کوئی مشورہ دیا ھے تو وہ اسی دوست کو دیا ھے ، اس کی نفسیات اور خاندانی ،معاشی بیک گراؤنڈ کو دیکھ کر دیا ھے- بطور دین نہیں دیا کہ وہ اب اس کی تبلیغ بھی کرے کہ سب لوگ بس اسی مشورے پر عمل کریں اگرچہ ان کے معاملات میں زمین و آسمان اور مشرق و مغرب کا فرق ھو - یہ بس ایک دوست کا دوست کو مشورہ تھا ،مگر جب دوست نے آپ ﷺ کے وصال کے بعد یہ مشورہ بطور حدیث کسی کو بیان کیا تو یار لوگوں نے اس کو دین بنا کر سب پر لاگو کر دیا -
ایک جگہ آپ ﷺ نے لوگوں کو کھجوروں کو نر کھجور سے کراس بریڈنگ کراتے دیکھا ، یعنی نر کھجور کے گچھے کومادہ کھجور کے گچھے پر چھڑکتے دیکھا ،، آپ ﷺ نے اس دوست کو جو بعد میں راوی بنے ، ایک چلتی سی بات کی کہ اگر یہ ایسا نہ کریں تو بھلا کیا ھو؟ آپ ﷺ نے اس بندے کو یہ نہیں کہا کہ جا کر ان کو منع کرو کہ ایسا مت کرو اس سے کچھ حاصل نہیں ھوتا ، ظاھر ھے وہ لوگ اسباب اختیار کر رھے تھے اور اسباب اختیار کرنے کا حکم اللہ پاک نے دیا ھے ، اور رسول اللہ ﷺ نے بھی دیا ھے ، آخر جانور کی جانور سے بھی تو جفتی کراتے ھی ھیں ،پیڑ کی پیڑ سے جفتی میں بھلا کیا حرج ھو سکتی تھی -
مگر اس دوست نے جب اس کو بطور حدیث جا کر بیان کر دیا تو صحابہؓ نے اس کو حکم سمجھ کر کھجوروں کو اللہ توکل چھوڑ دیا ، اور اس سال کھجور کو فصل کم لگا - جس پر لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لائے اور معاملہ بیان کیا - اس پر اللہ کے رسول ﷺ نے مزارعین صحابہؓ کو فرمایا کہ یہ تمہارے تجربات کی دنیا ھے تم اس سے بخوبی واقف ھو ، میں اگر کوئی حکم بطور دین تم کو دوں تو تم پر میری اطاعت واجب ھے ، رہ گئے دنیاوی معاملات تو انتم اعلم بامورِ دنیاکم ،، اس میں اگر میں کوئی بات کہتا بھی ھوں تو اس کی حیثیت ایک مشورے کی سی ھے جسے قبول بھی کیا جا سکتا ھے اور رد بھی ، ( جیسا کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی آزاد کردہ کنیز حضرت بریرہؓ نے پوچھا لیا تھا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ یہ آپ کا حکم ھے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا حکم نہیں سفارش ھے ،، بریرہؓ نے کہا کہ مجھے اس سفارش کی حاجت نہیں ،،
اللہ کے رسول ﷺ کی سیرت کا بغور مطالعہ کیا جائے تو آپ نے ھر حیثیت میں کچھ کام کیئے ھیں جن کو فقہاء صحابہ بہت اچھی طرح سمجھتے تھے کہ یہ کس حیثیت میں دیئے جا رھے ھیں ، جو حکم آسمانی وحی یا غیبیات یا عبادات وغیرہ سے متعلق تھے وہ بطور نبی تھے ،مگر بعض اقدامات Administrative تھے جن کو آنے والا ایدمنسٹریٹر حالات کے مطابق تبدیل بھی کر سکتا تھا - اگر آپ نے بطور جج ایک فیصلہ دیا ھے اور بعد میں اس مقدمے کے نئے پہلو سامنے آ گئے ھیں تو بعد والا چیف جسٹس اس فیصلے کو تبدیل بھی کر سکتا ھے، غزوہ خندق میں آپ ﷺ نے یہود کو بطورِخراج مدینے کی زراعت کی آدھی آمدنی دینےکی پیشکش بطور نبی نہیں کی تھی ، اسی لئے انصار کی مخالفت کے بعد اس پیشکش کو ختم کر دیا تھا - حضرت عمرؓ نے اپنے دورِ خلافت میں نبئ کریم ﷺ کی طرف سے یہود کو دیئے جانے والے وظائف کی دستاویز ھی پھاڑ دی تھی کہ اللہ کے رسولﷺ نے اس وقت کے حالات کے مطابق فیصلہ کیا تھا ، اب اللہ نے ھمیں تم سے غنی کر دیا ھے ، آئندہ کوئی وظیفہ تمہیں نہیں ملے گا -
