ساجد
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 6,602
- ری ایکشن اسکور
- 9,379
- پوائنٹ
- 635
اس قول کے قائلین
حافظ ابوالخیر محمد بن الجزری (متوفی ۸۳۳ھ) جو قراء ات کے امام اعظم مشہور ہیں اور حدیث و فقہ میں حافظ ابن کثیرؒ کے شاگرد اور حافظ ابن حجرؒ کے استاد ہیں، اپنی مشہور کتاب’النشر فی القراء ات العشر‘میں تحریر فرماتے ہیں:
’’أمّا کون المصاحف العثمانیۃ مشتملۃ علی جمیع الاحرف السبعۃ فانّ ھذہ مسئلۃ کبیرۃ اختلف العلماء فیھا فذھب جماعات من الفقہاء والقراء والمتکلمین الیٰ أنّ المصاحف العثمانیہ مشتملۃ علیٰ جمیع الاحرف السبعۃ وبنوا ذلک علیٰ أنہ لا یجوز علی الامۃ أن تھمل نقل شئ من الحروف السبعۃ التی نزل القرآن بھا وقد اجمع الصحابۃ علی نقل المصاحف العثمانیۃ من الصحف التی کتبھا ابوبکر وعمر وإرسال کل مصحف منھا إلی مصر من أمصار المسلمین وأجمعوا علیٰ ترک ما سویٰ ذلک،قال ھؤلاء ولا یجوز أن ینھیٰ عن القراء ۃ ببعض الاحرف السبعۃ ولا أن یجمعوا علیٰ ترک شئ من القرآن،وذھب جماھیر العلماء من السلف والخلف وائمۃ المسلمین إلی أن ھذہ المصاحف العثمانیۃ مشتملۃ علی ما یحتملہ رسمھا فقط جامعۃ للعرضۃ الاخیرۃ التی عرضھا النبی! علی جبریل علیہ السلام متضمنۃ لھا لم تترک حرفاً منھا، قلت وھذا القول ھوالذی یظھر صوابہ لانّ الاحادیث الصحیحۃ والاحاد المشھورۃ المستفیضۃ تدل علیہ وتشھد لہ‘‘(النشر فی القراء ات العشر:۱؍۳۱ )
’’رہا یہ مسئلہ کہ حضرت عثمانؓ نے جو مصاحف تیار فرمائے تھے وہ ساتوں حروف پر مشتمل ہیں یا نہیں؟ سو یہ ایک بڑا مسئلہ ہے جس میں علماء کا اختلاف ہے، چنانچہ فقہاء ، قراء اور متکلمین کی جماعتوں کا مذہب یہ ہے کہ عثمانی مصاحف ساتوں حروف پر مشتمل ہیں، اس کی بنیاد اس بات پر ہے کہ اُمت کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ ان سات حروف میں سے کسی حرف کو نقل کرنا ترک کردے جن پر قرآن نازل ہوا، اور صحابہ نے اجماع طو رپر یہ عثمانی مصاحف اُن صحیفوں سے نقل کئے تھے جو حضرت ابوبکرؓ و عمرؓ نے لکھے تھے اور اُن میں ہر ایک مصحف عالم اسلام کے مختلف شہروں میں بھیج دیا تھا اور اُن کے ماسوا جتنے صحیفے تھے اُن کو چھوڑنے پر متفق ہوگئے تھے، ان حضرات کا کہنا ہے کہ نہ یہ بات جائز ہے کہ حروف سبعہ میں سے کسی حرف کی قراء ت روک دی جائے، اور نہ یہ کہ صحابہ ؓ قرآن سے کسی حصہ کے چھوڑنے پر متفق ہوجائیں اور سلف و خلف کے علماء کی اکثریت کا قول یہی ہے کہ یہ عثمانی مصاحف اُن حروف پر مشتمل ہیں جو اُن کے رسم الخط میں سما گئے اور حضور اکرمﷺ نے حضرت جبریل علیہ السلام سے قرآن کریم کا جو آخری دور کیا تھا، اُس کے تمام حروف ان مصاحف میں جمع ہیں، اُن میں سے کوئی حرف ان مصاحف میں نہیں چھوٹا، میرا خیال یہ ہے کہ یہی وہ قول ہے جس کی صحت ظاہر ہے، کیونکہ صحیح احادیث اور مشہور آثار اسی پر دلالت کرتے ہیں اور اسی کی شہادت دیتے ہیں۔‘‘
اور علامہ بدر الدین عینی رحمہ اللہ نقل فرماتے ہیں:
’’واختلف الأصولیون ھل یقرأ الیوم علی سبعۃ أحرف فمنعہ الطبری وغیرہ وقال إنما یجوز بحرف واحد الیوم وھو حرف زید ونحی إلیہ القاضی ابوبکر،وقال ابوالحسن الاشعری اجمع المسلمون علیٰ أنہ لا یجوز حظر ما وسعہ اﷲ تعالی من القراء ۃ بالاحرف التـی أنزلھا اﷲ تعالـی ولا یسـوغ للامۃ أن تمنع ما یطلقہ اﷲ تعالیٰ،بل ھی موجودۃ فی قراء تنا مفرقۃ فی القرآن غیر معلومۃ فیجوز علیٰ ھذا وبہ قال القاضی ان یقرأ بکل مانقلہ اھل التواتر من غیر تمییز حرف من حرف فیحفظ حرف نافع بحرف الکسائی وحمزۃ ولا حرج فی ذلک‘‘ (عمدۃ القاری:۱۲؍۲۵۸)
’’اور اس بارے میں اصولی علماء کا اختلاف ہے کہ قرآن کریم کو آج سات حروف پر پڑھا جاسکتا ہے یا نہیں؟ چنانچہ علامہ (ابن جریر) طبریؒ وغیرہ نے اس سے انکار کیا ہے اور کہا ہے کہ آج قرآن کی قراء ت ایک ہی حرف پر جائز ہے اور وہ حضرت زید بن ثابتؓ کا حرف ہے اور قاضی ابوبکرؒ بھی اسی طرح مائل ہیں لیکن امام ابوالحسن اشعریؒ فرماتے ہیں کہ اس بات پرمسلمانوں کا اجماع ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو حروف نازل کرکے اُمت کو سہولت عطا فرمائی تھی اسے روکنا کسی کے لیے جائز نہیں اور اُمت اس بات کی مجاز نہیں ہے کہ جس چیز کی اجازت اللہ نے دی ہو اُسے روک دے، بلکہ واقعہ یہ ہے کہ ساتوں حروف ہماری موجودہ قراء ت میں موجود ہیں، اور قرآن کریم میں متفرق طور پر شامل ہیں، البتہ معین طور سے معلوم نہیں۔ اس لحاظ سے اُن کی قراء ت آج بھی جائز ہے اور یہی قول قاضی صاحب (غالباً قاضی عیاضؒ مراد ہیں) کا ہے، جتنے حروف تواتر کے ساتھ منقول ہیں، اُن سب کو پڑھنا جائز ہے اور ایک حرف کو دوسرے حرف سے ممتاز کرنے کی بھی ضرورت نہیں، چنانچہ نافعؒ کی قراء ت کو کسائیؒ اور حمزۃؒ کی قراء ت کے ساتھ (مخلوط کرکے) یاد کرلیا جائے تو اس میں کچھ حرج نہیں ہے۔‘‘ (اس مسئلہ کی تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو :النشر فی القراء ات العشر :۱؍۱۸،۱۹ )
حافظ ابوالخیر محمد بن الجزری (متوفی ۸۳۳ھ) جو قراء ات کے امام اعظم مشہور ہیں اور حدیث و فقہ میں حافظ ابن کثیرؒ کے شاگرد اور حافظ ابن حجرؒ کے استاد ہیں، اپنی مشہور کتاب’النشر فی القراء ات العشر‘میں تحریر فرماتے ہیں:
’’أمّا کون المصاحف العثمانیۃ مشتملۃ علی جمیع الاحرف السبعۃ فانّ ھذہ مسئلۃ کبیرۃ اختلف العلماء فیھا فذھب جماعات من الفقہاء والقراء والمتکلمین الیٰ أنّ المصاحف العثمانیہ مشتملۃ علیٰ جمیع الاحرف السبعۃ وبنوا ذلک علیٰ أنہ لا یجوز علی الامۃ أن تھمل نقل شئ من الحروف السبعۃ التی نزل القرآن بھا وقد اجمع الصحابۃ علی نقل المصاحف العثمانیۃ من الصحف التی کتبھا ابوبکر وعمر وإرسال کل مصحف منھا إلی مصر من أمصار المسلمین وأجمعوا علیٰ ترک ما سویٰ ذلک،قال ھؤلاء ولا یجوز أن ینھیٰ عن القراء ۃ ببعض الاحرف السبعۃ ولا أن یجمعوا علیٰ ترک شئ من القرآن،وذھب جماھیر العلماء من السلف والخلف وائمۃ المسلمین إلی أن ھذہ المصاحف العثمانیۃ مشتملۃ علی ما یحتملہ رسمھا فقط جامعۃ للعرضۃ الاخیرۃ التی عرضھا النبی! علی جبریل علیہ السلام متضمنۃ لھا لم تترک حرفاً منھا، قلت وھذا القول ھوالذی یظھر صوابہ لانّ الاحادیث الصحیحۃ والاحاد المشھورۃ المستفیضۃ تدل علیہ وتشھد لہ‘‘(النشر فی القراء ات العشر:۱؍۳۱ )
