• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قرآن مجید کا صوتی جمال اور اِسلامی کلچر

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قرآن مجید کا صوتی جمال اور اِسلامی کلچر

اداریہ​
قرآن مجید کلام اللہ ہے۔بنی نوع انسان کے لئے خالق کائنات کا آخری سرچشمہ ہدایت اپنے صوتی اعجاز وجمال کے اعتبار سے بھی ایک نعمت مترقبہ سے کم نہیں ہے۔یہ دنیا کی واحد کتاب ہے جس کی تلاوت خشیت الٰہی اور سوزدروں، قلبی سرور کا باعث اور ذوق سماعت کے لئے جمال آفریں ہے۔ قرآن مجید جلال وجمال کا عدیم النظیر اِمتزاج ہے۔ خداوندقدوس نے انسانوں کے حواسِ خمسہ کے لئے مختلف لذات اور نعمتوں کوپیدا کیا ہے۔ ایک مسلمان کے لئے قرآن مجید میں حواسِ خمسہ کی تسکین و طمانیت اور روحانی الطاف کا بے بہا خزانہ موجود ہے۔ اس کو چھونے سے عجب تنزیہی اثرات و محسوسات سے واسطہ پڑتا ہے۔
قرآن مجید کی عبارت بالخصوص خوبصورت خطاطی ایک ایسا دیدہ زیب آرٹ ہے جسے میں الہامی آرٹ (Divine)کانام دینے کا میلان رکھتا ہوں۔اس کو دیکھنے سے بصارت کوایک تقدس سے بھرپور مشاہدہ عطا ہوتا ہے۔ اس کی تلاوت سے زبان عجب حلاوت،مٹھاس اور شیریں سخنی کے مزے لوٹتی ہے اور پھر اس کا سننا اہل ایمان کے لئے سامعہ نواز ہے۔ اس کا صوتی جمال روح و بدن میں سرشاری کی لہر دوڑا دیتا ہے۔ قرآن مجید کے صوتی جمال سے مسحور قلوب کسی بھی غنا کی نغمگی سے مستغنی ہوجاتے ہیں۔یہ کوئی حسن مبالغہ نہیں ہے،یہ ایک ابدی حقیقت ہے جس کی شہادت انسان ہی نہیں کائنات کا ذرہ ذرہ دے سکتا ہے۔
قرآن مجید چونکہ کلام الٰہی ہے اسی لئے یہ ایک فطری امرہے کہ اس کا الوہی جلال اس کے صوتی جمال پر غالب ہے۔ مگر جس طرح خوف خدا ایک مومن کو حب الٰہی سے باز نہیں رکھتابلکہ اہل تقویٰ ہی درحقیقت اللہ تعالیٰ سے حقیقی محبت کرنے والے ہوتے ہیں، اسی طرح قرآن مجید کے جاہ و جلال سے مسحور و مرعوب قلوب ہی اس کے صوتی اعجاز و جمال سے کماحقہ روحانی لطف حاصل کرسکتے ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
رسالت مآبﷺ کی زبان اَقدس سے نکلا ہوا ہر لفظ اہل ایمان کی آنکھوں کانور اور دل کا سرور ہے۔ کیوں نہ ہو کہ خود اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَوٰی‘‘ یعنی ’ وہ اپنی ہوائے نفس سے کچھ نہیں بولتے‘سبحان اللہ کیا مقام اور شان ہے نبی مکرمﷺ کی اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کے نطق مبارک سے نکلے ہوئے ہر حرف کو تقدس، پاکیزگی اور حسن و جمال عطا کردیا ہے۔ زیربحث موضوع کے متعلق یہ حدیث پاک جب باصرہ نواز ہوئی تو راقم الحروف ایک جمالیاتی سرشاری کی کیفیت میں مبتلا ہوئے بغیر نہ رہ سکا، فرمایا:
(زینوالقرآن بأصواتکم) (سنن أبوداؤد:۱۴۴۶، سنن ابن ماجہ:۱۳۴۲)
’’قرآن مجید کو اپنی آوازوں سے مزین کرو۔‘‘
جعفر شاہ پھلواری رحمہ اللہ نے اس کا ترجمہ یوں کیا ہے:
’’قرآن کوعمدہ آواز سے پڑھا کرو۔‘‘
