کفایت اللہ
عام رکن
- شمولیت
- مارچ 14، 2011
- پیغامات
- 5,001
- ری ایکشن اسکور
- 9,805
- پوائنٹ
- 773
سورہ الشمس (91) کی آیت (8) {فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا} کے جواب سے متعلق روایات:
پہلی روایت:
امام طبراني رحمه الله (المتوفى360)نے کہا:
حدثنا يحيى بن عثمان بن صالح، ثنا أبي، ثنا ابن لهيعة، عن عمرو بن دينار، وعطاء بن أبي رباح، عن ابن عباس، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا مر بهذه الآية {ونفس وما سواها فألهمها فجورها وتقواها} [الشمس: 8] وقف، ثم قال: «اللهم آت نفسي تقواها أنت وليها ومولاها وخير من زكاها»
ابن عباس رضي الله عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جب اس آیت {ونفس وما سواها فألهمها فجورها وتقواها} [الشمس: 8] سے گذرتے تو ٹہرتے اور کہتے :«اللهم آت نفسي تقواها أنت وليها ومولاها وخير من زكاها»[المعجم الكبير للطبراني 11/ 106 رقم11191 ]
یہ روایت ضعیف ہے ۔ابن لھیعہ مشہور مختلط راوی ہے۔اور عثمان بن صالح کا ذکر ان کے قدیم شاگردوں میں نہیں ہے۔
نیزيحيى بن عثمان بن صالح بن صفوان القرشي پر بھی کلام ہے دیکھئے: [إرشاد القاصي والداني إلى تراجم شيوخ الطبراني ص: 686]
دوسری روایت:
امام ابن أبي عاصم رحمه الله(المتوفى287)نے کہا:
حدثنا يعقوب بن حميد، حدثنا عبد الله بن عبد الله، حدثنا معن الغفاري، عن حنظلة بن علي الأسلمي، عن أبي هريرة، أنه سمع النبي صلى الله عليه وسلم يقول: {فألهمها فجورها وتقواها} قال: اللهم آت نفسي تقواها، زكها أنت خير من زكاها، أنت وليها ومولاها.
ابوہریرہ رضي الله عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (نماز میں) یہ آیت:{فألهمها فجورها وتقواها} پڑھی اور کہا: «اللهم آت نفسي تقواها، زكها أنت خير من زكاها، أنت وليها ومولاها. »[السنة لابن أبي عاصم 1/ 227وأخرجه ابن أبي حاتم في تفسيره 10/ 3436 والقضاعي في مسند الشهاب 2/ 338 من طريق طريق يعقوب به وعندالقضاعي : ” وهو في الصلاة“ ]
یہ روایت درج ذیل اسباب کی بناپر ضعیف ہے۔
اول:
عبد الله بن عبد الله الأموي مجہول ہے ۔
امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
مجهول ، یہ مجہول ہے [ديوان الضعفاء ص: 220]
اور مجہول ہونے کے ساتھ اس کی متابعت بھی نہیں کی جاتی ۔
امام عقيلي رحمه الله (المتوفى322)نے کہا:
لا يتابع على حديثه
اس کی حدیث کی متابعت نہیں کیا جاتی [الضعفاء للعقيلي، ت د مازن: 3/ 261]
اور مجہول شخص جب ایسی روایت بیان کرے جس کی متابعت نہ ملے تو وہ سخت ضعیف ہوتا ہے۔
علامہ معلمي رحمہ اللہ فرماتے ہيں:
والمجهول إذا روى خبرين لم يتابع عليهما، فهو تالف
مجہول شخص جب تو ايسي روايت بيان کردے جن پر اس کي متابعت نہ کي گئي ہے تو وہ تباہ برباد ہونے والا يعني سخت ضعيف ہے [الفوائد المجموعة ت المعلمي: ص: 299]
دوم:
يعقوب بن حميد بن كاسب بھی ضعیف ہے۔
امام ابن معين رحمه الله (المتوفى233)نے کہا:
بن كاسب ليس بشيء
یعقوب بن حمید بن کاسب کی کوئی حیثیت نہیں ہے[تاريخ ابن معين، رواية الدوري: 3/ 173]
اورابن محرز کی روایت کے مطابق ابن معین رحمہ اللہ نے کہا:
كذاب خبيث عدو لله
یہ کذاب ، خبیث اور اللہ کا دشمن ہے[معرفة الرجال، رواية ابن محرز، ت القصار: 1/ 52]
لیکن ابن محرز نا معلوم التوثیق ہے۔
امام أبو حاتم الرازي رحمه الله (المتوفى277)نے کہا:
ضعيف الحديث
یہ ضعیف الحدیث ہے[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم، ت المعلمي: 9/ 206]
امام نسائي رحمه الله (المتوفى303) نے کہا:
يعقوب بن حميد بن كاسب ليس بشيء
يعقوب بن حميد بن كاسب کی کوئی حیثیت نہیں ہے[الضعفاء والمتروكون للنسائي: ص: 106]
تحرير التقريب كي مؤلفين (دكتور بشار عواد اور شعيب ارنؤوط) نے بھی اسے ضعیف قرار دیا ہے دیکھیں:[تحرير التقريب: رقم7815 ]
