• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قانونِ توہین رسالت ؐاور عاصمہ جہانگیر کا کردار

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
روزنامہ ’خبریں‘ میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق ،انہوں نے کہا کہ
’’وہ دفعہ ۲۹۵؍ سی کے تحت دی جانے والی سزائوں کے بارے میں پریشان ہیں اور جلد ہی عاصمہ جہانگیر کے ذریعے اس سلسلے میں اعلیٰ عدالتوں میں درخواستیں دائر کریں گے ۔‘‘
روزنامہ جنگ کے صفحہ اوّل پر یہ خبر شائع ہوئی :
’’بشپ کی موت میں این جی اوز ملوث ہو سکتی ہیں۔‘‘ (مؤرخہ ۱۲ مئی ۱۹۹۸ء )
۱۳ ؍مئی ۱۹۹۸ء کے ’نوائے وقت‘ میں چیف بشپ کیتھ لیزی کا یہ بیان شائع ہوا :
’’بشپ جوزف کے قتل کے پیچھے امریکی ڈالر اور عاصمہ جہانگیر کے چہرے ہیں۔‘ ‘
اسی دن ’خواتین محاذ عمل‘ جس کی کرتا دھرتا عاصمہ جہانگیر ہیں، کی طرف سے اخبارات میں یہ پریس ریلیز شائع ہوا :
’’خواتین محاذ عمل نے توہین رسالتؐ کا قانون فوری طور پر ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے اور خاص طور پر اس کے آرٹیکل ۲۹۵۔ اے سے ڈی تک کو ختم کرنے پر زور دیا ہے، کیونکہ یہ بنیادی انسانی حقوق کے خلاف ہے۔ انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان کی چیئر پرسن عاصمہ جہانگیر نے کہا ہے کہ بشپ جان جوزف کی خود کشی سے پاکستان میں اقلیتوں میں پائی جانے والی بے چینی کی شدت کا اندازہ ہوتا ہے۔ انسانی حقوق کمیشن پاکستان میں بسنے والی غیر مسلم اقلیتوں کو اپنی حمایت کا یقین دلاتا ہے۔‘‘
آنجہانی بشپ جان جوزف کی آخری رسوم میں شریک عیسائیوں سے خطاب کرتے ہوئے عاصمہ جہانگیر نے یہ اشتعال انگیز بیان داغا :
’’۲۹۵۔ سی اور کتنی جانیں لے گا۔ اقلیتوں کے خلاف اس امتیازی قانون کو ختم کیا جائے۔‘‘
(روزنامہ دن: ۹؍مئی ۱۹۹۸ء)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
بشپ جان جوزف کی خود کشی کے خلاف احتجاج کرنے والے مسیحی جلوس سے تقریر کرتے ہوئے عاصمہ جہانگیر نے ایوب مسیح کیس کی اپیل میںخود پیش ہونے کا اعلان کیا اور کہا کہ انسانی حقوق کی جہاں بھی پامالی ہوئی، وہاں پر احتجاج کے ایسے واقعات ہوتے رہیں گے۔
ساہیوال سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق، ’’توہین رسالتؐ کے ملزم ایوب مسیح کے خلاف مقدمہ کی پیروی کے لئے عاصمہ جہانگیر ایڈووکیٹ کے ذریعے محمد حنیف ڈوگر ایڈووکیٹ کو نامزد کیا گیا۔‘‘ ـــــ (روزنامہ دن، ہفت روزہ ’تکبیر‘ ۲۱؍ مئی ۱۹۹۸ء)
عاصمہ جہانگیر کے اصل عزائم کا پردہ چاک ہو چکا۔ اس کی انسانی حقوق کے ’چمپئن‘ ہونے کی حیثیت بھی مشکوک ہوگئی۔ قومی اخبارات اپنے اداریوں اور مضامین میں عاصمہ جہانگیر کے کردار کو کھل کر تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں، چند سال قبل یہ صورتِ حال نہیں تھی۔ روزنامہ ’خبریں‘ نے اپنے اداریے میں عاصمہ جہانگیر کے منفی کردار پر ان الفاظ میں تنقید کی:
