کلیم حیدر
ناظم خاص
- شمولیت
- فروری 14، 2011
- پیغامات
- 9,747
- ری ایکشن اسکور
- 26,381
- پوائنٹ
- 995
قرائن کے ساتھ حقوق مالیہ کا اثبات :
اس سے قبل بتایا جاچکا ہے کہ قرائن کےساتھ حقوق مالیہ کا اثبات جائز ہے اس پر جمہور فقہاء کا اتفاق ہے۔ حقوق مالیہ پھر دو قسم کے ہیں بعض وہ ہیں جن کا تعلق حقوق اللہ کے ساتھ اور بعض وہ ہیں جن کا تعلق حقوق العباد کے ساتھ ہے وہ حقوق مالیہ جن کا تعلق اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہے دراصل ان میں بھی انسانوں کا اجتماعی فائدہ مضمر ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی طرف نسبت تو محض تکریم اور اہمیت بتانے کے لئے ہے جیسے زکوٰۃ اور صدقات واجبہ وغیرہ۔ وہ حقوق جن کا تعلق حقوق العباد کے ساتھ ہے وہ ہیں نفقہ زوجہ یا نفقہ والدین و اقارب وغیرہ یا وراثت اور ہبہ وغیرہ۔
اقوال فقہاء کرام :
اکثر فقہاء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جب کوئی قوی تر دلیل (یعنی گواہ اور اقرار) موجود نہ ہو تو حقوق مالیہ کا اثبات قرائن کے ساتھ جائز ہے مگر بعض فقہاء بعض صورتوں میں اختلاف کرتے ہیں۔ پہلے ہم آپ کے سامنے وہ مثالیں پیش کرتے ہیں جو متفق علیہ یں۔
مثال اوّل :
دو آدمی ایک سواری پر سوار ہیں، دونوں یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ سواری میری ہے اس صورت میں فیصلہ اس شخص کے بارے میں کیا جائے گا جس کے ہاتھ میں لگام ہے کیونکہ اس کا قبضہ زیادہ قوی ہے بنسبت دوسرے شخص کے ۔[43]
مثال دوم :
ایک چیز دو شخصوں کے ہاتھ میں ہے اورکسی کے پاس گواہ نہیں ہیں تو وہ چیز دونوں کے درمیان نصف نصف تقسیم کی جائے گی کیونکہ اس میں دونوں کا قبضہ ہے اس پر نص شرعی بھی موجود ہے۔
ایک اونٹ میں اختلاف ہوا اور اس پر سامان بھی لدا ہوا ہے تو سامان والے کے حق میں فیصلہ کیا جائے گا کیونکہ اس کا قبضہ زیادہ قوی ہے۔[45]
مثال چہارم :
رکاز (مدفون خزانہ) ملا اگر اس پر علامات کفر ہیں اور اشارات جاہلیت جاری ہوگا یعنی اس میں سے خمس بیت المال میں جمع کیا جائے گا اور باقی چار حصے پانے والے کو ملیں گے اور اگر اس پر اسلامی علامات ہیں یعنی اس پر آیات قرآنیہ یا خلفاء راشدین یا مسلمانوں کے نام کندہ ہیں تو اس پر لُقطہ کا حکم جاری ہوگا کیونکہ ان علامات و قرائن کے اعتبار سے ہم یہی سمجھیں گے کہ یہ مال کسی مسلمان کا ہے جس نے اس کو دفن کیا ہے یا مال گم شدہ ہے۔[46]
اس سے قبل بتایا جاچکا ہے کہ قرائن کےساتھ حقوق مالیہ کا اثبات جائز ہے اس پر جمہور فقہاء کا اتفاق ہے۔ حقوق مالیہ پھر دو قسم کے ہیں بعض وہ ہیں جن کا تعلق حقوق اللہ کے ساتھ اور بعض وہ ہیں جن کا تعلق حقوق العباد کے ساتھ ہے وہ حقوق مالیہ جن کا تعلق اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہے دراصل ان میں بھی انسانوں کا اجتماعی فائدہ مضمر ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی طرف نسبت تو محض تکریم اور اہمیت بتانے کے لئے ہے جیسے زکوٰۃ اور صدقات واجبہ وغیرہ۔ وہ حقوق جن کا تعلق حقوق العباد کے ساتھ ہے وہ ہیں نفقہ زوجہ یا نفقہ والدین و اقارب وغیرہ یا وراثت اور ہبہ وغیرہ۔
اقوال فقہاء کرام :
اکثر فقہاء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جب کوئی قوی تر دلیل (یعنی گواہ اور اقرار) موجود نہ ہو تو حقوق مالیہ کا اثبات قرائن کے ساتھ جائز ہے مگر بعض فقہاء بعض صورتوں میں اختلاف کرتے ہیں۔ پہلے ہم آپ کے سامنے وہ مثالیں پیش کرتے ہیں جو متفق علیہ یں۔
مثال اوّل :
دو آدمی ایک سواری پر سوار ہیں، دونوں یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ سواری میری ہے اس صورت میں فیصلہ اس شخص کے بارے میں کیا جائے گا جس کے ہاتھ میں لگام ہے کیونکہ اس کا قبضہ زیادہ قوی ہے بنسبت دوسرے شخص کے ۔[43]
مثال دوم :
ایک چیز دو شخصوں کے ہاتھ میں ہے اورکسی کے پاس گواہ نہیں ہیں تو وہ چیز دونوں کے درمیان نصف نصف تقسیم کی جائے گی کیونکہ اس میں دونوں کا قبضہ ہے اس پر نص شرعی بھی موجود ہے۔
مثال سوم :عن ابي موسيٰ رضي اللهعنه ان رجلين اختصما في دابة وليس لواحد منھما بينة فقضيٰ بھا رسول الله صلي الله عليه وآله وسلم بينھما نصفين۔[44]
ترجمہ: حضرت ابوموسیٰؓ سے روایت ہے کہ دو شخص ایک جانور کا جھگڑا لے کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے ا ور ان کے پاس گواہ نہ تھے تو آپﷺ نے وہ جانور دونوں کے درمیان آدھا آدھا تقسیم فرما دیا۔
ایک اونٹ میں اختلاف ہوا اور اس پر سامان بھی لدا ہوا ہے تو سامان والے کے حق میں فیصلہ کیا جائے گا کیونکہ اس کا قبضہ زیادہ قوی ہے۔[45]
مثال چہارم :
رکاز (مدفون خزانہ) ملا اگر اس پر علامات کفر ہیں اور اشارات جاہلیت جاری ہوگا یعنی اس میں سے خمس بیت المال میں جمع کیا جائے گا اور باقی چار حصے پانے والے کو ملیں گے اور اگر اس پر اسلامی علامات ہیں یعنی اس پر آیات قرآنیہ یا خلفاء راشدین یا مسلمانوں کے نام کندہ ہیں تو اس پر لُقطہ کا حکم جاری ہوگا کیونکہ ان علامات و قرائن کے اعتبار سے ہم یہی سمجھیں گے کہ یہ مال کسی مسلمان کا ہے جس نے اس کو دفن کیا ہے یا مال گم شدہ ہے۔[46]