• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قاسم نانوتوی عقیدہ :رسول الله ﷺ کے بعد بھي نبي آسکتا ہے !!!

رفیق طاھر

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 04، 2011
پیغامات
790
ری ایکشن اسکور
3,982
پوائنٹ
323
[FONT=&quot]رسول الله ﷺ [/FONT][FONT=&quot]کے بعد بھي نبي آسکتا ہے !!![/FONT]
[FONT=&quot] [/FONT]
[FONT=&quot]اگر بالفرض بعد زمانہ نبوي [/FONT][FONT=&quot]ﷺ کوئي نبي پيدا ہو تو پھر بھي خاتميت محمدي ﷺ ميں کچھ فرق نہيں آئے گا ۔[/FONT][FONT=&quot][/FONT][FONT=&quot][/FONT]







 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
اردو میں بالفرض اس وقت بولا جاتا ہے جب بات ممکن تو نہ ہو لیکن اگلے کو سمجھانے کے لئیے کہا جاتا ہے کہ بالفرض اگر ایسا ہو ۔
اس سے اگر آپ نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے تو عربی میں اس کی جگہ "لو " آتا ہے ۔ قراں و حدیث میں لو کہ کر بات کی گئیی ہے تو کیا آپ اپنی اسی کسوٹی سے کیا نتیجہ آخذ کریں گے

قُل لَّوْ كَانَ مَعَهُ آلِهَةٌ كَمَا يَقُولُونَ إِذًا لاَّبْتَغَوْاْ إِلَى ذِي الْعَرْشِ سَبِيلاً

قُل لَّوْ أَنتُمْ تَمْلِكُونَ خَزَآئِنَ رَحْمَةِ رَبِّي إِذًا لَّأَمْسَكْتُمْ خَشْيَةَ الْإِنفَاقِ وَكَانَ الإنسَانُ قَتُورًا

لَوْ أَرَدْنَا أَن نَّتَّخِذَ لَهْوًا لَّاتَّخَذْنَاهُ مِن لَّدُنَّا إِن كُنَّا فَاعِلِينَ
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ!
اردو میں بالفرض اس وقت بولا جاتا ہے جب بات ممکن تو نہ ہو لیکن اگلے کو سمجھانے کے لئیے کہا جاتا ہے کہ بالفرض اگر ایسا ہو ۔
اس سے اگر آپ نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے تو عربی میں اس کی جگہ "لو " آتا ہے ۔ قراں و حدیث میں لو کہ کر بات کی گئیی ہے تو کیا آپ اپنی اسی کسوٹی سے کیا نتیجہ آخذ کریں گے

قُل لَّوْ كَانَ مَعَهُ آلِهَةٌ كَمَا يَقُولُونَ إِذًا لاَّبْتَغَوْاْ إِلَى ذِي الْعَرْشِ سَبِيلاً

قُل لَّوْ أَنتُمْ تَمْلِكُونَ خَزَآئِنَ رَحْمَةِ رَبِّي إِذًا لَّأَمْسَكْتُمْ خَشْيَةَ الْإِنفَاقِ وَكَانَ الإنسَانُ قَتُورًا

لَوْ أَرَدْنَا أَن نَّتَّخِذَ لَهْوًا لَّاتَّخَذْنَاهُ مِن لَّدُنَّا إِن كُنَّا فَاعِلِينَ
تلمیذ صاحب! اردو بھی بھول پڑی ہے کیا!!
بالفرض ہمیشہ محال کو مستلزم نہیں!! یعنی کہ ہمشہ کسی بات کے نا ممکن ہونے پر دلالت نہیں کرتا !! اور ممکنات سے نہ ہونے والے بات کے لئے "بالفرض محال " استعمال ہوتا ہے!!!!
اور دیکھئے آپ ایک اور حنفی ملا علی القاری الحنفی کتنی صراحت سے خاتم النبین کے معنی تبدیل کر رہے ہیں !!

