• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قرآن پر عمل-سمیہ رمضان

ابن خلیل

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 03، 2011
پیغامات
1,383
ری ایکشن اسکور
6,754
پوائنٹ
332

والدین سے حسن سلوک

والدین سے حسن سلوک کے بارے میں گفتگو کرنا تو بہت آسان ہے۔ اس موضوع پر تقریر کا اہتمام بھی کوئی مشکل کام نہیں۔ مگر عملاً والدین کی خدمت کرنا، ان سے نیک برتاؤ کرنا اتنا آسان نہیں۔ اس کے لیے اللہ پر گہرا اور مضبوط ایمان چاہیے۔ صبر و برداشت چاہیے۔ سب سے بڑھ کر ایک بیٹی کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے ماں باپ کے لیے شیریں زبان ہو۔ اللہ تعالیٰ نے ماں باپ کے ساتھ مسلسل حسن سلوک کا حکم دیا ہے۔ اپنے رازوں کو وہی بہتر جانتا ہے۔ والدین سے اچھا برتاؤ ایک ایسا عملِ صالح ہے جس سے اخلاص کی خوشبو مہکتی ہے۔ یہ اللہ کی دائمی اطاعت کا ثبوت ہے۔ غرض یہ کہ والدین سے حسن سلوک کا شمار ان بنیادی خوبیوں میں ہوتا ہے جن کی تربیت مسلم معاشرے کے تمام افراد کو ملنی چاہیے۔ نہ صرف قرآن مجید نے بلکہ رسول کریم علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی والدین کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید فرمائی ہے۔

ہم نے اپنے ہفتہ وار درس قرآن مجید میں یہ طے کیا کہ ہم اس بار اس ارشادِ الٰہی پر عمل کریں گے۔

فَلاَ تَقُل لَّھُمَآ اُفٍّ وَلاَ تَنْھَرْھُمَا (بنی اسرائیل 23:17) -
پس انہیں اُف تک نہ کہو، نہ انہیں جھڑک کر جواب دو۔

ہم نے اپنے دستور کے مطابق اس آیت کی تشریح و تفسیر بیان کی۔ اس پر مکمل گفتگو کی۔ پھر یہ طے پا گیا کہ ہم میں سے کوئی بھی نہ تو اپنے ماں باپ کو جھڑکے اور نہ ہی انہیں اذیت پہنچائے خواہ وہ کچھ ہی کریں یا کہیں۔

جب کچھ عرصہ بعد تجربات بیان کرنے کا وقت آیا تو درس میں شریک ہونے والی خواتین میں سے پانچ خواتین نے قرآن کریم کی آیت کے اس مختصر حصے پر عمل کرنے کے اپنے تجربات سے آگاہ کیا۔
 

ابن خلیل

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 03، 2011
پیغامات
1,383
ری ایکشن اسکور
6,754
پوائنٹ
332

عامل کے بجائے اللہ

"میری امی مجھ سے ملنے کے لیے میرے گھر آئی ہوئی تھیں۔ وہ دکھی اور پریشان نظر آ رہی تھیں۔ میں نے خیریت دریافت کی تو کہنے لگیں "تیری بہن کی شادی میں کافی دیر ہو چکی ہے۔ مجھے کچھ لوگوں نے بتایا ہے کہ اس غیر معمولی تاخیر کی وجہ یہ ہے کہ اس پر جادو کیا گیا ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ اس کوئی جن قابض ہے جو اس کی شادی نہیں ہونے دیتا۔ اس لیے بیٹی آپ میرے ساتھ چلیں، تاکہ لوگ جس عامل کا بتاتے ہیں، ہم اس کے پاس جائیں تاکہ وہ ہماری مدد کرئے اور تیری بہن کی شادی جلد ہو جائے۔" میری امی نے یہ بات کی تو مجھے بہت صدمہ پہنچا۔
میں نے انہیں یہ آیت پڑھ کر سنائی
وَاِن يَمْسَسْكَ اللّہُ بِضُرٍّ فَلاَ كَاشِفَ لَہُ اِلاَّ ھُوَ، وَاِن يَمْسَسْكَ بِخَيْرٍ فَھُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدُيرٌ (الانعام 17:6) -
اگر اللہ تمہیں کسی قسم کا نقصان پہنچائے تو اس کے سوا کوئی نہیں جو تمہیں اس نقصان سے بچا سکے، اور اگر وہ تمہیں کسی بھلائی سے بہرہ مند کرے تو وہ ہر چیز پر قادر ہے۔

والدہ غصے میں تھیں، وہ کہنے لگیں "میں اپنی بیٹی کو نقصان سے بچانے جا رہی ہوں۔ اس میں کیا حرج ہے؟ میں کسی کو ضرر نہیں پہنچا رہی۔ کسی کا نقصان نہیں کر رہی۔ مگر تم اپنی بہن کے ساتھ تعاون کرنا نہیں چاہتیں، تم اس کے فائدے میں خوش نہیں ہو۔" اس پر ہم دونوں ماں بیٹی میں جھگڑا ہونے لگا۔ میں نے یہ سمجھا کہ میں حق پر ہوں، میری ماں باطل پر ہے، مجھے حق کی حمایت کرنا ہے۔ لیکن افسوس کہ میں شیطان کی اکساہٹ پر حق کی حمایت باطل طریقے سے کرنے لگی۔ میں نے اپنی والدہ کا خیال نہ کیا اور حق کی حمایت کے جوش میں اپنی آواز امی کی آواز سے بلند کر لی۔ فوراً مجھے خیال آیا کہ ہم نے مجلس درسِ قرآن میں کیا طے کیا تھا؟ مجھے آیت یاد آ گئی۔ میں نے اپنی آواز بالکل دھیمی کر لی۔ مجھے اب سکون محسوس ہونے لگا۔ جذبات کی شدت و حدت ختم ہو گئی۔ والدہ کا احترام غالب آ گیا۔ میں نے آگے بڑھ کر اپنی والدہ کا ہاتھ چوم لیا۔ گستاخی پر معذرت کی اور انہیں راضی کرنے کی بھرپور کوشش کرنے لگی۔

"اب امی بھی خاموش اور پُر سکون تھیں۔ کچھ دیر کے بعد انہوں نے مجھ سے دریافت کیا، "اچھا تو میرے ساتھ کب چلے گی؟ یہ عامل بڑا مشہور ہے۔ دور دور تک اس کی شہرت پہنچ چکی ہے۔ مجھے امید ہے کہ یہ بندہ تیری بہن کی شادی کے سلسلہ میں ہماری مدد کرئے گا۔ میں اس کو معاوضہ دوں گی۔" میں نے بڑی محبت اور چاہت سے کہا، لیکن ایک اور صاحب بھی ہیں جو آپ کی مدد بھی کریں گے، آپ سے کوئی فیس بھی طلب نہیں کریں گے۔ ان کا عمل بھی یقینی ہے۔ ان کے کام کی مکمل گارنٹی ہے۔ بلکہ جب تک آپ کا یہ کام ہو نہیں جاتا وہ ذاتی طور پر آپ کو سکون و اطمینان فراہم کریں گے۔

