• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قرآن ہاتھ میں پکڑ کر نماز پڑھنے سے نماز فاسد لیکن کتے کا بچہ اٹھا کر پڑھنے سے نماز فاسد نہیں !

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
ہاتھ میں قرآن پکڑ کر نماز پڑھنے سے نماز فاسد لیکن کتے کا بچہ اٹھا کر پڑھنے سے نماز میں کوئی فرق نہیں

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

انگریز دور میں پیدا ہونے والا جدید فرقہ "فرقۂ دیوبند" کے باطل عقائد اور نظریات سے باخبر رہنے کیلئے اس پیج کو ضرور لائیک کیجئے۔

جزاکم اللہ خیرا

لنک


10609708_558325044294265_8002346667478245159_n.png




 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
ہاہاہاہا۔۔۔ کتے کو اٹھا کر نماز پڑھنا۔۔ توبہ استغفراللہ
ایک عام آدمی کو کتے سے اتنی کراہت آتی ہے کہ کتا گزر رہا ہو تو سائیڈ پر ہو کر چلتے ہیں اور یہ کتے کو اٹھا کر نماز۔۔۔ ہاہاہاہا۔۔۔ عقل ہی نہیں ہے یار
 
شمولیت
جنوری 19، 2012
پیغامات
9
ری ایکشن اسکور
17
پوائنٹ
18
بڑے عجب کی بات ہے ٬
خیانت کی بہی حد ہوتی ہے٬
مذکورہ عبارت میں جس مسئلہ کی توضیح ہے وہاں تک تو آپ کا ذہن گیا ہی نہیں ہے۔
مذکورہ مسئلہ میں اس بات کی توضیح ہے کہ نماز میں مصحف پکڑ کر اسی دیکھ کر نماز پڑہنا
نہ کہ مصحف کو پکڑنا۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
بڑے عجب کی بات ہے ٬
خیانت کی بہی حد ہوتی ہے٬
مذکورہ عبارت میں جس مسئلہ کی توضیح ہے وہاں تک تو آپ کا ذہن گیا ہی نہیں ہے۔
مذکورہ مسئلہ میں اس بات کی توضیح ہے کہ نماز میں مصحف پکڑ کر اسی دیکھ کر نماز پڑہنا
نہ کہ مصحف کو پکڑنا۔
بڑے عجب کی بات ہے ٬
خیانت کی بہی حد ہوتی ہے٬
مذکورہ عبارت میں جس مسئلہ کی توضیح ہے وہاں تک تو آپ کا ذہن گیا ہی نہیں ہے۔
مذکورہ مسئلہ میں اس بات کی توضیح ہے کہ نماز میں مصحف پکڑ کر اسی دیکھ کر نماز پڑہنا
نہ کہ مصحف کو پکڑنا۔

نماز ميں قرآن مجيد ديكھ كر پڑھنے كا حكم

كيا نماز تراويح يا چاند اور سورج گرہن كى نماز ميں قرآن مجيد سے ديكھ كر قرآت كرنا جائز ہے يا نہيں ؟


الحمد للہ:

قيام رمضان ميں قرآن مجيد ديكھ كر قرآت كرنے ميں كوئى حرج نہيں، جيسا كہ اس ميں مقتديوں كو پورا قرآن سننے كا موقع مل جاتا ہے، اور اس ليے بھى كہ كتاب و سنت كے دلائل بھى نماز ميں قرآن مجيد كى قرآت كى مشروعيت پر دلالت كرتے ہيں، اور يہ عام ہے قرآت چاہے زبانى كى جائے يا پھر قرآن مجيد سے ديكھ كر.

اور پھر عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے ثابت ہے كہ انہوں نے اپنے غلام ذكوان كو حكم رمضان كا قيام كروانے كا حكم ديا، اور وہ قرآن مجيد ديكھ كر قرآت كيا كرتے تھے.

اسے امام بخارى رحمہ اللہ تعالى نے اپنى صحيح ميں معلق اور بالجزم ذكر كيا ہے.