قلت: ومع هذا لو عاش إبراهيم وصار نبيا وكذا لو صار عمر نبيا لكانا من أتباعه عليه الصلاة والسلام كعيسى والخضر وإلياس عليهم السلام فلا يناقض قوله تعالى {وخاتم النبيين} إذ المعنى أنه لا يأتي نبي بعده ينسخ ملته ولم يكن من أمته ويقويه حديث لو كان موسى حيا لما وسعه إلا اتباعي
صفحہ 285
لأسرار المرفوعة في الأخبار الموضوعة المعروف بالموضوعات الكبرى
المؤلف: علي بن (سلطان) محمد، أبو الحسن نور الدين الملا الهروي القاري
الناشر: المكتب الاسلامي

میں کہتا ہوں : کہ اگر یہ بات مان لی جائے کہ ابراھیم (ابن محمد ﷺ) زندہ رہتے تو نبی ہوتے اور جیسا عمر رضی اللہ عنہ نبی ہوتے۔ تو دونوں نبی ﷺ کے تابع ہوتے جیسے عیسی علیہ السلام ، خضر علیہ السلام اور الیاس علیہ السلام۔ پس یہ اللہ تعالیٰ کے فرمان "وخاتم النبین" کے مخالف نہیں۔ اس صورت میں معنی یہ ہوگا کہ نبی ﷺ کے بعد کوئی ایسا نبی نہیں ہوگا جو رسول اللہ ﷺ کی شریعت کو منسوخ کردے اور نہ ہی آپ ﷺ کی امت میں ایسا نبی ہوگا جو آپ ﷺ کی شریعت کو منسوخ کر دے۔ اس بات کو یہ حدیث تقویت دیتی ہے " اگر موسی علیہ السلام زندہ ہوتے تو ان کو بھی میری اتباع کے بغیر چارہ نہیں"

حوالہ کے اسکین صفحات
 

رفیق طاھر

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 04، 2011
پیغامات
790
ری ایکشن اسکور
3,982
پوائنٹ
323
اردو میں بالفرض اس وقت بولا جاتا ہے جب بات ممکن تو نہ ہو لیکن اگلے کو سمجھانے کے لئیے کہا جاتا ہے کہ بالفرض اگر ایسا ہو ۔
اس سے اگر آپ نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے تو عربی میں اس کی جگہ "لو " آتا ہے ۔ قراں و حدیث میں لو کہ کر بات کی گئیی ہے تو کیا آپ اپنی اسی کسوٹی سے کیا نتیجہ آخذ کریں گے

قُل لَّوْ كَانَ مَعَهُ آلِهَةٌ كَمَا يَقُولُونَ إِذًا لاَّبْتَغَوْاْ إِلَى ذِي الْعَرْشِ سَبِيلاً

قُل لَّوْ أَنتُمْ تَمْلِكُونَ خَزَآئِنَ رَحْمَةِ رَبِّي إِذًا لَّأَمْسَكْتُمْ خَشْيَةَ الْإِنفَاقِ وَكَانَ الإنسَانُ قَتُورًا

لَوْ أَرَدْنَا أَن نَّتَّخِذَ لَهْوًا لَّاتَّخَذْنَاهُ مِن لَّدُنَّا إِن كُنَّا فَاعِلِينَ
عذر گناہ بد تر ازگناہ است !
اگر یا بالفرض کا لفظ جب ناممکنات کے لیے بولا جاتا ہے تو اسوقت اسکی یہ صورت نہیں ہوتی جو نانوتوی صاحب کی کلام میں ہے بلکہ وہ صورت ہوتی ہے جو اللہ کی کلام میں ہے !
کیا خیال ہے یہ جملہ درست ہوگا "اگر بالفرض دو الہ ہوں تب بھی اللہ کی وحدانیت میں فرق نہیں آئے گا ؟!"
یقینا نہیں !
اسی طرح یہ جملہ بھی درست نہیں کہ
"اگر بالفرض بعد زمانہ نبوي ﷺ کوئي نبي پيدا ہو تو پھر بھي خاتميت محمدي ﷺ ميں کچھ فرق نہيں آئے گا ۔"
خوب سمجھ لیں !
اور ابن داود بھائی کی بات بھی بغور پڑھ لیں
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
پہلے آپ "لو " کا اردو میں مطلب بحوالہ پیش کردیں ۔ بالفرض اور بالفرض محال والا معاملہ صاف ہوجائے گا ۔
ابن داؤد صاحب نے کہا
اور دیکھئے آپ ایک اور حنفی ملا علی القاری الحنفی کتنی صراحت سے خاتم النبین کے معنی تبدیل کر رہے ہیں !!
یہاں ملا علی قاری صاحب لو کہ کر بات کرہے ہیں اور قرآن سے میں نے جو مثال دی وہاں بھی لو کہ کر بات کی گئی
اپنے اعتراض کو واضح کریں