یہ سن کر میری والدہ نے بے ساختہ سبحان اللہ کہا اور بولیں "میری سہیلیوں اور جاننے والی عورتوں نے تو مجھے ایسے عامل کے بارے میں کچھ نہیں بتایا۔ لیکن اگر تجھے اس پر اعتماد ہے، یقین ہے تو کوئی بات نہیں، ہم اسی کے پاس چلے جائیں گے۔ اس میں کوئی مشکل نہیں۔" میں نے عرض کیا، "امی جان، اس عامل کا کیا کہنا۔ اس کی صلاحیت اور استعداد تو بے حد و بے شمار ہے۔ بلکہ اس کا تو یہ حال ہے کہ جب وہ کسی کام کے کرنے کا ارادہ کر لیتا ہے اور کہہ دیتا ہے کہ ہو جا تو وہ کام فوراً ہو جاتا ہے۔ وہ آپ سے مال بھی نہیں لے گا کیوں کہ وہ خود مال دار ہے۔ اس میں لالچ و طمع نہیں، وہ تو سخی ہے، خود لوگوں کو دیتا ہے۔ امی جان، آپ اسی سے ملئیے اور اس سے درخواست کیجیئے۔"

"میری والدہ میری یہ باتیں سن کر بہت خوش ہوئیں۔ کہنے لگیں "واللہ میں اس عامل کے بارے میں تمہاری باتیں سن کر بہت خوش ہوں۔ مگر میری پیاری بیٹی، ہمیں اب دیر نہیں کرنی چاہیے۔ تم اس سے ملنے کا وقت لے لو، تو ہم اس کے پاس جائیں۔ اس بات کا خیال رکھنا کہ وقتِ ملاقات جلد مل جائے۔" میں نے عرض کیا، ٹھیک ہے۔ ہم دیر نہیں کرتے۔ ہم اس کے پاس چلتے ہیں۔ دیکھیں وہ تو ہمارے پاس ہی آ گئے ہیں۔ امی نے حیران و پریشان ہو کر دائیں بائیں دیکھا۔ میں نے فوراً قبلہ کی طرف رخ کر لیا اور دعا کرنے لگی۔"

"میں گڑ گڑا کر، تضرع اور آہ و زاری سے فریاد کرتی رہی۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے مدد مانگتی رہی، اس کے سامنے دستِ سوال دراز کرتی رہی۔ میری والدہ زار و قطار رو رہی تھیں۔ وہ سجدے میں گر پڑی تھیں۔ توبہ و استغفار میں مشغول تھیں۔ اللہ سے مانگ رہی تھیں۔ جب مانگنے والا اس طرح مانگتا ہے تو اس کی مانگ پوری کی جاتی ہے۔ وہ سخی داتا کب کسی کی جھولی کو خالی ہاتھ جانے دیتا ہے۔"

جب یہ بہن اپنا ایمان افروز واقعہ سنا رہی تھیں تو ہر آنکھ اشک بار تھی۔
 

ابن خلیل

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 03، 2011
پیغامات
1,383
ری ایکشن اسکور
6,754
پوائنٹ
332

والدین میں تبدیلی

جب یہ بہن اپنا ایمان افروز واقعہ سنا چکیں تو محفل میں سے ایک آواز ابھری، "کیا میں کچھ عرض کر سکتی ہوں۔ کیا آپ لوگ میرا واقعہ سننا پسند کریں گے؟" ہم سب کی نظریں آواز کی سمت اٹھیں تو ایک دوشیزہ کھڑی تھی۔ اس کی عمر ابھی بیس سال بھی نہ ہوئی تھی۔ اس نے اپنا واقعہ کچھ یوں سنایا۔

"میں ماں باپ کی اکلوتی بیٹی ہوں۔ میرا کوئی اور بہن بھائی نہیں۔ اس لیے والدین میرا بہت خیال کرتے ہیں۔ بہت پیار کرتے ہیں۔ انہوں نے مجھے لاڈ پیار سے پالا ہے اور میری ہر بات مانی ہے۔ زندگی بڑے مزے سے گزر رہی تھی۔ والد جو کما کر لاتے، ہم حلال حرام کی تمیز کیے بغیر کھاتے۔ زندگی اسی ڈگر پر چل رہی تھی کہ اللہ نے مجھے آپ جیسی محترم مستورات کی محفل میں شرکت کی توفیق بخشی۔ یوں مجھے ایک نئی شیریں چیز کے ذائقے سے آشنا ہونے کا موقع ملا۔ یہ پیاری اور میٹھی چیز قرآن کریم ہے۔ اللہ سبحانہ کا کلام۔ اس کی حلاوت و لذت کا کیا کہنا۔ میری اس سے بڑی کیا سعادت ہو سکتی ہے کہ میں اپنے آپ کو آیت قرآنی کے سپرد کر دوں، اس پر عمل کروں اور لوگوں کو میرے ذریعے یہ معلوم ہو کہ قرآن پر عمل کا تجربہ کیسے ہوتا ہے۔"

"یہ سعادت تو بہت بڑی ہے، مگر ہمارے گھر میں ایک کش مکش شروع ہو گئی۔ میرے اور میرے والدین کے درمیان ایک تصادم کی صورت پیدا ہو گئی۔ وہ چاہتے تھے کہ میں ان کی مرضی پہ چلوں، وہ کام کروں جو وہ اپنے تصور کے مطابق، میرے دنیوی فائدے کے لیے چاہتے تھے۔ حلال و حرام اور جائز و ناجائز کا فرق نہ کروں۔ وہ مجھے مجبور کرنا چاہتے تھے کہ میں ان کے ساتھ کلب جایا کروں، وہاں دوست بناؤں۔ وہاں جا کر دوستوں سے کھیلوں، ورزشیں کروں اور مختلف کھیلوں میں حصہ لوں۔ میں کلب جانے کے لیے ان کی پسند کا لباس زیبِ تن کروں تاکہ سب کی نظروں میں جچوں، سب مجھے پسند کریں۔ کلب کے کھیلوں میں لازماً شرکت کروں تاکہ وہاں نوجوان مجھے دیکھیں، پسند کریں۔ ان کی خواہش تھی کہ میرے جسم کا زیادہ تر حصہ بے لباس ہو۔ وہ مجھے مجبور کرتے تھے کہ میں تھیٹر دیکھوں، ڈرامے دیکھوں، خواہ وہ کتنے ہی بے ہودہ اور لچر کیوں نہ ہوں۔"

