ساجد
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 6,602
- ری ایکشن اسکور
- 9,379
- پوائنٹ
- 635
سعادت حسن منٹو ’نورجہاں‘ کے فن کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے لکھتا ہے:
’’مجھے اس کی شکل و صورت میں ایسی کوئی خاص چیز نظر نہیں آئی۔ایک فقط اس کی آواز، مرکیاں اتنی واضح، کھرچ اتنا ہموار پنچم اتنانوکیلا۔ میں نے سوچا یہ لڑکی چاہے تو گھنٹوں ایک سُر پرکھڑی رہ سکتی ہے، اسی طرح جس طرح بازی گرتنے ہوئے رسے پر بغیرکسی لغزش کے کھڑے رہتے ہیں۔‘‘
یہ غالباً خوبصورت ترین جملے ہیں جو اُردو زبان میں لکھنے والے کسی ادیب نے کسی بھی مغنیہ کی تعریف میں ادا کئے ہیں۔ مگر اے کاش فلمی اسٹوڈیو میں عمر گنوا دینے والا جمال پرست، فحش نگار منٹو اگر کم سن قاری جواد فروغی کو کبھی سن لیتا تو اُسے قلم پھینکنا پڑتا، کیونکہ اس کے خداداد صوتی جمال کو لفظوں کے پیکر عطاکرناممکن نہیں ہے۔
’’یہ جواد فروغی کون ہے؟ جواد سرزمین ایران میں جنم لینے والا وہ نوجوان تھا جس نے بارہ سال کی عمر میں قرآن مجید کی قراء ت کے ذریعے کروڑوں سننے والوں کو تڑپاکر رکھ دیا۔ وہ جب اپنے مکان کی چھت پر چڑھ کر تلاوت قرآن پاک کرتا تو اس کے گھر کے سامنے سننے والوں کے رش کی وجہ سے ٹریفک جام ہوجاتی۔ وہ جب ایک لمبے سانس میں بے حد وجدانی آواز میں کئی آیات کی تلاوت کرنے کے بعد وقفہ کرتاتو سننے والے اپنے آپ میں نہ رہتے اور کافی دیر تک فضا ’’واہ واہ ، سبحان اللہ‘‘ کے وجدانی نعروں سے گونجتی رہتی۔ قلبی قساوت کے شکار سامعین کی آنکھیں بھی وفورِ جذبات سے چھم چھم ہوجاتیں۔ ایسے سریلے لحن، ملکوتی گونج سن کر گمان ہوتا کہ اس نوجوان کے گلے میں نور برس رہا ہے۔ قرآن مجید ایک نور ہے جواد فروغی کی سحر انگیز آواز میں اس کی قراء ت ’نور علی نور‘ محسوس ہوتی تھی۔‘‘ (محدث:جنوری۲۰۰۱ء)
عالم اسلام میں اس وقت سعودی عرب، ایران اور مصر میںفن قراء ت یعنی قرآن مجید کے صوتی جمال کے فروغ کو سرکاری سرپرستی حاصل ہے۔سعودی عرب میں فن قراء ت پر پی ایچ ڈی کرنے والے افراد سینکڑوں مل جائیں گے۔ قاری ایوب، قاری سعود الشریم، قاری عبدالرحمن السدیس حفظہما اللہ کی آواز میں پورے قرآن مجید کی تلاوت کاسیٹ مل جاتا ہے۔ وہاں قراء حضرات اعلیٰ مناصب پر فائز ہیں، بعض کامرتبہ وزراء کے برابر ہے۔ آج سے دو برس قبل قاری عبدالرحمن السدیس حفظہ اللہ حکومت پاکستان کی خصوصی دعوت پر پاکستان تشریف لائے تو انہیں ریاست کے سربراہ کا پروٹوکول دیا گیا۔ حافظ عبدالرحمن مدنی حفظہ اللہ کے توسط سے راقم الحروف بھی اسٹیٹ گیسٹ ہاؤس میں ان کی ملاقات سے مشرف یاب ہوا۔ مصر کی حکومت اگرچہ سیکولر ہے، لیکن وہاں قراء ت و تلاوت کو کلچر کے بلند ترین مقام پررکھا جاتا ہے۔ قاری عبدالباسط مصری رحمہ اللہ شہرہ آفاق قاری ہیں۔ اس طرح مصر کے قاری صدیق المنشاوی اور قاری عنتر سعید; نے فن قراء ت میں قابل رشک مقام حاصل کیا۔
گذشتہ چند برسوں میں ایرانی حکومت نے فن قراء ت کو فروغ دینے میں بہت دلچسپی لی ہے۔ ان کی سرکاری تقریبات میں قرآن مجید کی قراء ت خصوصیت سے کی جاتی ہے۔ قرآن مجید کی محافل میں روحانی پیشوا آیت اللہ خامنہ ای، صدراحمدی نژاد اور دیگر رؤسائے حکومت بنفس نفیس شریک ہوتے ہیں۔ ایران غالباً واحد ملک ہے جس کے قراء سرکاری خرچ پر ہر سال ماہ رمضان میں مختلف مسلمان ملکوں کادورہ کرتے ہیں۔ گذشتہ برسوں میں یہ وفد پاکستان کا تواتر سے دورہ کرتارہاہے۔ ۶؍اکتوبر ۲۰۰۷ء بمطابق ۲۴رمضان المبارک کو راقم الحروف نے ’شب نورِ قرآن‘ کا اہتمام کیا تھا۔ جس میں قاری احمد میاں تھانوی حفظہ اللہ صاحب کے علاوہ لاہور کے معروف قراء بھی شریک ہوئے، اس تقریب میں خانۂ فرہنگ ایران کے تعاون سے ایرانی قراء کو بھی دعوت دی گئی تھی۔
