ایک صیغہ کو دوسرے صیغہ کے مقام پر رکھنا
اس کی کئی اقسام ہیں :
مصدر کا اطلاق فاعل پر ہو' مثلاً:
(فَاِنَّھُمْ عَدُوّ لِّیْ) (الشعراء:٧٧)
''بے شک وہ سب میرے دشمن ہیں''۔
اس آیت مبارکہ میں
'عَدُوّ ' مصدر ہے جس کا معنی 'زیادتی کرنا' ہے جبکہ اس سے مراد فاعل یعنی ' زیادتی کرنے والے' ہے۔
مصدر کا اطلاق مفعول پر ہو
مثلاً
(وَلَا یُحِیْطُوْنَ بِشَیْئٍ مِّنْ عِلْمِہ) (البقرة:٢٥٥)
''اور وہ اللہ تعالیٰ کی معلومات میں سے کسی چیز کا بھی احاطہ نہیں کر سکتے''۔
اس آیت مبارکہ میں 'علم' مصدر ہے جس کامعنی 'جاننا' ہے اور اس سے مراد مفعول یعنی 'معلومات' ہے۔
اسی طرح
(صُنْعَ اللّٰہِ) (النمل:٨٨) میں
'صُنْع' سے مراد مصنوع ہے' اور
( وَجَآءُوْ عَلٰی قَمِیْصِہ بِدَمٍ کَذِبٍ)(یوسف:١٨) میں
'کَذِبٍ' سے مراد
' مَکْذُوْب فِیْہِ' ہے۔
اسم مقول کا اطلاق قول پر ہو
مثلاً
(فَبَرَّاَہُ اللّٰہُ مِمَّا قَالُوْا) (الاحزاب:٦٩)
''پس اللہ تعالیٰ نے حضرت موسٰی کو بری قرار دیا اس سے جوبنو اسرائیل نے کہا''۔
اسمِ بشری کا اطلاق مبشر بہ پر ہو
مثلاً
(بُشْرٰٹکُمُ الْیَوْمَ جَنّٰت) (الحدید:١٢)
''تمہاری خوشخبری آج کے دن باغات ہیں ''۔
اسم ہویٰ کا اطلاق مہوی پر ہو
مثلاً
(وَنَھَی النَّفْسَ عَنِ الْھَوٰی) (النّٰزعٰت)
''اور اس نے روکا اپنے نفس کو خواہش سے ''۔
اسم کا اطلاق مسمی پر ہو
مثلاً
(مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِہ اِلاَّ اَسْمَآء سَمَّیْتُمُوْھَآ) (یوسف:٤٠)
''نہیں تم عبادت کرتے اللہ کے سوا مگرچند ناموں کی جو نام تم نے ان کو دے دیے ہیں''۔
اس آیت میں
'اَسْمَاء' سے مراد مسمیات یعنی معبودان باطلہ ہیں۔ اسی طرح
(سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلٰی) (الاعلٰی) میں بھی
'اِسْمَ' سے مراد مسمی یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔
اسم فاعل کا اطلاق مصدر پرہو
مثلاً
(لَیْسَ لِوَقْعَتِھَا کَاذِبَة) (الواقعة)
''نہیں ہے اس قیامت کے واقعے ہونے کو کوئی جھٹلانے والی''۔
اس آیت مبارکہ میں اسم فاعل
'کَاذِبَة'سے مراد مصدر
'تکذیب' ہے۔
اسم مفعول کا اطلاق مصدر پر ہو
مثلاً
(بِاَٹیِّکُمُ الْمَفْتُوْنُ) ( القلم)
''تم میں سے کون آزمایا گیا (یعنی آزمائش) ہے؟''
اس آیت میں اسم مفعول
'اَلْمَفْتُوْنُ'سے مراد
' فِتْنَة' ہے جبکہ 'با' زائدہ ہے۔
اسم فاعل کا اطلاق اسم مفعول پرہو
مثلاً
( خُلِقَ مِنْ مَّآء دَافِقٍ) (الطارق)