یہ بے حد جمال آفرین، وجد انگیز اور بلیغ جملہ ہے جو حضورﷺ کی پاکیزہ زبان سے نکلا۔قرآن مجید جو جمال وجلال کا حسین پیکر ہے،اس کے بارے میںارشاد ہوتا ہے کہ اسے اپنی آوازوں سے آراستہ کرو۔ قرآن مجید کے الوہی جلال سے جب صوت البشر کا جمال ملتا ہے تو اس کاتاثر اور ابلاغ آسمانوں پر پرواز کرنے لگتا ہے۔ قرآن مجید کی خوبصورت آواز میں تلاوت نہ صرف پڑھنے والے کے قلب پر جمالیاتی اور ذوقی اثرات مرتب کرتی ہے، بلکہ سننے والے کے لئے بھی یہ صوتی جمال فردوس گوش ہوتاہے۔ خوبصورت قراء ت کرنے والے کے تحت الشعور میں یہ بات ہو یا نہ ہو، مگر وہ اپنی آواز سے قرآن مجید کا جمال سامع کے قلب و ذہن پر منتقل کررہا ہوتا ہے۔
حضرت صادق مصدوق ارواحنا فداہ و صلاۃ اﷲ علیہ کا دوسرا ارشاد بھی حرزِ جان بنانے کے لائق ہے، فرمایا:(لیس منا من لم یتغنّ بالقرآن) (صحیح البخاري:۷۵۲۷)
’’وہ ہماری جماعت میں سے نہیں ہے جوقرآن پڑھنے میں تغنی سے کام نہ لے۔‘‘
وہ ذات اقدس جس پر قرآن مجید نازل ہوا، قرآن کے صوتی جمال سے کس قدر حظ اٹھاتی تھی، اس کا اندازہ بعض روایات سے ہوتا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ سے روایت ہے کہ ایک دن حضور اکرمﷺ نے مجھ سے فرمایا: ’’رات میں تمہاری تلاوت قرآن سن رہا تھا، تمہیں تولحن داؤدی عطا ہواہے۔‘‘ میں نے عرض کیا : یارسول اللہﷺ! بخدا اگر مجھے یہ علم ہوتا (کہ حضورﷺسن رہے ہیں) تو میں اور عمدگی سے پڑھتا۔‘‘ (صحیح ابن حبان:۷۱۵۳)
قرآن مجید میں جہاں جنتیوں کے لئے دیگر برکات وانعامات کاذکر ہے وہاں اس کے صوتی جمال کی نعمت کا ذکربھی ملتا ہے۔ ذرا غور فرمائیے:ارشاد ربانی ہے۔
’’ادْخُلُو الجَنَّۃَ أَنْتُمْ وَأَزْوَاجُکُمْ تُحْبَرُونَ‘‘ (الزخرف:۷۰)
’’تم اور تمہارے ازواج جنت میں داخل ہوجاؤ جہاں تمہیں نغمے سنائے جائیں گے۔‘‘
جنت میں جہاں باغ و بہار، روانی انہار، شادابی اشجار، لؤلؤو مرجان اور حور و قصور ہوں گے وہاں مسرور کن پاکیزہ نغمے بھی فردوس گوش ہوں گے۔کیا بعید ہے کہ تحبرون سے مراد قرآن مجید کے صوتی جمال سے تواضع مراد ہو کہ اس دنیامیں جن خوش بخت اَرواح نے قرآن کے حسن و جمال کو اپنی غذا بنا لیاہے وہ کسی اور نغمے کے طالب کیونکر ہوسکتے ہیں؟
تلاوت قرآن سے اہل ایمان اور اصحاب علم پر جو تاثر وارد ہوتاہے خود قرآن مجید نے اس کاذکر درج ذیل آیت میں کیاہے:
’’تَقْشَعِرُّ مِنْہُ جُلُودُ الَّذِینَ یَخْشَونَ رَبَّہُمْ ثُمَّ تَلِینُ جُلُوْدُہُمْ وَقُلُوبُہُمْ اِلٰی ذِکْرِ اﷲ‘‘(الزمر:۲۳)
’’ اس (قرآن) سے ان لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں۔ پھر ان کے قلوب و اجسام اللہ کے ذکر کی طرف مائل ہوجاتے ہیں۔‘‘
سورۃ بنی اسرائیل میں یوں ارشاد ہوتاہے:
’’اِنَّ الَّذِینَ اُوتُواالعِلْمَ مِنْ قَبْلِہِ اِذَا یُتْلٰی عَلَیہِمْ یَخِرُّونَ لِلْاَذْقَانِ سُجَّدًا٭ وَیَقُولُونَ سُبْحٰنَ رَبَّنَا اِنْ کَانَ وَعْدُ رَبِّنَا لَمَفْعُولًا٭ وَیَخِرُّونَ لِلْاَذْقَانِ یَبْکُونَ وَیَزِیْدُہُمْ خُشُوعًا‘‘(بنی إسرائیل:۱۰۷۔۱۰۹)
’’جن لوگوں کو اس سے قبل علم دیاگیا ہے جب یہ (قرآن) ان کے سامنے پڑھا جاتا ہے تو وہ ٹھوڑیوں کے بل سجدہ میں گر پڑتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارا پروردگار پاک ہے۔بے شک ہمارے پروردگار کاوعدہ پورا ہوکر رہتاہے اور ٹھوڑیوں کے بل گرتے ہیں روتے ہوئے اور یہ (قرآن) ان کا خشوع اور بڑھا دیتا ہے۔‘‘
