کفایت اللہ
عام رکن
- شمولیت
- مارچ 14، 2011
- پیغامات
- 5,001
- ری ایکشن اسکور
- 9,805
- پوائنٹ
- 773
قرآنی آیات کے جواب کا حکم
(مقدمۃ)
قرآنی آیات کے جواب سے متعلق بہت سی روایات ہیں جن میں اکثر ضعیف وغیر ثابت ہے ۔بعض روایات ثابت ہیں لیکن وہ خاص طریقے اور خاص حالت سے ہی تعلق رکھتی ہیں ۔
لیکن آج کل دیکھا یہ جارہا ہے کہ بعض حضرات اس بات پر بہت زور دیتے ہیں کہ فرض نمازوں میں قرآنی آیات کا جواب دیا جائے اور نہ صرف امام بلکہ مقتدی بھی قرآنی آیات کا جواب دے ۔اوراس سلسلے میں ہرطرح کی ضعیف ومردود روایات پیش کرکے اس پر عمل کی دعوت دی جاتی ہے۔
واضح رہے کہ قرآنی آیات کا جواب دینا یہ ”اعمال“ سے تعلق رکھتا ہے ”فضائل اعمال“ سے نہیں ۔اس لئے اس معاملہ میں یہ کہنے کی بالکل گنجائش نہیں ہے کہ بعض اہل علم کے یہاں ”فضائل اعمال“ میں ضعیف حدیث پرعمل کیا جاسکتا ہے۔ کیونکہ جن اہل علم نے یہ بات کہی ہے ان کا یہ مقصود نہیں ہے کہ فضلیت والی احادیث ہی کو ”عمل“ کی اصل بنیاد اور دلیل بنالیاجائے بلکہ ان کامقصود یہ ہے کہ جو ”عمل“ اپنی جگہ پر اصلا ثابت شدہ ہو پھر اس کی ”فضیلت“ میں کوئی ضعیف حدیث مل رہی ہو جس میں اس ثابت شدہ عمل کی ترغیب ہو یا اس کا خاص اجر وثواب مذکور ہو تو اس اجروثواب کی امید کے ساتھ اس ”عمل“ کو انجام دیا جاسکتا ہے۔یعنی ”عمل“ کی ادائیگی کی اصل دلیل یہ ضعیف حدیث نہیں ہوتی بلکہ ضعیف حدیث محض اس عمل کی ادائیگی کے لئے تحریک اور ترغیب کا کام کرتی ہے۔
مثلا یوم عاشوراء (دس محرم) کا روزہ رکھنا کئی صحیح احادیث سے ثابت ہے ۔اب اگر اس ثابت شدہ ”عمل“ کی ”فضیلت“ میں کوئی ضعیف حدیث مل جائے جس میں اس کا خاص اجروثواب ہو تو اس اجرو ثواب کی امید کے ساتھ اس عمل کو انجام دینے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔چنانچہ کوئی شخص اگر اس فضیلت والی ضعیف حدیث کے پیش نظر عاشوراء کے روزہ پرعمل کرنا چاہئے تو اس کے لئے کہا جاسکتا ہے کہ وہ اس ضعیف حدیث پر عمل کرسکتا ہے کیونکہ اس کا تعلق محض فضائل اعمال سے ہے۔ اور اصل عمل (یوم عاشوراء کاروزہ رکھنا) اپنی جگہ دیگر دلائل سے ثابت شدہ ہے۔
یہ ہے اہل علم کی اس بات کا مفہوم کہ ”فضائل اعمال“ میں ضعیف حدیث پر عمل کیا جاسکتا ہے۔اور ان اہل علم نے ”فضائل“ میں اس طرح کی بات اس لئے کہی ہے کیونکہ ”عمل“ تو اپنی جگہ پر ثابت شدہ ہوتا ہے لہٰذا اس کی فضیلت میں وارد ضعیف حدیث سامنے رکھ کر عمل کیا جائے تو اس میں خسارہ والی کوئی بات نہیں ہے کیونکہ اگر یہ فضیلت صحیح ہے تو اسے حاصل ہوگی اور صحیح نہیں ہے تو اصل عمل کا نارمل ثواب تواسے ملے گا ہی، کیونکہ اصل عمل دیگر صحیح احادیث سے ثابت ہے۔
شيخ الاسلام ابن تیمیہ رحمه الله (المتوفى728) اسی بات کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
فإذا روي حديث في فضل بعض الأعمال المستحبة وثوابها وكراهة بعض الأعمال وعقابها : فمقادير الثواب والعقاب وأنواعه إذا روي فيها حديث لا نعلم أنه موضوع جازت روايته والعمل به بمعنى : أن النفس ترجو ذلك الثواب أو تخاف ذلك العقاب كرجل يعلم أن التجارة تربح لكن بلغه أنها تربح ربحا كثيرا فهذا إن صدق نفعه وإن كذب لم يضره
جب بعض مستحب (یعنی ثابت شدہ) ”اعمال“ کی ”فضیلت“ اور اس کے ”اجروثواب“ میں اسی طرح بعض اعمال کی کراہت اور اس کے عقاب میں کوئی (ضعیف)حدیث مروی ہو تو خاص مقدار میں ثواب وعقاب وغیرہ سے متعلق مروی حدیث کے بارے میں جب تک یہ ثابت نہ ہو کہ وہ من گھڑت ہے (یعنی وہ صرف معمولی ضعیف ہو) تو اس کو بیان کرنا اوراس پر عمل کرنا اس معنی میں جائز ہے کہ اس سے دل کو اس ثواب کی لالچ ہوگی اور اس عقاب سے دھشت ہوگی ۔مثال کے طور پر کسی آدمی کو یہ معلوم ہو کہ تجارت اپنی جگہ پر نفع بخش ہے (یعنی اس کی نظر میں اتنی بات اپنی جگہ پر پہلے سے ثابت ہے کہ تجارت میں ”نفع“ ہوتا ہے) لیکن اسے کوئی یہ بتائے کہ تجارت میں ”بہت ہی زیادہ نفع“ ہے (تو یہ شخص اگراس کی بات قبول کرلے اور اس امید پر تجارت شروع کردے ) تو اگر یہ بات سچ ثابت ہوئی تو اس کا فائدہ اسے ملے گا اوراگر جھوٹ ثابت ہوئی تو اس بات سے اسے کوئی نقصان نہیں ہوگا۔ [مجموع الفتاوى،الباز المعدلة: 18/ 66 ]
