• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قرآن میں حقیقت و مجاز کی بحث

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,551
پوائنٹ
641
حال کا اطلاق محل پر
یعنی حال بول کر مراد اس کا محل (جگہ ) ہو۔ اس کی مثال درج ذیل ہے :
(فَفِیْ رَحْمَةِ اللّٰہِ ھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ) (آل عمران)
''پس اللہ کی رحمت میں 'وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے'' ۔
اس آیت مبارکہ میں 'رَحْمَة' سے مراد محل رحمت یعنی جنت ہے۔

اسی طرح (بَلْ مَکْرُ الَّیْلِ وَالنَّھَارِ) (سَبا:٣٣) میں مراد 'فِی الَّیْلِ وَالنَّھَارِ' ہے۔ اسی طرح (اِذْ یُرِیْکَھُمُ اللّٰہُ فِیْ مَنَامِکَ قَلِیْلًا) (الانفال:٤٣) میں حسن بصری کے نزدیک 'مَنَام' سے مرادمحلِ منام یعنی آنکھ'ہے ۔

محل کا اطلاق حال پر
یعنی محل (جگہ )بول کے مراد اس کا حال ہو۔ اس کی مثال درج ذیل ہے:
( فَلْیَدْعُ نَادِیَہ) (العلق)
''پس اسے چاہیے کہ وہ اپنی مجلس کو پکارے''۔
اس آیت میں ' نَادِیَہ' یعنی محل مجلس سے مراد اہل مجلس ہیں۔

اسی طرح (بِیَدِہِ الْمُلْکُ) (الملک:١) میں محلِ قدرت یعنی ہاتھ سے مراد قدرت ہے۔ اسی طرح (یَقُوْلُوْنَ بِاَفْوَاھِھِمْ) (آل عمران:١٦٧) میں محل زبان یعنی ' اَفْوَاہ'سے مراد زبان ہے۔ اسی طرح (وَاسْئَلِ الْقَرْیَةَ)(یوسف:٨٢) میں محل یعنی قریة سے مراد اہل قریة ہیں۔ اسی طرح (خُذُوْا زِیْنَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ) (الاعراف:٣١) میں دونوں انواع اکٹھی ہو گئی ہیں' زینت سے مراد محل زینت ہے' جبکہ مسجد یعنی محل نماز سے مراد نماز ہے۔ اسی طرح (لَھُمْ قُلُوْب لَّا یَفْقَھُوْنَ بِھَا ) (الاعراف:١٧٩) میں محل عقل یعنی قلوب سے مراد عقل ہے ۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,551
پوائنٹ
641
ایک شے کو اس کے آلہ سے موسوم کرنا
اس کی مثال درج ذیل ہے :
( وَمَا اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلاَّ بِلِسَانِ قَوْمِہ) (ابراھیم:٤)
''اور ہم نے نہیں بھیجا کسی بھی رسول کو مگر اس کی قوم کی زبان میں ''۔
اس آیت مبارکہ میں لغت کو اس کے آلہ یعنی لسان سے تعبیر کیاگیا ہے۔ اسی طرح (وَاجْعَلْ لِّیْ لِسَانَ صِدْقٍ فِی الْاٰخِرِیْن) (الشعراء) میں ثنا کو اس کے آلہ یعنی لسان سے تعبیر کیا گیا ہے' اس لیے لسانِ صدق سے مراد ثنائے صدق ہے۔

ایک شے کو اس کی ضد سے پکارنا
اس کی مثال درج ذیل ہے :
(فَبَشِّرْھُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ) (آل عمران)
''پس آپۖ ان کو دردناک عذاب کی خوشخبری دے دیں ''۔
بشارت کو عذاب کے ساتھ اکٹھا کیا گیا ہے جو کہ اس کی ضد ہے۔ اسی طرح (مَا مَنَعَکَ اَلاَّ تَسْجُدَ) (الاعراف:١٢) سے مراد ' مَا دَعَاکَ اَلاَّ تَسْجُدَ' ہے' یعنی 'منع' بمعنی 'دعا' ہے۔ اس صورت میں 'لا' زائدہ نہ ہو گا۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,551
پوائنٹ
641
فعل کی اضافت ایسی شے کی طرف کرنا کہ وہ فعل اس سے سرزد ہونا صحیح نہ ہومگر تشبیہاً اس کا ذکر ہو
اس کی مثال درج ذیل ہے:
(جِدَارًا یُّرِیْدُ اَنْ یَّنْقَضَّ) (الکہف:٧٧)
''وہ دیوار گرنا ہی چاہتی تھی ''۔
حالانکہ ارادہ جاندار کی صفت ہے لیکن اسے دیوار کے لیے استعمال اس لیے کیا کہ دیوار اتنی جھکی ہوئی تھی گوی اوہ از خود گرنے کے لیے تیار بیٹھی ہو' اس لیے اس کے لیے ارادہ کا لفظ تشبیہاً استعمال کیا گیا۔

