- شمولیت
- اپریل 14، 2011
- پیغامات
- 8,771
- ری ایکشن اسکور
- 8,496
- پوائنٹ
- 964
حقیقی مشرقی ومسلم خاتون اور اس کا عظیم کارنامہ
کچھ ماہ پہلے ٹی وی چینلز کے ذریعے یہ خبر آپ تک پہنچی ہو گی کہ پاکستان کے شہر گجرات کی رہائشی ایک خاتون نے ، مکمل قرآن کریم کپڑے کے اوپر، سوئی دھاگے کے ساتھ کڑھائی کیا ہے، میں نے بھی یہ خبر سنی، مدینہ منورہ قرآن کریم نمائش میں ذمہ داری ہوتی ہے، اس وقت سے اس خبر کو گاہے بہ گاہے زائرین کے سامنے بیان بھی کرتا رہا۔
اس سال یہ محترمہ خاتون اپنے بیٹے سمیت حج پر آئیں تھیں، دو تین ہفتے قبل مدینہ منورہ آئے، ساتھ وہ قرآن کریم کا نسخہ بھی لے کر آئے، اور اپنے ہاتھ کے ساتھ قرآن کریم نمائش کے لیے وقف کیا.
اسی عرصے میں اس مصحفِ قرآن اور اس کی کاتبہ کے بارے کچھ جاننے کا موقعہ ملا.
محترمہ نسیم اختر صاحبہ ایک گھریلو خاتون ہیں، خاوند ان کے غالبا ایئرفورس میں ڈیوٹی کرتے تھے، نسیم صاحبہ بچپن سے ہی خطاطی اور سلائی کڑھائی کی شوقین تھیں، اور ان چیزوں میں مہارت رکھتی تھیں، بلکہ ساتھ ساتھ بچیوں کو ان چیزوں کی تعلیم بھی دیا کرتی تھیں.
ان کے ایک استاد محترم تھے، جنہوں نے پنجابی زبان میں قرآن کریم کا مکمل ترجمہ کیا، اور اس ترجمے کی خطاطی کی سعادت ان کے حصے میں آئی۔ پورے کا پورا قرآن کریم ترجمے کے ساتھ خطاطی کیا، ساتھ ساتھ غور بھی کرتی ہوں گی، یوں اللہ نے ان کے دل میں قرآن کی عظمت و ہیبت پیدا کردی، اور عزم پیدا ہوا کہ خطاطی اور سلائی کڑھائی دونوں مہارتیں استعمال کرتے ہوئے ، قرآن کریم کے لیے ایسی خدمت سرانجام دی جائے، جو ہمیشہ کے لیے صدقہ جاریہ بن جائے.
حقیقت بھی یہ ہے کہ بڑے بڑے پیسے والے، مہارتوں والے، ذہانت و فطانت کے مالک ہوں گے، لیکن آج دنیا میں ان کا نام ونشان نہیں، جو آج ہیں، کل انہیں کوئی جاننے والے نہ ہوگا، لیکن جو سرمایہ، وقت اور مہارت اللہ کے رستے میں صرف ہوجاتی ہے، گویا لازوال ہوجاتی ہے۔
نسیم اختر صاحبہ نے قرآن کریم کا یہ عظیم الشان نسخہ 1987ء میں لکھنا شروع کیا، اوراق کے لیے کاغذ کی بجائے سفید کپڑے کا انتخاب کیا گیا. پندرہ سال قرآن کریم کے اس نسخے کی خطاطی پر صرف ہوئے، اور سترہ سال میں پھر اس خطاطی کو سوئی دھاگے کے ساتھ کڑھائی کیا گیا. یوں بتیس سال کی صبر آزما جدوجہد اور انتھک محنت وکوشش کے بعد جنوری 2018ء میں یہ نسخہ قرآن کریم مکمل ہوگیا.
سوچتے ہیں تو بہت حیرانی ہوتی ہے، ایک طرف وہ مسلمان کہ جس نے بتیس سال صرف کیے، دوسری طرف وہ مسلمان کہ جن کے پاس شاید بتیس منٹ کا ٹائم بھی نہیں نکل پاتا کہ وہ قرآن کریم کو پڑھنے سمجھنے کے لیے متوجہ ہوسکیں.