’’بشپ جان جوزف کی مبینہ خود کشی کو بہانہ بنا کر عاصمہ جہانگیر اور مسیحی برادری کے بعض زعما توہین رسالتؐ کے قانون کے خلاف جو مہم چلا رہے ہیں، وہ ایک سوچی سمجھی سکیم کا حصہ معلوم ہوتی ہے۔ انسانی حقوق کے نام پر غیر حکومتی ادارے بنانا اور پھر پاکستان، اسلام اور اسلامی قوانین کے خلاف دریدہ دہنی کے ذریعے امریکہ اور دوسرے مغربی ممالک سے نقد امداد حاصل کرنا، ان تنظیموں اور افراد کا شیوہ ہے۔ فادر جوزف کی مبینہ خود کشی کو بھی کیش کرانے کی کوشش کی جارہی ہے۔‘‘
’’عاصمہ جہانگیر کا یہ بیان کہ توہین رسالتؐ کا قانون فتنوں کا باعث ہے، ان کی ذہنی روش اور فکر کا عکاس ہے۔ عاصمہ جہانگیر کی قبیل کی سبھی عورتوں کو اسلام بطورِ مذہب ہی (نعوذ باللہ) فتنہ معلوم ہوتا ہے۔ یہ نام نہاد ترقی پسند عناصر امریکی ڈالروں کے لئے اسلام کو گالی دینے میں عار محسوس نہیں کرتے۔ اگرچہ ان میں سے اکثر (بدقسمتی) سے مسلمان ماں باپ کی اولاد ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
متعدد مسیحی راہنمائوں نے بھی فادر جوزف کی خود کشی کو مشکوک قرار دیا ہے، لیکن یہ طبقہ اُنہیں ’شہید‘ قرار دینے پر تلا ہوا ہے، ہماری عاصمہ جہانگیر اور دوسرے حضرات سے بھی گزارش ہے کہ وہ ذاتی مفادات کے لئے فتنہ وفساد پھیلانے کی کوشش نہ کریں۔ حکومت کو بھی ایسے عناصر کا محاسبہ کرنا چاہئے جو مسلمانوں اور مسیحی برادری کے درمیان فساد پھیلانے کا موجب بن رہے ہیں۔‘‘ (روز نامہ خبریں، لاہور: ۱۵؍ مئی ۱۹۹۸ء )
عاصمہ جہانگیر اور انسانی حقوق کمیشن کے ڈائریکٹر آئی اے رحمن (قادیانی) نے ۱۸؍ مئی ۱۹۹۸ء کو ’جائنٹ ایکشن کمیٹی فار پیپلز رائٹس‘ کے سیمینار میں تقریر کرتے ہوئے کہا :
’’توہین رسالتؐ سے متعلق قانون کی دفعہ ۲۹۵۔سی مکمل طور پر غیر اسلامی ہے۔ صرف ۲۰ فیصد جاہل مولوی اس قانون کی حمایت کر رہے ہیں، اکثریت توہین رسالتؐ قانون کی حامی نہیں۔ قائد اعظم محمد علی جناح کے نظریات مکمل طور پر سیکولر تھے۔‘‘(روزنامہ ’دن‘ : ۱۹؍ مئی ۱۹۹۸ء)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
آئی اے رحمن مسلمہ طور پر قادیانی ہے اور عاصمہ جہانگیر کے قادیانی ہونے میں بہت کم لوگوں کو شک ہے۔ وہ اپنے ’مسلمان‘ ہونے کا دعو یٰ کرتی ہے، لیکن اس کا ہر قول وفعل اسلام کی مخالفت پر مبنی ہے۔ وہ ایک قادیانی کے نکاح میں ہے، اس پر نہ تو اسے کوئی شرمندگی ہے اور نہ ہی ایک غیر مسلم کی منکوحہ ہونے سے اس کے ’اسلام‘ پر فرق پڑتا ہے۔ مندرجہ بالا بیان ظاہر کرتا ہے کہ عاصمہ جہانگیر اور آئی اے رحمن نے بزعم خویش کسی دار الافتا کے مفتی صاحب کا روپ بھی دھار رکھا ہے۔ نہایت افسوس کا مقام ہے کہ مقامِ رسالتؐ سے ناآشنا اور قرآن وسنت کے حروفِ ابجد سے قطعی طور پر نابلد، اسلام بیزار، اشتراکی ولادین افراد کی طرف سے نہایت اعتماد کے ساتھ یہ ’فتویٰ‘ داغا جارہا ہے کہ قانونِ توہین رسالتؐ’’مکمل طور پر غیر اسلامی ہے۔‘‘
