• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قراء ات متواترہ اورادارہ طلوع اسلام

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
امام بیضاوی رحمہ اللہ اس آیت کی وضاحت میں لکھتے ہیں:
’’اللہ رب العزت جسے منسوخ کرنا صحیح سمجھتے ہیں اسے منسوخ کردیتے ہیں اورجس کا اس کی حکمت تقاضا کرتی ہے کہ اسے باقی رکھا جائے اسے باقی رکھتے ہیں۔‘‘(تفسیرالبیضاوي : ۳؍۳۳۴ )
اور امام شوکانی رحمہ اللہ نے لکھا ہے:
’’اللہ تعالیٰ قرآن میں سے جس حکم کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں اسے منسوخ کردیتے ہیں اور جس کو ثابت رکھنا چاہتے ہیں اس کو منسوخ نہیں کرتے۔‘‘ (فتح القدیر:۳؍۸۹)
معلوم ہوا کہ آیت مذکورہ بھی نسخ قرآن کی دلیل ہے۔
ان تین آیات کو نقل کرنے کے بعد ابوعبید قاسم بن سلام الھروی لکھتے ہیں:
’’وفھم الصحابۃ الذین عاصروا التنزیل تلک النصوص المتضمنۃ للنسخ ‘‘ (الناسخ والمنسوخ فی القرآن العزیز، ص۷۳)
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جو نزول قرآن کے وقت موجود تھے، نے یہی سمجھا کہ یہ آیات نسخ کو متضمن ہیں۔
معلوم ہوا صحابہ کرام نسخ قرآن کے قائل تھے۔ اگر کوئی یہ عقیدہ رکھے کہ نسخ قرآن غلط ہے تو اس کا یہ عقیدہ صحابہ کے عقیدہ کے خلاف ہے۔
(٤) ’’سَنُقْرِئُکَ فَلَا تَنْسَی اِلَّا مَا شَآئَ اﷲُ‘‘
علامہ آلوسی رحمہ اللہ نے ’روح المعانی‘ میں قتادہ رحمہ اللہ اور حسن رحمہ اللہ سے روایت کیا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ جب کسی حکم کو منسوخ کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں تواس آیت کا حکم اور تلاوت اٹھا لیتے ہیں (منسوخ کردیتے ہیں) اوراس آیت کے ضمن میں صاحب ِکشاف کے حوالہ سے بھی یہی بات نقل کی ہے(۱۸؍۱۲۱)نیزاس آیت سے علامہ قرطبی رحمہ اللہ نے بھی نسخ ہی مراد لیا ہے۔(تفسیر قرطبی:۲۰؍۱۹)
معلوم ہوا یہ آیت بھی نسخ پر دلالت کرتی ہے۔
جواز نسخ کے دیگر عقلی و نقلی دلائل اصول کی کتابوں میں موجود ہیں۔چونکہ یہ ہمارا اصل موضوع نہیں اس لئے اختصار سے دلائل نقل کردیئے ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
مانعین کے دلائل
(١) ’’مَا نَنْسَخْ مِنْ آیَۃٍ… الایۃ‘‘ اس آیت سے استدلال اس طرح کیا جاتا ہے (جو کہ باطل ہے) کہ اس آیت میں نسخ کی بات ماقبل شریعت کی ہو رہی ہے نہ کہ شریعت اسلامیہ کی اور اس معنی کو حاصل کرنے کے لئے قرآن مجید میں معنوی تحریف کرنے سے بھی گریز نہ کیا گیا جیسا کہ غلام احمد پرویز نے قرآنی فیصلے ص۲۳۷ میں ’سابقہ‘ اور ’جدید نبی کی وساطت سے‘ کے خود ساختہ اضافے کئے ہیں۔