قرآن کریم کی محبت کا دعوی تو ہر مسلمان کو ہے، لیکن اس محبت و عقیدت کا حساب بھی شاید موبائل کی بیٹری والا ہوچکا ہے، جب مکمل چارج ہو، تو موبائل میں موجود ہر سہولت سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں، لیکن جب آخری سانسوں پر ہو، تو ہر کام کرنے سے پہلے یہ خطرہ رہتا ہے کہ موبائل اب بند ہوا کہ اب ہوا۔
ایک طرف محبت وعقیدت کا یہ عالم کہ پوری زندگیاں کھپادی جاتی ہیں.. اور دوسری طرف یہ حال کہ قرآن کو سمجھنا، اس پر عمل پیرا ہونا تو بعد کی بات، قرآن کریم کو کھول کر پڑھنے، یا موبائل وغیرہ کے ذریعے سے سننے تک کی طاقت نہیں ہے۔
قرآن کریم کے لیے اس قدر دلچسپی رکھنے والی اس خاتون میں ہم جیسے لوگوں کے لیے یہ بھی سبق ہے کہ یہ ہماری ہم عصرہیں، اسی زمانے میں جی رہی ہیں، جس زمانے میں ہم اپنے آپ کو یہ کہہ کر مطمئن کرلیتے ہیں کہ اب حالات بہت خراب ہوچکے ہیں، اب تو مسائل ہی بہت زیادہ ہیں، پرانے وقتوں میں لوگوں کو ان حالات کا سامنا نہیں تھا، اسی لیے تو وہ دین کی اتنی خدمت کرگئے.... وغیرہ وغیرہ . اس معزز خاتون نے یہ ثابت کردیا کہ حالات جیسے مرضی ہوں، اگر انسان کا عزم و ہمت جوان اور حوصلہ بلند ہو تو آج بھی بہت بڑی بڑی خدمات سرانجام دی جاسکتی ہیں۔
مجھے بڑا فخر محسوس ہوا کہ ہماری مشرقی اور مسلم خاتون کا حقیقی چہرہ یہی ہے کہ جس نے نمود ونمائش ، اور ہر قسم کے لالچ سے بے پروا ہو کر اپنی صلاحیت و مہارت کو اللہ کی کتاب کی خدمت کے لیے صرف کیا، برصغیر پاک وہند اور اردو کمیونٹی کا بالعموم جبکہ پاکستان کا نام بالخصوص روشن ہوا۔ ورنہ اس زمانے میں وہ بھی تو نام نہاد مسلمان اور مشرقی خواتین ہی ہیں، جو چند ٹکوں کےلیے، خود کو روشن خیال کہلوانے کے لیے، نہ صرف اپنے چہروں سے نقاب اتار پھینکتی ہیں، بلکہ اپنی تہذیب و ثقافت اور دین و ملت کی مقدس ردا کو بھی تار تار کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتیں ، تاکہ کسی طرح ’غیر‘ ان کو تسلیم کرلیں.
یہاں مشرقی خواتین نے مغربی ایوارڈز وصول کرنے کے لیے ایجنسیاں کھولیں، فلمیں بنائیں، دوسری طرف اس حقیقی مشرقی ومسلم خاتون نے بتیس سال کی محنت شاقہ سرانجام دینے کے بعد کسی سے کوئی لالچ نہیں رکھا.
بہت سارے لوگوں کے ذہن میں ہوگا کہ اس خاتون نے قرآن کریم کے اس نسخے کےبدلے میں پتہ نہیں کیا کچھ لے لیا ہوگا، یقین مانیے آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے یہ منظر دیکھ کر جب خاتون نے کہا کہ میں یہ نسخہ قرآن کریم مدینہ منورہ کو ہدیہ کرتی ہوں، اللہ کی رضا کے لیے، اللہ مجھ سے قبول کرلے، یہی میری خواہش وتمنا ہے، آج یہ قرآن کریم کا نسخہ مدینہ منورہ میں قرآن کریم نمائش میں سج گیا، گویا میری ساری تھکاوٹ کافور ہوگئی.
ہم یہاں قرآن کریم کی اہمیت و فضیلت بیان کرکے، لوگوں کو رلاتے ہیں، لیکن اس دن اس خاتون کے جذبے اور حوصلے اور قرآن کریم سے محبت دیکھ کر ہماری آنکھیں چھلک پڑیں.