یہی معاملہ ثابت شدہ ”اعمال“ کے ”فضائل“ میں مروی ضعیف احادیث کا ہے کہ ضعیف احادیث میں بیان کردہ خاص بات سچ ثابت ہوئی توعمل کرنے والے کو یہ خاص فائدہ مل جائے گا اور اگر جھوٹ ثابت ہوئی تو گرچہ یہ خاص فائدہ نہ ملے تو لیکن اصل عمل کا نارمل ثواب تو اسے ملے گا ہی ۔یعنی دونوں صورتوں میں کوئی خسارہ کی بات نہیں ہے ۔ لہٰذا ”فضائل اعمال“ میں ضعیف حدیث پر عمل کرنے میں کوئی حرج نہیں ۔
الغرض یہ کہ اہل علم نے صرف ”فضائل اعمال“ میں ضعیف احادیث پر عمل کرنے کی گنجائش دی ہے نہ کہ ”اعمال“ میں۔افسوس ہے بہت سارے لوگ یہ بات سمجھ نہیں پاتے اور ”فضائل اعمال“ کے بجائے ”اعمال“ ہی میں ضعیف حدیث قبول کرلیتے ہیں اور اس پر عمل شروع کردیتے ہیں حالانکہ اصل اعمال میں ضعیف حدیث قبول کرنے کی بات ائمہ و محدثین میں سے کسی ایک نے بھی نہیں کہی ہے بلکہ سب کا اس بات پر اجماع ہے کہ اعمال کے ثبوت کے لئے ضعیف حدیث قابل حجت نہیں ہے ۔
شيخ الاسلام ابن تیمیہ رحمه الله (المتوفى728) فرماتے ہیں:
ولم يقل أحد من الأئمة إنه يجوز أن يجعل الشيء واجبا أو مستحبا بحديث ضعيف ومن قال هذا فقد خالف الإجماع
ائمہ میں سے کسی ایک نے بھی یہ بات نہیں کہی ہے کہ ضعیف حدیث کی بنیاد پر کسی عمل کو واجب یا مستحب بنانا جائز ہےاس لئے جو کوئی ایسی بات کرے وہ اجماع امت کا مخالف ہے۔[مجموع الفتاوى، الباز المعدلة:1/ 251]
اورفضائل میں بھی جن اہل علم نے ضعیف احادیث پرعمل کی بات کہی ہے انہوں نے علی الاطلاق یہ بات نہیں کہی ہے بلکہ اس کی کچھ شرطیں بیان کی ہیں جو درج ذیل ہیں:
(1) ضعیف حدیث صرف ”اعمال کے فضائل“ میں بیان کی جائے نہ کہ ”اعمال کی مشروعت“ اوراس کے ثبوت میں۔(تدریب الراوی ص:196)
(2) ضعیف حدیث کا ضعف سخت وشدید نہ ہو۔(تبيين العجب لابن حجر ص: 2،القول البديع للسخاوي: ص: 255)
(3) ضعیف حدیث کا مضمون کسی آیت یا صحیح حدیث کے خلاف نہ ہو۔(تبيين العجب لابن حجر ص: 2 )
(4) ضعیف حدیث کے مضمون کی دیگر عام آیات یا احادیث سے تائید ہوتی ہو ۔( فتح المغيث1/ 351)
(5) ضعیف حدیث بیان کرتے وقت اس کے ثابت ہونے کا اعتقاد نہ رکھا جائے۔(تبيين العجب لابن حجر ص: 2)
(6)ضعیف حدیث کو مشہور نہ کیا جائے تاکہ جاہل یہ نہ سمجھ بیٹھیں کہ عین یہی بات ثابت شدہ اور صحیح ہے۔(تبيين العجب لابن حجر ص: 2)
مزید تفصیل کے لئے دیکھیں:[ تبيين العجب لابن حجر ص: 2 ، القول البديع للسخاوي: ص: 255 ،فتح المغيث للسخاوي 1/ 351،تدریب الراوی للسيوطي ص:196]
یہ شرائط ان اہل علم کی طرف سے ہیں جو فضائل اعمال میں ضعیف احادیث پر عمل کی گنجائش دیتے ہیں ۔ان حضرات کاخیال ہے کہ ان شرائط کے ساتھ اگر ثابت شدہ اعمال کے فضائل میں ضعیف حدیث کو قبول کیا جائے تو اس سے اصل اعمال پر کوئی فرق نہیں پڑتا ہے جیساکہ ماقبل میں ان کا موقف واضح کیا گیا ہے۔
لیکن یہ موقف درست نہیں ہے کیونکہ گرچہ اس سے اصل اعمال پر کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن اعمال کی فضیلت شریعت کا حصہ ہے یعنی جب یہ فضیلت بیان کی جاتی ہے تو اس میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اس کی نسبت ہوتی ہے ۔ اور بغیرثبوت کے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کسی بات کی نسبت کرنا بہت بڑا گناہ ہے اس پر جہنم کی وعید ہے۔یہی وجہ ہے کہ سلف سے خلف تک اکثر اہل علم کا یہی موقف ہے کہ ضعیف حدیث پر علی الاطلاق عمل ناجائز ہے نہ اعمال میں اس کی گنجائش ہے نہ فضائل اعمال میں ۔
یہی بات راجح ہے اس کی تفصیل ملاحظہ ہو:
فضائل اعمال میں ضعیف حدیث پر عمل قرآن کی روشنی میں:
اللہ کاارشاد ہے:
{ أَمْ لَهُمْ شُرَكَاءُ شَرَعُوا لَهُمْ مِنَ الدِّينِ مَا لَمْ يَأْذَنْ بِهِ اللَّهُ }
کیا ان لوگوں نے ایسے (اللہ کے) شریک (مقرر کر رکھے) ہیں جنہوں نے ایسے احکام دین مقرر کر دیئے ہیں جو اللہ کے فرمائے ہوئے نہیں ہیں۔[الشورى: 21]
اس آیت میں اللہ نے واضح کردیا کہ شریعت بنانا صرف اللہ کا کام ہے اور کسی عمل کی فضیلت بتلانا یہ بھی شریعت کاحصہ ہے۔
حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
ولا فرق في العمل بالحديث في الأحكام، أو في الفضائل، إذ الكل شرع.
