ساجد
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 6,602
- ری ایکشن اسکور
- 9,379
- پوائنٹ
- 635
(٢٨) عجلی کہتے ہیں کہ روی عن ابن عمر نحوا من ثلاثۃ أحادیث یعنی امام زہری رحمہ اللہ نے ابن عمر رضی اللہ عنہ سے تین روایتیں کی ہیں۔
(٢٩) امام ذیلی عبدالرزاق رحمہ اللہ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے معمر سے کہا: ’’ھل سمع الزھری من ابن عمر قال نعم‘‘ یعنی اے معمر کیازہری رحمہ اللہ کا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے سماع ہے؟ تو انہوں نے کہا ہاں۔
ان تمام نصوص پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا کہ ایسی شخصیت نہ تدلیس کا جرم کرسکتی ہے اور نہ ہی ادراج کا، اور نہ ہی ان کی مراسیل کی حیثیت ہوا کی ہے بلکہ ان تمام الزامات سے وہ شخصیت مبرا ہے۔رہا امام زہری رحمہ اللہ کا بنوامیہ کے ساتھ تعلق خاص (جیساکہ گولڈ زیہر مستشرق یہودی نے بھی کہا ہے) کہ دنیوی وجاہت کی خاطر ابن شہاب الزہری رحمہ اللہ نے اموی خاندان کے ساتھ تعلقات قائم کئے تھے۔
حالانکہ یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ زہری رحمہ اللہ جیسے صادق، ثقہ، حجت آدمی کا خلفائے بنوامیہ سے تعلق ان سے فائدہ اٹھانے کی دلیل کیسے بن سکتا ہے؟ ان پرالزام یہ لگایا جاتا ہے کہ تعلق قائم کرنے کے بعد انہوں نے اپنی خواہشات کے مطابق احادیث میں امام زہری رحمہ اللہ سے فائدہ اٹھایا یعنی امام زہری رحمہ اللہ خلفائے بنوامیہ کے لیے وضع الحدیث کا کام کرتے اور اس طرح مال و وجاہت کا حصول ممکن بناتے۔ حالانکہ اس سے پہلے بھی علماء کا خلفاء سے تعلق رہا ہے لیکن اس تعلق کی وجہ سے ان ائمہ کی امانت ، صداقت، ثقاہت داغدار نہیں۔ لہٰذا زہری رحمہ اللہ جیسے عظیم عالم کا ان خلفائے سے تعلق کسی طرح سے ان کے دین و امانت و ورع میں اثر انداز نہیں ہوسکا۔امام زہری رحمہ اللہ سے بہرحال مسلمان مستفید ہوتے رہتے ہیں۔اس طرح کے الزام کی کوئی بنیاد ہے نہ حقیقت۔
امام زہری رحمہ اللہ خلفائے کی مجلس میں جاکر بھی احادیث روایت کرتے یا کوئی علمی رائے پیش کرتے یا ان پر عائد ہونے والے عوامی فرائض کو ذکر کرتے اور احکام الٰہی اور اس کے فرائض کو ببانگ دہل بیان کرتے۔
(٢٩) امام ذیلی عبدالرزاق رحمہ اللہ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے معمر سے کہا: ’’ھل سمع الزھری من ابن عمر قال نعم‘‘ یعنی اے معمر کیازہری رحمہ اللہ کا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے سماع ہے؟ تو انہوں نے کہا ہاں۔
ان تمام نصوص پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا کہ ایسی شخصیت نہ تدلیس کا جرم کرسکتی ہے اور نہ ہی ادراج کا، اور نہ ہی ان کی مراسیل کی حیثیت ہوا کی ہے بلکہ ان تمام الزامات سے وہ شخصیت مبرا ہے۔رہا امام زہری رحمہ اللہ کا بنوامیہ کے ساتھ تعلق خاص (جیساکہ گولڈ زیہر مستشرق یہودی نے بھی کہا ہے) کہ دنیوی وجاہت کی خاطر ابن شہاب الزہری رحمہ اللہ نے اموی خاندان کے ساتھ تعلقات قائم کئے تھے۔
حالانکہ یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ زہری رحمہ اللہ جیسے صادق، ثقہ، حجت آدمی کا خلفائے بنوامیہ سے تعلق ان سے فائدہ اٹھانے کی دلیل کیسے بن سکتا ہے؟ ان پرالزام یہ لگایا جاتا ہے کہ تعلق قائم کرنے کے بعد انہوں نے اپنی خواہشات کے مطابق احادیث میں امام زہری رحمہ اللہ سے فائدہ اٹھایا یعنی امام زہری رحمہ اللہ خلفائے بنوامیہ کے لیے وضع الحدیث کا کام کرتے اور اس طرح مال و وجاہت کا حصول ممکن بناتے۔ حالانکہ اس سے پہلے بھی علماء کا خلفاء سے تعلق رہا ہے لیکن اس تعلق کی وجہ سے ان ائمہ کی امانت ، صداقت، ثقاہت داغدار نہیں۔ لہٰذا زہری رحمہ اللہ جیسے عظیم عالم کا ان خلفائے سے تعلق کسی طرح سے ان کے دین و امانت و ورع میں اثر انداز نہیں ہوسکا۔امام زہری رحمہ اللہ سے بہرحال مسلمان مستفید ہوتے رہتے ہیں۔اس طرح کے الزام کی کوئی بنیاد ہے نہ حقیقت۔
امام زہری رحمہ اللہ خلفائے کی مجلس میں جاکر بھی احادیث روایت کرتے یا کوئی علمی رائے پیش کرتے یا ان پر عائد ہونے والے عوامی فرائض کو ذکر کرتے اور احکام الٰہی اور اس کے فرائض کو ببانگ دہل بیان کرتے۔