اس آیت سے ماقبل شریعتوں کو اس شریعت کے ساتھ نسخ کے لیے خاص کرنا ٹھیک نہیں کیونکہ اس شریعت میں بھی نسخ واقع ہوا ہے جیساکہ تحویل قبلہ، وصیت، عدت اور دیگر احکامات میں حکم سابق کو حکم ثانی سے منسوخ کیاگیا ہے۔ امام ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔ اس آیت میں ان (مانعین) کے لئے کوئی دلیل نہیں ہے کیونکہ قرآن کا بعض حصہ اس کے بعض حصص سے بہتر اور باعث خیر ہے لہٰذا اس آیت’’ نَأتِ بِخَیْرٍ مِّنْھَا اَوْ مِثْلِھَا‘‘کے معنی یہ ہوئے کہ ہم تمہارے لئے اس سے بہتر یا اس کے مثل چیز یا حکم لاتے ہیں اور بلا شبہ ناسخ پر عمل کرنا منسوخ پر عمل کرنے سے زیادہ بہتر ہے کیونکہ ناسخ پر عمل کا اجر تنسیخ سے قبل منسوخ پراجر کے مثل ہی ہوتا ہے بلکہ ہوسکتا ہے اس سے بڑھ کر ہو۔ (احکام فی اصول الاحکام لابن حزم :۴؍۱۳+۱۱۲)
معلوم ہوا کہ اس آیت سے عدم نسخ کی دلیل لینا ٹھیک نہیں۔ حافظ ابن کثیررحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’بعض لوگ جو اس میں لفظی بحث میں پڑ جاتے ہیں وہ یاد رکھیں کہ اس سے دلالت نہیں بدلتی اور مقصود وہی رہتا ہے۔‘‘ (ابن کثیر:۱؍۱۸۰)
اور ابومسلم اصفہانی کی بابت لکھا ہے کہ اس کا یہ قول کہ( قرآن میں نسخ واقع نہیں ہوتا) ضعیف، غلط اور جھوٹ ہے۔ (أیضاً: ۱؍۱۸۱)
(٢)جناب نبی کریمﷺنے فرمایا:
(قَال کَلَامِیْ لَا یَنْسَخُ کَلَامَ اﷲِ وَکَلَامُ اﷲِ یَنْسَخُ کَلَامِیْ وَکَلَامُ اﷲِ یَنْسَخُ بَعْضَہُ بَعْضًا) (سنن دارقطنی:۱؍۱۱۷)
’’ میرا کلام کلام اللہ کو منسوخ نہیں کرتا اور اللہ کا کلام میرے کلام اوراپنے بعض حصہ کو منسوخ کرتا ہے۔‘‘
جواب: اولاً تو یہ حدیث ضعیف ہے اس حدیث کو ابن عدی نے الکامل فی ضعفاء الرجال:۲؍۶۰۲ میں روایت کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ روایت منکر ہے۔ ابن جوزی نے العلل المتناھیۃ:۱؍۱۲۵ میں اس حدیث کے متعلق لکھا ہے : ’’ھذا حدیث منکر‘‘ اس حدیث کے منکر ہونے کی وجہ اس کی سند میں جبرون بن واقد ہے جسے امام ذہبی رحمہ اللہ اور ابن حجررحمہ اللہ نے (لسان المیزان:۲؍۹۴)میں متّہم اور ساقط الاعتبار کہا ہے۔ لہٰذا اس حدیث سے دلیل لینا کہ سنت قرآن کی ناسخ نہیں ہوسکتی صحیح نہیں ہے۔
اگریہ کہا جائے کہ قرآن منسوخ نہیں ہوا بلکہ وہ ایک حکم کی تفسیر ہوتا تھا یا ایک قراء ت اصل تھی باقی اس کی تفسیر تھیں۔ تو ہم یہ سوال کریں گے کہ بیت المقدس کا قبلہ ہونا، بنو نضیر کے درختوں کا کاٹنا، رسول اللہﷺ کا اپنی بیوی سے راز کی بات کرنا، اللہ کا اس پر متنبہ کرنا، قرآن کی کس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت یا اس حکم کی فلاں آیت یا فلاں حکم نے تفسیر کردی ہے؟ثانیا یہ روایت عدم نسخ پر نہیں بلکہ نسخ پر دلالت کرتی ہے۔وینسخ بعضہ بعضا
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
مسئلہ نسخ اور حد رجم
موصوف نے اپنے مضمون کے پہلے حصہ میں اپنی توجہ کا مرکز حد رجم کو بنایاہے اور اس سے ماقبل ایک خاص تمہید مقرر کرتے ہوئے حد رجم کا انکار کیاہے۔ حالانکہ موطأ میں حضرت عمررضی اللہ عنہ کا طویل خطبہ درج ہے جس میں انہوں نے اس بات کا اظہار کیاہے کہ بعدمیں کوئی یہ کہہ کر حد رجم کا انکار کردے کہ میں اس کو قرآن میں نہیں پاتا۔ (موطأ إمام مالک:۲؍۸۲)
