حروف ِ سبعہ کا مفہوم
اس حدیث میں سب سے پہلا مسئلہ یہ ہے کہ سات حروف پرقرآن کریم کے نازل ہونے سے کیا مراد ہے؟ اس سلسلے میں آراء ونظریات کا شدید اختلاف ملتاہے، یہاں تک کہ علامہ ابن عربی رحمہ اللہ وغیرہ نے اس باب میں ۳۵؍اقوال شمار کئے ہیں۔ (البرہان في علوم القرآن:۱؍۲۱۲ ) یہاں اُن میں سے چند مشہور اقوال پیش خدمت ہیں:
١ بعض حضرات یہ سمجھتے ہیں کہ اس سے مراد سات مشہور قاریوں کی قراء تیں ہیں، لیکن یہ خیال تو بالکل غلط اور باطل ہے، کیونکہ قرآن کریم کی متواتر قراء تیں ان سات قراء توں میں منحصر نہیں ہیں،بلکہ اور بھی متعدد قراء تیں تواتر کے ساتھ ثابت ہیں، یہ سات قراء تیں تو محض اس لیے مشہور ہوگئیں کہ علامہ ابن مجاہدؒ نے ایک کتاب میں اُن سات مشہور قراء کی قراء تیں جمع کردی تھیں، نہ اُن کا یہ مقصد تھا کہ قراء تیں سات میں منحصر ہیں، اور نہ وہ حروف سبعہ کی تشریح ان سات قراء توں سے کرناچاہتے تھے، جیسا کہ اس کی تفصیل اپنے مقام پرآئے گی۔
٢ اسی بناء پر بعض علماء نے یہ خیال ظاہرکیا ہے کہ حروف سے مراد تمام قراء تیں ہیں، لیکن ’سات‘ کے لفظ سے سات کا مخصوص عدد مرادنہیں ہے،بلکہ اس سے مراد کثرت ہے اور عربی زبان میں سات کالفظ محض کسی چیز کی کثرت بیان کرنے کے لیے اکثر استعمال ہوجاتا ہے، یہاں بھی حدیث کامقصد یہ نہیں ہے کہ قرآن کریم جن حروف پر نازل ہوا وہ مخصوص طور پر سات ہی ہیں، بلکہ مقصد یہ ہے کہ قرآن کریم ’بہت سے‘ طریقوں سے نازل ہوا ہے، علماء متقدمین میں سے قاضی عیاض رحمہ اللہ کا یہی مسلک ہے۔
(أوجز المسالک إلی مؤطا الإمام مالک: ۲؍۳۵۶ ) اور آخری دور میں حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نے بھی یہی قول اختیار فرمایا ہے۔ (مصفّی شرح مؤطا:۱؍۱۸۷ )
لیکن یہ قول اس لیے درست معلوم نہیں ہوتا کہ بخاری اورمسلم کی ایک حدیث میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے آنحضرتﷺ کا یہ اِرشاد مروی ہے کہ:
(أَقْرَأَنِي جِبْرِیلُ عَلَیٰ حَرْفٍ فَرَاجَعْتُہٗ فَلَمْ أَزَلْ أَسْتَزِیدُہٗ وَیَزِیدُنِي حَتَّیٰ انْتَھَیٰ إِلَیٰ سَبْعَۃِ أَحْرُفٍ ) (بحوالہ مناہل العرفان:۱؍۱۳۳)
’’مجھے جبریل علیہ السلام نے قرآن کریم ایک حرف پر پڑھایا، تو میں نے ان سے مراجعت کی اور میں زیادتی طلب کرتارہااور وہ (قرآن کریم کے حروف میں) اضافہ کرتے رہے یہاں تک کہ وہ سات حروف تک پہنچ گئے۔‘‘
اس کی تفصیل صحیح مسلم کی ایک روایت میں حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ سے اس طرح مروی ہے کہ آنحضرتﷺ بنو غفار کے تالاب کے پاس تھے:
(فأتاہ جبرئیل علیہ السلام فقال إن اﷲ یأمرک أن تقرأ أمتک القراٰن علی حرف،فقال أسأل اﷲ معافاتہ ومغفرتہ وأن أمتی لا تطیق ذلک ثم أتاہ الثانیۃ فقال إن اﷲ یأمرک أن تقرأ اُمتک القراٰن علیٰ حرفین فقال أسأل اﷲ معافاتہ ومغفرتہ وأن أمتی لا تطیق ذلک،ثم جاء تہ الثالثۃ فقال إن اﷲ یأمرک أن تقرأ اُمتک القراٰن علیٰ ثلاثۃ أحرف فقال أسأل اﷲ معافاتہ ومغفرتہ وان اُمتی لاتطیق ذلک ثم جاء ہ الرابعۃ فقال: إن اﷲ یأمرک أن تقرأ اُمتک القراٰن علی سبعۃ أحرف فأیما حرف قرء وا علیہ فقد أصابوا) (مناہل العرفان:۱؍۱۳۳ )
’’پس حضورﷺ کے پاس جبریل علیہ السلام آئے اور فرمایا کہ اللہ نے آپﷺ کو یہ حکم دیا ہے کہ آپ کی (ساری)اُمت قرآن کریم کوایک ہی حرف پر پڑھے،اس پر آپﷺ نے فرمایا کہ میں اللہ سے معافی اور مغفرت مانگتا ہوں، میری اُمت میں اس کی طاقت نہیں ہے، پھرجبرئیل علیہ السلام دوبارہ آپ کے پاس آئے اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا ہے کہ آپ کی اُمت قرآن کریم کو دو حرفوں پر پڑھے، آپﷺ نے فرمایا کہ میں اللہ تعالیٰ سے معافی اور مغفرت مانگتا ہوں، میری اُمت میں اس کی طاقت نہیں ہے، پھر وہ تیسری بار آئے اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا ہے کہ آپ کی اُمت قرآن کریم کو تین حروف پر پڑھے، آپﷺ نے پھر فرمایا کہ میں اللہ تعالیٰ سے معافی اور مغفرت مانگتا ہوں،میری اُمت میں اس کی طاقت نہیں ہے، پھر وہ چوتھی بار آئے اورفرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا کہ آپ کی اُمت قرآن کو سات حروف پرپڑھے، پس وہ جس حرف پر پڑھیں گے اُن کی قراء ت درست ہوگی۔‘‘
ان روایات کا سیاق صاف بتا رہاہے کہ یہاں سات سے مراد محض کثرت نہیں، بلکہ سات کا مخصوص عدد ہے، اس لیے ان احادیث کی روشنی میں یہ قول قابل قبول معلوم نہیں ہوتا، چنانچہ جمہور نے اس کی تردید کی ہے۔
٣ بعض دوسرے علماء مثلاً حافظ ابن جریر طبری رحمہ اللہ وغیرہ نے فرمایا کہ مذکورہ حدیث میں سات حروف سے مراد قبائل عرب کی سات لغات ہیں،چونکہ اہل عرب مختلف قبائل سے تعلق رکھتے تھے اور ہر قبیلہ کی زبان عربی ہونے کے باوجود دوسرے قبیلہ سے تھوڑی تھوڑی مختلف تھی اور یہ اختلاف ایسا ہی تھا جیسے ایک بڑی زبان میں علاقائی طورپر تھوڑے تھوڑے اختلافات پیدا ہوجاتے ہیں۔اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان مختلف قبائل کی آسانی کیلئے قرآن کریم سات لغات پرنازل فرمایا، تاکہ ہرقبیلہ اُسے اپنی لغت کے مطابق پڑھ سکے۔(تفسیر ابن جریر:۱؍۱۵ ) امام ابوحاتم سجستانی رحمہ اللہ نے ان قبائل کے نام بھی معین کرکے بتا دیئے ہیں:قریش ، ہذیل، تمیم، ازد، ربیعہ، ہوازن اور سعد بن بکر ۔ حافظ ابن عبدالبرؒ نے بعض حضرات سے نقل کرکے اُن کی جگہ یہ قبائل بتائے ہیں۔ ہذیل، کنانہ، قیس، ضبہ، تیم الرباب، اسد ابن خزیمہ اور قریش۔(فتح الباري:۹؍۲۲ ، روح المعاني:۱؍۲۱)