"والدین کے تقاضے اور ان کا اصرار اس مجلسِ درسِ قرآن سے بالکل متصادم تھا۔ میں نے اگر آپ کی اس مبارک محفل میں شرکت نہ کی ہوتی تو شاید میں اپنے والدین کے اصرار پر ان کے مطالبات مان لیتی مگر میری خوش قسمتی تھی کہ مجھے اس مقدس مجلس میں شرکت کا موقعہ ملا۔ شروع شروع میں تو میں والدین کے سامنے چلا چلا کر بولتی تھی۔ میں ان کے ساتھ کلب اور تھیٹر میں جانے سے انکار کر دیتی اور اپنے کمرے میں گھس کر اندر سے دروازہ بند کر لیتی۔ میں جب بھی ان سے ملتی نہایت ترش روئی کے ساتھ، روکھے پھیکے انداز میں۔ میں سمجھتی تھی کہ میرا اپنے والدین کے ساتھ اس طرح ترش روئی سے پیش آنا اطاعتِ الٰہی کی معراج اور جہادِ اکبر ہے۔ مگر جب آپ کی طرف سے
"فَلاَ تَقُل لَّھُمَآ اُفٍّ وَلاَ تَنْھَرْھُمَا (بنی اسرائیل 23:17)"
پر عمل کرنے کا کام تفویض ہوا تو صورتِ حال بالکل بدل گئی۔تیوری چڑھانے کے بجائے میں مسکرانے لگی۔ دروازہ بند کرنے کے بجائے میں انکے ساتھ بیٹھنے لگی۔ میں اس نے محبت و احترام سے بات کرتی، ان کی مدد کرتی۔ میں ان کا شکریہ ادا کرتی کہ انہوں نے میرے لیے اتنی تکلیفیں برداشت کیں ہیں اور اتنا مال صرف کیا ہے۔ میں تو امرِ الٰہی کی پابندی کر رہی تھی۔ میں نے آہستہ آہستہ انہیں اپنی نئی سہیلیوں سے واقف کروایا۔ میں نے انہیں بتایا کہ یوں کریں تو اللہ خوش ہوتا ہے، فلاں کام کریں تو اللہ راضی ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فلاں چیز کے بارے میں یہ حکم ہے۔ اللہ نے فلاں کام سے روکا ہے۔"

"میں نے دیکھا کہ میرے والدہ کافی بدل گئی ہیں۔ وہ مجھ سے قرآن کریم اور اسلام کے بارے میں زیادہ معلومات لینے میں دلچسپی لے رہی ہیں۔ وہ اپنے سابقہ خیالات و اعمال پر نادم ہیں۔ یہ ندامت ان کے چہرے سے عیاں تھی۔ میں آپ سب کو یہ بتا کر حیران کرنا چاہوں گی کہ میری امی میرے ساتھ بیٹھی ہیں۔"

ماں نے اٹھ کر اپنی بیٹی کو گلے لگایا اور وہ اس کے چہرے کو مسلسل چومنے لگی۔ ہم سب نے یہ دیکھا تو اللہ سبحانہ کی قدرت پر حیران تھیں کہ وہ کس طرح دلوں کو بدل دیتا ہے۔ اپنے بندوں پر کس قدر مہربان ہے۔
 

ابن خلیل

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 03، 2011
پیغامات
1,383
ری ایکشن اسکور
6,754
پوائنٹ
332

ایک بہن کا عجیب تجربہ

یہ ایمان افروز منظر ابھی ختم نہیں ہوا تھا کہ ایک خاتون کھڑی ہوئیں۔ انہوں نے حسرت بھری نظر ماں بیٹی پر ڈالی اور پھر یوں گویا ہوئیں، "سبحان اللہ، یہ سب کچھ کیسے ہو گیا؟ میری امی تو میری کوئی بات نہیں مانتیں۔ میں نے انہیں منانے اور قائل کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے مگر بے سود۔"

ہم نے اس بہن کو بتایا کہ اس کے لیے صبر و برداشت چاہیے۔ ہمیں محنت کرنی چاہیے۔ استقلال سے کام لینا چاہیے۔ آپ کو آیات پر عمل کرنے کے ساتھ ساتھ دعا سے بھی کام لینا چاہیے۔ ال لیے کہ دل تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے قبضے میں ہیں۔ وہ جس طرف چاہے دلوں کو پھیر دیتا ہے۔ آپ کا کام عمل کرنا ہے، دعا کرنا ہے اور رحمت الٰہی سے کبھی بھی مایوس نہ ہونا ہے۔ اس کے بعد تمام شرکائے درس نے وعدہ کیا کہ سب رات کی تنہائیوں میں اس بہن کی والدہ کے لیے دست بہ دعا ہوں گی۔

اختتامِ درس پر ہم نے یہ طے کیا کہ ابھی اس آیت پر ہی عمل رہے گا۔ اس کے ساتھ اس آیت کے مزید یہ الفاظ بھی شامل ہوئے
"قُل لَّھُمَا قَوْلاً كَرِيمًا (بنی اسرائیل 23:17) -
بلکہ ان سے احترام سے بات کرو۔

اب ہم اس آیت کے ساتھ ہفتہ گزاریں گے۔ ہم اس آیت کو دہراتے رہیں گے حتیٰ کہ یہ آیت ہمارے دلوں میں جاگزیں ہو جائے۔ پھر ہمارے اعضا و جوارح اس پر عمل کریں گے۔ ہم اپنے حواس بھی اس آیت پر عمل کے لیے استعمال کریں گے اور آئندہ ملاقات میں اس آیت کے تجربات بیان ہوں گے۔

بات تو بظاہر بہت آسان معلوم ہوتی ہے۔ مگر ہر انسان کی کچھ مخصوص عادات ہوتی ہیں۔ جن پر اس کی پرورش ہوئی ہوتی ہے۔ ان عادات کو چھوڑنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ والدین کے ساتھ بات کرنے اور عام انسان کے ساتھ بات کرنے میں بہت فرق ہے۔ کوئی تو اپنے والدین کے ساتھ ترش رو ہو کر بات کرتا ہے۔ ان کی ہر بات کو رد کر دیتا ہے۔ لاپرواہی سے جواب دیتا ہے۔ کوئی اپنے ماں باپ سے عام روایتی طریقے کے مطابق بات کرتا ہے۔ جب کہ کوئی شخص اپنے والدین کے ساتھ سختی سے پیش آتا ہے اور اسے اس کا احساس بھی نہیں ہوتا۔ کوئی ایسا بھی ہے جسے یہ بات یاد نہیں کہ اس نے اپنی پوری زندگی میں کبھی ایک بار بھی اپنے والد یا والدہ کا ہاتھ چوما ہو۔ ذیل میں کچھ تجربات درج کیئے جاتے ہیں جس سے بات واضح ہو جائے گی۔
 

ابن خلیل

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 03، 2011
پیغامات
1,383
ری ایکشن اسکور
6,754
پوائنٹ
332

