• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قبولِ حق

شمولیت
جنوری 31، 2015
پیغامات
287
ری ایکشن اسکور
58
پوائنٹ
71
لوگ اتنے خوش تھے کہ جیسے کامیاب و کامران ہو گے ۔ اور ہم باغ باغ ( Glad ) کیوں نہ ہوں ، ہمیں شرک و تقلید سے پاک اور کتاب و سنت پر مبنی راستے کی پہچان ہوگئی ۔ ہمارے دل شاد کیوں نہ ہوں ، ہمیں بدعات سے چھٹکارا مل گیا اور سنتوں سے واقفیت ہو گئی ۔ ہم راضی کیسے نہ ہوں ، ہمیں نمازِ نبوی ﷺ اور طلاق کا درست طریقہ معلوم ہو گیا ۔ عبدالرحمن نے پوچھا :
’’ میرے بھائیوں ! آپ سب باتیں سمجھ گئے ہیں نا ؟ ‘‘
’’ ہم سمجھ گئے ہیں ، تمام لوگوں نے جواب دیا مگر ضعیف آدمی خاموش رہا ۔ ‘‘
عبدالرحمن نے سنجیدگی سے سوال کیا :
’’ بابا جی ! اگر آپ کوئی بات سمجھنا چاہتے ہیں تو بتائیں ؟ ‘‘
بوڑھا شخص غصے اور زور سے بولا :
’’ میں برادری اور اپنے باپ ، دادے کا عقیدہ کیوں چھوڑوں ؟ بڑا آیا تو قرآن و حدیث والا ، تمہیں معلوم ہے کہ تم جنتی ہو ؟ قیامت کو فیصلہ ہو جائے گا کہ کون سچا تھا ۔ جاؤ ! میں نہیں مانتا تم کو ۔ ‘‘
عبدالرحمن :
’’ حد ہو گئی ! ‘‘ بابا جی ! اگر آپ غلط عقیدے پر جمے رہیں گے تو صرف آپ کا نقصان ہی نہیں بلکہ قیامت تک آنے والی آپکی آل و اولاد کا بھی خسارہ ( Loss ) ہو جائے گا ۔ کیونکہ آپ کے کنبے ( Family ) کے لوگ بھی یہی کہیں گے کہ : ’’ میں برادری اور اپنے باپ ، دادے کا عقیدہ کیوں چھوڑوں ؟ ‘‘ حالانکہ میں پہلے بھی بتا چکا ہوں کہ : ’’ مشرک کا ہر دور میں ہی یہی جواب رہا ہے کہ ہمارے باپ دادا ایسے کرتے تھے اور ہم ان کی پیروی کریں گے ‘‘ ۔ کیا قوم و برادری قیامت کو آپ کی مدد کر سکے گی ؟ قبول حق سے ہمارا اپنا ہی فائدہ ہے ، اگر ہم باطل پر ہی قائم رہیں گے تو اﷲ تعالیٰ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے ۔
سچائی کو قبول نہ کرنا کوئی سمجھ داری نہیں ہے بلکہ حق نہ قبول کرنے والوں کے لیے درد ناک عذاب کی وعید ہے ۔ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’ اور جب اس سے کہا جاتا ہے کہ اﷲ سے ڈر ، تو اپنے وقار کا خیال اس کو گناہ پر جما دیتا ہے ۔ ایسے شخص کے لیے تو بس جہنم ہی کافی ہے اور وہ بہت برا ٹھکانہ ہے ‘‘ ، ( البقرۃ : ۲۰۶ ) ۔ دوسرے مقام پر ہے : ’’ اور اعلان فرما دیجئے ! کہ یہ سراسر بر حق قرآن تمہارے رب کی طرف سے ہے ۔ اب جو چاہیے ایمان لائے اور جو چاہے کفر کرے ۔ ظالموں کے لیے ہم نے وہ آگ تیار کر رکھی ہے جس کی قناتیں انہیں گھیر لیں گی ۔ اگر وہ فریاد رسی چاہیں گے تو ان کی فریاد رسی اس پانی سے کی جائے گی جو تیل کی تلچھٹ جیسا ہو گا جو چہرے بھون دے گا ، بڑا ہی برا پانی
ہے اور بڑی بری آرام گاہ ( دوزخ ) ہے ‘‘ ، (الکہف : ۲۹ ) ۔ تیسرے مقام پر ہے : ’’ اس سے بڑھ کر ظالم کون ہے جو اﷲ تعالیٰ پر جھوٹ
بولے ؟ اور سچا دین جب اس کے پاس آئے تو اسے جھوٹا بتائے ؟ کیا ایسے کفار کے لیے جہنم ٹھکانا نہیں ہے ؟ ( الزمر : ۳۲ )