''وہ (یعنی انسان) پیدا کیا گیا ہے اچھالے گئے پانی سے ''۔
اس آیت میں اسم فاعل
'دَافِقٍ' سے مراداسم مفعول
'مَدْفُوْقٍ' ہے' اسی طرح
(جَعَلْنَا حَرَمًا اٰمِنًا) (العنکبوت:٦٧) میں
'اٰمِنًا'سے مراد
' مَاْمُوْنًا فِیْہِ' ہے ۔اسی طرح
(لَا عَاصِمَ الْیَوْمَ مِنْ اَمْرِ اللّٰہِ اِلاَّ مَنْ رَّحِمَ)(ھود:٤٣) میں
'عَاصم'سے مراد
' مَعْصُوْم' ہے۔
اسم مفعول کا اطلاق اسم فاعل پر ہو
مثلاً
(اِنَّہ کَانَ وَعْدُہ مَاْتِیًّا) (مریم)
''بے شک وہ اس کا وعدہ آنے والا ہے ''۔
اس آیت میں اسم مفعول
'مَاْتِیًّا 'سے مراد
'اٰتِیًا' ہے۔ اسی طرح
(حِجَابًا مَّسْتُوْرًا) (الاسراء:٤٥) میں
'مَسْتُوْرًا' سے مراد
'سَاتِرًا' ہے ۔
اسم فعیل کا اطلاق اسم مفعول پر ہو
مثلا
(وَکَانَ الْکَافِرُ عَلٰی رَبِّہ ظَھِیْرًا) (الفرقان)
''اور کافر اپنے ربّ کے بالمقابل مدد کیا گیاہے ''۔
اس آیت میں
'ظَھِیْر' اسم مفعول کے معنی میں ہے' یعنی کافر اپنے ربّ کے بالمقابل مددکیا گیا ہے شیطان کی طرف سے ۔
مفرد کا اطلاق مثنیٰ پر ہو
مثلاً
(وَاللّٰہُ وَرَسُوْلُہ اَحَقُّ اَنْ یُّرْضُوْہُ) (التوبة :٦٢)
''اور اللہ اور اس کا رسول(ۖ ) زیادہ حق دار ہیں کہ وہ اس کو راضی کریں''۔
اس آیت میں
'احق' مفرد ہے جبکہ اس سے مراد مثنیٰ یعنی اللہ اور اس کا رسولۖہیں۔
مفرد کا اطلاق جمع پرہو
مثلاً
(اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ) (العصر)
''بے شک تمام انسان البتہ خسارے میں ہیں''۔
اس آیت میں 'الانسان'سے مراد تمام انسان ہیں ۔
مثنی کا اطلاق مفرد پرہو
مثلاً
(اَلْقِیَا فِیْ جَھَنَّمَ) (ق:٢٤)
''تم ڈال دو (اس کو ) جہنم میں''۔
اس آیت میں
'اَلْقِیَا 'سے مراد
'اَلْقِ' ہے۔
اسی طرح
(یَخْرُجُ مِنْھُمَا اللُّؤْلُؤُ وَالْمَرْجَانُ) (الرحمٰن) میں بعض علماء کے نزدیک
'مِنْھُمَا' یعنی دریائے شیریں اور دریائے شورسے مراد
'منہ' یعنی دریائے شور ہے کیونکہ ان علماء کے نزدیک دونوں قسم کے موتی ایک ہی دریا (شور) سے نکلتے ہیں۔ اسی طرح
(جَعَلَ الْقَمَرَ فِیْھِنَّ نُوْرًا) (نوح:١٦) میں بعض علماء کا کہنا ہے کہ
'فِیْھِنَّ' سے مراد
'فِیْ اِحْدَاھُنَّ' ہے۔اسی طرح
(نَسِیَا حُوْتَھُمَا)(الکہف:٦١) میں بھی
'نَسِیَا' سے مراد ایک ہی ہے اگرچہ صیغہ تثنیہ کا ہے' کیونکہ بھولنے والے صرف حضرت یوشع تھے۔ فراء نے
(وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہ جَنَّتٰنِ) (الرحمٰن) کو بھی اسی نوع میں شمار کیا ہے۔
مثنیٰ کا اطلاق جمع پرہو