پھر نیچے اپنے کومنٹ میں لکھتے ہیں کہ
دیکھیں میں آپ کو مثال سے بات سمجھاتا ھوں ، فرض کریں کہ اللہ کے رسول ﷺ ایک کھیت کے پاس سے گزرے جہاں کچھ لوگ فصل کو کھیتوں سے منتقل کر رھے تھے ، کھیت میں پانچ بندے تھے 4 مرد اور ایک عورت ، ایک بہت بڑا بوریا یا ترنگڑ یا سلیتا بھر کر گدھے پر رکھا جا رھا تھا ، آپ ﷺ نے دعا سلام کے بعد فرمایا کہ دو دو مرد دونوں طرف ھو جاؤ اور اس عورت کو پیچھے کی طرف کر دو - یہ ایک بدیہی سی بات ھے کہ زیادہ وزن مردوں پر منتقل ھو جائے گا اور عورت کا بس ذرا سا سہارا بھی کافی ھو گا - یہ ایک کسان کا دوسرے کسانوں کو مشورہ ھے ، ایک رسول ﷺ کا اپنے امتیوں سے خطاب نہیں کہ آئندہ اسی کو سنت قرار دے دیا جائے کہ گدھے پر بوجھ لادتے وقت دو دو مرد دونوں طرف اور ایک عورت پیچھے کی طرف ھو - اور عورت کو گھر کے سارے کام چھڑا کر صرف اس سنت کو پورا کرنے کے لئے کھیت میں بلا لیا جائے ،، اس پر قیاس کر لیں کہ آپ نے ایک پڑوسی کو اگر پرنالہ کسی خاص طرف رکھنے کا مشورہ دیا ھے تو یہ ایک پڑوسی کا پڑوسی کو مشورہ ھے ، اس کو حدیث یا سنت بنا کر پوری امت پر لاگو کر دینا کہ وہ پرنالے کو ایک خاص طرف رکھیں زیادتی ھو گی ، یہی وجہ ھے کہ رسول اللہ ﷺ کے ایک پڑوسی سے پوچھا گیا کہ آپ رسول اللہ ﷺ کی کوئی بات بیان کریں یا سنائیں ،، انہوں نے جواب دیا کہ رسول اللہ ﷺ میرے پڑوسی تھے اور میرے ساتھ آپ ﷺ نے ڈھیر ساری باتیں کی ھیں مگر وہ باتیں تو میرے ساتھ میرے لئے تھیں ،، یعنی میں ان کو بیان کر کے ساری امت کے لئے احکامات کی شکل کیسے دے سکتا ھوں ؟ نبئ کریم ﷺ نے ہفتوں کے سفرِھجرت میں حضرت ابوبکرؓ سے ڈھیروں باتیں کی ھونگی مگر وہ ایک دوست کی دوست سے باتیں تھیں ، حضرت صدیقؓ نے ان کی خبر بھی کسی کو نہیں لگنے دی، حضرت زیدؓ سے سفرِ طائف میں سیکڑوں باتیں کی ھونگی ،بھلا کتنی معلوم ھوئیں لوگوں کو ؟ یہ حدیثوں کا رواج مدینے میں ھی ھوا ھے کیا اللہ کے رسول ﷺ نے بولنا مدینے میں آ کر ھی شروع کیا تھا ، مکے کے 13 سالوں کی کتنی حدیثیں ھیں ؟ 114 میں سے 86 سورتیں مکی ھیں ، کیا ان 86 سورتوں کو تشریح کی ضرورت نہیں تھی ؟ اس کے بعد علماء خوردبینیں لے کر بیٹھ گئے کہ کس طرح ان روایات کو امت کی بیڑیوں اور طوقوں میں تبدیل کیا جا سکتا ھے
اب بات کو ان کو کیا جواب دیا جانا چاہیے-
@خضر حیات
اللہ کے رسول ﷺ میں بہت ساری حیثیتیں یکجا تھیں- آپ رسول بھی تھے ، ھیڈ آف اسٹیٹ بھی تھے- مقننہ بھی تھے ، عدلیہ یعنی سپریم کورٹ اور چیف جسٹس بھی تھے اور ایڈمنسٹریٹر اور چیف ایگزیکٹیو بھی تھے ، ایک باپ ، شوھر اور پڑوسی بھی تھے ،، ایک دوست اور تاجر بھی تھے -
