پیش لفظ
بعض اوقات محسوس ہوتا ہے کہ یہ دور خواتین کا کچھ زیادہ ہی ہو گیا ہے۔ مغرب اور اسلام کی تہذیبی کش مکش میں بھی ان کے مقام و منصب کو طے کرنے کا مسئلہ سرِ فہرست ہے۔ ہمارے معاشروں میں انہیں ان کا مقام دلانے کی سرکاری اور غیر سرکاری کوششیں تھی کچھ زیادہ ہی نمایاں ہیں۔ اسی کا ایک پہلو یہ ہے کہ احیائے دین کے لیے جو کوشش ہو رہی ہے اس میں بھی سرگرمی سے تعاون کرنے والوں میں خواتین ہی آگے ہیں۔ نو مسلموں کی داستانیں پڑھیں تو اس میں بھی خواتین ہی زیادہ نظر آتی ہیں۔
قرآن جو دعوت پیش کرتا ہے اس پر عمل میں مرد و عورت کی تخصیص نہیں ہے۔ گذشتہ کچھ عرصے سے پاکستان میں اور عالم اسلام کے دوسرے ممالک میں رجوع الی القرآن کی ایک تحریک برپا ہے۔ ادارے قائم ہو رہے ہیں، فہم قرآن کے لیے مختلف طرح کے کورس اور نصابات تجویز کیے جا رہے ہیں۔ درس قرآن کے 10، 10 روز کے سلسلے جاری ہیں۔ جن میں ہزارہا مرد و خواتین شرکت کر رہے ہیں۔ بعض حضرات و خواتین کے نام اس حوالے سے معروف ہو گئے ہیں۔
اسی سلسلے میں کویت کے رسالہ "المجتمع" میں ایک سلسلہ مضامین شائع ہوا۔ اس میں محترمہ سمیہ رمضان نے اپنے حلقہ درس کا حال لکھا ہے۔ قرآن کی محض تبلیغ پر اکتفا نہ کیا بلکہ ہر دفعہ ایک آیت کا انتخاب کر کے شرکا نے اس پر عمل بھی کیا اور اپنے تجربات سے آگاہ کیا۔ عربی میں بہت اچھی اور مفید چیزیں نظر پڑتی ہیں لیکن ہمارے کسی ادارے کے پاس ترجمے کا کوئی نظم نہ ہونے کی وجہ سے نہ صرف عربی بلکہ دوسری زبانوں کی مفید چیزوں سلے اردو جاننے والے محروم ہیں۔ حسنِ اتفاق سے ہمارے رفیق محمد ظہیر الدین بھٹی کو یہ سلسلہ پسند آیا اور اتنا پسند آیا کہ انہوں نے اس کا ترجمہ کر ڈالا۔
منشورات اسے شائع کر رہا ہے۔ آپ خود دیکھیں گے کہ اس میں 14 موضوعات کے تحت جو تجربات بیان کیئے گئے ہیں، ان میں قرآن پر عمل کے فوائد و ثمرات دو اور دو چار کی طرح واضح ہو کر سامنے آتے ہیں، بنیادی عقائد درست ہوتے ہیں، نیز یہ اندازہ بھی ہوتا ہے کہ مسلم معاشروں میں خواتین کو ایک جیسے مسائل درپیش ہیں۔ یقیناً ہماری خواتین اس میں بہت کچھ رہنمائی پائیں گی۔ لیکن اصل فائدے کی بات تو یہ ہو گی کہ وہ حلقہ ہائے درس قرآن قائم کر کے اس انداز کو اختیار کر کے عمل کی کوشش کریں۔
خواتین کے حوالے سے اس کتاب کی اشاعت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ مردوں کے لیے نہیں ہے۔ مرد عموماً خواتین سے متعلق چیزوں کو زیادہ دلچسپی اور شوق سے دیکھتے اور پڑھتے ہیں۔ امید ہے کہ وہ اس کتاب سے فائدہ اٹھاتے ہوئے عمل بالقرآن کی مشق کریں گے۔ درس گاہوں میں مقیم طلبہ و طالبات کے لیے زیادہ موقع ہے کہ وہ یہ مشق کریں اور اس پیغام کو اپنے گھرانوں اور خاندانوں میں لے جائیں۔