• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قراء ات قرآنیہ اور مسلم تجدِّدین

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قراء ات ِقرآنیہ اور مسلم تجدِّدین

محمد فیروزالدین شاہ کھگہ
مقالہ نگار محمد فیروز الدین شاہ حفظہ اللہ نے چند سال قبل شیخ زید اسلامک سینٹر ، جامعہ پنجاب سے علوم اسلامیہ میں پروفیسر ڈاکٹر محمد اکرم چودھری حفظہ اللہ کے زیر نگرانی ایم، فل کی ڈگری حاصل کی ہے۔ موصوف کے مقالہ کا عنوان تھا: ’’اختلاف قراء ات اور نظریہ تحریف قرآن‘‘۔ مقالہ مذکور کے بہترین مقالہ جات کی فہرست میں شامل ہونے کی وجہ سے اسلامک سینٹر نے بعد ازاں اِسے کتابی صورت میں طبع کروایا ہے۔زیر نظرمضمون اسی مقالہ کی ایک فصل کا انتخاب ہے، جو فاضل مقالہ نگار نے رشد ’’قراء ات نمبر‘‘ کے قارئین کے لیے منتخب کرکے ارسال فرمائی ہے ۔ (اِدارہ)
قرآنی علوم واسرار اوراَحکامات سے شناسائی کیلئے سب سے پہلا مرحلہ ’قراء ت‘ کا ہے۔ اسی لیے علومِ قرآن کے ماہرین اور خصوصاً فن قراء ت میں مہارت رکھنے والے ائمہ کرام نے اس کے جملہ پہلوؤں پر سیر حاصل بحث کی ہے اوراس سلسلہ میں مستقل ہدایات اور اصول وضوابط کی وضاحت فرمائی ہے۔چونکہ اس فن میں قیاس کا قطعی طور پر کوئی دخل نہیں، اس لیے انہوں نے خالص سماعی اورنقلی بنیادوں پر اس کی ترویج میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ائمہ قراء ات نے ابتدائی دور میں اس فن پر تحریر کردہ کتب میں اس کی منقولی حیثیت کو واضح کرنے کے لیے باقاعدہ طورپر ان کی اسانید کا بیان بھی ضروری سمجھا،جو نبی کریم ﷺ سے بطریق ِتواترمنقول ہیں۔ اس لحاظ سے قرآن کریم کی یہ متنوع قراء ات یقینی طورپر منز ل من اللہ ہونے کے ساتھ ساتھ متعدد رموزوحِکم کی حامل ہیں۔اُ مت پر وسعت ورحمت کے علاوہ دیگر علوم مثلاً تفسیر وفقہ وغیرہ میں بھی ان کی اِفادیت مسلمہ ہے۔ علومِ اِسلامیہ کی اَساس ہونے کے ساتھ ساتھ یہ لسانیاتی علوم کی حفاظت کابھی اَساسی ذریعہ ہیں۔
قرآنی متن سے اس فن کے براہِ راست تعلق اوراس کی اہمیت کے پیش نظر، اسلام دشمن عناصر نے اس کوبالخصوص ہدفِ تنقید بنایا ہے اورمتعدد وسائل وذرائع سے قرآنِ کریم کے متعلق اُمت مسلمہ میں شکوک وشبہات پیدا کرنے کے لیے اس کی قراء ات کو انسانی اختراع ا ورتحریف قرار دیا ہے۔ مستشرقین نے اس مقصد کے حصول کیلئے صحابہ کے مخصوص ذاتی مصاحف کو بنیاد بنا کر مصاحف ِعثمانیہ سے ان کا تقابل کرنے کے بعد یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ موجودہ قرآن اِن مصاحف سے بہت حد تک مطابقت نہیں رکھتا، نیز یہ کہ مختلف قراء ات دراصل مصاحف قدیمہ کے نقطوں اور حرکات سے خالی ہونے کی بناء پر انسانی خواہشات کے مطابق وجودپذیر ہوئیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قراء ات پر اعتراضات وشبہات کے حوالہ سے بنیادی طورپر یہودی مستشرق گولڈ زیہر (Goldziher)نے بنیادیں فراہم کیں، جبکہ آرتھر جیفری(Arthur Jeffery) نے باقاعدہ انداز میں اس کی تفصیلات پیش کیں۔
چونکہ قرآنِ کریم اسلامی شریعت کا اوّلین سرچشمہ ہے، جو ہر قسم کی تحریف وآمیز ش سے پاک ہے اور اس کے برعکس تورات وانجیل وغیرہ اپنی اصلی حیثیت کو برقرار نہ رکھتے ہوئے بے شمار تحریفات کا شکار ہوئی ہیں، غالباً اسی وجہ سے مستشرقین نے قرآنی نص کو اپنا موضوعِ بحث بناتے ہوئے ہوئے اس کو محرَّف ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ دراصل استشراقی فکر کا محور یہ ہے کہ جس طرح تورات وانجیل اپنی حیثیت کھو بیٹھی ہیں اور ان کے کئی ایڈیشن منظر عام پر آچکے ہیں، مسلمانوں کے قرآن کو بھی اسی مقام پر لا کھڑاکیاجائے۔ اسی بناء پر انہوں نے قراء ات ِ قرآنیہ کو انسانی قیاس پرمبنی اورحدیث سبعہ احرف کی استنادی حیثیت کو موضوع ومشکوک قرار دیا ہے ۔
اختلافِ قراء ات کو تحریف واختراع قرار دینے والوں میں بنیادی طور پر تین گروہ شامل ہیں، جن میں بعض فرقِ روافض ،مستشرقین اوردورِ حاضر کے چند منکرین قراء ات ہیں ،جو حقیقتاً جرمن اور یورپی استشراقی نظریات سے ہی متاثر نظر آتے ہیں۔ ان کے علاوہ ’قبول ِقراء ات‘کے بارے میں چودہ سو سال میں کوئی اختلاف منقول نہیں ہے۔
استشراقی فکر وفلسفہ کے زیر اَثر عالم ِاسلام کا ایک اچھا خاصا طبقہ بھی متاثر ہوا ہے اور اس نے نئے حالات اور تقاضوں کے پیش نظر غالب تہذیب کے ’علمی ورثہ ‘کو اپنایا اور اسی کی ترویج واشاعت میں کسی نہ کسی انداز میں منہمک رہا۔ اسلامی علوم میں جمہور علماء کے نظریات سے ہٹ کر جو آزادانہ روش اس طبقہ نے اپنائی، اس کے نقصانات مسلمانوں کے مابین نزاع ومخاصمہ پر منتج ہوئے۔چونکہ تحریک ِاستشراق کے بنیادی اہداف ومقاصد میں مسلمانوں کے درمیان باہمی منافرت پیدا کرنا ہے، اسی لئے وہ ہمیشہ شریعت اِسلامیہ کے اوّلین اوربنیادی مصادر(قرآن وسنت) میں شکو ک وشبہات پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس ضمن میں ان کی سب سے بڑی خواہش یہ ہوتی ہے کہ وہ سادہ لوح مسلمانوں کو متفرق وسائل وذرائع اختیار کر کے ذہنی تذبذب کا شکار کر سکیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