والدین سے محبت کا اظہار

"جب میں اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد "بلکہ ان سے احترام سے بات کرو" دہرایا کرتی تھی تو میں سمجھتی تھی کہ یہ تو محض چند منتخب الفاظ دہرا دینے کی بات ہے۔ والدین کے سامنے چند جچے تلے جملے کہہ دیئے جائیں تو ان کا احترام ہو جاتا ہے۔ مگر یہ میرا محض گمان ثابت ہوا، اس کا حقائق سے کوئی تعلق نہ تھا۔ میں ایک بار اپنی والدہ محترمہ کے پاس گئی، پہلے سے کچھ جملے سوچ لیے تھے۔ خیال یہ تھا کہ یہ جملے دہرا دوں گی۔ میں نے والدہ کے سامنے جا کر یہ رٹے ہوئے فقرے ادا کرنے چاہے مگر میری زبان بند ہو گئی۔ مجھے سخت صدمہ پہنچا کہ میں اپنی والدہ کے روبرو چند جملے نہ کہہ پائی اور پہلی ہی کوشش میں ناکام ہو گئی۔ پھر میں نے از سرِ نو اپنے اندر جرات کو مجتمع کیا اور چاہا کہ اپنے والد بزرگوار کے سامنے اپنے ادب و احترام کا اظہار کر پاؤں، ان کو یہ باور کرا دوں کہ مجھے ان سے کتنا پیار اور تعلق ہے۔ مگر اس بار بھی جملے دھرے کے دھرے رہ گئے۔"

"اس بار میں نے اپنے آپ سے کہا اللہ چاہے گا تو ناکام نہیں رہوں گی۔ بات تو معمولی سی ہے۔ مجھے کیا ہو گیا ہے؟ میرے اندر سے آواز آئی، جب تو یہ فقرے ادا کرئے گی تو تیرے ماں باپ حیران ہو جائیں گے۔ ہو سکتا ہے تو ہنس پڑے اور اپنے بہن بھائیوں کے تمسخر کا نشانہ بنے۔ اس پر میں نے اللہ سبحانہ سے دعا کی کہ یا اللہ مجھے اپنی آیت پر عمل کا شرف عطا فرما۔ پھر مجھے ایک خیال آیا۔ میں بازار گئی، جہاں گل فروش پھول بیچتے ہیں۔ میں نے وہاں سے اپنی امی اور ابا کے لیے پھول خریدے۔ گھر آ کر میں نے پہلے اپنی امی کو پھول پیش کیے اور ساتھ ہی یہ الفاظ کہے، "میری میٹھی ماں، یہ آپ کے لیے ہیں۔"اس پر میری امی مسکرائیں۔ میں ان کی اس مسکراہٹ کو کبھی بھول نہ سکوں گی۔ مرتے دم تک یاد رکھوں گی۔ وہ مجھے کہہ رہی تھیں، "کیا میں تمہارے نزدیک ایسی ہوں؟" میں نے جواب دیا، "امی آپ مجھے پوری دنیا سے زیادہ پیاری ہیں۔ آپ مجھے کُل جہاں سے زیادہ عزیز ہیں۔ آپ میرے نزدیک اس کائنات میں سب سے زیادہ قیمتی ہیں۔ آپ کے بغیر یہ عالم سراب ہے۔"

"میں نے یہ الفاظ کہہ دیئے اور اپنی امی کا ردِ عمل جاننے کا انتظار نہیں کیا، سیدھی اپنے والد صاحب کے پاس چلی گئی اور انہیں پھول پیش کرتے ہوئے کہا، "میری طرف سے آپ کے لیے چند پھول۔ اللہ بہترین جزا دے۔ میں آپ کے لیے بہت دعا کرتی ہوں۔" ابا جی نے مجھ سے کہا، "خیر ہو، خیریت ہے؟ آج آپ بہت خوش ہیں، کیا بات ہے؟" میں نے جواب دیا، "جی ہاں۔ میں آپ دونوں سے بہت خوش ہوں۔"

"میں نے فوراً اپنے کمرے کا رخ کیا۔ میرا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا۔ میں نے اپنے آپ سے کہا، بات تو بہت آسان تھی۔ اب میں کتنی خوش بخت ہوں۔ میرے والدین نے میرے اظہار محبت کو قبول کر لیا ہے۔ اب میں والدین کے ہاتھوں پر بوسہ دیتی ہوں۔ میری زندگی اب با معنیٰ ہو چکی ہے۔ مجھے زندگی کا اس سے پہلے کبھی اتنا لطف نہیں آیا تھا۔ میں آپ سب سے یہی درخواست کرتی ہوں کہ قرآن کریم کے اس حکم پر عمل کیجیئے اور سعادت دارین حاصل کیجیئے۔"
 

ابن خلیل

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 03، 2011
پیغامات
1,383
ری ایکشن اسکور
6,754
پوائنٹ
332

ایک بھائی کا والدین سے حسن کلام

اس کے بعد ایک خاتون نے کہا، "جس بہن نے ابھی ابھی اپنا واقعہ بیان کیا ہے وہ بہت خوش نصیب ہے۔ میں نے تو اپنے والدین کے سامنے اتنے اچھے جملے ادا نہیں کیئے۔ البتہ میرا ایک بھائی ہے۔ وہ میرا انتظار کرتا رہتا ہے۔ میں جوں ہی درسِ قرآن سن کر گھر جاتی ہوں تو فوراً میرے پاس آتا ہے اور معلوم کرتا ہے کہ آج کے درس میں عمل و حرکت کے لیے کون سی آیت منتخب ہوئی ہے۔ میں اس آیت کی شرح و تفسیر بیان کرتی ہوں۔ معانی اور سبب نزول بتاتی ہوں۔ چنانچہ اس نے مجھ سے عمل کے لیے یہ آیت لے لی

"قُل لَّھُمَا قَوْلاً كَرِيمًا (بنی اسرائیل 23:17)۔

یہ آیت اس کی زبان پر رواں ہو گئی اور اس کے عمل کا محرک بنی۔ اس کے بعد والدین کے ساتھ اس کا طرزِ عمل بالکل بدل گیا ہے۔ میرے ماں باپ اس کے لیے ہر وقت دعائیں کرتے رہتے ہیں۔ میں چند دن پہلے اپنی امی کو یہ کہتے ہوئے سن چکی ہوں کہ شاید اللہ تعالیٰ مجھے یہ نیک و فرماں بردار بیٹا جننے کی وجہ سے جنت میں داخل فرمائے گا۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ میں اب کیا کروں؟ میرا بھائی مجھ سبقت لے گیا ہے۔"

اس پر ایک خاتون نے اس کی ہمت بندھاتے ہوئے مشورہ دیا کہ آپ بار بار کوشش کریں۔ ہم سب کو قرآن کریم پر عمل کے لیے محنت و کوشش سے کام لینا چاہیے۔ قرآن کریم کے مطابق عمل کرنا ہی سب سے زیادہ بہتر ہے۔
 

