• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قرآن و حدیث میں حقیقی تعارض نہیں ہوتا

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
ہمارے معاشرے میں بہت سارے فتنے عام ہیں. انہیں میں سے ایک اہم فتنہ منکرین حدیث کا بھی ہے.
منکرین حدیث میں بھی کچھ ایسے لوگ ہوتے ہیں جو کہ مطلقا احادیث کی حجیت کا انکار کر دیتے ہیں. کچھ ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو عقل پرست ہوتے ہیں اور جو احادیث عقل کے خلاف ہوتی ہیں انکا انکار کر دیتے ہیں. مزید کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو قرآن واحادیث میں عمدا تعارض پیدا کرنے اور اسکی بنا پر احادیث کا انکار کرنے کی سعی مذموم کرتے ہیں.
حالانکہ قرآن وحدیث کے نصوص میں حقیقتا کوئی تعارض نہیں ہوتا ہے. آئیے اس بات کو ہم دلیل سے سمجھتے ہیں:
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَأَى حُلَّةًسِيَرَاءَ عِنْدَ بَابِ الْمَسْجِدِ، فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَوِ اشْتَرَيْتَ هَذِهِ فَلَبِسْتَهَا يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَلِلْوَفْدِ إِذَا قَدِمُوا عَلَيْكَ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِنَّمَا يَلْبَسُ هَذِهِ مَنْ لَاخَلَاقَ لَهُ فِي الْآخِرَةِ ". ثُمَّ جَاءَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهَا حُلَلٌ فَأَعْطَى عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ مِنْهَا حُلَّةً، فَقَالَ عُمَرُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَسَوْتَنِيهَا وَقَدْ قُلْتَ فِي حُلَّةِ عُطَارِدٍ مَا قُلْتَ. قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِنِّي لَمْ أَكْسُكَهَا لِتَلْبَسَهَا ". فَكَسَاهَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَخًا لَهُ بِمَكَّةَ مُشْرِكًا.
ترجمہ: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے (ریشم کا) دھاری دار جوڑا مسجد نبوی کے دروازے پر بکتا دیکھا تو کہنے لگے یا رسول اللہ! بہتر ہو اگر آپ اسے خرید لیں اور جمعہ کے دن اور وفود جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں تو ان کی ملاقات کے لیے آپ اسے پہنا کریں۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے تو وہی پہن سکتا ہے جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہ ہو۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اسی طرح کے کچھ جوڑے آئے تو اس میں سے ایک جوڑا آپ نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو عطا فرمایا۔ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ مجھے یہ جوڑا پہنا رہے ہیں حالانکہ اس سے پہلے عطارد کے جوڑے کے بارے میں آپ نے کچھ ایسا فرمایا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے اسے تمہیں خود پہننے کے لیے نہیں دیا ہے، چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ نے اسے اپنے ایک مشرک بھائی کو پہنا دیا جو مکے میں رہتا تھا۔
(صحیح بخاری: 886)

اِس حدیث میں غور کریں. آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ریشمی جوڑی کو پہننے سے منع فرمایا اور کہا کہ اسے تو وہی پہن سکتا ہے جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہ ہو. اسکے بعد خود ایک دوسرے موقع پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ كے پاس اسی جیسا جوڑا بھیجا. اب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سوچا کہ پہلے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسکو پہننے سے منع فرمایا اور پھر اسکے بعد خود اسی طرح کا جوڑا میرے پاس بھیجا ہے. آخر ماجرہ کیا ہے؟
ذرا سوچیں! حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کیا کیا؟
کیا انہوں نے سرے سے نص کا ہی رد کر دیا؟؟؟
کیا انہوں نے اپنی عقل سے اس میں کچھ فیصلہ کیا؟؟؟
نہیں، بلکہ وہ سیدھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم كے پاس گئے اور کہا کہ اے اللہ كے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! آپ نے تو ریشمی جوڑے کو پہننے سے منع فرمایا تھا اور اب آپ خود میرے پاس بھیج رہے ہیں؟؟؟
تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے عمر! میں نے تمہیں یہ جوڑا اِس لیے نہیں بھیجا کہ تم اسے پہن لو.
یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول میں تعارض کی مثال تھی. اب آپ غور کریں. کیا واقعی تعارض تھا؟؟؟
نہیں ہرگز نہیں. حقیقت میں کوئی تعارض نہیں تھا.