یہ ایک حقیقت ہے کہ مسلمانوں میں ایک ایسا طبقہ موجود ہے، جو شعوری یا غیر شعوری طور پرمستشرقین کی ملمع کاریوں کی بھینٹ چڑھا ہے، بالخصوص یورپین اور جرمن استشراقی تحریکوں کے نتیجے میں اہل ِاسلام کے اندر ایسے لوگ پائے گئے، جنہوں نے مستشرقین سے زیادہ اسلام کو نقصان پہنچایا ہے۔ اس مضمون میں ہم صرف ان شبہات کا تذکرہ کریں گے، جو مستشرقین کے علاوہ عالم اسلام میں بعض تجدد پسند شخصیات نے قرآنی قراء ات کے بارے میں پھیلائے ہیں۔ ان متجدَّدین وملحدین کی فکر کا زیادہ تر مدار استشراقی فکر پر ہی ہے ۔
قراء اتِ قرآنیہ سے متعلق جمہور ائمہ سے مخالف رائے قائم کرنے والے ان جدید’مسلم محققین‘کے متعلق ہمارا خیال یہ ہے کہ ان کا موضوعِ تحقیق دراصل ’علم القراء ات ‘ نہیں تھا، لہٰذا ان کو اپنے قائم کردہ نظریات کی شناعت کا علم نہ ہوسکا یا پھر مسئلہ کے سمجھنے میں ان سے غلطی ہوئی،چنانچہ یہ نظریات بالکلیہ استشراقی فکر کی اتباع میں براہِ راست قرآنِ کریم کی قراء ات اور ان کی حجیت وقطعیت کو نشانۂ تنقید بناتے ہیں۔ ان ’محققین‘ میں ڈاکٹر علی عبدالواحد وافی، ڈاکٹر جواد علی،ڈاکٹر عبداللہ خورشید،ڈاکٹر صلاح الدین المنجد،طہ حسین، ابراہیم ابیاری، تمنا عمادی اور امین احسن اصلاحی وغیرہ کے شبہات قابل ذکر ہیں۔آمدہ سطور میں اختصار کے ساتھ ان کے نظریات کا تجزیاتی مطالعہ پیش خدمت ہے ۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ڈاکٹر علی عبدالواحد وافی
عربی زبان وادب کے حوالہ سے ڈاکٹرعلی عبد الواحد وافی خاصی شہرت کی حامل شخصیت ہیں۔ ان کے بہت سارے مضامین عالم اسلام کے مختلف رسائل وجرائد میں شائع ہو چکے ہیں۔ فقہ اللُّغۃکے عنوان سے ان کی کتاب متعدد مرتبہ شائع ہو چکی ہے۔ انہوں نے اپنی کتاب کے پہلے ایڈیشن میں قراء ات کے حوالہ سے جمہور اُمت کے اجماعی نقطہ نظر سے ہٹ کر’ قراء اتِ قرآنیہ‘ کے وجود میں آنے کا سبب مصاحف عثمانیہ کے نقطوں اورحرکات سے خالی ہونے کو قرار دیا۔ وہ لکھتے ہیں:
’’یرجع بعض مظاھر الاختلاف فی قراء ات القرآن إلی اختلافھم فی قراء ۃ الکلمۃ حسب رسمہا فی المصحف العثمانی، فقد کان الرسم مجرداً من الإعجام والشکل، ولذلک کان یمکن قراء ۃ بعض الکلمات علی وجوہ مختلفۃ‘‘
واضح رہے کہ یہی نقطہ نظر گولڈ زیہر اورآرتھر جیفری کے علاوہ بعض دیگر مستشرقین نے بھی پیش کیا ہے۔ تاہم ڈاکٹر عبدالواحد وافی کا قولِ مذکور سے رجوع ثابت ہے، چنانچہ طبع اوّل کے بعد بقیہ تمام طباعتوں میں اس کی صراحت کر دی گئی ہے۔ والحمد للہ علی ذالک
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ڈاکٹر طہٰ حسین
ڈاکٹرطہ حسین نے بھی مستشرقین کی اتباع میں قراء ات کی بنیاد اورمصدر لہجات ولغات کو قرار دیا ہے، چنانچہ وہ اپنی کتاب’فی الأدب الجاہلي‘میں رقمطراز ہے:
’’والحق أنہ لیست لہذا القراء ات السبع من الوحی فی قلیل ولا کثیر ولیس منکرہا کافرا ولا فاسقا ولا مغتمضا فی دینہ وإنما ہی قراء ات مصدرہا اللَّہجات واختلافہا‘‘
’’ ان سات قراء ات کاتعلق وحی سے نہیں اور نہ ہی ان کا منکر کافر یا فاسق ہے اور نہ اپنے دین میں عیب لگانے والا ہے۔بلکہ ان قراء ات کا مصدر لہجات اور ان کا اختلاف ہے۔‘‘
وہ مزید کہتا ہے کہ
’’قرآن ایک ہی لغت اور لہجہ یعنی قریش میں تلاوت کیاگیا، لیکن مختلف قراء اپنے اپنے قبائل کے لہجات کا لحاظ رکھتے ہوئے متعدد قراء ات پڑھنے لگے، یہاں تک کہ بہت زیادہ قراء ات اورلہجات پیدا ہوگئے اوران کے مابین بہت زیادہ تباین اوراختلاف واقع ہوگیا، جن کو بعد کے علماء و قراء نے ضبط کیا اور اس کو مخصوص علم کا نام دے دیا۔‘‘
ڈاکٹر طہ حسین نے جہاں قراء ات کا مصدر، لہجات کو قرار دے کر اس کی منقولی اور توقیفی حیثیت پر طعن کیا ہے وہاں وہ صراحتاً قراء ات کے تواتر کا بھی انکار کرتا ہے۔ وہ لکھتا ہے:
’’وہنا وقفۃ لا بد منہا ذلک ان قوما من رجال الدِّین فہموا أن ہذہ القراء ات السبع متواترۃ عن النبیﷺ نزل بہ جبریل علی قلبہ، فمنکرہا کافر من غیر شک ولا ریب،ولم یوفقوا الدلیل یستدلّون بہ علی ما یقولون سوی ما روی فی الصحیح من قولہ (أنزل القرآن علی سبعۃ أحرف)‘‘
’’دین سمجھنے والوں میں ایک جماعت یہ نظریہ رکھتی ہے کہ یہ سات قراء ات نبی کریمﷺ سے بطریقِ تواتر منقول ہیں، جن کو حضرت جبریل علیہ السلام لے کر آئے اور یہ کہ ان کا منکر بلا شک وشبہ کافر ہے، حالانکہ وہ اس بات پر حدیث ’قرآن سات حروف پر نازل ہوا‘کے علاوہ کوئی دلیل پیش کرنے سے قاصر ہیں۔‘‘
غرض وہ قراء ات ِسبعہ کو غیر منقولی اور محض لغات ولہجات کی فروعات قرار دیتا ہے ۔ اس کے نزدیک یہ قراء ات توقیفی نہیں، بلکہ اختراعی ہیں۔ طہٰ حسین کی ان عبارات میں کسی طرح کی کوئی منقولی یا عقلی دلیل نہیں۔ وہ حدیث ’سبعہ احرف‘ کو محض ایک روایت کہہ کر رد کرتا ہے، حالانکہ اس حدیث کی استنادی حیثیت محدثین کے نزدیک مسلمہ ہے۔ ڈاکٹر طہٰ حسین کی تصنیفات میںحدیث کی حجیت اور مقام سے بے اعتنائی کے یہ رویے ہمیں جابجا دکھائی دیتے ہیں۔ڈاکٹر طہٰ حسین کے ان شبہات کا جواب ڈاکٹر لبیب السعید ، ڈاکٹر عبد الہادی الفضلی اور عبدالقیوم السندی نے اپنی کتب میں تفصیلاً ذکر کیا ہے ۔
قراء ات کی حجیت وقطعیت سے متعلقہ اَحادیث وروایات پیش کرنے کی بجائے ہم صرف ان دلائل کو ذکر کرنا ضروری سمجھتے ہیں، جن سے واضح ہوتا ہے کہ قراء ات صرف لہجات ولغات کی وجہ سے وجود میں نہیں آئیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قراء ات کے فرشی اختلافات کا مشاہدہ
