قرائن قضائیہ کی مثالیں:
قرائن قضائیہ وہ ہوتے ہیں جن سے قاضی استنباط کرتاہے اور دونوں دعویداروں میں سے جو اس کے غالب گمان میں سچا اور صحیح ہوتا ہے اس کے حق میں فیصلہ صادر کرتا ہے بعض اوقات حلف لے کر اور بعض اوقات بغیر حلف کے۔ جب تک اس کے خلاف کوئی اقویٰ ثبوت موجود نہ ہو اس وقت تک انہیں قرائن قضائیہ کو ترجیح دی جائے گی۔
مثال نمبر 1:
بخاری و مسلم میں حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ دو عورتیں حضرت داؤد کے پاس اپنے بیٹے کا جھگڑا لے کر پیش ہوئیں انہوں نے اپنا واقعہ یوں سنایا کہ ہم دونوں نے اپنے اپنے بیٹیوں کو ایک جگہ پر لٹایا اور ہم کسی کام کے لئےدور چلی گئیں تو بھیڑیا آیا اور ایک لڑکے کو اٹھا کر لے گیا۔ اب ہمارا جھگڑا ہوا ہے کہ یہ کہتی ہے کہ تیرے بیٹے کو بھیڑیا لے گیا اور یہ میرا بیٹا ہے اور میں کہتی ہوں میرا لڑکا ہے آپ فیصلہ فرمائیے۔ حضرت داؤد نے دونوں کی باتیں سن کر بڑی کے حق میں فیصلہ کردیا تو پھر وہ وہاں سے حضرت سلیمان بن داؤد کے پاس فیصلہ لے گئیں اور ان کو اپنا قصہ سنایا۔ حضرت سلیمان نے فرمایا چُھری لاؤ میں تمہارے درمیان اس کو دو ٹکڑے کرکے تقسیم کردیتا ہوں تو چھوٹی نے کہا اے اللہ کے نبی آپ پر اللہ تعالیٰ رحم کرے آپ ایسا نہ کریں بلکہ یہ لڑکا اسی بڑی کو ہی دے دیں تو حضرت سلیمان نے چھوٹی کے حق میں فیصلہ کردیا۔
وجہ دلالت :
امام نووی فرماتے ہیں کہ حضرت سلیمان کا ارادہ بھی دو ٹکڑے کرنے کا نہ تھا بلکہ وہ دیکھنا چاہتے تھے کہ ان دونوں میں سے کس کو بچے پرشفقت آتی ہے تو جب دیکھا کہ بڑی اس کے دو لغت کرنے پرراضی ہوگئی ہے تو اس سے انہوں نے اندازہ لگایا کہ اس کا دعویٰ جھوٹا ہے اور محبت بھی جھوٹی ہے اور چھوٹی کا اس کے دو ٹکڑے کرنے سے انکار اس کی دلیل ہے کہ وہ اس کی حقیقی ماں ہے اور ماں ہی ہمیشہ اپنے بچے پر اتنی مہربان ہوتی ہے تو اس کی یہ عاطفت اور محبت اس بات کا قرینہ اور علامت ہے کہ یہ بچہ چھوٹی کا ہی ہے تو سلیمان نے چھوٹی کے حق میں فیصلہ کردیا۔
تو اس واقعہ میں حضرت سلیمان نے جب دیکھا کہ دونوں کے پاس گواہ نہیں ہیں تو آپ نے کسی سے حلف نہیں لیا بلکہ اپنے اجتہاد سے فیصلہ کیا۔ جس کی تائید خود اللہ تعالیٰ نے فرمائی ۔ ارشاد خداوندی ہے :
'' فَفَهَّمنـٰها سُلَيمـٰنَ ۚ وَكُلًّا ءاتَينا حُكمًا وَعِلمًا ۚ ''[35] (الانبيا:٢١)
ہم نے اس کا صحیح فیصلہ سلیمان کو سمجھا دیا۔ ہاں ہر ایک کو ہم نے حکم وعلم دے رکھا تھا-
دوسری مثال :
دو آدمیوں نے ایک مکان میں جھگڑا کیا اورکسی کے پاس گواہ یا تحریری ثبوت نہیں ہے تو قاضی اس شخص کے حق میں فیصلہ کرے گا جس کا قبضہ ہے ، قبضہ باعتبار ظاہر کے ملک کا قرینہ ہوتا ہے۔
تیسری مثال :
حکام اور حکومت کے کارندوں کے پاس بہترین اورعمدہ محلات کا ہونا اور ان کے پاس دولت کا زیادہ ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ انہوں نے رشوت لی ہوگی یا بیت المال میں خیانت کی ہوگی تو جب تک وہ اپنی آمدنی کے ذرائع کا ثبوت پیش نہ کریں گے ان کی جملہ املاک بھی ضبط کرلی جائے گی اور ان کو معزول بھی کردیا جائے گا جیسے کہ سیدنا حضرت عمرؓ نے کیا۔[36]
خلاصہ :
خلاصہ یہ ہوا کہ قرائن قضائیہ کا درجہ ترجیحات اولیہ کا درجہ ہوتا ہے۔ اس کے خلاف اگر کوئی اقویٰ قرینہ یا راجح دلیل مل جائے تو وہ فیصلہ باطل ہوجاتا ہے کیونکہ قرائن احتیاطی وسیلہ ہیں قاضی قرائن کی طرف اسی وقت محتاج ہوتا ہے جب اس کے سامنے کوئی مضبوط دلائل اور راجح ثبوت پیش نہ کئے جائیں بلکہ بعض اوقات تو قرائن اتنے مضبوط ہوتے ہیں کہ دلیل شرعی کو بھی باطل کردیتے ہیں۔
1۔ مثلاً ایک شخص فقیر اور مفلس ہے اس کے پاس اپنے بچوں کی روٹی کے لئے بھی پیسے نہیں ہیں وہ ایک شخص پر دعویٰ کردیتا ہے کہ میں نے اس کو دو لاکھ روپیہ قرض دیا ہے اور اس کے ثبوت میں وہ گواہ یاقسم پیش کردیتا ہے تو اس کا یہ دعویٰ قبول نہ کیا جائے گا۔ کیونکہ قرض دینے کے لئے تو دولت مند ہونا ضروری ہے تو اس کی حالت اس بات کا قرینہ ہے کہ وہ اپنے دعویٰ میں کاذب ہے۔لہٰذا دعویٰ خارج کردیا جائے گا۔
2۔ کوئی شخص اپنے دعویٰ میں کسی قریبی رشتہ دار کو گواہ کے طور پر پیش کرتا ہے تو اس گواہی کورد کردیا جائے گا کیونکہ قرابت محبت کی علامت ہے تو اس گواہ پر تہمت آئے گی کہ اس نے محض رشتہ داری اور قرابت کی وجہ سے اپنے قریبی رشتہ دار کے حق میں گواہی دی ہے، اس لئے ایسے دعویٰ کو بھی خارج کردیا جائے گا۔ اس کی سماعت نہیں کی جائے گی تو آپ نے دیکھ لیا کہ ان صورتوں میں دلیل شرعی موجود ہونے کے باوجود قرائن کو ترجیح دی گئی ہے۔[37]