کلیم حیدر
ناظم خاص
- شمولیت
- فروری 14، 2011
- پیغامات
- 9,747
- ری ایکشن اسکور
- 26,381
- پوائنٹ
- 995
ہدایت کا قانون
چونکہ اللہ تعالی نے ہماری موجودہ زندگی کو آزمایش کے اصول پر تخلیق کیا ہے لہذا وہ زبردستی انسانوں کو صحیح راستے کی طرف نہیں موڑتا، ورنہ آزمایش کا بنیادی تصور ہی ختم ہو جائے۔ پیغام اور پیغامبر کی ضرورت نہ رہے۔ زندگی اور موت کا سلسلہ بے معنی ہو جائے، بلکہ پوری کائنات کی تخلیق ہی بے مقصد ہو جائے۔
اللہ تعالی نے انسان کو ارادے اور انتخاب کی آزادی دے رکھی ہے، خیر و شر کی پہچان کی صلاحیت وجدانی طور پر ہمارے اندر رکھ دی ہے، اب اگر ہم اس صلاحیت سے کام نہ لیں اور اسے ضائع کر کے اندھے، بہرے بن جائیں تو اللہ تعالی ہمیں زبردستی ہدایت کی طرف نہیں لائے گا، ورنہ سزا و جزا کا تصور ہی بے معنی ہو جائے گا۔
"ہم نے انسان کو راہ سجھا دی ہے۔ اب وہ چاہے تو شکر گزاری کی روش اپنائے اور چاہے تو ناشکری کی۔" (76:3)
چونکہ اللہ تعالی نے ہماری موجودہ زندگی کو آزمایش کے اصول پر تخلیق کیا ہے لہذا وہ زبردستی انسانوں کو صحیح راستے کی طرف نہیں موڑتا، ورنہ آزمایش کا بنیادی تصور ہی ختم ہو جائے۔ پیغام اور پیغامبر کی ضرورت نہ رہے۔ زندگی اور موت کا سلسلہ بے معنی ہو جائے، بلکہ پوری کائنات کی تخلیق ہی بے مقصد ہو جائے۔
اللہ تعالی نے انسان کو ارادے اور انتخاب کی آزادی دے رکھی ہے، خیر و شر کی پہچان کی صلاحیت وجدانی طور پر ہمارے اندر رکھ دی ہے، اب اگر ہم اس صلاحیت سے کام نہ لیں اور اسے ضائع کر کے اندھے، بہرے بن جائیں تو اللہ تعالی ہمیں زبردستی ہدایت کی طرف نہیں لائے گا، ورنہ سزا و جزا کا تصور ہی بے معنی ہو جائے گا۔
قرآن مجید میں ہم دیکھتے ہیں کہ یہ قانون الہی نبیوں کی بیویوں، اولاد اور والدین تک کے لیے تبدیل نہیں ہوا۔ حضرت نوح علیہ السلام کی بیوی اور بیٹا، حضرت لوط علیہ السلام کی بیوی، حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد ایک طرف، اور دوسری طرف فرعون کی بیوی، اس قانون کی واضح مثالیں ہیں۔ انتخاب کی اس آزادی کے متعلق اللہ تعالی سورہ دہر میں فرماتے ہیں:ہدایت سے متعلق اللہ تعالی کا قانون تمام انسانوں کے لیے یہ ہے کہ وہ صرف اسے ہدایت دیتا ہے جو پہلے خود ہدایت کا طلب گار بنے۔ اس کا قانون اندھا، بہرہ (جیسا کہ لوگ خیال کرتے ہیں) نہیں ہے کہ ایک شخص ہدایت چاہتا ہی نہیں، وہ اسے زبردستی ہدایت کے راستے پر لے آئے اور دوسرا شخص ہدایت کا طلب گار ہو اور وہ اسے گمراہ کیے رکھے۔ لہذا اللہ تعالی اپنے بندوں کو اسی وقت ہدایت دیتے ہیں جب بندہ خودتہ دل سے ہدایت کا طلب گار بن جائے۔ حضرت عیسی علیہ السلام کے بقول یہ دروازہ صرف اسی کے لیے کھلتا ہے جو اسے کھٹکھٹاتا ہے اور جو اسے کھٹکھٹانے کی زحمت نہیں کرتا، اس کے لیے یہ کبھی نہیں کھلتا۔
"ہم نے انسان کو راہ سجھا دی ہے۔ اب وہ چاہے تو شکر گزاری کی روش اپنائے اور چاہے تو ناشکری کی۔" (76:3)