رفیق طاہر صاحب نے کہا
اگر یا بالفرض کا لفظ جب ناممکنات کے لیے بولا جاتا ہے تو اسوقت اسکی یہ صورت نہیں ہوتی جو نانوتوی صاحب کی کلام میں ہے بلکہ وہ صورت ہوتی ہے جو اللہ کی کلام میں ہے !
کیا خیال ہے یہ جملہ درست ہوگا "اگر بالفرض دو الہ ہوں تب بھی اللہ کی وحدانیت میں فرق نہیں آئے گا ؟!"
یقینا نہیں !
اسی طرح یہ جملہ بھی درست نہیں کہ
"اگر بالفرض بعد زمانہ نبوي ﷺ کوئي نبي پيدا ہو تو پھر بھي خاتميت محمدي ﷺ ميں کچھ فرق نہيں آئے گا ۔"
ایک تو آپ یہ بتادیں کہ جملہ کس طرح ہوتا تو صحیح ہوتا ۔ آپ نے کہا کہ یہ جملہ غلط ہے

اگر بالفرض بعد زمانہ نبوي ﷺ کوئي نبي پيدا ہو تو پھر بھي خاتميت محمدي ﷺ ميں کچھ فرق نہيں آئےسرخ الفاظ کی جگہ کیا ہو کہ یہ جملہ صحیح ہوجائے اور کلام اللہ والی صورت ہوجائے
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
اگر بالفرض بعد زمانہ نبوي ﷺ کوئي نبي پيدا ہو تو پھر بھي خاتميت محمدي ﷺ ميں کچھ فرق نہيں آئے
صرف اس بحث میں ایک نقطہ سامنے لانے کےلیے لکھ رہا ہوں باقی آپ بھائی گفتگو کرنا
تلمیذ صاحب
جب انا خاتم النبیین لا نبی بعدی جیسے واضح اور صریح الفاظ موجود ہیں تو پھر ان الفاظ کی موجودگی میں اگرمگر کے الفاظ لگا کر بات کو محال بنانا اور پھر کہنا کہ خاتمیت محمدیﷺ میں کچھ فرق نہیں آئے گا؟ کیا معنی رکھتا ہے؟
کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ ان الفاظ کو کہنے کی ضرورت کیوں پیش آئی ؟ اس بات کا مقصد کیا تھا ؟ کیوں کی گئی ؟ کیا وجہ تھی ؟ وغیرہ وغیرہ
اور پھر آپ اوپر سے صحیح ثابت کرنے کی کوشش میں بھی لگے ہوئے ہیں ۔
اصل بات تو یہ ہے کہ بالفرض کو بیچ میں لایا ہی کیوں جائے ؟ کیا اس بالفرض میں کچھ پوچھیدہ تو نہیں ؟
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
صرف اس بحث میں ایک نقطہ سامنے لانے کےلیے لکھ رہا ہوں باقی آپ بھائی گفتگو کرنا
تلمیذ صاحب
جب انا خاتم النبیین لا نبی بعدی جیسے واضح اور صریح الفاظ موجود ہیں تو پھر ان الفاظ کی موجودگی میں اگرمگر کے الفاظ لگا کر بات کو محال بنانا اور پھر کہنا کہ خاتمیت محمدیﷺ میں کچھ فرق نہیں آئے گا؟ کیا معنی رکھتا ہے؟
کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ ان الفاظ کو کہنے کی ضرورت کیوں پیش آئی ؟ اس بات کا مقصد کیا تھا ؟ کیوں کی گئی ؟ کیا وجہ تھی ؟ وغیرہ وغیرہ
اور پھر آپ اوپر سے صحیح ثابت کرنے کی کوشش میں بھی لگے ہوئے ہیں ۔
اصل بات تو یہ ہے کہ بالفرض کو بیچ میں لایا ہی کیوں جائے ؟ کیا اس بالفرض میں کچھ پوچھیدہ تو نہیں ؟