’’رہا یہ مسئلہ کہ حضرت عثمانؓ نے جو مصاحف تیار فرمائے تھے وہ ساتوں حروف پر مشتمل ہیں یا نہیں؟ سو یہ ایک بڑا مسئلہ ہے جس میں علماء کا اختلاف ہے، چنانچہ فقہاء ، قراء اور متکلمین کی جماعتوں کا مذہب یہ ہے کہ عثمانی مصاحف ساتوں حروف پر مشتمل ہیں، اس کی بنیاد اس بات پر ہے کہ اُمت کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ ان سات حروف میں سے کسی حرف کو نقل کرنا ترک کردے جن پر قرآن نازل ہوا، اور صحابہ نے اجماع طو رپر یہ عثمانی مصاحف اُن صحیفوں سے نقل کئے تھے جو حضرت ابوبکرؓ و عمرؓ نے لکھے تھے اور اُن میں ہر ایک مصحف عالم اسلام کے مختلف شہروں میں بھیج دیا تھا اور اُن کے ماسوا جتنے صحیفے تھے اُن کو چھوڑنے پر متفق ہوگئے تھے، ان حضرات کا کہنا ہے کہ نہ یہ بات جائز ہے کہ حروف سبعہ میں سے کسی حرف کی قراء ت روک دی جائے، اور نہ یہ کہ صحابہ ؓ قرآن سے کسی حصہ کے چھوڑنے پر متفق ہوجائیں اور سلف و خلف کے علماء کی اکثریت کا قول یہی ہے کہ یہ عثمانی مصاحف اُن حروف پر مشتمل ہیں جو اُن کے رسم الخط میں سما گئے اور حضور اکرمﷺ نے حضرت جبریل علیہ السلام سے قرآن کریم کا جو آخری دور کیا تھا، اُس کے تمام حروف ان مصاحف میں جمع ہیں، اُن میں سے کوئی حرف ان مصاحف میں نہیں چھوٹا، میرا خیال یہ ہے کہ یہی وہ قول ہے جس کی صحت ظاہر ہے، کیونکہ صحیح احادیث اور مشہور آثار اسی پر دلالت کرتے ہیں اور اسی کی شہادت دیتے ہیں۔‘‘
اور علامہ بدر الدین عینی رحمہ اللہ نقل فرماتے ہیں:
’’واختلف الأصولیون ھل یقرأ الیوم علی سبعۃ أحرف فمنعہ الطبری وغیرہ وقال إنما یجوز بحرف واحد الیوم وھو حرف زید ونحی إلیہ القاضی ابوبکر،وقال ابوالحسن الاشعری اجمع المسلمون علیٰ أنہ لا یجوز حظر ما وسعہ اﷲ تعالی من القراء ۃ بالاحرف التـی أنزلھا اﷲ تعالـی ولا یسـوغ للامۃ أن تمنع ما یطلقہ اﷲ تعالیٰ،بل ھی موجودۃ فی قراء تنا مفرقۃ فی القرآن غیر معلومۃ فیجوز علیٰ ھذا وبہ قال القاضی ان یقرأ بکل مانقلہ اھل التواتر من غیر تمییز حرف من حرف فیحفظ حرف نافع بحرف الکسائی وحمزۃ ولا حرج فی ذلک‘‘ (عمدۃ القاری:۱۲؍۲۵۸)
’’اور اس بارے میں اصولی علماء کا اختلاف ہے کہ قرآن کریم کو آج سات حروف پر پڑھا جاسکتا ہے یا نہیں؟ چنانچہ علامہ (ابن جریر) طبریؒ وغیرہ نے اس سے انکار کیا ہے اور کہا ہے کہ آج قرآن کی قراء ت ایک ہی حرف پر جائز ہے اور وہ حضرت زید بن ثابتؓ کا حرف ہے اور قاضی ابوبکرؒ بھی اسی طرح مائل ہیں لیکن امام ابوالحسن اشعریؒ فرماتے ہیں کہ اس بات پرمسلمانوں کا اجماع ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو حروف نازل کرکے اُمت کو سہولت عطا فرمائی تھی اسے روکنا کسی کے لیے جائز نہیں اور اُمت اس بات کی مجاز نہیں ہے کہ جس چیز کی اجازت اللہ نے دی ہو اُسے روک دے، بلکہ واقعہ یہ ہے کہ ساتوں حروف ہماری موجودہ قراء ت میں موجود ہیں، اور قرآن کریم میں متفرق طور پر شامل ہیں، البتہ معین طور سے معلوم نہیں۔ اس لحاظ سے اُن کی قراء ت آج بھی جائز ہے اور یہی قول قاضی صاحب (غالباً قاضی عیاضؒ مراد ہیں) کا ہے، جتنے حروف تواتر کے ساتھ منقول ہیں، اُن سب کو پڑھنا جائز ہے اور ایک حرف کو دوسرے حرف سے ممتاز کرنے کی بھی ضرورت نہیں، چنانچہ نافعؒ کی قراء ت کو کسائیؒ اور حمزۃؒ کی قراء ت کے ساتھ (مخلوط کرکے) یاد کرلیا جائے تو اس میں کچھ حرج نہیں ہے۔‘‘ (اس مسئلہ کی تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو :النشر فی القراء ات العشر :۱؍۱۸،۱۹ )