حدیث پر عمل کرنے میں احکام اور فضائل کا کوئی فرق نہیں ہے کہ سب شریعت ہیں [تبيين العجب ص: 2]۔
لہٰذا جب عمل کی فضیلت بھی شریعت کا حصہ ہے توشریعت کی طرف کوئی بات بغیر ثبوت کے منسوب نہیں کی جاسکتی ۔
فضائل اعمال میں ضعیف حدیث پر عمل احادیث کی روشنی میں:
امام ابن ماجة رحمه الله (المتوفى273)نے کہا:
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة قال: حدثنا يحيى بن يعلى التيمي، عن محمد بن إسحاق، عن معبد بن كعب، عن أبي قتادة، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول على هذا المنبر: «إياكم وكثرة الحديث عني، فمن قال علي، فليقل حقا أو صدقا، ومن تقول علي ما لم أقل، فليتبوأ مقعده من النار»
ابوقتادۃ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس منبر پر فرماتے سنا: ”تم مجھ سے زیادہ حدیثیں بیان کرنے سے بچو، اگر کوئی میرے حوالے سے کوئی بات کہے تو وہ صحیح اور سچی بات ہی کہے، اور جو شخص گھڑ کر میری طرف ایسی بات منسوب کرے جو میں نے نہیں کہی تو وہ جہنم میں اپنا ٹھکانہ بنا لے“[سنن ابن ماجه 1/ 14 رقم 35 وإسناده حسن وهو في المصنف لابن أبي شيبه : 8/ 573 بهذ الطريق واللفظ ، وأخرجه أحمد في مسنده 5/ 297 من طريق محمدبن عبيد به وصرح ابن إسحاق عنده بالسماع ، وأخرجه جماعة بل تواترت الأخبار بمعناه وببعض لفظه]
ملاحظہ فرمائیں کہ اس حدیث میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کا حکم دیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف صرف سچی اور صحیح بات ہی منسوب کی جائے ۔اورکسی عمل کی کوئی فضیلت بیان کرنا اس فضیلت کو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرنا ہے اس لئے یہ نسبت تب تک نہیں کی جاسکتی جب تک کہ یہ بات صحیح و سچ ثابت نہ ہو اورضعیف احادیث صحیح وسچ ثابت نہیں ہوتی ہیں اس لئے نہ تو ضعیف احادیث بیان کرسکتے ہیں اورنہ ہی اس پر عمل کرسکتے ہیں ۔
فضائل اعمال میں ضعیف حدیث پر آثار صحابہ کی روشنی میں:
بہت سارے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم صرف اس وجہ سے احادیث بیان نہیں کرتے تھے کہ کہیں بھول سے کوئی غلط بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب نہ ہوجائے چنانچہ:
امام بخاري رحمه الله (المتوفى256)نے کہا:
حدثنا أبو الوليد، قال: حدثنا شعبة، عن جامع بن شداد، عن عامر بن عبد الله بن الزبير، عن أبيه، قال: قلت للزبير: إني لا أسمعك تحدث عن رسول الله صلى الله عليه وسلم كما يحدث فلان وفلان؟ قال: أما إني لم أفارقه، ولكن سمعته يقول: «من كذب علي فليتبوأ مقعده من النار»
عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے والد یعنی زبیررضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ میں نے کبھی آپ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث نہیں سنیں۔ جیسا کہ فلاں، فلاں بیان کرتے ہیں،زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا میں کبھی آپ سے الگ تھلگ نہیں رہا لیکن میں نے آپ کو صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بھی فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص مجھ پر جھوٹ باندھے گا وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔[صحيح البخاري 1/ 33 رقم 107]
امام بخاري رحمه الله (المتوفى256)نے کہا:
حدثنا أبو معمر، قال: حدثنا عبد الوارث، عن عبد العزيز، قال أنس: إنه ليمنعني أن أحدثكم حديثا كثيرا أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «من تعمد علي كذبا، فليتبوأ مقعده من النار»
انس رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ مجھے بہت سی حدیثیں بیان کرنے سے یہ بات روکتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ باندھے تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔[صحيح البخاري 1/ 33 رقم 108]
ملاحظہ فرمائیں کہ بعض صحابہ کرام ضعیف تو درکنار صحیح احادیث اس ڈر سے بیان نہیں کرتے تھے کہ کہیں انجانے میں اس میں کوئی ایسی بات شامل نہ ہوجائے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کاحصہ نہ ہو اور پھر جہنم کی وعید کا وبال سرپر آئے۔اور آج بعض حضرات کاحال یہ ہے کہ وہ صحیح نہیں بلکہ ضعیف احادیث اور وہ بھی عمدا اور جان بوجھ کر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرتے ہیں اور اس بات سے ذرا بھی نہیں ڈرتے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کوئی غلط بات منسوب ہوئی تو اس کا انجام کیا ہوگا۔
