• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قانونِ توہین رسالت ؐاور عاصمہ جہانگیر کا کردار

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
اس قرار داد پر مولانا عبد الستار خان نیازی، علامہ احسان الٰہی ظہیرؒ، علامہ علی غضنفر کراروی صدر اتحاد بین المسلمین، ڈاکٹر خالد محمود صدر جمعیت علماے برطانیہ، میاں محمد اجمل قادری امیر انجمن خدام الدین، مولانا مفتی محمد حسین نعیمیؒ ناظم دار العلوم جامعہ نعیمیہ لاہور، مولانا عبد المالک شیخ الحدیث علومِ اسلامیہ منصورہ، مولانا عبد الرحمن مہتمم جامعہ اشرفیہ لاہور، مولانا محمد اجمل خان نائب صدر جمعیت علماے اسلام، مولانا گلزار احمد مظاہری ؒصدر جمعیت اتحاد علماے پاکستان اور دیگر علماے کرام نے دستخط کیے۔
ان کے علاوہ ممتاز وکلا نے بھی اس قرار داد پر اپنے دستخط ثبت کیے۔ جس کے بعد یہ قرارداد حکومت پاکستان، صوبائی حکومتوں اور اراکین قومی اسمبلی کو بھیجی گئی ۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
۲۹۵سی کی منظوری
قریشی صاحب مزید لکھتے ہیں :
’’عاصمہ جہانگیر کی اس قابل اعتراض تقریر کا نوٹس سب سے پہلے قومی اسمبلی میں اسلامی جذبہ سے سرشار خاتون ایم این اے محترمہ نثار فاطمہ نے لیا اور اُنہوں نے وہاں پوری قوت کے ساتھ آواز اٹھائی کہ عاصمہ جہانگیر کے ان توہین آمیز الفاظ کے خلاف حکومت فوری کاروائی کرے، لیکن چونکہ اس وقت قانون میں توہین رسالت کے جرم کی کوئی سزا مقرر نہیں تھی، اسی لیے اس کے خلاف کوئی مؤثر کاروائی نہ ہو سکی۔‘‘
فدایانِ رسولِ عربیﷺ کی جدو جہد کے سامنے حکومت نے سر تسلیم خم کرتے ہوئے ۱۹۸۶ء میں تعزیراتِ پاکستان میں ترمیم کی۔ فوجداری قوانین میں ترمیمی ایکٹ پاس کیا گیا اور دفعہ ۲۹۵۔ سی کا اضافہ کیا گیا جو توہین ِرسالت کے جرم پر عمر قید یا موت کی سزا مقرر کرتا ہے۔ ۲۹۵۔ سی کتاب وسنت پر مبنی مسلمانوں کے مطالبہ کی حرف بہ حرف تکمیل نہیں تھا، کیونکہ اس میں توہین رسالت کے جرم کی واحد سزا، سزائے موت کے ساتھ ساتھ ’عمر قید‘ کو بھی بطورِ سزا شامل کیا گیا تھا۔ لہٰذا مسلمانوں کی طرف سے اس پر عدمِ اطمینان کا اظہار کیا گیا ۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
لیکن دشمنانِ دین مبین پر بالعموم اور عاصمہ جہانگیر پر بالخصوص حکومت کی طرف سے یہ نیم دلانہ قانون سازی بھی بے حد شاق گذری۔ قادیانی اُمت کے ذہین دماغوں نے اس قانون کے خلاف ملکی اور بین الاقوامی سطح پر مذموم پراپیگنڈہ کے لئے جامع منصوبہ بندی کی اورقادیانی ذرائع ابلاغ نے اسے آزادئ مذہب اور آزادئ اظہارِ رائے کے بنیادی حقوق کے منافی ہونے کا واویلا کیا۔ امریکہ اور یورپ میں متحرک قادیانی تنظیموں نے اپنے مربی و سرپرست مغرب کو متاثر کرنے کے لئے اسے اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے ڈکلریشن کی خلاف ورزی قرار دیا۔ مغرب کے مذہب بیزار طبقہ، جو ’انسانی حقوق‘ کے مغربی ’ورژن‘ کو گذشتہ چند عشروں سے اپنا ’دین ومذہب‘ سمجھے ہوئے ہے، پر اس بے بنیاد پراپیگنڈہ کا فوری اثر ہوا۔