لیکن بہت سے محققین مثلاً حافظ ابن عبدالبر، علامہ سیوطی اور علامہ ابن الجزری رحمہم اللہ وغیرہ نے اس قول کی بھی تردیدکی ہے۔ اوّل تو اس لیے کہ عرب کے قبائل بہت سے تھے۔ ان میں صرف ان سات کے انتخاب کی کیا وجہ ہوسکتی ہے؟دوسرے یہ کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ اور حضرت ہشام بن حکیم رضی اللہ عنہ کے درمیان قرآن کریم کی تلاوت میں اختلاف ہوا، جس کا مفصل واقعہ صحیح بخاری وغیرہ میں مروی ہے، حالانکہ یہ دونوں حضرات قریشی تھے اور آنحضرتﷺ نے دونوں کی تصدیق فرمائی اور وجہ یہ بتائی کہ قرآن کریم سات حروف پرنازل ہوا ہے، اگر سات حروف سے مراد سات مختلف قبائل کی لغات ہوتیں تو حضرت عمررضی اللہ عنہ اور حضرت ہشام رضی اللہ عنہ میں اختلاف کی کوئی وجہ نہیں ہونی چاہئے تھی، کیونکہ دونوں قریشی تھے۔ (النشر في القراء ات العشر:۱؍۲۵، فتح الباري :۹؍۲۳ )
اگرچہ علامہ آلوسی نے اس کا یہ جواب دیا ہے کہ ’’ہوسکتا ہے کہ ان دونوں میں سے کسی ایک کو آنحضرتﷺ نے قریش کے علاوہ کسی اور لغت پر قرآن پڑھایاہو۔‘‘ (روح المعاني:۱؍۲۱) لیکن یہ جواب کمزور ہے، کیونکہ مختلف لغات میں قرآن کریم کے نازل ہونے کامنشاء یہی تو تھا کہ ہرقبیلہ والا اپنی لغت کے مطابق آسانی سے اُس کو پڑھ سکے، اس لیے یہ بات حکمت رسالت1 سے بعید معلوم ہوتی ہے کہ ایک قریشی کو دوسری لغت پر قرآن کریم پڑھایا گیاہو۔
اس کے علاوہ اس پر امام طحاوی رحمہ اللہ نے بھی یہ اعتراض کیا ہے کہ اگر یہ مان لیاجائے کہ سات حروف سے مراد سات قبائل کی لغات ہیں، تو یہ اس آیت کے خلاف ہوگا جس میں ارشاد ہے:
’’ وَمَااَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِہٖ ‘‘(ابراہیم:۴)
’’اور ہم نے نہیں بھیجا کوئی رسول مگر اس کی قوم کی زبان میں۔‘‘
اور یہ بات طے شدہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کی قوم قریش تھی، اس لیے ظاہر یہی ہے کہ قرآن صرف قریش کی لغت پرنازل ہوا ہے۔(مشکل الآثار:۴؍۱۸۵ ،۱۸۶) امام طحاوی رحمہ اللہ کی اس بات کی تائید یوں بھی ہوتی ہے کہ جس وقت حضرت عثمان 5 نے قرآن کریم کی جمع ثانی کا ارادہ فرمایا اور حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی سرکردگی میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت کومصحف تیار کرنے کا حکم دیا، اس وقت انہیں یہ ہدایت فرمائی تھی:
إذا اختلفتم أنتم في شيء من القرآن فاکتبوہ بلسان قریش فانما نزل بلسانھم (صحیح البخاري:۳۵۰۶)
