ساجد
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 6,602
- ری ایکشن اسکور
- 9,379
- پوائنٹ
- 635
حضورﷺکی قوم قریش تھی، پس ضرور ہے کہ قرآن قریش کی زبان میں نازل ہو اور حدیث میں بھی حضرت عمرو حضرت عثمان رضی اللہ عنہما کا قول موجود ہے کہ قرآن لغتِ قریش میں نازل ہوا ہے۔
پس اَوّلاً قرآن کانزول لغتِ قریش میں ہوا اور ہجرت سے پہلے چونکہ اِسلام لانے والے زیادہ تر اَہل مکہ تھے جو سب قریش تھے یا قریش کی زبان میں تکلم کرنے والے تھے، اس لیے عرب کے دوسرے لغات میں پڑھنے کی ضرورت نہ تھی، پھر ہجرت کے بعد چونکہ دوسرے قبائل عرب بھی اِسلام میں داخل ہونے لگے تھے اور گو تمام قبائل عرب کی مشترک زبان عربی تھی، مگر تلفظ و اعراب میں بہت کچھ اِختلاف تھا مثلاً قریش ’حَتّٰی حِیْنٍ‘ کو حاء سے پڑھتے تھے اور ھذیل ’عَتّٰی حِیْنٍ‘ عین کے ساتھ پڑھتے تھے، قریش’’ اِنَّآ أَعْطَیْنٰکَ الْکَوْثَر‘‘ (الکوثر:۱) پڑھتے، اور بعض قبائل ’أَعْطَیْنَا‘ کو ’ أَنْطَیْنَا‘ پڑھتے یعنی بجائے عین کے نون اَدا کرتے تھے ، لغتِ قریش میں حروف مضارع کو فتح یا ضمہ ہوتا ہے بعض قبائل ان کو کسرہ سے پڑھتے تھے مثلاً: ’ تَعْلَمُوْنَ‘ کو ’تِعْلَمُوْنَ‘ کہتے، لغت قریش میں ہمزہ بھی ایک حرف ہے اور بعض قبائل ہمزہ بالکل اَدانہ کرتے تھے،(اور اس اِختلاف کی نظیر ہر زبان میں موجود ہے، مثلاً دہلی اور لکھنو کی اُردو زبان میں اختلاف ہے، ایک کھارا پانی کہتا ہے ایک کھاری پانی بولتا ہے ، کوئی میٹھا دہی کہتا ہے کوئی میٹھی دہی، اسی طرح کسی جگہ چھاچھ بولتے ہیں کہیں مٹھا کسی جگہ چھالیہ بولتے ہیں کہیں ڈلی یا سپاری کہتے ہیں، دہلی والے عموماً ہاء کو یاء بولتے ہیں، مثلاً میں جاریا تھا میں یہ کہہ ریا تھا اور لکھنو والے اس طرح نہیں بولتے) اور قاعدہ ہے کہ مادری زبان کا دفعۃً بدل جانا دشوار ہے، گو پوری کوشش اور اِہتمام سے کام لیا جائے تو ممکن ہے، مگر قدرے دشوار ضرور ہے خصوصاً ایسی قوم کے لیے جس میں لکھنے پڑھنے کا رواج بالکل نہ ہو، بلکہ محض سننے سنانے پر مدار ہو۔ اور ان کے یہاں قرآن کا مدار محض اسی پر تھا، لکھنے پڑھنے والے بہت کم تھے، بس جتنا قرآن جس کے پاس تھا وہ حفظ ہی میں تھا ، اور اس حالت میں دوسرے قبائل اپنے تلفظ ہی کے موافق قرآن کو پڑھتے تھے دفعۃً لغت قریش اور تلفظ قریش کو اَدا نہ کرسکتے تھے (جیسا کہ لکھنو والا دفعتاً دلّی کے محاورات میں گفتگو نہیں کرسکتا، اگر وہ اُردو کا کوئی مضمون لکھ کر دیکھ کر نہ پڑھے بلکہ یادداشت سے پڑھے تو ضرور اپنے لکھنوی تلفظ اور محاورات سے اس کو اَدا کرے گا، ہاں کوشش کے ساتھ یاد کرنے سے بہت جگہ دہلی کے محاورات کوملحوظ رکھنا ممکن ہے ، لیکن کہیں کہیں اس کی مادری زبان کا تلفظ بھی ضرور اَدا ہوگا۔
پس اَوّلاً قرآن کانزول لغتِ قریش میں ہوا اور ہجرت سے پہلے چونکہ اِسلام لانے والے زیادہ تر اَہل مکہ تھے جو سب قریش تھے یا قریش کی زبان میں تکلم کرنے والے تھے، اس لیے عرب کے دوسرے لغات میں پڑھنے کی ضرورت نہ تھی، پھر ہجرت کے بعد چونکہ دوسرے قبائل عرب بھی اِسلام میں داخل ہونے لگے تھے اور گو تمام قبائل عرب کی مشترک زبان عربی تھی، مگر تلفظ و اعراب میں بہت کچھ اِختلاف تھا مثلاً قریش ’حَتّٰی حِیْنٍ‘ کو حاء سے پڑھتے تھے اور ھذیل ’عَتّٰی حِیْنٍ‘ عین کے ساتھ پڑھتے تھے، قریش’’ اِنَّآ أَعْطَیْنٰکَ الْکَوْثَر‘‘ (الکوثر:۱) پڑھتے، اور بعض قبائل ’أَعْطَیْنَا‘ کو ’ أَنْطَیْنَا‘ پڑھتے یعنی بجائے عین کے نون اَدا کرتے تھے ، لغتِ قریش میں حروف مضارع کو فتح یا ضمہ ہوتا ہے بعض قبائل ان کو کسرہ سے پڑھتے تھے مثلاً: ’ تَعْلَمُوْنَ‘ کو ’تِعْلَمُوْنَ‘ کہتے، لغت قریش میں ہمزہ بھی ایک حرف ہے اور بعض قبائل ہمزہ بالکل اَدانہ کرتے تھے،(اور اس اِختلاف کی نظیر ہر زبان میں موجود ہے، مثلاً دہلی اور لکھنو کی اُردو زبان میں اختلاف ہے، ایک کھارا پانی کہتا ہے ایک کھاری پانی بولتا ہے ، کوئی میٹھا دہی کہتا ہے کوئی میٹھی دہی، اسی طرح کسی جگہ چھاچھ بولتے ہیں کہیں مٹھا کسی جگہ چھالیہ بولتے ہیں کہیں ڈلی یا سپاری کہتے ہیں، دہلی والے عموماً ہاء کو یاء بولتے ہیں، مثلاً میں جاریا تھا میں یہ کہہ ریا تھا اور لکھنو والے اس طرح نہیں بولتے) اور قاعدہ ہے کہ مادری زبان کا دفعۃً بدل جانا دشوار ہے، گو پوری کوشش اور اِہتمام سے کام لیا جائے تو ممکن ہے، مگر قدرے دشوار ضرور ہے خصوصاً ایسی قوم کے لیے جس میں لکھنے پڑھنے کا رواج بالکل نہ ہو، بلکہ محض سننے سنانے پر مدار ہو۔ اور ان کے یہاں قرآن کا مدار محض اسی پر تھا، لکھنے پڑھنے والے بہت کم تھے، بس جتنا قرآن جس کے پاس تھا وہ حفظ ہی میں تھا ، اور اس حالت میں دوسرے قبائل اپنے تلفظ ہی کے موافق قرآن کو پڑھتے تھے دفعۃً لغت قریش اور تلفظ قریش کو اَدا نہ کرسکتے تھے (جیسا کہ لکھنو والا دفعتاً دلّی کے محاورات میں گفتگو نہیں کرسکتا، اگر وہ اُردو کا کوئی مضمون لکھ کر دیکھ کر نہ پڑھے بلکہ یادداشت سے پڑھے تو ضرور اپنے لکھنوی تلفظ اور محاورات سے اس کو اَدا کرے گا، ہاں کوشش کے ساتھ یاد کرنے سے بہت جگہ دہلی کے محاورات کوملحوظ رکھنا ممکن ہے ، لیکن کہیں کہیں اس کی مادری زبان کا تلفظ بھی ضرور اَدا ہوگا۔