معلوم ہوا کہ احادیث میں تعارض صرف ظاہری طور پر ہوتا ہے. یہ تعارض حقیقی نہیں ہوتا بلکہ یہ انسان كے فہم کی کمی ہوتی ہے.

قرآن اور حدیث میں ظاہری تعارض کی مثال:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لَيْسَ أَحَدٌ يُحَاسَبُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِلَّا هَلَكَ ". فَقُلْتُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلَيْسَ قَدْ قَالَ اللَّهُ تَعَالَى : { فَأَمَّا مَنْ أُوتِيَ كِتَابَهُ بِيَمِينِهِ } { فَسَوْفَ يُحَاسَبُ حِسَابًا يَسِيرًا } ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِنَّمَا ذَلِكِ الْعَرْضُ، وَلَيْسَ أَحَدٌ يُنَاقَشُ الْحِسَابَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِلَّا عُذِّبَ ".
ترجمہ: جس شخص سے بھی قیامت کے دن حساب لیا گیا پس وہ ہلاک ہوا۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا اللہ تعالیٰ نے خود نہیں فرمایا ہے «فأما من أوتي كتابه بيمينه * فسوف يحاسب حسابا يسيرا‏» کہ ”پس جس کا نامہ اعمال اس کے دائیں ہاتھ میں دیا گیا تو عنقریب اس سے ایک آسان حساب لیا جائے گا۔“ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ تو صرف پیشی ہو گی۔ (اللہ رب العزت کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ) قیامت کے دن جس کے بھی حساب میں کھود کرید کی گئی اس کو عذاب یقینی ہو گا۔
(صحیح بخاری: 6537)

کتنی واضح اور صریح حدیث ہے جو اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ قرآن وحدیث میں حقیقی تعارض نہیں ہوتا. ہاں ظاہری طور پر تعارض نظر آتا ہے.
لیکن بہت افسوس ہوتا ہے جب کچھ لوگ قرآن وحدیث میں زبردستی تعارض پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں. اور کچھ لوگ تو ایسے ہیں جو اس ظاہری تعارض کی وجہ سے حدیث کو ہی رد کر دیتے ہیں. آخر یہ کس قدر جہالت ہے!....
غور کریں کیا واقعی تعارض تھا؟

اس حدیث سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ اگر ہمیں کوئی بات سمجھ میں نہیں آ رہی ہے تو علماء کی طرف رجوع کرنا چاہیے. نہ کہ اپنی عقل کا غلط استمعال کرتے ہوئے حدیث کا رد کرنا چاہیے.
ذرا سوچئے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کیا رویہ اپنایا؟
جب انہوں نے دیکھا کہ یہ تو اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قول میں تعارض نظر آ رہا ہے تو انہوں نے سوچا کہ یقیناً مجھے سمجھنے میں کچھ غلطی ہو رہی ہوگی. کیونکہ قرآن وحدیث میں حقیقی تعارض نہیں ہو سکتا. اسی لئے انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کیا. اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی انکو جواب دے کر سمجھا دیا.

ہمارا بھی یہی رویہ ہونا چاہئے. جب ہمیں کوئی مسئلہ سمجھ میں نہ آئے یا اس طرح قرآن و حدیث میں باہم تعارض نظر آئے تو علماء کی طرف رجوع کرتے ہوئے اسکی تشریح اور وضاحت پوچھنی چاہیے.

