- شمولیت
- مارچ 08، 2011
- پیغامات
- 2,521
- ری ایکشن اسکور
- 11,552
- پوائنٹ
- 641
حقیقت و مجازِ قرآن
قرآن میں مجاز
اس بارے میں علماء میں سے کسی کا اختلاف نہیں ہے کہ قرآن میں حقیقت کا استعمال ہوا ہے اور حقیقت کی تعریف یہ ہے:
وھی کل لفظ بقی علی موضوعہ و لا تقدیم فیہ و لا تاخیر
روز مرہ زندگی میں اکثر کلام حقیقت پر مشتمل ہو تا ہے۔جہاں تک مجاز کا معاملہ ہے تو جمہور علماء قرآن میں مجاز کے وقوع کے قائل ہیں' اگرچہ بعض علماء نے قرآن میں مجاز کا انکار کیا ہے 'مثلاً 'اہل ظواہر 'شوافع میں' ابن القاص' اور مالکیہ میں 'ابن خویزمنداد' قرآن میں مجاز کے قائل نہیں ہیں۔ ان علماء کا اعتراض یہ ہے کہ مجاز جھوٹ کی ایک قسم ہے اور قرآن جھوٹ سے منزّہ ہے۔ ان کا دوسرا اعتراض یہ ہے کہ متکلم مجاز کو اس وقت اختیار کرتا ہے جب اس کے لیے حقیقت کا دائرہ تنگ ہو جائے اور اللہ کے لیے یہ محال ہے کہ اس پر حقیقت کا دائرہ تنگ ہو۔ لیکن ان حضرات کا یہ شبہ حقیقت پر مبنی نہیں ہے 'کیونکہ اگر قرآن میں مجاز نہ رہے تو اس کی ایک بہت بڑی خوبی باقی نہ رہے گی' کیونکہ علم بلاغت کے ماہرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ کلام میں حقیقت کی نسبت مجاز کے استعمال میں زیادہ خوبی ہے اور اگر قرآن کو مجاز سے خالی مان لیا جائے تو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ قرآن توکید' حذف اور تصریف قصص سے بھی خالی ہے۔ امام عزبن عبد السلام رحمہ اللہ نے اس موضوع پر ایک مستقل کتاب لکھی ہے اور امام سیوطی رحمہ اللہ نے اس کتاب کا خلاصہ بہت سے اضافوں کے ساتھ ایک علیحدہ کتاب میں بیان کر دیا ہے' جس کا نام انہوں نے 'مجاز الفرسان الی مجاز القرآن' رکھا ہے۔''ہر وہ لفظ جو کہ اپنے اس (بنیادی) معنی میں باقی رہے جس کے لیے وہ وضع ہوا ہے اور اس میں کسی قسم کی تقدیم و تاخیر نہ ہو''۔