اگر آپ ﷺ نے کسی کو بطور دوست کوئی مشورہ دیا ھے تو وہ اسی دوست کو دیا ھے ، اس کی نفسیات اور خاندانی ،معاشی بیک گراؤنڈ کو دیکھ کر دیا ھے- بطور دین نہیں دیا کہ وہ اب اس کی تبلیغ بھی کرے کہ سب لوگ بس اسی مشورے پر عمل کریں اگرچہ ان کے معاملات میں زمین و آسمان اور مشرق و مغرب کا فرق ھو - یہ بس ایک دوست کا دوست کو مشورہ تھا ،مگر جب دوست نے آپ ﷺ کے وصال کے بعد یہ مشورہ بطور حدیث کسی کو بیان کیا تو یار لوگوں نے اس کو دین بنا کر سب پر لاگو کر دیا -
ایک جگہ آپ ﷺ نے لوگوں کو کھجوروں کو نر کھجور سے کراس بریڈنگ کراتے دیکھا ، یعنی نر کھجور کے گچھے کومادہ کھجور کے گچھے پر چھڑکتے دیکھا ،، آپ ﷺ نے اس دوست کو جو بعد میں راوی بنے ، ایک چلتی سی بات کی کہ اگر یہ ایسا نہ کریں تو بھلا کیا ھو؟ آپ ﷺ نے اس بندے کو یہ نہیں کہا کہ جا کر ان کو منع کرو کہ ایسا مت کرو اس سے کچھ حاصل نہیں ھوتا ، ظاھر ھے وہ لوگ اسباب اختیار کر رھے تھے اور اسباب اختیار کرنے کا حکم اللہ پاک نے دیا ھے ، اور رسول اللہ ﷺ نے بھی دیا ھے ، آخر جانور کی جانور سے بھی تو جفتی کراتے ھی ھیں ،پیڑ کی پیڑ سے جفتی میں بھلا کیا حرج ھو سکتی تھی -
مگر اس دوست نے جب اس کو بطور حدیث جا کر بیان کر دیا تو صحابہؓ نے اس کو حکم سمجھ کر کھجوروں کو اللہ توکل چھوڑ دیا ، اور اس سال کھجور کو فصل کم لگا - جس پر لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لائے اور معاملہ بیان کیا - اس پر اللہ کے رسول ﷺ نے مزارعین صحابہؓ کو فرمایا کہ یہ تمہارے تجربات کی دنیا ھے تم اس سے بخوبی واقف ھو ، میں اگر کوئی حکم بطور دین تم کو دوں تو تم پر میری اطاعت واجب ھے ، رہ گئے دنیاوی معاملات تو انتم اعلم بامورِ دنیاکم ،، اس میں اگر میں کوئی بات کہتا بھی ھوں تو اس کی حیثیت ایک مشورے کی سی ھے جسے قبول بھی کیا جا سکتا ھے اور رد بھی ، ( جیسا کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی آزاد کردہ کنیز حضرت بریرہؓ نے پوچھا لیا تھا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ یہ آپ کا حکم ھے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا حکم نہیں سفارش ھے ،، بریرہؓ نے کہا کہ مجھے اس سفارش کی حاجت نہیں ،،
اللہ کے رسول ﷺ کی سیرت کا بغور مطالعہ کیا جائے تو آپ نے ھر حیثیت میں کچھ کام کیئے ھیں جن کو فقہاء صحابہ بہت اچھی طرح سمجھتے تھے کہ یہ کس حیثیت میں دیئے جا رھے ھیں ، جو حکم آسمانی وحی یا غیبیات یا عبادات وغیرہ سے متعلق تھے وہ بطور نبی تھے ،مگر بعض اقدامات Administrative تھے جن کو آنے والا ایدمنسٹریٹر حالات کے مطابق تبدیل بھی کر سکتا تھا - اگر آپ نے بطور جج ایک فیصلہ دیا ھے اور بعد میں اس مقدمے کے نئے پہلو سامنے آ گئے ھیں تو بعد والا چیف