ابن اثر
 

وجاہت

رکن
شمولیت
مئی 03، 2016
پیغامات
421
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
45
ہمارے معاشرے میں بہت سارے فتنے عام ہیں. انہیں میں سے ایک اہم فتنہ منکرین حدیث کا بھی ہے.
منکرین حدیث میں بھی کچھ ایسے لوگ ہوتے ہیں جو کہ مطلقا احادیث کی حجیت کا انکار کر دیتے ہیں. کچھ ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو عقل پرست ہوتے ہیں اور جو احادیث عقل کے خلاف ہوتی ہیں انکا انکار کر دیتے ہیں. مزید کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو قرآن واحادیث میں عمدا تعارض پیدا کرنے اور اسکی بنا پر احادیث کا انکار کرنے کی سعی مذموم کرتے ہیں.
حالانکہ قرآن وحدیث کے نصوص میں حقیقتا کوئی تعارض نہیں ہوتا ہے. آئیے اس بات کو ہم دلیل سے سمجھتے ہیں:
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَأَى حُلَّةًسِيَرَاءَ عِنْدَ بَابِ الْمَسْجِدِ، فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَوِ اشْتَرَيْتَ هَذِهِ فَلَبِسْتَهَا يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَلِلْوَفْدِ إِذَا قَدِمُوا عَلَيْكَ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِنَّمَا يَلْبَسُ هَذِهِ مَنْ لَاخَلَاقَ لَهُ فِي الْآخِرَةِ ". ثُمَّ جَاءَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهَا حُلَلٌ فَأَعْطَى عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ مِنْهَا حُلَّةً، فَقَالَ عُمَرُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَسَوْتَنِيهَا وَقَدْ قُلْتَ فِي حُلَّةِ عُطَارِدٍ مَا قُلْتَ. قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِنِّي لَمْ أَكْسُكَهَا لِتَلْبَسَهَا ". فَكَسَاهَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَخًا لَهُ بِمَكَّةَ مُشْرِكًا.
ترجمہ: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے (ریشم کا) دھاری دار جوڑا مسجد نبوی کے دروازے پر بکتا دیکھا تو کہنے لگے یا رسول اللہ! بہتر ہو اگر آپ اسے خرید لیں اور جمعہ کے دن اور وفود جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں تو ان کی ملاقات کے لیے آپ اسے پہنا کریں۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے تو وہی پہن سکتا ہے جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہ ہو۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اسی طرح کے کچھ جوڑے آئے تو اس میں سے ایک جوڑا آپ نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو عطا فرمایا۔ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ مجھے یہ جوڑا پہنا رہے ہیں حالانکہ اس سے پہلے عطارد کے جوڑے کے بارے میں آپ نے کچھ ایسا فرمایا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے اسے تمہیں خود پہننے کے لیے نہیں دیا ہے، چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ نے اسے اپنے ایک مشرک بھائی کو پہنا دیا جو مکے میں رہتا تھا۔
(صحیح بخاری: 886)

اِس حدیث میں غور کریں. آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ریشمی جوڑی کو پہننے سے منع فرمایا اور کہا کہ اسے تو وہی پہن سکتا ہے جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہ ہو. اسکے بعد خود ایک دوسرے موقع پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ كے پاس اسی جیسا جوڑا بھیجا. اب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سوچا کہ پہلے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسکو پہننے سے منع فرمایا اور پھر اسکے بعد خود اسی طرح کا جوڑا میرے پاس بھیجا ہے. آخر ماجرہ کیا ہے؟
ذرا سوچیں! حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کیا کیا؟
کیا انہوں نے سرے سے نص کا ہی رد کر دیا؟؟؟
کیا انہوں نے اپنی عقل سے اس میں کچھ فیصلہ کیا؟؟؟
نہیں، بلکہ وہ سیدھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم كے پاس گئے اور کہا کہ اے اللہ كے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! آپ نے تو ریشمی جوڑے کو پہننے سے منع فرمایا تھا اور اب آپ خود میرے پاس بھیج رہے ہیں؟؟؟
تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے عمر! میں نے تمہیں یہ جوڑا اِس لیے نہیں بھیجا کہ تم اسے پہن لو.
یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول میں تعارض کی مثال تھی. اب آپ غور کریں. کیا واقعی تعارض تھا؟؟؟
نہیں ہرگز نہیں. حقیقت میں کوئی تعارض نہیں تھا.

معلوم ہوا کہ احادیث میں تعارض صرف ظاہری طور پر ہوتا ہے. یہ تعارض حقیقی نہیں ہوتا بلکہ یہ انسان كے فہم کی کمی ہوتی ہے.