حق کو قبول کرنے والوں کے متعلق اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’ اور جو سچے دین کو لائے اور جس نے اس کی تصدیق کی یہی لوگ پرہیز گار ہیں ۔ ان کے لیے ان کے رب کے پاس ( ہر ) وہ چیز ہے جو یہ چاہیں ، نیک لوگوں کا یہی بدلہ ہے ‘‘ ، ( الزمر : ۳۳ تا ۳۴ ) ۔ الرحمن مزید فرماتے ہیں : ’’ یقیناًتمہاری کوشش مختلف قسم کی ہے ۔ جس نے دیا ( اﷲ کی راہ میں ) اور ڈرا ( اپنے رب سے ) اور نیک بات کی تصدیق کرتا رہا ۔ تو ہم بھی اسکو آسان راستے کی سہولت دیں گے ‘‘ ، ( اللیل : ۴ تا ۷ ) ۔
حق کو قبول کرنے والوں کو اﷲ تعالیٰ نے دنیا و آخرت میں کامیاب کر دیا اور باطل پر جمے رہنے والوں کو اﷲ پاک نے دونوں جہان میں ذلیل و رسوا کر دیا ۔ مثال کے طور پر : ’’ حضرت بلالؓ ، امیہ بن خلف کے غلام تھے ۔ جب حق بات کا علم ہوا تو کسی کی پروا نہ کرتے ہوئے اسلام قبول کر لیا ۔ قبولِ اسلام کے جرم میں کفار سیدنا بلالؓ کو گرم ریت پر لٹاتے ، رسی گلے میں ڈال کر گلیوں میں گھسیٹے ، بھوکا رکھتے اور سخت دھوپ میں سینے پر پتھر رکھ دیتے ‘‘ ۔ لیکن حضرت بلالؓ احد احد کی صدا بلند کرتے ۔ حتی کہ سیدنا ابو بکرؓ نے انہیں خرید کر اﷲ تعالیٰ کی رضا کے لیے آزاد کر دیا ۔ پھر اﷲ تعالیٰ نے کامیاب کیا کہ : ’’ فتح مکہ کے موقع پر بیت اﷲ کی چھت پر چڑھ کر اذان دی ، جن کے چلنے کی آواز نبی پاک ﷺ نے جنت میں سنی اور جو غلام سے سردار بن گئے ۔ ‘‘
دوسری طرف عمرو بن ہشام جو سردار تھا ۔ وہ اس قدر ذہین تھا کہ لوگ اسے ابوالحکم یعنی دانائی کا باپ کہتے تھے ۔ جب سید المرسلین ﷺ نے دین حق کی دعوت دی تو اس نے مسلمانوں اور نبی پاک ﷺ کو تکلیفیں پہنچانا شروع کردیں ۔ تکبر و غرور کی وجہ سے اسلام قبول نہیں کیا تو رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا : ’’ یہ ابو جہل ہے یعنی جہالت کا باپ ہے ‘‘ ۔ ابو جہل کو جنگ بدر میں دو نو عمر جوانوں نے جہنم واصل کر دیا ۔
اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ : ’’ اور ( دوزخی ) کہیں گے کہ اگر ہم سنتے ہوتے یا عقل رکھتے ہوتے تو دوزخیوں میں ( شریک ) نہ ہوتے ۔ پس انہوں نے اپنے جرم کا اقبال کر لیا ۔ اب یہ دوزخی دفع ہوں ( دور ہوں ) ‘‘ ، ( الملک : ۱۰ تا ۱۱ ) ۔ ضعیف آدمی کی آنکھوں سے قطار در قطار آنسو ٹپکنے لگے اور وہ بول پڑا :
’’ بس کرو بیٹا ، بس کرو ! میں ہار گیا اور تم جیت گئے ۔ میں نے ساری زندگی قرآن و حدیث کی مخالفت ہی کی ہے ۔ برادری کے پیچھے لگ کر میں اندھا ہی ہو گیا اور کتاب و سنت کی بھی پروا نہیں کی ۔ میں توحید و سنت کی دعوت سننا پسند ہی نہیں کرتا تھا اور شرک و تقلید کو ہی اپنی زندگی کا نصب العین بنا رکھا تھا ۔ سنت نبوی ﷺ کو چھوڑ کر بدعات کو سینے سے لگاتا رہا ۔ میں عاشق رسول ﷺ ہونے کے دعوے تو بہت کرتا تھا لیکن نماز نبی کریم ﷺ کے طریقے کے مطابق پڑھنا گوارہ نہ تھا ۔ اگر کوئی اﷲ اور رسول اﷲ ﷺ کی بات کرتا تو عقلی دلائل دے کر اسے بات ہی نہ کرنے دیتا ۔ کیا اﷲ تعالیٰ مجھ جیسے ظالم کو معاف فرما دے گا ؟ ‘‘
عبدالرحمن خوشی کا اظہار کرتے ہوئے بولا :