آغاز اسلام ہی سے قرآن مجید کے فنی جمال اور سحر نے انسانوں کے دلوں کو مسخر کیا۔ امیرالمؤمنین حضرت عمررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’جب میں نے قرآن سنا تو مجھ پررقت طاری ہوگئی، میں رونے لگ گیا اورمیں نے اسلام قبول کرلیا۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ایک روایت میں یوں ہے کہ میں نے کہا:’’یہ کلام کس قدر اعلیٰ و ارفع ہے۔‘‘
ولید بن مغیرہ قرآن مجید کا منکر اور حضور اکرمﷺ کا جانی دشمن تھا مگر اس کے باوجود وہ یہ بات کہنے پر مجبور ہوا:
’’بخدا قرآن میں شیرینی پائی جاتی ہے۔یہ تروتازہ کلام ہے۔ یہ ہرچیز کومغلوب کرلیتا ہے۔ یہ سب سے ارفع و اعلیٰ ہے اور کوئی چیز بھی اس سے بلندتر نہیں۔ قرآن میں جادو کا اثر پایا جاتاہے۔ تم دیکھتے نہیں ہو کہ یہ ایک آدمی کو اس کے احباب و اعزہ سے جدا کردیتا ہے۔‘‘ (قرآن مجید کے فنی محاسن، ص ۵۶)
تاریخ اسلام شاہد ہے کہ مسلمانوں نے اپنے محبوب پیغمبرسرور عالمﷺ کے حکم(زینو القرآن بأصواتکم)کو حرزِ جان بنا لیا۔ انہوں نے نہ صرف قرآن کو اپنی آوازوں سے مزین کیا بلکہ اپنے دلوں کو سماع قرآن کی لذتوں، چاشنیوں اور حلاوتوں کاگرویدہ بنا لیا۔ نبی اکرمﷺ کی حیاتِ دنیوی ہی میں صحابہ نے قرآن کے صوتی آہنگ ظاہری اور باطنی حسن میں تدبرسے کام لیناشروع کردیاتھا۔ وہ قرآن کے بعد ہر طرح کی غناء سے مستغنی ہوگئے۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی کثیر تعدادنہ صرف قرآن کے حفاظ پر مبنی تھی بلکہ بہت سے صحابہ کو خدانے لحن داؤدی اور حسن جدت بھی عطافرمایاتھا جسے وہ قرآن کے صوتی جمال کو فن کا درجہ دینے کے لئے استعمال میں لا ئے۔ہمیں ان علماء اور قرآنیات کی ماہرین سے اتفاق ہے جن کی رائے یہ ہے کہ نبی اکرمﷺ پر قرآن صرف نازل نہیں کیاگیا بلکہ جبریل علیہ السلام نے عملاً اس کی قراء ت بھی سکھائی۔ ان کی آراء کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولﷺ کے لئے قرآن کے نزول اور اس کی قراء ت دونوں کااہتمام فرمایا وہ اپنی اس رائے کی بنیاد قرآن مجید کی اس آیت کو قرار دیتے ہیں۔
’’لَاتُحَرِّکْ بِہٖ لِسَانَکَ لِتَعْجَلَ بِہٖ ٭اِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَہُ وَ قُرْآنَہُ ٭فَاِذَا قَرَاْنَاہُ فَاتَّبِع قُرْاٰنَہ٭ ثُمَّ اِنَّ عَلَینَا بَیَانَہ‘‘
’’اس کو جلدی جلدی سیکھ لینے کے لئے اپنی زبان کو حرکت نہ دو، اس کو یادکرادینا اور پڑھوا دینا ہمارے ذمہ ہے، لہٰذا جب ہم اسے پڑھ رہے ہیں تو اس وقت تم اس کی قراء ت کو غور سے سنتے رہو، پھر اس کا مطلب سمجھا دینابھی ہمارے ذمہ ہے۔‘‘(القیامۃ:۱۶۔۱۹)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
علامہ ابن جزری رحمہ اللہ(م۸۳۳ھ) قرآنی علوم اورفن قراء ت کے معروف مؤرخ و محقق ہیں۔ قرآن مجید کی مندرجہ بالا آیت سے انہوں نے استنباط فرمایاہے کہ فن قراء ت و تجوید منزل من اللہ ہے۔
نبی اکرمﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو قرآن مجید کے معانی و معارف کی تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ انہیں قرآن مجید کی قراء ت کی بھی تعلیم دی تھی۔ آپﷺنے خصوصیت کے ساتھ چار صحابہ کرام علیہ السلام کو علم قراء ت سے فیض یاب فرمایا تھا اور عام صحابہ رضی اللہ عنہم کو حکم دیاتھا کہ ان سے قرآن سیکھو ۔ یہ چار صحابہ عبداللہ بن مسعود، سالم مولیٰ حذیفہ،معاذ ابن جبل اور ابی بن کعب رضی اللہ عنہم ہیں۔