قرآن اور حدیث میں ظاہری تعارض کی مثال:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لَيْسَ أَحَدٌ يُحَاسَبُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِلَّا هَلَكَ ". فَقُلْتُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلَيْسَ قَدْ قَالَ اللَّهُ تَعَالَى : { فَأَمَّا مَنْ أُوتِيَ كِتَابَهُ بِيَمِينِهِ } { فَسَوْفَ يُحَاسَبُ حِسَابًا يَسِيرًا } ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِنَّمَا ذَلِكِ الْعَرْضُ، وَلَيْسَ أَحَدٌ يُنَاقَشُ الْحِسَابَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِلَّا عُذِّبَ ".
ترجمہ: جس شخص سے بھی قیامت کے دن حساب لیا گیا پس وہ ہلاک ہوا۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا اللہ تعالیٰ نے خود نہیں فرمایا ہے «فأما من أوتي كتابه بيمينه * فسوف يحاسب حسابا يسيرا‏» کہ ”پس جس کا نامہ اعمال اس کے دائیں ہاتھ میں دیا گیا تو عنقریب اس سے ایک آسان حساب لیا جائے گا۔“ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ تو صرف پیشی ہو گی۔ (اللہ رب العزت کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ) قیامت کے دن جس کے بھی حساب میں کھود کرید کی گئی اس کو عذاب یقینی ہو گا۔
(صحیح بخاری: 6537)

کتنی واضح اور صریح حدیث ہے جو اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ قرآن وحدیث میں حقیقی تعارض نہیں ہوتا. ہاں ظاہری طور پر تعارض نظر آتا ہے.
لیکن بہت افسوس ہوتا ہے جب کچھ لوگ قرآن وحدیث میں زبردستی تعارض پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں. اور کچھ لوگ تو ایسے ہیں جو اس ظاہری تعارض کی وجہ سے حدیث کو ہی رد کر دیتے ہیں. آخر یہ کس قدر جہالت ہے!....
غور کریں کیا واقعی تعارض تھا؟

اس حدیث سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ اگر ہمیں کوئی بات سمجھ میں نہیں آ رہی ہے تو علماء کی طرف رجوع کرنا چاہیے. نہ کہ اپنی عقل کا غلط استمعال کرتے ہوئے حدیث کا رد کرنا چاہیے.
ذرا سوچئے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کیا رویہ اپنایا؟
جب انہوں نے دیکھا کہ یہ تو اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قول میں تعارض نظر آ رہا ہے تو انہوں نے سوچا کہ یقیناً مجھے سمجھنے میں کچھ غلطی ہو رہی ہوگی. کیونکہ قرآن وحدیث میں حقیقی تعارض نہیں ہو سکتا. اسی لئے انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کیا. اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی انکو جواب دے کر سمجھا دیا.

ہمارا بھی یہی رویہ ہونا چاہئے. جب ہمیں کوئی مسئلہ سمجھ میں نہ آئے یا اس طرح قرآن و حدیث میں باہم تعارض نظر آئے تو علماء کی طرف رجوع کرتے ہوئے اسکی تشریح اور وضاحت پوچھنی چاہیے.

ابن اثر

تحریر عمدہ ہے لیکن اس میں مناسب دلائل کی کمی ہے مثلا ایک چادر عمر رضی الله عنہ کو دی گئی وہ اس کو لے کر نبی صلی الله علیہ وسلم کے پاس گئے کہ کیوں دی ہے

اسی طرح صحیح مسلم میں ہے کہ ایک چادر علی رضی الله عنہ کو دی انہوں نے وہ اوڑھ لی اور نبی صلی الله علیہ وسلم کے پاس آئے یھاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ اقدس پر غصہ کے آثار دیکھے-


حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ عَنْ شُعْبَةَ عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ مَيْسَرَةَ عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ قَالَ کَسَانِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حُلَّةَ سِيَرَائَ فَخَرَجْتُ فِيهَا فَرَأَيْتُ الْغَضَبَ فِي وَجْهِهِ قَالَ فَشَقَقْتُهَا بَيْنَ نِسَائِي


ابوبکر بن ابی شیبہ، غندر، شعبہ، عبدالملک ابن میشرہ زید بن وہب، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن ابی طالب فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایک ریشمی جوڑا عطا فرمایا میں اس جوڑے کو پہن کر باہر نکلا تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ اقدس پر غصہ کے آثار دیکھے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ پھر میں نے اس کپڑے کو پھاڑ کر اپنی عورتوں میں تقسیم کردیا۔