مثلاً
(ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ کَرَّتَیْنِ) (الملک:٤)
''پھر تم لوٹاؤ (اپنی )نگاہ کو کئی بار''۔
اس آیت میں
'کَرَّتینِ'سے مراد
'کرّات' ہے کیونکہ صرف دو دفعہ سے نگاہ نہیں تھکتی۔ بعض علماء نے
(اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ) (البقرة:٢٢٩) کو بھی اسی نوع میں شمار کیا ہے۔
جمع کا اطلاق مفرد پرہو
مثلاً
(قَالَ رَبِّ ارْجِعُوْنِ) (المؤمنون)
''وہ کہے گا اے میرے ربّ مجھے لوٹائیں''۔
اس آیت میں
'ارْجِعُوْا ' سے مراد
'اِرْجِعْ' ہے۔
اسی طرح
(فَنَادَتْہُ الْمَلٰئِکَةُ) (آل عمران:٣٩) بھی اسی کی مثال ہے۔ اسی طرح
(یُنَزِّلُ الْمَلٰئِکَةُ بِالرُّوْحِ) (النحل:٢) کو بھی بعض نے اس میں شمار کیا ہے۔ اسی طرح
(وَاِذْ قَتَلْتُمْ نَفْسًا فَادّٰرَاْتُمْ) (البقرة:٧٢) بھی اسی کی مثال ہے' کیونکہ قاتل ایک تھا۔ ابن فارس نے
(بِمَ یَرْجِعُ الْمُرْسَلُوْنَ) (النمل) کو بھی اس میں شمار کیا ہے' کیونکہ بعد میں حضر ت سلیمان کا قول
(اِرْجِعْ اِلَیْھِمْ) (النمل:٣٧) نقل ہوا ہے۔ لیکن یہ محل نظر ہے کیونکہ حضرت سلیمان کا یہ خطاب وفد کے سربراہ سے بھی ہو سکتا ہے۔
جمع کا اطلاق مثنیٰ پرہو
مثلاً
( قَالَتَا اَتَیْنَا طَآئِعِیْنَ) (حٰم السجدة)
''ان دونوں نے کہا ہم اطاعت کرتے ہوئے آئے ہیں''۔
اس آیت میں
'طَائِعِیْنَ' جمع سے مراد
'طَائِعَیْنِ' تثنیہ ہے۔
اسی طرح
(قَالُوْا لَا تَخَفْ خَصْمٰنِ بَغٰی بَعْضُنَا عَلٰی بَعْضٍ) (ص:٢٢) میں
'بَعْضُنَا' دو کے لیے ہے ۔اسی طرح
(فَاِنْ کَانَ لَہ اِخْوَة فَلِاُمِّہِ السُّدُسِ) (النساء:١١) میں
'اِخْوَة' جمع سے مراد کم ازکم دو ہیں۔ اسی طرح
(وَدَاودَ وَسُلَیْمٰنَ اِذْ یَحْکُمٰنِ فِی الْحَرْثِ ...وَکُنَّا لِحُکْمِھِمْ شٰھِدِیْنَ) (الانبیاء) میں
'ھُمْ' ضمیر سے مراد دو ہیں ۔
ماضی کا اطلاق مستقبل پر ہو
تا کہ وقوع ثابت اور یقینی ہومثلاً
(اَتٰی اَمْرُ اللّٰہِ) (النحل:١)
اس آیت میں
'اَمْرُ اللّٰہِ' سے مرادقیامت ہے اور
'اَتٰی' سے مراد
'یَاْتِیْ ' ہے۔
اسی طرح
(وَنُفِخَ فِی الصُّوْرِ فَصَعِقَ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَمَنْ فِی الْاَرْضِ) (الزمر:٦٨) اور
(وَاِذْ قَالَ اللّٰہُ یٰعِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ ئَ اَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ) (المائدة:١١٦) اور
(وَبَرَزُوْا لِلّٰہِ جَمِیْعًا)(ابراھیم:٢١) اور