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے نبی کریمﷺ سے قراء ت سیکھی ہی نہیں بلکہ انہوں نے نبی کریمﷺ کو قرآن سنایا بھی تھا۔ علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے طبقات القراء میں سات صحابہ رضی اللہ عنہم کا ذکر کیا ہے جو استاذ القراء ت تھے، یعنی عثمان غنی، علی ابن ابی طالب، ابی بن کعب، زید بن ثابت، عبداللہ بن مسعود، ابوالدردااور ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہم۔ ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے تابعین رحمہم اللہ کی بڑی تعداد نے علم قراء ت حاصل کیا۔
ہم دیکھتے ہیں کہ عہد تابعین میں ہی قراء ت کے اندر اختصاص کا رجحان پیداہوگیا تھا۔ یعنی یہ وہ دور تھا کہ جب قراء ت کو ایک مستقل علم یا فن کی حیثیت سے روشناس کرایاگیا۔ اس دور کے فوراً بعد ہی علماء کی ایک کثیر تعداد فن قراء ت کے اَئمہ رحمہم اللہ اور اَساطین کی صورت میں سامنے آئی۔ مکہ، مدینہ، بصرہ، دمشق،کوفہ و بغداد میں فن قراء ت خوب پھیلا۔ اس دور کے جن ائمہ قراء ت کو شہرت دوام ملی ان میں نافع بن نعیم، عبداللہ ابن کثیر، عبداللہ بن عامر، ابوعمرو بن العلاء، ابوبکر عاصم، علی بن حمزہ الکسائی رحمہم اللہ کے اسمائے گرامی شامل ہیں۔ قراء تِ سبعہ کے راویوں میں امام نافع رحمہ اللہ کے دو شاگردوں قالون اور ورش کی روایتوں کو زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی۔ ابن کثیررحمہ اللہ کی قراء ت کی روایت کرنے والوں میں قنبل اور بزی زیادہ مشہور ہوئے۔ ابوعمرو بصری رحمہ اللہ کے شاگردوں میں ابوعمر اورحفص بن عمر ہیں جن کے نام سے روایت حفص آج بھی مقبول ہے۔ ان ائمہ کے بکثرت تلامذہ عالم اسلام میں پھیل گئے اور علم قراء ت کو شہرت و مقبولیت کے بام عروج پر پہنچا دیا۔فن قراء ت کے بغیر اسلامی کلچر ناقابل تصور تھا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اسلامی دنیا کے اَساتذہ قراء ت نے فن قراء ت کے اصول و ضوابط مقرر کئے، قراء ت کی تدوین و تہذیب کی، صحیح، مشہور اور شاذ قراء ت کے اُصول و اَرکان مقرر کئے،بڑی محنت سے روایات قراء ت کو جمع کیا اور انہیں کتابی شکل دی۔ محمد سعود عالم قاسمی کی تحقیق کے مطابق سب سے پہلے فن قراء ت پر جس عالم نے کتاب لکھی وہ امام کسائی رحمہ اللہ (م۱۸۹ھ) ہیں اور ان کے بعد عبید بن قاسم بن سلام رحمہ اللہ(م۲۲۴ھ) ہیں۔ محقق ابن جزری رحمہ اللہ نے ابن سلام رحمہ اللہ کو پہلا معتبر مصنف قرار دیا ہے۔ انہوں نے اپنی معروف کتاب النشر فی القراء ت العشر میں اپنے پیشروؤں کی ۵۷ کتابوں کا تعارف کرایا ہے۔ سعود عالم قاسمی نے ’فن قراء ت کا ارتقاء‘میں تیسری صدی ہجری سے لے کر چودہویں صدی ہجری تک فن قراء ت اور علماء قراء ت پر لکھی جانے والی کتابوں کی اجمالی فہرست پیش کی ہے۔ یہ ’اجمالی‘ فہرست بھی سینکڑوں قابل قدر کتب پرمشتمل ہے۔ درجنوں کتب کا نام ’کتاب القراء ت‘ دیا گیا ہے۔ علم قراء ت پر بیشتر کتابیں نثر میں ہیں جب کہ بعض کتابیں منظوم ہیں۔ منظوم کتابوں میں مشہور ترین ’قصیدہ شاطبیہ‘ ہے۔
