ساجد
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 6,602
- ری ایکشن اسکور
- 9,379
- پوائنٹ
- 635
امام بیضاوی رحمہ اللہ اس آیت کی وضاحت میں لکھتے ہیں:
’’اللہ رب العزت جسے منسوخ کرنا صحیح سمجھتے ہیں اسے منسوخ کردیتے ہیں اورجس کا اس کی حکمت تقاضا کرتی ہے کہ اسے باقی رکھا جائے اسے باقی رکھتے ہیں۔‘‘(تفسیرالبیضاوي : ۳؍۳۳۴ )
اور امام شوکانی رحمہ اللہ نے لکھا ہے:
’’اللہ تعالیٰ قرآن میں سے جس حکم کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں اسے منسوخ کردیتے ہیں اور جس کو ثابت رکھنا چاہتے ہیں اس کو منسوخ نہیں کرتے۔‘‘ (فتح القدیر:۳؍۸۹)
معلوم ہوا کہ آیت مذکورہ بھی نسخ قرآن کی دلیل ہے۔
ان تین آیات کو نقل کرنے کے بعد ابوعبید قاسم بن سلام الھروی لکھتے ہیں:
’’وفھم الصحابۃ الذین عاصروا التنزیل تلک النصوص المتضمنۃ للنسخ ‘‘ (الناسخ والمنسوخ فی القرآن العزیز، ص۷۳)
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جو نزول قرآن کے وقت موجود تھے، نے یہی سمجھا کہ یہ آیات نسخ کو متضمن ہیں۔
معلوم ہوا صحابہ کرام نسخ قرآن کے قائل تھے۔ اگر کوئی یہ عقیدہ رکھے کہ نسخ قرآن غلط ہے تو اس کا یہ عقیدہ صحابہ کے عقیدہ کے خلاف ہے۔
(٤) ’’سَنُقْرِئُکَ فَلَا تَنْسَی اِلَّا مَا شَآئَ اﷲُ‘‘
علامہ آلوسی رحمہ اللہ نے ’روح المعانی‘ میں قتادہ رحمہ اللہ اور حسن رحمہ اللہ سے روایت کیا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ جب کسی حکم کو منسوخ کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں تواس آیت کا حکم اور تلاوت اٹھا لیتے ہیں (منسوخ کردیتے ہیں) اوراس آیت کے ضمن میں صاحب ِکشاف کے حوالہ سے بھی یہی بات نقل کی ہے(۱۸؍۱۲۱)نیزاس آیت سے علامہ قرطبی رحمہ اللہ نے بھی نسخ ہی مراد لیا ہے۔(تفسیر قرطبی:۲۰؍۱۹)
معلوم ہوا یہ آیت بھی نسخ پر دلالت کرتی ہے۔
جواز نسخ کے دیگر عقلی و نقلی دلائل اصول کی کتابوں میں موجود ہیں۔چونکہ یہ ہمارا اصل موضوع نہیں اس لئے اختصار سے دلائل نقل کردیئے ہیں۔
’’اللہ رب العزت جسے منسوخ کرنا صحیح سمجھتے ہیں اسے منسوخ کردیتے ہیں اورجس کا اس کی حکمت تقاضا کرتی ہے کہ اسے باقی رکھا جائے اسے باقی رکھتے ہیں۔‘‘(تفسیرالبیضاوي : ۳؍۳۳۴ )
اور امام شوکانی رحمہ اللہ نے لکھا ہے:
’’اللہ تعالیٰ قرآن میں سے جس حکم کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں اسے منسوخ کردیتے ہیں اور جس کو ثابت رکھنا چاہتے ہیں اس کو منسوخ نہیں کرتے۔‘‘ (فتح القدیر:۳؍۸۹)
معلوم ہوا کہ آیت مذکورہ بھی نسخ قرآن کی دلیل ہے۔
ان تین آیات کو نقل کرنے کے بعد ابوعبید قاسم بن سلام الھروی لکھتے ہیں:
’’وفھم الصحابۃ الذین عاصروا التنزیل تلک النصوص المتضمنۃ للنسخ ‘‘ (الناسخ والمنسوخ فی القرآن العزیز، ص۷۳)
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جو نزول قرآن کے وقت موجود تھے، نے یہی سمجھا کہ یہ آیات نسخ کو متضمن ہیں۔
معلوم ہوا صحابہ کرام نسخ قرآن کے قائل تھے۔ اگر کوئی یہ عقیدہ رکھے کہ نسخ قرآن غلط ہے تو اس کا یہ عقیدہ صحابہ کے عقیدہ کے خلاف ہے۔
(٤) ’’سَنُقْرِئُکَ فَلَا تَنْسَی اِلَّا مَا شَآئَ اﷲُ‘‘
علامہ آلوسی رحمہ اللہ نے ’روح المعانی‘ میں قتادہ رحمہ اللہ اور حسن رحمہ اللہ سے روایت کیا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ جب کسی حکم کو منسوخ کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں تواس آیت کا حکم اور تلاوت اٹھا لیتے ہیں (منسوخ کردیتے ہیں) اوراس آیت کے ضمن میں صاحب ِکشاف کے حوالہ سے بھی یہی بات نقل کی ہے(۱۸؍۱۲۱)نیزاس آیت سے علامہ قرطبی رحمہ اللہ نے بھی نسخ ہی مراد لیا ہے۔(تفسیر قرطبی:۲۰؍۱۹)
معلوم ہوا یہ آیت بھی نسخ پر دلالت کرتی ہے۔
جواز نسخ کے دیگر عقلی و نقلی دلائل اصول کی کتابوں میں موجود ہیں۔چونکہ یہ ہمارا اصل موضوع نہیں اس لئے اختصار سے دلائل نقل کردیئے ہیں۔