(وَنَادٰی اَصْحٰبُ الْاَعْرَافِ) (الاعراف:٤٨) بھی اسی نوع کی مثالیں ہیں ۔
مستقبل کا اطلاق ماضی پر ہو
تا کہ دوام اور استمرار کا فائدہ دے مثلاً
(وَاتَّبَعُوْا مَا تَتْلُوا الشَّیٰطِیْنُ عَلٰی مُلْکِ سُلَیْمٰنَ) (البقرة:١٠٢)
''اور انہوں نے پیروی کی اس کی جو کہ شیاطین حضرت سلیمان کی بادشاہت میں پڑھتے تھے''۔
اس آیت میں
' تَتْلُوْا' مضارع کا صیغہ ماضی کے معنی میں ہے۔
اسی طرح
(فَلِمَ تَقْتُلُوْنَ اَنْبِیَاءَ اللّٰہِ) (البقرة:٩١) اور
(فَفَرِیْقًا کَذَّبْتُمْ وَفَرِیْقًا تَقْتُلُوْنَ) (البقرة:٨٧) اور
(وَیَقُوْلَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَسْتَ مُرْسَلًا)(الرعد:٤٣)بھی اسی کی مثالیں ہیں۔بعض نے
(اَتَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ اَنْفُسَکُمْ وَاَنْتُمْ تَتْلُوْنَ الْکِتٰبَ)(البقرة:٤٤) کو بھی اس میں شامل کیا ہے۔
اسم الفاعل کا اطلاق مستقبل پر ہو
حالانکہ اس کا ترجمہ حال کا ہوتا ہے مثلا
(وَاِنَّ الدِّیْنَ لَوَاقِع) (الذّٰریٰت)
''اور بے شک بدلے کا دن واقع ہو گا''۔
اسم مفعول کا اطلاق مستقبل پر ہو
حالانکہ اس کا ترجمہ حال کا ہوتا ہے' مثلاً:
(ذٰلِکَ یَوْم مَجْمُوْع لا لَّہُ النَّاسُ) (ھود:١٠٣)
''یہ دن ہے' اس کے لیے لوگوں کو جمع کیا جائے گا''۔
خبر کا اطلاق طلب پر ہو
مثلاً
(وَالْوَالِدٰتُ یُرْضِعْنَ اَوْلَادَھُنَّ) (البقرة:٢٣٣)
''اور مائیں اپنے بچوں کو دودھ پلائیں''۔
اس آیت میں
'یُرْضِعْنَ' مضارع کا صیغہ امر کے معنی میں ہے۔
اسی طرح (وَالْمُطَلَّقٰتُ یَتَرَبَّصْنَ) (البقرة:٢٢٨) اور
(وَمَا تُنْفِقُوْنَ اِلاَّ ابْتِغَآءَ وَجْہِ اللّٰہِ) (البقرة:٢٧٢)بھی اس کی مثالیں ہیں۔ بعض علماء نے
(لَا یَمَسُّہ اِلاَّ الْمُطَّھَّرُوْنَ) (الواقعة) کو بھی اس میں شامل کیاہے۔ اور
(وَاِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَ بَنِیْ اِسْرَآئِیْلَ لاَ تَعْبُدُوْنَ) (البقرة:٨٣)بھی اسی کی مثال ہے ۔
طلب کا اطلاق خبر پر ہو
مثلاً
( اِتَّبِعُوْا سَبِیْلَنَا وَلْنَحْمِلْ خَطٰیٰکُمْ) (العنکبوت:١٢)
''تم ہمارے راستے کی پیروی کرو' ہم تمہارے گناہ اٹھا لیں گے''۔
اس آیت میں
'وَلْنَحْمِلْ' طلب کا صیغہ خبرکے معنی میں ہے۔ اس کی دلیل
( وَاِنَّھُمْ لَکٰذِبُوْنَ) (العنکبوت:١٢) ہے کیونکہ
'کَذب' خبر میں ہی ہوتا ہے۔ اسی طرح
(فَلْیَمْدُدْ لَہُ الرَّحْمٰنُ مَدًّا) (مریم:٧٥) میں بھی طلب بمعنی خبر ہے۔ بعض علماء نے
(لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ یَغْفِرُ اللّٰہُ لَکُمْ) (یوسف:٩٢) کو بھی اس میں شمار کیا ہے ۔
ندا کو تعجب کے موقع پر رکھنا
مثلا
(یٰحَسْرَةً عَلَی الْعِبَادِ) (یٰس:٣٠)
ندا اشخاص کی ہوتی ہے اور حسرت کی نہیں ہو سکتی' اس لیے یہ ندا نہیں، تعجب ہے۔اس آیت کے بارے میں فراء نے کہا ہے کہ اس کا معنی ہے
' فیا لھا حسرة'۔
جمع قلت کا اطلاق جمع کثرت پر ہو
مثلاً
(وَھُمْ فِی الْغُرُفٰتِ اٰمِنُوْنَ) (سبا)
''اور وہ لوگ بالا خانوں میں امن والے ہوں گے''۔
اس آیت میں
'غُرُفَاتٍ' جمع قلت ہے اور جمع قلت وہ ہوتی ہے جو کہ تین سے لے کر دس تک بولی جائے۔
(ھُمْ دَرَجٰت عِنْدَ اللّٰہِ) (آل'عمران:١٦٣) اور
(اَللّٰہُ یَتَوَفَّی الْاَنْفُسَ) (الزمر:٤٢) اور
(اَیَّامًا مَّعْدُوْدٰتٍ) (البقرة:١٨٤) بھی اس کی مثالیں ہیں' کیونکہ
'دَرَجَات' اور
'اَنْفُس' اور
'مَعْدُوْدَاتٍ' جمع قلت ہیں لیکن ان سے مراد کثرت ہے۔
جمع قلت پر جمع کثرت کا اطلاق
مثلاً
(وَالْمُطَلَّقٰتُ یَتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِھِنَّ ثَلٰثَةَ قُرُوْء) (البقرة :٢٢٨)
''اور مطلقہ عورتیں اپنے آپ کوتین حیض تک روکے رکھیں ''۔
اس آیت میں' قُرُوْء' جمع کثرت ہے' حالانکہ بات تین حیض کی ہو رہی ہے اور تین حیض جمع قلت ہے۔
اسم مؤنث کو مذکر بنانا
مثلاً
(فَمَنْ جَآئَہ مَوْعِظَة مِّنْ رَّبِّہ) (البقرة :٢٧٥)
''پس جس کے پاس آگئی اس کے ربّ کی طرف سے کوئی نصیحت''۔
اس آیت میں
'مَوْعِظَة' مؤنث کو فعل
'جَاءَ' کے ساتھ مذکر بنایا گیاہے۔
(وَاَحْیَیْنَا بِہ بَلْدَةً مَّیْتًا) (ق:١١) میں
'مَیْتًا ' اور
( فَلَمَّا رَاَ الشَّمْشَ بَازِغَةً قَالَ ھٰذَا رَبِّیْ) (الانعام:٧٨) میں
'ھٰذَا' اور
(اِنَّ رَحْمَةَ اللّٰہِ قَرِیْب مِّنَ الْمُحْسِنِیْنَ)(الاعراف) میں
'قَرِیْب' بھی اس کی مثالیں ہیں ۔
مذکر کو مؤنث بنانا
مثلاً
(اَلَّذِیْنَ یَرِثُوْنَ الْفِرْدَوْسَ ھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ) (المؤمنون)
''جو لوگ (جنت) فردوس کے وارث بنیں گے وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے''۔
اس آیت میں
' اَلْفِرْدَوْس' مذکر کو
'ھا' ضمیر کے ساتھ مؤنث بنایا گیا ہے۔ اسی طرح
(مَنْ جَآءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَہ عَشْرُ اَمْثَالِھَا) (الانعام:١٦٠) میں
'عشر' کو مذکر لایا گیا حالانکہ قواعد کے مطابق اس کو
'عشرة' ہونا چاہیے کیونکہ
'امثال' مذکر ہے ۔