قرآن کریم کا یہ نسخہ مکمل دس جلدوں میں ہے، ہر جلد میں تین پارے تحریر کیے گئے ہیں، ہر پارہ 24 صفحات پر مشتمل ہے.آخری پارہ 28 صفحات پر مکمل ہوا.
خاتون کا کہنا ہے کہ قرآن کریم کا یہ نسخہ انہوں نے تہجد اور ظہر کے بعد کے اوقات میں لکھا ہے. اور صرف لکھا اور کڑھائی ہی نہیں کیا، بلکہ اس پر غور وفکر اور تدبر بھی کیا ہے۔ اسی مناسبت سے ان سے سوال کیے جانے پر انہوں نے بتایا کہ قرآن کریم سارے کا سارا توحید کے بیان پر مشتمل ہے، اور سب مسلمانوں سے میری گزارش ہے کہ وہ قرآن کریم پر غور وفکر اور تدبر کریں، کہ یہی اس کتاب عزیز کا ہدف ومقصد ہے۔
ایک بات جو مسلسل میرے ذہن میں گھوم رہی ہے، وہ یہ ہے کہ خاتون نے تو اپنی محنت و کوشش کرلی، اور اللہ کے حضور پیش کردی. اللہ قبول کرے۔ لیکن کیا اس عظیم الشان خاتون کا ہمارے اوپر بھی کوئی حق ہے یا نہیں ؟ کیا قرآن کریم کے لیے ہمیں بھي کچھ کرنا چاہیے کہ نہیں؟
کسی اسلامی ملک کی پالیسیوں میں، کسی اسلامی جماعت وتنظیم کے نظام میں قرآن کریم کے لیے اتنی بڑی خدمت سرانجام دینے والی خاتون کی عزت وتکریم اور حوصلہ افزائی کی کوئی صورت ہے؟
وہ تاجر، بزنس مین، وڈیرے جو ایک رات کےلیے اپنے ایمان و تہذیب کو بیچنے والی خواتین پر کروڑوں کی بارش کردیتے ہیں، کیا اللہ کے رستے میں اپنی عمرعزیز صرف کرنے والی خاتون کے لیے بھی کچھ ان کے پاس ہے کہ نہیں؟
کیا ایوارڈ صرف سڑکوں پر نکلنے والیوں، فلمیں بنانے والیوں کا ہی حق ہے؟
کیا دین الہی کی خدمت میں مصروف لوگوں کے لیے ہمارے پاس ایوارڈ دینے کی کوئی گنجائش نہیں ہے؟
میں سمجھتا ہوں، اسلام کے لیے اس نوعیت کی خدمات سرانجام دینے والوں کی ہم مسلمانوں کو بڑھ چڑھ کے حوصلہ افزائی کرنی چاہیے، اس خاتون کے متعلق سوشل میڈیا پر لکھا جائے، خطبا ومقررین مسلمان خاتون کی اس عظیم خدمت کو عوام کے سامنے بیان کریں، جماعتوں تنظیموں کے قائدین، کم ازکم فون کرکے ہی سہی، اس گھرانے کی حوصلہ افزائی کریں، ہوسکے تو ان کے اعزاز میں تقاریب منقعد کریں. حکمرانوں، عہدیداروں کو توجہ دلائیں، کہ وہ اپنے ملک میں موجود اس ’ٹیلنٹ‘ کی بھی قدر کریں. اور سفارتی تعلقات استعمال کرکے، مشرق کے اس روشن چہرے کو دوسروں کے سامنے لائیں۔
کہیں ایسا نہ ہو کہ محترم نسیم اختر صاحبہ جیسی خواتین و مرد تو جیت جائیں، لیکن ہم مسلمان اور اہل مشرق ان کی حوصلہ افزائی میں بخیلی وسستی کا شکار ہوکر ایک بار پھر ہار جائیں.
اللہ سے دعا ہے کہ اللہ تعالی محترم نسیم اختر صاحبہ کی اس کوشش و کاوش کو شرف قبولیت سے نوازے، توشہ آخرت بنائے، اور ہم مسلمانوں کو قرآن کریم کے ساتھ تعلق مضبوط سے مضبوط تر بنانے کی توفیق دے.
إن اللہ یرفع بہذا الکتاب أقواما ویضع بہ آخرین.(صحیح مسلم)
وہ معزز تھے زمانے میں مسلمان ہو کر
اور ’ہم‘ خوار ہوئے تارک قرآن ہو کر.
