ڈاکٹر طہٰ حسین
ڈاکٹرطہ حسین نے بھی مستشرقین کی اتباع میں قراء ات کی بنیاد اورمصدر لہجات ولغات کو قرار دیا ہے، چنانچہ وہ اپنی کتاب
’فی الأدب الجاہلي‘میں رقمطراز ہے:
’’والحق أنہ لیست لہذا القراء ات السبع من الوحی فی قلیل ولا کثیر ولیس منکرہا کافرا ولا فاسقا ولا مغتمضا فی دینہ وإنما ہی قراء ات مصدرہا اللَّہجات واختلافہا‘‘
’’ ان سات قراء ات کاتعلق وحی سے نہیں اور نہ ہی ان کا منکر کافر یا فاسق ہے اور نہ اپنے دین میں عیب لگانے والا ہے۔بلکہ ان قراء ات کا مصدر لہجات اور ان کا اختلاف ہے۔‘‘
وہ مزید کہتا ہے کہ
’’قرآن ایک ہی لغت اور لہجہ یعنی قریش میں تلاوت کیاگیا، لیکن مختلف قراء اپنے اپنے قبائل کے لہجات کا لحاظ رکھتے ہوئے متعدد قراء ات پڑھنے لگے، یہاں تک کہ بہت زیادہ قراء ات اورلہجات پیدا ہوگئے اوران کے مابین بہت زیادہ تباین اوراختلاف واقع ہوگیا، جن کو بعد کے علماء و قراء نے ضبط کیا اور اس کو مخصوص علم کا نام دے دیا۔‘‘
ڈاکٹر طہ حسین نے جہاں قراء ات کا مصدر، لہجات کو قرار دے کر اس کی منقولی اور توقیفی حیثیت پر طعن کیا ہے وہاں وہ صراحتاً قراء ات کے تواتر کا بھی انکار کرتا ہے۔ وہ لکھتا ہے:
’’وہنا وقفۃ لا بد منہا ذلک ان قوما من رجال الدِّین فہموا أن ہذہ القراء ات السبع متواترۃ عن النبیﷺ نزل بہ جبریل علی قلبہ، فمنکرہا کافر من غیر شک ولا ریب،ولم یوفقوا الدلیل یستدلّون بہ علی ما یقولون سوی ما روی فی الصحیح من قولہ (أنزل القرآن علی سبعۃ أحرف)‘‘
’’دین سمجھنے والوں میں ایک جماعت یہ نظریہ رکھتی ہے کہ یہ سات قراء ات نبی کریمﷺ سے بطریقِ تواتر منقول ہیں، جن کو حضرت جبریل علیہ السلام لے کر آئے اور یہ کہ ان کا منکر بلا شک وشبہ کافر ہے، حالانکہ وہ اس بات پر حدیث ’قرآن سات حروف پر نازل ہوا‘کے علاوہ کوئی دلیل پیش کرنے سے قاصر ہیں۔‘‘
غرض وہ قراء ات ِسبعہ کو غیر منقولی اور محض لغات ولہجات کی فروعات قرار دیتا ہے ۔ اس کے نزدیک یہ قراء ات توقیفی نہیں، بلکہ اختراعی ہیں۔ طہٰ حسین کی ان عبارات میں کسی طرح کی کوئی منقولی یا عقلی دلیل نہیں۔ وہ حدیث ’سبعہ احرف‘ کو محض ایک روایت کہہ کر رد کرتا ہے، حالانکہ اس حدیث کی استنادی حیثیت محدثین کے نزدیک مسلمہ ہے۔ ڈاکٹر طہٰ حسین کی تصنیفات میںحدیث کی حجیت اور مقام سے بے اعتنائی کے یہ رویے ہمیں جابجا دکھائی دیتے ہیں۔ڈاکٹر طہٰ حسین کے ان شبہات کا جواب ڈاکٹر لبیب السعید ، ڈاکٹر عبد الہادی الفضلی اور عبدالقیوم السندی نے اپنی کتب میں تفصیلاً ذکر کیا ہے ۔
قراء ات کی حجیت وقطعیت سے متعلقہ اَحادیث وروایات پیش کرنے کی بجائے ہم صرف ان دلائل کو ذکر کرنا ضروری سمجھتے ہیں، جن سے واضح ہوتا ہے کہ قراء ات صرف لہجات ولغات کی وجہ سے وجود میں نہیں آئیں۔