• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قراء ات قرآنیہ اور مسلم تجدِّدین

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ڈاکٹر جواد علی
ڈاکٹرجواد علی کا شمار دورِ جدید کے ماہرینِ لغت واَدب میں ہوتا ہے۔ انہوں نے اپنے مقالہ میں قراء ات کے اختلاف کو تواتر اورنقل کی بجائے قلم کا کرشمہ قرار دیا ہے ۔لکھتے ہیں:
’’مسائل ظہرت بعد نزول الوحی من خاصیۃ القلم الذی دون بہ القرآن الکریم فرسم أکثر حروف ہذا القلم متشابہ والممیز فیہا ہو النقط،وقد ظہر النقط بعد نزول الوحی بعمد، ثم إن ہذا القلم کان خالیا فی بادی أمرہ من الحرکات وخلو الکلم من الحرکات یحدث مشکلات عدیدۃ فی الضبط من حیث اخراج الکلمۃ‘‘
’’ نزولِ وحی کے بعد قرآن کریم کی تدوین میں قلم کی وجہ سے کئی مسائل ظاہر ہوئے۔ اکثر حروف کا رسم لکھنے میں ایک دوسرے سے مشابہ تھا اور صرف نقاط سے ہی ان کی تمیز ہوتی تھی جبکہ نقطے نزولِ وحی کے کچھ عرصہ بعد ظاہر ہوئے ،پھر یہ لکھے ہوئے حروف حرکات سے بھی خالی تھے جس کی وجہ سے کلمات کو ضبط کرنے میں متعدد مشکلات سامنے آئیں۔خصوصاً کسی کلمہ کی ادائیگی انہی وجوہات سے متاثر ہوئی‘‘۔
ڈاکٹرجواد علی کے اس نظریہ میں بنیادی کردار گولڈزیہرکی فکر کا ہے، چنانچہ خود جواد علی نے اپنے نظریہ کے اثبات میں بعینہٖ وہی مثالیں پیش کی ہیں، جو گولڈزیہر نے اپنی کتاب ’مذاہب التفسیر الاسلامی‘ میں اس حوالہ سے ذکر کی ہیں، لہٰذا جواد علی کی رائے دراصل گولڈزیہر اورنولڈکے کی آراء کا خلاصہ ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
علامہ تمناعمادی
ہندوستان میں فتنۂ انکارِ حدیث کی اشاعت میں علامہ تمنا عمادی کانام معروف ہے ۔ اس نے قرآنی قراء ات اورحدیث سبعہ احرف کو وضعی قرار دیتے ہوئے قراء ات کے امام عاصم کوفی رحمہ اللہ کو شیعہ ثابت کیا ہے۔ اس حوالہ سے اس کی کتاب ’اعجازالقرآن واختلافِ قراء ات‘خاص طور پرقابل ِذکر ہے۔ اس نے تدوین ِقرآن کے متعلق بخاری ومسلم کی روایات کوافسانہ قرار دیا ہے اور قراء ات کو مستشرقین کے نظریات کے مطابق نتیجہ قلم قرار دیا ہے۔ اس کے نزدیک اختلافِ قراء ات کوفہ کے ملاحدہ کی گھڑی ہوئی ہیں۔ ملاحدئہ کوفہ نے مراکز میں اپنے ایجنٹ مقرر کر دئیے تھے اور وہ خود ساختہ اختلافِ قراء ات کو خود ساختہ اسنا دکے ساتھ مراکز میں بھیج دیتے تھے۔
تمنا عمادی نے حدیث سبعہ احرف کو بھی موضوع قرار دیا ہے۔ امام نافع رحمہ اللہ کو مدینہ میں کوفیوں کا ایجنٹ اوران کی قراء ت کی سنیت کو مخدوش کہا ہے۔اس کے نزدیک ابن جریر طبری رحمہ اللہ کے قول پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جمع قرآن میں صرف لغتِ قریش کو باقی رکھ کر بقیہ چھ لغات کو ختم کر دیا تھا، تواب موجودہ قراء ات کہاں سے پیدا ہوگئیں؟ نیز تمنا عمادی علیہ ما علیہ نے ساتوں ائمہ قراء پر بلا دلیل نقد وطعن اورشبہات واعتراضات ذکر کیے ہیں،جن کا حقائق ودلائل سے قطعاً کوئی واسطہ نہیں۔ تمنا عمادی کی مذکورہ تصنیف کا تفصیلی محققانہ جواب شیخ القراء قاری طاہر رحیمی پانی پتی رحمہ اللہ نے ۹۰۰؍ صفحات پرمشتمل کتاب’دفاعِ قراء ات‘میں دیا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مولاناامین احسن اصلاحی