یا پھر اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ فعل اس میں وقوع پذیر ہوتا ہے' جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
(اَلم غُلِبَتِ الرُّوْمُ) (الروم)
''الم' روم مغلوب ہو گیا''۔
اس آیت میں مغلوب ہونے کی نسبت 'روم' کی طرف کی گئی ہے' حالانکہ مغلوب ہونے والے اہل روم تھے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,551
پوائنٹ
641
فعل کو بولنا مگر مراد اس کی مشارفت (یعنی فعل کے کرنے کے لیے تیار ہو جانا )یا مقاربت (یعنی فعل کے نزدیک ہونا ) ہو۔
اس کی مثال درج ذیل ہے :
(فَاِذَا بَلَغْنَ اَجَلَھُنَّ فَاَمْسِکُوْھُنَّ) (الطلاق:٢)
''پس جب وہ اپنی مقرہ مدت کے قریب پہنچ جائیں تو ان کو روک لو''۔
اس آیت میں 'بلوغ ' سے مراد قربِ بلوغ ہے' کیونکہ اجل تک پہنچنے کے بعد تو عورت اپنے خاوند کے نکاح سے نکل جاتی ہے' لہٰذا اسے روکنے کا اختیار خاوند کے پاس باقی نہیں رہتا۔

اسی طرح (فَاِذَا جَآء اَجَلُھُمْ لَا یَسْتَاْخِرُوْنَ سَاعَةً وَّلَا یَسْتَقْدِمُوْنَ) (الاعراف) میں 'اجل' سے مراد قربِ اجل ہے۔ اسی طرح (وَلْیَخْشَ الَّذِیْنَ لَوْ تَرَکُوْا مِنْ خَلْفِھِمْ) (النساء:٩) میں ' ترک' سے مرادقربِ ترک ہے۔ اسی طرح (اِذَا قُمْتُمْ اِلَی الصَّلٰوةِ) (المائدة:٦) میں 'قیام' سے مراد ارادہ قیام اور (فَاِذَا قَرَاْتَ الْقُرْاٰنَ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰہِ) (النحل:٩٨) میں ' قرا ء ت'سے مُراد ارادہ قرا ء ت ہے۔

اسی طرح (وَکَمْ مِّنْ قَرْیَةٍ اَھْلَکْنٰھَا فَجَآء ھَا بَاْسُنَا) (الاعراف:٤) میں 'اھلاک' سے مراد ارادہ اھلاک اور (وَاِنْ حَکَمْتَ فَاحْکُمْ بَیْنَھُمْ) (المائدة:٤٢) میں 'حکم' سے مراد ارادہ حکم ہے۔ اسی طرح (اِذَا نَاجَیْتُمُ الرَّسُوْلَ) (المجادلة:١٢) میں 'مناجات' سے مرادارادہ مناجات اور (وَاِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ) (النساء:٥٨) میں مراد ارادئہ حکم ہے۔ اسی طرح (اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاء)(الطلاق:١) میں مراد ارادہ طلاق اور (وَاِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوْا) (الانعام:١٥٢) میں مراد ارادہ قول ہے۔

علامہ زمخشری نے (قَالُوْا یٰنُوْحُ قَدْ جٰدَلْتَنَا) (ھود:٣٢) میں 'جدال' ارادہ جدال کے معنی میں لیا ہے تا کہ لفظ جدال کے تکرار سے بچا جا سکے۔ حضر ت عبداللہ بن عباس نے اسی نوع کے تحت (مَنْ یَّھْدِ اللّٰہُ فَھُوَ الْمُھْتَدِی) (الاعراف:١٧٨) کو بھی داخل کیا ہے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,551
پوائنٹ
641
قلب
اس کے معنی اُلٹ پھیر کے ہیں۔ اس کی تین اقسام ہیں:

یا تو اسناد کا قلب ہو گا۔ اس کی مثال درج ذیل ہے :
(لِکُلِّ اَجَلٍ کِتَاب) (الرعد)
''ہر لکھے ہوئے کے لیے ایک وقت مقرر ہے''۔
بعض نے اسے ''ہر اجل کے لیے ایک کتاب ہے''۔ سے بھی ترجمہ کیا ہے۔ یعنی اس سے مراد 'لِکُلِّ کِتَابٍ اَجَل' ہے۔ اسی طرح (فَتَلَقّٰی اٰدَمُ مِنْ رَّبِّہ کَلِمٰتٍ) (البقرة:٣٧) سے مراد 'فَتَلَقّٰی اٰدَمَ مِنْ رَّبِّہ کَلِمَات' ہے اور (وَاِنْ یُّرِدْکَ بِخَیْرٍ) (یونس:١٠٧)سے مراد وَاِنْ یُّرِدْ بِکَ الْخَیْر ہے۔

یا عطف کو مقلوب کر دیا جائے۔ اس کی مثال بعض علماء نے یہ بیان کی ہے:
( ثُمَّ تَوَلَّ عَنْھُمْ فَانْظُرْ) (النمل:٢٨)
''پھر آپۖ ان سے منہ پھیر لیں پس آپۖ دیکھیں''۔
اس سے مراد ' فَانْظُرْ ثُمَّ تَوَلَّ' ہے۔ اسی طرح (ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰی) (النجم) سے مراد ' تَدَلّٰی فَدَنَا' ہے۔

یا تشبیہہ کو مقلوب کر دیا گیا ہو۔
(جاری ہے)
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,551
پوائنٹ
641
ایک صیغہ کو دوسرے صیغہ کے مقام پر رکھنا
اس کی کئی اقسام ہیں :
مصدر کا اطلاق فاعل پر ہو' مثلاً:
(فَاِنَّھُمْ عَدُوّ لِّیْ) (الشعراء:٧٧)
''بے شک وہ سب میرے دشمن ہیں''۔
اس آیت مبارکہ میں 'عَدُوّ ' مصدر ہے جس کا معنی 'زیادتی کرنا' ہے جبکہ اس سے مراد فاعل یعنی ' زیادتی کرنے والے' ہے۔