علی رضی الله اور عمر رضی الله کے فہم کا فرق یہ محدثین نے بیان کیا ہے
کیا ان پر اس بات کو لگایا جا سکتا ہے کہ

معلوم ہوا کہ احادیث میں تعارض صرف ظاہری طور پر ہوتا ہے. یہ تعارض حقیقی نہیں ہوتا بلکہ یہ انسان كے فہم کی کمی ہوتی ہے.
ابن اثر
کیا امام مسلم نے یہ ثابت کیا کہ علی رضی الله کے فہم میں کمی تھی ؟ جبکہ کتنے ہی مسائل کے لئے عمر رضی الله عنہ نے علی رضی الله عنہ سے رجوع کیا

عائشہ رضی الله عنہا نے بعض باتوں کا سنتے ہی انکار کر دیا مثلا معراج پر نبی صلی الله علیہ وسلم کا الله کو دیکھنا
قلیب بدر پر مردوں کا سننا

یہ فہم کی کمی نہیں جیسا کہ @عمر اثری بھائی کہہ رہے ہیں

معلوم ہوا کہ احادیث میں تعارض صرف ظاہری طور پر ہوتا ہے. یہ تعارض حقیقی نہیں ہوتا بلکہ یہ انسان كے فہم کی کمی ہوتی ہے.
ابن اثر
بلکہ یہ فہم کا الگ ہونا ہے-
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
@وجاہت صاحب کی تحریر پڑھ کر مجھے شیخ العرب والجم بدیع الدین شاہ راشدی کا قول یاد آیا، کیا خوب کہا ہے شیخ ہے؛
تضاد حدیث کا قرآن کے ساتھ نہیں، اور نہ حدیث کا حدیث کے ساتھ ہے، بلکہ تضاد تمہاری عقل کا ہے!
اب کسی کی فہم کا وحی سے تضاد ہو جانے سے وحی میں تضاد نہیں ہوتا!
وحی اللہ کا قرآن ہے، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث!
نہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا قول و فہم وحی ہے، اور نہ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کا قول وفہم وحی ہے! ان کا اگر آپس میں تضاد ہو جائے، تو اس سے قرآن و حدیث کا تضاد ثابت نہیں ہوتا!
یہ بات پہلے بھی بتلائی تھی کہ صاحب مرفوع کے مقابلے میں موقوف و مقطوع پیش کر کے گمان کرتے ہیں کہ تضاد ثابت ہو گیا!
رہی بات کہ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی فہم کی تو وہ اس مسئلہ میں غلط سمجھے تھے، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے غصہ کو دیکھ کر انہوں نے رجوع بھی کر لیا!
لیکن ''حب علی کا چورن'' بیچنے والے اب تک بضد ہیں کہ سیدنا علی بن ابی طالب کی فہم کیسے غلط ہو سکتی ہے!
اور مقابلہ کرنے لگے ہیں سیدنا عمر بھی خطاب رضی اللہ عنہ اور سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کا!
کہ کئی مسائل میں سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی طرف رجوع کیا تو اس سے یہ باور کروایا جا رہا ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے کم فہم باور کروایا جائے!
جبکہ اس معاملہ میں تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہی بتلادیتی ہے کہ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی فہم غلط تھی!
رہی بات امام مسلم کی!
تو امام مسلم رحمہ اللہ نے ایسا کوئی تقابل نہیں کیا کہ کسی کو کم فہم قرار دیا جائے!
یہ تو بعض الناس کی اٹکل کا فساد ہے!
 
