عمر اثری
سینئر رکن
- شمولیت
- اکتوبر 29، 2015
- پیغامات
- 4,404
- ری ایکشن اسکور
- 1,137
- پوائنٹ
- 412
ہمارے معاشرے میں بہت سارے فتنے عام ہیں. انہیں میں سے ایک اہم فتنہ منکرین حدیث کا بھی ہے.
منکرین حدیث میں بھی کچھ ایسے لوگ ہوتے ہیں جو کہ مطلقا احادیث کی حجیت کا انکار کر دیتے ہیں. کچھ ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو عقل پرست ہوتے ہیں اور جو احادیث عقل کے خلاف ہوتی ہیں انکا انکار کر دیتے ہیں. مزید کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو قرآن واحادیث میں عمدا تعارض پیدا کرنے اور اسکی بنا پر احادیث کا انکار کرنے کی سعی مذموم کرتے ہیں.
حالانکہ قرآن وحدیث کے نصوص میں حقیقتا کوئی تعارض نہیں ہوتا ہے. آئیے اس بات کو ہم دلیل سے سمجھتے ہیں:
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَأَى حُلَّةًسِيَرَاءَ عِنْدَ بَابِ الْمَسْجِدِ، فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَوِ اشْتَرَيْتَ هَذِهِ فَلَبِسْتَهَا يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَلِلْوَفْدِ إِذَا قَدِمُوا عَلَيْكَ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِنَّمَا يَلْبَسُ هَذِهِ مَنْ لَاخَلَاقَ لَهُ فِي الْآخِرَةِ ". ثُمَّ جَاءَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهَا حُلَلٌ فَأَعْطَى عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ مِنْهَا حُلَّةً، فَقَالَ عُمَرُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَسَوْتَنِيهَا وَقَدْ قُلْتَ فِي حُلَّةِ عُطَارِدٍ مَا قُلْتَ. قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِنِّي لَمْ أَكْسُكَهَا لِتَلْبَسَهَا ". فَكَسَاهَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَخًا لَهُ بِمَكَّةَ مُشْرِكًا.
ترجمہ: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے (ریشم کا) دھاری دار جوڑا مسجد نبوی کے دروازے پر بکتا دیکھا تو کہنے لگے یا رسول اللہ! بہتر ہو اگر آپ اسے خرید لیں اور جمعہ کے دن اور وفود جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں تو ان کی ملاقات کے لیے آپ اسے پہنا کریں۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے تو وہی پہن سکتا ہے جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہ ہو۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اسی طرح کے کچھ جوڑے آئے تو اس میں سے ایک جوڑا آپ نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو عطا فرمایا۔ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ مجھے یہ جوڑا پہنا رہے ہیں حالانکہ اس سے پہلے عطارد کے جوڑے کے بارے میں آپ نے کچھ ایسا فرمایا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے اسے تمہیں خود پہننے کے لیے نہیں دیا ہے، چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ نے اسے اپنے ایک مشرک بھائی کو پہنا دیا جو مکے میں رہتا تھا۔
(صحیح بخاری: 886)
اِس حدیث میں غور کریں. آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ریشمی جوڑی کو پہننے سے منع فرمایا اور کہا کہ اسے تو وہی پہن سکتا ہے جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہ ہو. اسکے بعد خود ایک دوسرے موقع پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ كے پاس اسی جیسا جوڑا بھیجا. اب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سوچا کہ پہلے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسکو پہننے سے منع فرمایا اور پھر اسکے بعد خود اسی طرح کا جوڑا میرے پاس بھیجا ہے. آخر ماجرہ کیا ہے؟
ذرا سوچیں! حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کیا کیا؟
کیا انہوں نے سرے سے نص کا ہی رد کر دیا؟؟؟
کیا انہوں نے اپنی عقل سے اس میں کچھ فیصلہ کیا؟؟؟
نہیں، بلکہ وہ سیدھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم كے پاس گئے اور کہا کہ اے اللہ كے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! آپ نے تو ریشمی جوڑے کو پہننے سے منع فرمایا تھا اور اب آپ خود میرے پاس بھیج رہے ہیں؟؟؟
تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے عمر! میں نے تمہیں یہ جوڑا اِس لیے نہیں بھیجا کہ تم اسے پہن لو.
یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول میں تعارض کی مثال تھی. اب آپ غور کریں. کیا واقعی تعارض تھا؟؟؟
نہیں ہرگز نہیں. حقیقت میں کوئی تعارض نہیں تھا.
معلوم ہوا کہ احادیث میں تعارض صرف ظاہری طور پر ہوتا ہے. یہ تعارض حقیقی نہیں ہوتا بلکہ یہ انسان كے فہم کی کمی ہوتی ہے.
قرآن اور حدیث میں ظاہری تعارض کی مثال:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لَيْسَ أَحَدٌ يُحَاسَبُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِلَّا هَلَكَ ". فَقُلْتُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلَيْسَ قَدْ قَالَ اللَّهُ تَعَالَى : { فَأَمَّا مَنْ أُوتِيَ كِتَابَهُ بِيَمِينِهِ } { فَسَوْفَ يُحَاسَبُ حِسَابًا يَسِيرًا } ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِنَّمَا ذَلِكِ الْعَرْضُ، وَلَيْسَ أَحَدٌ يُنَاقَشُ الْحِسَابَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِلَّا عُذِّبَ ".