علم قراء ت کو آگے بڑھانے میں جن اَساطین نے نمایاں خدمات انجام دی ہیں، ان کی تعداد سینکڑوں میں ہے۔ ان کی خدمات کا مختصر جائزہ پیش کرنے کے لئے بھی ایک ضخیم کتاب کی ضرورت ہے۔ میرے پیش نظر جو مواد اس وقت ہے، اس کی روشنی میں صرف تین شخصیات کے مختصر تعارف پر اکتفا کروں گا۔ امام ابوعمرو دانی رحمہ اللہ کو مسلم اندلس میں علم قراء ت میں جو شہرت ملی، وہ کسی دوسرے کے حصے میں نہ آئی۔ ’دانیہ‘ اندلس کا ایک مشہور شہر علم قراء ت و تجوید کا اہم مرکز تھا۔ یہ اس شہر کی نسبت سے مشہور ہوئے۔ انہوں نے فن قراء ت میں بہت سی کتابیں تصنیف کیں جن میں التیسیر فی القراء ت السبع اور طبقات القراء بے حد معروف ہیں، انہوں نے ۴۴۴ھ میں دانیہ میں انتقال فرمایا۔ دوسرے قصیدہ شاطبیہ کے مصنف امام شاطبی رحمہ اللہ ہیں۔
شاطبہ بھی مشرقی اندلس کاایک شہر ہے، امام صاحب کی پیدائش ۵۲۸ھ میں ہوئی۔ ۵۸۹ھ میں شاطبی رحمہ اللہ نے بیت المقدس میں سلطان صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ سے ملاقات کی تھی۔ تیسرے امام جزری رحمہ اللہ ہیں۔واقعہ یہ ہے کہ علامہ شاطبی رحمہ اللہ کے بعد فن تجوید و قراء ت میں جو بلند مقام آپ کو حاصل ہے وہ بلا شبہ آپ ہی کا حصہ ہے۔ کہتے ہیں کہ آپ کے بعد اس فن پر آپ کی کوئی نظیر اب تک پیدانہیں ہوئی۔ علامہ جزری رحمہ اللہ ۷۵۱ھ میں دمشق میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے علم تجوید و قراء ت کے لئے مختلف ملکوں کا سفر کیا اوروہاں کے علمائے وقت سے بھرپور استفادہ کیا۔ آپ نے مصر، شام اور ارض روم میں قراء ت کی تدریس کی۔ آپ کے تلامذہ کی تعداد سینکڑوں میں ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
امام جزری رحمہ اللہ کوتیمور لنگ اپنے ساتھ لے گیا۔ وہ سمرقند میں تین برس تک تدریس کا فریضہ انجام دیتے رہے۔ تمام ممالک اسلامیہ میں خصوصیت کے ساتھ آپ کو فن تجوید و قراء ت کا امام تسلیم کیاگیا۔دیگر علوم حدیث و تفسیر اور فقہ و فتاویٰ کے اندر بھی آپ کو بلند مقام حاصل تھا۔ آپ نے متعدد علوم پرکتابیں تصنیف کیں۔ ان کی کتابوں کا تحقیقی مرتبہ بہت بلند ہے۔ فن قراء ت پر ان کی معرکۃ الاراء کتابوں میں ’النشر فی القراء ت العشر‘ اور ’المقدمۃ الجزریۃ‘کے پایہ کی کتب آج تک نہیں لکھی گئیں۔ اس مضمون کامرکزی خیال اجازت نہیں دیتا کہ فن قراء ت کے ارتقاء اور مجودین و اَساتذہ قراء ت کی خدمات پر مزید کچھ لکھا جائے۔
قارئین کرام ! مجھے اس مضمون کے مرکزی خیال یعنی ’قرآن کا صوتی جمال اور اسلامی کلچر‘ کے متعلق رجوع کی اجازت دیجئے۔ راقم الحروف کاخیال ہے کہ اس اہم موضوع پر بوجوہ اب تک توجہ نہیں دی گئی۔ قرآن مجید کی تلاوت کو سیکولر اور مذہبی طبقات دونوں ایک مذہبی فریضہ کی ادائیگی اور ثواب کے حصول کاذریعہ سمجھتے ہیں۔ اس کے برعکس گانا اور سیکولر موسیقی کی دیگر صورتوں کو کلچر ل سرگرمی سے تعبیر کیاجاتاہے۔ شاید قوالی کو ثقافتی اور شاید مذہبی عمل تصور کیا جاتاہے۔ سوال یہ پیداہوتا ہے کہ پاکستان جیسے ملک میں جس کی نظریاتی اساس ہی اسلام ہے، اس طرح کے تصورات کو قبول کیا جاسکتا ہے؟ اگر خالصتاً اُصولی بحث کا معاملہ ہو تو سرے سے یہ بات قابل بحث ہی نہیں ہونی چاہئے، مگر ہمارے معاشرے پرلادینی مغرب کے تصور ثقافت کے اَثرات اس قدر گہرے ہیں کہ ہم اس سے باہر نکلنے کو دشوار سمجھتے ہیں۔