مصدر کا اطلاق مفعول پر ہو
مثلاً
(وَلَا یُحِیْطُوْنَ بِشَیْئٍ مِّنْ عِلْمِہ) (البقرة:٢٥٥)
''اور وہ اللہ تعالیٰ کی معلومات میں سے کسی چیز کا بھی احاطہ نہیں کر سکتے''۔
اس آیت مبارکہ میں 'علم' مصدر ہے جس کامعنی 'جاننا' ہے اور اس سے مراد مفعول یعنی 'معلومات' ہے۔
اسی طرح (صُنْعَ اللّٰہِ) (النمل:٨٨) میں 'صُنْع' سے مراد مصنوع ہے' اور ( وَجَآءُوْ عَلٰی قَمِیْصِہ بِدَمٍ کَذِبٍ)(یوسف:١٨) میں 'کَذِبٍ' سے مراد ' مَکْذُوْب فِیْہِ' ہے۔

اسم مقول کا اطلاق قول پر ہو
مثلاً
(فَبَرَّاَہُ اللّٰہُ مِمَّا قَالُوْا) (الاحزاب:٦٩)
''پس اللہ تعالیٰ نے حضرت موسٰی کو بری قرار دیا اس سے جوبنو اسرائیل نے کہا''۔

اسمِ بشری کا اطلاق مبشر بہ پر ہو
مثلاً
(بُشْرٰٹکُمُ الْیَوْمَ جَنّٰت) (الحدید:١٢)
''تمہاری خوشخبری آج کے دن باغات ہیں ''۔
اسم ہویٰ کا اطلاق مہوی پر ہو
مثلاً
(وَنَھَی النَّفْسَ عَنِ الْھَوٰی) (النّٰزعٰت)
''اور اس نے روکا اپنے نفس کو خواہش سے ''۔
اسم کا اطلاق مسمی پر ہو
مثلاً
(مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِہ اِلاَّ اَسْمَآء سَمَّیْتُمُوْھَآ) (یوسف:٤٠)
''نہیں تم عبادت کرتے اللہ کے سوا مگرچند ناموں کی جو نام تم نے ان کو دے دیے ہیں''۔
اس آیت میں 'اَسْمَاء' سے مراد مسمیات یعنی معبودان باطلہ ہیں۔ اسی طرح (سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلٰی) (الاعلٰی) میں بھی 'اِسْمَ' سے مراد مسمی یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔

اسم فاعل کا اطلاق مصدر پرہو
مثلاً
(لَیْسَ لِوَقْعَتِھَا کَاذِبَة) (الواقعة)
''نہیں ہے اس قیامت کے واقعے ہونے کو کوئی جھٹلانے والی''۔
اس آیت مبارکہ میں اسم فاعل'کَاذِبَة'سے مراد مصدر 'تکذیب' ہے۔

اسم مفعول کا اطلاق مصدر پر ہو
مثلاً
(بِاَٹیِّکُمُ الْمَفْتُوْنُ) ( القلم)
''تم میں سے کون آزمایا گیا (یعنی آزمائش) ہے؟''
اس آیت میں اسم مفعول 'اَلْمَفْتُوْنُ'سے مراد ' فِتْنَة' ہے جبکہ 'با' زائدہ ہے۔

اسم فاعل کا اطلاق اسم مفعول پرہو
مثلاً
( خُلِقَ مِنْ مَّآء دَافِقٍ) (الطارق)
''وہ (یعنی انسان) پیدا کیا گیا ہے اچھالے گئے پانی سے ''۔
اس آیت میں اسم فاعل 'دَافِقٍ' سے مراداسم مفعول 'مَدْفُوْقٍ' ہے' اسی طرح (جَعَلْنَا حَرَمًا اٰمِنًا) (العنکبوت:٦٧) میں 'اٰمِنًا'سے مراد ' مَاْمُوْنًا فِیْہِ' ہے ۔اسی طرح (لَا عَاصِمَ الْیَوْمَ مِنْ اَمْرِ اللّٰہِ اِلاَّ مَنْ رَّحِمَ)(ھود:٤٣) میں 'عَاصم'سے مراد ' مَعْصُوْم' ہے۔

اسم مفعول کا اطلاق اسم فاعل پر ہو
مثلاً
(اِنَّہ کَانَ وَعْدُہ مَاْتِیًّا) (مریم)
''بے شک وہ اس کا وعدہ آنے والا ہے ''۔
اس آیت میں اسم مفعول 'مَاْتِیًّا 'سے مراد 'اٰتِیًا' ہے۔ اسی طرح (حِجَابًا مَّسْتُوْرًا) (الاسراء:٤٥) میں 'مَسْتُوْرًا' سے مراد 'سَاتِرًا' ہے ۔