ویسے بھی مغربی صہیونی لابی اسلامی جمہوریہ پاکستان کو بدنام کرنے کے بہانوں کی تلاش میں رہتی ہے اور برطانوی استعمار کے ’ کاشت کردہ‘ قادیانی پودے کی حفاظت کے لئے اپنے وسائل کا بے دریغ استعمال کرنا فرضِ عین سمجھتی ہے۔ مغرب کی پاکستان دشمنی عاصمہ جہانگیر جیسے اسلام دشمن افراد کے لئے اپنے فریب کا جال بچھانے کوبے حد حوصلہ افزا ثابت ہوئی۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
ہیومن رائٹس کمیشن کاقیام ؛ قانونِ توہین رسالت کی مخالفت
عاصمہ جہانگیر نے مغربی سرپرستوں کی آشیر باد کے ساتھ جسٹس درّاب پٹیل کے ساتھ مل کر ۱۹۸۷ء میں ’پاکستان انسانی حقوق کمیشن‘ کی داغ بیل ڈالی۔ قادیانی حقوق کا تحفظ اس کمیشن کے بنیادی مقاصد میں شامل ہے۔۲۴؍اپریل ۱۹۸۷ء کو عاصمہ جہانگیر نے انسانی حقوق کمیشن کے اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے کہا :
’’کمیشن کو نہ صرف ۱۹۷۳ء کے آئین میں مندرجہ انسانی حقوق کی بازیابی کی جدوجہد کرنی ہے بلکہ پاکستان میں اقوام متحدہ کے چارٹر میں درج کئے گئے انسانی حقوق کا آئیڈیل حاصل کرنا ہے۔ کمیشن کو بہت سے ایسے قوانین کو منسوخ کرانے کی کوشش بھی کرنا ہوگی جو یک طرفہ ہیں۔ اُنہوں نے اس ضمن میں حدود آرڈیننس، قانونِ شہادت میں مرد وعورت کی حیثیت، غیر مسلموں کو مسلمانوں کی شہادت اور عورت کو مرد کی گواہی پر سزا، قادیانیوں اور احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے والا قانون، قانونِ توہین رسالت اور جداگانہ انتخابات جیسے قوانین کا ذکر کیا۔‘‘
(نوائے وقت: ۲۵؍ اپریل ۱۹۸۷ء)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
۱۹۸۶ء میں قانونِ توہین رسالت کے نفاذ کے بعد عاصمہ جہانگیر کی طرف سے شدید جذباتی ردّ عمل سامنے آیا ہے۔ اس قانون کو ختم کرانا اس کی زندگی کا اہم ترین نصبُ العین معلوم ہوتا ہے۔ انسانی حقوق کمیشن کے انسانی و مادی ذرائع کو اس نے اس مقصد کے حصول میں بھرپور استعمال کیا ہے۔ کمیشن کی طرف سے جاری کی جانے والی سالانہ رپورٹوں کے علاوہ سیمینار، انٹرویو اور جلسے جلوسوں کے ذریعے اس نے اس قانون کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی۔ ’ایمنسٹی انٹرنیشنل‘ اور مغرب میں انسانی حقوق کی دیگر تنظیموں سے قریبی تعلقات استوار کرتے ہوئے ان اداروں کی طرف سے پاکستانی حکومت پر ۲۹۸ اور ۲۹۵۔ سی کو واپس لینے کے لئے دبائو ڈلوایا۔