’’مجھے اس کی شکل و صورت میں ایسی کوئی خاص چیز نظر نہیں آئی۔ایک فقط اس کی آواز، مرکیاں اتنی واضح، کھرچ اتنا ہموار پنچم اتنانوکیلا۔ میں نے سوچا یہ لڑکی چاہے تو گھنٹوں ایک سُر پرکھڑی رہ سکتی ہے، اسی طرح جس طرح بازی گرتنے ہوئے رسے پر بغیرکسی لغزش کے کھڑے رہتے ہیں۔‘‘
یہ غالباً خوبصورت ترین جملے ہیں جو اُردو زبان میں لکھنے والے کسی ادیب نے کسی بھی مغنیہ کی تعریف میں ادا کئے ہیں۔ مگر اے کاش فلمی اسٹوڈیو میں عمر گنوا دینے والا جمال پرست، فحش نگار منٹو اگر کم سن قاری جواد فروغی کو کبھی سن لیتا تو اُسے قلم پھینکنا پڑتا، کیونکہ اس کے خداداد صوتی جمال کو لفظوں کے پیکر عطاکرناممکن نہیں ہے۔
’’یہ جواد فروغی کون ہے؟ جواد سرزمین ایران میں جنم لینے والا وہ نوجوان تھا جس نے بارہ سال کی عمر میں قرآن مجید کی قراء ت کے ذریعے کروڑوں سننے والوں کو تڑپاکر رکھ دیا۔ وہ جب اپنے مکان کی چھت پر چڑھ کر تلاوت قرآن پاک کرتا تو اس کے گھر کے سامنے سننے والوں کے رش کی وجہ سے ٹریفک جام ہوجاتی۔ وہ جب ایک لمبے سانس میں بے حد وجدانی آواز میں کئی آیات کی تلاوت کرنے کے بعد وقفہ کرتاتو سننے والے اپنے آپ میں نہ رہتے اور کافی دیر تک فضا ’’واہ واہ ، سبحان اللہ‘‘ کے وجدانی نعروں سے گونجتی رہتی۔ قلبی قساوت کے شکار سامعین کی آنکھیں بھی وفورِ جذبات سے چھم چھم ہوجاتیں۔ ایسے سریلے لحن، ملکوتی گونج سن کر گمان ہوتا کہ اس نوجوان کے گلے میں نور برس رہا ہے۔ قرآن مجید ایک نور ہے جواد فروغی کی سحر انگیز آواز میں اس کی قراء ت ’نور علی نور‘ محسوس ہوتی تھی۔‘‘ (محدث:جنوری۲۰۰۱ء)
عالم اسلام میں اس وقت سعودی عرب، ایران اور مصر میںفن قراء ت یعنی قرآن مجید کے صوتی جمال کے فروغ کو سرکاری سرپرستی حاصل ہے۔سعودی عرب میں فن قراء ت پر پی ایچ ڈی کرنے والے افراد سینکڑوں مل جائیں گے۔ قاری ایوب، قاری سعود الشریم، قاری عبدالرحمن السدیس حفظہما اللہ کی آواز میں پورے قرآن مجید کی تلاوت کاسیٹ مل جاتا ہے۔ وہاں قراء حضرات اعلیٰ مناصب پر فائز ہیں، بعض کامرتبہ وزراء کے برابر ہے۔ آج سے دو برس قبل قاری عبدالرحمن السدیس حفظہ اللہ حکومت پاکستان کی خصوصی دعوت پر پاکستان تشریف لائے تو انہیں ریاست کے سربراہ کا پروٹوکول دیا گیا۔ حافظ عبدالرحمن مدنی حفظہ اللہ کے توسط سے راقم الحروف بھی اسٹیٹ گیسٹ ہاؤس میں ان کی ملاقات سے مشرف یاب ہوا۔ مصر کی حکومت اگرچہ سیکولر ہے، لیکن وہاں قراء ت و تلاوت کو کلچر کے بلند ترین مقام پررکھا جاتا ہے۔ قاری عبدالباسط مصری رحمہ اللہ شہرہ آفاق قاری ہیں۔ اس طرح مصر کے قاری صدیق المنشاوی اور قاری عنتر سعید; نے فن قراء ت میں قابل رشک مقام حاصل کیا۔
گذشتہ چند برسوں میں ایرانی حکومت نے فن قراء ت کو فروغ دینے میں بہت دلچسپی لی ہے۔ ان کی سرکاری تقریبات میں قرآن مجید کی قراء ت خصوصیت سے کی جاتی ہے۔ قرآن مجید کی محافل میں روحانی پیشوا آیت اللہ خامنہ ای، صدراحمدی نژاد اور دیگر رؤسائے حکومت بنفس نفیس شریک ہوتے ہیں۔ ایران غالباً واحد ملک ہے جس کے قراء سرکاری خرچ پر ہر سال ماہ رمضان میں مختلف مسلمان ملکوں کادورہ کرتے ہیں۔ گذشتہ برسوں میں یہ وفد پاکستان کا تواتر سے دورہ کرتارہاہے۔ ۶؍اکتوبر ۲۰۰۷ء بمطابق ۲۴رمضان المبارک کو راقم الحروف نے ’شب نورِ قرآن‘ کا اہتمام کیا تھا۔ جس میں قاری احمد میاں تھانوی حفظہ اللہ صاحب کے علاوہ لاہور کے معروف قراء بھی شریک ہوئے، اس تقریب میں خانۂ فرہنگ ایران کے تعاون سے ایرانی قراء کو بھی دعوت دی گئی تھی۔