Last edited:

وجاہت

رکن
شمولیت
مئی 03، 2016
پیغامات
421
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
45
@ابن داوود بھائی ذرا اپنے الفاظ کے چناؤ پر غور کر لیں -

''حب علی کا چورن'' بیچنے والے اب تک بضد ہیں کہ سیدنا علی بن ابی طالب کی فہم کیسے غلط ہو سکتی ہے!
اور مقابلہ کرنے لگے ہیں سیدنا عمر بھی خطاب رضی اللہ عنہ اور سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کا!
کہ کئی مسائل میں سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی طرف رجوع کیا تو اس سے یہ باور کروایا جا رہا ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے کم فہم باور کروایا جائے!
جبکہ اس معاملہ میں تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہی بتلادیتی ہے کہ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی فہم غلط تھی!
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
@ابن داوود بھائی ذرا اپنے الفاظ کے چناؤ پر غور کر لیں -
" ﺭﮨﯽ ﺑﺎﺕ ﺍﻣﺎﻡ ﻣﺴﻠﻢ ﮐﯽ!ﺗﻮ ﺍﻣﺎﻡ ﻣﺴﻠﻢ ﺭﺣﻤﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﻧﮯ ﺍﯾﺴﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﺗﻘﺎﺑﻞ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﮐﻢ ﻓﮩﻢ ﻗﺮﺍﺭ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯ!ﯾﮧ ﺗﻮ ﺑﻌﺾ ﺍﻟﻨﺎﺱ ﮐﯽ ﺍﭨﮑﻞ ﮐﺎ ﻓﺴﺎﺩ ﮨﮯ!"

اس فقرہ کو پڑها نہیں هوگا اور اگر پڑها هوگا تو سمجهنا نہیں چاہا هوگا۔
اللہ سب کو ہدایت دے
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
سوچنے والی بات یہ ہے کہ کسی کو علم ہونا اور کسی کو علم نہ ہونا دونوں کو @وجاہت صاحب نے برابر کر دیا
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
@ابن داوود بھائی ذرا اپنے الفاظ کے چناؤ پر غور کر لیں -
ویسے تو میں الفاظ کے انتخاب کا ہمیشہ خاص خیال رکھتا ہوں!
آپ کے کہنے پر ایک بار پھر غور کیا، مجھے ان میں ایسی کوئی بات نظر نہیں آئی!
میں اپنے ان الفاظ پر قائم ہوں! اگر کوئی نقص بتلایا جائے جو بندہ ضرور رجوع کرنے کو تیار ہو گا!
 
Last edited:

وجاہت

رکن
شمولیت
مئی 03، 2016
پیغامات
421
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
45
معلوم ہوا کہ احادیث میں تعارض صرف ظاہری طور پر ہوتا ہے. یہ تعارض حقیقی نہیں ہوتا بلکہ یہ انسان كے فہم کی کمی ہوتی ہے.

ابن اثر
سوچنے والی بات یہ ہے کہ کسی کو علم ہونا اور کسی کو علم نہ ہونا دونوں کو @وجاہت صاحب نے برابر کر دیا
بھائی شائد آپ میری بات کو نہیں سمجھے - میں نے آپ کے جواب کہ
یہ انسان كے فہم کی کمی ہوتی ہے.
کہا تھا کہ
بلکہ یہ فہم کا الگ ہونا ہے-

جبکہ اس معاملہ میں تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہی بتلادیتی ہے کہ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی فہم غلط تھی!

ایک مثال آپ کو دیتا ہوں


2352 . حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ الشَّيْبَانِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي أَوْفَى، يَقُولُ: سِرْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ صَائِمٌ، فَلَمَّا غَرَبَتِ الشَّمْسُ, قَالَ: >يَا بِلَالُ! انْزِلْ فَاجْدَحْ لَنَا<، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ. لَوْ أَمْسَيْتَ!، قَالَ: >انْزِلْ فَاجْدَحْ لَنَا<، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ عَلَيْكَ نَهَارًا!، قَالَ: >انْزِلْ فَاجْدَحْ لَنَا<، فَنَزَلَ، فَجَدَحَ، فَشَرِبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَال:َ >إِذَا رَأَيْتُمُ اللَّيْلَ قَدْ أَقْبَلَ مِنْ هَا هُنَا, فَقَدْ أَفْطَرَ الصَّائِمُ<. -وَأَشَارَ بِأُصْبُعِهِ قِبَلَ الْمَشْرِقِ-.