’’جب قرآن (کی کتابت) میں تمہارے درمیان کوئی اختلاف ہو تو اُسے قریش کی لغت پر لکھنا، کیونکہ قرآن انہی کی زبان میں نازل ہوا ہے۔‘‘
اس میں حضرت عثمانؓ نے تصریح فرما دی ہے کہ قرآن صرف قریش کی زبان میں نازل ہوا ہے، رہا یہ سوال کہ پھر اختلاف پیش آنے کا کیامطلب ہے؟سو اس کا مفصل جواب ان شاء اللہ آگے آئے گا۔
اس کے علاوہ اس قول کے قائلین اس بات پرمتفق ہیں کہ’احرفِ سبعہ‘ اور ’قراء ات‘ دونوں الگ الگ چیزیں ہیں، قراء ات کااختلاف جو آج تک موجود ہے وہ صرف ایک حرف یعنی لغت قریش کے اندر ہے اورباقی حروف یامنسوخ ہوگئے یامصلحتاً انہیں ختم کردیاگیا۔ اس پر دوسرے اشکالات کے علاوہ ایک اشکال یہ بھی ہوتا ہے کہ پورے ذخیرۂ احادیث میں کہیں اس بات کاثبوت نہیں ملتا کہ قرآن کریم کی تلاوت میں دو قسم کے اختلافات تھے، ایک ’سبعہ احرف‘ کے اور ایک قراء ات کے ، بلکہ احادیث میں جہاں کہیں قرآن کریم کے کسی لفظی اختلاف کاذکر آیاہے وہاں صرف ’احرف‘ کااختلاف ذکر کیاگیا ہے، قراء ات کاکوئی جداگانہ اختلاف بیان نہیں کیاگیا، ان وجوہ کی بناء پریہ قول بھی نہایت کمزور معلوم ہوتاہے۔
٤ چوتھا مشہور قول امام طحاویؒ کا ہے، وہ فرماتے ہیں کہ قرآن کریم نازل تو صرف قریش کی لغت پر ہوا تھا، لیکن چونکہ اہل عرب مختلف علاقوں اور مختلف قبائل سے تعلق رکھتے تھے اور ہرایک کے لیے اس ایک لغت پرقرآن کریم کی تلاوت بہت دشوار تھی، اس لیے ابتداء اسلام میں یہ اجازت دے دی گئی تھی کہ وہ اپنی علاقائی زبان کے مطابق قرآن کریم کی تلاوت کرلیاکریں۔ چنانچہ جن لوگوں کے لیے قرآن کریم کے اصلی الفاظ سے تلاوت مشکل تھی، ان کے لیے خود آنحضرت ﷺ نے ایسے مرادفات متعین فرما دیئے تھے جن سے وہ تلاوت کرسکیں،یہ مرادفات قریش اور غیرقریش دونوں کی لغات سے منتخب کئے گئے تھے اور یہ بالکل ایسے تھے جیسے
تعال کی جگہ
ھلم یا
اقبل یا
ادن پڑھ دیا جائے۔ معنی سب کے ایک ہی رہتے ہیں، لیکن یہ اجازت صرف اسلام کے ابتدائی دور میں تھی، جبکہ تمام اہل عرب قرآنی زبان کے پوری طرح عادی نہیں ہوئے تھے، پھر رفتہ رفتہ اس قرآنی زبان کادائرہ اثر بڑھتا گیا۔ اہل عرب اس کے عادی ہوگئے اور ان کے لیے اسی اصلی لغت پر قرآن کی تلاوت آسان ہوگئی تو آنحضرتﷺ نے وفات سے پہلے رمضان میں حضرت جبریل علیہ السلام سے قرآن کریم کاآخری دور کیا۔ جسے عرضۂ اخیرہ کہا جاتا ہے۔ اس موقع پر یہ مرادفات سے پڑھنے کی اجازت ختم کردی گئی اور صرف وہی طریقہ باقی رہ گیا جس پر قرآن نازل ہوا تھا۔ (مشکل الآثار:۴؍۱۸۶ تا۱۹۱)