ابن خلیل

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 03، 2011
پیغامات
1,383
ری ایکشن اسکور
6,754
پوائنٹ
332

میراث

میراث اللہ کی حدوں میں سے ایک حد ہے۔ اسے اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے خود ہی مقرر فرمایا ہے۔ میراث کی تقسیم کے اصول و قواعد کا تعین اللہ نے کر دیا ہے۔ اسے کسی انسان کی مرضی اور صواب دید پر نہیں چھوڑا۔اس نے اپنی حکمت بالغہ اور عدل سے کام لیتے ہوئے میراث کے بارے میں جامع احکام دے دیئے ہیں۔ نصاب اور حدیں مقرر فرما دی ہیں۔ ورثا متعین کر دیئے ہیں۔

ہم نے اپنے درس قرآن میں آیات میراث کی تشریح و توضیح کی تا کہ ہم سب ان آیات کے مطابق چلیں اور اپنے اوپر ان کا اطلاق کریں۔ درس کے بعد متفقہ طور پر یہ طے پایا کہ ورثے کی ان تمام آیات پر عمل درآمد کیا جائے جن کا آغاز اس آیت سے ہوتا ہے،

يُوصِيكُمُ اللّہُ فِي اَوْلاَدِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الاُنثَيَيْنِ (النساء 11:4) -
تمہاری اولاد کے بارے میں اللہ تمہیں ہدایت کرتا ہے۔ مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہے۔
 

ابن خلیل

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 03، 2011
پیغامات
1,383
ری ایکشن اسکور
6,754
پوائنٹ
332

زیورات کی تقسیم

ایک خاتون میرے پاس آئیں اور مجھے بتایا، "میری والدہ فوت ہو گئیں، ان کے وارث ہم دو بہن بھائی تھے۔ میں نے اپنی والدہ کا سارا سونا لے لیا۔ جیسا کہ ہمارے ملک میں دستور ہے۔ زمین بیٹے لے لیتے ہیں، بہنوں کو نہیں دیتے تاکہ کوئی غیر ہماری آبائی زمین کا حصہ دار نہ بن سکے۔ بیٹیاں سونا اور زیورات لے لیتی ہیں تاکہ کوئی غیر عورت ان زیورات کو نہ پہن سکے اور مرحومہ کی بیٹیاں ہی انہیں استعمال کریں۔ میری والدہ کو فوت ہوئے کئی سال گزر چکے لیں۔ سونا ابھی تک میرے پاس ہی ہے۔ بھائی نے اس میں سے نہ کچھ لیا ہے، نہ ہی میں نے اسے دیا ہے اور نہ ہی میرے بھائی نے مجھ سے کبھی اس کا مطالبہ کیا ہے۔ اب میں ورثے والی آیات پر عمل کرنا چاہتی ہوں۔ آپ بتائیے میں‌ کیا کروں؟ میری والدہ اور میری بھابھی کے مابین چپقلش سی رہتی تھی۔ اس لیے میں اپنی بھابھی کو دیکھنے کی بھی روادار نہیں ہوں۔ کجا یہ کہ میں اسے اپنی والدہ مرحومہ کے زیورات پہنے دیکھوں۔ میری وہ والدہ جسے اس بھابھی نے ستایا اور ان سے ترک تعلق کیئے رکھا۔"

میں نے کہا، "میری عزیز بہن، میراث تو دراصل اللہ کی ملکیت ہے۔ اللہ نے ہمیں اس میں نائب بنایا ہے۔ جب بھی کسی مسلمان کی وفات ہوتی ہے تو اللہ کے ارادے اور اذن کے مطابق ہی ان آیات کی رو سے اس کی میراث مستحقین میں تقسیم کی جاتی ہے۔ لہٰذا اس اصول کے مطابق یہ سونے کے زیورات آپ کی ملکیت نہیں ہیں، نہ آپ کا حق ہیں۔ یہ زیورات اللہ کا حق ہیں۔ اللہ نے یہ بتا دیا ہے کہ اس کا مستحق کون ہے۔ پس اللہ کی منشا و مراد یعنی اس کے قرآن کریم کی رہنمائی کے مطابق ہی یہ زیورات تقسیم ہوں تو اللہ راضی ہے۔ جو شخص اللہ کا حق ادا نہیں کرتا، اسے اللہ سبحانہ کی طرف سے سخت سزا ملے گی۔"

سوال کرنے والی خاتون نے اپنے چہرے کو ہتھیلیوں کی گرفت میں لیتے ہوئے کہا، "معاذ اللہ، میرا مقصد اللہ کی حدود سے تجاوز کرنا نہیں ہے۔ میں تو یہ بتانا چاہتی تھی کہ ہمارے یہاں رواج اور عرف کیا کیا ہیں؟ انہی رواجوں پر کئی نسلوں سے عمل درآمد ہوتا چلا آ رہا ہے۔"

میں نے کہا، "اسی لیے تو ہم نے آیاتِ قرآنی پر چلنے کا عہد کیا ہے تاکہ غیر اللہ کے طریقوں کو چھوڑ دیں۔ اس قسم کے رسم و رواج تو محض خواہشاتِ نفسانی ہیں۔ لوگ ان کی پیروی کرتے ہیں حالانکہ اللہ نے ان رسوم و رواج کے حق میں کوئی آیت نازل نہیں کی۔"

"پیاری بہن، آپ اصل مالک سے مدد لیجیئے، اس کے حکمت بھرے احکام کے آگے جھک جائیے۔ اللہ سبحانہ کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق تمام ورثہ تقسیم کر دیجیئے۔ ہر حق دار کو اللہ کے قانون کے مطابق اس کا حصہ دیجیئے۔ آپ کے بھائی کے پاس آپ کا کوئی حق ہے تو تقاضا کیجیئے، مطالبہ کیجیئے۔ اللہ کے حکم و امر کو نافذ کیجیئے۔ جب ہر حق دار اپنا حق لے لے، تو اس کے بعد اگر وہ دل سے چاہے تو کسی چیز سے کسی دوسرے کے حق میں دست بردار ہو سکتا ہے۔ کوئی چیز اپنے کسی عزیز کو ہبہ کر سکتا ہے۔ اس کے لیے کامل رضا مندی ہونا ضروری ہے۔ اس میں شرم و لحاظ، عرف و رواج اور پیرویِ خواہشات کا دخل نہیں ہونا چاہیے۔"

سوال پوچھنے والی بہن نے کہا کہ "میں ان شاء اللہ اللہ کی آیات کے مطابق چلوں گی۔"