حکم : صحیح

سیدنا عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ( ایک سفر میں ) ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گئے جبکہ آپ روزے سے تھے ۔ جب سورج غروب ہو گیا تو آپ نے فرمایا ” اے بلال ! اترو اور ہمارے لیے ستو گھولو ۔ “ انہوں نے کہا : اے اﷲ کے رسول ! ذرا شام ہو لینے دیجئیے ۔ آپ نے فرمایا ” اترو اور ہمارے لیے ستو گھولو ۔ “ انہوں نے کہا : اے اﷲ کے رسول ! ابھی تو دن ہے ۔ آپ نے فرمایا اترو اور ہمارے لیے ستو گھولو ۔ “ چنانچہ بلال اترے ‘ ستو گھولا اور پھر آپ نے نوش کیا اور فرمایا ” جب دیکھو کہ ادھر سے رات ہو گئی ہے تو بلاشبہ روزے دار کے لیے افطار کا وقت ہو گیا ۔ “ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلی سے مشرق کی طرف اشارہ فرمایا ۔

اب آپ یہاں پر کیا کہیں گے کہ حضرت بلال رضی الله کے فہم میں کمی تھی - حضور صلی الله علیہ وسلم ان کو ایک کام کا حکم دے رہے ہیں اور وہ آگے سے جوابات دے رہے ہیں - بات کرنے کا مقصد یہ ہے میرے بھائی کہ صحابہ کرام رضی الله کے بارے میں یہ کہنا کہ ان کا فہم غلط تھا یا ان کے فہم میں کمی تھی مناسب نہیں -

یہی حدیث صحیح بخاری میں بھی آئ ہے لیکن وہاں امام بخاری نے حضرت بلال رضی الله کا نام نہیں لیا -

(امام بخاری نے کئی ایک مقامات پر ناموں کے بجا ے فلاں فلاں کے الفاظ استعمال کیے ہیں )

1956 . حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ حَدَّثَنَا الشَّيْبَانِيُّ سُلَيْمَانُ قَالَ سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي أَوْفَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ سِرْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ صَائِمٌ فَلَمَّا غَرَبَتْ الشَّمْسُ قَالَ انْزِلْ فَاجْدَحْ لَنَا قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ لَوْ أَمْسَيْتَ قَالَ انْزِلْ فَاجْدَحْ لَنَا قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ عَلَيْكَ نَهَارًا قَالَ انْزِلْ فَاجْدَحْ لَنَا فَنَزَلَ فَجَدَحَ ثُمَّ قَالَ إِذَا رَأَيْتُمْ اللَّيْلَ أَقْبَلَ مِنْ هَا هُنَا فَقَدْ أَفْطَرَ الصَّائِمُ وَأَشَارَ بِإِصْبَعِهِ قِبَلَ الْمَشْرِقِ

حکم : صحیح


ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالواحد نے بیان کیا، ان سے سلیمان شیبانی نے بیان کیا، کہا کہ میں نے عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے کہا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں جا رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزے سے تھے، جب سورج غروب ہوا تو آپ نے ایک شخص سے فرمایا کہ اتر کر ہمارے لیے ستو گھول، انہوں نے کہا یا رسول اللہ ! تھوڑی دیر اور ٹھہرئیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اتر کر ہمارے لیے ستو گھول انہوں نے پھر یہی کہا کہ یا رسول اللہ ! ابھی تو دن باقی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اتر کر ستو ہمارے لیے گھول، چنانچہ انہوں نے اتر کر ستو گھولا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا کہ جب تم دیکھو کہ رات کی تاریکی ادھر سے آگئی تو روزہ دار کو روزہ افطار کرلینا چاہئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلی سے مشرق کی طرف اشارہ کیا۔

 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
بھائی شائد آپ میری بات کو نہیں سمجھے - میں نے آپ کے جواب کہ


کہا تھا کہ





ایک مثال آپ کو دیتا ہوں


2352 . حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ الشَّيْبَانِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي أَوْفَى، يَقُولُ: سِرْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ صَائِمٌ، فَلَمَّا غَرَبَتِ الشَّمْسُ, قَالَ: >يَا بِلَالُ! انْزِلْ فَاجْدَحْ لَنَا<، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ. لَوْ أَمْسَيْتَ!، قَالَ: >انْزِلْ فَاجْدَحْ لَنَا<، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ عَلَيْكَ نَهَارًا!، قَالَ: >انْزِلْ فَاجْدَحْ لَنَا<، فَنَزَلَ، فَجَدَحَ، فَشَرِبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَال:َ >إِذَا رَأَيْتُمُ اللَّيْلَ قَدْ أَقْبَلَ مِنْ هَا هُنَا, فَقَدْ أَفْطَرَ الصَّائِمُ<. -وَأَشَارَ بِأُصْبُعِهِ قِبَلَ الْمَشْرِقِ-.