(قرآن کریم کے ساتھ تعلق ،ٹیسٹ کرنے کا طریقہ، ایک مختصر ویڈیو ملاحظہ کریں:
).
(نوٹ: اس تحریر کے کوئی حقوق نہیں، قرآن کریم سے محبت رکھنے والے، اور خدام قرآن کو اپنے لیےفخر سمجھنے والا کوئی بھی مسلمان، اس تحریرکو کسی بھی انداز سے نشر یا شائع کرسکتا ہے.)
اس سال یہ محترمہ خاتون اپنے بیٹے سمیت حج پر آئیں تھیں، دو تین ہفتے قبل مدینہ منورہ آئے، ساتھ وہ قرآن کریم کا نسخہ بھی لے کر آئے، اور اپنے ہاتھ کے ساتھ قرآن کریم نمائش کے لیے وقف کیا.
اسی عرصے میں اس مصحفِ قرآن اور اس کی کاتبہ کے بارے کچھ جاننے کا موقعہ ملا.
محترمہ نسیم اختر صاحبہ ایک گھریلو خاتون ہیں، خاوند ان کے غالبا ایئرفورس میں ڈیوٹی کرتے تھے، نسیم صاحبہ بچپن سے ہی خطاطی اور سلائی کڑھائی کی شوقین تھیں، اور ان چیزوں میں مہارت رکھتی تھیں، بلکہ ساتھ ساتھ بچیوں کو ان چیزوں کی تعلیم بھی دیا کرتی تھیں.
ان کے ایک استاد محترم تھے، جنہوں نے پنجابی زبان میں قرآن کریم کا مکمل ترجمہ کیا، اور اس ترجمے کی خطاطی کی سعادت ان کے حصے میں آئی۔ پورے کا پورا قرآن کریم ترجمے کے ساتھ خطاطی کیا، ساتھ ساتھ غور بھی کرتی ہوں گی، یوں اللہ نے ان کے دل میں قرآن کی عظمت و ہیبت پیدا کردی، اور عزم پیدا ہوا کہ خطاطی اور سلائی کڑھائی دونوں مہارتیں استعمال کرتے ہوئے ، قرآن کریم کے لیے ایسی خدمت سرانجام دی جائے، جو ہمیشہ کے لیے صدقہ جاریہ بن جائے.
حقیقت بھی یہ ہے کہ بڑے بڑے پیسے والے، مہارتوں والے، ذہانت و فطانت کے مالک ہوں گے، لیکن آج دنیا میں ان کا نام ونشان نہیں، جو آج ہیں، کل انہیں کوئی جاننے والے نہ ہوگا، لیکن جو سرمایہ، وقت اور مہارت اللہ کے رستے میں صرف ہوجاتی ہے، گویا لازوال ہوجاتی ہے۔
نسیم اختر صاحبہ نے قرآن کریم کا یہ عظیم الشان نسخہ 1987ء میں لکھنا شروع کیا، اوراق کے لیے کاغذ کی بجائے سفید کپڑے کا انتخاب کیا گیا. پندرہ سال قرآن کریم کے اس نسخے کی خطاطی پر صرف ہوئے، اور سترہ سال میں پھر اس خطاطی کو سوئی دھاگے کے ساتھ کڑھائی کیا گیا. یوں بتیس سال کی صبر آزما جدوجہد اور انتھک محنت وکوشش کے بعد جنوری 2018ء میں یہ نسخہ قرآن کریم مکمل ہوگیا.
سوچتے ہیں تو بہت حیرانی ہوتی ہے، ایک طرف وہ مسلمان کہ جس نے بتیس سال صرف کیے، دوسری طرف وہ مسلمان کہ جن کے پاس شاید بتیس منٹ کا ٹائم بھی نہیں نکل پاتا کہ وہ قرآن کریم کو پڑھنے سمجھنے کے لیے متوجہ ہوسکیں.
