• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قرآن مجید کا صوتی جمال اور اِسلامی کلچر

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
سعادت حسن منٹو ’نورجہاں‘ کے فن کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے لکھتا ہے:
’’مجھے اس کی شکل و صورت میں ایسی کوئی خاص چیز نظر نہیں آئی۔ایک فقط اس کی آواز، مرکیاں اتنی واضح، کھرچ اتنا ہموار پنچم اتنانوکیلا۔ میں نے سوچا یہ لڑکی چاہے تو گھنٹوں ایک سُر پرکھڑی رہ سکتی ہے، اسی طرح جس طرح بازی گرتنے ہوئے رسے پر بغیرکسی لغزش کے کھڑے رہتے ہیں۔‘‘
یہ غالباً خوبصورت ترین جملے ہیں جو اُردو زبان میں لکھنے والے کسی ادیب نے کسی بھی مغنیہ کی تعریف میں ادا کئے ہیں۔ مگر اے کاش فلمی اسٹوڈیو میں عمر گنوا دینے والا جمال پرست، فحش نگار منٹو اگر کم سن قاری جواد فروغی کو کبھی سن لیتا تو اُسے قلم پھینکنا پڑتا، کیونکہ اس کے خداداد صوتی جمال کو لفظوں کے پیکر عطاکرناممکن نہیں ہے۔
’’یہ جواد فروغی کون ہے؟ جواد سرزمین ایران میں جنم لینے والا وہ نوجوان تھا جس نے بارہ سال کی عمر میں قرآن مجید کی قراء ت کے ذریعے کروڑوں سننے والوں کو تڑپاکر رکھ دیا۔ وہ جب اپنے مکان کی چھت پر چڑھ کر تلاوت قرآن پاک کرتا تو اس کے گھر کے سامنے سننے والوں کے رش کی وجہ سے ٹریفک جام ہوجاتی۔ وہ جب ایک لمبے سانس میں بے حد وجدانی آواز میں کئی آیات کی تلاوت کرنے کے بعد وقفہ کرتاتو سننے والے اپنے آپ میں نہ رہتے اور کافی دیر تک فضا ’’واہ واہ ، سبحان اللہ‘‘ کے وجدانی نعروں سے گونجتی رہتی۔ قلبی قساوت کے شکار سامعین کی آنکھیں بھی وفورِ جذبات سے چھم چھم ہوجاتیں۔ ایسے سریلے لحن، ملکوتی گونج سن کر گمان ہوتا کہ اس نوجوان کے گلے میں نور برس رہا ہے۔ قرآن مجید ایک نور ہے جواد فروغی کی سحر انگیز آواز میں اس کی قراء ت ’نور علی نور‘ محسوس ہوتی تھی۔‘‘ (محدث:جنوری۲۰۰۱ء)
عالم اسلام میں اس وقت سعودی عرب، ایران اور مصر میںفن قراء ت یعنی قرآن مجید کے صوتی جمال کے فروغ کو سرکاری سرپرستی حاصل ہے۔سعودی عرب میں فن قراء ت پر پی ایچ ڈی کرنے والے افراد سینکڑوں مل جائیں گے۔ قاری ایوب، قاری سعود الشریم، قاری عبدالرحمن السدیس حفظہما اللہ کی آواز میں پورے قرآن مجید کی تلاوت کاسیٹ مل جاتا ہے۔ وہاں قراء حضرات اعلیٰ مناصب پر فائز ہیں، بعض کامرتبہ وزراء کے برابر ہے۔ آج سے دو برس قبل قاری عبدالرحمن السدیس حفظہ اللہ حکومت پاکستان کی خصوصی دعوت پر پاکستان تشریف لائے تو انہیں ریاست کے سربراہ کا پروٹوکول دیا گیا۔ حافظ عبدالرحمن مدنی حفظہ اللہ کے توسط سے راقم الحروف بھی اسٹیٹ گیسٹ ہاؤس میں ان کی ملاقات سے مشرف یاب ہوا۔ مصر کی حکومت اگرچہ سیکولر ہے، لیکن وہاں قراء ت و تلاوت کو کلچر کے بلند ترین مقام پررکھا جاتا ہے۔ قاری عبدالباسط مصری رحمہ اللہ شہرہ آفاق قاری ہیں۔ اس طرح مصر کے قاری صدیق المنشاوی اور قاری عنتر سعید; نے فن قراء ت میں قابل رشک مقام حاصل کیا۔