مولانا امین احسن اصلاحی کا شمار برصغیر میں علم وتحقیق، خصوصاً تفسیر قرآن کے حوالہ سے خاص شہرت، کے حامل افراد میں ہوتا ہے۔ ان کی تفسیر ’تدبرقرآن‘ قرآنی آیات میں ربط بیان کرنے اور لغت ِعرب سے اس کے مفاہیم بیان کرنے میں اپنی مثال آپ ہے۔ تاہم علومِ قرآنیہ، مثلاً قراء ات میں ان کی فکر چند ایسے نظریات منصہ شہود پر لائی ہے، جو علم وروایت سے کسی قسم کا تعلق نہیں رکھتے۔ وہ حفص عن عاصم کی قراء ات کے علاوہ قرآن کریم کی جملہ متواتر قراء ات کا انکار کرتے ہیں۔ امین احسن اصلاحی صاحب کہتے ہیں:
’’غورکرنے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ قراء ات کا اختلاف دراصل قراء ات کا اختلاف نہیں بلکہ اکثر وبیشتر تاویل کا اختلاف ہے۔ کسی صاحبِ تاویل نے ایک لفظ کی تاویل کسی دوسرے لفظ سے کی اور اس کو قراء ت کااختلاف سمجھ لیا گیا حالانکہ وہ قراء ا توں کا اختلا ف نہیں بلکہ تاویل کا اختلاف ہے ۔ مثلاً سورئہ ِتحریم میں بعض لوگوں نے ’فقد زاعت‘بھی پڑھا ،صاف معلوم ہوتا ہے کہ جس نے بھی یہ پڑھا ہے اس نے یہ قراء ت نہیں بتائی بلکہ اپنے نزدیک اس نے ’فقد صغت‘ کی تاویل کی ہے، لیکن لوگوں نے اس کو بھی قراء ت سمجھ لیا‘‘۔
قراء ت کے حوالہ سے ’فکر اصلاحی‘ کی مزید وضاحت اور اس پر نقد وتبصرہ کرتے ہوئے شیخ القراء قاری محمد ابراہیم میرمحمدی حفظہ اللہ لکھتے ہیں کہ
’’امین احسن اصلاحی کے نزدیک قراء تِ حفص ہی وہ واحد متواتر قراء تِ قرآنی ہے جو درست ہے اوربقیہ قراء ات ائمہ قراء کی مفتریات ہیں۔‘‘
ہماری رائے میں اصلاحی صاحب نے فن قراء ت کو بطور فن تفصیل سے نہیں دیکھا اور نہ اس کی حقیقت کو صحیح طور پر سمجھا ہے اور اس کی دلیل یہ بھی ہے کہ وہ قراء ت اور روایت کے درمیان فرق کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں اور وہ ’’قراء تِ حفص‘‘ کے الفاظ استعمال کرتے ہیں، حالانکہ اختلاف کی نسبت اگر امام کی طرف ہو تو’قراء ت‘ ،راوی کی طرف ہو تو ’روایت‘ کہلائی جاتی ہے۔ امام عاصم رحمہ اللہ کی طرف اضافت ونسبت کر کے ’قراء ت‘ کہیں گے، جبکہ شعبہ رحمہ اللہ اورحفص رحمہ اللہ ، جو امام عاصم رحمہ اللہ کے دو راوی یعنی شاگر دہیں،کی طرف نسبت ہو تو’ روایت‘ کہلائے گی، چنانچہ انہیں ’روایت ِحفص‘ یا ’روایت ِشعبہ‘کہیں گے۔