ڈاکٹر اجمل جالبی ، سابق وائس چانسلر کراچی یونیورسٹی پاکستان کے اہل دانش میں شمار ہوتے ہیں۔ ادب وثقافت کے موضوعات پر ان کی متعدد تصانیف ہیں۔ انہوں نے اپنی کتاب ’پاکستانی کلچر‘ میں ایک نہایت دانش مندانہ بات کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’مذہب، کلچر کی سطح پر آئے بغیر ایک علم کتابی ہے،فلسفۂ اخلاق کا آدرش ہے اور بس۔ یہ کبھی نہیں ہوا کہ زندگی میں عملاً برتنے کے بغیر مذہب کے آدرشی نظام کی آدرشی شکل باقی رہی ہو۔ زندگی سے پورا رشتہ ناطہ قائم رکھنے کے لئے مذہب کی یہی تہذیبی شکل اصل و حقیقی شکل ہے۔‘‘ (ص ۱۳۴)
یورپ میں چرچ اور ریاست کی طویل کشمکش سے پہلے پوری انسانی تاریخ مذہب اور کلچر کے درمیان تفریق کاوجودنہیں ملتا۔ قدیم زمانے میں افراد کے باہمی تعلق کا معاملہ ہو یا ریاست اور شہریوں کے درمیان تعلق کی بات ہو، ان کے رہن سہن اورمعاشرت کی کوئی شکل یا اخلاقیات کے دائرے، سب اُمور مذہب کی میزان پر تولے جاتے تھے۔ بادشاہ یاعوام کے وہ اعمال جس کی مذہب کی طرف سے اجازت نہ تھی، ہمیشہ گناہ تصور کئے جاتے تھے۔ مغربی معاشرے کی اہم سرگرمیاں جنہیں آج ثقافت کانام دیا جاتاہے، روم ویونان کی تہذیبوں میں انہیں مذہبی سرگرمیاں شمار کیا جاتاتھا۔مثلاً رقص، موسیقی، شاعری، تھیٹر وغیرہ۔ ہندو معاشرے میں آج بھی یہ سرگرمیاں ہندؤں کے مذہبی اعمال کادرجہ رکھتی ہیں۔ اصل کشمکش ان معاشروں میں پیدا کی گئی ہے جہاں الہامی مذاہب نے تاریخی کردار ادا کیا ہے۔ ہماری مراد یہودیت، عیسائیت اور اسلام سے ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
یورپ میں نشاۃ ثانیہ کی تحریک درحقیقت ان علوم و فنون اور تہذیبی اقدار کے احیاء کی تحریک تھی جن کی جڑیں روم و یونان کی تہذیبوں میں تھیں جنھیں مسیحی چرچ کافرانہ تہذیبوں کانام دیتا آیا تھا۔یورپ میں بظاہر تصادم چرچ اور ریاست میں تھا، لیکن گہرائی میں جاکر دیکھا جائے تو یہ جنگ ’وحی اورعقل‘ یا مذہب اور لادینیت کے درمیان تھی۔ یہ درحقیقت اقتدار کو مذہبی قانون کے اثرات سے نکال کر عقلی قانون کے تابع کرنے کی لڑائی تھی۔ رفتہ رفتہ عیسائیت کو ایوان اقتدار سے بے دخل کرکے چرچ کی دیواروں تک محدود کردیاگیا اورمذہب ہر شخص کا ذاتی معاملہ ٹھہرا۔ ریاست ہر طرح کا سیکولر قانون بنانے میں آزاد ہوگئی۔ ہمارے ہاں کا لادین اور مذہب بیزار طبقہ واضح طور اسلام کے مقابلے میں آنے کی جرأ ت تو نہیں کرتا، مگر اس نے حکمت عملی اور ہتھیار کے طور پر ’کلچر‘ کوآگے کردیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہر وہ سرگرمی جس کی اسلام اجازت نہیں دیتا، اُسے ثقافتی سرگرمی کا تقدس عطا کرکے جائز قرار دے دیا جاتا ہے۔
دورِ حاضر میں موسیقی کوکسی بھی قوم کے کلچر کا مرغوب ترین عنصر گردانا جاتاہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے برقیاتی ذرائع ابلاغ میں موسیقی اور رقص و سرود کو جواہمیت دی جاتی ہے، اس سے ہرشخص واقف ہے۔ موسیقی کومسلمانوں کے لیے ’روح کی غذا‘ بنا کر پیش کیا جاتاہے۔ہمارے مسلمان راگ پسندوں کی اس شیطانی فکر کو بالعموم قبول کرلیتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مروجہ موسیقی ’روح کی غذا نہیں‘ یہ نفس کی غذا ہے۔قرآن مجید کے تخلیق ارواح کے تصور کے مطابق جب عالم عدم میں اَرواح تخلیق کی گئیں تو خالق کائنات نے سوال کیا:’’أَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ‘‘ یعنی کیامیں تمہارا رب نہیں ہوں؟ ارواح نے جواب دیا:’’قَالُوْا بَلٰی‘‘ کہا، ’ہاں،ضرور‘۔