۱۹۸۷ء سے لے کر آج تک ’ایمنسٹی انٹرنیشنل‘کی ایک بھی سالانہ رپورٹ ایسی نہیں ہے جس میں پاکستانی قادیانیوں کے انسانی حقوق کی پامالی پر مبنی بے بنیاد، من گھڑت اور شرانگیز واقعات کی داستانوں کا طویل تذکرہ اور پاکستانی حکومت سے احمدیوں کے حقوق کے تحفظ کا مطالبہ شامل نہ ہو۔ ’ایمنسٹی انٹرنیشل‘ کی رپورٹوں کے گہرے مطالعے کے بعد یہ اندازہ کرنا زیادہ مشکل امر نہیں ہے کہ ان رپورٹوں کا اصل ماخذ ومصدر عاصمہ جہانگیر کی زیر سرکردگی کام کرنے والا ’انسانی حقوق کمیشن‘ ہے۔ انسانی حقوق کمیشن اور ’ایمنسٹی انٹرنیشنل‘کی رپورٹوں میں حیران کن حد تک مماثلت پائی جاتی ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
۱۹۹۴ء میں’ایمنسٹی انٹرنیشنل‘ کی رپورٹ کا ایک مفصل باب قادیانیوں کے بارے میں تھا، جس کا ترجمہ قادیانی رسالہ ’الفضل‘ نے اپنی یکم جولائی ۱۹۹۴ء کی اشاعت میں ’پاکستان میں جماعت ِاحمدیہ پر مظالم کے سلسلہ میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کی تازہ رپورٹ ‘ کے عنوان سے شائع کیا۔ اس رپورٹ میں ۲۹۵۔ سی،۲۹۵۔بی اور ۲۹۵۔ سی کا مفصل ناقدانہ جائزہ لینے کے بعد حکومت ِپاکستان سے درج ذیل سفارشات کی گئی ہیں:
’’ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بارہا حکومتِ پاکستان سے احمدیوں کے انسانی حقوق کی پامالی کے بارے میں اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ستمبر ۱۹۹۱ء میں ایمنسٹی نے ایک رپورٹ ’پاکستان میں احمدیوں کے انسانی حقوق کی پامالی‘ شائع کی، جس میں جماعتِ احمدیہ کے افراد پر اپنے مذہبی حقوق کی پر امن طور پر ادائیگی کے نتیجہ میں مقدمہ بازی کے جاری رہنے اور جیل کی سزائیں دینے پر تشویش کا اظہار کیا ہے :
’’ہمیں اس بات پر تشویش ہے کہ پاکستان میں نت نئی کڑی قانون سازی کی وجہ سے جماعتِ احمدیہ کے افراد کو محض اظہارِ رائے کی آزادی کے حق اورمذہبی آزادی کے حق کو استعمال کرنے کی وجہ سے گرفتار کیا جا سکتا اور پھانسی کی سزا دی جا سکتی ہے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
اس رپورٹ کا یہ جملہ ملاحظہ کیجئے :
’’توہین رسالت یا بعض گروہوں کے مذہبی جذبات کے مجروح کرنے کی مقرر کردہ سزا میں تبدیلی کا اطلاق ہر اس شخص پر ہوتا ہے جس کے خلاف اس دفعہ کے تحت مقدمہ دائر کیا جاتا ہے۔ تاہم خاص طور پر جماعتِ احمدیہ کے افراد کئی سالوں سے اس قانون کی وجہ سے مصیبتیں سہہ رہے ہیں۔‘‘