امام مسلم رحمه الله (المتوفى261)نے کہا:
حدثني أبو أيوب سليمان بن عبيد الله الغيلاني، حدثنا أبو عامر يعني العقدي، حدثنا رباح، عن قيس بن سعد، عن مجاهد، قال: جاء بشير العدوي إلى ابن عباس، فجعل يحدث، ويقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم، فجعل ابن عباس لا يأذن لحديثه، ولا ينظر إليه، فقال: يا ابن عباس، مالي لا أراك تسمع لحديثي، أحدثك عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، ولا تسمع، فقال ابن عباس: " إنا كنا مرة إذا سمعنا رجلا يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم، ابتدرته أبصارنا، وأصغينا إليه بآذاننا، فلما ركب الناس الصعب، والذلول، لم نأخذ من الناس إلا ما نعرف "
مجاہد سے روایت ہے بشیر بن کعب عدوی(تابعی) رحمہ اللہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس آئے اور حدیث بیان کرنے لگے اور کہنے لگے کہ ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں فرمایا ہے“ ،”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں فرمایا ہے“ ۔توابن عباس رضی اللہ عنہما نےنہ یہ احادیث سنیں اور نہ ان کی طرف دیکھا ۔اس پر بشیر بن کعب نے کہا: ابن عباس ! آپ کو کیا ہوا جو میری بات نہیں سنتے۔ میں حدیث بیان کرتا ہوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اور آپ نہیں سنتے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ ایک وہ وقت تھا جب ہم کسی شخص سے یہ سنتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں فرمایا تو اسی وقت اس طرف دیکھتے اور کان لگا دیتے۔ پھر جب لوگ بری اور اچھی راہ چلنے لگے (یعنی غلط روایتیں شروع ہو گئیں) تو ہم لوگوں نے سننا چھوڑ دیا مگرصرف وہی احادیث جن کو ہم پہچانتے ہیں (یعنی جو صحیح وثابت ہوتی ہیں)[صحيح مسلم 1/ 13]
اس واقعہ میں تابعی نے صرف ایک واسطہ چھوڑ کر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث بیان کی، ایسی احادیث کو بھی عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے قابل سماعت نہیں سمجھا اور غیر معروف کا حکم لگادیا اور آج حال یہ ہے کہ ایسی ضعیف احادیث بیان وعمل میں لائی جاتی ہیں جن میں نہ صحابی وتابعی کے بعد واسطے ساقط ہوتے یا غیرمعتبر ہوتے ہیں۔
فضائل اعمال میں ضعیف حدیث پر ائمہ ومحدثین نظرمیں:
متقدمیں ائمہ حدیث میں کوئی بھی اس بات قائل نہیں ہے کہ فضائل اعمال میں ضعیف حدیث پر عمل کیا جاسکتاہے۔یہ قول بہت بعد میں متاخرین کی طرف سے آیا ہے لیکن متاخرین میں بھی سب نے اسے قبول نہیں کیا ہے بلکہ کئی ایک نے اس کی تردید کی ہے ذیل میں چند اہل علم کے حوالے پیش خدمت ہیں:
امام بخاري رحمه الله (المتوفى256) کے یہاں احادیث کی تحقیق کا جو معیار اورصحت کا جو التزام تھا اسے دیکھتے ہوئے کئی اہل علم نے صراحت کی ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے یہاں ضعیف حدیث مطلقا قابل قبول نہیں ہے نہ اعمال میں نہ فضائل اعمال میں دیکھئے: [قواعد التحديث ص113 ]
امام مسلم رحمه الله (المتوفى261) محدثین کے منہج کی ترجمانی کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
وإنما ألزموا أنفسهم الكشف عن معايب رواة الحديث، وناقلي الأخبار، وأفتوا بذلك حين سئلوا لما فيه من عظيم الخطر، إذ الأخبار في أمر الدين إنما تأتي بتحليل، أو تحريم، أو أمر، أو نهي، أو ترغيب، أو ترهيب
محدثین نے اپنے اوپر لازم کیا کہ رواۃ حدیث کے عیوب بیان کریں اورسوال کرنے پرانہوں نے یہ عیوب بیان کئے ہیں کیونکہ یہ بڑے خطرے والی بات تھی وہ اس طرح کی دین کے معاملے میں بیان کردہ احادیث میں کسی چیز کو حرام یاحلال کیا جاتاہے ،یا کسی چیز کاحکم ہوتا ہے یا کسی چیز سے ممانعت ہوتی ہے ، یا کسی بات کی ترغیب دلائی جاتی ہےیا کسی بات سے خوف دلایا جاتاہے۔[مقدمہ صحيح مسلم: 1/ 28]
امام ابن رجب رحمه الله فرماتے ہیں:
وظاهر ما ذكره مسلم في مقدمة كتابه يقتضي أنه لا تروى أحاديث الترغيب والترهيب إلا عمن تروى عنه الأحكام
امام مسلم نے اپنی کتاب (صحیح مسلم) کے مقدمہ میں جو ذکر کیا ہے اس کا مفاد یہ ہے کہ ترغیب و ترہیب (فضایل ووعید) کی احادیث بھی انہیں لوگوں سے لی جائیں گی جن سے احکام (اعمال) کی روایات لی جائیں گی[شرح علل الترمذي لابن رجب، ت همام: 1/ 372]
امام أبو زرعة الرازي رحمه الله (المتوفى264) ، امام أبو حاتم الرازي رحمه الله (المتوفى277) اور امام ابن أبي حاتم رحمه الله (المتوفى327) رحمہم اللہ بھی مرسل وضعیف احادیث سے مطلقا حجت پکڑنے کے قائل نہیں ابن ابی حاتم رحمہ للہ کہتے ہیں:
سمعت أبي وأبا زرعة يقولان: لا يحتج بالمراسيل، ولا تقوم الحجة إلا بالأسانيد الصحاح المتصلة, وكذا أقول أنا
میں نے اپنے والداور ابوزرعہ (رحمہماللہ) کو کہتے ہوئے سنا کہ: مراسیل سے دلیل نہیں لی جائے گی بلکہ صرف صحیح اورمتصل احادیث ہی سے دلیل لی جائے گی۔ اور میرا بھی یہ ماننا ہے[المراسيل لابن أبي حاتم ت الخضري: ص: 7]
امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354)فرماتے ہیں:
ما روى الضعيف وما لم يرو في الحكم سيان
ضعیف راوی کا روایت کرنا اور روایت نہ کرنا حکم میں دونوں برابر ہے[المجروحين لابن حبان: 1/ 328]
قاضي أبو بكر بن العربي (المتوفى 543)فرماتے ہیں:
الحديث الضعيف لا يعمل به مطلقا
ضعیف حدیث پر مطلقا عمل نہیں کیا جائے گا (یعنی نہ اعمال میں نہ فضائل اعمال میں)[النكت على مقدمة ابن الصلاح للزركشي 2/ 310 ، تدريب الراوي 1/ 351]
شيخ الاسلام ابن تيمية رحمه الله (المتوفى728) فرماتے ہیں:
ولا يجوز أن يعتمد في الشريعة على الأحاديث الضعيفة التي ليست صحيحة ولا حسنة
ضعیف احادیث جو نہ صحیح ہوں نہ حسن ہوں ان پر شریعت میں اعتماد کرنا جائز نہیں ہے[قاعدة جليلة في التوسل والوسيلة ص: 123]
حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)فرماتے ہیں:
ولا فرق في العمل بالحديث في الأحكام، أو في الفضائل، إذ الكل شرع
حدیث پر عمل کرنے میں احکام (اعمال) اور فضائل میں کوئی فرق نہیں ہے کیونکہ یہ سب شریعت کا حصہ ہیں۔[تبيين العجب ص: 2]۔
مولانا عبد الحي اللكنوي (المتوفى1304)فرماتے ہیں:
ويحرم التساهل فيه سواء كان في الأحكام والقصص أو الترغيب والترهيب أو غير ذلك
ضعیف حدیث میں تساہل برتنا حرام ہے خواہ احکام و قصص کا معاملہ ہو یا فضائل ووعید وغیرہ کا معاملہ ہو۔[الآثار المرفوعة في الأخبار الموضوعة ص: 21]
عصرحاضر کے محدثین میں علامہ معلمی ، علامہ احمد شاکر اور علامہ البانی رحمہم اللہ کا بھی یہی موقف ہے دیکھیں:[الأنوار الكاشفة للمعلمي ص: 88، الباعث الحثيث لأحمد شاكر: ص76، صحيح الجامع الصغير للألباني:1/45]
بعض شبہات کا ازالہ:
اولا:
بعض محدثین نے ضعیف رواۃ کی احادیث کو لکھنے اور روایت کرنے کی جواجازت دی ہے اس سے کچھ لوگوں نے یہ سمجھ لیا کہ ان محدثین نے ضعیف احادیث پر عمل کرنے اجازت دے دی ہے علامہ معملی رحمہ اللہ(المتوفى1386) اس غلط فہمی کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
معنى التساهل في عبارات الأئمة هو التساهل بالرواية, كان مِنَ الأئمة مَنْ إذا سمع الحديث لم يروه حتى يتبين له أنه صحيح أو قريب من الصحيح أو يوشك أن يصح إذا وجد ما يعضده، فإذا كان دون ذلك لم يروه البتة. ومنهم مَن إذا وجد الحديث غير شديد الضعف وليس فيه حكم ولا سنَّة، إنما هو في فضيلةِ عَمَلٍ متفق عليه، كالمحافظة على الصلوات في جماعة ونحو ذلك، لم يمتنع من روايته. فهذا هو المراد بالتساهل في عباراتهم. غير أنَّ بعضَ مَن جاء بعدهم فهِم منها التساهل فيما يرد في فضيلةٍ لأمر خاصّ قد ثبت شرعه في الجملة، كقيام ليلة معينة، فإنها داخلة في جملة ما ثبت مِنْ شَرْع قيام الليل. فبنى على هذا جواز أو استحباب العمل بالضعيف، وقد بَيَّن الشاطبيّ في "الاعتصام" خطأ هذا الفهم