اگر آپ کی کسوٹی یہی ہے کہ کسی بارے میں واضح الفاظ ہوں تو " اگر" سے بات نہیں کرنی جاہيے تو لا الہ الا اللہ جیسے واضح الفاظ ہوتے ہوئے لَّوْ كَانَ مَعَهُ آلِهَةٌ کہنے کی کیا ضرور پیش آئی ۔ آپ کا اعتراض قرآن پر جاتا ہے ۔ احناف کی ضد میں ایسی بات نہ کریں کہ جو قرآن سے ٹکرائے
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
اگر آپ کی کسوٹی یہی ہے کہ کسی بارے میں واضح الفاظ ہوں تو " اگر" سے بات نہیں کرنی جاہيے تو لا الہ الا اللہ جیسے واضح الفاظ ہوتے ہوئے لَّوْ كَانَ مَعَهُ آلِهَةٌ کہنے کی کیا ضرور پیش آئی ۔ آپ کا اعتراض قرآن پر جاتا ہے ۔ احناف کی ضد میں ایسی بات نہ کریں کہ جو قرآن سے ٹکرائے
جناب من
آپ کے الفاظ میں اور لاالہ الا اللہ کی موجودگی میں آیت لوکان معہ الہۃ کا آ جانا دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔دیکھتے ہیں کیسا
آپ کہتے ہیں کہ
’’ اگر بالفرض بعد زمانہ نبوي ﷺ کوئي نبي پيدا ہو تو پھر بھي خاتميت محمدي ﷺ ميں کچھ فرق نہيں آئے ‘‘ یعنی نبی کریمﷺ کے اس دنیا فانی سے چلے جانے کے بعد اب اگر کوئی نبوت کا دعویٰ کردے جس طرح مرزا حنفی نے کیا تھا تو پھر بھی خاتمیت پر اثر وفرق نہیں پڑے گا۔یعنی محمدﷺ کی وفات سے بعد کی بات آپ کررہے ہیں۔اگر محمدﷺ کی حیات مبارکہ کےحوالے سے آپ بات کرتے تو یوں کہتے
’’ اگر بالفرض زمانہ نبوي ﷺ میں ہی کوئي نبي پيدا ہو تو پھر بھي خاتميت محمدي ﷺ ميں کچھ فرق نہيں آئے ‘‘ امید ہے اتنی سمجھ آ ہی گئی ہوگی۔
اب دیکھتے ہیں قرآن پاک کی اس آیت کو کہ میرے بالفرض اور اگر مگر کے پوچھنے پر ہی اتنی تڑپ ہوئی کہ میرے اس سوال کو قرآن کے مخالف ٹھہرا دیا۔بھائی اگر قرآن پاک کے مخالف ہی تھا تو آپ سمجھا دیتے۔چلیں خیر
مکمل آیت کچھ یوں ہے
قُل لَّوْ كَانَ مَعَهُ آلِهَةٌ كَمَا يَقُولُونَ إِذًا لَّابْتَغَوْا إِلَىٰ ذِي الْعَرْ‌شِ سَبِيلًا
کہہ دیجیئے! کہ اگر اللہ کے ساتھ اور معبود بھی ہوتے جیسے کہ یہ لوگ کہتے ہیں تو ضرور وه اب تک مالک عرش کی جانب راه ڈھونڈ نکالتے۔
حضور میاں۔!
یہاں تو اللہ تعالی خود ’ مع‘ کے الفاظ لائے ہیں یعنی اللہ تعالی کی موجودگی میں کسی اور الہ کا تصور کرنا اور پھر واضح اور صریح الفاظ ’’ کما یقولون ‘‘ بھی موجود ہیں۔اور پھر بات بھی کافروں کی ہے۔کسی کلمہ گو کی بات ہی نہیں ہے۔تو پھر اتنی واضح اور صریح آیت بھی آپ کو سمجھ نہیں آئی اور اتنا بھی نہ سمجھ سکے کہ ان دونوں باتوں میں فرق کیا ہے ؟ فیاللعجب
کلمہ گو کی یہ حرکت ماتم سے کم نہیں
’’ اگر بالفرض بعد زمانہ نبوي ﷺ کوئي نبي پيدا ہو تو پھر بھي خاتميت محمدي ﷺ ميں کچھ فرق نہيں آئے ‘‘
میرا نقطہ ابھی تک اسی طرح قائم ہے۔اگر آپ لب کشائی نہیں کرنا چاہتے تو نہ کریں پر ادھر ادھر سے سہارے لینے کی بھی کوشش نہ کریں
 
Top