یہ طرفہ تماشا ہے کہ پاکستان میں انسانی حقوق کمیشن، جس کے اہم عہدیداروں کی اکثریت کا تعلق قادیانی فرقے سے ہے، کی طرف سے ’ایمنسٹی انٹرنیشنل‘ کو یہ بنی بنائی رپورٹیں ارسال کی جاتی ہیں اور جب یہ رپورٹیں لندن سے شائع ہوتی ہیں تو پاکستان میں قادیانی لابی انسانی حقوق کے نام پر ان کی بھرپور تشہیر کرتی ہے۔ پاکستانی حکومت پر بے جا دبائو کے قابل مذمت ہتھکنڈے شروع کر دئیے جاتے ہیں۔ پاکستان انسانی حقوق کمیشن عملاً مغربی صہیونی لابی کی اسلام دشمن تنظیموں کے ذیلی ادارے کے طور پر کام کر رہا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
سلامت مسیح کیس اور عاصمہ جہانگیر
نومبر ۱۹۹۳ء میں سیکولر مزاج پیپلز پارٹی کے دوبارہ برسر اقتدار آنے کے بعد عاصمہ جہانگیر کی توہین رسالت کے قانون کے خلاف سرگرمیوں میں یکدم شدت پیدا ہوگئی۔ خاتون وزیر اعظم سے ذاتی مراسم کو اُس نے اپنے مقاصد کی تکمیل کے لئے استعمال کرنا شروع کیا۔ ۱۹۹۴ء میں جب سلامت مسیح اور رحمت مسیح پر توہین رسالت ؐکا مقدمہ قائم ہوا تو عاصمہ جہانگیر اور حنا جیلانی اپنی روایت کے عین مطابق میدانِ عمل میں کود پڑیں اور بعض مسیحی راہنمائوں اور سیکولر صحافیوں کی جماعت کے تعاون سے اس مقدمے کو پاکستانی پریس میں تشہیر دی۔ یکطرفہ جارحانہ بیان بازی میں حقائق کو پس پشت ڈال دیا گیا۔ بین الاقوامی ذرائع ابلاغ نے بھی اس معمولی مسئلے کو غیر معمولی طور پر اُچھالا، اوروہ اودھم مچایا کہ کانوں پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی۔ عاصمہ جہانگیر اور حناجیلانی مغربی ذرائع ابلاغ کی آنکھ کا تارا بنی ہوئی تھیں۔ آئے دن ان کے انٹرویو اور بیانات سی این این، بی بی سی اور مغربی اخبارات کی زینت بن رہے تھے۔
عاصمہ جہانگیر نے قانونِ توہین رسالتؐ کو بار بار انسانی حقوق کے منافی اور فتنہ قرار دینے کا عمل جاری رکھا،لیکن اس کی اپنی اس فتنہ پردازی کا نوٹس کوئی نہیں لے رہا تھا۔اس کی مسرت آسمان کی بلندیوںکو چھو رہی تھی، جب انہی دنوں پاکستان کی خاتون وزیر اعظم نے گوجرانوالہ میں ایک عوامی جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے اس کے موقف کی تائید کرتے ہوئے قانونِ توہین رسالت کو انسانی حقوق سے متصادم قرار دیا۔ سلامت مسیح کو جرم ثابت ہونے پر ایڈیشنل سیشن جج گوجرانوالہ نے موت کی سزا سنائی، لیکن جلد ہی حکومت کی مداخلت پر اسے ضمانت پر رہائی ملی۔ برطانوی وزیر اعظم جان میجر کے مشیر فلپ جے پارہم نے جان میجر کی طرف سے پاکستان یونائیٹڈ کرسچین کے سربراہ جارج فیلکس کے نام خط میں پاکستانی وزیر اعظم کا شکریہ ادا کرتے ہوئے تحریر کیا :
’’اگرچہ سلامت مسیح پر مذہبی توہین کا الزام برقرار ہے، مگر یہ بات حوصلہ افزا ہے کہ وزیر اعظم بے نظیر کی ذاتی مداخلت کی بنا پر سلامت مسیح کو ضمانت پر رہا کردیا گیا۔‘‘
(روزنامہ جنگ ۹؍ اگست ۱۹۹۴ء)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