واللہ اعلم .
ديكھيں: فتاوى اسلاميۃ الشيخ ابن باز ( 2 )

http://islamqa.info/ur/1255
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
كيا كتے كو چھونے سے ہاتھ نجس ہو جاتا ہے ؟


كيا كتے كو چھونا حرام ہے يا مكروہ ؟

ميں نے كئى مسلمانوں سے سنا ہے كہ كتا نجس اور پليد ہے، اور ان پر ابليس تھوكتا بھى ہے، اور يہ كہ جب ہم كتے كو چھوئيں تو كئى بار ہميں اپنے ہاتھ دھونا ہونگے، ليكن قرآن مجيد اور سنت نبويہ اور اسلامى كتب ميں مجھے يہ كہيں نہيں ملا ؟




الحمد للہ:


اس سوال كے جواب كى دو شقيں ہيں:

پہلى شق:


كتا پالنے كا حكم:

" انسان كے ليے كتا ركھنا حرام ہے، صرف چند ايك امور كے ليے كتا ركھنا جائز ہے جس كے ليے شريعت مطہرہ نے اجازت دى ہے، جس نے بھى شكار يا كھيت كى ركھوالى كے علاوہ كسى اور مقصد كے ليے كتا ركھا روزانہ اس كے اجروثواب ميں سے ايك قيراط يا دو قيراط اجر كم كر ديا جاتا ہے.

ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو يہ فرماتے ہوئے سنا:

" جس نے بھى شكار يا چوپايوں كى ركھوالى كے علاوہ كسى اور مقصد كے ليے كتا ركھا تو اس كے اجر سے ہر روز دو قيراط اجر كم كر ديا جاتا ہے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 5059 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2941 ) اور ايك روايت ميں ايك قيراط كے الفاظ ہيں.

قيراط اجروثواب كى عظيم مقدار سے كنايہ ہے، اور اگر ہر روز اس كے اجر سے ايك قيراط كم ہوتا ہے تو پھر وہ اس سے گنہگار ہوگا، كيونكہ اجروثواب فوت ہونا گنہگار ہونے كے مترادف ہے، دونوں ہى حرمت پر دلالت كرتے ہيں، يعنى اس كے نتيجہ ميں جو مرتب ہوتا ہے وہ حرمت پر دلالت كرتا ہے.

جانوروں كى نجاست ميں كتے كى نجاست سب سے بڑى نجاست ہے كيونكہ كتے كى نجاست سات بار جس ميں ايك بار مٹى سے دھوئے بغير ختم نہيں ہوتى، حتى كہ خنزير جس كى حرمت قرآن ميں بھى بيان ہوئى ہے اور وہ پليد ہے وہ كتے كى نجاست كى حد تك نہيں پہنچتا.

اس ليے كتا نجس اور خبيث ہے، ليكن بہت شديد افسوس ہے كہ بعض مسلمان بھى كفار كے دھوكے ميں آكر ان كى طرح خبيث اشياء كے ساتھ الفت و محبت كرنے لگے ہيں اور ان كى تقليد كرتے ہوئے بغير كسى ضرورت كتے ركھنے كا شوق ركھتے ہيں، انہيں پالتے پوستے ہيں، اور ان كى صفالى ستھرائى كرتے ہيں حالانكہ وہ كبھى بھى صاف نہيں ہو سكتے چاہے اسے سمندر كے سارے پانى سے بھى نہلا ديں، كيونكہ وہ عينى نجاست ہے.
اس ليے ايسے لوگوں كو ہمارى نصيحت ہے كہ وہ اللہ تعالى كے ہاں توبہ كرتے ہوئے اپنے گھروں سے كتے نكال ديں.

ليكن جو شخص شكار يا كھيت يا چوپايوں كى حفاظت كے ليے كتا ركھنے كا محتاج ہو اس كے ليے ايسا كرنے ميں كوئى حرج نہيں كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايسا كرنے كى اجازت دى ہے...

اگر آپ اس كتے كو اپنے گھر سے نكال ديں اور دھتكار ديں تو پھر اس كے بعد آپ اس كے مسئول نہيں، لہذا اسے آپ اپنے پاس نہ ركھيں اور نہ ہى اسے پناہ ديں.

دوسرى شق:


كتے كو چھونے كا حكم:

" اگر اسے بغير كسى رطوبت اور نمى كے چھوا جائے تو ہاتھ نجس نہيں ہوتا، اور اگر اسے رطوبت و نمى كى حالت ميں چھوا جائے تو اكثر اہل علم كى رائے ميں اس سے ہاتھ نجس ہو جاتا ہے، اور اس كے بعد سات بار جس ميں ايك بار مٹى سے ہاتھ دھونا واجب ہوگا.

رہا برتنوں كا مسئلہ تو اگر كتا كسى برتن ميں منہ ڈالے تو اس برتن كو سات بار دھونا واجب ہے، جس ميں ايك بار مٹى سے دھونا شامل ہے جيسا كہ صحيح بخارى اور صحيح مسلم وغيرہ كى درج ذيل حديث ميں بيان ہوا ہے:

ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جب كتا تمہارے كسى برتن ميں منہ ڈال دے تو اسے سات بار جس ميں ايك مٹى سے دھوؤ "

بہتر يہ ہے كہ پہلى بار مٹى مل كر دھويا جائے.