گذشتہ چند برسوں میں ایرانی حکومت نے فن قراء ت کو فروغ دینے میں بہت دلچسپی لی ہے۔ ان کی سرکاری تقریبات میں قرآن مجید کی قراء ت خصوصیت سے کی جاتی ہے۔ قرآن مجید کی محافل میں روحانی پیشوا آیت اللہ خامنہ ای، صدراحمدی نژاد اور دیگر رؤسائے حکومت بنفس نفیس شریک ہوتے ہیں۔ ایران غالباً واحد ملک ہے جس کے قراء سرکاری خرچ پر ہر سال ماہ رمضان میں مختلف مسلمان ملکوں کادورہ کرتے ہیں۔ گذشتہ برسوں میں یہ وفد پاکستان کا تواتر سے دورہ کرتارہاہے۔ ۶؍اکتوبر ۲۰۰۷ء بمطابق ۲۴رمضان المبارک کو راقم الحروف نے ’شب نورِ قرآن‘ کا اہتمام کیا تھا۔ جس میں قاری احمد میاں تھانوی حفظہ اللہ صاحب کے علاوہ لاہور کے معروف قراء بھی شریک ہوئے، اس تقریب میں خانۂ فرہنگ ایران کے تعاون سے ایرانی قراء کو بھی دعوت دی گئی تھی۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
افسوس کہ اسلام کے نام پر قائم ہونے والی ریاست اسلامی جمہوریہ پاکستان میں قرآن مجید کے صوتی جمال اور فن قراء ت کے فروغ و اشاعت کے لیے کوئی قابل ذکر سرگرمی نظر نہیں آتی۔ عوام کے فنڈ سے قائم ہونے والی آرٹس کونسلوں میں موسیقی کی فحش اور بے ہودہ تقاریب تو منعقد کرائی جاتی ہیں، مگر اس کے دین بیزار منتظم اسلامی کلچر کی اہم ترین مظہر ’فن قراء ت‘ کو آگے بڑھانے میںکوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔ حکومتی سرپرستی کے اس فقدان کی وجہ سے عوام قرآن مجید کے صوتی جمال سے کماحقہ محظوظ نہیں ہوپاتے۔
مذہب اور ثقافت کے درمیان باہمی رشتے پر یہاں تفصیلی ذکر کی گنجائش نہیں ہے، لیکن پھر بھی میں سمجھتا ہوں کہ اس مضمون کا خاتمہ اس اہم فکری تصور پر کیاجائے۔
ہمارے خیال میں کلچر معاشرے کے مجموعی طرزِ عمل کانام بھی ہے اور اس مجموعی طرز عمل کی تشکیل میں مرکزی کردار اس کے داخلی عناصر یعنی عقائد، فکری اَساس اور مذہبی سوچ اداکرتے ہیں، خارجی عناصر کی شکل و صورت بنانے میں بھی باطنی عناصر کا کردار اہم ہے۔
دین ایک برتر تصور ہے جو ثقافت کی حدود اور اس کے دائروں کا تعین کرتا ہے۔ اس اعتبار سے مذہب کامنصب ثقافت گری بھی ہے۔اسلام محض ثقافت نہیں بلکہ ’دینی ثقافت‘ کا تصور پیش کرتاہے جو دین و دنیا کے تمام امو رکا احاطہ کرتی ہے۔ مذہب کو ثقافت کے مقابلے میں برتر مقام دینے کی بنیادی وجہ اس کا احکام الٰہی پرمبنی ہونا ہے۔
اسلام چونکہ اَبدی دین ہے،اس میں آنے والے انسانوں کے لیے بھی ضابطۂ حیات موجود ہے۔ اس لیے اسلام نے اپنا الگ ثقافتی نصب العین بھی پیش کیا۔آفاقی دین کی حیثیت سے اسلام نے تمام دنیا کے انسانوں کے لیے نظام معاشرت و ثقافت تجویز فرمایا۔
اگر ہم اسلام کو انسانی زندگی کے لیے مکمل نظام حیات سمجھتے ہیں، اگر ہم اسلام کو ثقافت کے باطنی و خارجی عناصر کا محوری نکتہ سمجھتے ہیں تو اس کامنطقی نتیجہ اس کے علاوہ کوئی اور نہیں ہونا چاہئے کہ ہم اپنے کلچر کے تمام مظاہر کو اسلامی اقدار کے مطابق ڈھالیں۔ ہمارے ایمان کا تقاضا ہے کہ ہم اپنی قومی زندگی میں اسلام اور کلچر کے درمیان جہاں کہیں اختلاف یاتصادم دیکھیں، وہاں اسلام کو محکم اور فیصلہ کن قوت تسلیم کریں۔ اگر ہمارا یہی رویہ بن جائے تو تب ہماری قومی ثقافت صحیح معنوں میں اسلامی ثقافت کی صورت میں تشکیل پذیر ہوگی۔ وما علینا إلاالبلاغ