اس قول کے مطابق ’سات حروف‘ والی حدیث کسی مخصوص زمانے سے متعلق ہے،جب تلاوت میں مرادفات استعمال کرنے کی اجازت تھی اور اس کامطلب یہ نہیں تھا کہ قرآن کریم سات حروف پرنازل ہوا ہے،بلکہ مطلب یہ تھا کہ وہ اس وسعت کے ساتھ نازل ہوا ہے کہ اُسے ایک مخصوص زمانے تک سات حروف پر پڑھاجاسکے گا اور سات حروف سے بھی مرادیہ نہیں ہے کہ قرآن کریم کے ہر کلمہ میں سات مرادفات کی اِجازت ہے،بلکہ مقصد یہ تھاکہ زیادہ سے زیادہ جتنے مرادفات استعمال کئے جاسکتے ہیں اُن کی تعداد سات ہے اور اس اجازت کا مفہوم بھی یہ نہ تھا کہ ہرشخص اپنی مرضی سے جوالفاظ چاہے استعمال کرلے، بلکہ متبادل الفاظ کی تعیین بھی خود آنحضرتﷺ نے فرما دی تھی اور ہرشخص کو آپؐ نے اس طرح قرآن سکھلایا تھاجو اس کے لیے آسان ہو، لہٰذا صرف اُن مرادفات کی اجازت دی گئی تھی جو حضورﷺ سے ثابت تھے۔ (فتح الباري:۹؍۲۲،۲۳)
امام طحاویؒ کے علاوہ حضرت سفیان بن عینیہ رحمہ اللہ، ابن وہبa اور حافظ ابن عبدالبررحمہ اللہ نے بھی یہی قول اختیار کیاہے بلکہ حافظ ابن عبدالبررحمہ اللہ نے تو اس قول کو اکثر علماء کی طرف منسوب کیاہے۔ ( شرح الموطأ للزرقانی:۲؍۱۱)
یہ قول پچھلے تمام اقوال کے مقابلہ میں زیادہ قرین قیاس ہے، اوراس کے قائلین اپنی دلیل میں مسنداحمدؒ کی وہ روایت پیش کرتے ہیں جو حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
أن جبریل قال یا محمد اقرأ القرآن علی حرف،قال میکائیکل استزدہ حتیٰ بلغ سبعۃ أحرف،قال کل شافٍ کافٍ ما لم تخلط آیۃ عذاب برحمۃ أو رحمۃ بعذاب، نحو قولک تعال وأقبل وھلم واذھب واسرع وعجّل (ہذا اللفظ روایۃ احمد وإسنادہ جید، أوجز المسالک:۲؍۳۵۷)
’’جبریل علیہ السلام نے (حضورﷺ سے)کہا کہ اے محمدؐ! قرآن کریم کو ایک حرف پرپڑھیے، میکائیل علیہ السلام نے (حضورﷺ سے) کہا اس میں اضافہ کروائیے۔یہاں تک کہ معاملہ سات حروف تک پہنچ گیا، حضرت جبرئیل علیہ السلام نے فرمایا، ان میں سے ہرایک شافی کافی ہے۔ تاوقتیکہ آپ عذاب کی آیت کو رحمت سے یا رحمت کو عذاب سے مخلوط نہ کریں، یہ ایساہی ہوتا جیسے آپ تعال (آؤ) کے معنی کو أقبل، ھلم، اذھب، أسرع اور عجل کے الفاظ سے ادا کریں۔‘‘
اس قول پر اور تو کوئی اشکال نہیں ہے، لیکن ایک الجھن اس میں بھی باقی رہتی ہے اور وہ یہ کہ قرآن کریم کی جو مختلف قراء تیں آج تک متواتر چلی آرہی ہیں، اس قول کے مطابق ان کی حیثیت واضح نہیں ہوتی، اگر ان قراء توں کو ’سات حروف‘سے الگ کوئی چیز قرار دیا جائے تو اس کے لیے دلیل کی ضرورت ہے، احادیث کے وسیع ذخیرے میں ’احرف‘کے اختلاف کے علاوہ قرآن کریم کے کسی اور لفظی اختلاف میں ’احرف سبعہ‘ کے علاوہ ایک اور قسم کااختلاف بھی تھا، اس الجھن کا کوئی اطمینان بخش حل اس قول کے قائلین کے یہاں مجھے نہیں مل سکا۔