اِصلاحی صاحب کے نزدیک اختلافِ قراء ات کے مسئلہ پر لوگوں نے صحیح نہج پر غورنہیں کیا، جس کی وجہ سے غلط فہمیاں پیدا ہوئیں، لہٰذا قراء ات سات نہیں اور نہ ہی اس کا ثبوت ملتا ہے اور یہ کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے قراء ات کے اختلاف کو ختم کر دیا تھا۔اصلاحی صاحب کا یہ قول قطعی طور پر غیر حقیقی ہے، جس میں وہ امت کے محققین قراء کو اختلافِ قراء ات کے متفقہ مسئلہ پر صحیح نہج پر غور کرنے میں ناکام قرار دے رہے ہیں۔ اسی طرح یہ جملہ کہ ’’حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے قراء ات کے اختلاف کو ختم کردیا تھا‘‘ بھی قابل غور ہے، کیونکہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے رسم کا امتیازی وصف ہی یہی تھا کہ متواتر قراء ات اس میں سما جائیں اور انہی مصاحف کی بنیاد پر متواتر قراء ات محفوظ ہوگئیں۔ ’فکر اصلاحی‘ کے حاملین بشمول غامدی صاحب کے قرا ء ات کے بارے میں مولانا اصلاحی کے نقطہ نظر پر ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اس ضمن میں راقم کی رائے یہ ہے کہ تمام اہل ِعلم اس اُصول کو ہمیشہ سامنے رکھیں کہ جو افراد کسی مخصوص فن پر بغیر تخصص اور مہارت کے رائے زنی کریں، ان کو علمی حوالوں سے بحث و تمحیص کے قابل سمجھنے کی بجائے ان کے نظریات کو یہ کہ کرخوب رد کیا جائے کہ یہ رائے ماہرین کی نہیں ہے۔
واضح رہے کہ تمام علماء اور ماہرینِ فن کا اس بات پر اتفاق ہے کہ متواتر قراء ات میں سے کسی ایک کا انکار بھی جائز نہیں ہے، چنانچہ ابن عطیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
’’ومضت الاعصار والامصار علی قراء ات الائمۃ السبعۃ بل العشرۃ، وبہا یصلی لانہا ثبتت بالاجماع‘‘
’’مدتوں سے ممالک میں انہی ائمہ سبعہ وعشرہ کی قراء ات کی جارہی ہے، انہی کو نماز میں پڑھا جاتا ہے کیونکہ یہ اجماع سے ثابت ہیں۔‘‘
علامہ ابن سبکی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’ القراء ات السبعۃ التی اقتصر علیہا الشاطبی،والثلاث التی ہی قراء ۃ أبی جعفر وقراء ۃ یعقوب،وقراء ۃ خلف متواترۃ معلومۃ من الدین بالضرورۃ،وکل حرف انفرد بہ واحد من العشرۃ معلومۃ من الدین بالضرورۃ أنہ منزل علی رسول اﷲﷺ،لا یکابر فی شیء من ذلک الا جاہل‘‘
الغرض علمائِ امت کا ہر دور میں اس بات پر اجماع منقول ہے کہ قراء ات ِسبعہ وعشرہ ضروریاتِ دین میں سے ہیں اورکسی مسلمان کیلئے یہ جائز نہیں کہ ان میں سے کسی ایک قراء ت کا بھی انکار کرے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
حوالہ جات
(١) فقہ اللُّغۃ ا زڈاکٹر علی عبد الواحد وافی،ص۱۱۹
(٢) فقہ اللُّغۃ ا زڈاکٹر علی عبد الواحد وافی ،ص۲۵۴،۲۷۰
(٣) فی الأدب الجاہلي ازطہ حسین،ص۹۵،۹۶
(٤) ایضا،ص۹۸
(٥) ایضا،ص۹۸،۹۹
(٦) صفحات فی علوم القراء ات از السندی ،ص۱۴۳،۱۴۴
(٧) القراء ات:تاریخ وتعریف از ڈاکٹر عبدالہادی الفضلی، ص۸۵
(٨) اتحاف فضلاء البشر ازالدمیاطی البناء،ص۳۵۸
(٩) اتحاف فضلاء البشر ازالدمیاطی البناء ،ص۲۷۳
(١٠) السبعۃ فی القراء ات ازابن مجاہد،ص۴۲۴
(١١) السبعۃازابن مجاہد ،ص۳۲۵