سلامت مسیح اور رحمت مسیح نے سزائے موت کے خلاف جب لاہور ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی تو عاصمہ جہانگیر اور مغرب زدہ لابی نے ’پریس ٹرائیل‘ کا ہنگامہ برپا کر دیا۔ بقول مولانا زاہد الراشدی:
’’ہائی کورٹ میں جس تیز رفتاری کے ساتھ اپیل کے مراحل طے کئے گئے اور جو طریق کار اختیار کیا گیا ،اس کی روشنی میں ملزموں کی بریت، رہائی اور بیرونِ ملک روانگی پر کوئی تبصرہ کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔‘‘ ( مجلہ الشریعہ : جنوری ۱۹۹۶ء)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
ایوب مسیح کیس، بشپ جان جوزف کی خود کشی اور عاصمہ جہانگیر کا کردار
سلامت مسیح کیس کے بعد پہلی مرتبہ عاصمہ جہانگیر کے مغربی مسیحی تنظیموں سے گہرے مراسم منظر عام پر آئے۔ اس مقدمہ میں مغربی ذرائع ابلاغ کی غیر معمولی دلچسپی نے عاصمہ جہانگیر کے لئے پاکستان میں مسیحی تنظیموں کے ساتھ اشتراکِ عمل کا راستہ ہموار کیا۔ اس نے بعض مسیحی راہنمائوں کو قانونِ توہین رسالتؐ کے خلاف تحریک چلانے پر آمادہ کیا۔ اب اس نے توہین رسالتؐ کے مرتکب مسیحی نوجوانوں کے مقدمات میں غیر معمولی دلچسپی لینا شروع کی۔ آنجہانی بشپ جان جوزف کی مبینہ خود کشی کے بعد بعض مسیحی گروہوں کی طرف سے پرتشدد مظاہروں کے پس پشت دیگر عناصر کے ساتھ ساتھ عاصمہ جہانگیر کا کردار خاصا اہم رہا ہے۔
۱۱؍ مئی ۱۹۹۸ء کو چیف بشپ کیتھ نے اخباری انٹرویو میں عاصمہ جہانگیر کے منفی کردار پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا :
’’چیف بشپ کیتھ نے دکھ کا اظہار کیا کہ عاصمہ جہانگیر جیسے انسانی حقوق کے علمبردار پاکستان میں مسلمانوں اورعیسائیوں کو آپس میں لڑانا چاہتے ہیں۔ ایسے لوگ مسیحی افراد سمیت دیگر بشپ حضرات کو بھی غلط گائیڈ کرتے ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ عاصمہ جہانگیر پاکستان میں عیسائیوں کے مقدمات تو مفت لڑتی ہیں اور کوئی فیس نہیں لیتیں، لیکن اُنہیں باہر سے ’لمبے پیسے‘ مل جاتے ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ فرانسس جوزف جیسے لوگ عاصمہ جہانگیر اور ہیومن رائٹس آرگنائزیشن کے پروردہ ہیں۔ فرانسس جوزف جو نہایت غریب آدمی تھا، یہ YMCA لاہور میں ایک چپڑاسی کی حیثیت سے کام کرتا تھا۔ الیگزینڈر جان ملک نے اسے گاڑی اور پیسوں کے ناجائز استعمال کے سلسلے میں وہاں سے نکال دیا تھا اور آج وہ عاصمہ جہانگیر کی بدولت ۱۳؍ لاکھ کی گاڑی میں پھر رہا ہے، اس نے اپنے بچوں کی شادی پر رائے ونڈ میں لاکھوں روپے خرچ کئے۔ ایسے بہت سے لوگ عاصمہ جہانگیر اور دوسرے لوگوں کے آلہ کار ہیں اور پاکستان کو بدنام کرنے کے لئے سرگرم عمل ہیں۔‘‘ (روزنامہ ’آزاد‘: ۱۱؍مئی ۱۹۹۸ء)
 
Top