مسلمان نما اسلام دشمنوں کے فریب ودجل کا یہ بھی انداز دیکھنے میں آیا ہے کہ وہ اپنی خواہشاتِ نفس پر مبنی اسلام سے متصادم نظریات کو ’عین اسلام‘ بنا کر پیش کرتے ہیں۔ مقصود یہ ہوتا ہے کہ ناواقف عوام کو بے وقوف بنایا جائے اور اسلامی معاشرے میں اسلام کی کھلی مخالفت کے نتیجے میں درپیش آنے والے خطرات سے اپنے آپ کو محفوظ رکھا جائے۔ برس ہا برس سے عاصمہ جہانگیر حدود آرڈیننس، امتناعِ قادیانیت آرڈیننس، قانونِ توہین رسالتؐ، کو ’اسلام کے منافی‘ اور اپنے خود ساختہ ’آوارگی ٔ نسواں‘ کو فروغ دینے والے ’نسوانی حقوق‘ کو ’اسلام کے عین مطابق‘ قرار دے کر رائے عامہ کو گمراہ کرنے کی ناکام کوشش میں غلطاں رہی ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
توہین رسالتؐ کی سزا بطورِ حد سزائے موت، کتاب وسنت اور سنت خلفاے راشدین وائمہ مطہرین، اجتہاد ائمہ فقہ اور علمائے امت کی متفقہ رائے کی رو سے ثابت ہے۔ امام ابن تیمیہ ؒ اور قاضی عیاضؒ نے اپنی معرکہ آراء تصانیف الصارم المسلول علی شاتم الرسولﷺ اور کتاب الشفاءمیں توہین رسالتؐ کی سزا کے متعلق قرآنی آیات، احادیث ِمبارکہ اور اقوال صحابہ ؓوائمہ کرام کو نہایت تفصیل سے بیان کیا ہے۔
امام ابن تیمیہ ؒنے فتویٰ دیا ہے کہ شاتم الرسول واجب ِقتل ہے اور اس کی توبہ اور معافی قابل قبول نہیں۔ امام مالک ؒ کا قول ہے کہ ’’حضورِ اکرم1کی شان میں گستاخی کرنے والے کی گردن اُڑادی جائے۔‘‘ حضرت علیؓ نے فرمایا کہ ایک یہودی عورت حضور اکرمؐ کو گالیاں دیا کرتی تھی۔ ایک شخص نے ہمیشہ کے لئے اس کا منہ بند کردیا، تو حضور اکرمؐ نے اس کا خون باطل قرار دیا۔ (سنن ابو داود)
اس مختصر مضمون میں تفصیلات کی گنجائش نہیں ہے۔ مجاہد ِناموس رسالتؐ جناب اسمٰعیل قریشی، جن کی شبانہ روز جدوجہد سے قانونِ توہین رسالتؐ پاس ہوا، نے اپنی گراں ما یہ تالیف ’ناموسِ رسولؐ اور قانونِ توہین رسالتؐ‘ میں اس موضوع کے متعلق اسلامی، یہودی اور نصرانی بنیادی ماخذ سے بے بہا معلومات جمع کرکے ثابت کیا ہے کہ توہین رسالتؐ کی سزا اسلام، عیسائیت اوریہودیت میں صرف موت ہے۔اسلامی علوم وکتب سے تو عاصمہ جہانگیر جیسے مغرب زدہ افراد کو خدا واسطے کا بیر ہے۔ اگر وہ اپنے خبثِ باطن اور علمی بد دیانتی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے وفاقی شرعی عدالت کے اس تاریخی فیصلے کی ورق گردانی ہی کر لیتی جس میں فاضل عدالت نے طویل عرصہ تک دلائل سننے کے بعد قرار دیا کہ توہین رسالتؐ کی سزا صرف موت ہے، تو اُنہیں ضرور آ گاہی ہو جاتی کہ ’جاہل‘ کون ہے؟