اس شبہ کے رد کے لیے صرف مفرداتِ قراء ات پر نظر کرنا ہی کافی ہے۔ فرش الحروف کے مشاہدہ سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ یہ تمام قراء ات لغات ولہجات نہیں ہیں، چنانچہ سورۃ البقرۃسے اس کی چند مثالیں حسب ذیل ہیں:
(١) ’’وَمَا یَخْدَعُونَ اِلَّا اَنفُسَہُمْ‘‘کو ’’یخَادِعُون‘‘پڑھا گیا ہے ۔
(٢) ’’وَلَا یُقْبَلُ منْہَا شَفَاعَۃ‘‘کو ’’تُقْبَلُ‘‘پڑھا گیا ہے۔
(٣) ’’وَاَحَاطَتْ بِہ خَطِیْئَتُہ‘‘میں’’خطیئٰتُہ‘‘پڑھا گیا ہے۔
(٤) ’’نَغْفِرْلَکُمْ خَطٰیٰکُمْ‘‘میں’’تُغْفَرْلَکم‘‘اور’’یُغْفَرْلَکُمْ‘‘پڑھاگیا ہے۔
(٥) ’’لَیْسَ البِرَّ‘‘میں راء کو نصب اور رفع دونوں کے ساتھ پڑھا گیا ہے۔
(٦) ’’فَاَزَلَّہُمَا‘‘میں’’فأزالہما‘‘پڑھا گیا ہے۔
(٧) ’’وٰعَدْنَا‘‘میں’’ وَعدنا‘‘پڑھا گیا ہے۔
(٨) ’’عَمَّا تَعْمَلُوْنَ‘‘میں’’یَعْمَلُوْن‘‘پڑھا گیا ہے۔
(٩) ’’لا یَعْبُدُوْنَ‘‘میں’’لا تَعْبُدُونَ‘‘پڑھا گیا ہے۔
(١٠) ’’حَسَنًا‘‘میں’’حُسْنًا‘‘پڑھا گیا ہے۔
ظاہر ہے کہ فرش الحروف کی ان مثالوں میں لہجات کاکوئی اختلاف نہیں۔ ہمارے لیے اس معاملہ کی مزید وضاحت حرکات میں تبدیلی کی مثالوں سے بھی ہوتی ہے، مثلاً:
(۱) ’’یٰجِبَالُ اَوِّبِیْ معَہ والطَّیْرَ‘‘( سبا:۱۰)میں ’’الطیرُ‘‘ مرفوع بھی پڑھا گیا ہے۔
(۲) ’’وَاِنْ کانَ مَکْرُہُمْ لَتَزُوْلُ منْہُ الْجِبَالُ‘‘(ابراہیم:۴۶)میں پہلے لام کے کسرہ اور دوسرے کے فتحہ کے ساتھ بھی پڑھا گیا ہے۔
(٣) ’’لَنْ تُخْلَفَہُ‘‘(طہ :۹۷)میں لا م کا فتحہ اور کسرہ دونوں پڑھے گئے ہیں۔
اسی طرح قراء ات میں وہ اختلاف جو صرف کلمات کے حروف میں واقع ہوتے ہیں، جن سے صورت تبدیل نہیں ہوتی البتہ معنی میں تغیر واقع ہوتا ہے، جیسے:’تَبْلُوا‘ اور’تَتْلُوا ‘( یونس :۳۰)ابن کثیر ،نافع ،عاصم ،ابوعمرو اورابن عامر نے ’تبلوا‘باء کے ساتھ جب کہ حمزہ اور کسائی نے اسے تاء کے ساتھ پڑھا ہے۔اسی طرح’عبدالرحمن‘ کو’عند الرحمن‘بھی پڑھا گیا ہے۔ذکر کردہ مثالوں میں کوئی قراء ت بھی لہجہ پر مبنی نہیں ہے، لہٰذا ثابت ہوا کہ قراء ات کا مدار لغات ولہجات پر نہیں بلکہ اس کی بنیاد نقل وروایت اور تلقی وتشافہ پر ہے ۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قراء ات کے اصولی اختلافات کا مشاہدہ
قراء ات کے اُصولی اختلافات، مثلاً:اظہار، ادغام، روم، اشمام، تفخیم، ترقیق،مدوقصر،امالہ وفتح،تحقیق وتسہیل اورابدال ونقل وغیرہ کا تعلق اگرچہ اختلافِ لہجات کے قبیل سے ہے، لیکن یہ نوع بھی نبی کریم ﷺسے روایت ونقل کی بنیاد پر ہی رائج ہوئی۔اس میں اجتہادیا قیاس کا کوئی دخل نہیں ہے۔ ابوشامہ مقدسی رحمہ اللہ (المتوفی ۶۶۵ھ)نے ادغام ، مد، تشدید، ترکِ امالہ،یا تقدیم وتاخیر کے قرآنی قراء ات میں استعمال کی حقیقت کو واضح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ
’’فإنہ کلہ منزل من عند اﷲ تعالٰی ومما وقف الرسولﷺ علی صحتہ وخیّر بینہ وبین غیرہ وصوّب جمیع القراء ات بہ‘‘
قراء ات کے یہ اصولی اختلافات اجتہاد وقیاس پر مبنی ہوتے، تو ائمہ قراء کے ہاں ان کا استعمال استثناء کے بغیر ہوتا، مثلاً امام حمزہ رحمہ اللہ کا مذہب امالہ کے بارے میں یہ ہے کہ جہاں کہیں بھی مصاحف ِعثمانیہ میں کوئی کلمہ آخر میں یاء کے ساتھ مرسوم ہووہاں امالہ ہوگا،لیکن اس کے باوجود چند کلمات میں ایسا نہیں، جیسا کہ کلمہ:’’سَجیٰ‘‘(الضحی:۲)میں امالہ نہیں، حالانکہ اس کے آخر میں یاء موجود ہے۔ اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ یہاں امالہ روایات میں ثابت نہیں۔
علامہ ابوشامہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’ولو سوغنا لبعض القراء امالۃ ما لم یملہ الرسولﷺ والصحابۃ أو غیر ذلک لسوغنا لہم مخالفۃ جمیع قراء ۃ الرسولﷺ‘‘
’’ اگر بعض قراء کیلئے ایسی جگہ امالہ کی اجازت دی جائے، جہاں آپ ﷺنے اورصحابہ نے امالہ نہیں کیا تو گویا ہم نے رسول اللہ ﷺکی تمام قراء ت کی مخالفت کی۔‘‘
لہٰذا جہاں جہاں جو لفظ جس طرح آپﷺسے منقول ہے، اس کے برعکس اپنی طر ف سے پڑھنا کسی طرح بھی جائز نہیں اورنہ ہی قرآن میں ایسی قراء ات موجود ہیں۔ ائمہ قراء کے اختیارات میں اس امر کا بھی مشاہدہ ہوتا ہے کہ ایک امام حروفِ قرآنیہ میں کسی حرف کو ہر مقام پر ایک طریقہ سے پڑھتا ہے، یہاں تک کہ وہ ایک اُصول بن جاتا ہے۔ پھر بعض مقامات پر وہ اس کے علاوہ کسی اورطریقہ سے اسی لفظ کو ادا کرتا ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ دراصل ان کے پیش نظر روایت کا اتباع ہے، مثلاً امام ابو جعفررحمہ اللہ پورے قرآن میں کلمہ’یَحْزُن‘یاء کے فتحہ اور زاء کے ضمہ کے ساتھ پڑھتے ہیں، لیکن ایک مقام پر سورۂ انبیاء میں ’یُحْزِنْکَ‘ کے ضمہ اورزاء کے کسرہ کے ساتھ پڑھتے ہیں۔
امام نافع رحمہ اللہ، جو کہ امام ابو جعفررحمہ اللہ کے شاگرد ہیں، اس کے برعکس پڑھتے ہیں ۔ امام حفص رحمہ اللہ قرآن میں ایک مقام’’مَجْرٰیہا‘‘ (ہود:۴۱)کے علاوہ کسی جگہ اِمالہ نہیں کرتے۔ اسی طرح وہ ہمزہ کی تسہیل نہیں کرتے مگر کلمات: ’’ئَ اَعْجَمِیٌّ‘‘ (حم السجدۃ:۴۴) ، ’’ئَ اَلئٰنَ‘‘(یونس :۵۱)، ’’ئَ اَﷲُ‘‘( یونس:۵۹)، ’’ئَ اَلذَّکَرَیْنِ‘‘(الانعام :۱۴۳) میں دوسرے ہمزہ کی تسہیل کرتے ہیں۔یہ مثالیں واضح کرتی ہیں کہ قراء ات میں قیاس اور اجتہاد کا کوئی اعتبار نہیں ہے
