قرآن اور لفظ شيعہعموما رافضي شيعہ عوام الناس کو دھوکہ ديتے ہوئے کہتے ہيں کہ ہمارا نام تو قرآن مجيد ميں بھي موجود ہے , اور اللہ تعالى نے ابراہيم عليہ السلام کو بھي شيعہ کے نام سے موسوم فرمايا ہے اور بطور دليل وہ لوگ يہ آيت پيش کرتے ہيں کہ:
وَإِنَّ مِن شِيعَتِهِ لَإِبْرَاهِيمَ [الصافات : 83]
اور اسکے شيعوں ميں سے ابراہيم عليہ السلام بھي تھے ۔
ياد رہے کہ لفظ شيعہ گروہ کے معنى ميں مستعمل ہے , اور اس آيت کا ترجمہ يوں بنتا ہے کہ "اور اسکے گروہ ميں سے ابراہيم عليہ السلام بھي تھے۔ ليکن ظالم رافضي شيعہ اپنا جھوٹ ثابت کرنے کے ليے قرآني الفاظ کے معاني ميں بھي تحريف کر ڈالتے ہيں ۔ بہر حال اگر وہ لفظ شيعہ کو اپنے اوپر فٹ کرتے ہيں تو ہميں کوئي اعتراض نہيں بشرطيکہ قرآن مجيد ميں آنے والے ہر لفظ شيعہ کا وہ اسي طرح معنى کرکے اپنے اوپر فٹ کريں ۔
قرآن مجيد ميں اور بھي بہت سے مقامات پر يہ لفظ استعمال ہوا ہے , اب ديکھتے ہيں کہ وہاں اسکا ترجمہ شيعہ کرکے ان پر فٹ کرنے سے کيا نتائج برآمد ہوتے ہيں :
1- قُلْ هُوَ الْقَادِرُ عَلَى أَن يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذَاباً مِّن فَوْقِكُمْ أَوْ مِن تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ أَوْ يَلْبِسَكُمْ شِيَعاً وَيُذِيقَ بَعْضَكُم بَأْسَ بَعْضٍ انظُرْ كَيْفَ نُصَرِّفُ الآيَاتِ لَعَلَّهُمْ يَفْقَهُونَ [الأنعام : 65]
ترجمہ : آپ کہئيے کہ اس پر بھي وہي قادر ہے کہ تم پر کوئي عذاب تمہارے اوپر سے بھيج دے يا تمہارے پاؤں تلے سے , يا کہ تم کو گروہ گروہ کر کے سب کو بھڑا دے اور تمہارے ايک کو دوسرے کي لڑائي چکھا دے , آپ ديکھئے تو سہي ہم کس طرح دلائل مختلف پہلوؤں سے بيان کرتے ہيں۔ شايد وہ سمجھ جائيں۔
يہاں لفظ " شيعاً " کو اگر ان پر فٹ کريں تو يہ نتيجہ برآمد ہو گا کہ شيعہ بننا اللہ کے عذاب کا نتيجہ ہے !!!
اللہ تعالى لوگوں کو آپس ميں لڑأنے بھڑانے کے ليے شيعہ بنا ديتا ہے !!!
2- إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُواْ دِينَهُمْ وَكَانُواْ شِيَعاً لَّسْتَ مِنْهُمْ فِي شَيْءٍ إِنَّمَا أَمْرُهُمْ إِلَى اللّهِ ثُمَّ يُنَبِّئُهُم بِمَا كَانُواْ يَفْعَلُونَ [الأنعام : 159]
ترجمہ : بيشک جن لوگوں نے اپنے دين کو ٹکڑے ٹکڑے کر ديا اور گروہ گروہ بن گئے , آپ کا ان سے کوئي تعلق نہيں بس ان کا معاملہ اللہ تعالٰي کے حوالے ہے پھراللہ تعالى ان کو ان کا کيا ہوا جتلا ديں گے۔
يہاں اگر " شيعا " کا معنى شيعہ کرکے ان پر فٹ کريں تو نتيجہ يہ نکلے گا کہ شيعوں نے دين کو ٹکڑے ٹکڑے کر ديا اور شيعہ بن بيٹھے لہذا اللہ کے رسول ﷺ کا شيعوں سے کوئي تعلق نہيں ہے ۔
3- إِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِي الْأَرْضِ وَجَعَلَ أَهْلَهَا شِيَعاً يَسْتَضْعِفُ طَائِفَةً مِّنْهُمْ يُذَبِّحُ أَبْنَاءهُمْ وَيَسْتَحْيِي نِسَاءهُمْ إِنَّهُ كَانَ مِنَ الْمُفْسِدِينَ [القصص : 4]
ترجمہ : يقيناً فرعون نے زمين ميں سرکشي کر رکھي تھي اور وہاں کے لوگوں کو گروہ گروہ بنا رکھا تھا اور ان کے لڑکوں کو تو ذبح کر ڈالتا تھا اور ان کي لڑکيوں کو چھوڑ ديتا تھا بيشک وہ تھا ہي مفسدوں ميں سے۔
يہاں اگر "شيعا" کے لفظ کو ان پر فٹ کريں تو نتيجہ نکلے گا کہ لوگوں کو شيعہ بنانا فرعون کا کام تھا !!!
4- مِنَ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعاً كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ [الروم : 32]
ترجمہ : ان لوگوں ميں سے جنہوں نے اپنے دين کو ٹکڑے ٹکڑے کر ديا اور خود بھي گروہ گروہ ہوگئے , ہر گروہ اس چيز پر جو اس کے پاس ہے اسي پر خوش ہے۔
اس مقام پر اگر "شيعا "کو ان پر فٹ کريں تو نتيجہ نکلے گا کہ شيعہ دين ميں تفرقہ بازي کرنے والے ہيں اور دين کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے والے ہيں !!!