موصوف مضمون نگار کو اس بابت یہ اعتراض ہے کہ آیت منسوخ ہے تو اس کا حکم کیسے باقی ہے۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس حکم کو باقی رکھنے کا ذریعہ یہ آیت نہیں بلکہ رسول اللہﷺ سے منقول متواتر اَحادیث ہیں۔مثلاً حدیث غامدیہ، حدیث عسیف وغیرہ ۔
اور امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اس حدیث کی طرف اشارہ کیا ہے۔(صحیح البخاري: ۶۸۹۲) معلوم ہوا حد رجم ثابت شدہ ہے اور اس کا انکار قرآن وسنت کے انکار کے مترادف ہے۔چلئے فرض کیجئے ہم ناسخ منسوخ کو نہیں مانتے تو پھر مندرجہ ذیل سوالات کا جواب کیا ہے؟
(١) سَنُقْرِئُکَ فَلَا تَنْسَی إلَّا مَاشَائَ اﷲُ کا کیا مطلب ہے؟
(٢) قرآن نے جہاں عورتوں کے لئے حبس دوام کی سزا سنائی وہاں أوْ یَجْعَلَ اﷲُ لَھُنَّ سَبِیْلاً کہا ہے۔ کیااللہ نے یہ وعدہ پورا فرمایا، یا اسی حکم کو باقی رکھا؟
(٣) آیت وصیت اور آیت وراثت میں کیا تطبیق ہوگی؟
(٤) پہلے حکم تھا ایک مسلمان ۱۰ کافروں کے مقابلے میں لڑے، پھر ایک مسلمان دو کے مقابلہ میں لڑے کیا دونوں آیات قرآن میں موجود نہیں؟
(٥) پہلے نبیﷺ سے سرگوشی کرنے سے پہلے صدقہ ضروری تھا بعد میں منع کردیا گیا،ان کے متعلق آپ کیا کہیں گے۔ہم جواب کے منتظر رہیں گے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
مضمون نگار کے مضمون کا دوسرا بنیادی اعتراض
موصوف سبعہ احرف کے معنی کے حوالہ سے رقم طراز ہیں:
’’اختلاف قراء ات سے مراد یہ ہے کہ قرآن کو سات مختلف لہجوں میں پڑھا جاسکتا ہے اور یہ صرف لب و لہجہ کا فرق ہے۔ (اور اس کے بعد اس بات کو بڑھاتے ہوئے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ہمارے سوالات کا مسؤول کے پاس جواب نہ تھا۔ مزید یہ کہ کسی اور پروفیسر کے کہنے پر معارف القرآن کی پہلی جلد میں جو معلومات اس حوالہ سے تھیں ان کا مطالعہ کیا۔ انہیں مطالعے کے بعد یہ نتیجہ حاصل ہوا کہ مفتی شفیع صاحب اور دوسرے شخص جن سے ان کی بات ہوئی دونوں حضرات اختلاف قراء ات کے قائل تھے۔)‘‘
اس کے بعد موصوف لکھتے ہیں کہ’’ پورے قرآن میں اختلاف قراء ت کے حوالے سے کوئی اشارہ بھی نہیں ملتا۔‘‘ اُصولی بات یہ ہے کہ اگر آپ کسی بھی علم کے بارہ میں کوئی تحقیق وغیرہ کرنا چاہتے ہیں اس کی اصل معلوم کرنا چاہتے ہیں تو آپ کے لئے ضروری ہے کہ آپ اس علم میں مہارت رکھنے والے افراد سے بالمشافہ علم حاصل کریں یا ان کی لکھی ہوئی کتب کی طرف رجوع کریں۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ کی خواہش تو ریاضی اور انگلش وغیرہ کے سیکھنے کی ہو، لیکن آپ اس معاملہ میں کتب اکنامکس یا اردو کے ماہرین کی پڑھیں۔ ظاہر ہے وہ آپ کو اس معاملہ میں اس طرح گائیڈ نہیں کرسکیں گے۔بالکل اسی طرح اگر آپ کی یہ خواہش اور تمنا ہو کہ علوم قراء ات کے متعلق کچھ سمجھیں تو ماہرین قراء ات کی طرف رجوع اوران کی کتب سے استفادہ کرنا ضروری ہے۔ اگر کوئی دوسرا راستہ اختیار کیا جائے گا تو نتیجہ وہی نکلے گا جو موصوف نے اخذ کیا اور ضلُّوا فأضلُّوا کی تصویر نظر آئے۔