(١٢) ابوعمرو،عاصم،حمزہ،کسائی اور خلف نے ’عبٰدَ‘باء کے الف اور دال کے رفع کے ساتھ پڑھا ہے جبکہ باقی قراء نے ’عند‘ نون ساکنہ اور دال کے فتحہ کے ساتھ بغیرالف کے پڑھا ہے۔(اتحاف،۳۸۵)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(١٣) المرشد الوجیز ازابوشامہ المقدسی،ص۱۶۶
(١٤) صفحات فی علوم القراء ات ازالسندی،ص۱۴۵
(١٥) المرشد الوجیزازابوشامہ المقدسی، ص۱۶۶
(١٦) مجلہ کلیۃ القرآن الکریم،المدینۃ المنورۃ ،العدد الاول،۱۴۰۲ھ،ص۱۳۷
(١٧) قرآن کی لغات پر متعدد کتب لکھی گئیں جن میں ان لغات کے اندر مفردات اوراصوات کے فروق بھی ذکر کیے گئے ۔ اس حوالہ سے فراء ،اصمعی،ابو زید انصاری،حیثم بن عدی،محمد بن یحییٰ القطیعی اورابن درید کی لغات القرآن کے موضوع پر تصنیفات موجود ہیں۔دیکھئے: الفہرست لابن ندیم،ص۳۵…امام سیوطی(م۹۱۰ھ)نے الاتقان میں ایک مستقل فصل قائم کی ہے جس میں اہلِ حجاز کی لغت کے علاوہ دیگر لغات کا تذکرہ کیا ہے ۔ابن الجوزی نے بھی فنون الافنان میں اس کے متعلق تفصیلات ذکر کی ہیں۔ابن حسنون کی روایت سے ابن عباس کی طرف منسوب ایک باقاعدہ کتاب ذکر کی گئی ہے جو ڈاکٹر صلاح الدین المنجدکی تحقیق سے شائع ہوئی اس کتاب کا نام ’اللغات فی القرآن‘ ہے اور یہ دارالکتاب الجدیدبیروت لبنان سے ۱۹۷۲ء میں دوسری مرتبہ شائع ہوئی ہے۔اس کا پہلا طبع مطبع الرسالۃ قاہر ہ میں ۱۹۴۶ء میں منظر عام پر آیا۔
(١٨) العربیۃ دراسات فی اللغۃ واللہجات والاسالیب ازیوہان فک،ص۴
(١٩) تفصیل کے لیے دیکھیے فقہ اللغۃ ا زڈاکٹر علی عبد الواحد وافی،ص۲۶۴تا۳۰۰
(٢٠) المصحف المرتَّل ازلبیب السعید،،ص۱۵۴
(٢١) سنت کی اہمیت مصطفی السباعی کی کتاب’السنۃ ومکانتہا فی التشریع الاسلامی‘،عبدالحلیم محمود کی ’السنۃ فی مکانتہا وفی تاریخہا‘،محمد الحافظ التجانی کی کتاب’سنۃ رسولﷺ‘‘اورسید سلیمان ندوی کی کتاب’تحقیق معنی السنۃ وبیان الحاجۃ إلیہا‘ملاحظہ ہوں۔
(٢٢) جوادعلی،لہجۃالقرآن الکریم ،بحث فی مجلۃ المجمع العلمی العراقی،المجلۃ الثالث،الجزء الثانی، ص۸۹۔بحوالہ: لبیب السعید، المصحف المرتل،ص۱۵۹
(٢٣) دیکھئے:مذاہب التفسیر الاسلامی ،ص۸
واضح رہے کہ نولڈکے مستشرقین کے طبقہ میں قرآن کریم پر علمی اعتراضات کے حوالہ سے بنیادی مواد فراہم کرتا ہے چنانچہ گولڈزیہر نے بھی اس کو اپنے نظریات کا پیش رَو قرار دیتے ہوئے اس کو عظیم راہنما ’زعیمنا الکبیر‘ کے لقب سے ذکرکیا ہے۔
(٢٤) اعجاز القرآن واختلافِ قراء ات ازتمنا عمادی،ص۶۵۴
(٢٥) ایضا،ص۶۶۱
(٢٦) دفاعِ قراء ات ازطاہر رحیمی مدنی
(٢٧) امین احسن اصلاحی،تدبر ،فروری ۱۹۸۳ء
(٢٨) مکانۃ القراء ات عند المسلمین ازابراہیم میر محمدی،ص۴۲
(٢٩) تحفۂ اصلاحی ازڈاکٹر عبدالواحد ،ص۳۲
(٣٠) ایضا ،ص۳۳و۳۴ ملخصاً۔ جاوید احمد غامدی نے بھی اپنے استاذ کی اتباع میں اسی باطل نظریہ کو اختیار کیا ہے۔ تفصیلات کیلئے :ڈاکٹر عبدالواحد کی کتاب ’تحفۂ غامدی‘ص۱۳ تا ۱۷دیکھئے
(٣١) القراء ات فی نظر المستشرقین والملحدین از الشیخ عبدالفتاح القاضی،ص۹۳
(٣٢) منجد المقرئین ازابن الجزری،ص۵۱
 
Top