اسم فعیل کا اطلاق اسم مفعول پر ہو
مثلا
(وَکَانَ الْکَافِرُ عَلٰی رَبِّہ ظَھِیْرًا) (الفرقان)
''اور کافر اپنے ربّ کے بالمقابل مدد کیا گیاہے ''۔
اس آیت میں 'ظَھِیْر' اسم مفعول کے معنی میں ہے' یعنی کافر اپنے ربّ کے بالمقابل مددکیا گیا ہے شیطان کی طرف سے ۔

مفرد کا اطلاق مثنیٰ پر ہو
مثلاً
(وَاللّٰہُ وَرَسُوْلُہ اَحَقُّ اَنْ یُّرْضُوْہُ) (التوبة :٦٢)
''اور اللہ اور اس کا رسول(ۖ ) زیادہ حق دار ہیں کہ وہ اس کو راضی کریں''۔
اس آیت میں 'احق' مفرد ہے جبکہ اس سے مراد مثنیٰ یعنی اللہ اور اس کا رسولۖہیں۔

مفرد کا اطلاق جمع پرہو
مثلاً
(اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ) (العصر)
''بے شک تمام انسان البتہ خسارے میں ہیں''۔
اس آیت میں 'الانسان'سے مراد تمام انسان ہیں ۔

مثنی کا اطلاق مفرد پرہو
مثلاً
(اَلْقِیَا فِیْ جَھَنَّمَ) (ق:٢٤)
''تم ڈال دو (اس کو ) جہنم میں''۔
اس آیت میں 'اَلْقِیَا 'سے مراد 'اَلْقِ' ہے۔

اسی طرح (یَخْرُجُ مِنْھُمَا اللُّؤْلُؤُ وَالْمَرْجَانُ) (الرحمٰن) میں بعض علماء کے نزدیک 'مِنْھُمَا' یعنی دریائے شیریں اور دریائے شورسے مراد 'منہ' یعنی دریائے شور ہے کیونکہ ان علماء کے نزدیک دونوں قسم کے موتی ایک ہی دریا (شور) سے نکلتے ہیں۔ اسی طرح (جَعَلَ الْقَمَرَ فِیْھِنَّ نُوْرًا) (نوح:١٦) میں بعض علماء کا کہنا ہے کہ 'فِیْھِنَّ' سے مراد 'فِیْ اِحْدَاھُنَّ' ہے۔اسی طرح (نَسِیَا حُوْتَھُمَا)(الکہف:٦١) میں بھی 'نَسِیَا' سے مراد ایک ہی ہے اگرچہ صیغہ تثنیہ کا ہے' کیونکہ بھولنے والے صرف حضرت یوشع تھے۔ فراء نے (وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہ جَنَّتٰنِ) (الرحمٰن) کو بھی اسی نوع میں شمار کیا ہے۔

مثنیٰ کا اطلاق جمع پرہو
مثلاً
(ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ کَرَّتَیْنِ) (الملک:٤)
''پھر تم لوٹاؤ (اپنی )نگاہ کو کئی بار''۔
اس آیت میں 'کَرَّتینِ'سے مراد 'کرّات' ہے کیونکہ صرف دو دفعہ سے نگاہ نہیں تھکتی۔ بعض علماء نے (اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ) (البقرة:٢٢٩) کو بھی اسی نوع میں شمار کیا ہے۔

جمع کا اطلاق مفرد پرہو
مثلاً
(قَالَ رَبِّ ارْجِعُوْنِ) (المؤمنون)
''وہ کہے گا اے میرے ربّ مجھے لوٹائیں''۔
اس آیت میں 'ارْجِعُوْا ' سے مراد 'اِرْجِعْ' ہے۔

اسی طرح (فَنَادَتْہُ الْمَلٰئِکَةُ) (آل عمران:٣٩) بھی اسی کی مثال ہے۔ اسی طرح (یُنَزِّلُ الْمَلٰئِکَةُ بِالرُّوْحِ) (النحل:٢) کو بھی بعض نے اس میں شمار کیا ہے۔ اسی طرح (وَاِذْ قَتَلْتُمْ نَفْسًا فَادّٰرَاْتُمْ) (البقرة:٧٢) بھی اسی کی مثال ہے' کیونکہ قاتل ایک تھا۔ ابن فارس نے (بِمَ یَرْجِعُ الْمُرْسَلُوْنَ) (النمل) کو بھی اس میں شمار کیا ہے' کیونکہ بعد میں حضر ت سلیمان کا قول (اِرْجِعْ اِلَیْھِمْ) (النمل:٣٧) نقل ہوا ہے۔ لیکن یہ محل نظر ہے کیونکہ حضرت سلیمان کا یہ خطاب وفد کے سربراہ سے بھی ہو سکتا ہے۔

جمع کا اطلاق مثنیٰ پرہو
مثلاً
( قَالَتَا اَتَیْنَا طَآئِعِیْنَ) (حٰم السجدة)
''ان دونوں نے کہا ہم اطاعت کرتے ہوئے آئے ہیں''۔
اس آیت میں 'طَائِعِیْنَ' جمع سے مراد 'طَائِعَیْنِ' تثنیہ ہے۔

