محترم
ا
پنے نیک عمل کا وسیلہ دینا بھی کہاں کی عقلمندی ہوگا
۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےیہ حدیث بھی ہے ۔ انسان کے مرنے کے بعد اس کے تین اعمال اسے نفع پہنچاتے ہیں جو علم ، نیک اولاد اور ثواب جاریہ کے کام ہیں جو اس نے مرنے سے پہلے کیے۔ یہ بھی ایصال ثواب کی ایک مثال ہے ۔
پھر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ٹہنیاں رکھیں اور کہا کہ اللہ ان کے عذاب میں تخفیف کرے گا تو یہ بھی ایک ایصال ثواب کی صورت بن گیا ۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مومن کو اس کے اعمال اور نیکیوں میں سے اس کے مرنے کے بعد جن چیزوں کا ثواب پہنچتا رہتا ہے وہ یہ ہیں: علم جو اس نے سکھایا اور پھیلایا، نیک اور صالح اولاد جو چھوڑ گیا، وراثت میں قرآن مجید چھوڑ گیا، کوئی مسجد بنا گیا، یا مسافروں کے لیے کوئی مسافر خانہ بنوا دیا ہو، یا کوئی نہر جاری کر گیا، یا زندگی اور صحت و تندرستی کی حالت میں اپنے مال سے کوئی صدقہ نکالا ہو، تو اس کا ثواب اس کے مرنے کے بعد بھی اسے ملتا رہے گا“۔
قران کی تلاوت پر ثواب ثابت ہے ۔اسے کسی صورت میں بدعت نہیں کہا جاسکتا ۔اب وہ چاہے اجتماعی ہو یا انفرادی ۔
@محمد علی جواد
محترم نسیم صاحب -
آپ نے جو فرمایا کہ : مرنے کے بعد انسان کے تین اعمال جو اسے نفع پہنچاتے ہیں اس ضمن میں جو حدیث بیان کی جاتی ہے وہ اپنی جگہ بلکل صحیح ہے-
اِذَا مَاتَ الْاِنْسَانُ اِنْقَطَعَ عَنْہُ عَمَلَُہٗ اِلاَّ مِنْ ثَلاَثَۃٍ اِلاَّ مِنْ صَدَقَۃٍ جَارِیَۃٍ اَوْ عِلْمٍ یُنْتَفَعُ بِہٖ اَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ یَدْعُوْ لَہٗ (مسلم ؍ کتاب الوصیۃ)-
لیکن اصل بات یہ ہے کہ جہاں تک مرنے والے انسان کے ان تین اعمال صالح کا تعلق ہے تو یہ اس کا اپنا کسب تھا جن کے عملی نمونے وہ دنیا میں چھوڑ گیا اور اس کے مرنے کے بعد لوگ اس کی اقتداء میں ویسے ہی نیک عمل بجا لاتے ہیں اور اس کا فائدہ اس شخص کو مرنے کے بعد ملتا رہتا ہے -کیوں کہ اس نے اپنے عمل کے ذریے ہی معاشرے میں ایک اچھی روایت ڈالی- جب کہ اگر کسی دوسرے کے اعمال کا ثواب اس کو پہنچانے کی کوشش کی جائے اور اس کو ایصال ثواب سے موسوم کردیا جائے تو اس کے بدعت ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں ہونا چاہیے - جیسا کہ ہمارے ہاں عام فہم لوگوں اور نام نہاد علماء کو شدید غلط فہمی ہے- کہ ان کے نزدیک مروجہ "ایصال ثواب " کا تو مقصد و مصرف ہی یہی ہے - ان کے نزدیک ایک زندہ انسان اپنے مرنے والے بھائی یا رشتہ دار کو جو اپنا نیک عمل ایصال کرنے کی لاحاصل سعی کرتا ہے وہ لازمی اس مردہ انسان تک یا اس کی روح تک پہنچتا ہے - جو کہ قرآن کی صریح نص کے ہی خلاف ہے - الله کا تو قرآن کریم میں واضح فرمان ہے کہ :
قُلْ أَتُحَاجُّونَنَا فِي اللَّهِ وَهُوَ رَبُّنَا وَرَبُّكُمْ وَلَنَا أَعْمَالُنَا وَلَكُمْ أَعْمَالُكُمْ وَنَحْنُ لَهُ مُخْلِصُونَ سوره البقرہ ١٣٩
کہہ دو کیا تم ہم سے الله کی نسبت جھگڑا کرتے ہو حالانکہ وہی ہمارا اور تمہارا رب ہے اور
ہمارے لیے ہمارے عمل ہیں اور تمہاری لئے تمہارے عمل- اور ہم تو خا لص اسی کی عبادت کرتے ہیں-
تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ ۖ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُمْ مَا كَسَبْتُمْ ۖ وَلَا تُسْأَلُونَ عَمَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ سوره البقرہ ١٤١
یہ ایک امّت تھی جو گزر چکی ان کے لیے
ان کے عمل ہیں اور تمہارے لیے تمہارے عمل ہیں اور تم سے ان کے اعمال کی نسبت نہیں پوچھا جائے گا-
وَاتَّقُوا يَوْمًا لَا تَجْزِي نَفْسٌ عَنْ نَفْسٍ شَيْئًا وَلَا يُقْبَلُ مِنْهَا عَدْلٌ وَلَا تَنْفَعُهَا شَفَاعَةٌ وَلَا هُمْ يُنْصَرُونَ سوره البقرہ ١٢٣
اوراس دن سے ڈرو
جس دن کوئی بھی کسی کے کام نہ آئے گا اور نہ اس سے بدلہ قبول کیا جائے گا اور نہ اسے کوئی سفارش نفع دے گی اور نہ وہ مدد دیے جائیں گے
وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعَىٰ -وَأَنَّ سَعْيَهُ سَوْفَ يُرَىٰ سوره النجم ٣٩-٤٠
اور یہ کہ
انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے- اور عنقریب اس کی اس کوشش کو پرکھا جائے گا -
ذَٰلِكَ بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيكُمْ وَأَنَّ اللَّهَ لَيْسَ بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ سوره ال عمران ١٨٢
یہ اس چیز کے بدلے میں ہے
جو تمہارے ہاتھوں نے آگے بھیجا اور الله اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا-
وَلَوْلَا أَنْ تُصِيبَهُمْ مُصِيبَةٌ بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ فَيَقُولُوا رَبَّنَا لَوْلَا أَرْسَلْتَ إِلَيْنَا رَسُولًا فَنَتَّبِعَ آيَاتِكَ وَنَكُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ سوره القصص ٤٧
اور ایسا نہ ہو کہ
جو اعمال ان کے ہاتھوں نے آگے بھیجے ہیں ان کی وجہ سے ان پر کوئی مصیبت پڑے (دنیا یا آخرت میں )تو کہنے لگیں کہ اے ہمارے پروردگار! آپ نے ہماری طرف کوئی پیغمبر کیوں نہ بھیجا کہ ہم آپ کے احکام (آیات)کی پیروی کرتے اور ایمان لانے والوں میں ہوتے۔
وَاِذَآ اَذَقْنَا النَّاسَ رَحْمَۃً فَرِحُوْا بِہَا ۰ۭ وَاِنْ تُصِبْہُمْ سَيِّئَۃٌۢ بِمَا قَدَّمَتْ اَيْدِيْہِمْ اِذَا ہُمْ يَقْنَطُوْنَ سوره الروم ٣٦
اور جب ہم لوگوں کو اپنی رحمت (کا مزہ)چکھاتے ہیں تو وہ اس سے خوش ہوجاتے ہیں ۔ اور
اگر ان کے عملوں کے سبب جو ان کے ہاتھوں نے آگے بھیجے ہیں ان کو کوئی تکلیف پہنچے تو وہ ناامید ہوکر رہ جاتے ہیں۔
وَلَا يَتَمَنَّوْنَہٗٓ اَبَدًۢا بِمَا قَدَّمَتْ اَيْدِيْہِمْ ۰ۭ وَاللہُ عَلِيْمٌۢ بِالظّٰلِمِيْنَ سوره سورۃ الْجُمُعَة -٦٢
اور یہ کبھی اس کی آرزو نہ کریں گے بوجہ
ان اعمال کے جو اپنے ہاتھوں آگے بھیج چکے ہیں۔ اور اللہ ظالموں کو خوب جانتے ہیں۔
ان آیات مبارکہ سے تو یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ مرنے کے بعد انسان کو اسی چیز کا سامنا کرنا پڑے گا جو کچھ وہ اپنے ہاتھوں سے آگے بھیج چکا- ناکہ کسی دوسرے انسان کا عمل اس کو فائدہ پہنچاے گا- یہ قرانی آیات اس پر دلالت کرتی ہیں کہ کسی ایک زندہ انسان کا عمل کسی مرنے والے کے کام نہیں آ سکتا- بشرط ہے کہ اس میں اس مرنے والے کا اپنا حصّہ ہو- جیسا کہ اوپر حدیث نبوی میں صدقہ جاریہ کے طور پر مرنے والے انسان کے تین اعمال ذکر کیے گئے ہیں جن کا مرنے کے بعد بھی ثواب ملتا ہے لیکن یہ مرنے والے کے اپنے اعمال کا ثمر ہے جو اس کو مل رہا ہے یعنی (۱)صدقہ جاریہ۔ (۲) علم جس سے نفع حاصل کیا جاتا ہے۔ (۳) نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرتی ہے۔‘‘
باقی رہا کسی انسان کا دوسرے انسان کے لئے دعا مغفرت کرنا - تو یہ میں پہلے بھی بیان کرچکا ہوں کہ یہ دعا درحقیقت الله کی بارگاہ میں ایک فریاد ہے ایک مسلمان کی طرف سے دوسرے مسلمان کے لئے کہ : اے الله تو فلاں کے گناہ بخش دے اور اس کے درجات کو اپنی بارگاہ اقدس میں مقبول کر- اب یہ الله پر منحصر ہے کہ وہ اس درخواست کو قبول کرتا ہے یا رد کرتا ہے- اور یہ دعا بھی صرف مردوں (میت) تک محدود نہیں جیسا کہ اہل بدعت اور قرآن خوانی کے دلداہ لوگوں نے سمجھا ہوا ہے اور اس عمل کو ایصال ثواب پر محمول کیا ہوا ہے - اگر دعا مغفرت کا مطلب "
ایصال ثواب " ہی ہے جیسا کہ یہ ہمارے ہاں عوام الناس میں مقبول ہے تو پھر اصولی طور پر اس کے پہلے حقدار زندہ انسان ہیں ناکہ مردہ انسان- خود الله کے مقرب فرشتے زندہ انسانوں (مومنین) کے لئے ہر وقت دعا مغفرت کرتے رہتے ہیں-
الَّذِينَ يَحْمِلُونَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَهُ يُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَيُؤْمِنُونَ بِهِ وَيَسْتَغْفِرُونَ لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا وَسِعْتَ كُلَّ شَيْءٍ رَحْمَةً وَعِلْمًا فَاغْفِرْ لِلَّذِينَ تَابُوا وَاتَّبَعُوا سَبِيلَكَ وَقِهِمْ عَذَابَ الْجَحِيمِ{ [غافر.
