اصل میں جس کتاب کا میں ذکر کر رہا ہوں وہ دوٹوک انداز میں لکھی گئی تھی اور اس میں اس مسئلہ پر کافی کھل کر بات کی گئی تھی شاید اسی لئے کسی کے ڈر سے یا مصلحت کے سبب اس کتاب کو منظر عام سے ہٹا دیا گیا۔
السلام علیکم۔ ریاض کے ایک علاقے میں دارالاندلس کا ڈسٹری بیوشن آفس تھا جہاں چند مخصوص احباب کو تقریباً 33 تا 50 فیصد ڈسکاؤنٹ پر کتب ملتی تھیں۔ میں نے بھی سینکڑوں اہم کتابیں یہیں سے ڈسکاؤنٹ میں خریدی تھیں۔ پھر بعد میں پتا چلا کہ وہ آفس بند ہو گیا ، نہ صرف بند ہوا بلکہ اب شاید سعودی عرب میں اس ادارے کا کوئی نام و نشان نہیں۔
بعد از تحقیقات اتنا اندازہ ہوا کہ شاید صرف یہی ایک کتاب (الولاء والبراء) اس کا سبب بنی۔
میں گو کہ اس بات کا قائل ہوں کہ ہر فرد کو اپنے نقطہ نظر کے بیان کا حق حاصل ہے جیسا کہ آپ نے کہا "وہ کتاب ایسی مارکیٹ سے غائب ہوئی کہ آج تک وہ کتاب نہیں دیکھی۔ کیا یہ باطل کا ڈر ہے یا مصلحت؟؟؟" ۔۔۔۔ لیکن آپ کی بات سے اتفاق ہر کسی کے لیے ضروری نہیں اور نہ ہی یہ ضروری ہے کہ آپ کے "نظریے" کو "استنادی حیثیت" دی جائے۔
میں اس معاملے میں حکومت کے اقدام کی تائید کروں گا۔ اور دارالاندلس کی ناعاقبت اندیشی کی مذمت۔
کسی جگہ جمعرات/جمعہ کے بجائے جمعہ/ہفتہ کی چھٹی کی بحث میں ایک ہمارے بھائی نے دینی غیرت کے ناتے اس نئے حکم کو رد کرنے کی یہ وجہ بتائی تھی کہ : "۔۔۔ جمعہ المبارک کے بابرکت لمحات جو کہ عصر کےبعد ہی ہوتے ہیں اب لوگ کسی پارک ، سمندر کنارے یا کسی صحرا میں یا کسی پرفضاء مقام پر گزاریں گے جبکہ یہی وقت پہلے گھراور مسجد میں گزرتا تھا ۔۔۔۔"
اس کے جواب میں ہمارے دوست
منہج سلف نے کہا تھا کہ : "۔۔۔۔ حرم پاک کے باہر بھی بہت بڑی دنیا ہے جن کے ساتھ سعودی حکومت نے معاملات چلانے ہیں اس لیے سعودی معاملات میں مداخلات کبھی نہیں کرنی چاہیے وہ جانتے ہیں کہ ملک کے لیے کیا درست ہے کیا غلط، اب اکا دکا بندوں کی مخالفت سے معاملات روکے نہیں جاسکتے۔۔۔۔۔"
یہی نظریہ "دارالاندلس" پر بھی فٹ آتا ہے۔ حکومت نے کتاب پر روک لگائی ، بہت اچھا کیا۔ لیکن حکومت کے اس اقدام کا صرف یہ ایک مطلب نہیں کہ وہ دین کی نشرو اشاعت کو روکنا چاہتی ہے۔ یہاں "باطل سے ڈر و خوف" کا نعرہ لگانے کے بجائے حسن ظن سے کام لینا چاہیے۔ اس کی ایک مثال میں نے گذشتہ دنوں بھی آپ کو دی تھی۔ انتظامیہ اگر آپ کے کچھ مضامین یا مقالات کو حذف کر دیتی ہے تو اس کا مطلب دینی یا شرعی تعلیمات کو روکنا یا باطل سے ڈرنا نہیں ہوتا (کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو آپ کو کہا جاتا کہ ایسے مضامین/مقالہ جات سے یکسر دستبرداری حاصل کرلیں ، اسے کہیں بھی شائع مت کریں ۔۔۔ وغیرہ۔) بلکہ یہ انتظامی معاملات ہوتے ہیں جس کا ہر ادارے کی انتظامیہ کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنے مقررکردہ اصولوں پر قائم رہنے کے لیے چند پابندیاں لگائے۔ تو بھائی جب ایک معمولی سا ادارہ اپنے انتظامی اصول و ضوابط کی پابندی کر سکتا ہے تو ایک غیرمعمولی حکومت کیونکر اپنے حکومتی اصول و ضوابط بنا کر ان پر عمل درآمد کو عوام کے لیے ضروری قرار نہیں دے سکتی؟ اس عمل کو آپ غیرشرعی بھی نہیں کہہ سکتے کہ کسی ادارہ یا حکومت کا یہ مطالبہ ہرگز نہیں کہ آپ اگر ہمارے ہاں فلاں فلاں مضمون یا کتاب شائع نہیں کر سکتے تو دنیا بھر میں اس کی کہیں بھی اشاعت نہ کی جائے۔
ویسے یہ بڑی عجیب بات ہے کہ خود ہمارے گھرانوں میں ، خاندان میں ایسے سینکڑوں مسائل آتے ہیں جہاں بعض پابندیاں ہمیں پہلی نظر میں خلاف شرع یا باطل سے ڈر و خوف کے تحت لگائی گئیں نظر آتی ہیں لیکن ۔۔۔ ہم وہاں حسن ظن سے کام لیتے ہیں ، کبھی گلی محلے میں یہ شور نہیں اٹھاتے کہ ہمارے فلاں فلاں بزرگ باطل سے ڈرتے ہیں ، خلاف شریعت اصولوں پر چلتے ہیں ۔۔۔ لیکن جب کوئی ادارہ یا حکومت اپنے انتظامی معاملات کے تحت کوئی پابندی لگائے تو ہم اس ایشو کو سوشل میڈیا کے پروپگنڈے کا حصہ بنا دیتے ہیں!
کہیں یہ وہی "جمہوریت" والی بیماری تو نہیں جسے شریعت کے خلاف باور کرانے کے لیے ہم اپنی پوری قوت یہاں وہاں جھونکتے رہتے ہیں؟