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
نوٹ: یہ مضمون راقم نے ماہنامہ ’رُشد‘ کی ’سبعہ احرف‘ کے متعلق خصوصی اشاعت کے لیے تحریر کیاہے۔ گذشتہ ایک سال سے تصنیف و تالیف کا کام تقریباً چھوڑ رکھا تھا۔ پیشہ وارانہ مصروفیات ، جسمانی اضمحلال اورعدم حضوری کی وجہ سے ذہنی یکسوئی میسرنہیں تھی۔ اسی لیے جب حافظ حمزہ مدنی (جو چند روز پہلے پی۔ ایچ۔ ڈی کی ڈگری حاصل کرچکے ہیں) مدیر ’رُشد‘ نے اس خصوصی اشاعت کے لیے حصہ ڈالنے کے لیے کہاتو میں نے معذرت کرلی۔ ’سبعہ احرف‘کے متعلق مجھے علمی تحقیق کاموقع کم ہی ملا ہے۔ ان کااصرار جاری رہا۔ ان کاخیال تھا کہ’رُشد‘ کی خصوصی اشاعت کے حصہ دوم کا اداریہ راقم ہی تحریر کرے۔ حافظ حمزہ مدنی کاپُرخلوص اصرار ایسا نہ تھا کہ کاملاً انکار کردیا جاتا۔ اس موضوع پر نئے سرے سے مواد دیکھنا شروع کیا۔ اس ضمن میں ڈاکٹر حمزہ مدنی نے ماہنامہ ’الاشرف‘ کراچی کی تجوید و قراء ت پر خصوصی شمارہ اور مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ کی جمال القرآن اور سیدقطب رحمہ اللہ کی ’قرآن مجید کے فنی محاسن‘ بھجوائی، میں اس سلسلے میں ان کے تعاون کاشکرگزار ہوں۔ (محمد عطاء اللہ صدیقی)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
حوالہ جات

نوٹ: مذکورہ بالا مضمون کی تحریر کے دوران حسب ذیل کتب پیش نظر رہیں۔
(١) اسلام اورموسیقی۔از مولانا محمد جعفر شاہ پھلواری، ادارہ ثقافت اسلامیہ، لاہور
(٢) اسلام اور موسیقی از مفتی محمد شفیع، ادارہ دارالاسلامیات، لاہور
(٣) اسلام اور قوالی از مفتی حفیظ الرحمن، المکتبۃ العلمیہ ضلع مانسہرہ، صوبہ سرحد (پاکستان)
(٤) قرآن مجید کے فنی محاسن از سید قطب شہید، ترجمہ ازغلام احمد حریری، فیصل اسلامک ریسرچ سنٹر، فیصل آباد
(٥) جمال القرآن از حکیم الامت مولانااشرف علی تھانوی، ادارہ کتب طاہریہ، ملتان
(٦) الفوز الکبیر از شاہ ولی اللہ دہلوی، ترجمہ پروفیسر محمد رفیق چوہدری۔
(٧) بسنت، اسلامی ثقافت اور پاکستان ازمحمد عطاء اللہ صدیقی، مجلس تحقیق اسلامی، لاہور
(٨) جریدہ ’الاشراف‘ کراچی ، خصوصی اشاعت، فروری تا جولائی ۲۰۰۰ء
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
بالخصوص درج ذیل مضامین:
(١) فن قراء ت کا ارتقاء از محمد سعود عالم قاسمی (٢) قرآن کریم کا صوتی اعجاز از مولانا محمد فاروق خان
(٣) امام دانی اور علم قراء ت از ڈاکٹر عبدالعلیم (٤) امام شاطبی اورعلم قراء ات ازمولانا اسد اللہ
(٥) امام جزری اورعلم قراء ت ازمولانا محمد ارشد (٦) علم تجوید ، ایک تعارف از ڈاکٹر محمود غازی
(٧) جدید صوتیات اور علم تجوید از ڈاکٹر خلیل احمد (٨) ہندوستان میں علم قراء ت از مولانا ثناء الہدیٰ قاسمی
(٩) قرآن کے سات حروف از مولانا محمد تقی عثمانی
(١٠) نورجہاں، فتور جہاں از محمد عطاء اللہ صدیقی(راقم مضمون) شائع شدہ ’محدث‘ جنوری۲۰۰۱ء
(١١) ’پاکستانی کلچر‘ از ڈاکٹر جمیل احمد جالبی، سابق وائس چانسلر کراچی یونیورسٹی

٭۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔٭
 
Top