عرش کے اٹھانے والے اور اسکے آس پاس کے (فرشتے) اپنے رب کی تسبیح حمد کے ساتھ ساتھ کرتے ہیں اور اس پر ایمان رکھتے ہیں اور ایمان والوں کے لیے استفغار کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار! تو نے ہر چیز کو اپنی بخشش اور علم سے گھیر رکھا ہے، پس تو انہیں بخش دے جو توبہ کریں اور تیری راه کی پیروی کریں اور تو انہیں دوزخ کے عذاب سے بھی بچا لے (7)
رہی آپ کی یہ بات کہ "
قرآن کی تلاوت پر ثواب ثابت ہے" تو یہ اسی وقت ممکن ہے جب قرآن کی تلاوت سنّت رسول کے مطابق اپنے لئے کی جائے- اگر مرنے والوں کے لیے تلاوت قرآن جائز ہوتی تو نبی اکرم صل الله علیہ و آ له وسلم اور آپ کے تربیت یافتہ اصحاب رضوان الله اجمین سے ضرور ثابت ہوتی- لیکن صحیح روایات سے ایسا کہیں ثابت نہیں- نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم کے دور میں آپ کی ازواج مطہرات اور اصحاب بھی فوت ہوے لیکن کسی ایک کے لئے بھی قرآن خوانی کی محافل کا اہتمام نہیں کیا گیا- نہ ہی اجتمائی طور پر نہ ہی انفرادی طور پر- ویسے بھی
کسی کے عمل پر ثواب کا مرتب ہونا اس بات پر منحصر ہے کہ آیا وہ عمل سنّت نبوی یا سلف و صالحین (یعنی اصحاب رسول ) سے ثابت ہے یا نہیں - اگر ثابت نہیں تو اس پر ثواب بھی ممکن نہیں- قرآن میں الله رب العزت کا واضح فرمان ہے -
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ ۖ فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا سوره النساء ٥٩
ا
ے ایمان والو الله کی فرمانبرداری کرو اور رسول کی فرمانبرداری کرو اور ان لوگوں کی جو تم میں سے حاکم ہوں پھر اگر آپس میں کسی چیز میں جھگڑ پڑو تو اسے الله اور اس کے رسول کی طرف پھیردو- اگر تم الله اور قیامت کے دن پر یقین رکھتے ہو- یہی بات اچھی ہے اور انجام کے لحاظ سے بہت بہتر ہے-
جہاں تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا دو قبروں پر ٹہنیاں رکھنے کے واقعہ کا معامله ہے اور آپ صل الله علیہ و آ لہ وسلم کی اللہ سے یہ فریاد کرنا کہ اے اللہ ان کے عذاب میں تخفیف کردے - تو یہ واقعہ صرف آپ صل الله علیہ و آ لہ وسلم کی ذات تک محدود ہے- کیوں کہ صرف آپ صل الله علیہ و آ لہ وسلم کو ہی معجزہ کے طور پر اس بات کا ادرک ہوا تھا کہ ان دو قبروں میں اصحاب قبر کو عذاب ہو رہا ہے - بعد میں انے والوں کے لئے یہ ممکن نہیں کہ وہ قبروں میں مدفون لوگوں کے حالات جان سکیں - اس لئے نہ تو نبی کریم نے اس بات کا حکم دیا کہ قبروں پر ٹہنیاں لگائی جائیں اور نہ آپ کے بعد اپ کے اصحاب نے ایسا کوئی کام کیا - اس لئے اس عمل کو
ایصال ثواب سے تشبیہ دینا
بدعت کو فروغ دینے کی مترادف ہے -
الله رب العزت ہمیں دین کی صحیح سمجھ عطا کرے اور بدعتی اعمال سے محفوظ فرماے (آمین)-