ساجد
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 6,602
- ری ایکشن اسکور
- 9,379
- پوائنٹ
- 635
سات حروف کے بارے میں اختلافِ آراء کی حقیقت ایک غلط فہمی کااِزالہ
آخر میں ایک اور بنیادی غلط فہمی کا ازالہ کردینا ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ ’سبعہ احرف‘ کی مذکورہ بحث کو پڑھنے والا سرسری طور پر اس شبہ میں مبتلا ہوسکتاہے کہ قرآن کریم جیسی بنیادی کتاب کے بارے میں جو حفاظت ِ خداوندی کے تحت آج تک بغیرکسی ادنیٰ تغیّر کے محفوظ چلی آرہی ہے مسلمانوں میں اتنازبردست اختلاف آراء کیسے پیدا ہوگیا؟
لیکن ’سبعہ احرف‘ کی بحث میں جو اَقوال ہم نے پیچھے نقل کئے ہیں اگر ان کاغور سے مطالعہ کیا جائے تو اس شبہ کا جواب بآسانی معلوم ہوجاتا ہے، جوشخص بھی اس اختلاف آراء کی حقیقت پر غور کرے گا اس پر یہ بات واضح ہوجائے گی کہ یہ سارا اختلاف محض نظریاتی نوعیت کاہے اور عملی اعتبار سے قرآن کریم کی حقانیت و صداقت اوراس کے بعینہٖ محفوظ رہنے پر اس اختلاف کاکوئی ادنیٰ اثربھی مرتب نہیں ہوتا، کیونکہ اس بات پر دلالت کابلا استثناء اتفاق ہے کہ قرآن کریم جس شکل میں آج ہمارے پاس موجود ہے وہ تواتر کے ساتھ چلا آرہا ہے،۱س میں کوئی ادنیٰ تغیر نہیں ہوا، اس بات پر بھی تمام اہل علم متفق ہیں کہ قرآن کریم کی جتنی قراء تیں تواتر کے ساتھ ہم تک پہنچی ہیں وہ سب صحیح ہیں اور قرآن کریم کی تلاوت اُن میں سے ہر ایک کے مطابق کی جاسکتی ہے۔
آخر میں ایک اور بنیادی غلط فہمی کا ازالہ کردینا ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ ’سبعہ احرف‘ کی مذکورہ بحث کو پڑھنے والا سرسری طور پر اس شبہ میں مبتلا ہوسکتاہے کہ قرآن کریم جیسی بنیادی کتاب کے بارے میں جو حفاظت ِ خداوندی کے تحت آج تک بغیرکسی ادنیٰ تغیّر کے محفوظ چلی آرہی ہے مسلمانوں میں اتنازبردست اختلاف آراء کیسے پیدا ہوگیا؟
لیکن ’سبعہ احرف‘ کی بحث میں جو اَقوال ہم نے پیچھے نقل کئے ہیں اگر ان کاغور سے مطالعہ کیا جائے تو اس شبہ کا جواب بآسانی معلوم ہوجاتا ہے، جوشخص بھی اس اختلاف آراء کی حقیقت پر غور کرے گا اس پر یہ بات واضح ہوجائے گی کہ یہ سارا اختلاف محض نظریاتی نوعیت کاہے اور عملی اعتبار سے قرآن کریم کی حقانیت و صداقت اوراس کے بعینہٖ محفوظ رہنے پر اس اختلاف کاکوئی ادنیٰ اثربھی مرتب نہیں ہوتا، کیونکہ اس بات پر دلالت کابلا استثناء اتفاق ہے کہ قرآن کریم جس شکل میں آج ہمارے پاس موجود ہے وہ تواتر کے ساتھ چلا آرہا ہے،۱س میں کوئی ادنیٰ تغیر نہیں ہوا، اس بات پر بھی تمام اہل علم متفق ہیں کہ قرآن کریم کی جتنی قراء تیں تواتر کے ساتھ ہم تک پہنچی ہیں وہ سب صحیح ہیں اور قرآن کریم کی تلاوت اُن میں سے ہر ایک کے مطابق کی جاسکتی ہے۔
