اگر آپ کی کسوٹی یہی ہے کہ کسی بارے میں واضح الفاظ ہوں تو " اگر" سے بات نہیں کرنی جاہيے تو لا الہ الا اللہ جیسے واضح الفاظ ہوتے ہوئے لَّوْ كَانَ مَعَهُ آلِهَةٌ کہنے کی کیا ضرور پیش آئی ۔ آپ کا اعتراض قرآن پر جاتا ہے ۔ احناف کی ضد میں ایسی بات نہ کریں کہ جو قرآن سے ٹکرائے
جناب من
آپ کے الفاظ میں اور لاالہ الا اللہ کی موجودگی میں آیت لوکان معہ الہۃ کا آ جانا دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔دیکھتے ہیں کیسا
آپ کہتے ہیں کہ
’’ اگر بالفرض بعد زمانہ نبوي ﷺ کوئي نبي پيدا ہو تو پھر بھي خاتميت محمدي ﷺ ميں کچھ فرق نہيں آئے ‘‘ یعنی نبی کریمﷺ کے اس دنیا فانی سے چلے جانے کے بعد اب اگر کوئی نبوت کا دعویٰ کردے جس طرح مرزا حنفی نے کیا تھا تو پھر بھی خاتمیت پر اثر وفرق نہیں پڑے گا۔یعنی محمدﷺ کی وفات سے بعد کی بات آپ کررہے ہیں۔اگر محمدﷺ کی حیات مبارکہ کےحوالے سے آپ بات کرتے تو یوں کہتے
’’ اگر بالفرض زمانہ نبوي ﷺ میں ہی کوئي نبي پيدا ہو تو پھر بھي خاتميت محمدي ﷺ ميں کچھ فرق نہيں آئے ‘‘ امید ہے اتنی سمجھ آ ہی گئی ہوگی۔
اب دیکھتے ہیں قرآن پاک کی اس آیت کو کہ میرے بالفرض اور اگر مگر کے پوچھنے پر ہی اتنی تڑپ ہوئی کہ میرے اس سوال کو قرآن کے مخالف ٹھہرا دیا۔بھائی اگر قرآن پاک کے مخالف ہی تھا تو آپ سمجھا دیتے۔چلیں خیر
مکمل آیت کچھ یوں ہے
قُل لَّوْ كَانَ مَعَهُ آلِهَةٌ كَمَا يَقُولُونَ إِذًا لَّابْتَغَوْا إِلَىٰ ذِي الْعَرْشِ سَبِيلًا
کہہ دیجیئے! کہ اگر اللہ کے ساتھ اور معبود بھی ہوتے جیسے کہ یہ لوگ کہتے ہیں تو ضرور وه اب تک مالک عرش کی جانب راه ڈھونڈ نکالتے۔
حضور میاں۔!
یہاں تو اللہ تعالی خود
’ مع‘ کے الفاظ لائے ہیں یعنی اللہ تعالی کی موجودگی میں کسی اور الہ کا تصور کرنا اور پھر واضح اور صریح الفاظ
’’ کما یقولون ‘‘ بھی موجود ہیں۔اور پھر بات بھی کافروں کی ہے۔کسی کلمہ گو کی بات ہی نہیں ہے۔تو پھر اتنی واضح اور صریح آیت بھی آپ کو سمجھ نہیں آئی اور اتنا بھی نہ سمجھ سکے کہ ان دونوں باتوں میں فرق کیا ہے ؟ فیاللعجب
کلمہ گو کی یہ حرکت ماتم سے کم نہیں
’’ اگر بالفرض بعد زمانہ نبوي ﷺ کوئي نبي پيدا ہو تو پھر بھي خاتميت محمدي ﷺ ميں کچھ فرق نہيں آئے ‘‘
میرا نقطہ ابھی تک اسی طرح قائم ہے۔اگر آپ لب کشائی نہیں کرنا چاہتے تو نہ کریں پر ادھر ادھر سے سہارے لینے کی بھی کوشش نہ کریں