موصوف نے کوشش یہ کی کہ اختلاف قراء ت کا نام لے کر قراء ات متواترہ ثابتہ غیر منسوخہ کے متعلق پرویزی عقائد کی ترویج خاص میں اپنا حصہ ڈالیں تو جو تاثر انہوں نے مذکورہ بالا عبارت سے دیناچاہا وہ یہ ہے کہ اختلاف قراء ت والی بات سے مراد محض لب و لہجہ کا اختلا ف ہے۔ پھر فرماتے ہیں کہ اس اختلاف کا ذکر قرآن میں نہیں ہے۔ذیل میں ہم ماہرین فن کی آراء سے مسئلہ کی وضاحت کرتے ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
اَحرف کا معنی
ہم ماہرین قراء ت کی رائے میں دیکھتے ہیں کہ سبعہ احرف کا معنی و مفہوم کیا ہے۔
(١) احرف، حرف کی جمع ہے جس کا معنی ، کنارہ اور حافہ وغیرہ کے ہیں اور حروف تہجی کو اس لئے حرف کہتے ہیں کہ وہ اپنے مسمی کی ایک طرف یا جانب واقع ہوتے ہیں۔بعض اوقات حرف، قراء ت کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔
امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ نے الاتقان کے صفحہ ۹۲ تا ۹۷ میں سبعہ احرف کے متعلق ۴۰ اَقوال نقل کئے ہیں، لیکن ان کے نقل کرنے کے بعد لکھا کہ ابن حبان رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ وہ ایک دوسرے کے مشابہ ہیں اور محاسبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ان اَقوال کے ناقلین کے بارہ میں مجھے علم نہیں اور بعض اَقوال ایسے ہیں کہ جو بالکل حقیقت کے خلاف ہیں اور اکثر اقوال حدیث عمر و ہشام کے خلاف ہیں۔ (الاتقان:۱؍۱۰۰)
جب ہم ان اقوال کوبغور دیکھتے ہیں تو انہیں تین اقسام میں منقسم کرسکتے ہیں جو کہ مندرجہ ذیل ہیں:
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
پہلا قول:اس سے مراد احکام و مضامین ہیں، لیکن یہ قول معتبر نہیں کیونکہ اصحاب رسول کا جو اختلاف رونما ہوا تھا وہ طریقہ ادائیگی میں تھا نہ کہ احکام و مضامین کی تفصیل اور وضاحت میں۔ جیسا کہ حدیث ابی رضی اللہ عنہ میں ہے ’’قرء علی قرأۃ ‘‘ اس نے ایسی قراء ت پڑھی جو میرے علم میں نہ تھی۔… الخ (صحیح البخاري:۲؍۷۴۷) اور اگر طبرانی والی روایت سامنے رکھی جائے جس میں ہے کہ سات دروازوں سے سات حروف پر نازل ہوا ہے اس کے حلال کو حلال جانو…الخ تو اس حدیث کی سندمیں ابوسلمہ ہیں جن کا ابن مسعود سے لقاء ثابت نہیں ہے جس کی وجہ سے یہ روایت ضعیف ہے اور دوسرا یہ کہ اس حدیث کو اگر صحیح بھی مانا جائے تو اس میں وضاحت ابواب کی ہے نہ کہ احرف کی، کیونکہ دوسری احادیث اس پر دلالت کرتی ہیں۔ (تفسیر ابن جریر طبري:۱؍۱۵)