قرآن کریم کی محبت کا دعوی تو ہر مسلمان کو ہے، لیکن اس محبت و عقیدت کا حساب بھی شاید موبائل کی بیٹری والا ہوچکا ہے، جب مکمل چارج ہو، تو موبائل میں موجود ہر سہولت سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں، لیکن جب آخری سانسوں پر ہو، تو ہر کام کرنے سے پہلے یہ خطرہ رہتا ہے کہ موبائل اب بند ہوا کہ اب ہوا۔
ایک طرف محبت وعقیدت کا یہ عالم کہ پوری زندگیاں کھپادی جاتی ہیں.. اور دوسری طرف یہ حال کہ قرآن کو سمجھنا، اس پر عمل پیرا ہونا تو بعد کی بات، قرآن کریم کو کھول کر پڑھنے، یا موبائل وغیرہ کے ذریعے سے سننے تک کی طاقت نہیں ہے۔
قرآن کریم کے لیے اس قدر دلچسپی رکھنے والی اس خاتون میں ہم جیسے لوگوں کے لیے یہ بھی سبق ہے کہ یہ ہماری ہم عصرہیں، اسی زمانے میں جی رہی ہیں، جس زمانے میں ہم اپنے آپ کو یہ کہہ کر مطمئن کرلیتے ہیں کہ اب حالات بہت خراب ہوچکے ہیں، اب تو مسائل ہی بہت زیادہ ہیں، پرانے وقتوں میں لوگوں کو ان حالات کا سامنا نہیں تھا، اسی لیے تو وہ دین کی اتنی خدمت کرگئے.... وغیرہ وغیرہ . اس معزز خاتون نے یہ ثابت کردیا کہ حالات جیسے مرضی ہوں، اگر انسان کا عزم و ہمت جوان اور حوصلہ بلند ہو تو آج بھی بہت بڑی بڑی خدمات سرانجام دی جاسکتی ہیں۔
مجھے بڑا فخر محسوس ہوا کہ ہماری مشرقی اور مسلم خاتون کا حقیقی چہرہ یہی ہے کہ جس نے نمود ونمائش ، اور ہر قسم کے لالچ سے بے پروا ہو کر اپنی صلاحیت و مہارت کو اللہ کی کتاب کی خدمت کے لیے صرف کیا، برصغیر پاک وہند اور اردو کمیونٹی کا بالعموم جبکہ پاکستان کا نام بالخصوص روشن ہوا۔ ورنہ اس زمانے میں وہ بھی تو نام نہاد مسلمان اور مشرقی خواتین ہی ہیں، جو چند ٹکوں کےلیے، خود کو روشن خیال کہلوانے کے لیے، نہ صرف اپنے چہروں سے نقاب اتار پھینکتی ہیں، بلکہ اپنی تہذیب و ثقافت اور دین و ملت کی مقدس ردا کو بھی تار تار کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتیں ، تاکہ کسی طرح ’غیر‘ ان کو تسلیم کرلیں.
یہاں مشرقی خواتین نے مغربی ایوارڈز وصول کرنے کے لیے ایجنسیاں کھولیں، فلمیں بنائیں، دوسری طرف اس حقیقی مشرقی ومسلم خاتون نے بتیس سال کی محنت شاقہ سرانجام دینے کے بعد کسی سے کوئی لالچ نہیں رکھا.
بہت سارے لوگوں کے ذہن میں ہوگا کہ اس خاتون نے قرآن کریم کے اس نسخے کےبدلے میں پتہ نہیں کیا کچھ لے لیا ہوگا، یقین مانیے آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے یہ منظر دیکھ کر جب خاتون نے کہا کہ میں یہ نسخہ قرآن کریم مدینہ منورہ کو ہدیہ کرتی ہوں، اللہ کی رضا کے لیے، اللہ مجھ سے قبول کرلے، یہی میری خواہش وتمنا ہے، آج یہ قرآن کریم کا نسخہ مدینہ منورہ میں قرآن کریم نمائش میں سج گیا، گویا میری ساری تھکاوٹ کافور ہوگئی.
ہم یہاں قرآن کریم کی اہمیت و فضیلت بیان کرکے، لوگوں کو رلاتے ہیں، لیکن اس دن اس خاتون کے جذبے اور حوصلے اور قرآن کریم سے محبت دیکھ کر ہماری آنکھیں چھلک پڑیں.
قرآن کریم کا یہ نسخہ مکمل دس جلدوں میں ہے، ہر جلد میں تین پارے تحریر کیے گئے ہیں، ہر پارہ 24 صفحات پر مشتمل ہے.آخری پارہ 28 صفحات پر مکمل ہوا.
