ساجد
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 6,602
- ری ایکشن اسکور
- 9,379
- پوائنٹ
- 635
قراء اتِ متواترہ (سبعۃ وعشرۃ)
(فسانہ یا حقیقت؟)
(فسانہ یا حقیقت؟)
قاری صہیب احمدمیرمحمدی
لفظ’قراء ات‘ کی لغوی بحثلفظ قراء ات جمع ہے قراء ۃ کی۔ لغت میں قرأ یقرأ سے قراء ۃ مصدر سماعی ہے۔چنانچہ کہا جاتا ہے قرأ یقرأ قراء ۃ وقرآنابمعنی تلا یعنی اس نے پڑھا، تلاوت کی۔ اسی سے اسم فاعل قاری آتا ہے اور قاری کی جمع قراء، قراۃ اور قاریون آتی ہے۔
لفظ قراء ۃ سے قاراۃ بمعنی دراسۃ بھی استعمال ہوتا ہے۔ گویا دراست قراء ۃ سے خارج نہیں۔اسی طرح تقرا بمعنی تفقہ بھی مستعمل ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ قراء ۃ کو گہرے فہم سے بھی علاقہ ہے بلکہ دراست تلقی اور تفقہ معانی و مطالب کو قراء ت میں شامل کرنے کا فائدہ دے رہی ہے۔اہل لغت نے قراء ت کی تعریف ان الفاظ سے کی ہے:’’ھي عبارۃ عن لفظ الأحرف مجموعا من مختلف المخارج‘‘
’’حروف کے مجموعہ کو قراء ت کہتے ہیں خواہ وہ مجموعہ متفق المخارج ہویا مختلف المخارج۔‘‘
امام راغب اصفہانی رحمہ اللہ اپنی کتاب ’المفردات فی غریب القرآن‘ کے صفحہ ۴۹۲ پر رقم طراز ہیں کہ ترتیل میں بعض کلمات اوربعض حروف کو بعض کے ساتھ ملا دینے اور جمع کردینے کو قراء ت کہتے ہیں۔چنانچہ اگر کوئی حرف واحد کا تلفظ کرے تو یہ نہیں کہیں گے کہ وہ قراء ت کررہا ہے۔جیساکہ درجہ ابتدائیہ کے بچوں کا معمول ہوتا ہے۔
قرآن مجید میں سورۂ قیامہ کی آیت ۱۷،۱۸ میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’إِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَہُ وَ قُرْآنَہُ فَاِذَا قَرَئْ نَاہُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَہُ‘‘
اس آیت کی تفسیر ابن عباس رضی اللہ عنہ یوں کرتے ہیں: إذا جمعناہ وأثبتناہ فی صدرک فاعمل بہ (جب ہم نے اس کو جمع کردیا اور آپ کے سینے میں محفوظ کردیا تو آپؐ اس پر عمل کریں) اس سے بھی قراء ت کا لغوی معنی واضح ہوتاہے۔
علامہ فیروز آبادی رحمہ اللہ اپنی کتاب قاموس المحیط کی جلد۱ صفحہ ۲۵ میں یوں صراحت کرتے ہیں کہ قراء ۃ الشیء کامعنی ضمہ وجمعہ ہے یعنی چیز کو جمع کرنے اور ضم کرنے کو قراء ت کہتے ہیں۔ چنانچہ یہاں سے بھی لغوی معنی واضح ہوگیا۔
علامہ زبیدی رحمہ اللہ اپنی کتاب ’تاج العروس‘ کی جلد۱،ص۱۰۲ میں قراء ت القرآن کی تعبیر لفطت بہ مجموعاسے کرتے ہیں جس سے لغوی معنی واضح ہوگیا۔