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ وفاقی شرعی عدالت کے اس بنچ پر مولوی نہیں بلکہ ہماری عدلیہ کے قابل فخر ارکان جسٹس گل محمد خان (چیف جسٹس)، جسٹس عبد الکریم خان کندی، جسٹس عبادت یار خان، جسٹس عبد الرزاق تھہیم اور جسٹس فدا محمد خان موجود تھے۔ عاصمہ جہانگیر نے قانونِ توہین رسالت ؐکی حمایت کرنے والوں کو ’جاہل‘ قرار دے کر بالواسطہ طور پر وفاقی شرعی عدالت کے ان جج صاحبان کو بھی ’جاہل‘ قرار دے دیا ہے، جنہوں نے قرآن وسنت کی روشنی میں یہ فیصلہ صادر فرمایا۔
٭عاصمہ جہانگیر اور اس کے ہم خیال بدبخت ’دانشوروں‘ کو معلوم ہونا چاہئے کہ تاجدارِ ختم نبوتؐ، امام الانبیا، سرورِ کائناتﷺ کی حرمت وناموس پر کٹ مرنا ہر مسلمان کی زندگی کی آرزو ہے۔ یہ محض ’۲۰ فیصد مولویوں‘ کی حمایت کی بات نہیں ہے، مسلمانوں کے بچے بچے کے دل کی آواز ہے کہ توہین رسالتؐ کے مرتکب خبیث مجرموں کی سزا صرف موت ہے۔ اُنہیں یہ بھی اچھی طرح یاد رکھنا چاہئے کہ ’مولوی‘ کی مخالفت کی آڑ میں اسلام کے بنیادی عقائد کی اہانت کا ان کا دیرینہ، اشتراکی وقادیانی حربہ اب کارگر نہیں ہوگا ،کیونکہ رسولِ عربیﷺکے جان نثار اسلام سے ان کی دشمنی، ان کے خبث ِباطن اور باطل عزائم سے اب بخوبی آگاہ ہوچکے ہیں۔ اب آپ کو اخلاقی جرا ت سے کام لینا ہوگا۔
پردوں میں چھپ کر وار کرنے سے آپ کے چہرے چھپ نہیں سکیں گے،جیسا کہ بیرسٹر خالد اسحق صاحب نے ’نیوز لائن‘ کے رپورٹر کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’’قائداعظم سیکولر نہیں تھے۔ اُن کو سیکولر کہنا محض پرلے درجے کی الزام تراشی ہے۔‘‘ (شمارہ فروری ۱۹۹۸ء)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ عاصمہ جہانگیر، آئی اے رحمن اور بعض مسیحی راہنما اپنے بیانات میں قانونِ توہین رسالتؐ کو فکر قائد اعظم کے منافی قرار دیتے ہیں۔ ان نام نہاد ترقی پسند اور روشن خیال افراد کے نزدیک ’سیکولر ازم‘ کا جو مفہوم ہے، قائد اعظم کا اس سے دور کا بھی تعلق نہیں تھا۔ ان کی ’سیکولر ازم‘ توہین رسالتؐ کے جواز ڈھونڈتی ہے،جبکہ قائد اعظم سچے محب ِرسول ؐتھے۔ وہ اپنی تمام مصروفیات کو چھوڑ کر شاتم رسولؐ کے مقدمہ کی پیروی کرنے کے لئے بمبئی سے لاہور خود تشریف لائے تھے۔ آج یہ فتنہ پرداز محسن انسانیتﷺکی ناموس کے تحفظ پر مبنی قانون کو ’فتنہ‘ قرار دیتے ہوئے نہیں جھجکتے۔ قائد اعظم کی محبت رسولؐ کا یہ عالم تھا کہ قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے اُنہوں نے لنکنز اِن (Lincon's Inn) کا انتخاب محض اس لئے کیا تھا کہ اس کے دروازے پر اسم محمد1 بھی دیگر قانون دانوں کے درمیان لکھا گیا تھا۔