اسی طرح (قَالُوْا لَا تَخَفْ خَصْمٰنِ بَغٰی بَعْضُنَا عَلٰی بَعْضٍ) (ص:٢٢) میں 'بَعْضُنَا' دو کے لیے ہے ۔اسی طرح (فَاِنْ کَانَ لَہ اِخْوَة فَلِاُمِّہِ السُّدُسِ) (النساء:١١) میں 'اِخْوَة' جمع سے مراد کم ازکم دو ہیں۔ اسی طرح (وَدَاودَ وَسُلَیْمٰنَ اِذْ یَحْکُمٰنِ فِی الْحَرْثِ ...وَکُنَّا لِحُکْمِھِمْ شٰھِدِیْنَ) (الانبیاء) میں 'ھُمْ' ضمیر سے مراد دو ہیں ۔

ماضی کا اطلاق مستقبل پر ہو
تا کہ وقوع ثابت اور یقینی ہومثلاً
(اَتٰی اَمْرُ اللّٰہِ) (النحل:١)
''اللہ کا حکم آئے گا''۔
اس آیت میں 'اَمْرُ اللّٰہِ' سے مرادقیامت ہے اور 'اَتٰی' سے مراد 'یَاْتِیْ ' ہے۔

اسی طرح (وَنُفِخَ فِی الصُّوْرِ فَصَعِقَ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَمَنْ فِی الْاَرْضِ) (الزمر:٦٨) اور (وَاِذْ قَالَ اللّٰہُ یٰعِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ ئَ اَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ) (المائدة:١١٦) اور (وَبَرَزُوْا لِلّٰہِ جَمِیْعًا)(ابراھیم:٢١) اور (وَنَادٰی اَصْحٰبُ الْاَعْرَافِ) (الاعراف:٤٨) بھی اسی نوع کی مثالیں ہیں ۔

مستقبل کا اطلاق ماضی پر ہو
تا کہ دوام اور استمرار کا فائدہ دے مثلاً
(وَاتَّبَعُوْا مَا تَتْلُوا الشَّیٰطِیْنُ عَلٰی مُلْکِ سُلَیْمٰنَ) (البقرة:١٠٢)
''اور انہوں نے پیروی کی اس کی جو کہ شیاطین حضرت سلیمان کی بادشاہت میں پڑھتے تھے''۔
اس آیت میں ' تَتْلُوْا' مضارع کا صیغہ ماضی کے معنی میں ہے۔

اسی طرح (فَلِمَ تَقْتُلُوْنَ اَنْبِیَاءَ اللّٰہِ) (البقرة:٩١) اور (فَفَرِیْقًا کَذَّبْتُمْ وَفَرِیْقًا تَقْتُلُوْنَ) (البقرة:٨٧) اور (وَیَقُوْلَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَسْتَ مُرْسَلًا)(الرعد:٤٣)بھی اسی کی مثالیں ہیں۔بعض نے (اَتَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ اَنْفُسَکُمْ وَاَنْتُمْ تَتْلُوْنَ الْکِتٰبَ)(البقرة:٤٤) کو بھی اس میں شامل کیا ہے۔

اسم الفاعل کا اطلاق مستقبل پر ہو
حالانکہ اس کا ترجمہ حال کا ہوتا ہے مثلا
(وَاِنَّ الدِّیْنَ لَوَاقِع) (الذّٰریٰت)
''اور بے شک بدلے کا دن واقع ہو گا''۔
اسم مفعول کا اطلاق مستقبل پر ہو
حالانکہ اس کا ترجمہ حال کا ہوتا ہے' مثلاً:
(ذٰلِکَ یَوْم مَجْمُوْع لا لَّہُ النَّاسُ) (ھود:١٠٣)
''یہ دن ہے' اس کے لیے لوگوں کو جمع کیا جائے گا''۔
خبر کا اطلاق طلب پر ہو
مثلاً
(وَالْوَالِدٰتُ یُرْضِعْنَ اَوْلَادَھُنَّ) (البقرة:٢٣٣)
''اور مائیں اپنے بچوں کو دودھ پلائیں''۔
اس آیت میں 'یُرْضِعْنَ' مضارع کا صیغہ امر کے معنی میں ہے۔

اسی طرح (وَالْمُطَلَّقٰتُ یَتَرَبَّصْنَ) (البقرة:٢٢٨) اور(وَمَا تُنْفِقُوْنَ اِلاَّ ابْتِغَآءَ وَجْہِ اللّٰہِ) (البقرة:٢٧٢)بھی اس کی مثالیں ہیں۔ بعض علماء نے (لَا یَمَسُّہ اِلاَّ الْمُطَّھَّرُوْنَ) (الواقعة) کو بھی اس میں شامل کیاہے۔ اور (وَاِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَ بَنِیْ اِسْرَآئِیْلَ لاَ تَعْبُدُوْنَ) (البقرة:٨٣)بھی اسی کی مثال ہے ۔

طلب کا اطلاق خبر پر ہو
مثلاً
( اِتَّبِعُوْا سَبِیْلَنَا وَلْنَحْمِلْ خَطٰیٰکُمْ) (العنکبوت:١٢)
''تم ہمارے راستے کی پیروی کرو' ہم تمہارے گناہ اٹھا لیں گے''۔
اس آیت میں 'وَلْنَحْمِلْ' طلب کا صیغہ خبرکے معنی میں ہے۔ اس کی دلیل( وَاِنَّھُمْ لَکٰذِبُوْنَ) (العنکبوت:١٢) ہے کیونکہ 'کَذب' خبر میں ہی ہوتا ہے۔ اسی طرح (فَلْیَمْدُدْ لَہُ الرَّحْمٰنُ مَدًّا) (مریم:٧٥) میں بھی طلب بمعنی خبر ہے۔ بعض علماء نے (لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ یَغْفِرُ اللّٰہُ لَکُمْ) (یوسف:٩٢) کو بھی اس میں شمار کیا ہے ۔

