ساجد
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 6,602
- ری ایکشن اسکور
- 9,379
- پوائنٹ
- 635
ڈاکٹر جواد علی
ڈاکٹرجواد علی کا شمار دورِ جدید کے ماہرینِ لغت واَدب میں ہوتا ہے۔ انہوں نے اپنے مقالہ میں قراء ات کے اختلاف کو تواتر اورنقل کی بجائے قلم کا کرشمہ قرار دیا ہے ۔لکھتے ہیں:
’’مسائل ظہرت بعد نزول الوحی من خاصیۃ القلم الذی دون بہ القرآن الکریم فرسم أکثر حروف ہذا القلم متشابہ والممیز فیہا ہو النقط،وقد ظہر النقط بعد نزول الوحی بعمد، ثم إن ہذا القلم کان خالیا فی بادی أمرہ من الحرکات وخلو الکلم من الحرکات یحدث مشکلات عدیدۃ فی الضبط من حیث اخراج الکلمۃ‘‘
’’ نزولِ وحی کے بعد قرآن کریم کی تدوین میں قلم کی وجہ سے کئی مسائل ظاہر ہوئے۔ اکثر حروف کا رسم لکھنے میں ایک دوسرے سے مشابہ تھا اور صرف نقاط سے ہی ان کی تمیز ہوتی تھی جبکہ نقطے نزولِ وحی کے کچھ عرصہ بعد ظاہر ہوئے ،پھر یہ لکھے ہوئے حروف حرکات سے بھی خالی تھے جس کی وجہ سے کلمات کو ضبط کرنے میں متعدد مشکلات سامنے آئیں۔خصوصاً کسی کلمہ کی ادائیگی انہی وجوہات سے متاثر ہوئی‘‘۔
ڈاکٹرجواد علی کے اس نظریہ میں بنیادی کردار گولڈزیہرکی فکر کا ہے، چنانچہ خود جواد علی نے اپنے نظریہ کے اثبات میں بعینہٖ وہی مثالیں پیش کی ہیں، جو گولڈزیہر نے اپنی کتاب ’مذاہب التفسیر الاسلامی‘ میں اس حوالہ سے ذکر کی ہیں، لہٰذا جواد علی کی رائے دراصل گولڈزیہر اورنولڈکے کی آراء کا خلاصہ ہے۔
ڈاکٹرجواد علی کا شمار دورِ جدید کے ماہرینِ لغت واَدب میں ہوتا ہے۔ انہوں نے اپنے مقالہ میں قراء ات کے اختلاف کو تواتر اورنقل کی بجائے قلم کا کرشمہ قرار دیا ہے ۔لکھتے ہیں:
’’مسائل ظہرت بعد نزول الوحی من خاصیۃ القلم الذی دون بہ القرآن الکریم فرسم أکثر حروف ہذا القلم متشابہ والممیز فیہا ہو النقط،وقد ظہر النقط بعد نزول الوحی بعمد، ثم إن ہذا القلم کان خالیا فی بادی أمرہ من الحرکات وخلو الکلم من الحرکات یحدث مشکلات عدیدۃ فی الضبط من حیث اخراج الکلمۃ‘‘
’’ نزولِ وحی کے بعد قرآن کریم کی تدوین میں قلم کی وجہ سے کئی مسائل ظاہر ہوئے۔ اکثر حروف کا رسم لکھنے میں ایک دوسرے سے مشابہ تھا اور صرف نقاط سے ہی ان کی تمیز ہوتی تھی جبکہ نقطے نزولِ وحی کے کچھ عرصہ بعد ظاہر ہوئے ،پھر یہ لکھے ہوئے حروف حرکات سے بھی خالی تھے جس کی وجہ سے کلمات کو ضبط کرنے میں متعدد مشکلات سامنے آئیں۔خصوصاً کسی کلمہ کی ادائیگی انہی وجوہات سے متاثر ہوئی‘‘۔
ڈاکٹرجواد علی کے اس نظریہ میں بنیادی کردار گولڈزیہرکی فکر کا ہے، چنانچہ خود جواد علی نے اپنے نظریہ کے اثبات میں بعینہٖ وہی مثالیں پیش کی ہیں، جو گولڈزیہر نے اپنی کتاب ’مذاہب التفسیر الاسلامی‘ میں اس حوالہ سے ذکر کی ہیں، لہٰذا جواد علی کی رائے دراصل گولڈزیہر اورنولڈکے کی آراء کا خلاصہ ہے۔