دوسرا قول: سبعہ احرف سے مراد لغات ہیں، لیکن یہ قول اس وجہ سے صحیح نہیں کہ حدیث عمر و ہشام کے مخالف ہے کیونکہ دونوں ایک ہی قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے، لیکن ان کی قراء ت مختلف تھی۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
تیسرا قول:یہ قول امام جزری رحمہ اللہ وغیرہ کا ہے۔ فرماتے ہیں کہ میں نے ۳۰ سال تک شاذو متواتر روایات کامطالعہ کیا تو معلوم ہوا کہ سبعہ احرف سے مراد سات قسم کا اختلاف ہے اور میرا یہ قول انشاء اللہ ٹھیک ہوگا پھر فرماتے ہیں کہ ہم نے ابو الفضل امام رازی رحمہ اللہ کی تحقیق دیکھی جو ہماری اس تحقیق کے مشابہ یا ا س سے بھی اچھی تھی جوکہ مندرجہ ذیل ہے:
(١) اسماء کا اختلاف: جس میں واحد، تثنیہ، جمع، تذکیر و تانیث دونوں کا اختلاف داخل ہے۔ مثلاً وتمت کلمت ربک اور دوسری قراء ت کلمات ربک
(٢) افعال کا اختلاف: یعنی ماضی ، مضارع اور امر کااختلاف مثلاً ربنا باعد بین أسفارنا اور ربنا بعّدَ بین أسفارنا
(٣) وجوہ اعراب کا اختلاف: یعنی اعراب کا حرکات میں مختلف ہونا۔ مثلاً لَا یُضَارّ کَاتِبٌ اور دوسری قرا ء ت وَلَایُضَارُ کاتب
(٤) الفاظ کی کمی بیشی کا اختلاف:مثلاً تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْأَنْہَار اور تَجْرِیْ تَحْتَھَا الْأَنْہَار
(٥) تقدیم و تاخیر: مثلاً یَقْتُلُوْنَ وَیُقْتَلُوْنَ کو یُقْتَلُوْنَ وَیَقْتُلُوْنَ پڑھا گیا ہے۔
(٦) لہجات کا اختلاف جس میں تفخیم ترقیق، امالہ، مد، قصر، اظہار وغیرہ داخل ہیں۔
(٧) ابدال کا اختلاف یعنی ایک کلمہ کی جگہ دوسرا کلمہ بدل دینا۔ ھُوَالَّذِیْ یُسَیِّرُکُمْ ۔۔۔ ھُوَ الَّذِیْ یَنْشُرُکُمْ
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
امام مالک، ابن تیمیہ، قاضی ابوطیب اور امام جزری رحمہم اللہ کا کچھ فرق کے ساتھ یہی قول اور موقف ہے اور سبعہ احرف کی یہی راجح ترین شرح ہے ۔رہی یہ بات کہ قرآن میں اس اختلاف قراء ت کا اشارہ نہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ اگر قرآن(روایت حفص) کو بغورپڑھا جائے تو اس میں اختلاف قراء ت کی طرف اشارہ موجود ہے۔
(١) ئَ أَعْجَمِیٌّ کی تسھیل جب کہ باقی پورے قرآن میں ھمزتین میں تحقیق ہے۔
(٢) ئَ الذَّکَرَیْنِ، ئَ الْئٰنَ، ئَ اﷲُ کے کلمات میں تسھیل و ابدال
(٣) ضَعْفٍ، بفتح الضاد وبضم الضاد، مصیطرون بالصاد اور بالسین
(٤) فِیْہِ مُھَانًا میں صلہ باقی ہر جگہ عدم صلہ
(٥) مجریھا میں امالہ باقی تمام ایسے کلمات پر فتحہ
(٦) اَنُلْزِمُکُمُوْھَا کی میم جمع میں صلہ جبکہ باقی میمات میں عدم صلہ
(٧) بِئْسَ الاِسْمُ الْفُسُوْقُ میں نقل باقی ہر جگہ عدم نقل۔
(٨) تَجْرِیْ تَحْتَھَا الاَنْٰھُر جبکہ باقی ہر جگہ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الاَنْھٰرُ