ندا کو تعجب کے موقع پر رکھنا
مثلا
(یٰحَسْرَةً عَلَی الْعِبَادِ) (یٰس:٣٠)
" ہائے افسوس، بندوں پر''
ندا اشخاص کی ہوتی ہے اور حسرت کی نہیں ہو سکتی' اس لیے یہ ندا نہیں، تعجب ہے۔اس آیت کے بارے میں فراء نے کہا ہے کہ اس کا معنی ہے ' فیا لھا حسرة'۔

جمع قلت کا اطلاق جمع کثرت پر ہو
مثلاً
(وَھُمْ فِی الْغُرُفٰتِ اٰمِنُوْنَ) (سبا)
''اور وہ لوگ بالا خانوں میں امن والے ہوں گے''۔
اس آیت میں 'غُرُفَاتٍ' جمع قلت ہے اور جمع قلت وہ ہوتی ہے جو کہ تین سے لے کر دس تک بولی جائے۔ (ھُمْ دَرَجٰت عِنْدَ اللّٰہِ) (آل'عمران:١٦٣) اور (اَللّٰہُ یَتَوَفَّی الْاَنْفُسَ) (الزمر:٤٢) اور (اَیَّامًا مَّعْدُوْدٰتٍ) (البقرة:١٨٤) بھی اس کی مثالیں ہیں' کیونکہ 'دَرَجَات' اور 'اَنْفُس' اور 'مَعْدُوْدَاتٍ' جمع قلت ہیں لیکن ان سے مراد کثرت ہے۔

جمع قلت پر جمع کثرت کا اطلاق
مثلاً
(وَالْمُطَلَّقٰتُ یَتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِھِنَّ ثَلٰثَةَ قُرُوْء) (البقرة :٢٢٨)
''اور مطلقہ عورتیں اپنے آپ کوتین حیض تک روکے رکھیں ''۔
اس آیت میں' قُرُوْء' جمع کثرت ہے' حالانکہ بات تین حیض کی ہو رہی ہے اور تین حیض جمع قلت ہے۔

اسم مؤنث کو مذکر بنانا
مثلاً
(فَمَنْ جَآئَہ مَوْعِظَة مِّنْ رَّبِّہ) (البقرة :٢٧٥)
''پس جس کے پاس آگئی اس کے ربّ کی طرف سے کوئی نصیحت''۔
اس آیت میں 'مَوْعِظَة' مؤنث کو فعل 'جَاءَ' کے ساتھ مذکر بنایا گیاہے۔

(وَاَحْیَیْنَا بِہ بَلْدَةً مَّیْتًا) (ق:١١) میں 'مَیْتًا ' اور ( فَلَمَّا رَاَ الشَّمْشَ بَازِغَةً قَالَ ھٰذَا رَبِّیْ) (الانعام:٧٨) میں 'ھٰذَا' اور (اِنَّ رَحْمَةَ اللّٰہِ قَرِیْب مِّنَ الْمُحْسِنِیْنَ)(الاعراف) میں 'قَرِیْب' بھی اس کی مثالیں ہیں ۔

مذکر کو مؤنث بنانا
مثلاً
(اَلَّذِیْنَ یَرِثُوْنَ الْفِرْدَوْسَ ھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ) (المؤمنون)
''جو لوگ (جنت) فردوس کے وارث بنیں گے وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے''۔
اس آیت میں ' اَلْفِرْدَوْس' مذکر کو 'ھا' ضمیر کے ساتھ مؤنث بنایا گیا ہے۔ اسی طرح (مَنْ جَآءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَہ عَشْرُ اَمْثَالِھَا) (الانعام:١٦٠) میں 'عشر' کو مذکر لایا گیا حالانکہ قواعد کے مطابق اس کو 'عشرة' ہونا چاہیے کیونکہ 'امثال' مذکر ہے ۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,551
پوائنٹ
641
تغلیب
یعنی ایک شے کو اس کے غیر کا حکم دینا
یا دو اَمروں میں ایک امرکو دوسرے پر ترجیح دینا
یا ایک ہی لفظ کاراجح اور مرجح دونوں پر معا ً اطلاق کرنا۔ اس طرح گویا دو مختلف چیزوں کو دو متفق اشیاء کے قائم مقام کیا گیا ہو مثلاً
(وَلِکُلٍّ دَرَجٰت ) (الانعام:١٣٢)
''اور ہر ایک کے لیے درجات ہیں''۔
اس آیت میں کافر اور مؤمن دونوں کے لیے 'درجات' کالفظ استعمال کیا گیا ہے حالانکہ 'درجات' کا لفظ بلندی کے لیے بولا جاتا ہے اور پستی کے لیے 'درکات' کالفظ ہے لیکن یہاں تغلیباً 'درجات' کالفظ کفار کے لیے بھی استعمال ہواہے۔