ترجمہ: جس شخص سے بھی قیامت کے دن حساب لیا گیا پس وہ ہلاک ہوا۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا اللہ تعالیٰ نے خود نہیں فرمایا ہے «فأما من أوتي كتابه بيمينه * فسوف يحاسب حسابا يسيرا» کہ ”پس جس کا نامہ اعمال اس کے دائیں ہاتھ میں دیا گیا تو عنقریب اس سے ایک آسان حساب لیا جائے گا۔“ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ تو صرف پیشی ہو گی۔ (اللہ رب العزت کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ) قیامت کے دن جس کے بھی حساب میں کھود کرید کی گئی اس کو عذاب یقینی ہو گا۔
(صحیح بخاری: 6537)
کتنی واضح اور صریح حدیث ہے جو اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ قرآن وحدیث میں حقیقی تعارض نہیں ہوتا. ہاں ظاہری طور پر تعارض نظر آتا ہے.
لیکن بہت افسوس ہوتا ہے جب کچھ لوگ قرآن وحدیث میں زبردستی تعارض پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں. اور کچھ لوگ تو ایسے ہیں جو اس ظاہری تعارض کی وجہ سے حدیث کو ہی رد کر دیتے ہیں. آخر یہ کس قدر جہالت ہے!....
غور کریں کیا واقعی تعارض تھا؟
اس حدیث سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ اگر ہمیں کوئی بات سمجھ میں نہیں آ رہی ہے تو علماء کی طرف رجوع کرنا چاہیے. نہ کہ اپنی عقل کا غلط استمعال کرتے ہوئے حدیث کا رد کرنا چاہیے.
ذرا سوچئے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کیا رویہ اپنایا؟
جب انہوں نے دیکھا کہ یہ تو اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قول میں تعارض نظر آ رہا ہے تو انہوں نے سوچا کہ یقیناً مجھے سمجھنے میں کچھ غلطی ہو رہی ہوگی. کیونکہ قرآن وحدیث میں حقیقی تعارض نہیں ہو سکتا. اسی لئے انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کیا. اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی انکو جواب دے کر سمجھا دیا.
ہمارا بھی یہی رویہ ہونا چاہئے. جب ہمیں کوئی مسئلہ سمجھ میں نہ آئے یا اس طرح قرآن و حدیث میں باہم تعارض نظر آئے تو علماء کی طرف رجوع کرتے ہوئے اسکی تشریح اور وضاحت پوچھنی چاہیے.
ابن اثر
منکرین حدیث میں بھی کچھ ایسے لوگ ہوتے ہیں جو کہ مطلقا احادیث کی حجیت کا انکار کر دیتے ہیں. کچھ ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو عقل پرست ہوتے ہیں اور جو احادیث عقل کے خلاف ہوتی ہیں انکا انکار کر دیتے ہیں. مزید کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو قرآن واحادیث میں عمدا تعارض پیدا کرنے اور اسکی بنا پر احادیث کا انکار کرنے کی سعی مذموم کرتے ہیں.
حالانکہ قرآن وحدیث کے نصوص میں حقیقتا کوئی تعارض نہیں ہوتا ہے. آئیے اس بات کو ہم دلیل سے سمجھتے ہیں:
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَأَى حُلَّةًسِيَرَاءَ عِنْدَ بَابِ الْمَسْجِدِ، فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَوِ اشْتَرَيْتَ هَذِهِ فَلَبِسْتَهَا يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَلِلْوَفْدِ إِذَا قَدِمُوا عَلَيْكَ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِنَّمَا يَلْبَسُ هَذِهِ مَنْ لَاخَلَاقَ لَهُ فِي الْآخِرَةِ ". ثُمَّ جَاءَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهَا حُلَلٌ فَأَعْطَى عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ مِنْهَا حُلَّةً، فَقَالَ عُمَرُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَسَوْتَنِيهَا وَقَدْ قُلْتَ فِي حُلَّةِ عُطَارِدٍ مَا قُلْتَ. قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِنِّي لَمْ أَكْسُكَهَا لِتَلْبَسَهَا ". فَكَسَاهَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَخًا لَهُ بِمَكَّةَ مُشْرِكًا.