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قبائل کے لہجاتی اختلافات اورقراء ات کی حدود
اگر چہ یہ ایک حقیقت ہے کہ کسی بھی لغت میں مختلف قبائل کے صوتی اختلافات موجود ہوتے ہیں اور ان میں ارتقائی عمل بھی جاری رہتا ہے، مثلاًقرآن میں لغت ِقریش کے علاوہ لغات کی موجودگی کے بھی شواہد ملتے ہیں۔ اس لحاظ سے قرآن کے مشترکہ لہجہ میں قریشی لہجہ کے غالب عنصر ہونے کے ساتھ ساتھ دیگر قبائل کے بھی لہجات موجود ہیں، لیکن لہجات کا یہ اختلاف اصل لفظ کے جوہر میں اختلاف پیدا نہیں کرتا۔
یوہان فک لکھتا ہے کہ
’’لغت ِقرآن اور لغت ِعرب یعنی بدوی قبائل کے لہجات کے مابین اس طرح کے فروق نہیں پائے جاتے، جو الفاظ وحروف کے اصل جوہر کو ختم کر دیں۔‘‘
اس کے باوجود انسانی لغات میں یہ امر بھی فطری ہے کہ ان کے مابین اختلافِ لہجات ہو، چنانچہ مصر ،نجد،حجاز،عراق اوریمن کے لوگوں کے لہجات میں آج بھی واضح اختلافات موجودہیں۔ بعض لہجات میں ارتقاء بھی پیدا ہوا ہے، بعض قبائل ’ثا‘کو ’تا‘ یا ’سین‘ کے ساتھ تبدیل کر دیتے ہیں اورکچھ ’قاف ‘ کو ’جیم‘ کے ساتھ پڑھتے ہیں۔ وغیرہ وغیرہ
اس ارتقاء اور متعدد تبدیلیوں کا تقاضا یہ تھا کہ’’إنَّ اﷲَ لَا یَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ‘‘(النساء:۴۰)میں(متآل) یا (مسآل)یا(مِسْجَال ذرۃ) پڑھاجاتا۔ اسی طرح ’’فَإِنْ لَّمْ یَکُنْ لَہُ وَلَدٌ وَوَرِثَہُ أبَوَاہُ فَلِاُمِّہِ الثُّلُثُ‘‘ (النساء:۱۱) کو ’’فان لم یکن لو ولد وورسہ أبویہ فلامِّ التلت‘‘پڑھاجاتا۔اگر ایسا ہوتا تولوگ قرآن کریم کو اپنے لہجات میں ڈھال لیتے اور اپنی خواہش کو اس میں داخل کردیتے، جیسا کہ طہ حسین کا گمان ہے،لیکن چونکہ قراء ات کی حقیقت نقل وروایت ہے، خواہ اُصول ہوں یا فروش، ان میں قطعاً لہجات کا کوئی دخل نہیں۔
اللہ تعالی کی طرف سے عطاکردہ سہولت اورلہجات کا لحاظ انتہائی حکمت پر مبنی تھا، مگر جب لغت قریش تمام علاقوں میں غالب آگئی اورلہجات کی کلفت دورہوگئی توصرف عرضۂ اخیرہ میں قائم رہنے والے چند لہجات کو باقی رکھا گیا اور بقیہ منسوخ ہوگئے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ثبوتِ قراء ات میں حدیث کی اہمیت
ڈاکٹرطہ حسین نے قراء ات کے تواتر اوراس کے وحی و منزل من اللہ ہونے کا انکار کیا ہے۔ وہ قراء ات کے ثبوت میں حدیث کو شک کی نگاہ سے دیکھتا ہے، حالانکہ حدیث ِنبوی ہی اس بات کی طرف راہنمائی کرتی ہے کہ یہ کلامِ الٰہی ہے اور اسکے علاوہ ہمارے پاس کوئی ذریعہ نہیں کہ ہم وحی پریقین کریں۔
 
Top