(٩) دو جگہ وَذَلِکَ ھُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ جبکہ بعض ذَلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ اور بعض جگہ وَذَلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ
اور مزید یہ کہ ہر ہر حکم کی ہر ہر کلی اور جزئی کا قرآن میں موجود ہونا ضروری بھی نہیں۔ مثال کے طور پربھانجی ،خالہ اور پھوپھی ، بھتیجی کو بیک وقت نکاح میں نہیں رکھ سکتے یہ حکم قرآن میں نہیں ہے۔ لیکن حدیث میں اس کی وضاحت موجود ہے۔ نماز ، حج اور دیگر احکام شریعہ کی ادائیگی کا اشارہ تک قرآن میں موجود نہیں کہ اس طرح ادا کرو اس وقت اور اتنی مقدار میں کرو تو کیا ان تمام چیزوں کو بھی خارج از دین سمجھاجائے اگر ان کو دین ماننے میں کوئی تامل نہیں تو حدیث سبعہ کا ہی انکار کیوں؟
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
درایت حدیث سبعہ
پھر موصوف آیات VS روایات کے تحت حدیث سبعہ کے متعلق اپنے شکوک و شبہات کا اظہار فرماتے ہیں۔ لکھتے ہیں:
’’ہمارے علماء چونکہ متداول، طرق واَسانید سے ہمیشہ Confuseکرتے آئے ہیں۔لہٰذا یہاں بھی انہیں بعض روایتوں کی وجہ سے ہزاروں تاویلیں کرنی پڑی ہیں اسی سلسلے میں روایات تو متعدد ہیں تاہم بخاری شریف کی ایک روایت جسے اس سلسلے میں Qvotoکیا جاتا ہے۔ ‘‘
حدیث عمرو ہشام نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں۔
اس لئے یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ وہ (عمررضی اللہ عنہ) آیات قرآنی سے ناواقف ہوں۔ چلئے مان لیا قبول اسلام سے پہلے وہ اختلاف قراء ت ایسی جزئیات سے آگاہ نہیں ہوں گے لیکن آپ کے قبول اِیمان کے چھ برس بعدسورہ فرقان نازل ہوتی ہے اس وقت تک جناب عمررضی اللہ عنہ جیسا بالغ نظر، باریک بین اور جہاندیدہ شخص اس حقیقت سے بے خبر رہے کہ قرآن سات مختلف قراء توں میں نازل ہورہا ہے۔
جب ہم اس حدیث پر غور کریں تو ہمارے سامنے مندرجہ ذیل باتیں آتی ہیں:
(١) قراء ا ت ایک سے زائد ہیں۔
(٢)منزل من اﷲ ہیں۔
(٣) حرف اور قراء ت ایک معنی میں استعما ل ہوا ہے۔
(٤) ایک قبیلہ ہونے کے باوجود قراء ت مختلف تھی۔
(٥) اختلاف کی صورت میں علم تک رسائی ضرور ی ہے۔
مذکورہ بالا اقتباس میں موصوف نے یہ کہا کہ وہ آیات قرآنی سے ناواقف ہوں۔ حالانکہ حضرت عمررضی اللہ عنہ آیات قرآنی سے واقفیت کا علم دے رہے ہیں تبھی تو فرمایا تھا کہ سورہ فرقان اس اس طرح پڑھ رہے تھے اوردوسرا یہ کہ حدیث سے ہی یہ بات سمجھ آتی ہے کہ ہر ہر قراء ت میں ہرہر آدمی کا پڑھنا لازمی اور فرض نہیں ہاں اس کو بطور قرآن ماننا یہ تو بہرحال ضروری ہے، کیونکہ نبیﷺ نے فیصلہ فرماتے وقت فرمایا تھا: ھکذا أنزلت یعنی ہر دو کی قرا ء ت کو درست قرار دیا۔ اور مزید یہ بھی فرمایا کہ سات طریقوں میں سے جو بھی معلوم (میسر) ہو اس کے مطابق تلاوت کرنا ٹھیک ہے۔ دوسری بات یہ کہ جب ذخیرہ احادیث کا مطالعہ کیا جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ کئی باتوں سے کئی صحابہ واقف نہ تھے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