ترجمہ: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے (ریشم کا) دھاری دار جوڑا مسجد نبوی کے دروازے پر بکتا دیکھا تو کہنے لگے یا رسول اللہ! بہتر ہو اگر آپ اسے خرید لیں اور جمعہ کے دن اور وفود جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں تو ان کی ملاقات کے لیے آپ اسے پہنا کریں۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے تو وہی پہن سکتا ہے جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہ ہو۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اسی طرح کے کچھ جوڑے آئے تو اس میں سے ایک جوڑا آپ نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو عطا فرمایا۔ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ مجھے یہ جوڑا پہنا رہے ہیں حالانکہ اس سے پہلے عطارد کے جوڑے کے بارے میں آپ نے کچھ ایسا فرمایا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے اسے تمہیں خود پہننے کے لیے نہیں دیا ہے، چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ نے اسے اپنے ایک مشرک بھائی کو پہنا دیا جو مکے میں رہتا تھا۔
(صحیح بخاری: 886)
اِس حدیث میں غور کریں. آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ریشمی جوڑی کو پہننے سے منع فرمایا اور کہا کہ اسے تو وہی پہن سکتا ہے جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہ ہو. اسکے بعد خود ایک دوسرے موقع پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ كے پاس اسی جیسا جوڑا بھیجا. اب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سوچا کہ پہلے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسکو پہننے سے منع فرمایا اور پھر اسکے بعد خود اسی طرح کا جوڑا میرے پاس بھیجا ہے. آخر ماجرہ کیا ہے؟
ذرا سوچیں! حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کیا کیا؟
کیا انہوں نے سرے سے نص کا ہی رد کر دیا؟؟؟
کیا انہوں نے اپنی عقل سے اس میں کچھ فیصلہ کیا؟؟؟
نہیں، بلکہ وہ سیدھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم كے پاس گئے اور کہا کہ اے اللہ كے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! آپ نے تو ریشمی جوڑے کو پہننے سے منع فرمایا تھا اور اب آپ خود میرے پاس بھیج رہے ہیں؟؟؟
تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے عمر! میں نے تمہیں یہ جوڑا اِس لیے نہیں بھیجا کہ تم اسے پہن لو.
یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول میں تعارض کی مثال تھی. اب آپ غور کریں. کیا واقعی تعارض تھا؟؟؟
نہیں ہرگز نہیں. حقیقت میں کوئی تعارض نہیں تھا.
معلوم ہوا کہ احادیث میں تعارض صرف ظاہری طور پر ہوتا ہے. یہ تعارض حقیقی نہیں ہوتا بلکہ یہ انسان كے فہم کی کمی ہوتی ہے.
قرآن اور حدیث میں ظاہری تعارض کی مثال:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لَيْسَ أَحَدٌ يُحَاسَبُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِلَّا هَلَكَ ". فَقُلْتُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلَيْسَ قَدْ قَالَ اللَّهُ تَعَالَى : { فَأَمَّا مَنْ أُوتِيَ كِتَابَهُ بِيَمِينِهِ } { فَسَوْفَ يُحَاسَبُ حِسَابًا يَسِيرًا } ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِنَّمَا ذَلِكِ الْعَرْضُ، وَلَيْسَ أَحَدٌ يُنَاقَشُ الْحِسَابَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِلَّا عُذِّبَ ".
ترجمہ: جس شخص سے بھی قیامت کے دن حساب لیا گیا پس وہ ہلاک ہوا۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا اللہ تعالیٰ نے خود نہیں فرمایا ہے «فأما من أوتي كتابه بيمينه * فسوف يحاسب حسابا يسيرا» کہ ”پس جس کا نامہ اعمال اس کے دائیں ہاتھ میں دیا گیا تو عنقریب اس سے ایک آسان حساب لیا جائے گا۔“ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ تو صرف پیشی ہو گی۔ (اللہ رب العزت کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ) قیامت کے دن جس کے بھی حساب میں کھود کرید کی گئی اس کو عذاب یقینی ہو گا۔
(صحیح بخاری: 6537)
کتنی واضح اور صریح حدیث ہے جو اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ قرآن وحدیث میں حقیقی تعارض نہیں ہوتا. ہاں ظاہری طور پر تعارض نظر آتا ہے.
لیکن بہت افسوس ہوتا ہے جب کچھ لوگ قرآن وحدیث میں زبردستی تعارض پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں. اور کچھ لوگ تو ایسے ہیں جو اس ظاہری تعارض کی وجہ سے حدیث کو ہی رد کر دیتے ہیں. آخر یہ کس قدر جہالت ہے!....
غور کریں کیا واقعی تعارض تھا؟
اس حدیث سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ اگر ہمیں کوئی بات سمجھ میں نہیں آ رہی ہے تو علماء کی طرف رجوع کرنا چاہیے. نہ کہ اپنی عقل کا غلط استمعال کرتے ہوئے حدیث کا رد کرنا چاہیے.
ذرا سوچئے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کیا رویہ اپنایا؟
جب انہوں نے دیکھا کہ یہ تو اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قول میں تعارض نظر آ رہا ہے تو انہوں نے سوچا کہ یقیناً مجھے سمجھنے میں کچھ غلطی ہو رہی ہوگی. کیونکہ قرآن وحدیث میں حقیقی تعارض نہیں ہو سکتا. اسی لئے انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کیا. اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی انکو جواب دے کر سمجھا دیا.
ہمارا بھی یہی رویہ ہونا چاہئے. جب ہمیں کوئی مسئلہ سمجھ میں نہ آئے یا اس طرح قرآن و حدیث میں باہم تعارض نظر آئے تو علماء کی طرف رجوع کرتے ہوئے اسکی تشریح اور وضاحت پوچھنی چاہیے.
ابن اثر