اسی طرح (وَکَانَتْ مِنَ الْقٰنِتِیْنَ) (التحریم:١٢) اور (کَانَتْ مِنَ الْغٰبِرِیْنَ) (العنکبوت:٣٢) بھی اسی کی مثالیں ہیں۔ اسی طرح (بَلْ اَنْتُمْ قَوْم تَجْھَلُوْنَ) (النمل) اور (وَلِلّٰہِ یَسْجُدُ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ) (الرعد:١٥) اور ( اَوْ لَتَعُوْدُنَّ فِیْ مِلَّتِنَا) (الاعراف:٨٨) اور (اِنْ عُدْنَا فِیْ مِلَّتِکُمْ)(الاعراف:٨٩) اور (فَسَجَدَ الْمَلٰئِکَةُ کُلُّھُمْ اَجْمَعُوْنَ اِلاَّ اِبْلِیْسَ) (الحجر:٣٠'٣١) بھی اس کی مثالیں ہیں۔ اسی طرح (یٰلَیْتَ بَیْنِیْ وَبَیْنَکَ بُعْدَ الْمَشْرِقَیْنِ) (الزخرف:٣٨) میں مغرب کو مشرق اس لیے کہا کہ وہ زیادہ مشہور ہے۔

تضمین
یعنی ایک شے کو دوسری شے کے معنی عطاکیے جائیں۔ یہ حروف' اسماء اور افعال میں ہوتی ہے۔اگر ایک فعل دوسرے فعل کے معنی کو متضمن ہو گا تو اس میں ایک ساتھ دونوں فعلوں کے معنی پائیں جائیں گے۔ اس کی صورت یہ ہے کہ کسی فعل کو ایسے حرف کے ساتھ متعدی کیا جائے کہ وہ اس حرف کے ساتھ عادتا ً متعدی ہو کر نہ آتا ہو تو ایسی صورت میں وہ فعل اپنی یا اس حرف کی تاویل کا محتاج ہو گا تا کہ اس کا اس حرف کے ساتھ تعدیہ صحیح ہو سکے۔

اگر فعل کی تاویل کی جائے تو فعل کی تضمین ہو گی اور اگر حرف کی تاویل کی جائے تو حرف کی تضمین ہو گی۔ اس میں اختلاف ہے کہ دونوں میں کس کی تضمین ادنیٰ ہے۔ اہل لغت اور نحویوں کا قول ہے کہ گنجائش حروف میں پائی جاتی ہے' یعنی ان کی تضمین کر لی جائے' جبکہ محققین کا قول ہے کہ فعل میں توسع ہے لہٰذا اس کی تضمین کی جائے گی' کیونکہ فعل میں تضمین کثرت سے پائی جاتی ہے۔ تضمین کی مثال درج ذیل ہے:
(عَیْنًا یَّشْرَبُ بِھَا عِبَادُ اللّٰہِ) (الدھر:٦)
''ایک چشمہ ہے جس سے اللہ کے بندے پیئں گے''۔
فعل 'یَشْرَبُ' کا تعدیہ ' مِن' کے ساتھ ہوتا ہے جبکہ اس آیت میں یہ حرف 'باء' کے ساتھ متعدی اس اعتبار سے ہو گا کہ اس کو 'یتلذذ' یا 'یروی' کے معنی میں لیا جائے کیونکہ یہ دونوں 'باء' کے ساتھ متعدی ہو جاتے ہیں یا پھر حرف 'باء' کو حرف 'من'کے معنی میں متضمن کیا جائے گا۔

اسی طرح (اُحِلَّ لَکُمْ لَیْلَةَ الصِّیَامِ الرَّفَثُ اِلٰی نِسَآئِکُمْ) (البقرة:١٨٧) میں 'الرَّفَثُ' کو 'اِلٰی' کے ساتھ متعدی اس وقت تک نہیں کیا جا سکتا جب تک اس کو 'افضاء' کے معنی میں نہ لیا جائے۔
اسماء میں تضمین یہ ہے کہ دونوں اسموں کے معنی کا ایک ساتھ فائدہ دینے کے لیے ایک اسم دوسرے اسم کے معنی کو متضمن ہو' مثلاً (حَقِیْق عَلٰی اَنْ لاَّ اَقُوْلَ عَلَی اللّٰہِ اِلاَّ الْحَقَّ) (الاعراف:١٠٥) میں 'حَقِیْق' حریص کے معنی کو متضمن ہے'یہ ذہن میں رہے کہ لفظ کی وضع حقیقت اور مجاز دونوں کے واسطے ایک ساتھ نہیں ہوئی لہٰذا ان دونوں کو ایک ساتھ جمع کرنا بھی مجاز ہی ہے۔

اس کے علاوہ بعض علماء نے مجاز کی بعض دوسری اقسام بھی بیان کی ہیں' مثلاً حروفِ جر کا استعمال ان کے غیر حقیقی معنوں میں اور غیر وجوب کے لیے صیغہ افعل اور غیر تحریم کے لیے صیغہ لَا تَفْعَل ْ اور ادواتِ تمنی' ترجی' نداء کا استعمال ان کے ما سوا امور کے لیے اور ادواتِ استفہام کا استعمال غیر تصور اور تصدیق کے لیے وغیرہ۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,551
پوائنٹ
641
حقیقت و مجاز کی بعض اختلافی اقسام
چھ اقسام ایسی ہیں کہ ان کے حقیقت یا مجاز ہونے میں علماء کے درمیان اختلاف ہے۔ یہ اقسام درج ذیل ہیں :
١) حذف
یہ مجاز کی ایک معروف قسم ہے۔ بعض علماء نے اس کے مجاز ہونے کا انکار کیا ہے کیونکہ مجاز کی تعریف ہے کہ کسی لفظ کو اس کے موضوع لہ معنی (یعنی جس کے لیے وہ وضع کیا گیا ہے) کے علاوہ کسی اور معنی میں استعمال کرنا جبکہ حذف میں ایسا نہیں ہوتا۔
علامہ ابن عطیہ نے کہا ہے کہ مضاف کا حذف عین مجاز ہے جبکہ ہر ایک حذف مجاز نہیں ہوتا۔