مزید یہ کہ بسا اوقات کوئی بات انسان کے علم میں ہوتی ہے لیکن وقتی طور پر وہ اس کے ذہن سے محو ہوجاتی ہے کسی کے یاد کرانے سے وہ بات دوبارہ ذہن میں آجاتی ہے۔مثال کے طور پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک رات آپﷺ نے ایک آدمی کی قراء ت مسجد سے سنی تو فرمایا اس شخص کا اللہ بھلا کرے جس نے مجھے فلاں آیت یاد دلا دی جو مجھے فلاں فلاں سورت سے بھلا دی گئی تھی۔(صحیح البخاري:۲؍۷۵۳) اور اسی طرح نبیﷺ کی وفات کے موقع پر بھی یہ معاملہ ہمارے سامنے ہے۔ (صحیح البخاري:۲؍۶۴۰) واقعہ یہ ہے کہ وفات نبیﷺ کے وقت حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ مقام سنح پر تشریف فرما تھے، واپسی پر آپ کی وفات کا علم ہوا۔مسجد میں یہ صورتِ حال تھی کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم شدت غم سے نڈھال تھے۔ عمررضی اللہ عنہ تو اس وقت فرطِ جذبات میں فرمانے لگے جو کوئی یہ کہے کہ محمدﷺ وفات پاگئے ہیں،میں اس کا سرقلم کردوں گا۔ جس پر حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ منبر پر تشریف لائے خطبہ ارشاد فرمایا۔ جو کوئی اللہ کی عبادت کرتاتھا تو اللہ زندہ ہے اسے کبھی موت لاحق ہو نہیں ہوگی اور جو کوئی محمدﷺ کی عبادت کرتا تھا تو محمدﷺ یقینا وفات پاچکے ہیں اور بطور دلیل قرآن مجیدکی آیت ’’وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ۔۔۔ الآیۃ‘‘کہ’’ محمد تو اللہ کے رسول تھے آپ سے پہلے بھی کئی رسول ہوگزرے ہیں۔اگر آپﷺ فوت ہوجائیں یا قتل کردیئے جائیں تو کیا تم اپنی ایڑیوں کے بل پھر جاؤ گے۔(دین کو چھوڑ دو گے) اور جو کوئی اپنی اِیڑیوں کے بل پھرے گا تووہ اللہ کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔‘‘
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جب ابوبکررضی اللہ عنہ نے یہ آیات تلاوت کیں تو یوں محسوس ہورہا تھا جیسے ابھی نازل ہورہی تھیں۔ جب رسول اللہﷺ کی وفات ہوئی ابوبکررضی اللہ عنہ کے علاوہ کسی کو یہ آیت کریمہ یاد نہ تھی کیا عمررضی اللہ عنہ اور دیگر کئی صحابہ رضی اللہ عنہم قرآن کے حافظ نہ تھے۔ یقینا تھے لیکن وقتی طور پر یہ آیت ان کے اَذہان سے غائب تھی یعنی ان کی توجہ اس طرف نہ گئی اور جب ان کی توجہ اس طرف مبذول کرائی گئی تو فوراً بات ان کے ذہن نشین ہوگئی۔ہوسکتا ہے کہ اس مخاصمہ کے وقت حضرت عمررضی اللہ عنہ کے ذہن میں یہ بات نہ ہو اور جب رسول اللہﷺ نے یاد کروائی تو فوراً سرتسلیم خم کردیا۔ ہم پھر اس بات کو دہرائیں گے کہ اس وقت صحابہ میں عمررضی اللہ عنہ جیسے بالغ نظر ،باریک بین اور جہاندیدہ حضرات موجود تھے، لیکن وقتی طور پر ایسی صورت بنی تو کیا ہم اس صورت کوبے خبری سے جوڑیں یا پھر…
 
Top