چند دنوں کے بعد یہی بہن میرے گھر آئی۔ خوشی و مسرت سے اس کا چہرہ دمک رہا تھا۔ آتے ہی کہنے لگی، "پیاری باجی اللہ کی آیات نے میرے سینے کے بوجھ کو بالکل ہلکا کر دیا ہے۔ میں جب آپ سے ملاقات کے بعد گھر پہنچی تو مجھے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ میں چور ہوں اور میں معاذ اللہ اللہ کا مال چرایا ہے۔ اللہ کا مال جس میں وہ اپنی حکمت و ارادے سے تصرف کرتا ہے۔ میں نے اللہ کی ملکیت میں سے وہ کچھ چرا کر اپنے پاس رکھ لیا ہے، جس کی میں شرعاً و قانوناً حق دار نہ تھی۔ میں نے مالکِ حقیقی سے اجازت لیے بغیر مال پر قبضہ کر لیا ہے۔ مجھے رہ رہ کر یہ خیال آتا رہا کہ یہ مال اللہ کا تھا۔ اللہ نے میری والدہ کو اس کا مالک بنایا تھا۔ والدہ فوت ہوئیں تو اس مال کا مالک پھر اللہ پاک بن گیا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ اس مال کو اللہ کے بتائے ہوئے قوانین و احکام کے مطابق حق داروں میں تقسیم کیا جاتا۔ والدہ کی وفات کے ساتھ ہی ان کا حق ملکیت ختم ہو گیا تھا۔ میں نے اللہ کے مال پر قبضہ جما کر چوری کی۔ مجھے یہ احساس شدت سے رہنے لگا۔"

میں نے کہا، "گھبرایئے نہیں۔ یہ احساس زیاں بہت قیمتی ہے۔ گویا آپ اپنے کیئے پر نادم و پشیمان ہیں اور اللہ کی آیات پر عمل کے لیے آمادہ ہیں۔"

"بہن، آپ نے درست فرمایا۔ یہ احساسِ جرم واقعی ایک قیمتی سرمایہ ہے۔ یہ احساس ہی مجھے مجبور کر رہا تھا۔ چنانچہ میں اپنے بھائی کے پاس گئی، اپنے ساتھ امی کا سارا سونا اور زیورات لیتی گئی۔ میں نے جا کر بھائی سے کہا، اب وقت آ چکا ہے کہ سارے فیصلے اللہ کے حکم کے مطابق ہوں۔ ہمارے اور آپ لوگوں کے مابین تمام جھگڑوں کا فیصلہ قرآن کے مطابق ہو گا۔ ہم سب کو ان آیات پر عمل کرنے کا اجر و ثواب ملے گا۔ اب ہم سونے اور زیورات کو تقسیم کریں گے۔ مگر یہ تقسیم ہماری خواہشات اور رسوم رواج کے مطابق نہ ہو گی بلکہ اللہ کے ارادے کے مطابق ہو گی۔"

"میرے بھائی نے شرم و لحاظ اور مروت کا اظہار کرتے ہوئے کہا، "میں آپ کے حق میں اپنے تمام حقوق سے دست بردار ہوتا ہوں۔" میں نے جواب دیا، "بھائی جان، ابھی نہیں۔ پہلے آپ اپنا پورا حصہ لے لیں۔ پھر آپ اپنی مرضی سے جو کچھ مجھے دیں گے، میں قبول کر لوں گی۔ اپ ابھی سے کچھ طے نہ کریں۔ دو دن تک آپ اپنا حصہ اپنے پاس رکھیں۔ دو دن کے بعد آپ جو چاہیں فیصلہ کریں۔ مجھے کوئی اعتراض نہ ہو گا۔"

"دو دنوں کے بعد بھائی صاحب میرے پاس تشریف لائے۔ ان کے پاس کچھ زیورات تھے۔ انہوں نے زیادہ تر زیورات اپنے پاس رکھ لیے تھے۔ بھائی صاحب بولے، "میری طرف سے یہ آپ کے لیے تحفہ ہے۔"میں قسم اٹھا کر کہتی ہوں کہ ان تھوڑے سے زیورات کو بطور تحفہ وصول کر کے اتنی زیادہ خوشی ہوئی جتنی مجھے تمام زیورات لے کر بھی حاصل نہ ہوئی تھی۔ اللہ کی آیات نے مجھ پر بہت کرم کیا ہے۔ میں قرآن نازل کرنے والے کی شکرگزار ہوں اور پھر درس قرآن کا اہتمام کرنے والوں کی سپاس گزار ہوں۔"

اس بہن کی گفتگو سے میں بہت متاثر ہوئی۔ عورتوں کو سونے، چاندی اور زیورات سے بہت دل چسپی ہوتی ہے۔ لیکن اس بہن نے جرات سے کام لے کر اپنی تمام تر خواہشات و ترغیبات کو بالائے طاق رکھ کر، رسم و رواج کو چھوڑ کر، اللہ کے مضبوط قلعے میں پناہ لی۔ اس جرات آمیز اقدام سے اس کے ایمان میں بے پناہ اضافہ ہوا۔
 

ابن خلیل

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 03، 2011
پیغامات
1,383
ری ایکشن اسکور
6,754
پوائنٹ
332

دوسرا تجربہ

میں اپنی ایک سہیلی کے گھر گئی تاکہ اسے اس کی بیٹی کی شادی کی مبارک دے سکوں۔ دورانِ ملاقات میری میزبان نے کہا، "اللہ کا شکر ہے جو آپ کو یہاں لے آیا۔ میرے اور میری امی کے درمیان کچھ اختلافات ہیں۔ ہم دونوں آپ کو منصف بناتی ہیں۔ آپ ہمارے اس جھگڑے کا فیصلہ کریں۔ آپ کو فیصلہ ہم دونوں ماں بیٹی صدق دل سے قبول کر لیں گی۔" اس کی امی بھی وہیں بیٹھی ہوئی تھیں۔ اس ایک بیٹی کے سوا ان کی کوئی اولاد نہ تھی اور نہ ہی اس بیٹی کے سوا دنیا میں ان کا کوئی اور قریبی عزیز تھا۔ اسی لیے وہ اپنی بیٹی کے پاس رہ رہی تھیں۔ اس سے الگ نہ رہ سکتی تھیں، نہ اس نے کبھی اپنی بیٹی سے الگ رہنے کا سوچا تھا۔ میں نے ماں کی طرف دیکھا تو مجھے اس کے چہرے پر حیرت اور پریشانی نظر آئی۔