لہٰذا جس اختلاف کاذکر گذشتہ صفحات میں کیا گیا ہے وہ صرف اتنی بات میں ہے کہ حدیث میں’سات حروف‘ سے کیامراد تھی؟ اب جتنی متواتر قراء تیں موجود ہیں، وہ ’سات حروف‘ پر مشتمل ہیں یا صرف ایک حرف پر؟ یہ محض ایک علمی نظریاتی اختلاف ہے، جس سے کوئی علمی فرق واقع نہیں ہوتا، اس لیے اس سے یہ سمجھنا بالکل غلط ہے کہ ان اختلافات کی بناء پر قرآن کریم معاذ اللہ مختلف فیہ ہوگیا ہے، اس کی مثال کچھ ایسی ہے جیسے ایک کتاب کے بارے میں ساری دنیا اس بات پر متفق ہو کہ یہ فلاں مصنف کی لکھی ہوئی ہے، اس مصنف کی طرف اس کی نسبت قابل اعتماد ہے اور خود اُس نے اُسے چھاپ کر تصدیق کردی کہ یہ میری لکھی ہوئی کتاب ہے اور اس نسخے کے مطابق قیامت تک اسے شائع کیا جاسکتا ہے، لیکن بعد میں لوگوں کے درمیان یہ اختلاف پیدا ہوجائے کہ مصنف نے اپنے مسودے میں طباعت سے قبل کوئی لفظی ترمیم کی تھی یا جیسا شروع میں لکھا تھا ویسا ہی شائع کردیا، ظاہر ہے کہ محض اتنے سے نظری اختلاف کی بنا پر وہ روشن حقیقت مختلف فیہ نہیں بن جاتی جس پر سب کا اتفاق ہے، یعنی یہ کہ وہ کتاب اُسی مصنف نے اپنی ذمہ داری پر طبع کی ہے، اُسے اپنی طرف منسوب کیاہے، اور قیامت تک اپنی طرف منسوب کرکے شائع کرنے کی اجازت دی ہے، اسی طرح جب پوری اُمت اس بات پرمتفق ہے کہ قرآن کریم کو مصاحف عثمانی میں ٹھیک اُسی طرح لکھا گیا ہے جس طرح وہ نازل ہوا تھا، اور اس کی تمام متواتر قراء تیں صحیح اورمنزل من اللہ ہیں، تو یہ حقائق اُن نظری اختلافات کی بناء پر مختلف فیہ نہیں بن سکتے، جوحروف سبعہ کی تشریح میں پیش آئے ہیں۔اس بات پر بھی پوری اُمت کااجماع ہے کہ متواتر قراء توں کے علاوہ جو شاذ قراء تیں مروی ہیں انہیں قرآن کریم کاجزء قرار نہیں دیا جاسکتا، یہ با ت بھی متفق علیہ ہے کہ’عرضۂ اخیرہ‘ یا اس سے پہلے جو قراء تیں منسوخ کردی گئیں، وہ خود آنحضرت ﷺ کے ارشاد کے بموجب قرآن کا جزء نہیں رہیں، یہ بات بھی سب کے نزدیک ہرشک و شبہ سے بالاتر ہے کہ قرآن کے سات حروف میں جو اختلاف تھاوہ صرف لفظی تھا، مفہوم کے اعتبار سے تمام حروف بالکل متحد تھے، لہٰذا اگر کسی شخص نے قرآن کریم صرف ایک قراء ت یا حرف کے مطابق پڑھا ہو تو اسے قرآنی مضامین حاصل ہوجائیں گے اور قرآن کی ہدایات حاصل کرنے کے لیے اسے کسی دوسرے حرف کو معلوم کرنے کی احتیاج نہیں ہوگی، اس میں بھی کوئی ادنیٰ اختلاف نہیں ہے کہ حضرت عثمانؓ نے جو مصاحف تیارکرائے وہ کامل احتیاط، سینکڑوں صحابہ کرامؓ کی گواہی اور پوری اُمت مسلمہ کی تصدیق کے ساتھ تیار ہوئے تھے اور ان میں قرآن کریم ٹھیک اس طرح لکھ دیا گیا تھاجس طرح وہ رسول اللہﷺ پرنازل ہوا اور اس میں کسی ایک متنفس کوبھی اختلاف نہیں ہوا۔ (حضرت عبداللہ بن مسعودؓ اپنے مصحف کو باقی رکھنے پرتو مصر رہے، لیکن مصاحف عثمانی کی کسی بات پر انہوں نے ادنیٰ اختلاف نہیں فرمایا)