معلوم ہوا کہ یہ روایت سخت ضعیف ہے اور ماقبل والی روایت میں بھی دو ضعف موجود ہے اس لئے ان دونوں کو ملا کر اسے حسن کہنے کی گنجائش نہیں ہے۔
پہلی روایت:
امام طبراني رحمه الله (المتوفى360)نے کہا:
حدثنا يحيى بن عثمان بن صالح، ثنا أبي، ثنا ابن لهيعة، عن عمرو بن دينار، وعطاء بن أبي رباح، عن ابن عباس، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا مر بهذه الآية {ونفس وما سواها فألهمها فجورها وتقواها} [الشمس: 8] وقف، ثم قال: «اللهم آت نفسي تقواها أنت وليها ومولاها وخير من زكاها»
ابن عباس رضي الله عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جب اس آیت {ونفس وما سواها فألهمها فجورها وتقواها} [الشمس: 8] سے گذرتے تو ٹہرتے اور کہتے :«اللهم آت نفسي تقواها أنت وليها ومولاها وخير من زكاها»[المعجم الكبير للطبراني 11/ 106 رقم11191 ]
یہ روایت ضعیف ہے ۔ابن لھیعہ مشہور مختلط راوی ہے۔اور عثمان بن صالح کا ذکر ان کے قدیم شاگردوں میں نہیں ہے۔
نیزيحيى بن عثمان بن صالح بن صفوان القرشي پر بھی کلام ہے دیکھئے: [إرشاد القاصي والداني إلى تراجم شيوخ الطبراني ص: 686]
دوسری روایت:
امام ابن أبي عاصم رحمه الله(المتوفى287)نے کہا:
حدثنا يعقوب بن حميد، حدثنا عبد الله بن عبد الله، حدثنا معن الغفاري، عن حنظلة بن علي الأسلمي، عن أبي هريرة، أنه سمع النبي صلى الله عليه وسلم يقول: {فألهمها فجورها وتقواها} قال: اللهم آت نفسي تقواها، زكها أنت خير من زكاها، أنت وليها ومولاها.
ابوہریرہ رضي الله عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (نماز میں) یہ آیت:{فألهمها فجورها وتقواها} پڑھی اور کہا: «اللهم آت نفسي تقواها، زكها أنت خير من زكاها، أنت وليها ومولاها. »[السنة لابن أبي عاصم 1/ 227وأخرجه ابن أبي حاتم في تفسيره 10/ 3436 والقضاعي في مسند الشهاب 2/ 338 من طريق طريق يعقوب به وعندالقضاعي : ” وهو في الصلاة“ ]
یہ روایت درج ذیل اسباب کی بناپر ضعیف ہے۔
اول:
عبد الله بن عبد الله الأموي مجہول ہے ۔
امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
مجهول ، یہ مجہول ہے [ديوان الضعفاء ص: 220]
اور مجہول ہونے کے ساتھ اس کی متابعت بھی نہیں کی جاتی ۔
امام عقيلي رحمه الله (المتوفى322)نے کہا:
لا يتابع على حديثه
اس کی حدیث کی متابعت نہیں کیا جاتی [الضعفاء للعقيلي، ت د مازن: 3/ 261]
اور مجہول شخص جب ایسی روایت بیان کرے جس کی متابعت نہ ملے تو وہ سخت ضعیف ہوتا ہے۔
علامہ معلمي رحمہ اللہ فرماتے ہيں:
والمجهول إذا روى خبرين لم يتابع عليهما، فهو تالف
مجہول شخص جب تو ايسي روايت بيان کردے جن پر اس کي متابعت نہ کي گئي ہے تو وہ تباہ برباد ہونے والا يعني سخت ضعيف ہے [الفوائد المجموعة ت المعلمي: ص: 299]
دوم:
يعقوب بن حميد بن كاسب بھی ضعیف ہے۔
امام ابن معين رحمه الله (المتوفى233)نے کہا:
بن كاسب ليس بشيء
یعقوب بن حمید بن کاسب کی کوئی حیثیت نہیں ہے[تاريخ ابن معين، رواية الدوري: 3/ 173]
اورابن محرز کی روایت کے مطابق ابن معین رحمہ اللہ نے کہا:
كذاب خبيث عدو لله
یہ کذاب ، خبیث اور اللہ کا دشمن ہے[معرفة الرجال، رواية ابن محرز، ت القصار: 1/ 52]
لیکن ابن محرز نا معلوم التوثیق ہے۔
امام أبو حاتم الرازي رحمه الله (المتوفى277)نے کہا:
ضعيف الحديث
یہ ضعیف الحدیث ہے[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم، ت المعلمي: 9/ 206]
امام نسائي رحمه الله (المتوفى303) نے کہا:
يعقوب بن حميد بن كاسب ليس بشيء
يعقوب بن حميد بن كاسب کی کوئی حیثیت نہیں ہے[الضعفاء والمتروكون للنسائي: ص: 106]
تحرير التقريب كي مؤلفين (دكتور بشار عواد اور شعيب ارنؤوط) نے بھی اسے ضعیف قرار دیا ہے دیکھیں:[تحرير التقريب: رقم7815 ]
معلوم ہوا کہ یہ روایت سخت ضعیف ہے اور ماقبل والی روایت میں بھی دو ضعف موجود ہے اس لئے ان دونوں کو ملا کر اسے حسن کہنے کی گنجائش نہیں ہے۔