میزبان خاتون نے کہا، "باجی جیسا کہ آپ جانتی ہیں میں اپنی والدہ کی اکلوتی اولاد ہوں۔ میں اور امی گویا یک جان ہیں۔ میرا ایک ماموں ہے جو کبھی اپنی بہن سے ملنے کے لیے نہیں آتا، نہ ہی ان کی خیر و عافیت دریافت کرتا ہے۔ میری والدہ کی وفات کے بعد لازمی طور پر اسے بھی ترکے میں سے حصہ ملے گا حالانکہ اس نے میری والدہ کا کوئی حق بھی ادا نہیں کیا۔ میں امی سے کہتی رہتی ہوں کہ وہ ایک دستاویز لکھ دیں جس کی رو سے ان کے سارے ترکے کی میں ہی وارث بنوں۔ میرا ماموں وارث نہ بن سکے اور امی کے مال و سامان سے فائدہ نہ اٹھا سکے۔ میری امی کہتی ہیں کہ میں بھی یہی چاہتی ہوں مگر اللہ سے ڈرتی ہوں۔ اس لیے ہمیں آپ کی رائے اور مشورے کی ضرورت ہے۔

میں نے اس کی والدہ کی طرف بہت احترام سے دیکھا اور عرض کیا، میں آپ کی رائے خود آپ سے سننا چاہتی ہوں۔ والدہ نے کہا، "میں اللہ سے ڈرتی ہوں۔ زندگی اور عمر اس کے قبضے میں ہے۔ میں یہ دستاویز کیسے لکھ دوں۔ اگر اتفاق سے میری بیٹی مجھ سے پہلے فوت ہو جائے تو کیا میرا داماد اور اس کے بچے مجھے جائیداد سے محروم نہ کر دیں گے۔ یوں میری زندگی میں وہ مجھے میرے مال سے محروم کر دیں گے اور میرا سارا مال و دولت ان کی ملکیت بن جائے گا۔"

بیٹی نے جواب دیا، "امی آپ چاہتی ہیں کہ میں آپ کی زندگی میں مر جاؤں؟ اور آپ میرے بعد زندہ رہیں۔"ماں نے کہا، "بیٹی زندگی کے بارے میں صرف اللہ ہی جانتا ہے کہ کس نے کتنا زندہ رہنا ہے کس نے پہلے فوت ہونا ہے اور کس نے بعد میں۔"

بیٹی صحت مند اور توانا تھی۔ ماں بوڑھی تھی مگر اس کا چہرہ ایمان سے تمتما رہا تھا۔ میں نے ماں کی بجائے اس کی بیٹی سے خطاب کرتے ہوئے کہا، "میری پیاری بہن، زندگی اور موت کے فیصلے ساتوں آسمانوں کی بلندیوں پر بہت پہلے ہو چکے ہیں۔ خالقِ کائنات نے یہ فیصلے کر دیئے ہیں۔ آپ کی والدہ جب خوفِ خدا کی بات کرتی ہیں تو انہیں ایسا کرنے کا حق ہے۔ ورثے کی تقسیم کا تعلق حدودِ الٰہی سے ہے۔ کسی بھی جوان مرد یا عورت کو اس میں مداخلت کرنے کی اجازت نہیں خواہ وہ اپنے آپ کو کتنا ہی عقل مند اور ذہین کیوں نہ سمجھتا ہو۔ آپ کی والدہ اگر اپنے رب کے حضور پیش ہونے کے لیے تیاری کر رہی ہیں، تو اس میں آپ کا کیا نقصان ہے؟ اور آپ کو کیا اعتراض ہے؟ آپ کی والدہ صحیح کہتی ہیں کہ ان کی وفات کے بعد مال ان کا نہیں رہے گا بلکہ یہ اللہ کا مال ہو جائے گا۔ اللہ کا حق ہو گا اور وہی اس کا مالک ہو گا۔ اس مال کو تقسیم کرنے کا حق بھی اللہ ہی کو ہے۔ وہ جیسے چاہے تقسیم کرے۔

"باقی رہا آپ کا اپنی والدہ سے یہ مطالبہ کرنا کہ وہ ساری جائیداد آپ کے نام لکھ دیں، یہ سراسر احکامِ الٰہی سے تجاوز ہے۔ ماموں کے بے رخی کو آپ نے انہیں جائیداد سے محروم کرنے اور خود اس پر قبضہ کرنے کا ایک حیلہ بنا رکھا ہے۔ یہ حیلہ آپ کے ذہن کی اختراع ہے۔ یہودیوں نے بھی احکامِ الٰہی کی تعمیل سے بچنے کے لیے اسی قسم کی حیلہ تراشیاں کی تھیں۔ اسی لیے انہیں بندر اور سؤر بنا دیا گیا تھا۔

کیا آپ نے اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد نہیں سنا
فَاِن كُنَّ نِسَاء فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَھُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ وَاِن كَانَتْ وَاحِدَۃً فَلَھَا النِّصْفُ (النساء 11:4) -
اگر میت کی (وارث) دو سے زائد لڑکیاں ہوں تو انہیں ترکے کا دو تہائی دیا جائے اور اگر ایک ہی لڑکی وارث ہو تو آدھا ترکہ اس کا ہے۔

"آپ اس آیت کو بار بار پڑھیے اور پھر اپنے آپ سے پوچھیئے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیات اپنے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و سلم پر کیوں اتاری ہیں؟ پھر یہ بھی سوچیئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ آیات ہم تک پہنچانے کے لیے کتنی تکالیف برداشت فرمائی ہیں۔ کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ ساری محنتیں اور مشقتیں اور یہ ساری تگ و دو محض اس لیے کی ہے کہ یہ آیات کتاب کے اندر بند پڑی رہیں اور کتاب کو خوبصورت جلد اور منقش و مزین غلاف میں لپیٹ کر رکھ دیا جائے؟"

"میری بہن، خواہشات کی بیڑیوں نے آپ کی حرکت روک رکھی ہے۔ اس لیے آپ آیات کے مطابق چلنے سے قاصر ہیں۔ آپ سوچیں اور بار بار سوچیں کہ اللہ نے اپنی آیات بند رکھنے کے لیے نازل کی ہیں یا اس لیے اتاری ہیں کہ دنیا کو صداقت و عدالت اور نور سے بھر دیں۔ آپ بار بار اللہ کے اس حکم کو دہرائیں، بار بار پڑھیں

وَاِن كَانَتْ وَاحِدَۃً فَلَھَا النِّصْفُ (النساء 11:4) -
اور اگر ایک ہی لڑکی وارث ہو تو آدھا ترکہ اس کا ہے۔

