قرآن کے ساتھ ہمارا رویہ
ہمارے پاس بھی وہی قرآن ہے جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے پاس تھا۔ قرآن نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو ایک منفرد انسانی گروہ میں بدل دیا۔ کیا قرآن اب اس طرح کی تبدیلی لانے سے قاصر ہے؟ کیا قرآن کی کارکردگی ختم ہو گئی ہے؟ ایسا ہرگز نہیں، تو پھر بات کیا ہے؟ قرآن مجید تو ایک دائمی معجزہ ہے۔ یقیناً نقص ہمارے اندر ہے، کوتاہی ہماری ہے۔ قرآن ہر گھر میں موجود ہے۔ ریڈیو سٹیشن اور ٹیلی ویژن سنٹر مختلف مسلم ممالک میں اپنے چینل سے رات دن قرآن کریم نشر کر رہے ہیں۔ پوری اُمتِ اسلامیہ میں اس وقت لاکھوں قرآن مجید کے حفاظ موجود ہیں، اتنے حفاظ تو عہدِ نبوی اور عہدِ خلفائے راشدین میں نہ تھے۔ اس سب کے باوجود، اس قدر اہتمام کے ہوتے ہوئے بھی قرآن کریم کے ذریعے مطلوبہ تبدیلی عمل میں نہیں آ رہی؟ اس کی وجہ کیا ہے؟
واضح بات ہے کہ ہم ان شرطوں کو پورا نہیں کر رہے جو قرآن کے معجزانہ اثرات کے ظہور کے لیے ضروری ہیں اور جن کی تکمیل سے قرآن تبدیلی کا عمل سر انجام دیتا ہے۔ ہماری ساری توجہ قرآن کے الفاظ پر ہے۔ "تعلیم قرآن" کا مطلب ہم نے صرف یہ سمجھا ہے کہ قرآن کے الفاظ سیکھے جائیں اور قرآن کو پڑھنے کی کیفیت سیکھ لی جائے، اس کے الفاظ کو صحیح مخارج سے ادا کرنے کا طریقہ ہمیں آتا ہو، اور ان حروف کی صفات کو صوتی لحاظ سے درست ادا کیا جائے۔ ہم نے قرآن کے معانی تک رسائی پر توجہ دی ہے نہ اس میں کچھ زیادہ دلچسپی لی ہے اور عمل کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
قرآن کے ساتھ ہمارے اس ظاہری شکل تک محدود طرزِ عمل نے ہمیں قرآن کے حقیقی منافع پانے سے روک دیا ہے۔ کتابِ زندہ کے ساتھ ہمارے اس عجیب و غریب رویئے کا نتیجہ ہمارے لیے نہایت مہلک ہے۔ قرآن کریم کا یہ اعجاز کہ وہ نفوس میں تبدیلی پیدا کر دیتا ہے، ہماری بے عملی و کاہلی کی وجہ سے ظاہر نہیں ہو رہا۔ قول و فعل میں تضاد بڑھ چکا ہے۔ ہماری دلچسپیاں بدل چکی ہیں۔ دنیا سے تعلق اور اس کی محبت میں اضافہ ہوا ہے۔ آج ہماری حالت وہی ہو چکی ہے جس کی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے پیش گوئی فرمائی تھی۔ "قریب ہے کہ قومیں تم پر حملہ کرنے کے لیے ایک دوسرے کر ایسے بلائیں جیسے کھانا کھانے والے دسترخوان پر ایک دوسرے کو بلایا کرتے ہیں۔ ایک شخص نے عرض کیا ’ کیا ہم اس وقت تھوڑی تعداد میں ہوں گے؟‘ فرمایا، ’ نہیں بلکہ اس وقت تم لوگ تعداد میں بہت زیادہ ہو گے۔ مگر سیلاب کے جھاگ کی مانند ہو گے۔ اللہ تمہارے دشمنوں کے دلوں میں تمہارا دبدبہ ختم کر دے گا۔‘ ایک کہنے والے نے کہا، یا رسول اللہ وہن کیا چیز ہے؟ فرمایا ؛ دنیا کی محبت اور موت سے نفرت۔" (السلسلۃ الصحیحۃ)
اگر ہم مسلمان اپنے اندر حقیقی تبدیلی پیدا کرنا چاہتے ہیں تو پھر آئیے قرآن کی طرف رجوع کرنے کا اس سے بہتر کوئی موقع نہیں۔ عراق اور افغانستان کے موجودہ حالات ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہیں۔ کیا عراق پر دھاوا بولنے کے لیے امریکہ نے اپنے حامیوں کو اسی طرح نہیں بلایا جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے خبر دی تھی؟