بابا جی ! اگر آپ سچی توبہ کریں تو اﷲ پاک خطاوں کو نیکیوں میں تبدیل فرما دے گا کیونکہ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’مگر جو توبہ کریں اور ایمان لائیں اور نیک کام کریں ، ایسے لوگوں کے گناہوں کو اﷲ تعالیٰ نیکیوں سے بدل دیتا ہے ، اﷲ تعالیٰ بخشنے والا مہربانی کرنے والا ہے ۔ اور جو شخص توبہ کرے اور نیک عمل کرے وہ تو (حقیقتاََ ) اﷲ تعالیٰ کی طرف سچا رجوع کرتا ہے ‘‘ ، ( الفرقان : ۷۰ تا ۷۱ ) ۔ اﷲ پاک مزید فرماتے ہیں : ’’ ( میری جانب سے ) کہہ دو کہ اے میرے بندو ! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے تم اﷲ تم اﷲ کی رحمت سے نا امید نہ ہو جاؤ ، بالیقین اﷲ تعالیٰ سارے گناہوں کو بخش دیتا ہے ، واقعی وہ بڑی بخشش اور بڑی رحمت والا ہے ‘‘ ، ( الزمر : ۵۳ ) ۔
’’ میں کچھ پوچھ سکتا ہوں ، پیر بخش نے کہا ۔ ‘‘
’’ ضرور پوچھیں ، عبدالرحمن مسکراتے ہوئے ۔ ‘‘
پیربخش :
آپ نے کہاکہ: ’’ آپ کا نام عبدالنبی تھا ۔ آپ کو خبر ملی کہ مشرکین مکہ بھی ایسے ہی نام رکھتے تھے تو آپ نے نام بدل کر عبدالرحمٰن رکھ لیا ‘‘ ۔ ناموں متعلق کچھ بتا دیں کہ کیسے نام رکھنے چاہیے؟
عبدالرحمن :
نام رکھنے کا درست طریقہ یہ ہے کہ : ’’ اﷲ پاک کے اسماء حسنیٰ کی طرف نسبت کر کے ، نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرامؓ یا اولیاء اﷲ کے ناموں پر نام رکھے جائیں ۔ ‘‘
بد قسمتی سے ! مسلمانوں نے بھی مشرکین مکہ کی طرح ہی نام رکھنے شروع کردیے ۔ جیسا کہ : ’’ ابو لہب کا اصل نام عبدالعزہ تھا ( یعنی عزہ کا بندہ ، عزہ ایک بت کا نام تھا ) ‘‘ ۔ مسلمانوں نے بھی شرکیہ نام رکھے ، مثلاََ : ’’ پیراں دتہ ، پیر بخش اور علی بخش وغیرہ ‘‘ ۔
’’ بیٹا ! اب میں اپنا نام کیا رکھوں ؟ بوڑھے شخص نے سوال کیا ۔ ‘‘
’’ پہلے آپ کا نام کیا ہے ؟ عبدالرحمن نے پوچھا ۔ ‘‘
’’ پیراں دتہ ، ضعیف آدمی بولا ۔ ‘‘
’’ آپ اﷲ دتہ رکھ سکتے ہیں ، عبدالرحمن نے کہا ۔ ‘‘
’’ مجھے بھی کوئی نام بتا دیں ؟ پیر بخش ۔ ‘‘
’’ آپ اپنا نام اﷲ بخش رکھ لیں ، عبدالرحمن نے جواب دیا ۔ ‘‘
’’ کثیر التعداد لوگوں نے جن کے نام شرکیہ تھے ، تبدیل کر لئے ‘‘ ۔ عوام الناس کی آنکھوں سے ضبط کی کوشش کے باوجود آنسو ٹپک رہے تھے ۔ تمام لوگوں نے وعدہ کیا کہ وہ قرآن و حدیث پر خود بھی عمل کریں گے اور اس کا پیغام دوسروں تک بھی پہنچائیں گے ۔
’’ آپ اپنا موبائل نمبر دے دیں تاکہ ہم رابطہ کر کے دینی سوال کر سکیں ، اﷲ بخش نے کہا ۔ ‘‘
عبدالرحمن مسکراتے ہوئے :
’’ یہ تو بہت ضروری ہے ، جزاک اﷲ خیر‘‘ ۔ بھائیوں ! میرا موبائل نمبر لکھ لو ، جسے لکھنا نہیں آتا وہ بعد میں اﷲ بخش سے نمبر لکھوا لینا ۔ کسی قسم کا کوئی بھی مسئلہ ہو آپ ، مجھ سے پوچھ سکتے ہیں ۔ ’’ 0336-4236117‘‘ ، میرا موبائل فون نمبر ہے ۔ ٹھیک ہے میرے بھائیوں ! ان شاء اﷲزندگی رہی تو پھر ملیں گے ۔ اگر میں نے کسی کا دل دکھایا ہو تو معذرت خواہ ہوں ۔ السلام علیکم و رحمۃ اﷲ و برکاتہ کہہ کر موٹر سائیکل پر بیٹھ کر چلے گئے ۔ تھوڑی ہی دیر میں لوگ منتشر ہو گئے ۔
یہ مضمون ’’ حد ہو گئی ! ‘‘ ، ناول سے لیا گیا ہے ۔ مکمل ناول پڑھنے یا پی ڈی ایف ( PDF) ڈون لوڈ کرنے کے لیے لنک پر کلک کریں :
Link1: http://www.scribd.com/doc/268024515/Had-Ho-Gai
Link2: http://universalurdupost.com/?p=26262
 
Top