"نصف تو آپ کا ہے مگر باقی نصف میں تصرف کرنے کا اختیار آپ کو نہیں۔ باقی نصف اللہ کی ملکیت ہے۔ وہ اس کے حکمت و عدل سے بھرپور قانون کے مطابق تقسیم ہو گا۔ آپ اللہ پر اعتماد کریں، اس پر یقین کریں۔ آپ اس محبت کو یاد کریں جو اللہ سے آپ کو ہے۔ آپ تصور میں لائیں اس نماز کو جو آپ اللہ کی بندگی کرتے ہوئے ادا کرتی ہیں۔ اپنے روزوں اور صدقہ و خیرات کو یاد کریں جنہیں آپ اللہ کے حکم کی تعمیل اور اس کی محبت میں رکھتی اور دیتی ہیں۔ میراث کے بارے میں اللہ کا حکم نماز، روزے اور صدقے کے حکم سے الگ نہیں ہے۔ جس طرح آپ اللہ کی خاطر اس کے باقی احکام کی تعمیل کرتی ہیں، اسی طرح آپ کو ترکے کی تقسیم کے بارے میں بھی اس کے حکم کی اطاعت کرنا چاہیے۔ میں تو سمجھتی ہوں کہ آپ کو ایسی عظیم عورت کی بیٹی ہونے پر فخر کرنا چاہیے جو شریعتِ اسلامیہ کے احکام پر عمل کرنے کے لیے اپنی خدمت گزار محبوب اکلوتی بیٹی کی بھی پرواہ نہیں کرتی۔"

یہ باتیں ہو چکیں تو میں نے واپسی کے لیے اجازت مانگی۔ میں ان دونوں کے لیے دعا کرتی رہی کہ اللہ انہیں متفق کرئے اور ماں بیٹی دونوں کو حکمِ رب کی اتباع کو توفیق ارزاں ہو۔

درس قرآن کے دن ماں بیٹی دونوں آئیں۔ بیٹی نے ہنستے ہوئے بتایا کہ "میں غور و فکر کے بعد اس نتیجے پر پہنچی ہوں کہ میرے خیالات شیطانی وسوسوں کے سوا کچھ نہ تھے۔ میں اللہ کے فیصلے پر راضی ہوں۔ میرے دل میں اپنے ماموں کے خلاف اب ذرا بھی کدورت نہیں۔ میرا دل الحمد للہ اب بالکل صاف ہے۔"

میراث کے بارے میں حکمِ الٰہی کے سامنے سرِ تسلیم خم کرنے کے بعد ابھی ایک سال بھی مکمل نہیں ہوا تھا کہ یہ بیٹی اللہ کو پیاری ہو گئی۔ ماں اب تک موجود ہے، زندہ ہے اور اپنا رزق کھا رہی ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ ہماری اس بہن کو اللہ کے حکم پر چلنے کی توفیق ملی، اس سے پہلے کہ اس کی قبر پر مٹی پڑتی۔

 

ابن خلیل

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 03، 2011
پیغامات
1,383
ری ایکشن اسکور
6,754
پوائنٹ
332
بروقت تقسیم
ایک خاتون کا شوہر فوت ہو گیا۔ اس کی اولاد میں سے کچھ شادی شدہ تھے، باقی چھوٹے تھے اور اس بیوہ کی سرپرستی میں تھے۔ خاوند کے وفات کے بعد بیوہ نے مرحوم کی تمام جائیداد اپنے پاس رکھ لی، تقسیم نہ کی اور جس طرح شوہر کی زندگی میں گھر کا نظام چل رہا تھا اسی ڈگر پر چلتا رہا۔ بیوہ کا کہنا یہ تھا۔ کہ اس کے چھوٹے بچوں کی تربیت و تعلیم کے لیے مال کی ضرورت ہے۔ اس نے جس طرح اپنے بڑی بچوں کی تعلیم و تربیت کی ہے، اسی طرح وہ اپنے چھوٹے بچوں کی تعلیم و تربیت کا انتظام کرئے گی۔ شادی شدہ بچوں نے والدہ کی بات سے اتفاق کیا۔ یہ الگ بات ہے کہ انہوں نے بطیب خاطر ایسا نہ کیا بلکہ محض شرم، لحاظ اور مروت میں آ کر۔ گویا بامر مجبوری اور با دلِ نخواستہ اپنی والدہ کی رائے مانی۔ وہ دل سے رضامند نہ تھے۔ شوہر نے ایک بڑی دکان ترکے میں چھوڑی تھی جو بہت کامیابی سے چل رہی تھی اور اس سے خاطر خواہ آمدنی ہوتی تھی مگر جب بیوہ نے تمام انتظام و انصرام سنبھالا تو آہستہ آہستہ تجارت کساد بازاری کا شکار ہونے لگی۔ دکان کی آمدنی دھیرے دھیرے کم ہوتی چلی گئی۔ اگر صورتحال یونہی جاری رہتی تو پورا گھر متاثر ہوتا۔ اپنی معاشی حالت ابتر دیکھ کر بیوہ خاتون نے مسجد کا رخ کیا۔ درسِ قرآن سننے لگی تاکہ درسِ قرآن کی برکت سے اللہ تعالیٰ اسے اور اس کی اولاد کو تاریک مستقبل سے محفوظ رکھے۔

جب ہم نے ایک درسِ قرآن میں عمل درآمد کے لیے میراث کی آیات منتخب کیں تو بیوہ خاتون نے کہا، "میں سمجھتی ہوں کہ ہماری تجارت کو جس خسارے کا سامنا کرنا پڑا ہے اس کی وجہ میرا وہ رویہ ہے جو میں نے اللہ کے واضح و صریح احکام کے خلاف اختیار کیا ہے۔ میں نے اپنی مرضی مسلط کی۔ کسی سے کوئی مشورہ نہیں لیا۔"

اس بیوہ خاتون نے مجلسِ درسِ قرآن میں اظہارِ ندامت و پشیمانی کرنے کے بعد گھر جا کر اپنے تمام چھوٹے بڑے بچوں کو اکٹھا کیا اور اللہ سبحانہ کی ہدایات کے مطابق تمام جائیداد تقسیم کر دی۔ اس کے بعد اس نے اپنے حصے اور چھوٹے بچوں کے حصے کی جائیداد میں کاروبار شروع کر دیا۔ تھوڑے ہی عرصے بعد کاروبار پھلنے پھولنے لگا۔ یہ سب اللہ کی آیت پر عمل کرنے کا نتیجہ تھا۔ باقی رہا وہ اجر و ثواب جو آخرت میں ملے گا تو اس کا کون شمار کر سکتا ہے؟

ہمارا فرض ہے کہ رسم و رواج کے بجائے اللہ کے احکام پر عمل کریں۔ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی اتباع کریں۔ خواہشات و اغراض کی تاریکیوں سے نکل کر قرآن کی روشنی میں آ جائیں۔ ہمیں اپنے تمام افعال و اعمال کو قرآن و سنت کے سامنے پیش کرنا ہو گا اور اپنی عاداتِ باطلہ کو ترک کرنا ہو گا۔ یوں ہم ایک ایسا معاشرہ تشکیل دینے میں کامیاب ہو جائیں گے جس میں دنیا کو قرآن متحرک نظر آئے گا۔ جب ایسا ہو گا تو ہم ہی زمین کے وارث ہوں گے۔ اللہ کا ہم سے یہ وعدہ ہے۔ اس وقت زمین اپنے پروردگار کے نور سے جگمگا اٹھے گی۔ زمین نور، رحمت اور محبت سے بھر جائے گی۔
 
Top