ائمہ حدیث کی عبارات میں (احادیث کے بارے میں) تساہل سے مراد ان احادیث کی روایت کرنے میں تساہل برتنا ہے ۔دارصل بعض ائمہ جب کوئی حدیث سنتے تھے تو تب تک اس کی روایت شروع نہیں کرتے تھے جب تک کہ ان کی نظر میں واضح نہیں ہوجاتا کہ وہ حدیث صحیح یا صحیح کے قریب ہے یا شواہد متابعات کے ملنے پراس کے صحیح ہونے کی امید ہے ۔لیکن اگر اس سے کم تردرجے کی حدیث ہوتی تو یہ ائمہ اسے سرے سے روایت ہی نہیں کرتے تھے ۔جبکہ ان کے برخلاف دیگرائمہ جب ایسی حدیث پاتے جو شدید ضعیف نہ ہوتی اوراس میں کسی حکم اور سنت کا ذکر نہ ہوتا بلکہ اس میں ثابت شدہ اور متفق علیہ بات کی فضیلت ہوتی جیسے پنجوقتہ نمازوں کی باجماعت پابندی کی فضیلت وغیرہ تو یہ ائمہ اس طرح کی احادیث کو روایت کرنے سے نہیں رکتے تھے، اسی کو ان کے یہاں روایات میں تساہل سے تعبیرکیا گیا ہے۔ لیکن بعد میں متاخرین میں سے کچھ لوگوں نے یہ سمجھ لیا کہ اس تساہل کا تعلق ان روایات سے ہے جو کسی خاص ایسے امر کی فضیلت میں وارد ہو جو عمومی طور پر ثابت ہو مثلا کسی معین رات کاقیام کرنا کیونکہ عمومی طور راتوں کا قیام شرعا ثابت ہے۔ پھر اس غلط فہمی کی بنیاد پر یہ سمجھ لیا کہ ضعیف حدیث پرعمل جائز یا مستحب ہے، امام شاطبی رحمہ اللہ نے اعتصام میں (متاخرین کی )اس غلط فہمی کا رد کیا ہے۔[الأنوار الكاشفة للمعلمي ص: 88، آثار الشيخ العلامة المعلمي اليماني 12/ 118]
ثانیا:
امام احمد رحمہ اللہ وغیرہ کی طرف یہ بات منسوب کی جاتی ہے کہ رائے اورقیاس کے مقابلے میں ضعیف حدیث پر عمل کرلیا جائے گا ،لیکن امام احمد رحمہ اللہ سے صراحتا بسند صحیح ایسی کوئی بات نہیں مل سکی، امام ابن القیم رحمہ اللہ نے امام احمد کے بیٹے عبداللہ کے واسطے نقل کیا کہ امام احمد رحمہ اللہ نے کہا:
الحديث الضعيف أحب إلي من الرأي
ضعیف حدیث میرے نزدیک رائے سے زیادہ پسندیدہ ہے [إعلام الموقعين ت مشهور: 2/ 145]
اس قول کی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ امام احمد رحمہ اللہ کے یہاں رائے و قیاس پر ضعیف حدیث مقدم تھی لیکن امام احمد رحمہ اللہ کا یہ قول خاص پس منظر میں ہے امام احمد رحمہ اللہ کی جو بات ان کے بیٹے عبداللہ کے بیان میں ہے وہ یوں ہے :
امام عبد الله بن أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى 290)نے کہا:
سألت ابي عن الرجل يريد ان يسأل عن الشيء من امر دينه مما يبتلى به من الايمان في الطلاق وغيره وفي مصر من اصحاب الرأي ومن اصحاب الحديث لا يحفظون ولا يعرفون الحديث الضعيف ولا الاسناد القوي فلمن يسأل لاصحاب الرأي او لهؤلاء اعني اصحاب الحديث على ما قد كان من قلة معرفتهم قال يسأل اصحاب الحديث لا يسأل اصحاب الرأي ضعيف الحديث خير من رأي ابي حنيفة
امام احمد کے بیٹے عبداللہ بن احمد کہتے ہیں میں نے والد محترم امام احمدبن حنبل رحمہ اللہ سے پوچھاکہ کہ ایک آدمی دین کے سلسلے میں درپیش مسائل پوچھنا چاہتا ہے مثلا طلاق کی قسم وغیرہ کا مسئلہ اور شہرمیں اہل الرائے بھی ہیں اورایسے اہل الحدیث بھی ہیں جنہیں احادیث صحیح سے یاد نہیں ہے انہیں ضعیف حدیث کا بھی علم نہیں ہے اورنہ ہی صحیح سند کا ۔دریں صورت سائل کس سے سوال کرے اہل الرائے سے؟ یا کم علم اہل حدیث سے ؟امام احمدبن حنبل رحمہ اللہ نے فرمایا: ایسی صورت میں سائل اہل حدیث ہی سے مسئلہ پوچھے اہل الرائے سے ہرگز نہ پوچھے، کیونکہ ضعیف حدیث ابوحنیفہ کی رائے سے تو بہتر ہی ہے۔[مسائل أحمد، رواية عبد الله، ت زهير: ص: 438 وإسناده صحيح]
ملاحظہ فرمائیں کہ امام احمد رحمہ اللہ نے خاص پس منظر میں مذموم اور کمزور رائے کے سلسلے میں یہ بات کہی ہے وہ بھی بطور موازنہ کہی ہے یعنی مقصود صرف نسبتا موازنہ ہے کہ رائے کی بنسبت ضعیف حدیث زیادہ بہترہے یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے ”موضوع حدیث“ اور ”سخت ضعیف حدیث“ کا آپس میں موازنہ کرکے کہا جائے کہ سخت ضعیف حدیث ، موضوع حدیث سے بہتر ہے ، اب اس کا یہ مطلب نکالنا غلط ہوگا کہ سخت ضعیف حدیث کو قابل قبول بتادیاگیا۔
اس سلسلے میں امام احمد کے جو دیگر اقوال پیش کئے جاتے ہیں وہ اس قبیل سے ہیں جس کی وضاحت علامہ معلمی رحمہ اللہ نے کی ہے جیساکہ اوپر نقل کیا گیا۔
ثالثا:
صاف پانی کے بارے میں ایک صحیح حدیث ہے کہ ”الماء طهور لا ينجسه شيء“ یعنی پانی پاک ہے، اس کو کوئی چیز ناپاک نہیں کرتی [سنن أبي داود 1/ 17 رقم 66 وإسناده حسن]
اسی سلسلے کی ایک حدیث میں یہ اضافہ ہے :
”إن الماء لا ينجسه شيء إلا ما غلب على ريحه وطعمه ولونه“ ( پانی کو کوئی چیز ناپاک نہیں کرتی مگر جو چیز اس کی بو، ذائقہ اور رنگ پر غالب آ جائے)[سنن ابن ماجه 1/ 174 رقم 521]