٭ عاصمہ جہانگیر اور آئی اے رحمن کا یہ دعویٰ بھی حقائق کا منہ چڑا رہا ہے کہ ’’توہین رسالت کی حمایت صرف ۲۰ فیصد مولوی کر رہے ہیں اور اکثریت اس کی حامی نہیں۔‘‘ کاش اس دروغ گوئی سے پہلے وہ اس شریعت پٹیشن کو یک نظر دیکھ لیتی جو محمد اسمٰعیل قریشی ایڈووکیٹ نے وفاقی شرعی عدالت میں گزاری۔ اس درخواست پر ۷۸؍ افراد کے دستخط موجود ہیں ،جن کی بھاری اکثریت سپریم کورٹ، ہائی کورٹ کے سابق جج صاحبان، معروف وکلا، سابق اٹارنی وایڈووکیٹ جنرلز پر ہی مشتمل ہے۔ اس فہرست میں مستند علما کی تعداد چھ سات ہے۔ آنجہانی بشپ جوزف کی موت کے بعد صدرِ مملکت، حکومتی وزرا، سیاستدانوں، علما، قانون دانوں اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے راہنمائوں کے قومی پریس میں شائع ہونے والے بیانات کے سرسری مطالعے سے بھی یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے کہ ناموسِ رسالتؐ مسلمانوں کا متفقہ واجتماعی مسئلہ ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
عاصمہ جہانگیر اور ان کے حواری جس آسانی سے جھوٹ، غلط بیانی اور حقائق کو مسخ کرتے ہیں، وہ اس ’طبقہ دانشوراں‘ کا کلچر ہے۔ اُنہیں شرم دلانے کا فائدہ بظاہر کچھ نہیں ہے، کیونکہ ان کے شرم وحیا کے پیمانے مغرب سے مستعار ہیں۔
٭ سوال پیدا ہوتا ہے کہ عاصمہ جہانگیر ’مسلمانی‘ کا دعویٰ کرنے کے باوجود اسلام اور بانی اسلامؐ کی مخالفت پر کمربستہ کیوں ہے؟ اس کا جواب بالکل سادہ اور آسان ہے کہ وہ اسی طرح ’مسلمان‘ ہے جس طرح مرزا غلام احمد قادیانی کا ہر پیروکار اپنے آپ کو ’مسلمان‘ سمجھتا ہے۔ خاتم الانبیاء حضرت محمدﷺ کی شان میں گستاخی قادیانیت کے مزاج میں داخل ہے۔ اس بات کی تائید ہمیں فرزند اقبال، ڈاکٹر جاوید اقبال کی تالیف ’زندہ رود‘ میں موجود حضرت علامہ اقبال کے اس قول سے بھی ہوتی ہے۔ حضرت علامہ ؒنے فرمایا تھا :
’’میرے شبہات نے اس تحریک (قادیانیت) کے خلاف مکمل بغاوت کرلی، جب میں نے اپنے کانوں سے اس تحریک کے ایک رکن کو نبی کریم1 کے بارے میں نازیبا زبان استعمال کرتے ہوئے سنا۔‘‘
٭ عاصمہ جہانگیر کی قابل اعتراض سرگرمیوں کا دائرہ کار وسیع ہوتا چلا جارہا ہے۔ عورتوں کے حقوق کے نام پر پاکستان کے خاندانی نظام پر پہلے ہی یہ کاری ضرب لگاچکی ہے۔ انسانی حقوق کے نام پر وہ پاکستان میں ایک عظیم فتنہ کی بنیادرکھ چکی ہے جس کا مظاہرہ حالیہ مسیحی اقلیت کے پرتشدد دنگا وفساد کی صورت میں سامنے آچکا ہے۔ وہ شرمناک بے باکی سے جو منہ میں آتا ہے، بک دیتی ہے۔ اس کی زبان درازیوں کا سلسلہ حد انتہا کو چھو چکا ہے۔ اس کی جسارتوں کا اندازہ لگائیے کہ وہ ۹۷% مسلمان آبادی والی اسلامی نظریاتی مملکت میں توہین رسالتؐ کے قانون کو ’فتنہ‘ قرار دیتی ہے۔ ہر صاحب ِعقل ودانش اس شرانگیز بیان کی زہرناکی اور امن عامہ کے لئے اس کے موجب ِفساد ہونے کا اندازہ آسانی سے لگا سکتا ہے۔ اس ملک میں امن عامہ کے فساد کے خطرے کے پیش نظر علما اور سیاستدانوں کو ’حفاظتی نظر بندی‘ میں لے لیا جاتا ہے ،لیکن یہ امر تعجب کا باعث ہے کہ عاصمہ جہانگیر کی امن عامہ کو تباہ کرنے والی سرگرمیوں کو یکسر نظر انداز کیا جاتا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
سوال پیدا ہوتا ہے کہ قانونِ توہین رسالتؐ کو ’فتنہ‘ قرار دینا کیا توہین رسالتؐ نہیں ہے۔ ۱۰ مئی ۱۹۹۸ء کے نوائے وقت میں مسلم لائرز فورم کے ارکان کا بیان شائع ہوا :
’’توہین رسالتؐ کے قانون کی مخالفت پر غداری کا مقدمہ چل سکتا ہے، کیونکہ اعلیٰ عدالتیں توہین رسالتؐ کے قانون ۲۹۵۔ سی کو آئینی قرار دے چکی ہیں۔‘‘
۲۹۵۔ سی کا متن درج ذیل ہے، جسے قانون توہین رسالت کہا جاتاہے:
’’جو کوئی الفاظ کے ذریعے خواہ زبانی ہوں یا تحریری یا نقوش کے ذریعہ، یا کسی تہمت، کنایہ یا در پردہ تعریض کے ذریعے بلا واسطہ یا بالواسطہ رسول پاک حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پاک نام کی توہین کرے گا تو اسے موت کی سزا دی جائے گی اور وہ جرمانے کا بھی مستوجب ہوگا۔‘‘ (مجموعہ تعزیراتِ پاکستان)
قانونِ توہین رسالتؐ میں کوئی ابہام نہیں ہے۔ اس کی رو سے محض واضح توہین آمیز الفاظ کی ادائیگی ہی نہیں،بلکہ ’کنایہ یا در پردہ تعریض کے ذریعے بالواسطہ‘ طور پر بھی رسالت مآبﷺ کی شان میں کسی قسم کی گستاخی سزا کی مستوجب ہے۔ عاصمہ جہانگیر جیسی فتنہ مجسم خاتون وکیل کاقانون توہین رسالتؐ کو ’فتنہ‘ قرار دینا ۲۹۵۔ سی کی رو سے قابل گرفت ہے۔ آخر کب تک اس مغربی صہیونی لابی کی ایجنٹ عورت کو مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنے کا شغل جاری رکھنے کی اجازت دی جاتی رہے گی؟ یہ سوال عاصمہ جہانگیر کے دل آزار بیانات سے زخم خوردہ و دل گرفتہ ہر مسلمان کی زبان پر ہے۔ حکومتِ پاکستان نے جس طرح ماضی میں جرات مندی سے بشپ جان جوزف کی خود کشی پر امریکی وزارتِ خارجہ کے رد عمل کو مسترد کر دیا، بالکل اسی جراتِ ایمانی سے مغرب کے تنخواہ دار ایجنٹوں کی سرکوبی کے لئے تادیبی اقدامات کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ تاکہ وہ رسالت مآبﷺ کی شان میں گستاخی کرکے مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو آئندہ مجروح نہ کر سکیں۔نبی آخر الزمان ؐکاہر سچا پیروکار عاصمہ جہانگیر جیسی گستاخ رسول ﷺ عورت کو پابند ِسلاسل دیکھنے کا متمنی ہے !!
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
جزاکم اللہ خیرا!
اللہ تعالیٰ عطاء اللہ صدیقی مرحوم کی قبر منور فرمائے، آمین یا رب العٰلمین!
 
Top