واللہ تعالى اعلم.



ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ محمد بن عثيمين ( 11 / 246 ).


اور كتاب: فتاوى اسلاميۃ ( 4 / 447 ).

واللہ اعلم .




الشيخ محمد صالح المنجد

http://islamqa.info/ur/13356
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
حالت نماز میں قرآن کریم کو پکڑ کر قراءت


تحریر: غلام مصطفے ظہیر امن پوری

جب آدمی حافظ قرآن نہ ہو تو بوقت ضرورت قرآن کریم ہاتھ میں پکڑ کر قرآئت کر سکتا ہے۔ محدثین کرامؓ اس کو جائز سمجھتے تھے۔ اسی طرح اگر سامع حافظ نہ ہو تو وہ بھی ایسا کر سکتا ہے جیسا کہ:

۱۔ ام المومنین سیدہ عائشہؓ کے بارے میں روایت ہے:
کانت عائشۃ یؤمّھا عندھا ذکوان من المصحف۔
‘‘ سیدہ عائشہؓ کے غلام ذکوانؓ ان کی امامت قرآن مجید سے دیکھ کر کرتے تھے۔’’

(صحیح البخاری: ۹۶/۱ تعلیقا، مصنف ابن ابی شیبۃ: ۳۳۷/۲، کتاب المصاحف لابن داوٗد: ۷۹۷، السنن الکبرٰی للبیھقی: ۲۵۳/۲، وسندہٗ صحیحٌ)

حافظ نوویؒ (خلاصۃ الاحکام: ۵۵۰/۱) نے اس کی سند کو ‘‘ صحیح’’ اور حافظ ابن حجرؒ (تغلیق التعلیق: ۲۹۱/۲) نے اس روایت کو ‘‘صحیح’’ قرار دیا ہے۔

۲۔ امام ایوب سختیانیؓ فرماتے ہیں:

کان محمّد لا یری بأسا أن یؤمّ الرجل القوم، یقرأفی فی المصٖف۔

‘‘ امام محمد بن سرین تابعیؒ اس میں کوئی حرج خیال نہیں کرتے تھے کہ آدمی قوم کو امامت کروائے اور قرائت قرآن مجید سے دیکھ کر کرے۔’’

(مصنف ابن ابی شیبۃ: ۳۳۷/۲، وسندہٗ صحیحٌ)

۳۔ امام شعبہؒ، امام حکم بن عتیبہ تابعیؒ سے اس امام کے بارے میں روایت کرتے ہیں، جو رمضان المبارک میں قرآن مجید کو ہاتھ میں پکڑ کر قرائت کرتا ہے۔ آپؒ اس میں رخصت دیتے تھے۔’’

(مصنف ابن ابی شیبۃ: ۳۳۷/۲، وسندۃٗ صحیحٌ)

۴۔ امام حسن بصری تابعیؒ اور امام محمد بن سیرین تابعیؒ فرماتے ہیں کہ نماز میں قرآن مجید پکڑ کر قرائت کرنے میں کوئی حرج نہیں۔’’

(مصنف ابن ابی شیبۃ: ۳۳۷/۲، وسندہٗ صحیحٌ)

۵۔ امام عطاء بن ابی رباح تابعیؒ کہتے ہیں کہ حالت نماز میں قرآن مجید سے دیکھ کر قرائت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

(مصنف ابن ابی شیبۃ: ۳۳۷/۲، وسندہٗ صحیحٌ)

۶۔ امام یحیٰی بن سعید الانصاریؒ فرماتے ہیں:

لا أری بالقراءۃ من المصحف فی رمضان بأسا۔

‘‘ میں رمضان المبارک میں قرآن مجید سے دیکھ کر قرائت کرنے میں کوئی حرج خیال نہیں کرتا۔’’

(کتاب المصاحف لابن ابی داوٗد: ۸۰۵، وسندہٗ صحیحٌ)

۷۔ محمد بن عبداللہ بن مسلم بیان کرتے ہیں کہ میں نے امام زہریؒ سے قرآن مجید سے قرائت کر کے امامت کرانے کے بارے میں پوچھا تو آپؒ نے فرمایا:

لم یزل الناس منذ کان الإسلام، یفعلون ذلک۔

‘‘ اسلام کے شروع سے لے کر ہر دور میں مسلمان ایسا کرتے آئے ہیں۔’’

( کتاب المصاحف لابن ابی داوٗد: ۸۰۶، وسندہٗ حسنٌ)

۸۔ امام مالکؒ سے ایسے انسان کے بارے میں سوال ہوا، جو رمضان المبارک میں قرآن مجید ہاتھ میں پکڑ کر امامت کراتا ہے۔ آپؒ نے فرمایا:

لابأس بذلک، وإذا ضطرّوا إلی ذلک۔

‘‘ مجبوری ہو تو ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔’’

(کتاب المصاحف لابن ابی داوٗد: ۸۰۸، وسندہٗ صحیحٌ)

۹۔ امام ایوب سختیانیؒ فرماتے ہیں:

کان ابن سیرین یصلّی، والمصحف إلی جنبہ، فإذا تردّد نظر فیہ۔
‘‘ امام محمد سیرینؒ نماز پڑھتے تو قرآن مجید ان کے پہلو میں پڑا ہوتا۔ جب بھولتے تو اس سے دیکھ لیتے۔’’

(مصنف عبد الرزاق: ۴۲۰/۲، ح: ۳۹۳۱، وسندہٗ صحیحٌ)

۱۰۔ امام ثابت البنانیؒ بیان کرتے ہیں:

کان أنس یصلّی، وغلامہ یمسک المصحف خلفہ، فإذا تعایا فی آیۃ فتح علیہ۔

‘‘ سیدنا انس بن مالکؓ نماز پڑھتے تھے۔ ان کا غلام ان کے پیچھے قرآن مجید پکڑ کر کھڑا ہو جاتا تھا۔ جب آپ کسی آیت پر رک جاتے تو وہ لقمہ دے دیتا تھا۔’’

(مصنف ابی ابن شیبۃ: ۳۳۷/۲، السنن الکبری للبیھقی: ۲۱۲/۳، وسندہٗ صحیحٌ)

ثابت ہوا کہ قرآن مجید ہاتھ میں پکڑ کر قرآئت کرنے سے نماز فاسد نہیں ہوتی۔ اس کے خلاف سلف سے کچھ ثابت نہیں۔ فاسد کہنے والوں کا قول خود فاسد اور کاسد ہے۔

سعودی عرب کے مفتیٔ اعظم، فقیہ العصر، شیخ عبد العزیز ابن بازؒ نے بھی فتح الباری (۱۸۵/۲) کی تحقیق میں اس کو بوقت ضرورت جائز قرار دیا ہے۔

جو لوگ کہتے ہیں کہ ہاتھ میں قرآن کریم پکڑ کر نماز میں قرائت کرنے سے نماز فاسد ہو جاتی ہے، وہ یہ دلیل پیش کرتے ہیں:

۔ سیدنا ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عمر بن خطابؓ نے ہمیں قرآن کریم ہاتھ میں پکڑ کر امامت کرانے سے منع فرمایا۔’’

(کتاب المصاحف: ۷۷۲)

تبصرہ:

اس کی سند سخت ترین ‘‘ ضعیف’’ ہے، کیونکہ:
۱۔ اس کی سند میں نہشل بن سعید راوی ‘‘ متروک’’ اور ‘‘کذاب’’ ہے۔
(تقریب التھذیب: ۷۱۹۷، میزان الاعتدال: ۲۷۵/۴)

۲۔ اس کے راوی ضحاک بن مزاحم کا سیدنا ابن عباسؓ سے سماع نہیں ہے۔
( تفسیر ابن کثیر: ۲۳۶/۵، التلخیص الحبیر لابن حجر: ۲۱/۱، العجاب فی بیان الاسباب لابن حجر: ص۱۰۴)

حنفی اور دیوبندی مذہب کی معتبر ترین کتابوں میں لکھا ہے:

و لذلک قال مشایخنا فیمن صلّی، وفی کمّہ جرو کلب أنّہ تجوز صلاتہ، و قیّد الفقیہ أبو جعفر الھند و انیّ الجواز بکونہ مسدود الفم۔
‘‘ اس واسطے ہمارے مشایخ نے اس نمازی کے بارے میں کہا ہے، جس کی حالت یہ ہے کہ اس کی آستین میں پلا ( کتیا کا بچہ) ہو، اس کی نماز جائز ہے، فقیہ ابو جعفر الہندونی نے اس جواز کو اس بات کے ساتھ مقید کیا ہے کہ کتے کا منہ (کپڑا لپیٹ کر) بند کیاہوا ہو۔’’

( بدائع الصنائع: ۷۴/۱، الدر المختار مع کشف لاستار: ۳۸/۱، رد المختار: ۱۵۳/۱، حاشیۃ الطحطاوی علی الدر المختار: ۱۱۵-۱۱۴/۱، البحر الرائق لابن نجیم: ۱۰۲-۱۰۱/۱، فیض الباری از انور شاہ کشمیری دیو بندی: ۲۷۴/۱، مجموعہ رسائل از مھدی حسن شاھجہانپوری دیوبندی: ۲۴۰)

آل تقلید کتا اٹھا کر نماز پڑھنے کو تو جائز سمجھتے ہیں، لیکن قرآن مجید ہاتھ میں پکڑ کر نماز فاسد ہو جاتی ہے۔ یہ قبیح بدعت ہے۔ امت میں کوئی مسلمان بھی کتا اٹھا کر نماز پڑھنے کا قائل نہیں۔ مقلدین نے یہ بدعت ایجاد کی ہے۔

رسول اللہﷺ نے فرمایا:
من أحدث فی أمرنا ھذا مالیس منہ فھو ردّ۔
‘‘ جو شخص ہمارے اس دین میں ایسی چیز نکالے، جس کا وجود اس میں نہ ہو، وہ باطل ہے۔’’
(صحیح البخاری: ۳۷۱/۱، ح:۲۶۹۷، صحیح مسلم: ۷۷/۲، ح:۱۷۱۸)

مشتاق علی شاہ دیو بندی نے ایک کتاب شائع کی ہے ‘‘ فقہ حنفی پر اعتراضات کے جوابات’’ مکتبہ فاروقیہ۔ ۸ گوبند گڑھ، گوجرانوالہ، پاکستان۔ اس کتاب کے صفحہ نمبر ۳۰۸ پر اس نے فقہ حنفی پر ایک غیر حنفی کا اعتراض نقل کیا ہے کہ حنفیوں کے نزدیک ‘‘ اگر بڑے کتے کو بھی بغل میں دبائے ہوئے نماز پڑھے تو نماز فاسد نہ ہو گی۔’’

مشاق علی شاہ دیو بندی کے ممدوح محمد شریف کوٹلوی بریلوی نے اس کے تین جوابات دئیے ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے:
‘‘ رسول کریمﷺ اپنی نواسی امامہ بنت زینب کو اٹھا کر نماز پڑھا کرتے تھے۔’’
(فقہ حنفی پر اعتراضات کے جوابات: ص ۳۰۹)

سوال کتے کے بارے میں تھا اور جواب میں اس گستاخ نے پیارے نبی اکرمﷺ کی پاک نواسی کا ذکرکر دیا ہے۔

حنفی مذہب کی معتبر ترین کتابوں میں لکھا ہے:

إذا قرأ المصلّی من المصحف فسدت صلاۃ فی قول أبی حنیفۃ، لو نظر إلی فرج المطلّقۃ عن شھوۃ، یصیر مراجعا، ولا تفسد صلاتہ، لونظر المصلّی إلی فرج امرأۃ بشھوۃ حرمت علیہ أمھا وابنتھا، ولا تفسد صلاتہ۔
ترجمہ :
‘‘ جب نمازی قرآن مجید پکڑ کر قرائت کرے تو امام ابوحنیفہ کے قول کے مطابق نماز فاسد ہو جاتی ہے، لیکن اگر طلاق شدہ عورت کے شرمگاہ کو شہوت کی نظر سے دیکھے تو رجوع ہو جائے گا، نماز بھی فاسد نہیں ہو گی۔ اگر نمازی کسی عورت کی شرمگاہ کی طرف شہوت کے ساتھ دیکھتا ہے تو اس عورت کی ماں اور بیٹی اس پر حرام ہو جائے گی، نماز فاسد نہیں ہوگی۔’’
(فتاوی قاضی خان: ۶۵/۱، فتاوی عالمگیری: ۱۰۱/۱، الفتاوی التاتارخانیہ: ۵۹۴/۱، الاشباہ والنظائر لابن نجیم: ۳۰۷/۲)

امام بریلوت احمد رضا خان صاحب لکھتے ہیں:

‘ اگر عورت کو طلاق رجعی دی تھی، ہنوز عدت نہ گزری تھی۔ یہ نماز میں تھا کہ عورت کی فرج داخل (شرمگاہ کے اندرونی حصے) پر نظر پڑ گئی اور شہوت پیدا ہوئی۔ رجعت ہو گئی اور نماز میں فساد نہ آیا۔’’
(فتاوی رضویہ: ۷۴/۱)

قارئین کرام! یہ حنفی مذہب کی معتبر کتابیں ہیں اور یہ حنفی فقہاء ہیں اور یہ ان کی فقہ ‘‘ شریف’’ ہے۔

الحاصل:


بوقت ضرورت قرآن مجید ہاتھ میں پکڑ کر قرائت کی جاسکتی ہے۔ فاسد کہنے والوں کا قول فاسد ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Top