حکم : صحیح

سیدنا عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ( ایک سفر میں ) ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گئے جبکہ آپ روزے سے تھے ۔ جب سورج غروب ہو گیا تو آپ نے فرمایا ” اے بلال ! اترو اور ہمارے لیے ستو گھولو ۔ “ انہوں نے کہا : اے اﷲ کے رسول ! ذرا شام ہو لینے دیجئیے ۔ آپ نے فرمایا ” اترو اور ہمارے لیے ستو گھولو ۔ “ انہوں نے کہا : اے اﷲ کے رسول ! ابھی تو دن ہے ۔ آپ نے فرمایا اترو اور ہمارے لیے ستو گھولو ۔ “ چنانچہ بلال اترے ‘ ستو گھولا اور پھر آپ نے نوش کیا اور فرمایا ” جب دیکھو کہ ادھر سے رات ہو گئی ہے تو بلاشبہ روزے دار کے لیے افطار کا وقت ہو گیا ۔ “ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلی سے مشرق کی طرف اشارہ فرمایا ۔

اب آپ یہاں پر کیا کہیں گے کہ حضرت بلال رضی الله کے فہم میں کمی تھی - حضور صلی الله علیہ وسلم ان کو ایک کام کا حکم دے رہے ہیں اور وہ آگے سے جوابات دے رہے ہیں - بات کرنے کا مقصد یہ ہے میرے بھائی کہ صحابہ کرام رضی الله کے بارے میں یہ کہنا کہ ان کا فہم غلط تھا یا ان کے فہم میں کمی تھی مناسب نہیں -

یہی حدیث صحیح بخاری میں بھی آئ ہے لیکن وہاں امام بخاری نے حضرت بلال رضی الله کا نام نہیں لیا -

(امام بخاری نے کئی ایک مقامات پر ناموں کے بجا ے فلاں فلاں کے الفاظ استعمال کیے ہیں )

1956 . حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ حَدَّثَنَا الشَّيْبَانِيُّ سُلَيْمَانُ قَالَ سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي أَوْفَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ سِرْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ صَائِمٌ فَلَمَّا غَرَبَتْ الشَّمْسُ قَالَ انْزِلْ فَاجْدَحْ لَنَا قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ لَوْ أَمْسَيْتَ قَالَ انْزِلْ فَاجْدَحْ لَنَا قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ عَلَيْكَ نَهَارًا قَالَ انْزِلْ فَاجْدَحْ لَنَا فَنَزَلَ فَجَدَحَ ثُمَّ قَالَ إِذَا رَأَيْتُمْ اللَّيْلَ أَقْبَلَ مِنْ هَا هُنَا فَقَدْ أَفْطَرَ الصَّائِمُ وَأَشَارَ بِإِصْبَعِهِ قِبَلَ الْمَشْرِقِ

حکم : صحیح


ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالواحد نے بیان کیا، ان سے سلیمان شیبانی نے بیان کیا، کہا کہ میں نے عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے کہا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں جا رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزے سے تھے، جب سورج غروب ہوا تو آپ نے ایک شخص سے فرمایا کہ اتر کر ہمارے لیے ستو گھول، انہوں نے کہا یا رسول اللہ ! تھوڑی دیر اور ٹھہرئیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اتر کر ہمارے لیے ستو گھول انہوں نے پھر یہی کہا کہ یا رسول اللہ ! ابھی تو دن باقی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اتر کر ستو ہمارے لیے گھول، چنانچہ انہوں نے اتر کر ستو گھولا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا کہ جب تم دیکھو کہ رات کی تاریکی ادھر سے آگئی تو روزہ دار کو روزہ افطار کرلینا چاہئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلی سے مشرق کی طرف اشارہ کیا۔
میرے خیال سے آپ نے مدعا سمجھا تک نہیں. اور اعتراض کر بیٹھے.
 
Top