خاتون کا کہنا ہے کہ قرآن کریم کا یہ نسخہ انہوں نے تہجد اور ظہر کے بعد کے اوقات میں لکھا ہے. اور صرف لکھا اور کڑھائی ہی نہیں کیا، بلکہ اس پر غور وفکر اور تدبر بھی کیا ہے۔ اسی مناسبت سے ان سے سوال کیے جانے پر انہوں نے بتایا کہ قرآن کریم سارے کا سارا توحید کے بیان پر مشتمل ہے، اور سب مسلمانوں سے میری گزارش ہے کہ وہ قرآن کریم پر غور وفکر اور تدبر کریں، کہ یہی اس کتاب عزیز کا ہدف ومقصد ہے۔
ایک بات جو مسلسل میرے ذہن میں گھوم رہی ہے، وہ یہ ہے کہ خاتون نے تو اپنی محنت و کوشش کرلی، اور اللہ کے حضور پیش کردی. اللہ قبول کرے۔ لیکن کیا اس عظیم الشان خاتون کا ہمارے اوپر بھی کوئی حق ہے یا نہیں ؟ کیا قرآن کریم کے لیے ہمیں بھي کچھ کرنا چاہیے کہ نہیں؟
کسی اسلامی ملک کی پالیسیوں میں، کسی اسلامی جماعت وتنظیم کے نظام میں قرآن کریم کے لیے اتنی بڑی خدمت سرانجام دینے والی خاتون کی عزت وتکریم اور حوصلہ افزائی کی کوئی صورت ہے؟
وہ تاجر، بزنس مین، وڈیرے جو ایک رات کےلیے اپنے ایمان و تہذیب کو بیچنے والی خواتین پر کروڑوں کی بارش کردیتے ہیں، کیا اللہ کے رستے میں اپنی عمرعزیز صرف کرنے والی خاتون کے لیے بھی کچھ ان کے پاس ہے کہ نہیں؟
کیا ایوارڈ صرف سڑکوں پر نکلنے والیوں، فلمیں بنانے والیوں کا ہی حق ہے؟
کیا دین الہی کی خدمت میں مصروف لوگوں کے لیے ہمارے پاس ایوارڈ دینے کی کوئی گنجائش نہیں ہے؟
میں سمجھتا ہوں، اسلام کے لیے اس نوعیت کی خدمات سرانجام دینے والوں کی ہم مسلمانوں کو بڑھ چڑھ کے حوصلہ افزائی کرنی چاہیے، اس خاتون کے متعلق سوشل میڈیا پر لکھا جائے، خطبا ومقررین مسلمان خاتون کی اس عظیم خدمت کو عوام کے سامنے بیان کریں، جماعتوں تنظیموں کے قائدین، کم ازکم فون کرکے ہی سہی، اس گھرانے کی حوصلہ افزائی کریں، ہوسکے تو ان کے اعزاز میں تقاریب منقعد کریں. حکمرانوں، عہدیداروں کو توجہ دلائیں، کہ وہ اپنے ملک میں موجود اس ’ٹیلنٹ‘ کی بھی قدر کریں. اور سفارتی تعلقات استعمال کرکے، مشرق کے اس روشن چہرے کو دوسروں کے سامنے لائیں۔
کہیں ایسا نہ ہو کہ محترم نسیم اختر صاحبہ جیسی خواتین و مرد تو جیت جائیں، لیکن ہم مسلمان اور اہل مشرق ان کی حوصلہ افزائی میں بخیلی وسستی کا شکار ہوکر ایک بار پھر ہار جائیں.
اللہ سے دعا ہے کہ اللہ تعالی محترم نسیم اختر صاحبہ کی اس کوشش و کاوش کو شرف قبولیت سے نوازے، توشہ آخرت بنائے، اور ہم مسلمانوں کو قرآن کریم کے ساتھ تعلق مضبوط سے مضبوط تر بنانے کی توفیق دے.
إن اللہ یرفع بہذا الکتاب أقواما ویضع بہ آخرین.(صحیح مسلم)
وہ معزز تھے زمانے میں مسلمان ہو کر
اور ’ہم‘ خوار ہوئے تارک قرآن ہو کر.
(قرآن کریم کے ساتھ تعلق ،ٹیسٹ کرنے کا طریقہ، ایک مختصر ویڈیو ملاحظہ کریں:
(نوٹ: اس تحریر کے کوئی حقوق نہیں، قرآن کریم سے محبت رکھنے والے، اور خدام قرآن کو اپنے لیےفخر سمجھنے والا کوئی بھی مسلمان، اس تحریرکو کسی بھی انداز سے نشر یا شائع کرسکتا ہے.)