اس اضافہ کے ساتھ یہ حدیث ضعیف ہے اس کے ضعیف ہونے پر پوری امت کا اتفاق ہے لیکن اس اضافہ میں جو بات ہے تمام فقہاء نے وہی بات کہی ہے ۔اس سے کچھ لوگوں نے یہ سمجھ لیا کہ بعض ضعیف احادیث کوقبول کیا جاسکتا ہے اور مثال میں یہ حدیث پیش کی جاتی ہے کہ اسے ضعیف ہونے کے باوجود بھی اہل علم نے قبول کیا ہے۔
لیکن یہ بات درست نہیں ہے کیونکہ جن اہل علم نے یہ بات کہی ہے وہ اس حدیث کی بناپر نہیں کہی ہے بلکہ دیگر عمومی دلائل کی وجہ یہ بات کہی ہے مثلا :
امام شافعي رحمه الله (المتوفى204) رحمہ اللہ نے کہا:
وما قلت من أنه إذا تغير طعم الماء أو ريحه أو لونه كان نجسا، يروى عن النبي صلى الله عليه وسلم من وجه لا يثبت مثله أهل الحديث، وهو قول العامة، لا أعلم بينهم فيه اختلافا، ومعقول أن الحرام إذا كان جزأ في الماء لا يتميز منه، كان الماء نجسا، وذلك أن الحرام إذا ماس الجسد فعليه غسله، فإذا كان يجب عليه غسله بوجوده في الجسد لم يجز أن يكون موجودا في الماء، فيكون الماء طهورا والحرام قائم موجود فيه
اوریہ جو میں نے کہا کہ جب پانی کا ذائقہ ، اس کا رنگ اوراس کی بو بدل جائے تو پانی ناپاک ہوگا تو اس سلسلے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک حدیث بھی مروی ہے مگر اس کی سند ایسی ہے جس سے محدثین کے یہاں حدیث صحیح ثابت نہیں ہوتی ہے(یعنی یہ حدیث استدلال کے لائق نہیں ہے)۔لیکن عام اہل علم کا یہی قول ہے، میں ان کے درمیان اس میں اختلاف نہیں جانتا ۔اور یہ بات عام فہم ہے کہ حرام چیز جب پانی کا حصہ بن جائے اور اس سے الگ ہی نہ ہو تو پانی ناپاک ہوجائے گا۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ حرام چیز جب جسم پر لگ جاتی ہے تو اس کا دھلنا ضروری ہوتا ہے، تو جب جسم پر حرام چیز کے پائے جانے سے اس کا دھلنا ضروری ہوجاتا ہے تو یہی حرام چیز پانی کے اندر موجود ہو تو پانی کیسے پاک رہ سکتا ہے جبکہ اس کے اندر حرام چیز موجود ہے[اختلاف الحديث (مطبوع ملحقا بالأم للشافعي): 8/ 612]
غور کریں کہ امام شافعی رحمہ اللہ نے یہ مسئلہ بیان کرکے صراحت کردی کہ اس سلسلے میں ایک صریح حدیث بھی مروی ہے مگروہ صحیح و ثابت نہیں ہے یعنی اس سے استدلال نہیں کیا جاسکتا، پھر اس حدیث کو ناقابل استدلال بتا کر امام شافعی رحمہ اللہ نے اپنے اس قول کی دلیل یہ پیش کی کہ پانی کا رنگ ، ذائقہ اور بو بدل جانے کامطلب اس میں حرام چیز کا شامل ہوجانا ہے ، اورحرام چیز جب جسم پر لگ جائے تو اس بارے میں دلائل موجود ہیں کہ جسم سے اس حرام چیز کو صاف کرنا لازم ہے ۔ لہٰذا اسی طرح جب پانی میں حرام چیز کی آمیزش ہوجائے اور وہ حرام چیز پانی سے الگ نہ ہوسکے تو پھر یہ پانی بھی حرام ہی ہوگا۔
امام احمد رحمہ اللہ کے شاگرد حرب بن إسماعيل الكرماني (المتوفى 280) نے کہا:
سئل أحمدُ -وأنا أسمعُ- عن الماء إذا تغيَّرَ طعمُه وريحُه؟ قال: لا يتوضأ به ولا يشرب، وليس فيه حديث، ولكن الله تعالى حرم الميتة، فإذا صارت الميتة في الماء، فتغير طعمه أو ريحه فذلك طعم الميتة وريحها، فلا يحل، وقال: ذلك أمرٌ ظاهر
امام احمد رحمہ اللہ سے پوچھا گیا اور میں سن رہا تھا کہ جب پانی کا ذائقہ اور اس کی بو بدل جائے تو اس کا کیا حکم ہے ؟ تو امام احمد رحمہ اللہ نے جواب دیا: ایسے پانی سے نہ وضوء کیا جائے گا نہ اسے پیا جائے گا ،اس سلسلے میں کوئی (صریح وصحیح) حدیث نہیں ہے ، لیکن اللہ نے مردار کوحرام قراردیا ہے تو جب مردار پانی میں مل جائے اور اس پانی کا ذائقہ اور بول بدل جائے تو یہ ذائقہ اور بو مردار کا ہوگا لہٰذا یہ حلال نہ ہوگا امام احمد رحمہ اللہ نے فرمایا : یہ بالکل ظاہر بات ہے [مسائل حرب الكرماني ت عامر ص: 180،الجامع لعلوم الإمام أحمد 21/ 12]
غور کریں امام احمد رحمہ اللہ نے یہاں یہ بات قرآنی حکم سے استدلال کرتے ہوئے کہی ہے نہ کہ مذکورہ ضعیف حدیث کی بنیاد پر بلکہ یہاں امام احمد رحمہ اللہ نے تو صراحت بھی کردی کہ اس سلسلے میں کوئی حدیث نہیں ہے یعنی کوئی صریح حدیث بسند صحیح ثابت نہیں ہے۔
امام احمد کے قول کی تشریح میں أبو بكر أحمد الخلال (المتوفى311) سے منقول ہے:
إنما قال أحمد: ليس فيه حديث لأنَّ هذا الحديث يرويه سليمان بن عمر، ورشدين بن سعد، وكلاهما ضعيف،
امام احمد نے جو یہ کہا کہ اس سلسلے میں کوئی حدیث نہیں تو اس وجہ سے کیونکہ اس سلسلے کی حدیث کو سليمان بن عمر اور رشدين بن سعد نے روایت کیا ہے اوردونوں ضعیف ہے[الجامع لعلوم الإمام أحمد 5/ 192]
معلوم ہوا کہ امام احمد رحمہ اللہ نے مذکورہ حدیث کی بنیاد پر یہ بات نہیں کہی بلکہ دیگر دلائل سے اس کے لئے استدلال کیا ۔
امام ابن حزم رحمه الله (المتوفى456) نے کہا:
وأما إذا تغير لون الحلال الطاهر - بما مازجه من نجس أو حرام - أو تغير طعمه بذلك، أو تغير - ريحه بذلك، فإننا حينئذ لا نقدر على استعمال الحلال إلا باستعمال الحرام، واستعمال الحرام في الأكل والشرب وفي الصلاة حرام كما قلنا، ولذلك وجب الامتناع منه
جب حلال اور پاک پانی کا رنگ نجس اور حرام چیز کی آمیزش سے بدل جائے یا اس کا ذائقہ بدل جائے یا اس کی بو بدل جائے تو اس وقت ہم حرام کی آمیزش کے بغیرخالص حلال کا استعمال نہیں کرسکتے ، اور کھانے پینے اور نماز میں حرام کا استعمال ممنوع ہے جیساکہ ہم نے کہاہے لہٰذا اس طرح کے پانی کے استعمال سے بچنا ضروری ہوگا۔[المحلى لابن حزم، ت بيروت: 1/ 143]
یہاں امام ابن حزم رحمہ اللہ نے بھی یہ بات کہی کہ پانی کا رنگ ، ذائقہ اور بو بدل جائے تو وہ ناپاک اور ناقابل استعمال ہے لیکن یہ بات کہنے کے لئے انہوں نے مذکورہ ضعیف حدیث کو بنیاد نہیں بنایا بلکہ یہ واضح کیا کہ پانی کا رنگ ، ذائقہ اور بو حرام چیز کی آمیزش سے بدل جائے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ حرام چیز پورے پانی میں شامل ہوگئی ہے اورایسی صورت میں اس پانی کا استعمال اس حرام چیز کااستعمال ثابت ہوگا اور کھانے پینے اور نماز کے لئے حرام چیز کااستعمال کئی دلائل سے ممنوع ہے۔
ان اقوال سے پوری طرح واضح ہوجاتا ہے کہ اس سلسلے میں اہل علم نے جو مسئلہ بیان کیا ہے انہوں نے اس کے لئے مذکورہ ضعیف حدیث سے استدلال نہیں کیا ہے بلکہ اس کے برعکس کئی اہل علم مثلا امام شافعی اور امام احمدبن حنبل رحمہا اللہ نے یہ صراحت کردی ہے کہ اس مسئلہ میں ان کااستدلال اس ضعیف حدیث سے نہیں بلکہ دیگردلائل سے ہے۔
اس لئے یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ فقہاء واہل علم نے مذکورہ ضعیف حدیث کی بناپر یہ بات کہی ہے بلکہ معاملہ اس کے برعکس یہ ہے کہ فقہاء و اہل علم کی اسی بات ہی کو لیکرکسی ضعیف راوی نے حدیث میں شامل کردیا ہے اور پھر دوسرے کئی ضعیف رواۃ بھی اس حدیث میں یہ الفاظ شامل کرتے گئے ۔
اور یہ کوئی واحد مثال نہیں ہے بلکہ حدیث کے طلاب بخوبی واقف ہیں کہ بہت سی احادیث میں ضعیف رواۃ نے وہم اور حافظے کی غلطی سے فقہاء واہل علم کے اقوال و فتاوی کو حدیث بناڈالا ہے یا کسی صحیح حدیث میں شامل کرڈالا ہے۔
بعض رواۃ پر محدثین نے جرح ہی اسی وجہ سے کی ہے کہ وہ صحابہ یا تابعین کے فتاوی کو مرفوع حدیث بنادیا کرتے تھے۔
یہی معاملہ مذکورہ ضعیف حدیث کا بھی ہے کہ اہل علم نے اس حدیث کی بنیاد پر فتوی نہیں دیا ہے بلکہ اہل علم کے فتوی ہی کو ضعیف رواۃ نے حدیث بنا ڈالا ہے۔
یہ چند شہبات تھے جن کا ازالہ ہم نے ضروری سمجھا تاکہ ضعیف حدیث پر عمل کے سلسلے میں صحیح موقف کے واضح ہونے میں کوئی تشنگی باقی نہ رہے ۔اس پوری بحث کا ماحصل یہ ہے کہ ضعیف حدیث پر کسی بھی مسئلہ عمل نہیں کیا جاسکتا ہے ۔اعمال میں ضعیف حدیث پر عمل کا تو سلف و ائمہ میں کوئی بھی قائل نہیں ہے اورفضائل اعمال میں بعض حضرات بعض شرطوں کے ساتھ قائل ہیں مگریہ موقف بھی درست نہیں ہے قرآن وحدیث ، اقوال صحابہ اور ائمہ سلف کی تصریحات سے اس کی پرزور تردید ہوتی ہے۔
لہٰذا عافیت اسی میں ہے کہ اعمال ہوں یا فضائل اعمال سب میں صرف صحیح وثابت احادیث ہی کو بنیاد بنایا جائے۔
زیرنظر کتاب میں قرآنی آیات کے جواب کا مسنون طریقہ بیان کیا گیا ہے اور اس سلسلے میں واردتمام ضعیف ومردود روایات کی وضاحت کردی گئی ہے تاکہ ہرعام وخاص اس سے آگاہ ہوجائے اور خود کو اور دوسروں کو ان ضعیف ومردود روایات پر عمل کرنے سے باز رکھے ۔
قارئین سے گذارش ہے کہ کتاب میں جہاں کہیں غلطی و کوتاہی نظر آئے راقم الحروف کو اس سے آگاہ کریں تاکہ شکریہ کے ساتھ اصلاح کرلی جائے ۔