سیکولر موسیقی روحانی پاکیزگی کو سفلی جذبات سے مملو کرکے روح کو اپنے رب سے دور کرتی ہے۔ لہٰذا یہ ایک مسلمان کے لیے روح کی غذا نہیں ہوسکتی۔ پاکستان میں ریڈیو، ٹیلی وزن اور دیگر ذرائع ابلاغ جو موسیقی پیش کررہے ہیں، اس کا سرچشمہ ہندو کلچر اور یونانی تہذیب ہیں۔ ’’ألست بربکم‘‘ اور ’’قالوا بلیٰ‘‘ کے ترانوں کی ابدی نغمگی سے سرشار روحوں کے لیے سیکولر موسیقی روح کی غذا نہیں بلکہ روح کے لیے فساد اور تخریب کا باعث بنتی ہے۔
شیریں آواز بلا شبہ خدا کی نعمت ہے۔کسی بلند وبالا پہاڑ سے اترتی آبشار کا مسرورکن نغمہ ہو یاکسی گلے سے بلند ہونے والی شیریں اور مترنم آواز، یہ کانوں کی راہ سے گذر کر دل میں جب اترتی ہے تو انبساط اور نشاط کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ یہ انسانی فطرت کا ایک داعیہ ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر ہم سیکولر موسیقی سے کانوں کو محفوظ رکھنے کی بات کرتے ہیں تو ہمارے پیش نظر کوئی اس کامتبادل بھی ہے جسے تجویز کیا جاسکے۔ بلاتامل کہا جاسکتا ہے کہ اس کا بہترین متبادل قرآن پاک کا ’صوتی جمال‘ ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
دہلی کے ایک معروف سکالر اور قرآنیات کے ماہر مولانافاروق احمد خان اپنے مضمون ’قرآن کا صوتی اعجاز‘ میں بے حد خوبصورت الفاظ میں بیان کرتے ہیں:
’’قرآن ایک عظیم کلام ہے اسکے اعجاز و حکمت کااِحاطہ ممکن نہیں ہے۔ مختلف اَوصاف اور خوبیوں کے علاوہ قرآن کا ایک خاص وصف یہ ہے کہ اسمیں ایک عجیب قسم کا صوتی حسن و جمال اور آہنگ پایا جاتاہے۔ یہ حسن و جمال قرآن کا اپنا اعجاز ہے۔ قرآن کاایک ایک لفظ دلکش ہے۔ اسکی ہر ایک آیت سے ایک نغمہ پھوٹتا نظر آتا ہے جس سے ہمارے اِحساسات و جذبات ہی مترنم نہیں ہوتے بلکہ اسکے سبب کائنات کی پوری فضا ترنم سے بھری ہوئی معلوم ہوتی ہے۔ قرآن اوزان و قوافی اور شاعری کی عام قیود سے آزاد اور ہر طرح کے تصنع و تکلف سے پاک ہے۔ اس کے باوجود اسکی ہر آیت میں کچھ ایسا داخلی ترنم پایاجاتا ہے جس کے مقابلے میں سارے ہی ارضی نغمات پھیکے اور بے کیف معلوم ہوتے ہیں۔‘‘
قرآن مجید کے صوتی جمال سے مسحور مسلمان تو کروڑوں میںہوں گے، مگر بعض غیر مسلم مستشرقین اور دانشوروں نے بھی بے حد کھلے دل سے اس کے جمال کی تعریف کی ہے۔ اے ۔جے آربری(A.J.Arberry) غالباً بیسویں صدی کے سب سے بڑے مستشرق ہیں۔ انہوں نے قرآن مجید پربہت وقیع کام کیا ہے۔ وہ اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں:
’’ میں جب بھی قرآن کی قراء ت سنتا ہوں توایسا محسوس ہوتا ہے کہ گویانغمہ سن رہا ہوں۔ اس شیریں نغمہ کی تہہ میں مسلسل ایک دھن سنائی دیتی ہے، جو میرے دل کی دھڑکن کی طرح ہوتی ہے۔‘‘
ایک ہندو مصنف شیو کے کمار نے اپنے ایک مقالے میں کھلے دل سے قرآن کی موسیقیت اور نغمگی کا اعتراف کیاہے۔ ڈاکٹر حمیداللہ رحمہ اللہ عالم اسلام کے عظیم محقق تھے، طویل عرصہ فرانس میں رہے،حال ہی میں ان کاانتقال ہوا ہے۔ وہ اپنے ایک مقالے میں لکھتے ہیں:
’’قرآن نثر میں ہے لیکن دلکشی اس میں شعر کی ہے۔ اس کی عبارت میں کہیں ایک حرف کی بھی کمی یا بیشی ہوجائے تو اس کی روانی میں اس طرح کا نقص پیداہوجائے گا جیسے کسی مصرعہ میں سکتہ پڑ جاتا ہے۔‘‘ ( قرآن کریم کا صوتی اعجاز)
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
’’إنَّ السَّمْعَ وَالبَصَرَوَ الفُؤَادَ کُلُّ اولٰئِکَ کَانَ عَنْہُ مَسْئُولا‘‘ (الاسراء:۳۶)
یعنی ’’کان، آنکھ، دل، ہر ایک سے متعلق باز پرس ہوگی۔‘‘
اس آیتِ مبارکہ میں کانوں سے سنی جانے والی ہر بات کی جواب دہی اور احتساب کا تصور ایک مسلمان کا سکون برباد کرنے کے لیے کافی ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
رقص و نغمہ، غنا و موسیقی، گانا بجانا اور آلاتِ موسیقی کی حرمت کے بارے میں رسول کریمﷺ کے ارشادات کو جاننے کے بعد ایک مومن کے لیے ممکن نہیں ہوتا کہ وہ ٹی وی پر یا کسی محفل موسیقی میں کوئی گاناسنے اور فسق و معصیت کے اِحساس کے زیربار نہ ہو۔ آج کل بسوں میں موسیقی چلانے کا رواج عام ہے، اہل ایمان ایسے اسفار میں شدید ذہنی کرب اور روحانی تکلیف میں مبتلارہتے ہیں۔ تلاوت قرآن اور اس کے صوتی جمال کے احساس کو اگر معاشرے میں عام کردیا جائے تو سیکولر موسیقی کی قباحتوں سے بچتے ہوئے ذوق سلیم کی تسکین کاسامان کیاجاسکتا ہے۔
ہمارے ہاں حالیہ برسوں میں ایک اور بیہودگی فتنہ کی صورت اختیارکرتی جارہی ہے۔ ہمارے سیکولر دانشور اور اہل قلم اخبارات اور ٹیلی ویژن پر مغنی اور مغنیات کے متعلق بے حد مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہیں جس سے معاشرے میں گانے والوں اور کنجر کلچر کے خلاف نفرت کے جذبات کم ہورہے ہیں۔
قلمی اوباشی میں شہرت رکھنے والے افسانہ نویس منٹو نے اپنے خاکے’نور جہاں، سرور جہاں‘ میں ان الفاظ میں نورجہاں کو ’خراج تحسین‘ بخشا:
’’نہیں۔ تم کچھ نہیں جانتے منٹو! یہ نور ہے ، نور جہاں ہے، سرور جہاں ہے، خدا کی قسم ایسی آواز پائی ہے کہ بہشت میں خوش الحان سے خوش الحان حور سنے تو اسے سیندور کھلانے کے لیے زمین پر اتر آئے۔‘‘
ایک اور فیچر نگار نور جہاں کی موت پر اپنے جذبات کااظہار یوں کرتا ہے:
’’اللہ رکھی سے نور جہاں بن کر دنیا بھر میں روشنی پھیلانے والے نورجہاں جیسے انسان دنیامیں صدیوں میں پیداہوتے ہیں۔ اب اس دنیاکوصدیوں تک کسی اور نورجہاں کا انتظار کرناہوگا۔‘‘ (روزنامہ جنگ)
ایک لہوولعب، فسق و فجور، گانے بجانے اور جنسی آوارگی کا شکار عورت کو ’نور‘ صرف وہی ادیب لکھ سکتے ہیں جن کے قلوب الحاد و زندیقیت کی تاریکیوں میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ یہ وہ بدبخت طائفہ ادباء ہے جس کو قرآن کانور تو کبھی نظر نہیں آیا، البتہ غناء اورموسیقی کے فتور کو ہی ’نور‘ سمجھنے کی غلط فہمی میں مبتلا ہے۔
اللہ کی کتاب قرآن مجید کے صوتی حسن و جمال کاموازنہ سیکولر موسیقی سے کرنا ہمارے نزدیک ناپسندیدہ امر ہے۔ مگر یہاں موضوع کی مناسبت سے فن قراء ت اور فن موسیقی کا تقابلی جائزہ لیتے ہوئے راقم اپنے مضمون ’نور جہاں، فتور جہاں‘ کے اس حصے کو یہاں پر نقل کرنا فائدے سے خالی نہیں سمجھتا۔
 
Top