اسی طرح فراء کا کہنا ہے کہ حذف کی چار اقسام ہیں :
پہلی قسم یہ کہ جس پر لفظ اور اس کے معنی کی صحت 'من حیث الاسناد' موقوف ہو مثلاً: (وَسْئَلِ الْقَرْیَةَ) (یوسف:٨٢) میں 'اَھْل' محذوف ہے کیونکہ 'قَرْیَة' کی طر ف سوال کی نسبت کرنا صحیح نہیں ہے' بلکہ یہاں پر سوال کی نسبت محذوف 'اھل' کی طرف ہوگی۔ حذف کی صرف اسی قسم کو ابن عطیہ مجاز کہتے ہیں۔
امام زنجانی نے لکھا ہے کہ حذف اس وقت مجاز ہو گا جب کہ اس سے کوئی حکم بدل گیا ہو' ورنہ اگر کسی جگہ حذف سے حکم تبدیل نہ ہو تو یہ حذف مجاز نہ ہو گا۔
اما م قزوینی نے لکھا ہے جب حذف کی وجہ سے کلمہ کا اعراب تبدیل ہو جائے تو وہ مجاز ہو گا اور اگر حذف سے کلمہ کا اعراب تبدیل نہ ہو تو وہ مجاز نہ ہو گا۔

٢) تاکید
بہت سے علماء نے تاکید کو مجاز کہا ہے' جبکہ امام سیوطی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ صحیح رائے یہی ہے کہ یہ حقیقت ہے۔

٣) تشبیہ:
علماء کی ایک جماعت نے اسے مجاز کہا ہے جبکہ امام سیوطی کا کہنا ہے کہ صحیح رائے کے مطابق یہ حقیقت ہے۔ شیخ عزا لدین کا کہنا ہے کہ اگر تشبیہ کسی حرف کے ساتھ ہو تو یہ حقیقت ہو گی اور اگر حرف تشبیہ محذوف ہوتو یہ مجاز ہو گا کیونکہ حذف مجاز کی ایک قسم ہے۔

٤) کنایہ
کنایہ سے مرادیہ ہے کہ کوئی لفظ بول کر اس کا لازم معنی مرادلیا جائے' مثلاً (اَوْ جَآءَ اَحَد مِّنْکُمْ مِّنَ الْغَائِط)(النساء:٤٣) میں 'اَلْغَائِظِ' کا لفظ بیت الخلاء کے لیے کنایہ ہے۔ اس کے بارے میں چار اقوال ہیں:
پہلا قول یہ ہے کہ یہ حقیقت ہے۔ ابن عبد السلام رحمہ اللہ کا یہی قول ہے۔
دوسرا قول یہ ہے کہ یہ مجاز ہے ۔
تیسرا قول یہ ہے کہ یہ نہ حقیقت ہے نہ مجاز۔
چوتھا قول امام سبکی کا ہے کہ کنایہ بعض اوقات حقیقت ہوتا ہے اور بعض اوقات مجاز۔

٥) تقدیم و تأخیر
علماء کی ایک جماعت نے کلام میں تقدیم و تأخیر( مثلاً مفعول کا مقدم ہو جانا یا فاعل کا مؤخر ہونا وغیرہ ) کو بھی مجاز کہا ہے۔ لیکن اما م زرکشی رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ صحیح یہ ہے کہ یہ مجاز کی قسم نہیں ہے۔

٦) التفات
التفات کا معنی ہے کسی کلام کو ایک اسلوب سے کسی دوسرے اسلوب کی طرف نقل کر دینا'مثلاً تکلم سے خطاب کی طرف ملتفت ہونا۔ امام سبکی نے لکھا ہے کہ میں نے کسی شخص کو بھی نہیں دیکھا کہ جس نے 'التفات' کے حقیقت یا مجاز ہونے کی نسبت سے کوئی بات کی ہو' لیکن میرے خیال میں یہ حقیقت ہی ہے۔
شرعی اصطلاحات مثلاًصلوٰة' زکوٰة' صیام اورحج وغیرہ کے الفاظ جب قرآن میں استعمال ہوتے ہیں تو ان کے شرعی معنی حقیقی معنی کہلائیں گے' جبکہ ان اصطلاحات کے لغوی معنی مجازی معنی ہوں گے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,551
پوائنٹ
641
مصادر ومراجع
1۔ البرھان فی علوم القرآن، امام زرکشی رحمہ اللہ
2۔ الاتقان فی علوم القرآن، امام سیوطی رحمہ اللہ

نوٹ : یہ مضمون ماہنامہ حکمت قرآن، لاہور کے مارچ، اپریل 2007ء شمارہ جات میں دو اقساط میں شائع ہو چکا ہے۔
 
Top