جسٹس اس فیصلے کو تبدیل بھی کر سکتا ھے، غزوہ خندق میں آپ ﷺ نے یہود کو بطورِخراج مدینے کی زراعت کی آدھی آمدنی دینےکی پیشکش بطور نبی نہیں کی تھی ، اسی لئے انصار کی مخالفت کے بعد اس پیشکش کو ختم کر دیا تھا - حضرت عمرؓ نے اپنے دورِ خلافت میں نبئ کریم ﷺ کی طرف سے یہود کو دیئے جانے والے وظائف کی دستاویز ھی پھاڑ دی تھی کہ اللہ کے رسولﷺ نے اس وقت کے حالات کے مطابق فیصلہ کیا تھا ، اب اللہ نے ھمیں تم سے غنی کر دیا ھے ، آئندہ کوئی وظیفہ تمہیں نہیں ملے گا -
پھر نیچے اپنے کومنٹ میں لکھتے ہیں کہ
دیکھیں میں آپ کو مثال سے بات سمجھاتا ھوں ، فرض کریں کہ اللہ کے رسول ﷺ ایک کھیت کے پاس سے گزرے جہاں کچھ لوگ فصل کو کھیتوں سے منتقل کر رھے تھے ، کھیت میں پانچ بندے تھے 4 مرد اور ایک عورت ، ایک بہت بڑا بوریا یا ترنگڑ یا سلیتا بھر کر گدھے پر رکھا جا رھا تھا ، آپ ﷺ نے دعا سلام کے بعد فرمایا کہ دو دو مرد دونوں طرف ھو جاؤ اور اس عورت کو پیچھے کی طرف کر دو - یہ ایک بدیہی سی بات ھے کہ زیادہ وزن مردوں پر منتقل ھو جائے گا اور عورت کا بس ذرا سا سہارا بھی کافی ھو گا - یہ ایک کسان کا دوسرے کسانوں کو مشورہ ھے ، ایک رسول ﷺ کا اپنے امتیوں سے خطاب نہیں کہ آئندہ اسی کو سنت قرار دے دیا جائے کہ گدھے پر بوجھ لادتے وقت دو دو مرد دونوں طرف اور ایک عورت پیچھے کی طرف ھو - اور عورت کو گھر کے سارے کام چھڑا کر صرف اس سنت کو پورا کرنے کے لئے کھیت میں بلا لیا جائے ،، اس پر قیاس کر لیں کہ آپ نے ایک پڑوسی کو اگر پرنالہ کسی خاص طرف رکھنے کا مشورہ دیا ھے تو یہ ایک پڑوسی کا پڑوسی کو مشورہ ھے ، اس کو حدیث یا سنت بنا کر پوری امت پر لاگو کر دینا کہ وہ پرنالے کو ایک خاص طرف رکھیں زیادتی ھو گی ، یہی وجہ ھے کہ رسول اللہ ﷺ کے ایک پڑوسی سے پوچھا گیا کہ آپ رسول اللہ ﷺ کی کوئی بات بیان کریں یا سنائیں ،، انہوں نے جواب دیا کہ رسول اللہ ﷺ میرے پڑوسی تھے اور میرے ساتھ آپ ﷺ نے ڈھیر ساری باتیں کی ھیں مگر وہ باتیں تو میرے ساتھ میرے لئے تھیں ،، یعنی میں ان کو بیان کر کے ساری امت کے لئے احکامات کی شکل کیسے دے سکتا ھوں ؟ نبئ کریم ﷺ نے ہفتوں کے سفرِھجرت میں حضرت ابوبکرؓ سے ڈھیروں باتیں کی ھونگی مگر وہ ایک دوست کی دوست سے باتیں تھیں ، حضرت صدیقؓ نے ان کی خبر بھی کسی کو نہیں لگنے دی، حضرت زیدؓ سے سفرِ طائف میں سیکڑوں باتیں کی ھونگی ،بھلا کتنی معلوم ھوئیں لوگوں کو ؟ یہ حدیثوں کا رواج مدینے میں ھی ھوا ھے کیا اللہ کے رسول ﷺ نے بولنا مدینے میں آ کر ھی شروع کیا تھا ، مکے کے 13 سالوں کی کتنی حدیثیں ھیں ؟ 114 میں سے 86 سورتیں مکی ھیں ، کیا ان 86 سورتوں کو تشریح کی ضرورت نہیں تھی ؟ اس کے بعد علماء خوردبینیں لے کر بیٹھ گئے کہ کس طرح ان روایات کو امت کی بیڑیوں اور طوقوں میں تبدیل کیا جا سکتا ھے
اب بات کو ان کو کیا جواب دیا جانا چاہیے-
@خضر حیات
Last edited: