ساجد
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 6,602
- ری ایکشن اسکور
- 9,379
- پوائنٹ
- 635
حاصلِ کلام اور حرفِ آخر
اَحرفِ سبعہ سے کیا مراد ہے اور یہ کہ اب وہ باقی ہیں یا نہیں اور قراء اتِ سبعہ اور عشرہ کا تعلق کس لغت سے ہے تفصیل بالا سے واضح ہے کہ اس میں حضرات اہل علم کے مابین شدید اِختلاف پایا جاتا ہے علامہ دانی،اکثر محققین اور جمہور اہل اَدا کے نزدیک اَحرف ِسبعہ سے مراد مختلف قبائل کی سات لغات ہیں اور علامہ طبری اور بعض دیگر حضرات کے نزدیک اَحرفِ سبعہ میں سے اب صرف ایک حرف باقی ہے دیگر اَحرف ستہ حضور اکرمﷺ کے زمانہ میں منسوخ ہوگئے تھے، اب وہ باقی نہیں رہے۔ ہمارے اَکابر میں سے حضرت علامہ ظفر اَحمد عثمانی کی رائے گرامی بھی یہی ہے خود احقر کے والد ماجد فقیہ العصر حضرت مولانا مفتی عبدالشکور صاحب ترمذی جو اپنے دور میں ایک جید عالم دین اور عظیم فقیہ و مفسر ہونے کے ساتھ قراء اتِ سبعہ بلکہ عشرہ کے باقاعدہ قاری اور حضرت شیخ القراء جناب قاری محی الاسلام کے خاص تلمیذ رشید تھے ان کی رائے بھی یہی تھی۔ جیسا کہ انہوں نے علامہ شمس الحق اَفغانی سے متعلق اپنے مقالہ ’حضرت مولانا افغانی کی تفسیری خدمات‘ میں اِس کا اِظہار بھی فرمایا ہے۔ لیکن اس کے برعکس جمہور علماء ِکرام کا ایک دوسرا طبقہ جس کا تفصیلی ذکر علوم القرآن کے حوالہ سے گزر چکا ہے، ان کا نظریہ یہ ہے کہ اَحرف سبعہ اب بھی باقی ہیں۔ لیکن یہ ایک خالص علمی اور نظریاتی اِختلاف ہے اس سے اس حقیقت ثانیہ، کہ قرآن کریم چودہ سو سال سے آج تک بغیر کسی اَدنیٰ تغیر و تبدل، اللہ تعالیٰ کی حفاظت کے تحت محفوظ چلا آرہا ہے اور اس کی جتنی قراء تیں تواتر کے ساتھ ہم تک پہنچی ہیں وہ سب صحیح ہیں، پر ذرا بھی اَثر نہیں پڑتا۔ حضرت علامہ محمد تقی عثمانی﷾ نے اس بارہ میں نہایت صائب اور فیصلہ کن بات تحریر فرمائی ہے :
’’یہ سارا اختلاف محض نظریاتی نوعیت کا ہے اور عملی اعتبار سے قرآن کریم کی حقانیت و صداقت اور اس کے بعینہٖ محفوظ رہنے پر اس اختلاف کا کوئی اَثر بھی مرتب نہیں ہوتا۔‘‘ (علوم القرآن:۱۵۶)
سردست ہم اس تحریر پر اکتفاء کرتے ہیں، اُمید ہے کہ حصولِ مطلوب میں یہ کافی ہوگی۔
اَحرفِ سبعہ سے کیا مراد ہے اور یہ کہ اب وہ باقی ہیں یا نہیں اور قراء اتِ سبعہ اور عشرہ کا تعلق کس لغت سے ہے تفصیل بالا سے واضح ہے کہ اس میں حضرات اہل علم کے مابین شدید اِختلاف پایا جاتا ہے علامہ دانی،اکثر محققین اور جمہور اہل اَدا کے نزدیک اَحرف ِسبعہ سے مراد مختلف قبائل کی سات لغات ہیں اور علامہ طبری اور بعض دیگر حضرات کے نزدیک اَحرفِ سبعہ میں سے اب صرف ایک حرف باقی ہے دیگر اَحرف ستہ حضور اکرمﷺ کے زمانہ میں منسوخ ہوگئے تھے، اب وہ باقی نہیں رہے۔ ہمارے اَکابر میں سے حضرت علامہ ظفر اَحمد عثمانی کی رائے گرامی بھی یہی ہے خود احقر کے والد ماجد فقیہ العصر حضرت مولانا مفتی عبدالشکور صاحب ترمذی جو اپنے دور میں ایک جید عالم دین اور عظیم فقیہ و مفسر ہونے کے ساتھ قراء اتِ سبعہ بلکہ عشرہ کے باقاعدہ قاری اور حضرت شیخ القراء جناب قاری محی الاسلام کے خاص تلمیذ رشید تھے ان کی رائے بھی یہی تھی۔ جیسا کہ انہوں نے علامہ شمس الحق اَفغانی سے متعلق اپنے مقالہ ’حضرت مولانا افغانی کی تفسیری خدمات‘ میں اِس کا اِظہار بھی فرمایا ہے۔ لیکن اس کے برعکس جمہور علماء ِکرام کا ایک دوسرا طبقہ جس کا تفصیلی ذکر علوم القرآن کے حوالہ سے گزر چکا ہے، ان کا نظریہ یہ ہے کہ اَحرف سبعہ اب بھی باقی ہیں۔ لیکن یہ ایک خالص علمی اور نظریاتی اِختلاف ہے اس سے اس حقیقت ثانیہ، کہ قرآن کریم چودہ سو سال سے آج تک بغیر کسی اَدنیٰ تغیر و تبدل، اللہ تعالیٰ کی حفاظت کے تحت محفوظ چلا آرہا ہے اور اس کی جتنی قراء تیں تواتر کے ساتھ ہم تک پہنچی ہیں وہ سب صحیح ہیں، پر ذرا بھی اَثر نہیں پڑتا۔ حضرت علامہ محمد تقی عثمانی﷾ نے اس بارہ میں نہایت صائب اور فیصلہ کن بات تحریر فرمائی ہے :
’’یہ سارا اختلاف محض نظریاتی نوعیت کا ہے اور عملی اعتبار سے قرآن کریم کی حقانیت و صداقت اور اس کے بعینہٖ محفوظ رہنے پر اس اختلاف کا کوئی اَثر بھی مرتب نہیں ہوتا۔‘‘ (علوم القرآن:۱۵۶)
سردست ہم اس تحریر پر اکتفاء کرتے ہیں، اُمید ہے کہ حصولِ مطلوب میں یہ کافی ہوگی۔